• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ذکر صائمہ اکرم کے رومانی ناول "نارسائی" کے ایک اقتباس کا

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
بھائی ایک چیز محبت بھی ہوتی ہے جو کی نہیں جاتی بس ہوجاتی ہے اور جب ہوجاتی ہے تو کچھ نہیں دیکھتی نہ دولت، نہ حسن اور نہ کوئی عیب۔بس محبوب، محبوب اور صرف محبوب طلب کرتی ہے چاہے جس قیمت پر بھی حاصل ہو چاہے عزت کی قربانی پر چاہے مال ودولت کی قربانی پر۔
لیکن جب محبت کی قدر نہ ہو تو دل کو تکلیف بھی بہت پہنچتی ہے۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
یہ تو خیر ہم سب کی اپنی اپنی آراء ہیں، اہم بات تو یہ کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت، اور محبت کیسی ہونی چاہیے، محبت کا مفہوم کیا ہے، محبت کہتے کسے ہیں، اس موضوع پر ڈاکٹر حماد لکھنوی صاحب نے خان پور میں سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم سیمینار میں تقریر کی ہے، کیا ہی زبردست انداز اپنایا ہے، اور محبت کا صحیح مفہوم سمجھایا ہے۔ ویڈیو میرے پاس ہے، فراغت سے آپ لوگوں سے شئیر کروں گا۔ ان شاءاللہ
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
لیکن آپ ''ناقدروں'' سے محبت کرتے ہی کیوں ہیں؟ (ابتسامہ)
ہمیں کیا پتہ کہ جس سے ہم محبت کر رہے ہیں، جو ہمارا محبوب بن گیا ہے، جس کے بغیر ہمارا دل نہیں لگ رہا، وہ محض دل بہلانے کا سامان ڈھونڈ رہا ہے، اور جب اس کو پتہ چل جائے کہ میرا چاہنے والا مجبور ہے اور دولت مند نہیں تو وہ آپ کی محبت کو یکطرفہ محبت قرار دے کر پاؤں سے ٹھوکر مار دے، یہ ساری باتیں پہلے تو پتہ نہیں ہوتیں نا سر۔ بڑے بڑے لوگ اپنے آپ کو مجبور ظاہر کرتے ہیں۔ لیکن حقیقت میں ہوتے نہیں ہیں، اصل میں ان کو پتہ چل چکا ہوتا ہے کہ اب اس کے پاس کچھ نہیں ہے لہذا اس سے جان چھڑائی جائے۔

میں تو حیران ہوتا ہوں لوگوں پر کئی فراڈیے اور جھوٹے اپنی چرب زبانی سے لوگوں کو پھانس لیتے ہیں اور ان کا جھوٹ بھی لوگوں کو سچ نظر آتا ہے اور کچھ سارا کچھ سچ بول کر بھی بے اعتبار ٹھہرتے ہیں۔ بڑی عجیب بات ہے حالانکہ سچ بولنے والوں کی تو قدر کی جانی چاہیے۔

سامنے ہر بندہ شریف نظر آتا ہے لیکن اصلیت تو تب پتہ چلتی ہے جب کسی سے پالا پڑتا ہے، اسی لیے اب کون شریف ہے کون خراب، کون مخلص ہے اور کون پیسوں کا یار، آج کل یہ پہچان بڑی مشکل ہو گئی ہے۔ کسی کا کوئی اعتبار نہیں رہا، اب تو بس اللہ سے عافیت کا ہی سوال کیا جا سکتا ہے۔

