کفایت اللہ
عام رکن
- شمولیت
- مارچ 14، 2011
- پیغامات
- 4,999
- ری ایکشن اسکور
- 9,800
- پوائنٹ
- 722
حدیث عائشہ پر احناف کی طرف سے اب تک جتنے بھی اعتراضات وارد کئے گئے ہیں ان سب کو مولانا طاہرگیاوی صاحب نے اپنی کتاب (احسن التنقیح ) میں ایک ساتھ جمع کردیا ہے ، ہم بنیادی طور پر اسی کتاب کو سامنے رکھ کر جواب حاضرکرتے ہیں تاہم دیگر معترضین کی باتوں کو بھی ہم ساتھ لیکر چلیں گے ۔
کمیت اور کیفیت کا فلسفہ:
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جناب گیاوی صاحب نے اس حدیث پر اعتراضات کی شروعات ہی ایک لطیفے سے کی ہے فرماتے ہیں:
سوال کرنے والے نے خود ہی كيف كانت صلوٰة رسول الله؟ کہا ہے ، یعنی حضور کی نماز کی کیفیت کیا تھی ؟ كم كانت صلٰوة رسول الله ؟ نہیں کہا ہے جس سے کمیت سے متعلق سوال سمجھا جاسکے مقدار اور کمیت کے بارے میں سوال کرنا ہوتا ہے تو عربی زبان میں اس کے لئے کم کا لفظ موجود ومعروف ہے ، لفظ کیف تو صرف کیفیت وحالت ہی دریافت کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔۔۔الخ (احسن التنقیح ص243)
مولانا گیاوی صاحب نے یہ فلسفہ سنجی کرکے نہ صرف یہ کہ حدیث وفقہ سے متعلق اپنی معلومات کا تعارف کرادیا ہے ، بلکہ عربی زبان ولغت سے بھی اپنی واقفیت کی نمائش کردی ہے ۔
اولا:
موصوف کی یہ ساری عمارت اس بنیاد پر کھڑی ہے کہ حدیث عائشہ میں سائل نے کیف سے سوال کیا ہے نہ کہ کم سے !
اس پوری عمارت کو مسمار کرنے کے لئے صرف اس حقیقت سے پردہ اٹھا دینا ہی کافی ہے کہ اسی حدیث کے بعض طرق میں یہی سوال کم کے لفظ کے ساتھ بھی موجود ہے چنانچہ :
امام نسائي رحمه الله (المتوفى303)نے کہا:
أخبرنا عمرو بن علي، قال: حدثنا عبد الرحمن، قال: حدثنا مالك، عن سعيد، عن أبي سلمة، قال: سألت عائشة، كم صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قالت: ما كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يزيد في رمضان، ولا غيره، على إحدى عشرة ركعة، «يصلي أربعا، فلا تسأل عن حسنهن وطولهن، ثم يصلي أربعا، فلا تسأل عن حسنهن وطولهن، ثم يصلي ثلاثا»[السنن الكبرى للنسائي 1/ 240 رقم 411]
ثانیا:
اگرہم یہ تسلیم بھی کرلیں کہ حدیث میں صرف کیف ہی سے سوال وارد ہے تو مولانا گیاوی صاحب کو معلوم ہونا چاہئے کہ ”کیف“ یہ ”کم“کے معنی میں بھی آتا ہے ،امام أبو الوليد سليمان بن خلف الباجي (المتوفى 474 ) اسی حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:
وقد تأتي كيف بمعنى كم ، یعنی کیف یہ کم کے معنی میں بھی آتا ہے (المنتقى شرح الموطإ 1/ 215)
بلکہ اسی حدیث کے بعض طرق کیف کی جگہ کم کا آجانا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ اس حدیث میں کیف کم کے معنی میں ہے ۔یعنی اصل سوال رکعات ہے سے متعلق تھا اماں عائشہ رضی اللہ عنہ نے اضافی طور پر مزید چیزیں بھی بتلادیں۔
ثالثا:
اگر فرض کرلیں صرف کیف ہی سے سوال ہوا تھا یعنی صرف کیفیت کے بارے میں پوچھا گیا تھا تو غور طلب بات یہ ہے کہ کیا کیفیت میں تعداد شامل نہیں ہے ؟ کیا تعداد کیفیت کا حصہ نہیں ہے ؟
عربی زبان میں گیاوی صاحب سے زیادہ واقفیت بلکہ مہارت رکھنے والے محمود خطاب السبكي اس حدیث کی تشریح میں کیف کے بارے میں فرماتے ہیں:
ومن لوازمه بيان العدد ، یعنی کیفیت کے لوازم میں سے ہے کہ تعداد بیان کی جائے ( شرح سنن أبي داود 7/ 269)
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ محمود خطاب السبكي صاحب کی پوری عبارت نقل کردی جائے ، اس حدیث کی تشریح میں فرماتے ہیں:
أي كيف كانت صفة صلاة رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم في ليالي رمضان وكم كان عددها بدليل إجابتها بالعدد ثم بيان الصفة. ويحتمل أن السؤال عن الصفة فقط كما هو ظاهر لفظ كيف فأجابت ببيانها. ومن لوازمه بيان العدد. ويحتمل أن السؤال عن العدد فقط فتكون كيف بمعنى كم فأجابت ببيانه ثم أتبعته ببيان الصفة
یعنی رمضان کی راتوں میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کیسی تھی ،کتنی رکعات والی تھی ، اس کی دلیل یہ ہے کہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا نے پہلے تعداد ہی کو بیان کیا پھر صفت کو بیان کیا ، اور یہ بھی احتمال ہے کہ سوال صرف صفت کے بارے میں ہوا ہو جیساکہ لفظ کیف سے ظاہر ہے ، تو اماں عائشہ رضی اللہ عنہا نے اسی کا جواب دیا اور اس کے لوازم میں سے ہے کہ تعداد کو بھی بیان کیا جائے ، اور یہ بھی احتمال ہے کہ سوال صرف تعداد رکعات ہی کے بارے میں ہوا ہو تو ایسی صورت میں کیف یہ کم کے معنی میں ہوگا ، تو اماں عائشہ رضی اللہ عنہا نے جواب میں تعداد بیان کی اور ساتھ ہی صفت بھی بیان کردی ۔ ( شرح سنن أبي داود 7/ 269)
ہم کہتے ہیں یہ آخری احتمال ہی راجح ہے کیونکہ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اسی حدیث کے ایک طریق میں کیف کی جگہ کم کا لفظ آگیا ہے اور حدیث کی سب سے بہترین تشریح حدیث ہی ہوسکتی ہے۔ دوسری وجہ یہ کہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا نے سب سے پہلے تعداد ہی بیان کی ہے ، اس سے پتہ چلتا ہے کہ اصل سوال تعداد ہی کی بارے میں ہوا تھا ، باقی کیفیت کا بیان اضافی ہے۔
رابعا:
کیف اور کم کی بحث جانے دیں ، گیاوی صاحب پورے سوال ہی سے آنکھیں بند کرلیں ، اور صرف جواب پر غور کریں کہ اس میں کیا ہے ؟ جواب میں پوری صراحت کے ساتھ ، رمضان وغیر رمضان اور گیارہ کی تعداد موجود ہے ، پھر اب کیف اور کم کی فلسلفہ سنجی کی ضرورت ہی کیا ہے؟
