• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

رافضیوں سے قتال کرنے کے متعلق روایات کی تحقیق

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,580
پوائنٹ
384
اسلام علیکم
بعض روایات میں آتا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے نہ صرف رافضیوں کی پیشین گوئی کی بلکہ ان سے قتال کا بھی حکم دیا۔ اس قسم کی جتنی بھی روایتیں مروی ہیں سب ضعیف جدا ہیں۔
یہ روایت نوں (9) مختلف طرق سے مروی ہے جن میں سے:
ایک طریق سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب ہے۔
پانچ مختلف طرق سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب ہیں۔
ایک طریق سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی طرف منسوب ہے۔
ایک طریق سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی طرف منسوب ہے۔
اور ایک آخری طریق سیدنا عبد اللہ عمر رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب ہے۔

ان تمام طرق کا جائزہ ذیل میں لیا جائے گا ان شاء اللہ
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,580
پوائنٹ
384
1- حدیث سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ

یہ حدیث درج ذیل محدثین نے اپنی کتب میں نقل کی ہے:
  • امام احمد بن حنبل فی فضائل الصحابہ (ح 651، 702)
  • عبد بن حمید فی المسند (ح 698)
  • الحارث بن ابی اسامہ فی المسند (البغیہ الباحث عن زوائد مسند الحارث: 1048)
  • البزار فی المسند (کشف الاستار: 2775)
  • ابن ابی عاصم فی السنہ (ح 981)
  • ابو جعفر العقیلی فی الضعفاء الکبیر (1:284)
  • ابو یعلی الموصلی فی المسند (ح 2586)
  • ابن الاعربی فی المعجم (ح 1543)
  • الطبرانی فی المعجم الکبیر (ح 12997، 12998)
  • ابو نعیم الاصبھانی فی حلیۃ الاولیاء (5014، 5015)
  • البیہقی فی الدلائل النبوۃ (6:548)
اور یہ سب اس حدیث کو درج ذیل سند ومتن سے روایت کرتے ہیں:
"عن الحجاج بن تميم، عن ميمون بن مهران، عن ابن عباس، قال: كنت عند النبي صلى الله عليه وسلم، وعنده علي، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: «يا علي سيكون في أمتي قوم ينتحلون حبنا أهل البيت لهم نبز يسمون الرافضة فاقتلوهم، فإنهم مشركون»"
ترجمہ: حجاج بن تمیم نے میمون بن مہران کے زریعے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ میں نبی اکرم ﷺ کے پاس تھا اور ان کے پاس علی رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے، تو آپ ﷺ نے فرمایا: "اے علی، آخری زمانے میں میری امت کی ایک قوم ہو گی جو میرے اہل بیت کی محبت میں حد سے تجاوز کر جائیں گے، وہ رافضہ کے نام سے جانے جائیں گے، پس جب بھی انہیں پاؤں تو ان سے قتال کرو کیونکہ وہ مشرکین ہیں۔" (لفظ الطبرانی)

امام احمد کے الفاظ ہیں:
"عن الحجاج بن تميم، عن ميمون بن مهران، عن ابن عباس قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: «يكون في آخر الزمان قوم ينبزون الرافضة، يرفضون الإسلام ويلفظونه، فاقتلوهم فإنهم مشركون»"

یہ حدیث اس سند کے ساتھ ضعیف ومنکر ہے کیونکہ حجاج بن تمیم ضعیف راوی ہے (دیکھیں تقریب التہذیب: 1120)
نہ صرف یہ کہ وہ خود ضعیف ہے بلکہ اس کی میمون بن مہران سے روایت خصوصا مجروح ہے۔
چنانچہ امام ابن عدی فرماتے ہیں:
"يروي عَن ميمون بن مهران روايته عنه ليس بالمستقيم"
"حجاج نے میمون بن مہران سے روایت لی ہے اور اس کی میمون سے روایات غیر مستقیم ہیں۔" (الکامل لابن عدی: 2:528)
اسی طرح امام ابو جعفر العقیلی فرماتے ہیں:
"روى عنه أحاديث لا يتابع على شيء منها"
"حجاج نے میمون سے ایسی روایتیں بیان کی ہیں جن میں سے کسی کی بھی کوئی متابعت نہیں کی گئی۔" (الضعفاء الکبیر: 1:284)
تنبیہ: اس جرح کے فورا بعد امام عقیلی نے اسی زیرِ بحث روایت کو ذکر کیا ہے۔