اب تو محبت کے نام سے ڈر لگتا ہے۔ بس سچی محبت صرف اللہ کی۔
ہاں اگر کوئی سچا، مخلص، وفادار اور پیار کرنے والا ساتھی مل جائے تو کیا ہی بات ہے، لیکن ایسے بہت کم ہیں بہت ہی کم، شاید ہزار میں سے دس۔ اللہ سے ایسے ہی کسی مخلص جیون ساتھی کا سوال ہے۔ اور اللہ سے مانگ کر محروم نہیں رہا جا سکتا۔ ان شاءاللہ
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
بھائی ایک چیز محبت بھی ہوتی ہے جو کی نہیں جاتی بس ہوجاتی ہے اور جب ہوجاتی ہے تو کچھ نہیں دیکھتی نہ دولت، نہ حسن اور نہ کوئی عیب۔بس محبوب، محبوب اور صرف محبوب طلب کرتی ہے چاہے جس قیمت پر بھی حاصل ہو چاہے عزت کی قربانی پر چاہے مال ودولت کی قربانی پر۔
شاہد بھائی - حنفیوں کی اپنے امام ابو حنیفہ رح سے محبّت سے متعلق آپ کیا راے ہے ؟؟؟ کیا یہ محبّت کی جاتی ہے یا ہو جاتی ہے (ابتسامہ)-
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
ہمیں کیا پتہ کہ جس سے ہم محبت کر رہے ہیں، جو ہمارا محبوب بن گیا ہے، جس کے بغیر ہمارا دل نہیں لگ رہا، وہ محض دل بہلانے کا سامان ڈھونڈ رہا ہے، اور جب اس کو پتہ چل جائے کہ میرا چاہنے والا مجبور ہے اور دولت مند نہیں تو وہ آپ کی محبت کو یکطرفہ محبت قرار دے کر پاؤں سے ٹھوکر مار دے، یہ ساری باتیں پہلے تو پتہ نہیں ہوتیں نا سر۔ بڑے بڑے لوگ اپنے آپ کو مجبور ظاہر کرتے ہیں۔ لیکن حقیقت میں ہوتے نہیں ہیں، اصل میں ان کو پتہ چل چکا ہوتا ہے کہ اب اس کے پاس کچھ نہیں ہے لہذا اس سے جان چھڑائی جائے۔

میں تو حیران ہوتا ہوں لوگوں پر کئی فراڈیے اور جھوٹے اپنی چرب زبانی سے لوگوں کو پھانس لیتے ہیں اور ان کا جھوٹ بھی لوگوں کو سچ نظر آتا ہے اور کچھ سارا کچھ سچ بول کر بھی بے اعتبار ٹھہرتے ہیں۔ بڑی عجیب بات ہے حالانکہ سچ بولنے والوں کی تو قدر کی جانی چاہیے۔

سامنے ہر بندہ شریف نظر آتا ہے لیکن اصلیت تو تب پتہ چلتی ہے جب کسی سے پالا پڑتا ہے، اسی لیے اب کون شریف ہے کون خراب، کون مخلص ہے اور کون پیسوں کا یار، آج کل یہ پہچان بڑی مشکل ہو گئی ہے۔ کسی کا کوئی اعتبار نہیں رہا، اب تو بس اللہ سے عافیت کا ہی سوال کیا جا سکتا ہے۔

اب تو محبت کے نام سے ڈر لگتا ہے۔ بس سچی محبت صرف اللہ کی۔
ہاں اگر کوئی سچا، مخلص، وفادار اور پیار کرنے والا ساتھی مل جائے تو کیا ہی بات ہے، لیکن ایسے بہت کم ہیں بہت ہی کم، شاید ہزار میں سے دس۔ اللہ سے ایسے ہی کسی مخلص جیون ساتھی کا سوال ہے۔ اور اللہ سے مانگ کر محروم نہیں رہا جا سکتا۔ ان شاءاللہ

االلہ اللہ ! اتی سی عمر اتی بڑی بڑی باتیں۔ شکر ہے آپ شاعر نہیں ورنہ ہر نئی صبح ایک نیا دیوان آجاتا۔ اور اردو شاعری کو ایک نیا میر تقی میر۔ بھیا! آپ کی ساری باتیں درست ہیں اور اسی کا نام دنیا ہے۔ اللہ آپ پر رحم کرے اور آپ کی نیک مانگ کو پورا کرے۔ آمین ثم آمین

