• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

روایات- حَوْأَبِ کے کتے اور ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا (ایک تحقیقی جائزہ)

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
حواب بصرہ کے راستے کا ایک نخلستان ہے۔ حواب بنت کلب بن وبرہ کی طرف منسوب ہونے کی وجہ سے اس جگہ کا نام حواب مشہور ہو گیا (معجم البلدان: جلد2 صفحہ 314، لمؤلف: ياقوت بن عبد الله الحموي الرومي البغدادي شهاب الدين أبو عبد اللہ۔بحوالہ عبد اللہ ابن سبا، صدر اسلام میں اسکی فتنہ انگیزیاں اور ان کے اثرات، مولف: سلیمان بن حمد العودہ)
کتاب کے بارہ میں:
"كتاب معجم البلدان, موسوعة شهيرة للأديب والشاعر الشيخ الإمام شهاب الدين أبو عبد الله ياقوت بن عبد الله الحموي الرومي البغدادي .كتبها بين أعوام 1220 و 1224 میلادیۃ۔



شکریہ معلومات کا - معجم البلدان امام شہاب الدین ابی عبدللہ الرومی البغدادی کی مشہور کتاب ہے جس میں سرزمین حجاز و عراق کے جدول و جغرافیہ تفصیلاً بیان ہوے ہیں- لیکن ان کی اس کتاب کے اکثر حصّے کتاب 'البلدان یعقوبی' سے ماخوز ہیں- اس کے مصنف احمد بن ابی یعقوب مسلکی طور پر غالی شیعہ تھے- دوسرے یہ کہ قدیم مورخ ابو الفرج بن قدامہ بن جعفر متوفی (٢٩٠ھ) کا زمانہ امام شہاب الدین سے ٣٠٠ سال پہلے کا ہے - امام شہاب الدین ابی عبدللہ الرومی البغدادی کا زمانہ ٥٥٠ ہجری سے ٦٢٦ ہجری کے درمیان ہے -

ابو الفرج بن قدامہ بن جعفر اسلام لانے سے پہلے عیسائی تھے - المکقی باللہ عباسی کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا - سر زمیں حجاز ، بغداد و عراق کے تھانہ راستوں اور فاصلوں کا کتاب "الخراج سنعتہ الکتبہ میں تفصیلاً بیان ہے -

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ امام شہاب الدین ابی عبدللہ الرومی البغدادی نے مدینہ و مکہ سے عراق و اطراف کے جن علاقوں منازل اور جدولوں کا تفصیلاً ذکر کیا ہے - اس سے یہ پتا چلتا ہے کہ حضرت حسین رضی الله عنہ کو ماہ صفرکی ٢١-٢٢ تاریخ کو نینوا کے مقام پر شہید کیا گیا تھا- یہی بات المشہور تاریخ طبری (جلد ٦ صفحہ ٢٢٣) میں مذکور ہے - کہ حضرت حسین رضی الله عنہ کو کوفیوں نے ماہ صفر میں بوقت پچپن سال کی عمرمیں نینوا (کربلا میں نہیں) کے مقام پر بے دردی سے شہید کر دیا تھا -(واللہ اعلم)-
 
شمولیت
فروری 29، 2012
پیغامات
231
ری ایکشن اسکور
596
پوائنٹ
86
شکریہ معلومات کا - معجم البلدان امام شہاب الدین ابی عبدللہ الرومی البغدادی کی مشہور کتاب ہے جس میں سرزمین حجاز و عراق کے جدول و جغرافیہ تفصیلاً بیان ہوے ہیں- لیکن ان کی اس کتاب کے اکثر حصّے کتاب 'البلدان یعقوبی' سے ماخوز ہیں- اس کے مصنف احمد بن ابی یعقوب مسلکی طور پر غالی شیعہ تھے--(واللہ اعلم)-
جزاک اللہ بھائی، ویسے ان ساری معلومات کو اگر آپ یہ کہنے سے قبل ذکر کر دیتے کہ :
"لیکن قدیم تاریخی کتابوں اور جدولوں میں اس نام کا کوئی مقام موجود ہی نہیں ہے - جو اس بات کو دلیل فراہم کرتا ہے کہ یہ واقعہ ضعیف و من گھڑت ہے" تو کیا ہی بات تھی۔ چلیں دیر آئے، درست آئے۔