اور حیرت کی بات ہے کہ گیاوی صاحب نے شروع میں تو سارا زور اس بات پر لگا دیا کہ کیف کا مطلب کیا ہے لیکن آگے چل کر خود ہی تحریر فرماتے ہیں:
اشتباہ یہ ہوا کہ رمضان میں چوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا انہماک عبادت میں بڑھ جاتا تھا ، اس لئے کہیں ایسا تو نہیں کہ تہجد کی عام دنوں والی رکعت کی تعداد میں آپ رمضان کےاندر اضافہ فرمادیا کرتے تھے ، یہی بنائے سوال ہے (احسن التنقیح ص247)
ملاحظہ فرمائیں جس قلعہ کی تعمیر میں موصوف نے نہ جانے کہاں کی اینٹ اور کہاں کا پتھر چن چن کرلائے تھے ، یہاں پہنچ کر کود ہی اسے زمین بوس کردیا اور یہ منادی کردی کہ تعداد رکعات ہی کی معلومات لینا بنائے سوال تھا ، یعنی کیف اصل میں کم ہی کا مطلب لئے ہوئے ہیں ۔
اب ہمیں کچھ اور کہنے کی ضرورت نہیں ہے ۔
مولانا طاہر گیاوی صاحب نے حدیث عائشہ پر جو بنیادی اور تفصیلی اعتراضات کئے ہیں انہیں پانچ قسموں میں بانٹا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے:
1۔حدیث عائشہ میں سوال وجواب کا تعلق تراویح سے ہونا چاہئے ۔
2۔ یا تراویح اورتہجد دونوں کا ایک ہی نماز ہونا طے ہونا چاہے۔
3۔اس کے خلاف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کا ثبوت نہیں ملنا چاہے۔
4۔گیارہ رکعتوں میں حصر ثابت ہونا چاہے ، یعنی اس سے زیادہ یا کم پڑھنا ثابت نہ ہو۔
5۔ حدیث عائشہ میں کوئی فنی عیب نہ ہو یعنی متنا اضطراب کی وجہ سے یہ ضعیف نہ ہو۔
(ماحصل از احسن التنقیح ص 241 ، 242)
عرض ہے کہ:
پہلا اور دوسرا اعتراض ایک ہے اور وہ ہے تراویح اور تہجد الگ الگ ہونا ۔
تیسرا اور چوتھا اعتراض بھی ایک ہی ہے اور وہ حدیث عائشہ میں مذکور حصر کا غیر ثابت ہونا ۔
اس کے بعد پانچوں اعتراض اس کے متن کےثبوت پر یعنی اضطراب کا اعتراض ہے ۔
اس طرح یہ کل پانچ نہیں بلکہ تین ہی اعتراضات ہیں۔
اسی طرح حافظ ظہور احمد صاحب نے اس حدیث پر کل دس اعتراضات کئے ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے :
1۔بیان کیفیت میں روایات کا باہمی تعارض
2۔ تراویح اور تہجد میں تفریق
3۔محدثین کے ابواب بابت حدیث عائشہ
4۔فقہاء کی نظر میں اسے تہجد سے متعلق بتلانا
5۔ تہجد سے متعلق ثابت کرنے کی ایک اور کوشش
6۔ تعداد میں اختلاف سے متعلق روایات
7۔اضطراب کا اعتراض
8۔ تعداد میں تطبیق کے بعد عدم گیارہ سے زائد کا دعوی
9۔صحابہ کی طرف منسوب عمل سے معارضہ
10۔مختلف کیفیات کے حوالے سے الزام کہ اہل حدیث کا اس پر عمل نہیں
(ماحصل از رکعات تراویح کا تحقیقی جائزہ ص187 تا 208)
اس دس اعتراضات میں غور کریں تویہ بھی اصلا کل تین اعتراضات ہی ہیں ۔
پہلے ، ساتویں اور دسویں اعتراض کا تعلق اضطراب سے ہے ۔
دوسرے ، تیسرے ، چوتھے اور پانچویں اعتراض کا تعلق تہجد اور تراویح میں فرق سے ہے۔
چھٹے اور آٹھویں اعتراض کا تعلق عدم حصر سے ہے ۔
نواں اعتراض بالکل ہی غیر متعلق ہے کیونکہ اس حدیث عائشہ سے کوئی تعلق ہی نہیں اور اس کی بنیاد بھی غلط ہے کیونکہ صحابہ سے اس کے خلاف کچھ ثابت نہیں اس پر الگ سے بحث آرہی ہے ۔
الغرض یہ کہ یہ کل دس اعتراضات بھی بنیادی طور پر تین اعتراضات ہی ہیں ، لہٰذا ہم ان سارے اعتراضات کو تین قسموں میں سمیٹ دیتےہیں :
یعنی یہ حدیث مضطرب ہے اور مضطرب حدیث ضعیف احادیث کی ایک قسم ہے جو ناقابل قبول ہے ۔
اس اعتراض کا تفصیلی جواب دینے سے قبل یہ حقیقت واضح کردینا ضروری ہے کہ یہ حدیث صحیح بخاری کی حدیث ہے اور صحیح بخاری کی احادیث کی صحت پر اجماع ہے ۔
✿ امام أبو إسْحاق الإسفراييني رحمہ اللہ(المتوفی418) اپنی کتاب ”أصول الفقه“ میں فرماتے ہیں:
أهل الصنعة مجمعون على أن الأخبار التي اشتمل عليها الصحيحان - مقطوع بصحة أصولها ومتونها، ولا يحصل الخلاف فيها بحال، وإن حصل فذاك اختلاف في طرقها ورواتها
اہل فن کا اس بات پر اتفاق ہے کہ صحیحین میں جو احادیث موجود ہیں وہ مع اصول ومتون قطعیت کے ساتھ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) سے ثابت ہیں'اگر ان میں موجود بعض روایات میں اختلاف ہے تو یہ ان احادیث کے طرق اور راویوں کے بارے میں اختلاف ہے۔[ أصول الفقه للإسفراييني بحوالہ النكت على مقدمة ابن الصلاح للزركشي 1/ 280، فتح المغيث بشرح ألفية الحديث 1/ 72]
✿ محمد بن طاهر ابن القيسراني رحمه الله (المتوفى507) فرماتے ہیں:
أجمع المسلمون على قبول ما أخرج في الصحيحين لأبي عبد اللّه البخاري ، ولأبي الحسين مسلم بن الحجاج النيسابوري ،
صحیحین میں امام بخاری ومسلم نے جو احادیث روایت کی ہیں ان کی قبولیت پر مسلمانوں کا اجماع ہے[صفوة التصوف لابن القيسراني (ورقۃ 87 ، 88) بحوالہ أحاديث الصحيحين بين الظن واليقين للشیخ الزاہدی ]
✿ امام ابن الصلاح رحمه الله (المتوفى643) لکھتے ہیں:
جميع ما حكم مسلم بصحته من هذا الكتاب فهو مقطوع بصحته والعلم النظري حاصل بصحته في نفس الأمر وهكذا ما حكم البخاري بصحته في كتابه وذلك لأن الأمة تلقت ذلك بالقبول سوى من لا يعتد بخلافه ووفاقه في الإجماع
وہ تمام احادیث کہ جن کو امام مسلم نے اپنی کتاب میں صحیح کہاہے ان کی صحت قطعی ہے اور ان سے حقیقت میں علم نظری حاصل ہوتا ہے 'اسی طرح کامعاملہ ان احادیث کا بھی ہے کہ جن کو امام بخاری نے اپنی کتاب میں صحیح کہا ہے ۔اور اس کی وجہ یہ ہے کہ تمام امت کے نزدیک ان کتابوں کو 'تلقی بالقبول'حاصل ہے سوائے ان افراد کے کہ جن کے اختلاف یا اتفاق سے اس اجماع کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ [صيانة صحيح مسلم ص: 85]