جہاں تک علامہ ہیثمی کا اس کی سند کو حسن کہنے کا تعلق ہے تو یہ انہوں نے محض اپنے تساہل کی بنا پر اور امام ابن حبان کی حجاج کی توثیق پر اعتماد کرتے ہوئے کیا ہے، باوجود خود اس بات کو جانتے ہوئے کہ امام ابن حبان توثیق میں متساہل ہیں۔

چنانچہ یہ روایت اس سند کے ساتھ ضعیف ومنکر ہے۔
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,580
پوائنٹ
384
2- حدیث سیدنا علی رضی اللہ عنہ بطریق سیدنا حسن رضی اللہ عنہ

اس کو روایت کرتے ہیں:
  • امام احمد فی المسند (ح 807)
  • ابن ابی عاصم فی السنہ (ح 978)
  • عبد اللہ بن احمد فی السنہ (2:546،547)
  • البزار فی المسند (البحر الزخار: 499)
  • الآجری فی الشریعہ (1540)
  • ابن بشران فی الامالی (1:217)
  • البیہقی فی الدلائل النبوۃ (6:547)
  • الخطیب فی تلخیص المتشابہ، والموضح الاوہام، والتاریخ بغداد، وغیرہ۔
بطریق درج ذیل اسناد:
"عن أبو عقيل يحيى بن المتوكل، عن كثير النواء، عن إبراهيم بن حسن بن حسن بن علي بن أبي طالب، عن أبيه، عن جده، قال: قال علي بن أبي طالب، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " يظهر في آخر الزمان قوم يسمون الرافضة يرفضون الإسلام " (لفظ احمد)

تنبیہ # 1: اس روایت میں قتال کا ذکر نہیں ہے۔
تنبیہ # 2: بیہقی کی سند میں"ابو عقیل" مذکور کی جگہ "ابو سہل" درج ہے جو کہ غلطی ہے لہٰذا اسے ابو عقیل کی متابعت نہ سمجھا جائے۔

یہ سند درج ذیل علتوں کی وجہ سے ضعیف ہے:
پہلی: ابو عقیل یحیی بن المتوکل ضعیف الحدیث ہے:
امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں:
"هو واهي الحديث"
"وہ حدیث میں واہیات ہے" (الکامل: 9:39-40)
امام ابن عدی فرماتے ہیں:
"عَامَّةُ أحاديثه غير محفوظة"
"اس کی عام روایتیں غیر محفوظ ہیں" (الکامل 9:43)
البتہ عبد اللہ بن احمد کی السنہ میں ابو عقیل کی متابعت "ابو شہاب عبد ربہ بن نافع" نے کر رکھی ہے۔

دوسری: کثیر النواء بھی ضعیف الحدیث ہے:
امام ابو حاتم اور امام نسائی فرماتے ہیں:
"ضعيف الحديث"
"وہ ضعیف الحدیث ہے" (میزان الاعتدال 3:402)
بلکہ امام جوزجانی فرماتے ہیں:
"كثير النواء متروك"
"کثیر النواء متروک ہے" (احوال الرجال)۔

تیسری: ابراہیم بن الحسن بن الحسن بن علی بن ابی طالب "مجھول الحال" ہے۔
اسے سوائے ابن حبان (کتاب الثقات: 3:6) کے کسی نے ثقہ نہیں کہا ہے۔
اور حافظ ابن کثیر فرماتے ہیں:
"ليس بذلك المشهور في حاله"
"اس کا حال مشہور نہیں ہے۔" (البدایہ والنہایہ 6:89)
اور حافظ ہیثمی اس کی ایک روایت کے متعلق فرماتے ہیں:
"فيه من لم أعرفهم"
"اس سند میں ایسے راوی ہیں جنہیں میں نہیں جانتا" (مجمع الزوائد 9:185)۔
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,580
پوائنٹ
384
3- حدیث سیدنا علی رضی اللہ بطریق ابو عبد الرحمن السلمی

