• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

رفیق بھائی! آج آپ یتیم ہوگئے

رفیق طاھر

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 04، 2011
پیغامات
790
ری ایکشن اسکور
3,980
پوائنٹ
323
رفیق بھائی !آج آپ یتیم ہوگئے !

٤ ربیع الثانی ١٤٣٣ھ کی فجر طلوع ہوتے ہی اک آفتاب علم وعرفاںغروب ہوگیا ۔ وہ مجتہد مطلق، فقیہ وقت ، محدث عصر، اصولی وحید ،صاحب طرز ادیب کہ جسے دنیا حافظ عبد المنان نورپوری کے نام سے جانتی ہے ، ہمیں دردِ ناگہاں سے آشنا کرکے جنت خلد کی جانب محو پرواز ہوگیا ۔ صبح صادق ہوتے ہی یہ خبر ملتان تک آن پہنچی کہ آج وہ ہستی ہم سے بچھڑگئی کہ جس کی موجودگی میں ہمیں کسی باطل پرست کے دجل ومکر کا خوف نہ تھا۔ فتنہ پروروں کے دام ِہمرنگِ زمیں کو صرف ایک پھونک سے جھونک کر حق کا نقارہ بجادینے والا، ہمیں داغ مفارقت دے گیا ۔ انکی وفات کی خبر سنتے ہی زباں سے بے اختیار نکلا :[FONT=_pdms_saleem_quranfont]انا للہ ونا لیہ راجعون ، إن العین تدمع ، والقلب یحزن ، ولانقول لا مایرضی ربنا ، وإنا بفراقک یا عبد المنان ! لمحزونون
۔
استاذ محترم حافظ عبدا لمنان نورپوری رحمہ اللہ کی وفات اک عجب قیامت ڈھاگئی ۔ ہم نے نماز فجر ادا کرنے کے بعد رخت سفر باندھا اور انکا آخری حق ادا کرنے کے لیے محو سفر ہوئے ، دوران سفر زباں پر باربار یہ اشعار بے اختیار جاری ہو رہے تھے :
عجب قیامت کا حادثہ ہے کہ اشک ہے آستیں نہیں ہے
زمیں کی رونق چلی گئی ہے،افق پہ مہر مبیں نہیں ہے

تری جدائی میں مرنے والے ،وہ کون ہے جو حزیں نہیں ہے
مگر تیری مرگ ناگہاں کا مجھے ابھی تک یقیں نہیں ہے !

اگرچہ حالات کا سفینہ اسیر گرداب ہو چکا ہے
اگرچہ منجدھار کے تھپیڑوں سے قافلہ ہوش کھو چکا ہے

اگرچہ قدرت کا ایک شہکار آخری نیند سوچکا ہے
مگر تری مرگ ناگہاں کا مجھے ابھی تک یقیں نہیں ہے !

کئی دماغوں کا ایک انساں ،میں سوچتا ہوں کہاں گیا ہے ؟
قلم کی عظمت اجڑ گئی ہے ،زباں کا زور بیاں گیا ہے

اترگئے منزلوں کے چہرے ، امیر کیا ؟ کارواں گیا ہے
مگر تری مرگ ناگہاں کا مجھے ابھی تک یقیں نہیں ہے !
اور یوں محسوس ہو رہا تھا کہ شاید یہ اشعار آج ہی معرض وجو د میں آرہے ہیں کہ انکا مصداق میری زندگی میں حافظ صاحب ہی تھے ۔ ہر فن میں یکتا ، ہر علم میں کامل،انتہائی مختصر اور جامع ومانع الفاظ میں اپنا مدعا بیان کرنے کے ماہر ، انداز بیاں ایسا پر اثر کہ ہزاروں سوالوں کا جواب انکے اک مختصر سے جملہ میں پہناں ،رعب وجلال ایسا کہ بڑے بڑے علماء ، مناظر ، اور قادر الکلام افراد کی زبانیں بھی گویا قوت گویائی سے عاری کہ :
زبانیں کاٹ کے بیٹھیں کہیں ایسا نہیں ہوتا
یہ تیری بزم ہے حافظ جہاں ایسا بھی ہوتا ہے
جو کہہ دیا بس وہی حرف آخر ، اگر کسی نے اعتراض کی جسارت کر بھی لی تو اس جرأت سے ایسا محروم ہوا کہ اس مسئلہ کے بارہ کبھی اعتراض نے جنم ہی نہ لیا ۔ایسی جامع الصفات ہستی کہ شاید انہی کے بارہ میںکسی نے کہا تھا:
جان کر من جملہ خاصان میخانہ مجھے
مدتوں رویا کریں گے جام وپیمانہ مجھے
دوران سفر مختلف قافلے اسی سمت رواں دواں نظر آئے ہر کسی کو وقت پر پہنچتے کی جلدی تھی ۔ خیر جب ہم جامعہ محمدیہ گوجرانوالہ پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ عوام کا اک سیل بلاپہلے سے موجود ہے جبکہ ہم بہت سوں کو راستے میں پیچھے چھوڑ آئے تھے ۔ جناح پارک کا وسیع میدان ، اپنی ساری وسعتوں کے باوجود تنگی داماں کا شاکی نظر آیا ۔ اور قابل ذکر بات یہ کہ اس عظیم اجتماع میں زیادہ تعداد علماء و طلباء کی تھی ۔ اور شاید ارض پاکستان کے سینے پر اسقدر علماء پہلے کبھی جمع نہ ہوئے ہوں ۔ اور یہ سبھی اک عجب بے چینی کا شکار ، رنج والم کے مارے ، فرقت محبوب کے ستائے ہوئے ، غموں کے چرکے کھائے ہوئے نماز جنازہ کے انتظار میں ہیں ۔ اور بزبان حال کہہ رہے ہیں :
ہمیں چھوڑ کر وہ کہاں چل دیا
انہیں ڈھونڈتا ہے دل داغدار