✿ امام نووي رحمه الله (المتوفى676) فرماتے ہیں:
اتفق العلماء رحمهم الله على أن أصح الكتب بعد القرآن العزيز الصحيحان البخاري ومسلم وتلقتهما الامة بالقبول،
علماء رحمہم اللہ کا اتفاق ہے کہ قرآن عزیز کے بعدسب سے صحیح کتاب صحیح بخاری اور صحیح مسلم ہے ، امت کی طرف سے اسے تلقی بالقبول حاصل ہے [شرح النووي على مسلم 1/ 14]
✿ امام ابن كثير رحمه الله (المتوفى774) فرماتے ہیں:
أجمع العلماء على قبوله وصحة ما فيه، وكذلك سائر أهل الإسلام
صحیح بخاری کی مقبولیت اور اس احادیث کی صحت پر علماء اور تمام مسلمانوں کا اجماع ہے ۔[البداية والنهاية ط إحياء التراث 11/ 30]
✿ علامہ ابن خلدون رحمہ اللہ (المتوفى 808) فرماتے ہیں:
وجاء محمّد بن إسماعيل البخاريّ إمام المحدّثين في عصره فخرّج أحاديث السّنّة على أبوابها في مسندة الصّحيح بجميع الطّرق الّتي للحجازيّين والعراقيّين والشّاميّين. واعتمد منها ما أجمعوا عليه دون ما اختلفوا فيه
اس کے بعد امام المحدثین محمد بن اسماعیل البخاری اپنے زمانے میں سامنے آئے انہوں نے اپنی صحیح مسند میں احادیث کو ابواب کی ترتیب پر بیان کیا اور اپنی کتاب میں حجازیوں 'عراقیوں اور شامیوں کے ان طرق سے احادیث کو نقل کیا کہ جن پر ان کا اجماع تھااور جن طرق میں اختلاف تھا ان کو نہ لیا.[تاريخ ابن خلدون 1/ 559]
✿ ملا علي القاري رحمہ اللہ(المتوفى1014)فرماتے ہیں:
ثم اتفقت العلماء على تلقي الصحيحين بالقبول، وأنهما أصح الكتب المؤلفة
پھر علماء کا صحیحین کو قبول کرنے پر اتفاق ہے اور اس بات پر کہ تمام کتابوں میں یہ صحیح تریں کتابیں ہیں [مرقاة المفاتيح للملا القاري: 1/ 18]
✿ شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ(المتوفی1176 ) فرماتے ہیں:
أما الصحيحان فقد اتّفق المحدثون على أَن جَمِيع مَا فيهمَا من الْمُتَّصِل الْمَرْفُوع صَحِيح بِالْقطعِ، وأنهما متواتران إِلَى مصنفيهما، وَأَنه كل من يهون أَمرهمَا فَهُوَ مُبْتَدع مُتبع غير سَبِيل الْمُؤمنِينَ
صحیح بخاری اور صحیح مسلم کے بارے میں تمام محدثین متفق ہیں کہ ان میں تمام کی تمام متصل اور مرفوع احادیث یقینا صحیح ہیں ، یہ دونوں کتابیں اپنے مصنفین تک بالتواتر پہنچتی ہیں جو ان کی عظمت نہ کرے وہ بدعتی ہے جو مسلمانوں کی راوہ کے خلاف چلتا ہے۔(حجة الله البالغة 1/ 232 ، حجۃ اللہ البالغہ مترجم اردو ص 250 ، ترجمہ اردو نسخہ سے نقل کیا گیا ہے۔)
✿ عصر حاضر کے احناف بھی نے بھی اس بات کا اعتراف کیا ہے چنانچہ :
سرفراز صفدر دیوبندی صاحب لکھتے ہیں:
اور امت کا اس پر اجماع اور اتفاق ہے کہ بخاری اور مسلم دونوں کی تمام روایتیں صحیح ہیں (احسن الکلام ج1 ص187)
✿ غلام رسول رضوی بریلوی صاحب لکھتے ہیں:
تمام محققین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ قرآن کریم کے بعد صحیح بخاری تمام کتب سے اصح کتاب ہے (تفہیم البخاری : ج1ص5)
صحیحین کی تمام احادیث صحیح ہے اس پر ائمہ ، محدثین ، اہل علم حتی کہ خود احناف کے بھی بے شمار اقوال ہیں لیکن ماقبل میں صرف وہ اقوال پیش کئے گئے ہیں جن میں صحیحین کی تمام احادیث کو نہ صرف صحیح کہا گیا ہے بلکہ اس صحت پر امت کا اجماع نقل کیا گیا ہے۔
لیکن افسوس ہے کہ رکعات تراویح کی بات آتی ہے تو احناف اس روشن حقیقت اور اس کے اعتراف کوپس پشت ڈال کر بغیر کسی خوف و جھجک کے یہ کہنے لگ جاتے ہیں کہ حدیث عائشہ مضطرب یعنی ضعیف ہے۔
کیا صحیحین کی صحت صرف اسناد کے لحاظ سے ہے؟
مولانا طاہر گیاوی صاحب نے یہ محسوس کیا کہ صحیح بخاری کی حدیث عائشہ کو مطلق ضعیف کہنے کے بات نہیں بننے والی کیونکہ اس کے خلاف کوئی اجماع صحت کا حوالہ دے سکتا ہے اس لئے موصوف نے لکھا:
اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ اس کی سند بالکل صحیح ہے اور بخاری ومسلم میں ہونا ہی اس کی سند کی صحت کے لئے بہت بڑی ضمانت ہے لہٰذا بہ لحاظ سند یہ روایت بے غبار ہے لیکن جہاں تک متن اور مضمون حدیث کی حیثیت کا تعلق ہے تو اس کی صحت میں محدثین کو سخت کلا م ہے (العدد الصحیح ص15 نیز دیکھیں: احسن التنقیح لرکعات التراویح : ص331)
صحت میں محدثین کو سخت کلام ہے یہ بات تو بالکل غلط ہے کسی ایک بھی ثقہ محدث نے اس کی صحت پر کلام نہیں کیا ہے تفصیل آرہی ہے۔
یہاں موصوف نے یہ دکھلانے کی کوشش کی ہے کہ صحیحین میں کسی روایت کا ہونا صرف سندا صحیح ہونے کی ضمانت ہے متنا نہیں ۔حالانکہ یہ بات بالکل غلط ہے۔
صحیحین کی صحت پر اجماع نقل کرنے والے سب سے قدیم جس محدث کا نام ملتا ہے وہ امام أبو إسْحاق الإسفراييني رحمہ اللہ(المتوفی418) ہیں ان کے الفاظ ماقبل میں نقل کئے جاچکے ہیں اس میں انہوں نے پوری صراحت کے ساتھ ”مقطوع بصحة أصولها ومتونها“ کے الفاظ کہے ہیں یعنی اصول ومتون کے ساتھ صحیحین کی احادیث کی صحت قطعی ہیں اس پر اہل فن کا اجماع ہے۔
صرف اسی ایک حوالے سے طاہرگیاوی صاحب کی مذکورہ تفریق کی قلعی کھل جاتی ہے۔موصوف کو بھی بخوبی احساس تھا کہ ان کی یہ بات قارئین کو ہضم ہونے والی نہیں ہے اسی لئے جناب نے اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کے لئے آگے علامہ مبارکپوری رحمہ اللہ سے یہ نقل کررکھا ہے کہ سند کا صحیح ہونا متن کے صحیح ہونے کو مستلزم نہیں (العدد الصحیح ص16)
عرض ہے کہ :
اولا:
علامہ مبارکپوری نے مذکورہ بات صحیحین کی کسی حدیث سے متعلق نہیں کہی ہے ، اور اوپر بتایا جاچکا ہے کہ احادیث صحیحین کے متون کی صحت پر اجماع ہوچکا ہے ،اس اجماع کے خلاف علامہ مبارکپوری کہیں کوئی بات نہیں کہی ہے ۔
ثانیا:
حدیث کی صحت کے شرائط میں جہاں یہ بات ہے کہ سند بے داغ ہونی چاہئے یعنی تمام رواۃ ثقہ ہونے چاہئیں اور سند متصل ہونی چاہئے وہیں یہ شرط بھی ہے کہ متن بھی محفوظ ہونا چاہئے ، اگر متن میں شذوذ ہے تو سند بے عیب ہونے کے باوجود بھی حدیث صحیح نہیں ہوگی ، اصول حدیث کی کتابوں یہ بات مسلم ہے۔
چونکہ بعض متساہل یا محدثین کے عام منہج سے منحرف لوگ سند کی محض ظاہری حالت ہی دیکھ کر صحیح سمجھ بیٹھتے ہیں اس لئے خاص ایسے لوگوں کی تردید میں کہا جاتا ہے کہ صرف سند کے صحیح ہونے سے حدیث صحیح نہیں ہوتی لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ معتبر اور مستند محدثین بھی جب کسی حدیث کو صحیح کہتے ہیں تو وہ محض سند کے لحاظ سے صحیح کہتے ہیں ۔
حقیقت یہ ہے کہ اہل فن اور مستند محدثین کسی حدیث کو محض سند کے لحاظ صحیح کہہ ہی نہیں سکتے ہیں کیونکہ ان کے یہاں کوئی حدیث درجہ صحت کو تب تک نہیں پہنچ سکتی ہے جب تک کہ اس کا متن بھی محفوظ ثابت نہ ہوجائے ، اس لئے محدثین جب کہ کسی حدیث پر صحت کا حکم لگاتے ہیں کہ تو اس کا مطلب ہی یہی ہوتا ہے کہ اس کا متن محفوظ و ثابت اور قابل قبول ہے ۔
امام بخاری وامام مسلم بلکہ تمام صحاح کی مصنفین نے اپنی صحاح کی کتابوں جو صحت کا حکم لگایا ہے اس کا یہی مفہوم ہے ۔
صحت کا حکم متن پر ہی لگتا ہے:
یہ بات بھی واضح ہے کہ سند کی تحقیق و تفتیش کے پیچھے اصل مقصد ہی یہی ہوتا ہے کہ اس کے ذریعہ آنے والی بات یعنی متن کی بابت معلوم ہوسکے کہ وہ صحیح ہے یا نہیں ،اصول حدیث اور تحقیق رجال کی ساری کاوشوں کا ھدف بس اسی بات کا پتہ لگانا ہوتا ہے ۔لہٰذا اہل فن جب کسی حدیث پر صحت کا حکم لگاتے ہیں تو سند کے ذریعہ آنے والے متن کے بارے میں ہی فیصلہ کرتے ہیں کہ وہ صحیح ہے۔
حتی کہ تحقیق تو تفتیش کے دوران کسی حدیث کی ایک سند ضعیف ثابت ہوتی ہے تو محدثین محض اس ایک سند کے ضعف کو دیکھ کر متن کو ضعیف نہیں کہتے بلکہ اس متن کی دیگر اسانید بھی تلاش کرتے ہیں اگر کسی اور مقام پر اس کی صحیح سندیں مل گئیں تو پھر متن پر ان کا حکم صحت ہی کا ہوتا ہے۔کیونکہ یہی اصل مقصود ہے۔
بلکہ بسا اوقات ایک حدیث کی ساری سندیں ضعیف ہوتی ہیں لیکن سندوں کی مجموعی کیفیت ایسی ہوتی ہے جو اشارہ کرتی ہے کہ اس ضعف سے نقل کردہ بات متاثر نہیں ہوسکتی ہے ایسی صورت میں بھی محدثین حدیث پر صحت ہی کا فیصلہ کرتے ہیں اور اس کے لئے حسن لغیرہ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں ۔
غرض یہ کہ تحقیق حدیث کا اصل مقصد متن پر حکم لگانا ہی ہوتا ہے اور جب بھی کوئی مستند محدث کسی حدیث پر صحت کا فیصلہ کرتا ہے تو وہ فیصلہ بنیادی طور پر متن سے متعلق ہی ہوتا ہے ۔
بخاری ومسلم کی احادیث پر جو صحت کا فیصلہ کیا گیا ہے یہ فیصلہ اصلا متون ہی سے متعلق ہے اسی لئے صحیحین کی کسی حدیث کی سند میں کوئی عیب ظاہر ہوتا ہے تو اہل فن شواہد و متابعات اور قرائن پر بحث کرتے ہوئے یہی جواب دیتے ہیں کہ اس عیب سے متن کی صحت پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔
تلقی بالقبول کا مطلب:
مزید اس بات پر غورکیا جائے کہ صحیحین کی احادیث کی صحت پر اجماع نقل کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ان احادیث کو تلقی بالقبول حاصل ہے جیساکہ حوالے گذرچکےہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ تلقی بالقبول کا کیا مطلب ہے ؟ کیا محض سند کے ساتھ تلقی بالقبول کی بات کا کوئی مطلب بنتا ہے ؟ اگر سند کو متن سے الگ کردیا جائے تو بتلایا جائے کہ جب سند کے ساتھ کوئی بات ہے ہی نہیں ، تو قبول کسے کیا جائے گا ؟
ظاہر ہے تلقی بالقبول کا مطلب یہی ہے کہ صحیحن میں سندوں کے ساتھ جو احادیث ہیں ان احادیث کو امت نے بالاتفاق قبول کیا ہے۔
اس تفصیل کے بعد یہ حقیقت طشت ازبام ہوجاتی ہے حدیث عائشہ متن کے لحاظ سے بھی صحیح ہے اور اس کی صحت پر اجماع ہے ۔اس کے بعد مزید کسی بحث کی ضرورت تو نہیں رہ جاتی کیونکہ عصر حاضر کے احناف کو یہ حق ہی حاصل نہیں کہ بالاجماع ثابت شدہ کسی بات کا انکار کریں ۔
تاہم قارئین کے اطمینان قلب کے لئے اس سلسلے میں مخالفین کی پیش کردہ باتوں پر گفتگو کرکے ہم معاملہ کو پوری طرح صاف کرنا چاہتے ہیں۔
کمیت اور کیفیت کا فلسفہ:
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جناب گیاوی صاحب نے اس حدیث پر اعتراضات کی شروعات ہی ایک لطیفے سے کی ہے فرماتے ہیں:
سوال کرنے والے نے خود ہی كيف كانت صلوٰة رسول الله؟ کہا ہے ، یعنی حضور کی نماز کی کیفیت کیا تھی ؟ كم كانت صلٰوة رسول الله ؟ نہیں کہا ہے جس سے کمیت سے متعلق سوال سمجھا جاسکے مقدار اور کمیت کے بارے میں سوال کرنا ہوتا ہے تو عربی زبان میں اس کے لئے کم کا لفظ موجود ومعروف ہے ، لفظ کیف تو صرف کیفیت وحالت ہی دریافت کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔۔۔الخ (احسن التنقیح ص243)
مولانا گیاوی صاحب نے یہ فلسفہ سنجی کرکے نہ صرف یہ کہ حدیث وفقہ سے متعلق اپنی معلومات کا تعارف کرادیا ہے ، بلکہ عربی زبان ولغت سے بھی اپنی واقفیت کی نمائش کردی ہے ۔
اولا:
موصوف کی یہ ساری عمارت اس بنیاد پر کھڑی ہے کہ حدیث عائشہ میں سائل نے کیف سے سوال کیا ہے نہ کہ کم سے !