ابن ابی عاصم السنہ (979) میں اور الآجری الشریعہ (1538) میں روایت کرتے ہیں:
"عن أبو سعيد محمد بن أسعد التغلبي، حدثنا عبثر بن القاسم أبو زبيد، عن حصين بن عبد الرحمن، عن أبي عبد الرحمن السلمي، عن علي، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " سيأتي بعدي قوم لهم نبز يقال لهم: الرافضة، فإذا لقيتموهم فاقتلوهم، فإنهم مشركون ". قلت: يا رسول الله ما العلامة فيهم؟ قال: «يقرضونك بما ليس فيك، ويطعنون على أصحابي ويشتمونهم»"

یہ سند ابو سعید محمد بن اسعد التغلبی کی وجہ سے سخت ضعیف ہے۔
امام ابو زرعہ اس کے متعلق فرماتے ہیں:
"منكر الحديث" (الجرح والتعدیل: ج 7 ت 1152)۔
امام ابو جعفر العقیلی نے اسے اپنی ضعفاء میں ذکر کیا اور فرمایا:
"منكر الحديث" (4:30)۔
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,580
پوائنٹ
384
4- حدیث سیدنا علی رضی اللہ عنہ بطریق ابو سلیمان الہمذانی عن رجل عنہ

عبد اللہ بن احمد السنہ (2:547) میں اور ابن عساکر اپنی تاریخ (42:335) میں روایت کرتے ہیں:
"عن أبي جناب الكلبي، عن أبي سليمان الهمذاني أو النخعي، عن عمه، عن علي رضي الله عنه قال: قال لي النبي صلى الله عليه وسلم: «يا علي أنت وشيعتك في الجنة وإن قوما لهم نبز يقال له الرافضة إن أدركتهم فاقتلهم فإنهم مشركون»"

یہ روایت سخت ضعیف ہے۔ اس میں درج ذیل علتیں پائی جاتی ہیں:
پہلی: ابو سلیمان الہمذانی اس روایت کو اپنے استاد سے روایت کرنے میں کافی اضطراب کا شکار ہے۔
چنانچہ اسی روایت کو ابو بکر السلمانی نے "جزء فیہ من حدیث ابی بکر" (20) میں اور ابن بشران نے امالی (1:217، 218) میں اسے ابو سلیمان الہمذانی سے روایت کیا لیکن اس میں "عمه" کی جگہ "أبيه" مذکور ہے۔
اور اسی روایت کو ابن الاعربی نے اپنی معجم (1539) میں روایت کیا ہے اور اس میں ابو سلیمان اسے براہ راست سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت کرتا ہے۔
اسی طرح ایک دوسری جگہ پر ابن الاعربی (250، 1540) نے اوراللالکائی نے شرح اصول الاعتقاد (2803) میں اس روایت کو نقل کیا ہے اور اس میں ابو سلیمان نے اسے "عن رجل عن علي" کے طریق سے روایت کیا ہے۔
الغرض ابو سلیمان اس روایت میں اضطراب کا شکار ہے۔

دوسری:
چاہے "عمه" ہو یا "أبيه" ہو یا "رجل" ہو۔ یہ راوی مجھول ہے۔

تیسری: ابو سلیمان خود بھی مجھول وغیر مقبول ہے۔
امام ذہبی فرماتے ہیں:
"لا يدري من هو كأبيه، وأتى بخبر منكر"
"اس کی اپنے باپ کی طرح کوئی خبر نہیں ہے کہ یہ کون ہے، اور اس نے ایک منکر روایت بیان کی ہے۔" (میزان الاعتدال 4:533)۔
غالبا امام ذہبی اسی روایت کی بات کر رہے ہیں۔

چوتھی: ابو جناب الکلبی بھی ضعیف ہے۔
امام احمد فرماتے ہیں:
"أحاديثه مناكير" (العلل روایۃ عبد اللہ: 4473)
امام یعقوب بن سفیان الفسوی فرماتے ہیں:
"ضعيف، وكان يدلس" (المعرفہ والتاریخ 3:108)۔
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,580
پوائنٹ
384
5- حدیث سیدنا علی رضی اللہ عنہ بطریق کیسان

