• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دم،تعویذ گنڈوں کے بارے میں شرعی احکام'

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
آپ اس کو صرف غیر مسنون کہہ سکتے ہیں شرک نہیں کہہ سکتے کیوں کہ قرآنی تعویذ کو شرک کہنے کے لیے دلیل درکا ر ہے
ایسی چیزیں جن کے ذریے الله کا قرب حاصل کیا جائے جن کی دلیل نا قرآن میں موجود ہو او نا صحیح احادیث نبوی سے ثابت ہو - وہ شرک کے زمرے میں ہی آئیں گی - مشرکین مکّہ اپنے بتوں کو خدا نہیں کہتے تھے بلکہ ان کے ذریے الله کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرتے تھے - جیسا کے الله کا قرآن میں ارشاد ہے -

وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّهِ زُلْفَىٰ إِنَّ اللَّهَ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ فِي مَا هُمْ فِيهِ يَخْتَلِفُونَ ۗ سوره الزمر ٣
نہوں نے اس کے سوا اور کارساز بنا لیے ہیں (کہتے ہیں) ہم ان کی عبادت تو نہیں کرتے مگر اس لیے کہ وہ ہمیں الله سے قریب کر دیں بے شک الله ان کے درمیان ان باتوں میں فیصلہ کرے گا جن میں وہ اختلاف کرتےتھے -


اور الله کا یہ بھی ارشاد ہے :

وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ سوره یوسف ١٠٦
اوران میں سے اکثر ایسے بھی ہیں جو الله پر ایمان لاتے ہیں اس حال میں کہ اس کے ساتھ شرک بھی کرتے ہیں -


لوگ تعویذ گنڈوں کو شرک نہیں سمجھتے جب کہ الله کے نبی صل الله علیہ وسلم نے تو ریا (یعنی کسی دکھاوے کے نیک عمل کو بھی شرک قرار دیا ) اگرچہ یہ شرک اصغر میں شمار ہوتا ہے لیکن ہے شرک تو پھر تعویذ گنڈے چاہے قرانی ہوں یا غیر قرانی کیا شرک کے زمرے میں نہیں آئیں گے ؟؟؟
ہاں البتہ وہ دم درود جو سنّت نبوی صل الله علیہ وسلم سے ثابت ہو وہ ہو یقینن شرک کے زمرے میں نہیں آے گا.بلکہ اس میں امّت کے لئے خیر ہی ہے -

اور یہ بھی مشہور ہے کہ حضرت عمر رضی الله عنہ حجر اسود کو بوسہ دیتے ہوے فرماتے تھے کہ "اے حجر اسود میں تجھ کو صرف اس لئے بوسہ دیتا ہوں کہ میں نے اپنے نبی کریم کو تجھے بوسہ دیتے دیکھا - ورنہ میں تیرے اندر کسی خیر یا شرکی صلاحیت نہیں پاتا" -(واللہ عالم)
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,101
ری ایکشن اسکور
1,462
پوائنٹ
344
میرے بھائی تمیمہ کا معنی اچھی طرح دیکھ لین

اللہ سے در جاؤ ےیار آ پ کیا کہہ رہے ہو ؟
قرآنی تعویز کو غیر مسنون کہہ سکتے ہو شرک ن
ہیں

ہمیں صرف دَم پر اکتفا کرنا چاہیے۔ اگر غور کیاجائے تو یہی بات درست معلوم ہوتی ہے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دَم پر اکتفا کیا ہے تو ہمیں بھی اسی پر اکتفا کرنا چاہیے۔ لیکن کوئی توحید والا شخص اگر قرآنی تعویذ اللہ کے اسماء و صفات پر مشتمل تعویذ لکھتا ہے۔ تو بے شک اس کا ہمارے ساتھ سوچ میں اختلاف ہے ، مگر اسے نہ مشرک کہہ سکتے ہیں ، نہ اس کے پیچھے نماز چھوڑی جا سکتی ہے۔ اختلاف سلف صالحین رحمة اللہ علیہم میں بھی ہوتا تھا مگر ان میں سے کسی نے ایک دوسرے کے پیچھے نماز نہیں چھوڑی۔ ہم اپنے بھائیوں کو دلائل سے قائل کرنے کی پوری کوشش کریں گے ، مگر اجتہادی اختلافات کی بنا پر مسلمانوں کا اتفاق پارہ پارہ ہو، اس کی کسی صورت میں بھی اجازت نہیں دی جا سکتی۔

تعویذ خواہ قرآنی ہو خواہ حدیثی ہو خواہ غیر قرآنی وحدیثی ہو رسول اللہﷺسے ثابت نہیں۔ ہاں جو تعویذات کفریہ یا شرکیہ مواد پہ مشتمل ہیں وہ کفر وشرک کے زمرہ میں شامل ہیں۔

تعویذ خواہ قرآنی ہو خواہ حدیثی ہو خواہ غیر قرآنی وحدیثی ہو رسول اللہﷺسے ثابت نہیں۔ ہاں جو تعویذات کفریہ یا شرکیہ مواد پہ مشتمل ہیں وہ کفر وشرک کے زمرہ میں شامل ہیں۔
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,101
ری ایکشن اسکور
1,462
پوائنٹ
344
سوال:بعض صحابہ سے قرآنی تعویذ کا جواز نقل کیا گیا ہے اور ایک صحابی کے بارے میں ہے کہ وہ نابالغ بچوں کے گلے میں دعا لکھ کر لٹکا دیا کرتے تھے۔ صحابہ ؒکے یہ آثار صحیح ہیں یا ضعیف اورناقابل عمل؟