اس پوری عمارت کو مسمار کرنے کے لئے صرف اس حقیقت سے پردہ اٹھا دینا ہی کافی ہے کہ اسی حدیث کے بعض طرق میں یہی سوال کم کے لفظ کے ساتھ بھی موجود ہے چنانچہ :
امام نسائي رحمه الله (المتوفى303)نے کہا:
أخبرنا عمرو بن علي، قال: حدثنا عبد الرحمن، قال: حدثنا مالك، عن سعيد، عن أبي سلمة، قال: سألت عائشة، كم صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قالت: ما كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يزيد في رمضان، ولا غيره، على إحدى عشرة ركعة، «يصلي أربعا، فلا تسأل عن حسنهن وطولهن، ثم يصلي أربعا، فلا تسأل عن حسنهن وطولهن، ثم يصلي ثلاثا»[السنن الكبرى للنسائي 1/ 240 رقم 411]
ثانیا:
اگرہم یہ تسلیم بھی کرلیں کہ حدیث میں صرف کیف ہی سے سوال وارد ہے تو مولانا گیاوی صاحب کو معلوم ہونا چاہئے کہ ”کیف“ یہ ”کم“کے معنی میں بھی آتا ہے ،امام أبو الوليد سليمان بن خلف الباجي (المتوفى 474 ) اسی حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:
وقد تأتي كيف بمعنى كم ، یعنی کیف یہ کم کے معنی میں بھی آتا ہے (المنتقى شرح الموطإ 1/ 215)
بلکہ اسی حدیث کے بعض طرق کیف کی جگہ کم کا آجانا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ اس حدیث میں کیف کم کے معنی میں ہے ۔یعنی اصل سوال رکعات ہے سے متعلق تھا اماں عائشہ رضی اللہ عنہ نے اضافی طور پر مزید چیزیں بھی بتلادیں۔
ثالثا:
اگر فرض کرلیں صرف کیف ہی سے سوال ہوا تھا یعنی صرف کیفیت کے بارے میں پوچھا گیا تھا تو غور طلب بات یہ ہے کہ کیا کیفیت میں تعداد شامل نہیں ہے ؟ کیا تعداد کیفیت کا حصہ نہیں ہے ؟
عربی زبان میں گیاوی صاحب سے زیادہ واقفیت بلکہ مہارت رکھنے والے محمود خطاب السبكي اس حدیث کی تشریح میں کیف کے بارے میں فرماتے ہیں:
ومن لوازمه بيان العدد ، یعنی کیفیت کے لوازم میں سے ہے کہ تعداد بیان کی جائے ( شرح سنن أبي داود 7/ 269)
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ محمود خطاب السبكي صاحب کی پوری عبارت نقل کردی جائے ، اس حدیث کی تشریح میں فرماتے ہیں:
أي كيف كانت صفة صلاة رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم في ليالي رمضان وكم كان عددها بدليل إجابتها بالعدد ثم بيان الصفة. ويحتمل أن السؤال عن الصفة فقط كما هو ظاهر لفظ كيف فأجابت ببيانها. ومن لوازمه بيان العدد. ويحتمل أن السؤال عن العدد فقط فتكون كيف بمعنى كم فأجابت ببيانه ثم أتبعته ببيان الصفة
یعنی رمضان کی راتوں میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کیسی تھی ،کتنی رکعات والی تھی ، اس کی دلیل یہ ہے کہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا نے پہلے تعداد ہی کو بیان کیا پھر صفت کو بیان کیا ، اور یہ بھی احتمال ہے کہ سوال صرف صفت کے بارے میں ہوا ہو جیساکہ لفظ کیف سے ظاہر ہے ، تو اماں عائشہ رضی اللہ عنہا نے اسی کا جواب دیا اور اس کے لوازم میں سے ہے کہ تعداد کو بھی بیان کیا جائے ، اور یہ بھی احتمال ہے کہ سوال صرف تعداد رکعات ہی کے بارے میں ہوا ہو تو ایسی صورت میں کیف یہ کم کے معنی میں ہوگا ، تو اماں عائشہ رضی اللہ عنہا نے جواب میں تعداد بیان کی اور ساتھ ہی صفت بھی بیان کردی ۔ ( شرح سنن أبي داود 7/ 269)
ہم کہتے ہیں یہ آخری احتمال ہی راجح ہے کیونکہ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اسی حدیث کے ایک طریق میں کیف کی جگہ کم کا لفظ آگیا ہے اور حدیث کی سب سے بہترین تشریح حدیث ہی ہوسکتی ہے۔ دوسری وجہ یہ کہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا نے سب سے پہلے تعداد ہی بیان کی ہے ، اس سے پتہ چلتا ہے کہ اصل سوال تعداد ہی کی بارے میں ہوا تھا ، باقی کیفیت کا بیان اضافی ہے۔
رابعا:
کیف اور کم کی بحث جانے دیں ، گیاوی صاحب پورے سوال ہی سے آنکھیں بند کرلیں ، اور صرف جواب پر غور کریں کہ اس میں کیا ہے ؟ جواب میں پوری صراحت کے ساتھ ، رمضان وغیر رمضان اور گیارہ کی تعداد موجود ہے ، پھر اب کیف اور کم کی فلسلفہ سنجی کی ضرورت ہی کیا ہے؟
اور حیرت کی بات ہے کہ گیاوی صاحب نے شروع میں تو سارا زور اس بات پر لگا دیا کہ کیف کا مطلب کیا ہے لیکن آگے چل کر خود ہی تحریر فرماتے ہیں:
اشتباہ یہ ہوا کہ رمضان میں چوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا انہماک عبادت میں بڑھ جاتا تھا ، اس لئے کہیں ایسا تو نہیں کہ تہجد کی عام دنوں والی رکعت کی تعداد میں آپ رمضان کےاندر اضافہ فرمادیا کرتے تھے ، یہی بنائے سوال ہے (احسن التنقیح ص247)
ملاحظہ فرمائیں جس قلعہ کی تعمیر میں موصوف نے نہ جانے کہاں کی اینٹ اور کہاں کا پتھر چن چن کرلائے تھے ، یہاں پہنچ کر کود ہی اسے زمین بوس کردیا اور یہ منادی کردی کہ تعداد رکعات ہی کی معلومات لینا بنائے سوال تھا ، یعنی کیف اصل میں کم ہی کا مطلب لئے ہوئے ہیں ۔