باقی رہی بات کہ اس کتاب میں "اکثر" حصہ البلدان یعقوبی سے ماخوذ ہے، اور یہ جو حصہ یہاں حواب کے حوالے سے بیان کیا گیا ہے کیا یہ بھی "یعقوبی" سے روایت کیا گیا ہے؟ اور یعقوبی "غالی" شیعہ تھا، ان سب باتوں کی دلیل بحوالہ مطلوب ہے۔ جزاک اللہ۔
 

HUMAIR YOUSUF

رکن
شمولیت
مارچ 22، 2014
پیغامات
191
ری ایکشن اسکور
56
پوائنٹ
57
ایک ریفرنس کے سلسلے میں طبقات ابن سعد کو دیکھنے کا موقع ملا، تو اس میں کوفہ کے صحابہ اور تابعین کے والی جلد میں مجھے
قیس بن ابی حازم، جو حواب کے واقعے کے مرکزی راوی ہیں، کے متعلق یہ معلومات ملیں۔

Qais bin abi Hazim.jpg

اب اس اسکین کے مطابق، قیس بن ابی حازم، جنگ قادسیہ میں شہید ہوگئے تھے۔ جنگ قادسیہ جو سیدنا عمر الفاروق رضی اللہ عنہکے عہد خلافت میں سن 14 ہجریمیں لڑی گئی تھی، اس میں ان راوی کی شہادت کا تذکرہ موجود ہے، اور یہ بات انکے شاگرداسمعیل بن ابی خالد،جو خود کلاب الحواب کی روایت کے دوسرے راوی ہیں، بتا رہے ہیں۔ اسی اسکین کے آخر میں دوسرے صفحے پر (صفحہ نمبر 68) محمد بن عمرو کے حوالے سے یہ بات بھی کی گئی ہے کہ قیس کی وفات اموی خلیفہ سلیمان بن عبدالملک کی خلافت کے آخری دنوں میں ہوئی۔ اب یا تو یہ ترجمہ کی غلطی لگ رہی ہے کہ "شریک" کی جگہ "شہید" لکھا گیا ہے یا پھر اسکے معنی شہید کے ہی ہیں۔ یعنی قیس بن ابی حازم کی وفات جنگ قادسیہ ہی میں ہوئی تھی۔ پھر دوسری بات بے معنی مانی جائے گی۔

اب اسکے حوالے سے ہے کہ قیس بن ابی حازم کی شہادت اگر جنگ قادسیہ میں ہی ہوئی، تو انکا جنگ جمل میں ہونا تو قطعی غیر یقینی ہوگیا ہے، کیونکہ جنگ جمل بالتفاق سن 36 ہجری میں لڑی گئی تھی۔ جبکہ میں اوپر بیان کرچکا ہوں کہ قادسیہ کی جنگ 14 ہجری کو لڑی گئی تھی۔ اسکا مطلب یہ ہوا کہ یہ روایت "کلاب الحواب" وضع کی گئی ہوگی کیونکہ اسکا مرکزی راوی، قیس بن ابی حازم تو اس واقعے میں شریک ہی نہیں تھا۔ ایک بات اور بھی بتادو کہ قیس بن ابی حازم پر ایک الزام مدلس ہونے کا بھی ہے، جو مطابق علل الحدیث وا معارف الرجال والتاریخ جلد اول صفحہ 164 پر لکھا ہوا ہے۔

صاحبان علم سے گزارش ہے کہ اس معاملے پر ذرا غور کریں۔
 
Last edited:

HUMAIR YOUSUF

رکن
شمولیت
مارچ 22، 2014
پیغامات
191
ری ایکشن اسکور
56
پوائنٹ
57
اس روایت کے متعلق قاضی ابوبکر بن العربی رحمہ اللہ کی مشہور کتاب "العواصم من القواصم" کے دو اسکین بھی موقع کی مناسبت سے پیش کرتا ہوں، کہ اس واقعے میں انکا موقف کیا تھا۔