امام لالکائی روایت کرتے ہیں:
"أنا محمد بن عبد الرحمن، أنا عبيد الله بن محمد البغوي، قال: نا سويد بن سعيد، قال: نا مروان بن معاوية، عن حماد بن كيسان، عن أبيه، وكانت تحته سرية لعلي، سمعت عليا يقول: يكون في آخر الزمان قوم لهم نبز يسمون الرافضة يرفضون الإسلام فاقتلوهم، فإنهم مشركون" (شرح اصول الاعتقاد: 2806)

یہ روایت درج ذیل علتوں کی وجہ سے سخت ضعیف ہے:
پہلی: سوید بن سعید مختلف فیہ ہے۔ اگر اسے ثقہ بھی تسلیم کیا جائے تو بھی ہر کوئی اس بات پر متفق ہے کہ اپنی آخری عمر میں سعید اندھے پن کی وجہ سے مختلط ہو گیا تھا اور لوگوں کی تلقین قبول کرنے لگا تھا۔
چنانچہ امام بخاری فرماتے ہیں:
"سويد بن سعيد فيه نظر، كان أعمي فيلقن ما ليس من حديثه"
"سوید بن سعید میں نظر ہے، وہ اندھا ہو گیا تھا جس کے بعد وہ ایسی تلقین بھی قبول کر لیا کرتا تھا جو اس کی روایت میں سے نہیں تھی" (تاریخ الکبیر 2:262)۔
اور اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ ابو القاسم البغوی نے سوید سے اس کے اختلاط کے پہلے سنا ہے۔

دوسری: مروان بن معاویہ بھی مختلف فیہ ہے لیکن اس کی روایت صرف اسی وقت صحیح ہو گی جب وہ معروف لوگوں سے روایت کرے۔
امام عجلی فرماتے ہیں:
"ثقة ثبت، ما حدث عَنِ المعروفين فصحيح، وما حدث عَنِ المجهولين ففيه ما فيه وليس بشيءٍ"
"وہ ثقہ ثبت ہے۔ جو روایت وہ معروف لوگوں سے روایت کرے تو صحیح ہوتی ہے اور جو روایت وہ مجھول لوگوں سے روایت کرے تو اس میں غلط چیزیں شامل ہوتی ہیں اور اس کی ان روایتوں کی کوئی وقعت نہیں۔" (الثقات: ص 50)
اور امام ابو حاتم الرازی فرماتے ہیں:
"وتكثر روايته عَنِ الشيوخ المجهولين"
"وہ کثرت سے مجھول شیوخ سے روایتیں لیتا ہے" (الجرح والتعدیل: ج 8 ت 1246)
اور یہی حال اس کی اس روایت میں بھی ہے لہٰذا یہاں وہ حجت نہیں ہے۔
اور اس کے ساتھ وہ مدلس بھی تھا۔ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں:
"كان يدلس أسماء الشيوخ" (تقریب: 6575)۔

تیسری: حماد بن کیسان مجھول الحال ہے اور سوائے ابن حبان (کتاب الثقات 5:136) کے کسی نے اس کی توثیق نہیں کی ہے۔

چوتھی: حماد کا باپ، کیسان تو اپنے بیٹے سے بھی بُری حالت میں ہے کیونکہ وہ مجھول العین ہےاور اس کا کوئی ترجمہ کہیں کسی کتاب میں موجود نہیں ہے۔ اور اس سے سوائے اس کے بیٹے کے کوئی روایت نہیں کرتا۔
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,580
پوائنٹ
384
6- حدیث سیدنا علی رضی اللہ عنہ بطریق شعبی

امام ابو نعیم الاصبھانی روایت کرتے ہیں:
"حدثنا أبو أحمد محمد بن أحمد قال: ثنا علي بن إسماعيل الصفار البغدادي، قال: حدثني أبو عصمة عصام بن الحكم العكبري قال: ثنا جميع بن عبد الله البصري، قال: ثنا سوار الهمداني، عن محمد بن جحادة، عن الشعبي، عن علي، قال: قال لي النبي صلى الله عليه وسلم: «وإنك شيعتك في الجنة، وسيأتي قوم لهم نبز يقال لهم الرافضة، فإذا لقيتموهم فاقتلوهم؛ فإنهم مشركون»"

