• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

"دنیاوی -حیاتی" عقیدے پر ایک حدیث سے استدلال اور کی اُس استدلال کی صحت

جنید

رکن
شمولیت
جون 30، 2011
پیغامات
27
ری ایکشن اسکور
71
پوائنٹ
54
جو حضرات اِس بات کے قائل ہیں کہ حضورﷺ مدینہ منورہ میں اپنی قبر مبارک میں زندہ ہیں، اوراُن کی ساری فریدیں / قوالیاں سنتے ہیں وہ اپنے إس عقیدے پر قرآن و حدیث پر سے تو کوئی دلیل نہیں دے پاتے، ہاں بہت سے سرسری عقلی مقدمات قائم کرتے ہیں اور اپنی کم علمی کی وجہ سے اُن عقلی مقدمات کی کمر توڑ دینے والی واضح اور صریح آیات /احادیث پر مطلع نہ ہونے یااُن کا استحضار نہ ہونے کی وجہ سے اُن" عقلی مقدمات" کے "سرسری" "نتیجے" کو عقیدہ ِ شرعی سمجھ بیٹھتے ہیں۔ قصہ مختصر یہ ہے کہ "اسلامی عقائد" عقل سے اخذ نہیں کئے جاتے !!!!!

دراصل اِس "دنیاوی -حیاتی" عقیدے کی بنیاد ساتویں صدی ہجری کے اشعریوں کی فرسودہ یونانی منطق کی ایک بے تکی الجھن ہے کہ یونانی ملحد ارسطو کے مطابق اگر اللہ تعالی کے نبیﷺ انتقال کر جائیں تو اُن کی نبوت زائل ہوجائے گی، اِسوجہ سے اللہ تعالی کے نبیﷺ کو "دنیاوی" طور سے زندہ مانا ضروری ہے۔ ورنہ رسول اللہ ﷺ اگلوں کے نبی نہ رہ سکیں گے۔ معلوم ہوتاہے کہ نبوت کی تقسیم و تنسیخ اللہ تعالی نے ساتویں صدی ہجری کے اشعریوں کو دے دی تھی کے کہ نبی ﷺ کے انتقال کے "سات سو سال بعد" نبوت کی"بقاء" کے مسائل حل کررہےتھے !!!!!!

میں اِس سلسلے میں اپنے بھائیوں کے لئے چندآیات و احادیث جمع کررہاتھا۔ تاکہ وہ اپنے عقلی جوسر بلینڈر سے نکل کراپنے عقائد قرآن و سنت کی روشنی میں تشکیل دیں۔

اس سلسلے میں اِن لوگوں کی متعدد کتب پڑھنے کے باوجود آج تک اِن سے کوئی لائق التفات دلیل نہیں سنی کہ قرآن و حدیث کے آگے فرسودہ یونانی منطقیات کب قابل التفات ہوا کرتی ہیں ۔ کچھ دن پہلے إن کی ایک کتاب میں یہ حدیث دیکھی اس سے إن کا یہ استدلال تھا کہ ہم جوکہتے ہیں کہ نبیﷺ اللہ تعالی کے پاس حیات ہیں وہ صحیح نہیں ہے بلکہ نبی ﷺ اپنی قبر مبارک میں مثل زندہ انسانوں کے حیات ہیں ،اور ام المومنین عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نبی ﷺ اور حضرت ابوبکر ؓ کے انتقال کے بعد بھی اِن لوگوں سے دنیاوی طورسے حیات لوگوں والا سلوک کرتیں تھیں اور پھر مرحوم حضرت عمرؓ کے ساتھ پر دہ کرے کے بھی اِس ہی فکر کا ثبوت دیا۔

میرے سوال دو ہیں اول اِس حدیث کی صحت کیسی ہے، اور دوسرا کہ اگر صحیح بھی ہے تو علماء اسلام نے اِس کی کیا صحیح شرح کی ہے۔


u by junfrared, on Flickr
 
شمولیت
دسمبر 25، 2012
پیغامات
77
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
55
میرے علم کے مطابق ا: اس روایت کا راوی حاکم ہے جو کہ کٹڑ رافضی شیعہ تھا۔

