7- حدیث سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا
امام ابو یعلی الموصلی اپنی مسند (6749) میں روایت کرتے ہیں:
"
حدثنا أبو سعيد الأشج: حدثنا ابن إدريس عن أبي الجحاف داود بن أبي عوف عن محمد ابن عمرو الهاشمي عن زينب بنت علي عن فاطمة بنت محمد قالت: نظر النبي صلى الله عليه وسلم إلى علي فقال: هذا في الجنة - يعني: علياً - وإن من شيعته قوماً يعلمون الإسلام ثم يرفضونه، لهم نبز يسمون: الرافضة، من لقيهم فليقتلهم، فإنهم مشركون"
حافظ ہیثمی اس روایت کے متعلق فرماتے ہیں:
"
رجاله ثقات، إلا أن زينب بنت علي لم تسمع من فاطمة فيما أعلم والله أعلم"
"اس کے تمام رواۃ ثقہ ہیں الا یہ کہ زینب بنت علی نے میرے علم کے مطابق فاطمہ سے نہیں سنا، واللہ اعلم" (مجمع الزوائد 10:22)۔
البتہ اس روایت کا ضعف محض ایک انقطاع جتنا ہلکا نہیں ہے بلکہ اس سے کہیں زیادہ ہے۔ ہیثمی نے اس سند کے رواۃ کو محض ابو یعلی کی سند کو مد نظر رکھتے ہوئے ہی ثقہ کہہ دیا ہے جس میں "ابن ادریس" اس کے ایک راوی کے طور پر مذکور ہے۔ لیکن یہ نام یہاں پر غلط لکھا گیا ہے اور اسی لئے ہیثمی نے اس کی توثیق کر دی ہے۔
اصل نام "ابن ادریس" نہیں بلکہ "ابو ادریس" ہے، اور اس ابو ادریس سے مراد "تلید بن سلیمان" ہے۔ یہی وہ راوی ہے جو ابو الجحاف سے روایت کرتا ہے اور اس سے ابو الاشج نے روایت لی ہے۔ جہاں تک "ابن ادریس" کا تعلق ہے تو اس کا ابو الجحاف سے کچھ بھی روایت کرنا ثابت نہیں ہے۔
امام ابن حبان فرماتے ہیں:
"
تليد بن سليمان، كنيته: (أبو إدريس) الكوفي، روى عن أبي الجحاف داود ابن أبي عوف روى عنه الكوفيون، وكان رافضياً يشتم أصحاب محمد صلى الله عليه وسلم، وروى في فضائل أهل البيت عجائب، وقد حمل عليه ابن معين حملاً شديداً، وأمر بتركه ..."
"تلید بن سلیمان: اس کی کنیت ابو ادریس ہے اور وہ کوفی ہے۔ وہ ابو الجحاف داود بن ابی عوف سے روایت کرتا ہے اور اس سے اہل کوفہ روایت کرتے ہیں۔ وہ ایک رافضی تھا جو اصحاب محمد ﷺ کو بُرا بھلا کہتا تھا۔ اس نے اہل بیت کے فضائل میں عجیب وغریب روایتیں بیان کی ہیں۔ امام ابن معین نے اس پر شدید جرح کی ہے اور اس کو ترک کرنے کا حکم دیا ہے" (المجروحین 1:204-205)۔
اس کے فوران بعد امام ابن حبان نے اس کی اسی روایت کو نقل کیا ہے جس میں اس کا مکمل نام درج ہے، چنانچہ آپ فرماتے ہیں:
"
حدثناه محمد بن عمرو بن يوسف: ثنا أبو سعيد الأشج: ثنا تليد بن سليمان عن أبي الجحاف"
اور ابن حبان کے طریق سے اس کو ابن الجوزی نے بھی العلل المتناہیہ (1:159-160) میں ذکر کیا ہے اور فرمایا ہے:
"
لايصح عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال أحمد وابن معين: (تليد) كذاب"
"یہ روایت رسول اللہﷺ سے ثابت نہیں ہے۔ امام احمد اور ابن معین فرماتے ہیں کہ تلید کذاب ہے"۔
اس سے معلوم ہوا کہ ابو یعلی کی سند میں غلطی ہے اور اس میں "ابن ادریس" کی جگہ "ابو ادریس" آنا چاہیے تھا اور ابو ادریس کا پورا نام تلید بن سلیمان ہے۔
بلکہ امام ابن عساکر نے بھی اپنی تاریخ (69:174) میں ابو یعلی کی اس سند کو بعینہ نقل کیا ہے اور اس کے ساتھ ہی امام ابن عساکر نے اس غلطی کی تصحیح کرتے ہوئے فرمایا:
"
وإنما هو أبو إدريس وهو تليد بن سليمان"
"اور یہ (یعنی ابن ادریس) اصل میں ابو ادریس ہے جس کا نام تلیس بن سلیمان ہے"۔
لہٰذا یہ سند تلید بن سلیمان کذاب کی وجہ سے موضوع ہے اور اس میں انقطاع بھی موجود ہے جیسا کہ ہیثمی نے اشارہ کیا ہے۔
نیز دیکھئے سلسلۃ الضعیفہ: 6541۔
تنبیہ: بعض دوسری ایسی اسانید موجود ہیں جن میں بظاہر تلید کی متابعت کی گئی ہے لیکن نہ صرف وہ تمام متابعات ضعیف اسانید سے مروی ہیں بلکہ ان میں سے کوئی بھی اسناد خود متابع تک ہی صحیح سند سے نہیں پہنچتی، لہٰذا وہ تلید کی متابعات نہیں بن سکتیں۔ البتہ سوار سے اس کی ایک متابعت ثابت ہے لیکن سوار خود متہم راوی ہے اور اس نے شدید اضطراب کیا ہے، دیکھئے حدیث سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا۔