• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

روایات- حَوْأَبِ کے کتے اور ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا (ایک تحقیقی جائزہ)

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
امام بخاری کے شیخ علی بن مدینی فرماتے ہیں کہ
وروى علي بن المديني أن يحيى بن سعيد قال له : قيس بن أبي حازم منكر الحديث ، قال : ثم ذكر له يحيى أحاديث مناكير ، منها حديث كلاب الحوأب
امام بخاری نے اپنے شیخ کی بات کو نہ مانتے ہوئے اپنی الجامع الصحیح میں قیس بن ابی حازم سے 81 روایات نقل کرڈالی اور پھر بھی آپ اس کتاب کا موازنہ کتاب اللہ سے کرتے ہیں اور یہی نہیں بلکہ امام مسلم نے بھی اپنی صحیح میں قیس بن ابی حازم سے 34 روایات لکھی دی اس کے باوجود ایسے صحیح مسلم مانتے ہیں
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
ایک ریفرنس کے سلسلے میں طبقات ابن سعد کو دیکھنے کا موقع ملا، تو اس میں کوفہ کے صحابہ اور تابعین کے والی جلد میں مجھے
قیس بن ابی حازم، جو حواب کے واقعے کے مرکزی راوی ہیں، کے متعلق یہ معلومات ملیں۔

10794 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
اب اس اسکین کے مطابق، قیس بن ابی حازم، جنگ قادسیہ میں شہید ہوگئے تھے۔ جنگ قادسیہ جو سیدنا عمر الفاروق رضی اللہ عنہکے عہد خلافت میں سن 14 ہجریمیں لڑی گئی تھی، اس میں ان راوی کی شہادت کا تذکرہ موجود ہے، اور یہ بات انکے شاگرداسمعیل بن ابی خالد،جو خود کلاب الحواب کی روایت کے دوسرے راوی ہیں، بتا رہے ہیں۔ اسی اسکین کے آخر میں دوسرے صفحے پر (صفحہ نمبر 68) محمد بن عمرو کے حوالے سے یہ بات بھی کی گئی ہے کہ قیس کی وفات اموی خلیفہ سلیمان بن عبدالملک کی خلافت کے آخری دنوں میں ہوئی۔ اب یا تو یہ ترجمہ کی غلطی لگ رہی ہے کہ "شریک" کی جگہ "شہید" لکھا گیا ہے یا پھر اسکے معنی شہید کے ہی ہیں۔ یعنی قیس بن ابی حازم کی وفات جنگ قادسیہ ہی میں ہوئی تھی۔ پھر دوسری بات بے معنی مانی جائے گی۔

اب اسکے حوالے سے ہے کہ قیس بن ابی حازم کی شہادت اگر جنگ قادسیہ میں ہی ہوئی، تو انکا جنگ جمل میں ہونا تو قطعی غیر یقینی ہوگیا ہے، کیونکہ جنگ جمل بالتفاق سن 36 ہجری میں لڑی گئی تھی۔ جبکہ میں اوپر بیان کرچکا ہوں کہ قادسیہ کی جنگ 14 ہجری کو لڑی گئی تھی۔ اسکا مطلب یہ ہوا کہ یہ روایت "کلاب الحواب" وضع کی گئی ہوگی کیونکہ اسکا مرکزی راوی، قیس بن ابی حازم تو اس واقعے میں شریک ہی نہیں تھا۔ ایک بات اور بھی بتادو کہ قیس بن ابی حازم پر ایک الزام مدلس ہونے کا بھی ہے، جو مطابق علل الحدیث وا معارف الرجال والتاریخ جلد اول صفحہ 164 پر لکھا ہوا ہے۔

صاحبان علم سے گزارش ہے کہ اس معاملے پر ذرا غور کریں۔
زرا اس بات پر بھی نظر دوڑائے گا کہ ابن سعد نے قیس بن ابی حازم کا ذکر اصحاب کوفہ و تابیعن کے عنوان کے تحت کیا ہے اور کوفہ شہر کی بنیاد کس سن ھجری میں رکھی گئی اور جنگ قادسیہ آپ کے بقول سن 14 ہجری میں ہوئی مشہور یہ ہے کہ کوفہ شہر کی بنیاد سن 17 ہجری میں رکھی گئی ابتداء میں یہ شہر ایک فوجی چھاؤنی تھا
 