ادھر سرنگوں گردش آسماں
اُدھر مضحمل روح لیل ونہار

قیامت کی ساعت قریب آ گئی
زمیں دل گرفتہ فلک اشکبار

یکایک افق سے غروب ہوگیا
وہ مہر منیر شہِ روزگار

رسالت کے عہد مقدس کا چاند
صحابہ کی اس دور میں یادگار​

جونہی چاربجتے ہیں فورا صفیں درست کرنے کا اعلان ہوتا ہے ۔ اگلی سے اگلی صف تک پہنچنے کی سعی میں بہت سے لوگ رفیقان سفر کی حسیں صحبت سے محرومیوں کاشکار ہوکر بھی شان بے نیازی سے مزید آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں ۔ حافظ عبد السلام بن محمد حفظہ اللہ کی لرزیدہ آواز سے نماز جنازہ کا آغاز ہوتا ہے ۔ سسکیوں آہوں اور آنسوؤں کا ایک دم اک سلسلہ بندھتا ہے ۔ہرکوئی پرنم آنکھیں لیے رب کے حضورحافظ صاحب پر مغفرت ورحمت کی برکھا کا طلبگار ہوجاتاہے ۔ نماز جنازہ کی ادائیگی کے بعد جب پیچھے نظر اٹھائی اور ٹوٹے دلوں ، اشکبار نینوں ، تھراتے لبوں ، بے اختیار نالوں،اور لڑکھڑاتے قدموں کو لیے الم دیدہ پاسبان علم وعمل کو رونق محفل دیکھا تو رفیق دل زباں بے ساختہ بول اٹھی :
یہ کون اٹھا کہ دیر وکعبہ شکستہ دل ، خستہ گام پہنچے
جھکا اپنے دلوں کے پرچم ، خواص پہنچے، عوام پہنچے
تری لحد پہ خدا کی رحمت ، تری لحد کو سلام پہنچے

چشم عقیدت سے شبنمی موتی بچھاتے علماء کرام کی اک بڑی تعداد یہاںموجود تھی ۔جنازہ سے فارغ ہوتے ہی ان مشایخ عظام سے ملاقات کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے ۔ گوجرانوالہ کے اہل علم کے علاوہ دیگر بہت سے شیوخ کے ساتھ ملاقات کا موقع ملا جن میں قاری ابراہیم میر محمدی ، مولانا عبد اللہ امجد چھتوی ، حافظ مسعود عالم ، حافظ عبد الغفار مدنی ، شیخ زبیر علی زئی اور دیگر اہل علم شامل ہیں ۔ مختصر ملاقاتوں میں چند تعزیتی جملوں کا تبادلہ ہوتا اور ایک نئے مینارہ نور کیطرف قدم اٹھنے لگتے ہر کوئی یہی کہتا سنائی دیتا ہے:
بہت سے آنسو مچل رہے ہیں ، مگر کوئی آستیں نہیں ہے
میں اس چمن میں کچھ اس طرح ہوں ، نہ ہمنوا ہے ، نہ ہمنشیں ہے

خلا سا محسوس ہو رہا ہے، وہی فلک ہے وہی زمیں ہے
وہ بالیقیں اٹھ گیا ہے ، لیکن مجھے ابھی تک یقیں نہیں ہے

