Hina Rafique
رکن
- شمولیت
- اکتوبر 21، 2017
- پیغامات
- 282
- ری ایکشن اسکور
- 18
- پوائنٹ
- 75
رمضان کی آمد پر اس کی مبارکباد دینا اور سب سے پہلے خبر دینے والے کی فضیلت
اس میں دو چیزیں قابل وضاحت ہیں، جیسا کہ ٹائٹل سے واضح ہے :
1- رمضان المبارک کی آمد پر اس کی اطلاع دینا :
من أخبر بخبر رمضان أولا حرام عليه نار جهنم
''جو رمضان کی خبر سب سے پہلے دے گا اس پر جھنم حرام ہو جاتی ہے۔ ''
اس حدیث کی کیا حقیقت ہے؟
ایسی کوئی حدیث نہ کبھی سنی ہے ، نہ پڑھی ہے ، نہ ہی تلاش کرنے سے کسی کتاب میں ملی ہے ، بعض اہل علم سے بھی اس کےمتعلق سوال کیا گیا ہے ، انہوں نے لاعلمی کا اظہار کیا ہے ۔
واللہ اعلم۔
2- آمد پر مبارکباد دینا :
ایک دوسرے کو خبر دینا خوشی اور تحديث نعمت کے طور پر تو اس میں کوئی حرج نہیں، البتہ رسمی مبارکباد وغیرہ ثابت نہیں، واللہ اعلم۔اسی طرح جمعہ مبارک ، فجر مبارک ، ظہر مبارک ، عصر مبارک ۔۔۔ الخ کا بھی یہ یہی حکم ہے۔ سلف ان تکلفات سے بہت دور تھے۔ یہ خالص بندے اور رب کے معاملات ہیں۔
یاد رہے رمضان المبارک بطور صفت شہر رمضان ایک علیحدہ چیزہے، یہ مبارک مہینہ ہے.کسی وقت کا مبارک ہ۔ونا علیحدہ چیز ہے،جیسے لیلۃ القدر،لیلہ مبارکہ ہے، لیکن لیلۃ القدر کی مبارکباد پیش کرنا علیحدہ مسئلہ ہے، جوکہ درست نہیں.
اور مندرجہ ذیل روایت میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رمضان کے مہینے کو برکت والا کہا ہے. نہ کہ اس مہینے کی مبارک دی ہے :
مسند أحمد
٧١٤٨ - حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: لَمَّا حَضَرَ رَمَضَانُ، قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " قَدْ جَاءَكُمْ رَمَضَانُ، شَهْرٌ مُبَارَكٌ، افْتَرَضَ اللهُ عَلَيْكُمْ صِيَامَهُ، تُفْتَحُ فِيهِ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ، وَتُغْلَقُ فِيهِ أَبْوَابُ الْجَحِيمِ، وَتُغَلُّ فِيهِ الشَّيَاطِينُ، فِيهِ لَيْلَةٌ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ، مَنْ حُرِمَ خَيْرَهَا، فَقَدْ حُرِمَ "
حديث صحيح.
اس میں دو چیزیں قابل وضاحت ہیں، جیسا کہ ٹائٹل سے واضح ہے :
1- رمضان المبارک کی آمد پر اس کی اطلاع دینا :
من أخبر بخبر رمضان أولا حرام عليه نار جهنم
''جو رمضان کی خبر سب سے پہلے دے گا اس پر جھنم حرام ہو جاتی ہے۔ ''
اس حدیث کی کیا حقیقت ہے؟
ایسی کوئی حدیث نہ کبھی سنی ہے ، نہ پڑھی ہے ، نہ ہی تلاش کرنے سے کسی کتاب میں ملی ہے ، بعض اہل علم سے بھی اس کےمتعلق سوال کیا گیا ہے ، انہوں نے لاعلمی کا اظہار کیا ہے ۔
واللہ اعلم۔
2- آمد پر مبارکباد دینا :
ایک دوسرے کو خبر دینا خوشی اور تحديث نعمت کے طور پر تو اس میں کوئی حرج نہیں، البتہ رسمی مبارکباد وغیرہ ثابت نہیں، واللہ اعلم۔اسی طرح جمعہ مبارک ، فجر مبارک ، ظہر مبارک ، عصر مبارک ۔۔۔ الخ کا بھی یہ یہی حکم ہے۔ سلف ان تکلفات سے بہت دور تھے۔ یہ خالص بندے اور رب کے معاملات ہیں۔
یاد رہے رمضان المبارک بطور صفت شہر رمضان ایک علیحدہ چیزہے، یہ مبارک مہینہ ہے.کسی وقت کا مبارک ہ۔ونا علیحدہ چیز ہے،جیسے لیلۃ القدر،لیلہ مبارکہ ہے، لیکن لیلۃ القدر کی مبارکباد پیش کرنا علیحدہ مسئلہ ہے، جوکہ درست نہیں.
اور مندرجہ ذیل روایت میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رمضان کے مہینے کو برکت والا کہا ہے. نہ کہ اس مہینے کی مبارک دی ہے :
مسند أحمد
٧١٤٨ - حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: لَمَّا حَضَرَ رَمَضَانُ، قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " قَدْ جَاءَكُمْ رَمَضَانُ، شَهْرٌ مُبَارَكٌ، افْتَرَضَ اللهُ عَلَيْكُمْ صِيَامَهُ، تُفْتَحُ فِيهِ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ، وَتُغْلَقُ فِيهِ أَبْوَابُ الْجَحِيمِ، وَتُغَلُّ فِيهِ الشَّيَاطِينُ، فِيهِ لَيْلَةٌ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ، مَنْ حُرِمَ خَيْرَهَا، فَقَدْ حُرِمَ "
حديث صحيح.