جواب:گلے میں تعویذ لٹکانے والا اثر حضرت عبداللہ بن عمرو ؓکی طرف منسوب ہے جو کہ صحیح ثابت نہیں ہے ،کیونکہ اس میں محمد بن اسحاق مدلس راوی ہے ،اس نے عنعنہ سے بیان کیا ہے۔ چنانچہ امام شوکانی ؒفرماتے ہیں:

«وقد ورد ما يدل علی عدم جواز تعليق التمائم فلا يقوم بقول عبد الله بن عمرو حجة» ''ایسی احادیث وارد ہیں جو تعویذات کے عدم جواز پر دلالت کرتی ہیں لہٰذا عبداللہ بن عمرو کا قول قابل حجت نہیں ہے۔''

اور امام ترمذی ؒکے قول حسن (غریب) میں بھی ضعف ِاسناد کی طرف اشارہ ہے۔

اس مسئلہ میں اگرچہ سلف کا اختلاف ہے ،تاہم ہمارے نزدیک راجح مسلک عدمِ جواز کا ہے،کیونکہ نبیﷺ سے بطورِ نص تعویذ لٹکانا ثابت نہیں۔

اہل علم کی تعریف کی روشنی میں معلوم ہوا کہ ہر وہ شے جسے کسی متوقع یا بالفعل واقع شر کے دفع کرنے کے لیے استعمال کیا جائے ، اور اس شر کے دفع کرنے میں اسے موٴثر سمجھا جائے وہ تمیمة کے حکم میں داخل ہے ، خواہ وہ دھاگے، کاغذات، لکڑی کی کھپچیاں، معادن (سونے ، چاندی، تانبے، پیتل، اور لوہے وغیرہ) یا گھوڑے کے نعل یا اس طرح کی کوئی بھی چیز ہو۔
تمیمہ (تعویذ)کا حکم:تعویذ کی دو قسمیں ہیں:
۱- وہ تعویذ جو قرآ نی آیات، ادعیہٴ ماثورہ کے علاوہ سے بنائی جائے۔
۲- وہ تعویذ جو قرآ نی آیات، اسماء وصفات الٰہی اورادعیہٴ ماثورہ سے بنائی جائے۔
پہلی قسم: غیرقرآن سے بنائی گئی تعویذ کا حکم
ایسی تعویذ لٹکانا بالاتفاق حرام ہے،اس کی دلیلیں کتاب وسنت میں بکثرت موجود ہیں:
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,101
ری ایکشن اسکور
1,462
پوائنٹ
344
دوسری قسم: قرآن کریم، اسماء وصفات الٰہی اور ادعیہ ماثورہ سے تعویذ لٹکانے کا حکم:
تعویذ کی اس قسم کے سلسلے میں سلف صالحین، صحابہ کرام ، تابعین عظام، وغیرہم کی دو رائیں ہیں:
۱- قرآن کریم اور احادیث نبویہ میں ثابت دعاوٴں کے ذریعے تعویذ لٹکانا حرام تعویذ کے حکم میں شامل نہیں ہے، بلکہ وہ جائز ہے، یہ رائے سعید بن المسیب ،عطاء، ابو جعفر باقر، امام مالک،امام قرطبی، علامہ ابن عبد البررحمہم ش وغیرہم کی ہے۔
۲- قرآن کریم اور ادعیہٴ ماثورہ سے بھی تعویذ لٹکانا جائز نہیں، یہ رائے حضرت ابن عباس ، ابن مسعود، حذیفہ، عقبہ بن عامر، ابن عکیمث، ابراہیم نخعی، ابن العربی ، امام محمد بن عبد الوہاب نجدی ، شیخ عبد الرحمن السعدی ،حافظ حکمی، شیخ محمد حامد الفقی، اور معاصرین میں سے محدث عصر علامہ البانی اور مفتی عصر علامہ ابن بازرحمہمش وغیرہم کی ہے۔
پہلی رائے کی دلیلیں حسب ذیل ہیں:
۱- فرمان باری:﴿وننزل من القرآن ما ھو شفاء ورحمة للموٴمنین﴾۔ ”اور ہم قرآن کریم میں ایسی چیزیں اتارتے ہیں جو مومنوں کے لیے شفااور رحمت ہیں“ (الاسراء:82)۔(اس آیت کریمہ میں قرآن کریم کو شفاکہا گیا ہے)
۲- حضرت اماں عائشہ رضی ش عنہانے فرمایا کہ: ”(تمیمہ) تعویذ اسے کہتے ہیں جسے کسی مصیبت کے لاحق ہونے سے پہلے لٹکایا جائے، نہ کہ اس کے بعد“ (البیہقی: 9/351)۔
۳- حضرت عبد اللہ بن عمر و ص کا عمل: آپ سے مروی ہے کہ آپ اپنے نابالغ بچوں کے گلے میں گھبراہٹ کی درج ذیل دعا لکھ کر لٹکایا کرتے تھے: ”بسم اللہ أعوذ بکلماتاللہ التامات …“ (احمد: 2/181۔ والترمذی:3528 وحسنہ)۔
دوسری رائے والوں نے ان دلائل کے جواب اس طرح دیئے ہیں:
۱- مذکورہ آیت کریمہ مجمل ہے، جس کی تفصیل احادیث رسول میں شرعی جھاڑ پھونک ،اورقرآن پڑھ کرمریض پر دم کرنے کی شکل میں موجودہے، جس میں تعویذ بنانے کا کہیں ذکر نہیں، اور نہ ہی صحابہ کرام ثسے اس کا کوئی ثبوت ملتا ہے۔
۲- حضرت اماں عائشہ رضی شعنہا کا یہ اثر مجمل ہے ، اور اس میں قرآن کو تعویذ بنا کر لٹکانے کا ذکر نہیں ہے، بلکہ اس میں صرف تمیمہ( تعویذ) کی ماہیت کا بیان ہے۔
۳- جہاں تک عبد اللہ بن عمروص کی روایت کا تعلق ہے تو وہ صحیح نہیں، کیونکہ محمد بن اسحاق نے جو کہ مدلس ہیں ، لفظ ”عن“ سے روایت کیا ہے، (صحیح سنن أبو داود للألبانی: 2/737۔ والسلسلة الصحیحة: 1/585)۔