یہ سند موضوع ومن گھڑت ہے۔ اس میں درج ذیل علتیں ہیں:
پہلی: عصام بن الحکم ابو عصمہ مجھول الحال ہے۔ امام خطیب بغداد نے اسے اپنی تاریخ (14:229) میں بغیر کسی جرح یا تعدیل کے ذکر کیا ہے۔

دوسری: جمیع بن عبد اللہ البصری کا صحیح نام "جمیع بن عمر بن سوار البصری" ہے (دیکھیں تاریخ بغداد 14:229، الموضوعات لابن الجوزی 1:397، اور میزان الاعتدال 1:421)۔ اور اس کے متعلق امام ذہبی فرماتے ہیں:
"متروك" (میزان 1:421)۔

تیسری: سوار الہمدانی بھی سخت ضعیف متروک ومتہم بالوضع راوی ہے۔
امام ابن حبان فرماتے ہیں:
"كان ممن يأتي بالمناكير عن المشاهير حتى يسبق إلى القلب أنه كان المتعمد لها"
"وہ ان میں سے ہے جو مشہور راویوں سے منکر روایتیں نقل کرتے ہیں حتی کہ دل میں یہ گمان ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ایسا جان بوجھ کر کرتا ہے" (المجروحین 1:356)۔
امام بخاری فرماتے ہیں:
"منكر الحديث" (تاریخ الکبیر 4:169)۔
امام نسائی وغیرہ فرماتے ہیں:
"متروك" (میزان الاعتدال 2:246)۔

چوتھی: سوار بن مصعب اس روایت میں شدید اضطراب کا شکار ہے جیسا کہ نیچے سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کے تحت ذکر کیا گیا ہے۔

اسی لئے امام ابن الجوزی نے اس روایت کو اپنی موضوعات (1:397) میں ذکر کیا ہے۔
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,580
پوائنٹ
384
7- حدیث سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا

امام ابو یعلی الموصلی اپنی مسند (6749) میں روایت کرتے ہیں:
"حدثنا أبو سعيد الأشج: حدثنا ابن إدريس عن أبي الجحاف داود بن أبي عوف عن محمد ابن عمرو الهاشمي عن زينب بنت علي عن فاطمة بنت محمد قالت: نظر النبي صلى الله عليه وسلم إلى علي فقال: هذا في الجنة - يعني: علياً - وإن من شيعته قوماً يعلمون الإسلام ثم يرفضونه، لهم نبز يسمون: الرافضة، من لقيهم فليقتلهم، فإنهم مشركون"

حافظ ہیثمی اس روایت کے متعلق فرماتے ہیں:
"رجاله ثقات، إلا أن زينب بنت علي لم تسمع من فاطمة فيما أعلم والله أعلم"
"اس کے تمام رواۃ ثقہ ہیں الا یہ کہ زینب بنت علی نے میرے علم کے مطابق فاطمہ سے نہیں سنا، واللہ اعلم" (مجمع الزوائد 10:22)۔

البتہ اس روایت کا ضعف محض ایک انقطاع جتنا ہلکا نہیں ہے بلکہ اس سے کہیں زیادہ ہے۔ ہیثمی نے اس سند کے رواۃ کو محض ابو یعلی کی سند کو مد نظر رکھتے ہوئے ہی ثقہ کہہ دیا ہے جس میں "ابن ادریس" اس کے ایک راوی کے طور پر مذکور ہے۔ لیکن یہ نام یہاں پر غلط لکھا گیا ہے اور اسی لئے ہیثمی نے اس کی توثیق کر دی ہے۔

اصل نام "ابن ادریس" نہیں بلکہ "ابو ادریس" ہے، اور اس ابو ادریس سے مراد "تلید بن سلیمان" ہے۔ یہی وہ راوی ہے جو ابو الجحاف سے روایت کرتا ہے اور اس سے ابو الاشج نے روایت لی ہے۔ جہاں تک "ابن ادریس" کا تعلق ہے تو اس کا ابو الجحاف سے کچھ بھی روایت کرنا ثابت نہیں ہے۔