اب ہمیں کچھ اور کہنے کی ضرورت نہیں ہے ۔
مولانا طاہر گیاوی صاحب نے حدیث عائشہ پر جو بنیادی اور تفصیلی اعتراضات کئے ہیں انہیں پانچ قسموں میں بانٹا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے:
1۔حدیث عائشہ میں سوال وجواب کا تعلق تراویح سے ہونا چاہئے ۔
2۔ یا تراویح اورتہجد دونوں کا ایک ہی نماز ہونا طے ہونا چاہے۔
3۔اس کے خلاف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کا ثبوت نہیں ملنا چاہے۔
4۔گیارہ رکعتوں میں حصر ثابت ہونا چاہے ، یعنی اس سے زیادہ یا کم پڑھنا ثابت نہ ہو۔
5۔ حدیث عائشہ میں کوئی فنی عیب نہ ہو یعنی متنا اضطراب کی وجہ سے یہ ضعیف نہ ہو۔
(ماحصل از احسن التنقیح ص 241 ، 242)
عرض ہے کہ:
پہلا اور دوسرا اعتراض ایک ہے اور وہ ہے تراویح اور تہجد الگ الگ ہونا ۔
تیسرا اور چوتھا اعتراض بھی ایک ہی ہے اور وہ حدیث عائشہ میں مذکور حصر کا غیر ثابت ہونا ۔
اس کے بعد پانچوں اعتراض اس کے متن کےثبوت پر یعنی اضطراب کا اعتراض ہے ۔
اس طرح یہ کل پانچ نہیں بلکہ تین ہی اعتراضات ہیں۔
اسی طرح حافظ ظہور احمد صاحب نے اس حدیث پر کل دس اعتراضات کئے ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے :
1۔بیان کیفیت میں روایات کا باہمی تعارض
2۔ تراویح اور تہجد میں تفریق
3۔محدثین کے ابواب بابت حدیث عائشہ
4۔فقہاء کی نظر میں اسے تہجد سے متعلق بتلانا
5۔ تہجد سے متعلق ثابت کرنے کی ایک اور کوشش
6۔ تعداد میں اختلاف سے متعلق روایات
7۔اضطراب کا اعتراض
8۔ تعداد میں تطبیق کے بعد عدم گیارہ سے زائد کا دعوی
9۔صحابہ کی طرف منسوب عمل سے معارضہ
10۔مختلف کیفیات کے حوالے سے الزام کہ اہل حدیث کا اس پر عمل نہیں
(ماحصل از رکعات تراویح کا تحقیقی جائزہ ص187 تا 208)
اس دس اعتراضات میں غور کریں تویہ بھی اصلا کل تین اعتراضات ہی ہیں ۔
پہلے ، ساتویں اور دسویں اعتراض کا تعلق اضطراب سے ہے ۔
دوسرے ، تیسرے ، چوتھے اور پانچویں اعتراض کا تعلق تہجد اور تراویح میں فرق سے ہے۔
چھٹے اور آٹھویں اعتراض کا تعلق عدم حصر سے ہے ۔
نواں اعتراض بالکل ہی غیر متعلق ہے کیونکہ اس حدیث عائشہ سے کوئی تعلق ہی نہیں اور اس کی بنیاد بھی غلط ہے کیونکہ صحابہ سے اس کے خلاف کچھ ثابت نہیں اس پر الگ سے بحث آرہی ہے ۔
الغرض یہ کہ یہ کل دس اعتراضات بھی بنیادی طور پر تین اعتراضات ہی ہیں ، لہٰذا ہم ان سارے اعتراضات کو تین قسموں میں سمیٹ دیتےہیں :
- اول: حدیث عائشہ میں اضطراب کا دعوی
- دوم: حدیث عائشہ میں عدم حصر کا دعوی
- سوم: تہجد اور تراویح میں فرق کا فلسفہ
پہلا اعتراض : اضطراب کا دعوی
یعنی یہ حدیث مضطرب ہے اور مضطرب حدیث ضعیف احادیث کی ایک قسم ہے جو ناقابل قبول ہے ۔
اس اعتراض کا تفصیلی جواب دینے سے قبل یہ حقیقت واضح کردینا ضروری ہے کہ یہ حدیث صحیح بخاری کی حدیث ہے اور صحیح بخاری کی احادیث کی صحت پر اجماع ہے ۔
✿ امام أبو إسْحاق الإسفراييني رحمہ اللہ(المتوفی418) اپنی کتاب ”أصول الفقه“ میں فرماتے ہیں:
أهل الصنعة مجمعون على أن الأخبار التي اشتمل عليها الصحيحان - مقطوع بصحة أصولها ومتونها، ولا يحصل الخلاف فيها بحال، وإن حصل فذاك اختلاف في طرقها ورواتها
اہل فن کا اس بات پر اتفاق ہے کہ صحیحین میں جو احادیث موجود ہیں وہ مع اصول ومتون قطعیت کے ساتھ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) سے ثابت ہیں'اگر ان میں موجود بعض روایات میں اختلاف ہے تو یہ ان احادیث کے طرق اور راویوں کے بارے میں اختلاف ہے۔[ أصول الفقه للإسفراييني بحوالہ النكت على مقدمة ابن الصلاح للزركشي 1/ 280، فتح المغيث بشرح ألفية الحديث 1/ 72]
✿ محمد بن طاهر ابن القيسراني رحمه الله (المتوفى507) فرماتے ہیں:
أجمع المسلمون على قبول ما أخرج في الصحيحين لأبي عبد اللّه البخاري ، ولأبي الحسين مسلم بن الحجاج النيسابوري ،
صحیحین میں امام بخاری ومسلم نے جو احادیث روایت کی ہیں ان کی قبولیت پر مسلمانوں کا اجماع ہے[صفوة التصوف لابن القيسراني (ورقۃ 87 ، 88) بحوالہ أحاديث الصحيحين بين الظن واليقين للشیخ الزاہدی ]
✿ امام ابن الصلاح رحمه الله (المتوفى643) لکھتے ہیں:
جميع ما حكم مسلم بصحته من هذا الكتاب فهو مقطوع بصحته والعلم النظري حاصل بصحته في نفس الأمر وهكذا ما حكم البخاري بصحته في كتابه وذلك لأن الأمة تلقت ذلك بالقبول سوى من لا يعتد بخلافه ووفاقه في الإجماع
وہ تمام احادیث کہ جن کو امام مسلم نے اپنی کتاب میں صحیح کہاہے ان کی صحت قطعی ہے اور ان سے حقیقت میں علم نظری حاصل ہوتا ہے 'اسی طرح کامعاملہ ان احادیث کا بھی ہے کہ جن کو امام بخاری نے اپنی کتاب میں صحیح کہا ہے ۔اور اس کی وجہ یہ ہے کہ تمام امت کے نزدیک ان کتابوں کو 'تلقی بالقبول'حاصل ہے سوائے ان افراد کے کہ جن کے اختلاف یا اتفاق سے اس اجماع کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ [صيانة صحيح مسلم ص: 85]