نیز شیخ محمد حامد الفقی اس روایت پر تعلیقاً فرماتے ہیں: ” یہ روایت ضعیف ہے، مزید بر آنکہ اس سے مدعا ثابت بھی نہیں ہوتا ، کیونکہ روایت میں اس بات کا ذکر ہے کہ آپ مذکورہ دعا بڑے بچوں کو یاد کراتے تھے ، اور چھوٹے بچوں کے گلوں میں اسی غرض سے تختیوں پر لکھ کر لٹکا دیتے تھے، لہٰذا اس کا مقصدیاد کرانا تھانہ کہ تعویذ بنانا ، دوسری بات یہ ہے کہ تعویذ کاغذوں پر لکھی جاتی ہے نہ کہ تختیوں پر“(فتح المجید:142)۔
دوسری رائے کی دلیلیں حسب ذیل ہیں:
۱- تعویذ کی حرمت کی دلیلیں عام ہیں، (جیسا کہ سابقہ سطور میں گزرا) اور ایسی کوئی روایت نہیں ہے جس سے قرآنی تعویذوں کے جواز کی تخصیص ہوتی ہو۔
۲- اگر قرآنی تعویذیں لٹکانا جائز ہوتا تو رسول ش ﷺ نے اسے ضرور بیان کیا ہوتا ، جیسا کہ قرآنی آیات وغیرہ سے جھاڑ پھونک کے جواز کی وضاحت فرمائی ہے، بشرطیکہ شرکیات پر مشتمل نہ ہوں، ارشاد نبوی ﷺ ہے:”اعرضوا علي رقاکم، لا بأس بالرقیٰ مالم تکن شرکا“ ،”مجھ پر اپنے رقیے (دم کے الفاظ) پیش کرو، ایسے رقیوں میں کوئی حرج نہیں جو شرکیات پر مشتمل نہ ہوں“ (مسلم)۔
۳- صحابہ کرام ثکے اقوال تعویذوں کی حرمت کے سلسلے میں منقول ہیں، اور جن بعض صحابہ سے جواز کی بات منقول ہے وہ روایتیں صحیح نہیں ہیں، اور صحابہ رسول ش ﷺ کی سنت کو غیروں سے زیادہ جاننے والے تھے، اسی طرح تابعین کے اقوال بھی معروف ہیں، ابراہیم نخعی صحابہ کرام ثکے بارے میں فرماتے ہیں:”کانوا یکرہون التمائم کلہا من القرآن وغیر القرآن“، ”صحابہ قرآنی اور غیرقرآنی دونوں قسم کی تعویذوں کو ناپسند کرتے تھے“ (مصنف ابن ابی شیبہ: 7/374)۔
۴- شریعت اسلامیہ میں ذرائع کا سد باب ضروری ہے، تاکہ شرکیہ تعویذیں قرآنی تعویذوں سے گڈمڈ نہ ہوجائیں۔
۵- قرآنی تعویذوں کا لٹکانا قرآن کی بے ادبی اور اس کی حرمت کی پامالی کا سبب ہے ، مثلاً اسے لٹکاکر لیٹرن ، باتھ روم اور دیگر غیر مناسب جگہوں پر جانا، اسی طرح ہمبستری، حالت احتلام اور حیض ونفاس کی حالت میں اسے لٹکانا وغیرہ قرآن کی بے ادبی ہے اور یہ حرام ہے۔
۶- قرآنی تعویذوں کے جائز قرار دینے سے (جبکہ اس کا جواز وعدم جواز مشکوک ہے) قرآن کے شرعی علاج (دم وغیرہ)کوجو کہ جائز ہے معطل قرار دینا لازم آتا ہے۔
سلف صالحین حضرات صحابہ وتابعین ث، ائمہ و محدثین کرام اور دیگر اہل علم کی رائے کے مطابق یہی بات راجح اور صحیح بھی ہے کہ تعویذ خواہ قرآنی ہو یا غیر قرآنی اس کا لٹکانا حرام ہے جیسا کہ ہر دو فریق کے دلائل کا علمی جائزہ لینے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے۔
تعویذ ماضی اور حال کے آئینے میں:
عہد جاہلیت کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ تعویذ لٹکانا اور غیرش سے مدد طلبی کفار ومشرکین کا شیوہ وشعار تھا، ارشاد باری ہے:﴿وأنہ کان رجال من الانس یعوذون برجال من الجن فزادوہم رھقاً﴾ ،”اور انسانوں میں سے بعض لوگ جنوں میں سے بعض لوگوں کی پناہ لیتے تھے، تو اس سے ان لوگوں کی سر کشی میں اور اضافہ ہوگیا“(الجن:6)۔
غرض ان میں مختلف ناموں سے معروف کثرت سے تعویذوں کا رواج تھا، جنھیں وہ بچوں پر جن شیاطین، نظر بد وغیرہ سے حفاظت کے لیے، میاں بیوی میں محبت کے لیے ، اسی طرح اونٹوں، گھوڑوں، اور دیگر جانوروں پر نظر بدوغیرہ سے حفاظت کے لیے لٹکایا کرتے تھے، جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ انہی مقاصد کے لیے آج بھی بہت سارے مسلمان اپنی گاڑیوں کے آگے یا پیچھے جوتے یا چپل، آئینوں پر بعض دھاگے اور گنڈے لٹکاتے ہیں، اسی طرح بعض مسلمان اپنے گھروں اور دوکانوں کے دروازوں پر گھوڑے کے نعل وغیرہ لٹکاتے ہیں، یا مکانوں پر کالے کپڑے لہراتے ہیں،غور کریں کیا جاہلیت میں کیے جانے والے اعمال اورموجودہ مسلمانوں کے اعمال میں کوئی فرق ہے؟
اسی طرح بعض لوگ بالخصوص عورتیں نظر بد وغیرہ سے بچاوٴ کے لیے بچوں کے تکیے کے نیچے چھری ،لوہا، ہرن کی کھال ، خرگوش کی کھال، اور تعویذیں وغیرہ رکھتی ہیں یا دیواروں پر لٹکاتی ہیں، یہ ساری چیزیں زمانہ جاہلیت کی ہیں، جن سے اجتناب کرنا بے حد ضروری ہے، شگ ہمیں توفیق عطا فرمائے(آمین)۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
کیا تعویذ یا دم کیا ہوا دھاگا باندھنا جائز ہے ؟؟