Hawab 2.jpg


Hawab 3.jpg
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
ایک ریفرنس کے سلسلے میں طبقات ابن سعد کو دیکھنے کا موقع ملا، تو اس میں کوفہ کے صحابہ اور تابعین کے والی جلد میں مجھے
قیس بن ابی حازم، جو حواب کے واقعے کے مرکزی راوی ہیں، کے متعلق یہ معلومات ملیں۔

10794 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
اب اس اسکین کے مطابق، قیس بن ابی حازم، جنگ قادسیہ میں شہید ہوگئے تھے۔ جنگ قادسیہ جو سیدنا عمر الفاروق رضی اللہ عنہکے عہد خلافت میں سن 14 ہجریمیں لڑی گئی تھی، اس میں ان راوی کی شہادت کا تذکرہ موجود ہے، اور یہ بات انکے شاگرداسمعیل بن ابی خالد،جو خود کلاب الحواب کی روایت کے دوسرے راوی ہیں، بتا رہے ہیں۔ اسی اسکین کے آخر میں دوسرے صفحے پر (صفحہ نمبر 68) محمد بن عمرو کے حوالے سے یہ بات بھی کی گئی ہے کہ قیس کی وفات اموی خلیفہ سلیمان بن عبدالملک کی خلافت کے آخری دنوں میں ہوئی۔ اب یا تو یہ ترجمہ کی غلطی لگ رہی ہے کہ "شریک" کی جگہ "شہید" لکھا گیا ہے یا پھر اسکے معنی شہید کے ہی ہیں۔ یعنی قیس بن ابی حازم کی وفات جنگ قادسیہ ہی میں ہوئی تھی۔ پھر دوسری بات بے معنی مانی جائے گی۔

اب اسکے حوالے سے ہے کہ قیس بن ابی حازم کی شہادت اگر جنگ قادسیہ میں ہی ہوئی، تو انکا جنگ جمل میں ہونا تو قطعی غیر یقینی ہوگیا ہے، کیونکہ جنگ جمل بالتفاق سن 36 ہجری میں لڑی گئی تھی۔ جبکہ میں اوپر بیان کرچکا ہوں کہ قادسیہ کی جنگ 14 ہجری کو لڑی گئی تھی۔ اسکا مطلب یہ ہوا کہ یہ روایت "کلاب الحواب" وضع کی گئی ہوگی کیونکہ اسکا مرکزی راوی، قیس بن ابی حازم تو اس واقعے میں شریک ہی نہیں تھا۔ ایک بات اور بھی بتادو کہ قیس بن ابی حازم پر ایک الزام مدلس ہونے کا بھی ہے، جو مطابق علل الحدیث وا معارف الرجال والتاریخ جلد اول صفحہ 164 پر لکھا ہوا ہے۔

صاحبان علم سے گزارش ہے کہ اس معاملے پر ذرا غور کریں۔
جزاک الله -

معلومات کا بہت شکریہ- میں بھی اس پر تحقیق کررہا ہوں کہ قیس بن ابی حازم کو کب شہید کیا گیا

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ:

امام بخاری کے شیخ علی بن مدینی فرماتے ہیں کہ
وروى علي بن المديني أن يحيى بن سعيد قال له : قيس بن أبي حازم منكر الحديث ، قال : ثم ذكر له يحيى أحاديث مناكير ، منها حديث كلاب الحوأب
 

HUMAIR YOUSUF

رکن
شمولیت
مارچ 22، 2014
پیغامات
191
ری ایکشن اسکور
56
پوائنٹ
57
باقی رہی بات کہ اس کتاب میں "اکثر" حصہ البلدان یعقوبی سے ماخوذ ہے، اور یہ جو حصہ یہاں حواب کے حوالے سے بیان کیا گیا ہے کیا یہ بھی "یعقوبی" سے روایت کیا گیا ہے؟ اور یعقوبی "غالی" شیعہ تھا، ان سب باتوں کی دلیل بحوالہ مطلوب ہے۔ جزاک اللہ۔
یہ معجم البلدان والی بات تو بھائی @محمد علی جواد ہی بتائیں گے، میں سر دست یعقوبی کے بارے میں بتاتا ہوں کہ وہ واقعی ایک غالی شیعہ ہی تھا، خود شیعہ کی کتب میں ایسا لکھا ہوا ہے۔ ایک بڑے مشہور بریلوی عالم دین ہیںِ مولانا محمد علی صاحب، انکی ایک بہت اچھی تصنیف ہے، میزان الکتب، اس میں انہوں نے خصوصا ان مصنفین کے بارے میں لکھا ہے جو شیعہ تھے اور غلط طور پر سنی مشہور ہوگئے تھے۔ یا انکو پروپیگنڈے کے طور پر اہل سنت متعارف خود شیعوں نے کروایا تھا۔ ملاحظہ ہو اس کتاب سے چند حوالاجات، جو یعقوبی کو ایک پکا متعصب شیعہ گردانتے ہیں۔
yaqobi 1.jpg