ویسے ہمارے دین دار طبقہ میں بالعموم، اور دینی مدرسوں سے فارغ التحصیل افراد میں بالخصوص دولتِ دنیا سے ایک خاص قسم کی "نفرت" پائی جاتی ہے، اسی لئے وہ اس کے "وافر حصول" کو بُرا جانتے ہیں یا کم از کم اچھا نہیں جانتے۔ اسی لئے دولتِ دنیا کے حصول کی کبھی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کرتے۔ اور جب کوشش نہیں کرتے تو دولت کی دیوی ان سے دور دور ہی رہتی ہے۔ اور جب وہ "عملی دنیا" میں داخل ہوتے ہیں تو کم دولت کے باعث مختلف مشکلات کا شکار ہوتے ہیں۔ حالانکہ اسلام میں دولت کمانا کوئی برا فعل نہیں ہے۔ بلکہ صرف ناجائز طریقہ سے دولت کمانا ہی برا ہے۔ ہم دن رات (غالباً بے سمجھے بوجھے) یہ دہراتے رہتے ہیں کہ ۔۔۔ ربنا آتنا فی الدنیا حسنۃ و فی الآخرۃ حسنۃ ۔۔۔ لیکن "دنیا" کے حصول کے لئے "اہل دنیا" کی طرح سنجیدہ کوشش نہیں کرتے۔ مدرسے سے نکلنے کے بعد مسجد، مدرسوں اور مکتبوں ہی میں رزق تلاش کرتے ہیں۔ حالانکہ یہاں وافر رزق کا حصول ممکن ہی نہیں۔ کاش ہم علم دین صرف آخرت کے لئے حاصل کریں اور دنیا اور رزق دنیا کے لئے دنیوی علوم و ہنر سیکھیں۔ کوئی چھوٹا موٹا کاروبار کریں اور کسی بھی چھوٹے بڑے ذریعہ رزق کو حقیر نہ جانیں تاوقتیکہ وہ حرام نہ ہو۔ تب ہی ہم دین و دنیا میں ایک توازن قائم کرسکتے ہیں۔ آج کے مادی دور میں اعلیٰ سوشیل اسٹیٹس حاصل کرکے ہی دینی علوم کے حامل افراد دنیا میں اپنا سکہ منواسکتے ہیں، اس کے بغیر تو انہیں معمولی و مجازی محبت کے حصول میں بھی دکھ اور ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
االلہ اللہ ! اتی سی عمر اتی بڑی بڑی باتیں۔ شکر ہے آپ شاعر نہیں ورنہ ہر نئی صبح ایک نیا دیوان آجاتا۔ اور اردو شاعری کو ایک نیا میر تقی میر۔ بھیا! آپ کی ساری باتیں درست ہیں اور اسی کا نام دنیا ہے۔ اللہ آپ پر رحم کرے اور آپ کی نیک مانگ کو پورا کرے۔ آمین ثم آمین