تعویز یا دم کیا ہوا دھاگا باندھنا جائز ہے؟ دلیل سے وضاحت فرما دیں۔
کیا کسی حدیث یا اثر میں یہ ہے کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی نے تعویذ یا دم کیا ہوا دھاگا پہنا تھا اور ان کے شوہر نے اس دھاگے یا تعویذ کو شرک قرار دے کر کاٹ دیا ہو نیز کیاایسا کرنا جائز ہے؟ دلیل سے وضاحت فرما دیں۔ (ع ۔ ظ حافظ آباد )

الجواب بعون الوھاب

الحمد للہ والصلوۃ والسلام علی رسول اللہ اما بعد !

زمانۂ جاہلیت میں یہ رسم بد جار ی تھی کہ لوگ جانوروں کو نظر بد سے محفوظ رکھنے کے لیے ان کے گلے میں پرانی تانت ڈال دیتے تھے۔ آفات وبلیات سے بچنے اور محفوظ رہنے کے لیے مختلف اقسام کے ہار، رسیاں اور تانتیں استعمال کرتے اور خود بھی آفات و مصائب سے بچائو کی خاطر دھاگے اور گھونگے وغیرہ لٹکاتے تھے۔

ابو بشیر انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں:
(( أَنَّہٗ کَانَ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ بَعْضِ أَسْفَارِہٖ قَالَ عَبْدُاللّٰہِ حَسِبْتُ أَنَّہٗ قَالَ وَالنَّاسُ فِیْ مَبِیْتِہِمْ فَأَرْسَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَسُوْلاً لاَ تَبْقَیَنَّ فِیْ رَقَبَۃِ بَعِیْرٍ قِلاَدَۃٌ مِنْ وَتَرٍ اَوْ قَلاَدَۃٌ إِلاَّ قُطِعَتْ )) [بخاری، کتاب الجہاد والسیر، باب ما قیل فی الجرس ... الخ (۳۰۰۵)، صحیح مسلم (۲۱۱۵)]

''وہ ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ عبداللہ (بن ابو بکر بن حزم راوی حدیث) نے کہا میرا خیال ہے کہ ابو بشیر صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا لوگ اپنی خواب گاہوں میں تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قاصد بھیجا کہ اگر کسی اونٹ کی گردن میں کوئی تانت کا پٹا (گنڈا) ہو، یا یوں فرمایا کہ جو گنڈا (ہار، پٹا) ہو، اسے کاٹ دیاجائے۔''
امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

'' أَرَی ذٰلِکَ مِنَ الْعَیْنِ '' میں سمجھتا ہوں کہ لوگ نظر بد سے بچنے کے لیے جانوروں کے گلے میں تانت کا قلادہ لٹکاتے تھے۔ [الموطأ (ص ۷۱۳)]