امام ابن حبان فرماتے ہیں:
"تليد بن سليمان، كنيته: (أبو إدريس) الكوفي، روى عن أبي الجحاف داود ابن أبي عوف روى عنه الكوفيون، وكان رافضياً يشتم أصحاب محمد صلى الله عليه وسلم، وروى في فضائل أهل البيت عجائب، وقد حمل عليه ابن معين حملاً شديداً، وأمر بتركه ..."
"تلید بن سلیمان: اس کی کنیت ابو ادریس ہے اور وہ کوفی ہے۔ وہ ابو الجحاف داود بن ابی عوف سے روایت کرتا ہے اور اس سے اہل کوفہ روایت کرتے ہیں۔ وہ ایک رافضی تھا جو اصحاب محمد ﷺ کو بُرا بھلا کہتا تھا۔ اس نے اہل بیت کے فضائل میں عجیب وغریب روایتیں بیان کی ہیں۔ امام ابن معین نے اس پر شدید جرح کی ہے اور اس کو ترک کرنے کا حکم دیا ہے" (المجروحین 1:204-205)۔

اس کے فوران بعد امام ابن حبان نے اس کی اسی روایت کو نقل کیا ہے جس میں اس کا مکمل نام درج ہے، چنانچہ آپ فرماتے ہیں:
"حدثناه محمد بن عمرو بن يوسف: ثنا أبو سعيد الأشج: ثنا تليد بن سليمان عن أبي الجحاف"
اور ابن حبان کے طریق سے اس کو ابن الجوزی نے بھی العلل المتناہیہ (1:159-160) میں ذکر کیا ہے اور فرمایا ہے:
"لايصح عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال أحمد وابن معين: (تليد) كذاب"
"یہ روایت رسول اللہﷺ سے ثابت نہیں ہے۔ امام احمد اور ابن معین فرماتے ہیں کہ تلید کذاب ہے"۔
اس سے معلوم ہوا کہ ابو یعلی کی سند میں غلطی ہے اور اس میں "ابن ادریس" کی جگہ "ابو ادریس" آنا چاہیے تھا اور ابو ادریس کا پورا نام تلید بن سلیمان ہے۔

بلکہ امام ابن عساکر نے بھی اپنی تاریخ (69:174) میں ابو یعلی کی اس سند کو بعینہ نقل کیا ہے اور اس کے ساتھ ہی امام ابن عساکر نے اس غلطی کی تصحیح کرتے ہوئے فرمایا:
"وإنما هو أبو إدريس وهو تليد بن سليمان"
"اور یہ (یعنی ابن ادریس) اصل میں ابو ادریس ہے جس کا نام تلیس بن سلیمان ہے"۔

لہٰذا یہ سند تلید بن سلیمان کذاب کی وجہ سے موضوع ہے اور اس میں انقطاع بھی موجود ہے جیسا کہ ہیثمی نے اشارہ کیا ہے۔

نیز دیکھئے سلسلۃ الضعیفہ: 6541۔
تنبیہ: بعض دوسری ایسی اسانید موجود ہیں جن میں بظاہر تلید کی متابعت کی گئی ہے لیکن نہ صرف وہ تمام متابعات ضعیف اسانید سے مروی ہیں بلکہ ان میں سے کوئی بھی اسناد خود متابع تک ہی صحیح سند سے نہیں پہنچتی، لہٰذا وہ تلید کی متابعات نہیں بن سکتیں۔ البتہ سوار سے اس کی ایک متابعت ثابت ہے لیکن سوار خود متہم راوی ہے اور اس نے شدید اضطراب کیا ہے، دیکھئے حدیث سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا۔
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,580
پوائنٹ
384
8- حدیث سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا

امام ابن ابی عاصم السنہ (980) میں روایت کرتے ہیں:
"حدثنا محمد بن عوف، ثنا بكر بن خنيس، حدثنا سوار بن مصعب، عن داود بن أبي عوف، عن فاطمة بنت علي، عن فاطمة الكبرى، عن أسماء بنت عميس، عن أم سلمة، قالت: كانت ليلتي، وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم عندي فجاءت إلي فاطمة مسلمة، فتبعها علي، فرفع رسول الله صلى الله عليه وسلم رأسه، فقال: " أبشر يا علي، أنت وأصحابك في الجنة، إلا أن ممن يزعم أنه يحبك، قوم يرفضون الإسلام، يلفظونه، يقال لهم: الرافضة، فإذا لقيتهم فجاهدهم، فإنهم مشركون ". قلت: يا رسول الله، ما العلامة فيهم؟ قال: «لا يشهدون جمعة، ولا جماعة، ويطعنون على السلف»"