اس دوران محترم جناب زبیر علی زئی صاحب سے ملاقات ہوئی تو وہ مجھے دیکھتے ہی فرمانے لگے 'رفیق بھائی آج آپ یتیم ہوگئے ہیں ! ۔
اوریقینا انکی بات بالکل درست تھی کہ آج وہ چراغ علم وعرفاں گل ہو چکا تھا جسکی ضوء میں ہم پروانوں کیطرح جلتے تھے۔ وہ مہتاب ماند پڑ چکا تھا جسکی تابشوںسے آسمان فکرودانش پر کئی سورج ابھرتے تھے اور کئی صبحیں بکھرتی تھیں۔ وہ پھول مرجھا چکا تھا کہ جس کے تعطر سے ذہنوں،امنگوں اور خیالوں میں چمن کھلا کرتے تھے۔ حافظ صاحب رحمہ اللہ کے ساتھ راقم کا ایک خاص تعلق تھا اور جامعہ سے فراغت کے بعد بھی ان سے کسب فیض کا سلسلہ انکی وفات تک جاری وساری رہا ۔ اور اب ہم اس فیض سے محروم ہوچکے تھے ۔
حافظ صاحب رحمہ اللہ کے ساتھ بہت سی مختصر اور کچھ طویل ملاقاتیں انکے گھر میں ہوتی رہیں جن میں صرف اور صرف حصول علم ہی مقصد ہوا کرتا تھا ۔ علمی وفنی بحثوں ، سوال وجواب اور حافظ صاحب کی دعاؤں کا سلسلہ اس وقت تک جاری وساری رہتا جب تک انکے پاس بیٹھتے رہتے ۔ ان ملاقاتوں میں سے کچھ بغرض افادہ قارئین کے لیے پیش کریں گے ۔ ان شاء اللہ تعالی۔
موصوف کی زندگی محدثین اولین کی زندگیوں کی طرح مثالی زندگی تھی ، کتاب وسنت پر مضبوطی سے عمل پیرا ہونے والے تھے ،اور ہر کسی کو اسی بات کی نصیحت فرماتے '' [FONT=_pdms_saleem_quranfont]اتبعوا ما أنزل لیکم من ربکم ولا تتبعوا من دونہ أولیاء[/FONT] '' (جو کچھ تمہاری طرف تمہارے رب کی طرف سے وحی کیا گیا ہے صرف اور صرف اس ہی کی پیروی کرو اور اسکے علاوہ دیگر اولیاء کی پیروی نہ کرو)۔کتاب وسنت کی نصوص کے مقابلہ میں کسی بھی ہستی کے قول وعمل کو کچھ بھی اہمیت نہ دیتے کہ:
دین کیا ہے؟ محمد مصطفی سے لیتا ہوں سبق
اس بلندی کے سوا میرا کوئی طغرا نہیں
اور سائل کو دلیل پیش کرکے چوں وچرا نہ کرنے دیتے ،اور دلیل کے سامنے سر تسلیم فورا خم کر دیتے ۔ محترم حافظ صاحب عموما تقاریب بخاری میں اپنی ایک نہایت عالی سند پڑھا کرتے تھے جس میں انکے اور امام بخاری کے مابین صرف چودہ واسطے بنتے تھے ۔ لیکن وہ سند مجاہیل وصوفیاء پر مشتمل تھی (1)۔ میں نے استاد محترم کو اس بارہ میں تقریبا بیس صفحات پر مشتمل سوالیہ انداز میں ایک تفصیلی خط لکھا جس میں اس سند کے سقم کو واضح کیا ۔ حافظ صاحب نے اسکے بعد پھر وہ سند کبھی نہیں پڑھی ، بلکہ اسکے بعد امام شوکانی کے واسطہ سے اتحاف الاکابر میں مذکور بخاری کی سب سے پہلی سند پڑھتے رہے (2)۔
جس بدھ کو حافظ صاحب پر فالج کا حملہ ہوا ،اتفاقا اسی دن صبح کے وقت حافظ صاحب سے میری ملاقات جامعہ محمدیہ گوجرانوالہ میں مولانا حافظ عمران عریف حفظہ اللہ ، مولانا حکیم عمر فاروق حفظہ اللہ اور مولانا عمر صدیق حفظہ اللہ کی معیت میں ہوئی ۔ اس مختصر سی ملاقات میںسلام دعاء کے بعد صرف حال احوال کاہی تبادلہ ہوا ، اور حافظ صاحب نے اپنی عادت کے مطابق مجھے گھر چلنے کو کہا تو میں نے عرض کیا کہ ہم لمبی مجلس کرنا چاہتے ہیں ۔ تو فرمانے لگے کہ میں نے ابھی سیالکوٹ جانا ہے وہاں پروگرام ہے شام کو واپسی ہوگی ۔اور پھر مغرب سے چند لمحے قبل فون پر ان سے رابطہ ہوا تو فرما رہے تھے کہ نماز ہم راستہ میں ہی ادا کریں گے ، کیونکہ ابھی سفر میں ہیں ۔ میں نے ان سے عشاء کی نماز کا وقت طے کر لیا ۔ لیکن اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھا ۔ عشاء سے کچھ پہلے ان پر فالج کا حملہ ہوگیا ۔ اور انہیں صدیق صادق ہسپتال میں پہنچا دیا گیا پھر اسکے بعد انہیں لاہور شیخ زاید ہسپتال میں منتقل کر دیا گیا ۔ وہاں ہم انکی عیادت کے لیے جمعرات کو پہنچے ۔ ان کے چہرے سے موت کے آثار نمایاں تھے ۔ اور وہ زبان حال سے کہہ رہے تھے :
فنا ہو جائیں گے ہم ، اور تم آنسو بہاؤ گے
ہمارے بعد ہم جیسے کہاں سے لوگ لاؤگے