امام ابن الجوزی نے بخاری کی شرح ''کشف المشکل (۴/۱۴۳)'' میں، علامہ طیبی نے ''الکاشف عن حقائق السنن (۸/۲۶۷۹)'' شرح مشکوٰۃ میں، ملا علی قاری نے ''مرقاۃ المفاتیح (۷/۴۴۷)'' میں شرح السنۃ کے حوالے سے، ابن الاثیر نے ''اسد الغابۃ'' میں، ابودائود نے ''السنن (۲۵۵۲)'' میں، امام مسلم نے صحیح مسلم (۲۱۱۵) میں اور ''الغریبین فی القرآن والحدیث (۶/۱۹۶۹)'' میں ابوعبیدہ الھروی نے امام مالک کا مذکورہ بالا قول نقل کیا ہے۔

امام بغوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

'' تَأَوَّلَ مَالِکُ بْنُ أَنَسٍ اَمَرَہٗ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِقَطْعِ الْقَلاَئِدِ عَلٰی أَنَّہٗ مِنْ اَجْلِ الْعَیْنِ وَ ذٰلِکَ أَنَّہُمْ کَانُوْا یَشُدُّوْنَ بِتِلْکَ الْأَوْتَارِ وَ الْقَلاَئِدِ وَ التَّمَائِمِ وَ یُعَلِّقُوْنَ عَلَیْہَا الْعَوْذَ یَظُنُّوْنَ اَنَّہَا تَعْصِیْمٌ مِنَ الْآفَاتِ فَنَہَاہُمُ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَ اَعْلَمَہُمْ أَنَّہَا لاَ تَرُدُّ مِنْ اَمْرِ اللّٰہِ شَیْئًا '' [شرح السنۃ (۱۱/۲۷)]

''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو قلادے کاٹنے کا حکم دیا امام مالک بن انس رحمہ اللہ نے اس کا مفہوم نظر بد سے بچائو کے لیے لٹکانا لیا ہے اور یہ اس وجہ سے ہے کہ لوگ یہ تانتیں، قلادے اور تمیمے باندھتے تھے اور یقین رکھتے تھے کہ یہ آفات و مصائب سے بچائو کے لیے ہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں ان سے منع کر دیا اور انھیں بتایا کہ یہ اللہ کے کسی بھی حکم کو ٹال نہیں سکتے۔''

لہٰذا نظر بد سے بچائو کے لیے جو دھاگے، گھونگے، تانت اور تعویذ وغیرہ لٹکائے جاتے ہیں انھیں کاٹ دینا چاہیے، کیونکہ اللہ کی تقدیر اور حکم سے کسی بھی چیز کو لٹانے اور رد کرنے کی ان میں ہمت نہیں ہے۔ تمیمہ وہی ہوتا ہے جو بلاء و مصیبت کے نزول سے پہلے لٹکایا جائے، تاکہ یہ تمیمے اور گھونگے ان کو ٹال سکیں اور بلاء و مصیبت کے بعد لٹکائے جانے والے تمیمہ شمار نہیں ہوتے۔

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
(( لَیْسَتِ التَّمِیْمَۃُ مَا تَعَلَّقَ بِہٖ بَعْدَ الْبَلاَئِ اِنَّمَا التَّمِیْمَۃُ مَا تَعَلَّقَ بِہٖ قَبْلَ الْبَلاَئِ )) [المستدرک للحاکم (۴/۲۱۷) و صححہ علی شرط الشیخین ]

''تمیمہ وہ نہیں جو بلاء کے بعد لٹکایا جائے، تمیمہ تو وہ ہے جو بلاء سے پہلے لٹکایا جائے۔''

رہا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہا کی بیوی کا قصہ، اسے قیس بن المسکن الاسدی یوں بیان کرتے ہیں:
(( دَخَلَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَلَی امْرَأَۃٍ فَرَاٰی عَلَیْہَا حِرْزًا مِنَ الْحُمْرَۃِ فَقَطَعَہٗ قَطْعًا عَنِیْفًا ثُمَّ قَالَ إِنَّ آلَ عَبْدِ اللّٰہِ عَنِ الشِّرْکِ اَغْنِیَائُ وَ قَالَ کَانَ مِمَّا حَفِظْنَا عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِنَّ الرُّقٰی وَ التَّمَائِمَ وَالتَّوْلِیَۃَ مِنَ الشِّرْکِ ))

[المستدرک علی الصحیحین (۴/۲۱۷،ح : ۷۵۸۰) اس حدیث کو امام حاکم اور امام ذھبی نے صحیح کہا ہے، علامہ البانی نے دونوں کی موافقت کی ہے۔ سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ (۱/۶۴۹) القسم الثانی]
''عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہا اپنی بیوی کے پاس آئے اور اس پر خسرہ سے بچائو کا تعویذ دیکھا تو اسے سختی سے کاٹ دیا، پھر فرمایا:
''یقینا عبداللہ کا خاندان شرک سے مستغنی ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے جو باتیں ہم نے یاد کی ہیں ان میں سے یہ بھی ہے کہ بے شک شرکیہ دم، گھونگے اور منکے وغیرہ اور محبت کے تعویذ شرک ہیں۔''
اس حدیث میں ''الرقی'' سے مراد شرکیہ دم یا ہروہ چیز ہے جس میں جنات سے پناہ مانگی جائے، یا ان الفاظ کا مفہوم سمجھ میں نہ آئے، یا غیر عربی زبان میں لکھے ہوئے تعویذ، جیسے ''یاکبیکج'' وغیرہ ہیں۔ [السلسلۃ الصحیحۃ (۱/۶۴۹، ۶۵۰)]