ویسے ہمارے دین دار طبقہ میں بالعموم، اور دینی مدرسوں سے فارغ التحصیل افراد میں بالخصوص دولتِ دنیا سے ایک خاص قسم کی "نفرت" پائی جاتی ہے، اسی لئے وہ اس کے "وافر حصول" کو بُرا جانتے ہیں یا کم از کم اچھا نہیں جانتے۔ اسی لئے دولتِ دنیا کے حصول کی کبھی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کرتے۔ اور جب کوشش نہیں کرتے تو دولت کی دیوی ان سے دور دور ہی رہتی ہے۔ اور جب وہ "عملی دنیا" میں داخل ہوتے ہیں تو کم دولت کے باعث مختلف مشکلات کا شکار ہوتے ہیں۔ حالانکہ اسلام میں دولت کمانا کوئی برا فعل نہیں ہے۔ بلکہ صرف ناجائز طریقہ سے دولت کمانا ہی برا ہے۔ ہم دن رات (غالباً بے سمجھے بوجھے) یہ دہراتے رہتے ہیں کہ ۔۔۔ ربنا آتنا فی الدنیا حسنۃ و فی الآخرۃ حسنۃ ۔۔۔ لیکن "دنیا" کے حصول کے لئے "اہل دنیا" کی طرح سنجیدہ کوشش نہیں کرتے۔ مدرسے سے نکلنے کے بعد مسجد، مدرسوں اور مکتبوں ہی میں رزق تلاش کرتے ہیں۔ حالانکہ یہاں وافر رزق کا حصول ممکن ہی نہیں۔ کاش ہم علم دین صرف آخرت کے لئے حاصل کریں اور دنیا اور رزق دنیا کے لئے دنیوی علوم و ہنر سیکھیں۔ کوئی چھوٹا موٹا کاروبار کریں اور کسی بھی چھوٹے بڑے ذریعہ رزق کو حقیر نہ جانیں تاوقتیکہ وہ حرام نہ ہو۔ تب ہی ہم دین و دنیا میں ایک توازن قائم کرسکتے ہیں۔ آج کے مادی دور میں اعلیٰ سوشیل اسٹیٹس حاصل کرکے ہی دینی علوم کے حامل افراد دنیا میں اپنا سکہ منواسکتے ہیں، اس کے بغیر تو انہیں معمولی و مجازی محبت کے حصول میں بھی دکھ اور ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
آمین، جزاک اللہ خیرا، آپ جیسے بزرگوں کی دعائیں چاہئیں۔

بھائی آپ کو دولت کمانے کے حوالے سے بھی ایک سچ بات بتاتا چلوں کہ جو باتیں آپ نے لکھی ہیں سو فیصد میں ان سے ایگری کرتا ہوں، دراصل لوگ دین اسلام کی تعلیمات کو صحیح طریقے سے نہیں سمجھتے اور افراط و تفریط کا شکار ہو جاتے ہیں۔

اب جس دنیا کمانے اور دنیا کے پیچھے بھاگنے سے منع کیا گیا ہے، اس کا مطلب یہ نہیں کہ اپنی ضررویات کے لیے حلال طریقے سے روزی بھی نہ کماؤ، بلکہ دنیا کے پیچھے بھاگنے کا اصل مقصد یہ ہے کہ دنیا کے پیچھے اس قدر اندھے نہ بن جاؤ کہ نہ حلال کا پتہ ہو نا حرام کا، نہ عمر ضائع ہونے کی پرواہ ہو نا فرائض کی عدم ادائیگی کا، بلکہ ہر چیز کو مدنظر رکھ کر دنیا کمانا چاہیے۔ یہ بہت ضرروی ہے۔

اب میں آپ کو ایک چھوٹی سی مثال دیتا چلوں کہ لوگ کس طرح افراط و تفریط کا شکار ہو جاتے ہیں:
میں نے کسی کو کہا کہ جب میری شادی ہو جائے گی تو اللہ میرے رزق میں مزید اضافہ فرما دے گا۔ ان شاءاللہ
تو مجھے جواب ملا
واہ تم بیٹھے رہو گے اور اللہ تمہیں ایسے ہی دے دے گا۔۔ (معاذاللہ، استغفراللہ)

اب دیکھیں کس قدر افراط و تفریط ہے، آج کل کسی کو یہ کہہ دینا کہ مجھے اللہ روزی دے گا اس کا مطلب یہی سمجھا جاتا ہے کہ یہ ہاتھ پیر ہلائے بغیر روزی کمانے کا خواہشمند ہے۔