اسے امام ابن حجر عسقلانی نے شیعہ رافضی اور متروک الحدیث کہا۔ لسان المیزان جلد 5 صفحہ 223
اسے امام ذھبی بھی شیعہ اور راوفضی مانتے ہیں ۔ میزان الاعتدلال جلد 2 صفحہ 402

مگر میں نے یہ کہیں پڑھا ہے ۔۔۔

باقی اللہ بہتر جانتا ہے ۔۔
 

جنید

رکن
شمولیت
جون 30، 2011
پیغامات
27
ری ایکشن اسکور
71
پوائنٹ
54
اِس حدیث کی صحت پر تو ایک اور جگہ بھی کلام ہوچکا ہے۔ اور اِس پہلوسے بات مکمل ہے۔اب اگر شرح کے لحاظ سے بھی کچھ اقبتاسات مل جاتے تو میری حجت تمام ہوجاتی۔

دراصل میں نے شرح کے حوالہ سے ایک اور جگہ بھی بات کی تھی، مگر وہاں ایک عالم کا خیال تھا کہ جب بات صحت کے اعتبار سے ہی درست نہیں ہے تو شرح پر صفحے کالے کرنے کی کیاضرورت ہے۔ مگر میرا خیال ہے اِس کی ضرورت ہے اور میں نے ایسا کبار اہل علم کو کرتے دیکھا ہے،اِس طرح ہم اُن کی دلیل کے بودے پن کا ہر پہلو سے رد کر کے اُن پر حجت تمام کرسکتے ہیں، اور اُن پراپنےبودے استدلال کی حقیقت ہر پہلوسے واضح ہوجائے گی اور وہ کوئی راہ نہ پائیں گے حق سے روگردانی کی۔
 

جنید

رکن
شمولیت
جون 30، 2011
پیغامات
27
ری ایکشن اسکور
71
پوائنٹ
54
ویسے جو آپ دعوی کررہے ہیں وہ مشکل ہے، چیک کرنا پڑے گا، کیونکہ اوپر حوالوں میں جن محدثین نام لکھے ہیں، اُن کے ساتھ یہ بات ممکن نظرنہیں آتی، چیک کرنا پڑے گی۔
 
شمولیت
دسمبر 25، 2012
پیغامات
77
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
55
مجھے بھی معلومات چاہیں اور اس حدیث کی صحت کے بارے میں ۔
اور بات بالکل درست ہے کہ جب صحت اس حدیث کی قابلِ استدلال والی نہیں ہے تو شرح کی کیا ضرورت ہے۔کیونکہ کہ بابِ عقائد میں نصِ قطعیات چلتی ہیں قرآن یا پھر صحیح حدیثِ متواترہ باق سب کا شمار ظنیات میں ہوتا ہے جو عقیدے پر پیش نہیں کی جا سکتیں ۔
 
شمولیت
دسمبر 25، 2012
پیغامات
77
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
55
جی ہاں مجھے بھی لگ رہا ہے کہ غلطی کا شبہ ہے ا س میں ۔۔ کی جن حضرات کا نام ساتھ لکھا ہے اس میں شاید غلطی ہے لیکن کتابوں کے حوالہ جات میرے خیال میں درست ہیں ۔
 

sufi

رکن
شمولیت
جون 25، 2012
پیغامات
196
ری ایکشن اسکور
310
پوائنٹ
63
junaid bhai hadees k sihat ki sarahat aapki image main mojod hai

Aap Hazrat ko aitraaz Hayat un Nabi (sa) par hai
Ya
Misal e dunyawi hayat par hai
Ya
Aap Hazraat apni taraf se kuch aur baat tay kar baithay hai e.g; hayat ko Qabar se bahar ain dunya Mai ain dunyawi samajh rahe hai

JazakAllah
 

جنید

رکن
شمولیت
جون 30، 2011
پیغامات
27
ری ایکشن اسکور
71
پوائنٹ
54
بھائی میں ضرورت کی وجہ بیان کرچکاہوں۔ کہ ہر پہلوسے رد کو تمام کرنا۔ مثلاً شیخ البانی رحمہ اللہ نے وسیلہ کے اوپر ایک کتاب لکھی حضرت نے اُس میں ایک ایک روایت کولے کراُس پر سنداً، متناً، عقلاً، شرحاً، کلام کرتے گذرتے تھے، باوجود یہ کہ وہ اول مقدمےمیں غلط ثابت ہوچکی ہوتی تھی، مگر ہم اِس طرح جاہل پر حجت کو تمام کردیتے ہیں، اور تاویل اور گنجائش کا اُس کے پاس کوئی پہلونے رہتا۔
 