✿ امام نووي رحمه الله (المتوفى676) فرماتے ہیں:
اتفق العلماء رحمهم الله على أن أصح الكتب بعد القرآن العزيز الصحيحان البخاري ومسلم وتلقتهما الامة بالقبول،
علماء رحمہم اللہ کا اتفاق ہے کہ قرآن عزیز کے بعدسب سے صحیح کتاب صحیح بخاری اور صحیح مسلم ہے ، امت کی طرف سے اسے تلقی بالقبول حاصل ہے [شرح النووي على مسلم 1/ 14]
✿ امام ابن كثير رحمه الله (المتوفى774) فرماتے ہیں:
أجمع العلماء على قبوله وصحة ما فيه، وكذلك سائر أهل الإسلام
صحیح بخاری کی مقبولیت اور اس احادیث کی صحت پر علماء اور تمام مسلمانوں کا اجماع ہے ۔[البداية والنهاية ط إحياء التراث 11/ 30]
✿ علامہ ابن خلدون رحمہ اللہ (المتوفى 808) فرماتے ہیں:
وجاء محمّد بن إسماعيل البخاريّ إمام المحدّثين في عصره فخرّج أحاديث السّنّة على أبوابها في مسندة الصّحيح بجميع الطّرق الّتي للحجازيّين والعراقيّين والشّاميّين. واعتمد منها ما أجمعوا عليه دون ما اختلفوا فيه
اس کے بعد امام المحدثین محمد بن اسماعیل البخاری اپنے زمانے میں سامنے آئے انہوں نے اپنی صحیح مسند میں احادیث کو ابواب کی ترتیب پر بیان کیا اور اپنی کتاب میں حجازیوں 'عراقیوں اور شامیوں کے ان طرق سے احادیث کو نقل کیا کہ جن پر ان کا اجماع تھااور جن طرق میں اختلاف تھا ان کو نہ لیا.[تاريخ ابن خلدون 1/ 559]
✿ ملا علي القاري رحمہ اللہ(المتوفى1014)فرماتے ہیں:
ثم اتفقت العلماء على تلقي الصحيحين بالقبول، وأنهما أصح الكتب المؤلفة
پھر علماء کا صحیحین کو قبول کرنے پر اتفاق ہے اور اس بات پر کہ تمام کتابوں میں یہ صحیح تریں کتابیں ہیں [مرقاة المفاتيح للملا القاري: 1/ 18]
✿ شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ(المتوفی1176 ) فرماتے ہیں:
أما الصحيحان فقد اتّفق المحدثون على أَن جَمِيع مَا فيهمَا من الْمُتَّصِل الْمَرْفُوع صَحِيح بِالْقطعِ، وأنهما متواتران إِلَى مصنفيهما، وَأَنه كل من يهون أَمرهمَا فَهُوَ مُبْتَدع مُتبع غير سَبِيل الْمُؤمنِينَ
صحیح بخاری اور صحیح مسلم کے بارے میں تمام محدثین متفق ہیں کہ ان میں تمام کی تمام متصل اور مرفوع احادیث یقینا صحیح ہیں ، یہ دونوں کتابیں اپنے مصنفین تک بالتواتر پہنچتی ہیں جو ان کی عظمت نہ کرے وہ بدعتی ہے جو مسلمانوں کی راوہ کے خلاف چلتا ہے۔(حجة الله البالغة 1/ 232 ، حجۃ اللہ البالغہ مترجم اردو ص 250 ، ترجمہ اردو نسخہ سے نقل کیا گیا ہے۔)
✿ عصر حاضر کے احناف بھی نے بھی اس بات کا اعتراف کیا ہے چنانچہ :
سرفراز صفدر دیوبندی صاحب لکھتے ہیں:
اور امت کا اس پر اجماع اور اتفاق ہے کہ بخاری اور مسلم دونوں کی تمام روایتیں صحیح ہیں (احسن الکلام ج1 ص187)
✿ غلام رسول رضوی بریلوی صاحب لکھتے ہیں:
تمام محققین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ قرآن کریم کے بعد صحیح بخاری تمام کتب سے اصح کتاب ہے (تفہیم البخاری : ج1ص5)
صحیحین کی تمام احادیث صحیح ہے اس پر ائمہ ، محدثین ، اہل علم حتی کہ خود احناف کے بھی بے شمار اقوال ہیں لیکن ماقبل میں صرف وہ اقوال پیش کئے گئے ہیں جن میں صحیحین کی تمام احادیث کو نہ صرف صحیح کہا گیا ہے بلکہ اس صحت پر امت کا اجماع نقل کیا گیا ہے۔
لیکن افسوس ہے کہ رکعات تراویح کی بات آتی ہے تو احناف اس روشن حقیقت اور اس کے اعتراف کوپس پشت ڈال کر بغیر کسی خوف و جھجک کے یہ کہنے لگ جاتے ہیں کہ حدیث عائشہ مضطرب یعنی ضعیف ہے۔
کیا صحیحین کی صحت صرف اسناد کے لحاظ سے ہے؟
مولانا طاہر گیاوی صاحب نے یہ محسوس کیا کہ صحیح بخاری کی حدیث عائشہ کو مطلق ضعیف کہنے کے بات نہیں بننے والی کیونکہ اس کے خلاف کوئی اجماع صحت کا حوالہ دے سکتا ہے اس لئے موصوف نے لکھا:
اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ اس کی سند بالکل صحیح ہے اور بخاری ومسلم میں ہونا ہی اس کی سند کی صحت کے لئے بہت بڑی ضمانت ہے لہٰذا بہ لحاظ سند یہ روایت بے غبار ہے لیکن جہاں تک متن اور مضمون حدیث کی حیثیت کا تعلق ہے تو اس کی صحت میں محدثین کو سخت کلا م ہے (العدد الصحیح ص15 نیز دیکھیں: احسن التنقیح لرکعات التراویح : ص331)
صحت میں محدثین کو سخت کلام ہے یہ بات تو بالکل غلط ہے کسی ایک بھی ثقہ محدث نے اس کی صحت پر کلام نہیں کیا ہے تفصیل آرہی ہے۔
یہاں موصوف نے یہ دکھلانے کی کوشش کی ہے کہ صحیحین میں کسی روایت کا ہونا صرف سندا صحیح ہونے کی ضمانت ہے متنا نہیں ۔حالانکہ یہ بات بالکل غلط ہے۔
صحیحین کی صحت پر اجماع نقل کرنے والے سب سے قدیم جس محدث کا نام ملتا ہے وہ امام أبو إسْحاق الإسفراييني رحمہ اللہ(المتوفی418) ہیں ان کے الفاظ ماقبل میں نقل کئے جاچکے ہیں اس میں انہوں نے پوری صراحت کے ساتھ ”مقطوع بصحة أصولها ومتونها“ کے الفاظ کہے ہیں یعنی اصول ومتون کے ساتھ صحیحین کی احادیث کی صحت قطعی ہیں اس پر اہل فن کا اجماع ہے۔