HUMAIR YOUSUF

رکن
شمولیت
مارچ 22، 2014
پیغامات
191
ری ایکشن اسکور
56
پوائنٹ
57
زرا اس بات پر بھی نظر دوڑائے گا کہ ابن سعد نے قیس بن ابی حازم کا ذکر اصحاب کوفہ و تابیعن کے عنوان کے تحت کیا ہے اور کوفہ شہر کی بنیاد کس سن ھجری میں رکھی گئی اور جنگ قادسیہ آپ کے بقول سن 14 ہجری میں ہوئی مشہور یہ ہے کہ کوفہ شہر کی بنیاد سن 17 ہجری میں رکھی گئی ابتداء میں یہ شہر ایک فوجی چھاؤنی تھا
اور جناب نے میرے مراسلہ پر نظر شائد بغور نہیں ڈالی تھی، اس میں جو اسکین دیا گیا تھا طبقات ابن سعد کا اس میں قیس ابن ابی حازم کے بارے میں لکھا ہوا کہ انہوں نے جنگ قادسیہ میں شرکت کی تھی اور شہید ہوئے۔ یعنی وہ ایک فوجی تھے۔ اب یہ تو جناب خود لکھ چکے ہیں کہ کوفہ شروع میں ایک فوجی چھاؤنی ہی کی حیثیت سے تھا، جسکو باقاعدہ شہر سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے دور مبارک میں تشکیل دیا گیا۔ اب ایک فوجی چھاؤنی میں کون رہتا ہے، میرے خیال سے اسکو بتانے کے لئے مجھے کوئی اسکین لگانے کی ضرورت نہیں ہے۔
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
اور جناب نے میرے مراسلہ پر نظر شائد بغور نہیں ڈالی تھی، اس میں جو اسکین دیا گیا تھا طبقات ابن سعد کا اس میں قیس ابن ابی حازم کے بارے میں لکھا ہوا کہ انہوں نے جنگ قادسیہ میں شرکت کی تھی اور شہید ہوئے۔ یعنی وہ ایک فوجی تھے۔ اب یہ تو جناب خود لکھ چکے ہیں کہ کوفہ شروع میں ایک فوجی چھاؤنی ہی کی حیثیت سے تھا، جسکو باقاعدہ شہر سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے دور مبارک میں تشکیل دیا گیا۔ اب ایک فوجی چھاؤنی میں کون رہتا ہے، میرے خیال سے اسکو بتانے کے لئے مجھے کوئی اسکین لگانے کی ضرورت نہیں ہے۔
جنگ قادسیہ آپ کے بقول سن 14 ہجری میں ہوئی مشہور یہ ہے کہ کوفہ شہر کی بنیاد سن 17 ہجری میں رکھی گئی ابتداء میں یہ شہر ایک فوجی چھاؤنی تھا

سن 17 ہجری میں بطور ایک فوجی چھاؤنی بنے والے ایک شہر میں ایک ایسا شخص بھی رہتا تھا جس کا انتقال سن 14 ہجری میں ہوگیا تھا لگتا ہے یہ رونگ نمبر ہے
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
اور ایک بات قیس بن ابی حازم کے بارے میں معلوم ہوئی کہ یہ ناصبی تھا
 
شمولیت
جولائی 17، 2011
پیغامات
39
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
53
کیا طبقات ابن سعد کی ہر روایت کو صحیح مانا جائے گا؟
 

HUMAIR YOUSUF

رکن
شمولیت
مارچ 22، 2014
پیغامات
191
ری ایکشن اسکور
56
پوائنٹ
57
ۡۡ
جنگ قادسیہ آپ کے بقول سن 14 ہجری میں ہوئی مشہور یہ ہے کہ کوفہ شہر کی بنیاد سن 17 ہجری میں رکھی گئی ابتداء میں یہ شہر ایک فوجی چھاؤنی تھا

