- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,582
- ری ایکشن اسکور
- 6,751
- پوائنٹ
- 1,207
دوسرا مرحلہ :
کھلی تبلیغ
اظہارِ دعوت کا پہلا حکم:
جب مومنین کی ایک جماعت اخوت وتعاون کی بنیاد پر قائم ہوگئی۔ جو اللہ کا پیغام پہنچانے اور اس کو اس کا مقام دلانے کا بوجھ اٹھاسکتی تھی تو وحی نازل ہوئی اور رسول اللہﷺ کو مکلف کیا گیا کہ اپنی قوم کو کھلم کھلا دعوت دیں اور ان کے باطل کا خوبصورتی کے ساتھ رخ کریں۔
اس بارے میں سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کا یہ قول نازل ہوا ، وَأَنذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ (۲۶:۲۱۴) ''آپ اپنے نزدیک ترین قرابتداروں کو (عذاب الٰہی سے) ڈرایئے '' یہ سورئہ شعراء کی آیت ہے اور اس سورت میں سب سے پہلے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ بیان کیا گیا ہے یعنی یہ بتایا گیا ہے کہ کس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نبوت کاآغاز ہوا۔ پھر آخر میں انہوں نے بنی اسرائیل سمیت ہجرت کر کے فرعون اور قومِ فرعون سے نجات پائی اور فرعون وآل فرعون کو غرق کیا گیا۔ بلفظ دیگر یہ تذکرہ ان تمام مراحل پر مشتمل ہے جن سے حضرت موسیٰ علیہ السلام ، فرعون اور قومِ فرعون کو اللہ کے دین کی دعوت دیتے ہوئے گزرے تھے۔
میرا خیال ہے کہ جب رسول اللہﷺ کو اپنی قوم کے اندر کھل کر تبلیغ کرنے کا حکم دیا گیا تو اس موقعے پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے واقعے کی یہ تفصیل اس لیے بیا ن کر دی گئی تاکہ کھلم کھلا دعوت دینے کے بعد جس طرح کی تکذیب اور ظلم وزیادتی سے سابقہ آنے والا تھا اس کا ایک نمونہ آپ اور صحابہ کرامؓ کے سامنے موجودر ہے۔
دوسری طرف اس سورت میں پیغمبروں کو جھٹلانے والی اقوام مثلاً: فرعون اور قومِ فرعون کے علاوہ قومِ نوح ،عاد، ثمود قومِ ابراہیم ، قومِ لوط اور اصحاب الأیکہ کے انجام کا بھی ذکر ہے۔ اس کا مقصد غالباً یہ ہے کہ جو لوگ آپ کو جھٹلائیں انہیں معلوم ہوجائے کہ تکذیب پر اصرار کی صورت میں ان کا انجام کیا ہونے والا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کس قسم کے مؤاخذے سے دوچار ہوں گے، نیز اہل ایمان کو معلوم ہوجائے کہ اچھا انجام انھیں کا ہوگا، جھٹلانے والوں کا نہیں۔