حالانکہ میرا اس وقت کہنے کا مقصد یہ تھا کہ جو میں اب کما رہا ہوں اللہ اس میں مزید اضافہ فرمائے گا، اس کا مطلب یہ نہیں کہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر بیٹھ جایا جائے، ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ شادی کے بعد مزید کسی اچھی روزی کمانے کا بندوبست فرما دے، جیسے مجھے میرے ایک سعودی دوست نے کچھ عرصہ پہلے بتایا کہ میری تنخواہ کم تھی شاید کوئی 2500 ریال یا 2700 ریال ، لیکن جب میرے رشتے کی بات چلی ( یا شاید رشتہ پکا ہوا) تو میری انہی دنوں ہی تنخواہ بڑھ گئی، اور اللہ نے برکت ڈال دی اور اس کی تنخواہ 3200 ریال ہو گئی۔ تو اللہ تعالیٰ جس طرح چاہے اپنے بندوں کو رزق عطا فرما دیتا ہے، بس انسان کو کوشش کرنی چاہیے اور توکل اللہ پر رکھنا چاہیے، نا کہ توکل کا غلط مطلب لے لینا چاہیے۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ عطا فرمائے آمین
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
ربنا اتنا في الدنيا حسنة وفي الآخرة حسنة
میں جب یہ دعا پڑھتا ہوں تو میری یہی خواہش ہوتی ہے کہ یا اللہ آخرت میں تو تیرا فضل ہے ہی ہے، وہاں بھی میں جنت الفردوس میں چاہتا ہوں، لیکن دنیا میں بھی تو مجھے محروم نہ رکھ، بلکہ میں چاہتا ہوں کہ دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ مجھے اتنا عطا فرمائے کہ میں اور میری آنے والی نسلیں کسی کی محتاج نہ ہوں اور سکون سے زندگی بسر کریں، کبھی کوئی پریشانی نہ آئے، کیونکہ اللہ کی رحمت بہت بہت بہت وسیع ہے اور ہم اس وسیع رحمت و فضل سے کیوں نہ مانگیں، میرا یقین ہے کہ ہم مانگتے مانگتے تھک جائیں گے لیکن اللہ کے فضل میں کوئی کمی نہیں آئے گی۔
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
آمین، جزاک اللہ خیرا، آپ جیسے بزرگوں کی دعائیں چاہئیں۔

بھائی آپ کو دولت کمانے کے حوالے سے بھی ایک سچ بات بتاتا چلوں کہ جو باتیں آپ نے لکھی ہیں سو فیصد میں ان سے ایگری کرتا ہوں، دراصل لوگ دین اسلام کی تعلیمات کو صحیح طریقے سے نہیں سمجھتے اور افراط و تفریط کا شکار ہو جاتے ہیں۔

اب جس دنیا کمانے اور دنیا کے پیچھے بھاگنے سے منع کیا گیا ہے، اس کا مطلب یہ نہیں کہ اپنی ضررویات کے لیے حلال طریقے سے روزی بھی نہ کماؤ، بلکہ دنیا کے پیچھے بھاگنے کا اصل مقصد یہ ہے کہ دنیا کے پیچھے اس قدر اندھے نہ بن جاؤ کہ نہ حلال کا پتہ ہو نا حرام کا، نہ عمر ضائع ہونے کی پرواہ ہو نا فرائض کی عدم ادائیگی کا، بلکہ ہر چیز کو مدنظر رکھ کر دنیا کمانا چاہیے۔ یہ بہت ضرروی ہے۔

اب میں آپ کو ایک چھوٹی سی مثال دیتا چلوں کہ لوگ کس طرح افراط و تفریط کا شکار ہو جاتے ہیں:
میں نے کسی کو کہا کہ جب میری شادی ہو جائے گی تو اللہ میرے رزق میں مزید اضافہ فرما دے گا۔ ان شاءاللہ
تو مجھے جواب ملا
واہ تم بیٹھے رہو گے اور اللہ تمہیں ایسے ہی دے دے گا۔۔ (معاذاللہ، استغفراللہ)

اب دیکھیں کس قدر افراط و تفریط ہے، آج کل کسی کو یہ کہہ دینا کہ مجھے اللہ روزی دے گا اس کا مطلب یہی سمجھا جاتا ہے کہ یہ ہاتھ پیر ہلائے بغیر روزی کمانے کا خواہشمند ہے۔