yaqobi. 2.jpg


yaqobi 6.jpg
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
یہ معجم البلدان والی بات تو بھائی @محمد علی جواد ہی بتائیں گے، میں سر دست یعقوبی کے بارے میں بتاتا ہوں کہ وہ واقعی ایک غالی شیعہ ہی تھا، خود شیعہ کی کتب میں ایسا لکھا ہوا ہے۔ ایک بڑے مشہور بریلوی عالم دین ہیںِ مولانا محمد علی صاحب، انکی ایک بہت اچھی تصنیف ہے، میزان الکتب، اس میں انہوں نے خصوصا ان مصنفین کے بارے میں لکھا ہے جو شیعہ تھے اور غلط طور پر سنی مشہور ہوگئے تھے۔ یا انکو پروپیگنڈے کے طور پر اہل سنت متعارف خود شیعوں نے کروایا تھا۔ ملاحظہ ہو اس کتاب سے چند حوالاجات، جو یعقوبی کو ایک پکا متعصب شیعہ گردانتے ہیں۔
10815 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں

10816 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں

10817 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
جزاک الله -

بہت خوب - مجھے بھی یعقوبی کے بارے میں یہ تفصیلات ملی ہیں -

معجم المطبوعات میں ہے کہ احمد بن ابی یعقوب ابن واضح مذہب کےاعتبار سے شیعہ تھا۔ اور اکتفاء الفتوح میں ہے کہ یعقوبی شیعت کا دلدادہ تھا اور سنیت اس کا مسلک نہ تھا- (الذریعۃ الی تصانیف الشیعۃ ج 3 ص 296)
 
شمولیت
فروری 29، 2012
پیغامات
231
ری ایکشن اسکور
596
پوائنٹ
86
یہ معجم البلدان والی بات تو بھائی @محمد علی جواد ہی بتائیں گے، میں سر دست یعقوبی کے بارے میں بتاتا ہوں کہ وہ واقعی ایک غالی شیعہ ہی تھا، خود شیعہ کی کتب میں ایسا لکھا ہوا ہے۔ ایک بڑے مشہور بریلوی عالم دین ہیںِ مولانا محمد علی صاحب، انکی ایک بہت اچھی تصنیف ہے، میزان الکتب، اس میں انہوں نے خصوصا ان مصنفین کے بارے میں لکھا ہے جو شیعہ تھے اور غلط طور پر سنی مشہور ہوگئے تھے۔ یا انکو پروپیگنڈے کے طور پر اہل سنت متعارف خود شیعوں نے کروایا تھا۔ ملاحظہ ہو اس کتاب سے چند حوالاجات، جو یعقوبی کو ایک پکا متعصب شیعہ گردانتے ہیں۔
10815 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں

10816 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں

10817 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
جزاک اللہ بھائی، لیکن بہتر ہوتا اگر ایک "بریلوی عالم" کے حوالے کے ساتھ محدثین کے اقوال بھی نقل کر دیئے جائیں تاکہ موقف مذید مضبوط ہو سکے۔ میں آپکی اس بات سے بالکل متفق ہوں۔ جزاک اللہ۔
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
قيس بن أبي حازم


العالم الثقة الحافظ ، أبو عبد الله البجلي الأحمسي الكوفي , واسم أبيه حصين بن عوف ، وقيل : عوف بن عبد الحارث بن عوف بن حشيش بن هلال ، وفي نسبه اختلاف ،
وبجيلة هم بنو أنمار .

أسلم وأتى النبي -صلى الله عليه وسلم- ليبايعه ، فقبض نبي الله وقيس في الطريق ، ولأبيه أبي حازم صحبة . وقيل : إن لقيس صحبة ، ولم يثبت ذلك . وكان من علماء زمانه .