امام بغوی فرماتے ہیں:
'' وَالْمَنْہِیُ مِنَ الرُّقٰی مَا کَانَ فِیْہِ الشِّرْکُ اَوْ کَانَ یُذْکَرُ مَرَدَۃُ الشَّیَاطِیْنَ اَوْ مَا کَانَ مِنْہَا بِغَیْرِ لِسَانِ الْعَرَبِ وَلاَ یَدْرِیْ مَا ہُوَ وَ لَعَلَّہٗ یَدْخُلُہٗ سِحْرٌ اَوْ کُفْرٌ '' [شرح السنۃ (۱۲/۱۵۹)]

''ممنوع دم وہ ہے جس میں شرک ہو، یا جس میں سرکش جنات کا ذکر کیا گیا ہو، یا وہ عربی زبان کے علاوہ ہو اور اس کا مفہوم معلوم نہ ہو۔ شاید کہ اس میں جادو یا کفر داخل کیا گیا ہو اور جو دم قرآنی آیات اور اللہ عز و جل کے ذکر سے کیا جائے وہ جائز و مستحب ہے۔''
تمائم سے مراد وہ گھونگے اور موتی ہیں جنھیں عرب بچے کے سر پر نظر بد سے بچنے کے لیے لٹکاتے تھے، شریعت نے انھیں باطل قرار دیا ہے۔

امام بغوی فرماتے ہیں :
'' اَلتَّمَائِمُ جَمْعُ تَمِیْمَۃٍ وَ ہِیَ خَرَزَاتٌ کَانَتِ الْعَرَبُ تُعَلِّقُہَا عَلٰی اَوْلاَدِہِمْ یَتَّقُوْنَ بِہَا الْعَیْنَ بِزَعْمِہِمْ فَاَبْطَلَہَا الشَّرْعُ '' [شرح السنۃ (۱۲/۱۵۸)]

''تمائم، تمیمہ کی جمع ہے، اور یہ گھونگے ہیں جنھیں عرب اپنے گمان میں اپنی اولاد کو نظربد وغیرہ سے بچانے کے لیے پہناتے تھے، شریعت نے انھیں باطل قرار دیا ہے۔''
علامہ البانی فرماتے ہیں :
''اور اسی قسم سے بعض لوگوں کا گھر کے دروازے پر جوتا لٹکانا، یا مکان کے اگلے حصے پر، یا بعض ڈرائیوروں کا گاڑی کے آگے، یا پیچھے جوتے لٹکانا، یا گاڑی کے اگلے شیشے پر ڈرائیور کے سامنے نیلے رنگ کے منکے لٹکانا بھی ہے، یہ سب ان کے زعم باطل کے مطابق نظر بد سے بچائو کی وجہ سے ہے۔'' [السلسلۃ الصحیحۃ (۱/۶۵۰)]
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تمام امور کو شرک قرار دیا ہے، اس لیے کہ ان کا مشرکانہ عقیدہ تھا کہ یہ اللہ کی تقدیر کے خلاف مؤثر کردار ادا کرتے ہیں۔ بعض لوگ تعویذ لٹکانے کے جواز پر عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالی عنہما کی اس روایت سے استدلال کرتے ہیں جس میں ہے کہ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سمجھدار لڑکوں کو دعا
(( اَعُوْذُ بِکَلِمَاتِ اللّٰہِ التَّامَۃِ مِنْ غَضَبِہٖ وَ شَرِّ عِبَادِہٖ وَ مِنْ ہَمَزَاتِ الشَّیَاطِیْنَ وَ أَنْ یَحْضُرُوْنَ ))
سکھاتے تھے اور جو سمجھ نہیں رکھتے تھے ان کے گلے میں لٹکا دیتے تھے۔

[أبوداوٗد، کتاب الطب، باب کیف الرقی (۳۸۹۳)، ترمذی(۳۵۲۸)، ابن أبی شیبۃ (۸/۳۹، ۶۳۔۱۰/۳۶۴)، خلق أفعال العباد (۳۴۷)، الرد علی الجھمیۃ لعثمان بن سعید الدارمی (۳۱۴، ۳۱۵)، عمل الیوم واللیلۃ للنسائی (۷۶۵)، الأسماء والصفات للبیھقی (ص ۱۸۵، ۱۸۶)، الدعاء للطبرانی (۱۰۸۶)، عمل الیوم واللیلۃ لابن السنی (۷۵۳)، الآداب للبیھقی (۸۹۳،ص۲۷۰)، المسند الجامع (۱۱/۲۲۸) المستدرک للحاکم (۱/۵۴۸،ح : ۲۰۱۰)، العیال لابن أبی الدنیا (۲/۸۶۱، رقم ۶۵۶)، الدعوات الکبیر للبیھقی (۲/۳۱۶، رقم ۵۳۰)، معرفۃ الصحابۃ لأبی نعیم الأصبہانی (۴/۳۶۸) (۶۵۴۹) الغیلانیات (۶۰۱) (۲/۱۶۶)]