یہ روایت درج ذیل علتوں کی وجہ سے موضوع ومضطرب ہے:
پہلی: مصعب بن سوار الہمدانی متروک ومتہم راوی ہے جیسا کہ اوپر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی حدیث بطریق شعبی کے تحت ذکر کیا گیا ہے۔

دوسری: بکر بن خنیس بھی ضعیف ہے۔ امام ذہبی اس کے متعلق فرماتے ہیں:
"واه" (الکاشف)۔

تیسری: مصعب نے اس روایت میں کافی اضطراب کیا ہے۔
وہ کبھی اس روایت کو "عن ابو الجحاف عن فاطمہ" کے طریق سے روایت کرتا ہے جیسا کہ اس سند میں مذکور ہے۔
کبھی وہ اسے "عن عطیہ العوفی عن ابو سعید" کے طریق سے روایت کرتا ہے (معجم الاوسط: 6605، والشریعہ للآجری: 1535)۔
کبھی وہ اسے "عن ابو الجحاف عن محمد بن عمرو الہاشمی" کے طریق سے روایت کرتا ہے (دیکھئے الجزء العاشر لابی الفتح ابن ابی الفوارس: 39)۔
تو کبھی وہ اسے "عن محمد بن جحادہ عن الشعبی عن علی" کے طریق سے روایت کرتا ہے (دیکھئے حدیث سیدنا علی بطریق شعبی)۔

اتنے شدید ضعف واضطراب کے بعد اس روایت کے موضوع ومن گھڑت ہونے میں کوئی شک نہیں رہتا۔
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,580
پوائنٹ
384
9- حدیث سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ

امام ابو بکر الآجری روایت کرتے ہیں:
"أنبأنا أبو محمد عبد الله بن صالح البخاري قال: حدثنا القاسم بن أبي بزة قال: حدثنا محمد بن معاوية قال: حدثنا يحيى بن سابق المديني , عن زيد بن أسلم , عن أبيه , عن ابن عمر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " يا علي , أنت في الجنة ثلاثا قالها وسيأتي من بعدي قوم لهم نبز , يقال لهم: الرافضة فإذا لقيتهم فاقتلهم فإنهم مشركون " قال: وما علامتهم يا رسول الله؟ . قال: «لا يرون جمعة ولا جماعة , يشتمون أبا بكر وعمر»" (الشریعہ 5:2513)

یہ سند درج ذیل علتوں کی وجہ سے موضوع ہے:
پہلی: قاسم بن ابی برزہ ضعیف الحدیث ہے۔
امام ابو زرعہ فرماتے ہیں:
"وهو ضعيف الحديث" (تاریخ الاسلام 5:1069)۔
امام عقیلی فرماتے ہیں:
"منكر الحديث، يوصل الأحاديث" (ایضا)۔

دوسری: محمد بن معاویہ بن اعین کذاب اور وضاع الحدیث راوی ہے۔
امام احمد وابن معین فرماتے ہیں:
"هو كذاب" (ضعفاء العقیلی: 1709)۔
امام دارقطنی فرماتے ہیں:
"كان بمكة يضع الحديث، متروك"
"وہ مکہ میں حدیثیں گھڑا کرتا تھا، وہ متروک راوی ہے" (سؤالات البرقانی: 456)۔

تیسری: یحیی بن سابق المدینی بھی جھوٹا اور متروک راوی ہے۔
امام ابن حبان فرماتے ہیں:
"كان ممن يروي الموضوعات عن الثقات"
"وہ ثقہ راویوں سے موضوع روایتیں نقل کرتا تھا۔" (المجروحین 3:114)
امام دارقطنی فرماتے ہیں:
"متروك" (لسان المیزان 8:441)۔

لہٰذا یہ روایت بھی اپنے جیسی دوسری روایتوں کی طرح موضوع ومن گھڑت ہے۔
 
Last edited:
Top