روى عن أبي بكر ، وعمر ، وعثمان ، وعلي ، وعمار ، وابن مسعود ، وخالد ، والزبير ، وخباب ، وحذيفة ، ومعاذ ، وطلحة ، وسعد ، وسعيد بن زيد، وعائشة ، وأبي موسى ، وعمرو ، ومعاوية ، والمغيرة ، وبلال ، وجرير ، وعدي بن عميرة ، وعقبة بن عامر ، وأبي مسعود عقبة بن عمرو ، وخلق .

[ ص: 199 ] وعنه : أبو إسحاق السبيعي ، والمغيرة بن شبيل وبيان بن بشر ، وإسماعيل بن أبي خالد ، وسليمان الأعمش ، ومجالد بن سعيد ،وعمر بن أبي زائدة ، والحكم بن عتيبة ، وأبو حريز عبد الله بن حسين قاضي سجستان -إن صح- وعيسى بن المسيب البجلي ، والمسيب بن رافع ، وآخرون .

قال علي بن المديني : روى عن بلال ولم يلقه ، ولم يسمع من أبي الدرداء ، ولا سلمان .

وقال سفيان بن عيينة : ما كان بالكوفة أحد أروى عن أصحاب رسول الله -صلى الله عليه وسلم- من قيس بن أبي حازم .

وقال أبو داود : أجود التابعين إسنادا قيس . وقد روى عن تسعة من العشرة ; ولم يرو عن عبد الرحمن بن عوف .

وقال يعقوب بن شيبة : أدرك قيس أبا بكر الصديق ، وهو رجل كامل إلى أن قال : وهو متقن الرواية ، وقد تكلم أصحابنا فيه ، فمنهم من رفع قدره وعظمه ، وجعل الحديث عنه من أصح الأسانيد .

ومنهم من حمل عليه وقال : له أحاديث مناكير . والذين أطروه حملوا عنه هذه الأحاديث على أنها عندهم غير مناكير ، وقالوا : هي غرائب .

ومنهم من لم يحمل عليه في شيء من الحديث ، وحمل عليه في مذهبه ، وقالوا : كان يحمل على علي . والمشهور أنه كان يقدم عثمان . ولذلك تجنب كثير من قدماء الكوفيين الرواية عنه .

[ ص: 200 ] ومنهم من قال : إنه مع شهرته لم يرو عنه كبير أحد وليس الأمر عندنا كما قال هؤلاء . وأرواهم عنه : إسماعيل بن أبي خالد ، وكان ثقة ثبتا وبيان بن بشر ، وكان ثقة ثبتا - وذكر جماعة .

وقال عبد الرحمن بن خراش : هو كوفي جليل ، ليس في التابعين أحد روى عن العشرة إلا قيس بن أبي حازم .

وروى معاوية بن صالح عن يحيى بن معين قال : قيس بن أبي حازم أوثق من الزهري ، ومن السائب بن يزيد .

وروى أحمد بن أبي خيثمة ، عن ابن معين : ثقة . وكذا وثقه غير واحد .

وروى علي بن المديني أن يحيى بن سعيد قال له : قيس بن أبي حازم منكر الحديث ، قال : ثم ذكر له يحيى أحاديث مناكير ، منها حديث كلاب الحوأب .

وقال أبو سعيد الأشج : سمعت أبا خالد الأحمر يقول لابن نمير : يا أبا هشام أما تذكر إسماعيل بن أبي خالد وهو يقول : حدثنا قيس بن أبي حازم ، [ص: 201 ] هذه الأسطوانة - يعني أنه في الثقة مثل هذه الأسطوانة .

وقال يحيى بن أبي غنية : حدثنا إسماعيل بن أبي خالد ، قال : كبر قيس حتى جاز المائة بسنين كثيرة حتى خرف ، وذهب عقله ، قال : فاشتروا له جارية سوداء أعجمية ، قال : وجعل في عنقها قلائد من عهن وودع وأجراس من نحاس ، فجعلت معه في منزله ، وأغلق عليه باب . قال : وكنا نطلع إليه من وراء الباب وهو معها ، قال : فيأخذ تلك القلائد بيده فيحركها ، ويعجب منها ، ويضحك في وجهها . رواها يحيى بن سليمان الجعفي عن يحيى.

