جو حضرات اِس بات کے قائل ہیں کہ حضورﷺ مدینہ منورہ میں اپنی قبر مبارک میں زندہ ہیں، اوراُن کی ساری فریدیں / قوالیاں سنتے ہیں وہ اپنے إس عقیدے پر قرآن و حدیث پر سے تو کوئی دلیل نہیں دے پاتے، ہاں بہت سے سرسری عقلی مقدمات قائم کرتے ہیں اور اپنی کم علمی کی وجہ سے اُن عقلی مقدمات کی کمر توڑ دینے والی واضح اور صریح آیات /احادیث پر مطلع نہ ہونے یااُن کا استحضار نہ ہونے کی وجہ سے اُن" عقلی مقدمات" کے "سرسری" "نتیجے" کو عقیدہ ِ شرعی سمجھ بیٹھتے ہیں۔ قصہ مختصر یہ ہے کہ "اسلامی عقائد" عقل سے اخذ نہیں کئے جاتے !!!!!
دراصل اِس "دنیاوی -حیاتی" عقیدے کی بنیاد ساتویں صدی ہجری کے اشعریوں کی فرسودہ یونانی منطق کی ایک بے تکی الجھن ہے کہ یونانی ملحد ارسطو کے مطابق اگر اللہ تعالی کے نبیﷺ انتقال کر جائیں تو اُن کی نبوت زائل ہوجائے گی، اِسوجہ سے اللہ تعالی کے نبیﷺ کو "دنیاوی" طور سے زندہ مانا ضروری ہے۔ ورنہ رسول اللہ ﷺ اگلوں کے نبی نہ رہ سکیں گے۔ معلوم ہوتاہے کہ نبوت کی تقسیم و تنسیخ اللہ تعالی نے ساتویں صدی ہجری کے اشعریوں کو دے دی تھی کے کہ نبی ﷺ کے انتقال کے "سات سو سال بعد" نبوت کی"بقاء" کے مسائل حل کررہےتھے !!!!!!
میں اِس سلسلے میں اپنے بھائیوں کے لئے چندآیات و احادیث جمع کررہاتھا۔ تاکہ وہ اپنے عقلی جوسر بلینڈر سے نکل کراپنے عقائد قرآن و سنت کی روشنی میں تشکیل دیں۔
اس سلسلے میں اِن لوگوں کی متعدد کتب پڑھنے کے باوجود آج تک اِن سے کوئی لائق التفات دلیل نہیں سنی کہ قرآن و حدیث کے آگے فرسودہ یونانی منطقیات کب قابل التفات ہوا کرتی ہیں ۔ کچھ دن پہلے إن کی ایک کتاب میں یہ حدیث دیکھی اس سے إن کا یہ استدلال تھا کہ ہم جوکہتے ہیں کہ نبیﷺ اللہ تعالی کے پاس حیات ہیں وہ صحیح نہیں ہے بلکہ نبی ﷺ اپنی قبر مبارک میں مثل زندہ انسانوں کے حیات ہیں ،اور ام المومنین عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نبی ﷺ اور حضرت ابوبکر ؓ کے انتقال کے بعد بھی اِن لوگوں سے دنیاوی طورسے حیات لوگوں والا سلوک کرتیں تھیں اور پھر مرحوم حضرت عمرؓ کے ساتھ پر دہ کرے کے بھی اِس ہی فکر کا ثبوت دیا۔
میرے سوال دو ہیں اول اِس حدیث کی صحت کیسی ہے، اور دوسرا کہ اگر صحیح بھی ہے تو علماء اسلام نے اِس کی کیا صحیح شرح کی ہے۔
u by junfrared, on Flickr
دراصل اِس "دنیاوی -حیاتی" عقیدے کی بنیاد ساتویں صدی ہجری کے اشعریوں کی فرسودہ یونانی منطق کی ایک بے تکی الجھن ہے کہ یونانی ملحد ارسطو کے مطابق اگر اللہ تعالی کے نبیﷺ انتقال کر جائیں تو اُن کی نبوت زائل ہوجائے گی، اِسوجہ سے اللہ تعالی کے نبیﷺ کو "دنیاوی" طور سے زندہ مانا ضروری ہے۔ ورنہ رسول اللہ ﷺ اگلوں کے نبی نہ رہ سکیں گے۔ معلوم ہوتاہے کہ نبوت کی تقسیم و تنسیخ اللہ تعالی نے ساتویں صدی ہجری کے اشعریوں کو دے دی تھی کے کہ نبی ﷺ کے انتقال کے "سات سو سال بعد" نبوت کی"بقاء" کے مسائل حل کررہےتھے !!!!!!
میں اِس سلسلے میں اپنے بھائیوں کے لئے چندآیات و احادیث جمع کررہاتھا۔ تاکہ وہ اپنے عقلی جوسر بلینڈر سے نکل کراپنے عقائد قرآن و سنت کی روشنی میں تشکیل دیں۔
اس سلسلے میں اِن لوگوں کی متعدد کتب پڑھنے کے باوجود آج تک اِن سے کوئی لائق التفات دلیل نہیں سنی کہ قرآن و حدیث کے آگے فرسودہ یونانی منطقیات کب قابل التفات ہوا کرتی ہیں ۔ کچھ دن پہلے إن کی ایک کتاب میں یہ حدیث دیکھی اس سے إن کا یہ استدلال تھا کہ ہم جوکہتے ہیں کہ نبیﷺ اللہ تعالی کے پاس حیات ہیں وہ صحیح نہیں ہے بلکہ نبی ﷺ اپنی قبر مبارک میں مثل زندہ انسانوں کے حیات ہیں ،اور ام المومنین عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نبی ﷺ اور حضرت ابوبکر ؓ کے انتقال کے بعد بھی اِن لوگوں سے دنیاوی طورسے حیات لوگوں والا سلوک کرتیں تھیں اور پھر مرحوم حضرت عمرؓ کے ساتھ پر دہ کرے کے بھی اِس ہی فکر کا ثبوت دیا۔
میرے سوال دو ہیں اول اِس حدیث کی صحت کیسی ہے، اور دوسرا کہ اگر صحیح بھی ہے تو علماء اسلام نے اِس کی کیا صحیح شرح کی ہے۔
u by junfrared, on Flickr