سن 17 ہجری میں بطور ایک فوجی چھاؤنی بنے والے ایک شہر میں ایک ایسا شخص بھی رہتا تھا جس کا انتقال سن 14 ہجری میں ہوگیا تھا لگتا ہے یہ رونگ نمبر ہے
جناب عالی، اسطرح تو اس حدیث کے نچلے راویوں یعنی یحیی اور اسمعیل بن ابی خالد پر ایک زبردست آبجیکشن لگ سکتی ہے، کیونکہ انکو اپنے شیخ (استاد) کی تاریخ وفات کا ہی صحیح نہیں پتا، اور اگر ایسا ہی ہی معاملہ ہے تو وہ پھر جنگ جمل کی رپورٹنگ کیسے صحیح کرسکتے ہیں۔ واضح رہے کہ طبقات ابن سعد ، جسکا اسکین گزشتہ مراسلہ میں اپلوڈ کیا گیا تھا، اسکے مدون کردہ مورخ اور محدث، علامہ محمد بن سعد، ایک ثقہ مورخ و محدث مانے جاتے ہیں، لیکن
ابن سعد اگرچہ خود تو بڑے قابل اعتماد مورخ ہیں مگر وہ محمد بن عمر الواقدی کے شاگرد ہیں جنہیں محدثین نے نہایت ہی ضعیف قرار دیا ہے۔ اس وجہ سے ابن سعد کی وہ روایات جو واقدی کے توسط سے منقول ہیں، قابل اعتماد نہیں مانی جاتی ہیں

اور یہ روایت جو انہوں نے قیس بن ابی حازم کی قادسیہ میں شہادت کی دی ہے، اس میں واقدی کا عنصر شامل نہیں ہے۔

برائے کرم ذرا اس اشکال کو بھی تو دور کریں
 

HUMAIR YOUSUF

رکن
شمولیت
مارچ 22، 2014
پیغامات
191
ری ایکشن اسکور
56
پوائنٹ
57
اور ایک بات قیس بن ابی حازم کے بارے میں معلوم ہوئی کہ یہ ناصبی تھا
آپ جناب کے نزدیک تو ہر وہ شخص ناصبی ہے جو خلفائے ثلاثہ سے محبت رکھتا ہے۔ بلکہ یہ تو پورا فورم ہی "ناصبیوں" سے بھرپور ہے۔ اب بات کو غلط رنگ میں مت لے جائے گا کہ ہمیں سیدنا علی رضی اللہ سے بالکل بھی محبت نہیں ہے، یہ تو آپکی بات کا ایک جواب تھا جو عرض کیا گیا
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
آپ جناب کے نزدیک تو ہر وہ شخص ناصبی ہے جو خلفائے ثلاثہ سے محبت رکھتا ہے۔ بلکہ یہ تو پورا فورم ہی "ناصبیوں" سے بھرپور ہے۔ اب بات کو غلط رنگ میں مت لے جائے گا کہ ہمیں سیدنا علی رضی اللہ سے بالکل بھی محبت نہیں ہے، یہ تو آپکی بات کا ایک جواب تھا جو عرض کیا گیا
ابی حازم ناصبی تھا اور ناصبی ہونے کے باوجود وہ یہ روایت بیان کررہا ہے حیرت انگیز بات ہے یعنی یہ ناصبی اپنے عقائد کے برخلاف ایک روایت بیان کررہا ہے پھر جانے کیوں ایسے تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے جبکہ اہل سنت (یہاں اہل سنت لکھا ہے وہابی نہیں )کے اصول حدیث کے مطابق ثقہ بدعتی کی وہ روایت قبول نہیں کی جائے جو اس کے عقائد کو تقویت دے یا اس کے عقائد کی دعوت دے لیکن یہاں اس کے بلکہ الٹ ہے ۔
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
ۡۡ
جناب عالی، اسطرح تو اس حدیث کے نچلے راویوں یعنی یحیی اور اسمعیل بن ابی خالد پر ایک زبردست آبجیکشن لگ سکتی ہے، کیونکہ انکو اپنے شیخ (استاد) کی تاریخ وفات کا ہی صحیح نہیں پتا، اور اگر ایسا ہی ہی معاملہ ہے تو وہ پھر جنگ جمل کی رپورٹنگ کیسے صحیح کرسکتے ہیں۔ واضح رہے کہ طبقات ابن سعد ، جسکا اسکین گزشتہ مراسلہ میں اپلوڈ کیا گیا تھا، اسکے مدون کردہ مورخ اور محدث، علامہ محمد بن سعد، ایک ثقہ مورخ و محدث مانے جاتے ہیں، لیکن
ابن سعد اگرچہ خود تو بڑے قابل اعتماد مورخ ہیں مگر وہ محمد بن عمر الواقدی کے شاگرد ہیں جنہیں محدثین نے نہایت ہی ضعیف قرار دیا ہے۔ اس وجہ سے ابن سعد کی وہ روایات جو واقدی کے توسط سے منقول ہیں، قابل اعتماد نہیں مانی جاتی ہیں