ہم ایسا کو ئی خاک چمن سے شاذ اٹھے گا
پھروگے ڈھونڈتے لیکن ہمیں ہرگز نہ پاؤگے

غزالان چمن کے آنچلوں کی نرم چھاؤں میں
ہمارے ولولوں کے ریشمی پرچم اڑاؤ گے

ہم ایسے لوگ یاروآئے دن پیدا نہیں ہوتے
وفا کی آرزو لے کر ہمارے گیت گاؤ گے

جواب اس بات کا یاران چمن سوچنا ہوگا
کہ خاکوں پہ ہمارے کیسے تصویریں بناؤگے​

اور میرا خدشہ درست ثابت ہوا۔ اور یہ بطل اسلام چند دن بعد داعی اجل کو لبیک کہہ گیا ۔ [FONT=_pdms_saleem_quranfont]اللہم اغفرلہ ، وارحمہ، وعافہ ، واعف عنہ ، واکرم نزلہ، ووسع مدخلہ، وابدلہ دارا خیرا من دارہ، وأہلا خیرا من أہلہ، وزوجاخیرا من زوجہ، وأعذہ من فتنة القبر وعذاب النار۔[/FONT]


__________

(1)۔ وہ سند یہ تھی :[FONT=_pdms_saleem_quranfont]عبد المنان النورفوری نا حافظ محمد الکوندلوی، نا عبد المنان الوزیر آبادی ، عن عبد الحق البنارسی ، عن الامام الشوکانی، عن السید عبد القادر بن أحمد عن محمد بن الطیب عن محمد بن احمد الفاسی عن احمد بن محمد العجل عن القطب النہروالی عن أبی الفتوح عن بابا یوسف الہروی عن محمد بن شاذبخت عن یحیی بن عمار عن الفربری عن الإمام البخاری۔[/FONT]
اس سند کے اعتبار سے شیخ نوپوری رحمہ اللہ اور امام بخاری کے درمیان صرف چودہ واسطے تھے اور انکے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مابین ثلاثیات بخاری کے اعتبار سے اٹھارہ وسائط بنتے ہیں ۔ لیکن یہ سند انتہائی ضعیف ، مسلسل بالعلل ہے کیونکہ یہ صوفیاء ومجاہیل سے بھری پڑی ہے ۔اسی وجہ سے حافظ صاحب نے علم ہوتے ہی اسے بیان کرنا ترک فرما دیا تھا۔
(2)۔ وہ سند یوں ہے : [FONT=_pdms_saleem_quranfont]عبد المنان النورفوری نا حافظ محمد الکوندلوی، نا عبد المنان الوزیر آبادی ، عن عبد الحق البنارسی ، عن الامام الشوکانی عن علی بن براہیم ، عن حامد بن حسن الشاکر ، عن السید احمد بن عبد الرحمن الشامی، عن محمد بن حسن العجیمی ، عن أحمد بن محمد العجل الیمنی ، عن یحیی الطبری عن جدہ محب الطبری عن إبراہیم الدمشقی ، عن عبد الرحیم الفرغانی ، عن محمد الفارسینی ، عن یحیی بن عمار الختلانی ، عن محمد بن یوسف الفربری عن الامام البخاری ۔[/FONT]
شیخ نورپوری رحمہ اللہ کی اسکے علاوہ اور بھی بہت سی اسانید ہیں جنہیں ہم ''ثبت النورفوری'' میں حافظ صاحب کے کہنے پر جمع کیا ہے اور جلدی اسے شائع کریں گے ۔ ان شاء اللہ تعالی۔
[/FONT]
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
اللہ تعالی ان پر رحمت کی بارش فرمائے ۔
میں اگرچہ براہ راست ان سے کسب فیض نہیں کر سکا ۔ صرف ایک دفعہ ان کا خطبہ جمعہ سماعت کرنے کا شرف حاصل ہوا تھا ۔ البتہ ان کے مقالات اور فتاوی جات وغیرہ سے کچھ نہ کچھ استفادہ کرتا رہتا ہوں ۔
ان کی عبارات اور طرز استدلال سے ایک عبقری شخصیت اور عظیم عالم کا تصور ابھرتا ہے ۔
اللہ ہمیں بھی اسلاف کے طریقہ درس و تدریس پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے ۔
 

