1۔مسلمان جنات اگرچہ انسانوں کی طرح شریعت ِمحمدیؐ کے مکلف ہیں کہ وہ اللہ کے آخری نبیﷺ اور قرآن کو تسلیم کریں اور شریعت ِمحمدیؐ پر عمل پیرا ہوں جس پر جزا وسزا اور تخاطب ِجن و انس اور آپﷺ پر ایمان لانے کی نصوص دلیل ہیں۔
اسی طرح محدثین کے ہاں راجح مسلک کے مطابق ایک جن بھی صحابی ہوسکتا ہے جیسا کہ نصیبین کے جنات کے ایک گروہ نے آپﷺ سے قرآن سنا اور آپﷺ پر ایمان لے آئے۔ (الإصابۃ:۱؍۱۵۸)
اسی طرح جنوں کا انسانوں سے سماع کرنا اور جنوں کو سنانا بھی ثابت ہے جس کی دلیل
{وَإذْ صَرَفْنَا إِلَیْکَ نَفَرًا مِّنَ الْجِنِّ یَسْتَمِعُوْنَ الْقُرْآنَ۔۔۔الخ}(الاحقاف:۲۹) ہے، لیکن کسی انسان کا جنوں سے روایت لینا بہرحال محل نظر ہے ،کیونکہ روایات کے متعلق اسناد کو پرکھنے کے لئے ائمہ جرح تعدیل نے ضوابط مقرر فرمائے ہیں اور اس کے لئے باقاعدہ اسماء ا لرجال کا فن وجود میں آیا ہے جس میں ہر راوی کے احوال درج ہیں اور اس کی ثقاہت وعدالت پر پوری بحث موجود ہے۔ جبکہ اس غیر مرئی قوم کے رجال کے احوال ضبط میں لانا محال ہے اور یہی وجہ ہے کہ ائمہ اسماء ا لرجال نے اس کی کوشش بھی نہیں کی، لہٰذا جنات کی عدمِ توثیق کی وجہ سے کسی جن پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا کہ وہ جھوٹ کہہ رہا ہے یا سچ۔ جیسا کہ علامہ سیوطیؒ فرماتے ہیں:
وأما روایۃ الإنس عنھم فالظاہر مَنعُھا لعدم حصول الثقۃ بِعَدَالتِھم ’’رہا انسان کا جنوں سے روایت کرنا تو اس کی ممانعت ان کی ثقاہت ِعدالت کے حاصل نہ ہونے کی وجہ سے واضح ہے۔‘‘ (الأشباہ والنظائر للسیوطيص۲۵۸، الأشباہ والنظائر علی مذھب أبي حنیفۃ النعمان لابن نجیم، ص ۳۲۹)
اسی طرح ابن حجر ہیتمی مکی نے بعض حفاظ کے حوالے سے لکھا ہے :
توقف في ذلک بعض الحفاظ بأن شرط الراوي العدالۃ والضبط وکذا مدعي الصحبۃ شرطہ العدالۃ والجن لا نعلم عدالتھم
’’جنوں کی روایت کے بارے میں بعض حفاظ نے راوی کی عدالت و ضبط کی شرط کی وجہ سے توقف اختیا رکیا ہے اور اسی طرح مدعی صحبت کے لئے بھی عدالت کی شرط ہے جبکہ جنات کی عدالت کے بارے میں ہم نہیں جان سکتے ہیں۔‘‘ (الفتاویٰ الحدیثیۃ :ص۱۷)
لہٰذا روایت کے معاملہ میں جنات پر کسی قسم کا اعتماد نہیں کیا جاسکتا جبکہ شروع میں ہم ذکر کر آئے ہیں کہ مدعی صحبت کے لئے بھی ضروری ہے کہ اپنے دعویٰ میں سچا ہو جبکہ ایک جن اگر نبیﷺ کے ساتھ ملاقات کا دعویدار ہے تو ہم اس کو جن ہونے کی وجہ سے سچا نہیں مان سکتے، کیونکہ اس کی توثیق کا ہمارے پاس کوئی ذریعہ نہیں۔ جب کہ کسی انسان کی بھی کوئی مشاہداتی گواہی موجود نہیں کہ اس جن کی آپﷺسے ملاقات ہوئی ہے۔
الغرض جنات کے احوال کو درج کرنا انسانوں پر تکلیف ما لا یطاق کے ضمن میں آتا ہے، اسی لئے کتب اسماء الرجال میں جنات کے احوال کا اہتمام بھی نہیں کیا گیا۔اس بنا پر کسی روایت کی سند میں کسی ’جن‘ کے راوی ہونے سے اس راوی کے حالات سے جہالت لازم آتی ہے۔ اور واضح ہے کہ کسی ایک راوی کے حالات کا علم نہ ہونا اس حدیث کے ضعف کے لئے کافی ہے، جیسا کہ اس کے لئے فن حدیث میں مجہول کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے اور حدیث کی یہ نوعیت ضعیف احادیث کی اقسام میں شمار ہوتی ہے۔