صرف اسی ایک حوالے سے طاہرگیاوی صاحب کی مذکورہ تفریق کی قلعی کھل جاتی ہے۔موصوف کو بھی بخوبی احساس تھا کہ ان کی یہ بات قارئین کو ہضم ہونے والی نہیں ہے اسی لئے جناب نے اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کے لئے آگے علامہ مبارکپوری رحمہ اللہ سے یہ نقل کررکھا ہے کہ سند کا صحیح ہونا متن کے صحیح ہونے کو مستلزم نہیں (العدد الصحیح ص16)
عرض ہے کہ :
اولا:
علامہ مبارکپوری نے مذکورہ بات صحیحین کی کسی حدیث سے متعلق نہیں کہی ہے ، اور اوپر بتایا جاچکا ہے کہ احادیث صحیحین کے متون کی صحت پر اجماع ہوچکا ہے ،اس اجماع کے خلاف علامہ مبارکپوری کہیں کوئی بات نہیں کہی ہے ۔
ثانیا:
حدیث کی صحت کے شرائط میں جہاں یہ بات ہے کہ سند بے داغ ہونی چاہئے یعنی تمام رواۃ ثقہ ہونے چاہئیں اور سند متصل ہونی چاہئے وہیں یہ شرط بھی ہے کہ متن بھی محفوظ ہونا چاہئے ، اگر متن میں شذوذ ہے تو سند بے عیب ہونے کے باوجود بھی حدیث صحیح نہیں ہوگی ، اصول حدیث کی کتابوں یہ بات مسلم ہے۔
چونکہ بعض متساہل یا محدثین کے عام منہج سے منحرف لوگ سند کی محض ظاہری حالت ہی دیکھ کر صحیح سمجھ بیٹھتے ہیں اس لئے خاص ایسے لوگوں کی تردید میں کہا جاتا ہے کہ صرف سند کے صحیح ہونے سے حدیث صحیح نہیں ہوتی لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ معتبر اور مستند محدثین بھی جب کسی حدیث کو صحیح کہتے ہیں تو وہ محض سند کے لحاظ سے صحیح کہتے ہیں ۔
حقیقت یہ ہے کہ اہل فن اور مستند محدثین کسی حدیث کو محض سند کے لحاظ صحیح کہہ ہی نہیں سکتے ہیں کیونکہ ان کے یہاں کوئی حدیث درجہ صحت کو تب تک نہیں پہنچ سکتی ہے جب تک کہ اس کا متن بھی محفوظ ثابت نہ ہوجائے ، اس لئے محدثین جب کہ کسی حدیث پر صحت کا حکم لگاتے ہیں کہ تو اس کا مطلب ہی یہی ہوتا ہے کہ اس کا متن محفوظ و ثابت اور قابل قبول ہے ۔
امام بخاری وامام مسلم بلکہ تمام صحاح کی مصنفین نے اپنی صحاح کی کتابوں جو صحت کا حکم لگایا ہے اس کا یہی مفہوم ہے ۔
صحت کا حکم متن پر ہی لگتا ہے:
یہ بات بھی واضح ہے کہ سند کی تحقیق و تفتیش کے پیچھے اصل مقصد ہی یہی ہوتا ہے کہ اس کے ذریعہ آنے والی بات یعنی متن کی بابت معلوم ہوسکے کہ وہ صحیح ہے یا نہیں ،اصول حدیث اور تحقیق رجال کی ساری کاوشوں کا ھدف بس اسی بات کا پتہ لگانا ہوتا ہے ۔لہٰذا اہل فن جب کسی حدیث پر صحت کا حکم لگاتے ہیں تو سند کے ذریعہ آنے والے متن کے بارے میں ہی فیصلہ کرتے ہیں کہ وہ صحیح ہے۔
حتی کہ تحقیق تو تفتیش کے دوران کسی حدیث کی ایک سند ضعیف ثابت ہوتی ہے تو محدثین محض اس ایک سند کے ضعف کو دیکھ کر متن کو ضعیف نہیں کہتے بلکہ اس متن کی دیگر اسانید بھی تلاش کرتے ہیں اگر کسی اور مقام پر اس کی صحیح سندیں مل گئیں تو پھر متن پر ان کا حکم صحت ہی کا ہوتا ہے۔کیونکہ یہی اصل مقصود ہے۔
بلکہ بسا اوقات ایک حدیث کی ساری سندیں ضعیف ہوتی ہیں لیکن سندوں کی مجموعی کیفیت ایسی ہوتی ہے جو اشارہ کرتی ہے کہ اس ضعف سے نقل کردہ بات متاثر نہیں ہوسکتی ہے ایسی صورت میں بھی محدثین حدیث پر صحت ہی کا فیصلہ کرتے ہیں اور اس کے لئے حسن لغیرہ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں ۔
غرض یہ کہ تحقیق حدیث کا اصل مقصد متن پر حکم لگانا ہی ہوتا ہے اور جب بھی کوئی مستند محدث کسی حدیث پر صحت کا فیصلہ کرتا ہے تو وہ فیصلہ بنیادی طور پر متن سے متعلق ہی ہوتا ہے ۔
بخاری ومسلم کی احادیث پر جو صحت کا فیصلہ کیا گیا ہے یہ فیصلہ اصلا متون ہی سے متعلق ہے اسی لئے صحیحین کی کسی حدیث کی سند میں کوئی عیب ظاہر ہوتا ہے تو اہل فن شواہد و متابعات اور قرائن پر بحث کرتے ہوئے یہی جواب دیتے ہیں کہ اس عیب سے متن کی صحت پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔
تلقی بالقبول کا مطلب:
مزید اس بات پر غورکیا جائے کہ صحیحین کی احادیث کی صحت پر اجماع نقل کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ان احادیث کو تلقی بالقبول حاصل ہے جیساکہ حوالے گذرچکےہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ تلقی بالقبول کا کیا مطلب ہے ؟ کیا محض سند کے ساتھ تلقی بالقبول کی بات کا کوئی مطلب بنتا ہے ؟ اگر سند کو متن سے الگ کردیا جائے تو بتلایا جائے کہ جب سند کے ساتھ کوئی بات ہے ہی نہیں ، تو قبول کسے کیا جائے گا ؟
ظاہر ہے تلقی بالقبول کا مطلب یہی ہے کہ صحیحن میں سندوں کے ساتھ جو احادیث ہیں ان احادیث کو امت نے بالاتفاق قبول کیا ہے۔
اس تفصیل کے بعد یہ حقیقت طشت ازبام ہوجاتی ہے حدیث عائشہ متن کے لحاظ سے بھی صحیح ہے اور اس کی صحت پر اجماع ہے ۔اس کے بعد مزید کسی بحث کی ضرورت تو نہیں رہ جاتی کیونکہ عصر حاضر کے احناف کو یہ حق ہی حاصل نہیں کہ بالاجماع ثابت شدہ کسی بات کا انکار کریں ۔
تاہم قارئین کے اطمینان قلب کے لئے اس سلسلے میں مخالفین کی پیش کردہ باتوں پر گفتگو کرکے ہم معاملہ کو پوری طرح صاف کرنا چاہتے ہیں۔