محمد زاہد بن فیض

سینئر رکن
شمولیت
جون 01، 2011
پیغامات
1,957
ری ایکشن اسکور
5,787
پوائنٹ
354
انا للہ و انا الیہ راجعون
اللہ رب العالمین حافظ صاحب کی مغفرت فرمائے۔آمین
اور انھیں جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے۔آمین
اوران کے درجات بلند فرمائے۔آمین
اور ان کی لغزشوں کو معاف فرمائے۔آمین
اور ان کی دینی کاوشوں کوقبول فرمائے۔آمین
اور ان کے لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔آمین
اور ان کی طرف سے پھیلائی ہوئی قرآن و سنت کی روشنی سے ہم سب کو منور فرمائے۔آمین
اور ان کی اولاد کو بھی ان کیلئے صدقہ جاریہ بنائے۔آمین
اللہ ان کی قبر کو منور فرمائے۔آمین
اللہ انھیں آخرت کی تمام آزمائشوں سے محفوظ فرمائے۔آمین
آمین یا رب العالمین ۔یا ارحم الرٰحمین۔یا احکم الحاکمین
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
عنوان اور اشعار کی عبارت صحیح نظر نہیں آ رہی ۔
یہ صرف میرے پاس کوئی خط ( فونٹ ) نہ ہونے کی وجہ سے ہے یا پھر سب کے پاس ہی ایسا ہے ؟
کلیم حیدر اور شاکر بھائی توجہ فرمائیں ۔
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
انا للہ و انا الیہ راجعون
اللہ رب العالمین حافظ صاحب کی مغفرت فرمائے۔آمین
اور انھیں جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے۔آمین
اوران کے درجات بلند فرمائے۔آمین
اور ان کی لغزشوں کو معاف فرمائے۔آمین
اور ان کی دینی کاوشوں کوقبول فرمائے۔آمین
اور ان کے لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔آمین
اور ان کی طرف سے پھیلائی ہوئی قرآن و سنت کی روشنی سے ہم سب کو منور فرمائے۔آمین
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
جن بھائیوں نے حافظ صاحب کے لئے دعا کی ہے۔ اللہ پاک ان سب کی دعا کو قبول فرما۔ اور ہمیں حافظ صاحب کے نقشے قدم پر چلنے کی توقیق عطا فرما۔
اللہ ہمیں رسول اللہ ﷺ کی پیروی کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین

نقشے قدم
نقش قدم
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
انا للہ و انا الیہ راجعون
اللہ رب العالمین حافظ صاحب کی مغفرت فرمائے۔آمین
اور انھیں جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے۔آمین
اوران کے درجات بلند فرمائے۔آمین
اور ان کی لغزشوں کو معاف فرمائے۔آمین
اور ان کی دینی کاوشوں کوقبول فرمائے۔آمین
اور ان کے لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔آمین
اور ان کی طرف سے پھیلائی ہوئی قرآن و سنت کی روشنی سے ہم سب کو منور فرمائے۔آمین
اور ان کی اولاد کو بھی ان کیلئے صدقہ جاریہ بنائے۔آمین
اللہ ان کی قبر کو منور فرمائے۔آمین
اللہ انھیں آخرت کی تمام آزمائشوں سے محفوظ فرمائے۔آمین
آمین یا رب العالمین ۔یا ارحم الرٰحمین۔یا احکم الحاکمین
آمین ثمہ آمین
 

رانا اویس سلفی

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
387
ری ایکشن اسکور
1,609
پوائنٹ
109
Top