حضرت خضر ؑ کی موت وحیات؟
اب حیاتِ خضر ؑ کے بارے میں بھی اختلاف ہے کہ آیا وہ زندہ ہیں یا فوت ہوچکے ہیں؟ اس میں بھی جماعت ِصوفیا پیش پیش رہی کہ حضرت خضر ؑ کی حیات کو ثابت کیا جائے جس کے لئے کشف وکرامات اور ایسی روایات جن کا غیر مستند ہونا ظاہر و باہر ہے، کا سہارا لیا گیا۔
حافظ ابن حجرؒ نے خضر ؑ کی زندگی کے متعلق ایک مستقل رسالہ لکھا ہے جس میں اُنہوں نے حضرت خضر ؑ کے متعلق نبیﷺ کے زمانہ اور بعد کے زمانہ سے متعلقہ تمام روایات کو ذکر کر کے ہر روایت پر ائمہ جرح وتعدیل کی جرح بھی نقل کردی ہے۔
(دیکھئے: الزھر النضر في حال الخضر بتحقیق صلاح الدین مقبول احمد: ص۸۶ تا ۱۶۲)
اسی طرح حافظ ابن حجرؒ نے خضر ؑ کی وفات پر محدثین کے بہت سے اقوال نقل کئے ہیں جو بالاختصاردرج ذیل ہیں:
ابوحیانؒ نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے کہ جمہور کے مسلک کے مطابق وہ فوت ہوچکے ہیں۔ ابن ابی الفضل المرسی سے بھی یہی نقل ہے کہ اگر خضر ؑ زندہ ہوتے تو نبیﷺ کے پاس ضرور آتے اور ایمان واتباع سے بہرور ہوتے۔ تفسیر اصبہانی میں حسن بصریؒ کے حوالہ سے لکھا ہے کہ حضرت خضر ؑ فوت ہوچکے ہیں۔ اسی طرح امام بخاریؒ سے پوچھا گیا کہ خضر ؑ اور الیاس ؑ زندہ ہیں؟ تو اُنہوں نے فرمایا: یہ کیسے ہوسکتاہے؟جبکہ نبیﷺ کا فرمان ہے:
’’ أرأیتکم لیلتکم۔۔۔الخ‘‘ (الإصابۃ:۲؍۲۵۶) اور خود ابن حجرؒ لکھتے ہیں :
’’ قلت: وہو حیث مسلّم یدل أن الخضر المشہور ماتَ ‘‘(الزہر النضر :۱۶۱،الإصابۃ:۲؍۲۸۱)
’’ میں کہتاہوں اس سے یہی بات مسلم ومشہور ہے کہ خضر فوت ہوچکے ہیں۔ـ‘‘
حافظ ابن قیم ؒکا دعویٰ ہے کہ
امام ابن تیمیہ، امام بخاری، ابن جوزی، قاضی ابویعلی حنبلی، علی موسیٰ الرضا، ابراہیم بن اسحق حربی، ابوالحسین بن مناوی رحمہم اللہ جیسے جلیل القدر محدثین ان کی موت کے قائل ہیں۔
تفصیل کے لئے دیکھئے: المنارالمنیف: ص۷۵ تا۷۸ بتحقیق محمود مہدی استنبولی
اس کے علاوہ درج ذیل نصوص سے بھی حضرت خضر علیہ السلام کی وفات ثابت ہوتی ہے :
1۔اللہ تعالیٰ کا فرمان:
’’ وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّنْ قَبْلِکَ الْخُلْدَ أَفَإنْ مِّتَّ فَہُمُ الْخٰلِدُوْنَ‘‘
’’ ہم نے آپ سے قبل کسی بھی انسان کو دائمی زندگی نہیں دی اگر تم فوت ہو گئے تو کیا یہ لوگ ہمیشہ جیتے رہیں گے۔‘‘ (الانبیائ:۳۴)
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپؐ سے پہلے اور بعد کسی بشر کو زندگی کا استمرار نہیں دیا۔ لہٰذا خضر ؑکے متعلق کس طرح یہ دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ وہ ابھی تک زندہ ہیں؟
2۔سورئہ آلِ عمران کی آیت ۸۱ میں تمام انبیاے کرام علیہم السلام کا یہ وعدہ ذکر کیا گیا ہے:
’’ وَإذْ أَخَذَ اﷲُ مِیْثَاقَ النَّبِیِّیْنَ لَمَآ اٰ تَیْتُکُمْ مِنْ کِتٰبٍ وَّحِکْمَۃٍ ثُمَّ جَائَ کُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِہِ وَلَتَنْصُرُنَّہٗ قَالَ ئَ أَقْرَرْتُمْ وَأَخَذْتُمْ عَلٰی ذٰلِکُمْ إِصْرِیْ قَالُوْا أَقْرَرْنَا قَالَ فَاشْہَدُوْا وَأَنَا مَعَکُمْ مِنَ الشّٰہِدِیْنَ‘‘
’’ یاد کرو ! اللہ نے پیغمبروں سے عہد لیا تھا کہ آج میں نے تمہیں کتاب اور حکمت ودانش سے نوازا ہے کل اگر کوئی دوسرا رسول تمہارے پاس اسی تعلیم کی تصدیق کرتا ہوا آئے جو پہلے سے تمہارے پاس موجود ہے تو تم کو اس پر ایمان لانا ہو گا اور اس کی مدد کرنی ہو گی ۔یہ ارشاد فرما کر اللہ نے پوچھا کیا تم اس کا اقرار کرتے ہو اور اس پر میری طرف سے عہد کی بھاری ذمہ داری اٹھاتے ہو؟ انہوں نے کہا: ہاں، ہم اقرار کرتے ہیں۔ اللہ نے فرمایا: اچھا توگواہ رہو اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہ ہوں، اس کے بعد جو اپنے عہد سے پھر جائے وہی فاسق ہے۔‘‘
حضرت خضر ؑ کے بارے میں یہ بات ثابت ہے کہ وہ نبی ؑ تھے جب کہ مذکورہ بالا آیت میں لیے گئے وعدہ میں وہ بھی شامل ہیں اور ان پر بھی یہ فرض عائد ہوتا تھا کہ اگر وہ نبیﷺ کے زمانہ میں ہوتے تو آپؐ کی ضرور بالضرور تائید کرتے جس کی ایک بھی نظیر روایات میں موجود نہیں۔ یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ خضر علیہ السلام وفات پا چکے ہیں۔
3۔نبی ؐنے فرمایا:
’’ لو کان أخي موسی حیًا ما وسِعہ إلا اتباعي‘‘
(ارواہ الغلیل میں 1579 میں علامہ البانی ؒ اور مسند احمد کی تحقیق میں حمزہ احمد الزبیرؒ نے اسے حسن کہا ہے)
’’اگر میرا بھائی موسیٰ زندہ ہوتا تو اسے بھی میری اتباع کے سوا چارہ نہ تھا۔‘‘(مسند احمد :۳؍۳۸۷)
اس حدیث سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ اگر خضر ؑ نبیﷺ کے زمانہ میں زندہ ہوتے تو آپؐ پر ایمان لاتے جس کا تذکرہ کہیں موجود نہیں۔
4۔نبیؐ نے فرمایا:
’’ ما علیٰ الأرض من نفس منفوسۃ الیوم یأتي علیہا مائۃ وہی حیۃ یومئذ‘‘ (مسلم:۲۵۳۸)
’’ آپ سے سو سال کے بعد جو ذی نفس بھی زمین پر ہے، وہ زندہ نہیں رہے گا۔‘‘
بالفرض حضرت خضر ؑ کا وجود نبیﷺ کے زمانہ میں مان بھی لیا جائے تو وہ اس روایت کے عموم میں شامل ٹھہرتے ہیں جو کہ ان کی موت ثابت کرتا ہے۔
علامہ ابن جوزیؒ
’’ أرأیتکم لیلتکم۔۔۔ الخ‘‘ اور اس معنی کی دوسری روایات بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں
: فھذہ الأحادیث الصحاح تقطع دابر دعوٰی حیاۃ الخضر (بحوالہ البدایہ و النھایہ:۱؍۳۳۶) ’’یہ روایاتِ صحیحہ حیاتِ خضر ؑکے دعویٰ کی جڑکاٹ دیتی ہیں۔‘‘