حالانکہ میرا اس وقت کہنے کا مقصد یہ تھا کہ جو میں اب کما رہا ہوں اللہ اس میں مزید اضافہ فرمائے گا، اس کا مطلب یہ نہیں کہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر بیٹھ جایا جائے، ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ شادی کے بعد مزید کسی اچھی روزی کمانے کا بندوبست فرما دے، جیسے مجھے میرے ایک سعودی دوست نے کچھ عرصہ پہلے بتایا کہ میری تنخواہ کم تھی شاید کوئی 2500 ریال یا 2700 ریال ، لیکن جب میرے رشتے کی بات چلی ( یا شاید رشتہ پکا ہوا) تو میری انہی دنوں ہی تنخواہ بڑھ گئی، اور اللہ نے برکت ڈال دی اور اس کی تنخواہ 3200 ریال ہو گئی۔ تو اللہ تعالیٰ جس طرح چاہے اپنے بندوں کو رزق عطا فرما دیتا ہے، بس انسان کو کوشش کرنی چاہیے اور توکل اللہ پر رکھنا چاہیے، نا کہ توکل کا غلط مطلب لے لینا چاہیے۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ عطا فرمائے آمین

ماشاء اللہ آپ تو کافی سمجھدار ہیں لیکن دینی حوالہ سے عام لوگ اتنے سمجھدار نہیں

میں خود اپنی مثال بھی لوگوں کو دیا کرتا ہوں کہ شادی کے وقت میری تنخواہ انتہائی قلیل تھی اور جمع پونجی بھی صفر تھی۔ حتیٰ کہ شادی پر والدین نے خرچ کیا۔ شادی کے بعد آمدن میں اضافہ ہوگیا۔ پہلی اولاد ہوئی تو مزید نمایاں اضافہ ہوا دوسری اولاد ہوئی تو سعودیہ میں جاب مل گئی۔ لیکن چونکہ یہ جاب فیملی کے بغیر تھی لہٰذا جلد ہی پکی اور ریال میں پنشن والی نوکری چھوڑ کر واپس آگیا۔ پاکستان میں ڈبل نوکری کرتا رہا حتیٰ کہ تین سال کے اندر اندر سعودیہ جیسی نوکری پاکستان میں مل گئی
2007 کے اواخر میں پیغام قرآن ڈاٹ کا پروجیکٹ شروع کیا تو یوں سمجھ لیجئے کہ اللہ نے دنیوی نعمتوں کی بارش کردی۔ اللہ کے گھر کی حاضریاں لگتی رہیں۔ بچے باری باری اہم ترین پیشہ ورانہ جامعات میں داخل ہوتے رہے۔ اخراجات بڑھتے رہے، اللہ پوری کرتا رہا۔ ان ساری نعمتوں کا میں خود کو اہل نہیں سمجھتا نہ ہی اتنا قابل فاضل ہوں کہ اتنا کما سکتا۔ لیکن اللہ کا فضل شامل حال رہا، نیت نیک رہی اور ہر ممکن محنت کرتا رہا اور ساتھ ساتھ قرآن پراجیکٹ بھی چلاتا رہا۔ اللہ کے فضل سے بیگم بھی دینی مزاج کی ہے۔ کبھی کسی دینی پراجیکٹ پر اعتراض نہیں کیا بلکہ ساتھ ہی دیا۔ یوں دنیوی اعتبار سے بھی اسٹیٹس بلند ہوتا رہا۔ اللہ سے دعا ہے کہ آخرت میں بھی اسی طرح درجات بلند کرے آمین۔