روى أحمد بن زهير ، عن ابن معين ، قال : مات سنة سبع أو ثمان وتسعين .

وقال خليفة وأبو عبيد : مات سنة ثمان وتسعين .

وقال الهيثم بن عدي : مات في آخر خلافة سليمان بن عبد الملك وشذ الفلاس فقال : مات سنة أربع وثمانين .

ولا عبرة بما رواه حفص بن سلم السمرقندي -فقد اتهم- عن إسماعيل بن أبي خالد ، عن قيس قال : دخلت المسجد مع أبي ، فإذا رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يخطب وأنا ابن سبع أو ثمان سنين . فهذا لو صح ، لكان قيس هذا هو قيس بن عائذ صحابي صغير ; فإن قيس بن أبي حازم قال : أتيت رسول الله -صلى الله عليه وسلم- لأبايعه فجئت وقد قبض . رواه السري بن إسماعيل عنه .

وقيل : كان قيس في جيش خالد بن الوليد ، إذ قدم الشام على برية السماوة [ ص: 202 ] وروى الحكم بن عتيبة عن قيس قال : أمنا خالد باليرموكفي ثوب واحد .

وروى مجالد عن قيس قال : دخلت على أبي بكر في مرضه وأسماء بنت عميس تروحه ، فكأني أنظر إلى وشم في ذراعها ، فقال لأبي : يا أبا حازم قد أجزت لك فرسك .


الكتب [FONT=Geneva, Arial, Helvetica]» [/FONT]سير أعلام النبلاء [FONT=Geneva, Arial, Helvetica]» [/FONT]بقية الطبقة الأولى من كبراء التابعين [FONT=Geneva, Arial, Helvetica]» [/FONT]قيس بن أبي حازم
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
قيس بن أبي حازم


العالم الثقة الحافظ ، أبو عبد الله البجلي الأحمسي الكوفي , واسم أبيه حصين بن عوف ، وقيل : عوف بن عبد الحارث بن عوف بن حشيش بن هلال ، وفي نسبه اختلاف ،
وبجيلة هم بنو أنمار .

أسلم وأتى النبي -صلى الله عليه وسلم- ليبايعه ، فقبض نبي الله وقيس في الطريق ، ولأبيه أبي حازم صحبة . وقيل : إن لقيس صحبة ، ولم يثبت ذلك . وكان من علماء زمانه .

روى عن أبي بكر ، وعمر ، وعثمان ، وعلي ، وعمار ، وابن مسعود ، وخالد ، والزبير ، وخباب ، وحذيفة ، ومعاذ ، وطلحة ، وسعد ، وسعيد بن زيد، وعائشة ، وأبي موسى ، وعمرو ، ومعاوية ، والمغيرة ، وبلال ، وجرير ، وعدي بن عميرة ، وعقبة بن عامر ، وأبي مسعود عقبة بن عمرو ، وخلق .

[ ص: 199 ] وعنه : أبو إسحاق السبيعي ، والمغيرة بن شبيل وبيان بن بشر ، وإسماعيل بن أبي خالد ، وسليمان الأعمش ، ومجالد بن سعيد ،وعمر بن أبي زائدة ، والحكم بن عتيبة ، وأبو حريز عبد الله بن حسين قاضي سجستان -إن صح- وعيسى بن المسيب البجلي ، والمسيب بن رافع ، وآخرون .

قال علي بن المديني : روى عن بلال ولم يلقه ، ولم يسمع من أبي الدرداء ، ولا سلمان .

وقال سفيان بن عيينة : ما كان بالكوفة أحد أروى عن أصحاب رسول الله -صلى الله عليه وسلم- من قيس بن أبي حازم .

وقال أبو داود : أجود التابعين إسنادا قيس . وقد روى عن تسعة من العشرة ; ولم يرو عن عبد الرحمن بن عوف .

وقال يعقوب بن شيبة : أدرك قيس أبا بكر الصديق ، وهو رجل كامل إلى أن قال : وهو متقن الرواية ، وقد تكلم أصحابنا فيه ، فمنهم من رفع قدره وعظمه ، وجعل الحديث عنه من أصح الأسانيد .