اس روایت کو امام ترمذی نے اپنی جامع میں اور ابن حجر نے ''نتائج الأفکار فی تخریج أحادیث الأذکار (۳/۱۱۸)'' میں حسن قرار دیا ہے۔ لیکن اس کی سند میں موجود محمد بن اسحاق گو ثقہ و صدوق ہے لیکن مدلس ہے اور روایت معنعن ہے اور مدلس کا عنعنہ مردود ہے، جب تک تصریح بالسماع یا کوئی صحیح و حسن متابعت نہ ملے۔

علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

'' لٰکِنِ ابْنُ اِسْحَاقَ مُدَلِّسٌ، وَ قَدْ عَنْعَنَہ فِیْ جَمِیْعِ الطُّرُقِ عَنْہُ، وَ ہٰذِہِ الزِّیَادَۃُ مُنْکَرَۃٌ عِنْدِیْ، لِتَفَرُّدِہٖ بِہَا، وَاللّٰہُ اَعْلَمُ '' [السلسلۃ الصحیحۃ (۱/۵۲۹)]

''لیکن ابن اسحاق مدلس ہے اور اس کے تمام طرق میں اس کا عنعنہ ہے اور میرے نزدیک یہ زیادت منکر ہے، اس لیے کہ ابن اسحاق اس کے بیان کرنے میں متفرد ہے۔''
یہ روایت اصل میں ابن عمرو کی موقوف کے علاوہ حسن ہے یعنی دعائیہ جملہ مرفوعہ حسن درجے تک پہنچ جاتا ہے اور اس کے شواہد بھی ہیں۔ علامہ البانی ایک اور مقام پر اس روایت کی سند کو ابن اسحاق کے عنعنہ کی وجہ سے غیر صحیح قرار دے کرلکھتے ہیں:

'' فَلاَ یَجُوْزُ الْاِحْتِجَاجُ بِہٖ عَلٰی جَوَازِ تَعْلِیْقِ التَّمَائِمِ مِنَ الْقُرْآنِ لِعَدْمِ ثُبُوْتِ ذٰلِکَ عَنِ ابْنِ عَمْرٍو لاَسِیَمَا وَہُوَ مَوْقُوْفٌ عَلَیْہِ فَلاَ حُجَّۃَ فِیْہِ '' [تعلیق علی کلم الطیب (ص ۴۵، رقم ۳۴)]

''اس سے قرآنی تعویذات لٹکانے کے جواز پر حجت پکڑنا جائز نہیں، اس لیے کہ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے یہ بات ثابت نہیں، خصوصاً جب یہ ان پر موقوف ہے، لہٰذا اس میں کوئی حجت نہیں ہے۔''

ابراہیم نخعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

'' کَانُوْا یَکْرَہُوْنَ التَّمَائِمَ کُلَّہَا مِنَ الْقُرْآنِ وَ غَیْرِہِ قَالَ وَ سَأَلْتُ اِبْرَاہِیْمَ فَقُلْتُ أُعَلِّقُ فِیْ عَضُدِیْ ہٰذِہِ الْآیَۃَ : {قلنا ينار كوني برداوسلما على ابراهيم} [الأنبیاء : 69] مِنْ حُمّٰی کَانَتْ بِیْ فَکَرِہَ ذٰلِکَ ''
[ فضائل القرآن لأبی عبید القاسم بن سلام الھروی (ص ۳۸۲)، ابن أبی شیبۃ (۵/۳۶) ط دارالتاج، بیروت ]

''صحابہ کرام تمام قرآنی و غیر قرآنی تعویذوں کو مکروہ سمجھتے تھے۔ مغیرہ بن مقسم الضبی کہتے ہیں میں نے ابراہیم نخعی سے سوال کیا کہ میں اپنے بازو میں بخار کی وجہ سے {قلنا ينار كوني برداوسلما على ابراهيم} آیت کا تعویذ باندھتا ہوں تو انھوں نے اسے ناپسند کیا۔''

حسن بصری رحمہ اللہ سے روایت ہے :
'' أَنَّہٗ کَانَ یَکْرَہُ اَنْ یُغْسَلَ الْقُرْآنُ وَ یُسْقَاہُ الْمَرِیْضَ اَوْ یُتَعَلَّقَ الْقُرْآنُ '' [فضائل القرآن للھروی (ص ۳۸۲)]''
وہ قرآن کو دھونا اور اسے مریض کو پلانا یالٹکانا مکروہ سمجھتے تھے۔''

خلاصۂ کلام یہ ہے کہ قرآن پاک کا تعویذ لٹکانا بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے اور دیگر شرکیہ تعویذات پہننا، دھاگے، گھونگے، منکے، سیپ وغیرہ لٹکانا شرک ہے۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی طرح انھیں اتار پھینکنا چاہیے اور اپنے اہل و عیال اور دوست احباب کو ان کاموں سے بچانا چاہیے، جو لوگ تعویذوں کے اتوار بازار لگاتے اور انھیں کمائی کا ذریعہ بناتے ہیں انھیں اس پر تدبر و تفکر کرنا چاہیے اور صرف دم اور اذکار پر اکتفا کرنا چاہیے۔.
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
قرآنی تعویذ شرک تو نہین ہے نا؟
تعویذ وگنڈے کا حکم
شروع از کلیم حیدر بتاریخ : 03 February 2013 09:56 AM

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا تعویذ پہننا شرک اصغر ہے۔؟کیا قرآنی آیات پر مشتمل تعویذات پہننا جائز ہے۔؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