اور یہ روایت جو انہوں نے قیس بن ابی حازم کی قادسیہ میں شہادت کی دی ہے، اس میں واقدی کا عنصر شامل نہیں ہے۔

برائے کرم ذرا اس اشکال کو بھی تو دور کریں
یعنی استاد ضیف اور شاگرد قابل اعتماد چلو کوئی بات نہیں
اب زرا طبقات ابن سعد کا آپ کا پیش کیا ہوا اسکین ملاحظہ کرتے ہیں

اسماعیل بن ابی خالد کہتے کہ میں قیس کو یہ کہتے سنا کہ وہ قادسیہ کی جنگ میں شہید ہوئے


یعنی یہ قیس بن ابی حازم کی کرامت ہے کہ وہ خود ہی اسماعیل بن ابی خالد سے کہہ رہے ہیں میں یعنی قیس بن ابی حازم قادسیہ کی جنگ میں شہید ہوا
ہےنا دلچسپ اور عجیب بات

لیکن جب ہم ابن سعد کی الطبقات الكبرى الكبرى
جوکہ طبقات ابن سعد کے نام سے مشہور ہے کا عربی متن دیکھتے ہیں تو پھر یہ عقد کھلتا ہے کہ اردو ترجمہ میں کیا ڈنڈی ماری گئی ہے آپ بھی عربی متن کو ملاحظہ فرمائیں



قيس بن أبي حازم

واسمه عوف بن عبد الحارث بن عوف بن حشيش بن هلال بن الحارث بن رزاح بن كلب بن عمرو بن لؤي من أحمس وقد روى قيس بن أبي حازم عن أبي بكر وعمر وعثمان وعلي وطلحة والزبير وسعد بن أبي وقاص وعبد الله بن مسعود وخباب وخالد بن الوليد وحذيفة وأبي هريرة وعقبة بن عامر وجرير بن عبد الله وعدي بن عميرة وأسماء بنت أبي بكر وقد شهد القادسية قال أخبرنا عبد الله بن الزبير الحميدي قال حدثنا سفيان بن عيينة عن إسماعيل بن أبي خالد قال سمعت قيسا يقول إنه شهد القادسية قال فخطبنا خالد بن الوليد بالحيرة وأنا فيهم قال محمد بن سعد وإنما أراد أنه حضر مع خالد بن الوليد أول أمر العراق حين صالح خالد أهل الحيرة وهذا كله ينسب إلى القادسية قال أخبرنا عمرو بن عاصم الكلابي قال حدثنا عمر بن أبي زائدة قال رأيت قيس بن أبي حازم يخضب بالصفرة قال أخبرنا وكيع بن الجراح عن أبن أبي خالد عن قيس بن أبي حازم أنه أوصى أن يسل من قبل رجليه قال محمد بن عمر توفي قيس بن أبي حازم في آخر خلافة سليمان بن عبد الملك


یعنی یہ عقد کھلا کہ یہاں شہید نہیں بلکہ شھد القادسیہ ہے جس کا معنی ہوتا ہے کہ جنگ قادسیہ میں حاضر تھا اور بھائی لوگوں نے اردو ترجمہ میں ماری گئی ڈنڈی کو بنیاد بنا کر صفحے کے صفحے کالے کردئے کیونکہ ہر وہابی یہ سمجھتا ہے کہ میرے مولوی نے اس کا ترجمہ کیا اس لئے ٹھیک ہوگا یعنی قول امام پر اس درجہ اعتماد کہ کسی وہابی نے اوریجنل عربی متن دیکھنے کی زحمت ہی گوارہ نہیں کی
وہابی بڑے عالم بنے پھرتے ہیں جو ترجمہ بھی صحیح نہیں کرتے
 
Last edited by a moderator:
Top