ومنهم من حمل عليه وقال : له أحاديث مناكير . والذين أطروه حملوا عنه هذه الأحاديث على أنها عندهم غير مناكير ، وقالوا : هي غرائب .

ومنهم من لم يحمل عليه في شيء من الحديث ، وحمل عليه في مذهبه ، وقالوا : كان يحمل على علي . والمشهور أنه كان يقدم عثمان . ولذلك تجنب كثير من قدماء الكوفيين الرواية عنه .

[ ص: 200 ] ومنهم من قال : إنه مع شهرته لم يرو عنه كبير أحد وليس الأمر عندنا كما قال هؤلاء . وأرواهم عنه : إسماعيل بن أبي خالد ، وكان ثقة ثبتا وبيان بن بشر ، وكان ثقة ثبتا - وذكر جماعة .

وقال عبد الرحمن بن خراش : هو كوفي جليل ، ليس في التابعين أحد روى عن العشرة إلا قيس بن أبي حازم .

وروى معاوية بن صالح عن يحيى بن معين قال : قيس بن أبي حازم أوثق من الزهري ، ومن السائب بن يزيد .

وروى أحمد بن أبي خيثمة ، عن ابن معين : ثقة . وكذا وثقه غير واحد .

وروى علي بن المديني أن يحيى بن سعيد قال له : قيس بن أبي حازم منكر الحديث ، قال : ثم ذكر له يحيى أحاديث مناكير ، منها حديث كلاب الحوأب .

وقال أبو سعيد الأشج : سمعت أبا خالد الأحمر يقول لابن نمير : يا أبا هشام أما تذكر إسماعيل بن أبي خالد وهو يقول : حدثنا قيس بن أبي حازم ، [ص: 201 ] هذه الأسطوانة - يعني أنه في الثقة مثل هذه الأسطوانة .

وقال يحيى بن أبي غنية : حدثنا إسماعيل بن أبي خالد ، قال : كبر قيس حتى جاز المائة بسنين كثيرة حتى خرف ، وذهب عقله ، قال : فاشتروا له جارية سوداء أعجمية ، قال : وجعل في عنقها قلائد من عهن وودع وأجراس من نحاس ، فجعلت معه في منزله ، وأغلق عليه باب . قال : وكنا نطلع إليه من وراء الباب وهو معها ، قال : فيأخذ تلك القلائد بيده فيحركها ، ويعجب منها ، ويضحك في وجهها . رواها يحيى بن سليمان الجعفي عن يحيى.

روى أحمد بن زهير ، عن ابن معين ، قال : مات سنة سبع أو ثمان وتسعين .

وقال خليفة وأبو عبيد : مات سنة ثمان وتسعين .

وقال الهيثم بن عدي : مات في آخر خلافة سليمان بن عبد الملك وشذ الفلاس فقال : مات سنة أربع وثمانين .

ولا عبرة بما رواه حفص بن سلم السمرقندي -فقد اتهم- عن إسماعيل بن أبي خالد ، عن قيس قال : دخلت المسجد مع أبي ، فإذا رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يخطب وأنا ابن سبع أو ثمان سنين . فهذا لو صح ، لكان قيس هذا هو قيس بن عائذ صحابي صغير ; فإن قيس بن أبي حازم قال : أتيت رسول الله -صلى الله عليه وسلم- لأبايعه فجئت وقد قبض . رواه السري بن إسماعيل عنه .

وقيل : كان قيس في جيش خالد بن الوليد ، إذ قدم الشام على برية السماوة [ ص: 202 ] وروى الحكم بن عتيبة عن قيس قال : أمنا خالد باليرموكفي ثوب واحد .

وروى مجالد عن قيس قال : دخلت على أبي بكر في مرضه وأسماء بنت عميس تروحه ، فكأني أنظر إلى وشم في ذراعها ، فقال لأبي : يا أبا حازم قد أجزت لك فرسك .


الكتب [FONT=Geneva, Arial, Helvetica]» [/FONT]سير أعلام النبلاء [FONT=Geneva, Arial, Helvetica]» [/FONT]بقية الطبقة الأولى من كبراء التابعين [FONT=Geneva, Arial, Helvetica]» [/FONT]قيس بن أبي حازم
معلومات کا شکریہ -
 
Top