آپ بھی اپنے معاشی پروجیکٹس، پلاننگ اور کاوشوں سے احباب کو آگاہ کرتے رہا کریں کہ میں اس وقت یہ کام کر رہا ہوں اور اتنا کما رہا ہوں۔ اور آئندہ مزید فلاں، فلاں کام کرنے اور آمدن بڑھانے کا ارادہ ہے۔ جب تک آپ اپنی فزیبیلیٹی نہیں بتلائیں گے، لوگ آپ کی باتوں پر یقین نہیں کریں گے کہ ابھی ہماری سوسائٹی کا اللہ پر ایمان اتنا پختہ نہیں ہے کہ آپ کی بات کو از خعد سمجھ سکے۔
اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
ماشاء اللہ آپ تو کافی سمجھدار ہیں لیکن دینی حوالہ سے عام لوگ اتنے سمجھدار نہیں
یہ سب اللہ کا کرم ہے، اس میں میرا ذرہ بھر بھی کوئی کمال نہیں، بلکہ میرا نفس تو مجھے ہمیشہ شر کی طرف ہی راغب کرتا رہا اور کرتا ہے، لیکن اللہ اپنے بندے کو بچا لیتا ہے۔ الحمدللہ



میں خود اپنی مثال بھی لوگوں کو دیا کرتا ہوں کہ شادی کے وقت میری تنخواہ انتہائی قلیل تھی اور جمع پونجی بھی صفر تھی۔ حتیٰ کہ شادی پر والدین نے خرچ کیا۔ شادی کے بعد آمدن میں اضافہ ہوگیا۔ پہلی اولاد ہوئی تو مزید نمایاں اضافہ ہوا دوسری اولاد ہوئی تو سعودیہ میں جاب مل گئی۔ لیکن چونکہ یہ جاب فیملی کے بغیر تھی لہٰذا جلد ہی پکی اور ریال میں پنشن والی نوکری چھوڑ کر واپس آگیا۔ پاکستان میں ڈبل نوکری کرتا رہا حتیٰ کہ تین سال کے اندر اندر سعودیہ جیسی نوکری پاکستان میں مل گئی
2007 کے اواخر میں پیغام قرآن ڈاٹ کا پروجیکٹ شروع کیا تو یوں سمجھ لیجئے کہ اللہ نے دنیوی نعمتوں کی بارش کردی۔ اللہ کے گھر کی حاضریاں لگتی رہیں۔ بچے باری باری اہم ترین پیشہ ورانہ جامعات میں داخل ہوتے رہے۔ اخراجات بڑھتے رہے، اللہ پوری کرتا رہا۔ ان ساری نعمتوں کا میں خود کو اہل نہیں سمجھتا نہ ہی اتنا قابل فاضل ہوں کہ اتنا کما سکتا۔ لیکن اللہ کا فضل شامل حال رہا، نیت نیک رہی اور ہر ممکن محنت کرتا رہا اور ساتھ ساتھ قرآن پراجیکٹ بھی چلاتا رہا۔ اللہ کے فضل سے بیگم بھی دینی مزاج کی ہے۔ کبھی کسی دینی پراجیکٹ پر اعتراض نہیں کیا بلکہ ساتھ ہی دیا۔ یوں دنیوی اعتبار سے بھی اسٹیٹس بلند ہوتا رہا۔ اللہ سے دعا ہے کہ آخرت میں بھی اسی طرح درجات بلند کرے آمین۔
سر، آپ کی باتیں سمجھنے والوں کے لیے بہت نصیحت آموز ہیں۔ اللہ تعالیٰ سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے آمین
اللہ تعالیٰ آپ کو اور آپ کی فیملی کو دنیا و آخرت میں کامیابیاں عطا فرمائے آمین


آپ بھی اپنے معاشی پروجیکٹس، پلاننگ اور کاوشوں سے احباب کو آگاہ کرتے رہا کریں کہ میں اس وقت یہ کام کر رہا ہوں اور اتنا کما رہا ہوں۔ اور آئندہ مزید فلاں، فلاں کام کرنے اور آمدن بڑھانے کا ارادہ ہے۔ جب تک آپ اپنی فزیبیلیٹی نہیں بتلائیں گے، لوگ آپ کی باتوں پر یقین نہیں کریں گے کہ ابھی ہماری سوسائٹی کا اللہ پر ایمان اتنا پختہ نہیں ہے کہ آپ کی بات کو از خعد سمجھ سکے۔
اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو
آمین
جزاکم اللہ خیرا و احسن الجزاء
 
Top