جنید

رکن
شمولیت
جون 30، 2011
پیغامات
27
ری ایکشن اسکور
71
پوائنٹ
54
بھائی یہ "ایک۔ایک۔ایک۔ایک""اثر" "صحابیہ" ہے۔

اولاً صحتاًتحقیق طلب، کہ حوالے درست بھی ہیں کہ نہیں
ثانیاًاگر درست بھی ہو تو قرآن کی صریح " نصوص" (یعنی وہ متعدد ہیں)، صریح " احادیث" (یعنی وہ متعدد ہیں، متفق علیہ بھی، اور مرفوع بھی۔۔۔۔۔)، صریح "آثار صحابہ" (یعنی یہ بھی متعدد ہیں، ابو بکر و عمر کبار صحابہ سے منقول ہیں، اعلی درجہ کی صحت کے حامل بھی۔۔۔۔) کے مقابلے میں ہی اِس کی تشریح قبول کی جائے گی۔ نہ کہ اِن سب کے مخالف،اور آپ کے مَن پسند تخیلاتی عقیدےحق میں، اِس ایک اثر صحابیہ کی تشریح قبول کی جائے گی۔

میں بتاچکا ہوں کہ میں نے اِس موضوع پر کتابوں کی کتابیں پڑھ ڈالی ہیں، ایک ایک ایک دلیل قرآن یا احادیث یا آثارصحابہ سے نہیں پائی،ہاں مجھے بے شمار نصوص، احادیث، آثار و اقوال اِس کی مخالفت میں لے ہیں۔

جو کچھ قرآن و حدیث اور آثار صحابہ سے ملتا ہے اُس کے مطابق اللہ تعالی کے نبی ﷺ اللہ تعالی کے "پاس" حیات ہے۔ اور حیات مثال دنیاوی نہیں، یہ کہنا بدعت ہے، اور اِس سے کفر شرک کا ایک عظیم دروازہ کھولاگیا ہے۔ جو کچھ قبرمبارک پر جاکر بدعات کی جاتی ہےمثلاً نبیﷺ سے حاجات کا طلب کرنا، شفاعت طلب کرنا ، دعائیں کروانا وغیرہ وغیرہ یہ سب یا تو بدعت ہے یاپھر کفر اور شرک تک جا پہنچتی ہے۔

بشمول حضورﷺ کی قبر کے ،ـ"قبر والے کے لئے" دعا کرنا مسنون ہے اور "قبر والے سے" دعا کروانا بدعت ہے۔
 

sufi

رکن
شمولیت
جون 25، 2012
پیغامات
196
ری ایکشن اسکور
310
پوائنٹ
63
جو کچھ قرآن و حدیث اور آثار صحابہ سے ملتا ہے اُس کے مطابق اللہ تعالی کے نبی ﷺ اللہ تعالی کے "پاس" حیات ہے۔ اور حیات مثال دنیاوی نہیں، یہ کہنا بدعت ہے، اور اِس سے کفر شرک کا ایک عظیم دروازہ کھولاگیا ہے۔ جو کچھ قبرمبارک پر جاکر بدعات کی جاتی ہےمثلاً نبیﷺ سے حاجات کا طلب کرنا، شفاعت طلب کرنا ، دعائیں کروانا وغیرہ وغیرہ یہ سب یا تو بدعت ہے یاپھر کفر اور شرک تک جا پہنچتی ہے۔

بشمول حضورﷺ کی قبر کے ،ـ"قبر والے کے لئے" دعا کرنا مسنون ہے اور "قبر والے سے" دعا کروانا بدعت ہے۔
Kia aap ye kahna chahtey hain k Allah k Nabi (saw) ko dunyawi Qabar main kisi qisam ki hayat hasil nahi
 
Top