تعویذ اگر شرکیہ الفاظ پر مشتمل اور آدمی اس کی عبادت کرتا ہو تو تعویذ پہننا شرک اکبر ہے، اور اگر اس تعویذ کے بارے میں یہ عقیدہ رکھے کہ یہ سلامتی کا ایک ذریعہ ہے تو شرک اصغر ہے۔ قرآنی آیات پر مشتمل تعویذات کے بارے میں اہل علم کے ما بین دو موقف پائے جاتے ہیں،لیکن راجح اور مبنی بر احتیاط موقف یہی ہے کہ اس سے بھی اجتناب کیا جائے۔ کیونکہ نہی پر مبنی احادیث عام ہیں جو قرآنی اور غیر قرآنی تمام قسم کے تعویذات کو شامل ہیں۔نہی پر مبنی احادیث مبارکہ درج ذیل ہیں۔

'' قال النبي صلى الله عليه سلم " من علق تميمة فلا أتم الله له " (رواه أحمد , أبو داؤد , ابن ماجه وصححه الشيخ الألباني رحمه الله )''

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس نے تعویذ لٹکایا (پہنا) اللہ تعالی اسکی مراد پوری نہ کرے ۔

'' قال النبي صلى الله عليه سلم " من تعلق تميمة فقد أشرك " (رواه أحمد والحاكم ) و وصححه الشيخ الألباني رحمه الله )''

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس نے تعویذ لٹکایا (پہنا) اس نے شرک کیا ۔

'' عن عقبة بن عامر الجهني رضي الله عنه أن رسول الله أقبل إليه رهط فبايع تسعة وأمسك عن واحد فقالوا يا رسول الله بايعت تسعة وتركت هذا ؟ قال إن عليه تميمة فأدخل يده فقطعها فبايعه وقال من علق تميمة فقد أشرك .(مسند أحمد )''

عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ راوی حدیث ہیں وہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک جماعت آئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ان میں سے ) نو سے بیعت لی اور ایک کو چھوڑ دیا ، انھوں نے کہا کہ اے اللہ کے رسول آپ نے نو سے بیعت لی اور اسکو چھوڑ دیا ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس پر تعویذ ہے (وہ تعویذ پہنے ہوۓ ہے ) چنانچہ اپنے ہاتھ کو داخل کیا اور اس (تعویذ)کو کاٹ دیا اور فرمایا جس نے تعویذ پہنا اس نے شرک کیا ۔

'' وقال النبي صلى الله عليه سلم للذي رأي في يده حلقة من صفر ماهذا ؟ فقال من الواهنة , قال انزعها فإنها لا تزيدك إلا وهنا فإنك لو مت وهي عليك ما أفلحت أبدا .( رواه أحمد والحاكم وصححه الشيخ الألباني رحمه الله ) ''

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کے ہاتھ میں پیتل کا ایک چھلہ دیکھا تو کہا۔ یہ کیا ہے ؟ اس نے کہا واہنہ (ایک مرض )کی وجہ سے پہنے ہوئے ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے اتار دو یہ تمہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا بلکہ تمہاری کمزوری میں مزید اضافہ کرےگا اور اگر اس چھلے کو پہنے ہوئے موت ہوگئ تو تم کبھی کامیاب نہیں ہو سکو گے۔
'' وقال سعيد بن جبير رحمه الله من قطع تميمة من إنسان كان كعدل رقبة ) '' (رواه إبن أبي شيبة 7/375)

سعيد بن جبیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جس نے کسی انسان سے تعویذ کاٹ دی تو یہ ایک گردن آزاد کرنے کے برابر ہے ۔

مذکورہ بالا احادیث کی روشنی میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ شرکیہ الفاظ پر مبنی تعویذ شرک ہے ،لہذا اس سے بچنا ضروری ہے اسی طرح بعض وہ کتابیں جو تعویذ وں کے بارے میں لکھی گئی ہیں جن پر بدعتی اور علماء سوء اعتماد کرتے ہیں اور انہی کتابوں سے تعویذ لکھ لکھ کر لوگوں میں تقسیم کرتے رہتے ہیں ان سے بچنا اور دور رہنا بھی ضروری ہے ۔

اسی طرح قرآنی آیات پر مشتمل تعویذ بھی صحیح قول کے مطابق نا جائز ہے ۔

باقی رہا مسئلہ دم جھاڑے کا تو جھاڑ پھونک اگر قرآنی آیات یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ صحیح دعا‌ؤں سے کیا جائے تو یہ جائز ہے ،لیکن اگر شرکیہ کلمات یا ایسے مبہم الفاظ سے جن کا معنیٰ ومطلب سمجھ میں نہ آئے ان سے کیا جائے تو ناجا‌ئز ہے ۔

هذا ما عندي والله اعلم بالصواب
فتویٰ کمیٹی
محدث فتویٰ
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,101
ری ایکشن اسکور
1,462
پوائنٹ
344
السلام علیکم جناب میں بھی اس تعویز کو غیر مسنون ہی سمجھتا ہو ں لیکن یہ شرک نہیں ہے اس کے لیے دلیل چاہیے ؟

کسی ایک عالم کا قول لے آؤ جس نے قرآنی تعویز کو شرک قرار دیا ہو؟
 
Top