• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سانحہ قصور

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
قصور میں بچوں کے ساتھ زیادتی اور پھر اس کی تشہیر ، انتہائی المناک و شرمناک سانحہ ہے ، جو ہماری معاشرتی بے حسی و بے شرمی کا منہ بولتا ثبوت ہے ، اس کے متعلق لکھے جانے والے کالمز وغیرہ یہاں جمع کرنے کا ارادہ ہے :
سانحہ قصور ، تبصرے ، تجزیے ، تبادلہ1.jpg
 
Last edited:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
انصاف بس انصاف
طارق محمود چوہدری
نئی بات
انصاف بس انصاف.jpg

جی بالکل علماء کو جھوٹی شرم و حیا کے پردوں کو اٹھا کر سر عام اس طرح کے مسائل ، ان کی شرعی حیثیت ، سزائیں وغیرہ بیان کرنی چاہییں ۔
تصحیح : مولانا معین الدین لکھوی ہیں ۔
 
Last edited:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
ریاست یا سیاست
ارشاد احمد عارف
روزنامہ دنیا
انسپکٹر جنرل پولیس پنجاب کے آفس سے ذرائع ابلاغ کو ایک مراسلہ جاری کیا گیا ہے جس میں قصور سانحہ کے حوالے سے دستیاب معلومات بالخصوص متاثرین اور ملزمان کی تعداد سے محکمہ پولیس کو آگاہ کرنے کی درخواست کی گئی ہے ۔مراسلہ میں اس بات کا اعتراف کیا گیا ہے کہ اخبار نویس ٹھوس معلومات اور مددگار اعداد و شمار کے ذریعے پولیس کی اعانت کر سکتے ہیں۔
یہ مراسلہ پڑھ کر مجھے دوسری جنگ عظیم کے دوران کا ایک لطیفہ نما واقعہ یاد آ گیا ۔کہتے ہیں کہ جھنگ کے ایک گائوں میں انگریز ڈپٹی کمشنر نے مقامی معززین کی کچہری میں اپیل کی کہ وہ لام بندی کے دوران زیادہ سے زیادہ لوگوں کو فوج میں بھرتی کرائیں تاکہ تاج برطانیہ ہٹلر سے محفوظ رہے۔ ایک سادہ لوح میر زادے نے کھڑے ہو کر ڈپٹی کمشنر سے بصد ادب کہا ... سرکار! تاج برطانیہ کی حفاظت ہماری سپرد کرنے سے بہتر نہیں کہ بادشاہ سلامت ہٹلر سے صلح کر لیں۔
پنجاب پولیس کے بارے میں یہ مشہور تھا کہ یہ اڑتی چڑیاکے پر گن لیتی ہے اور مخبری کا نظام اس قدر موثر اور مضبوط ہے کہ کسی دور دراز علاقے میں دو افراد کے درمیان ہونے والی کانا پھوسی کی اطلاع بھی کوتوال شہر کومل جاتی ہے‘ مگر یہ ان دنوں باتیں ہیں جب حکمران بیدار مغز تھے اور پولیس کا ڈھانچہ سیاسی دبائو سے آزاد۔ سابق گورنر ملک امیر محمد خان نے کوئٹہ کے ایک ڈی آئی جی کو اس بنا پر اپنے منصب سے ہٹا دیا کہ کسی نے اس کی اقامت گاہ کی دیوار پھلانگی مگر فائرنگ پر فرار ہو گیا۔ گورنر کا موقف تھا کہ پولیس افسر کا علاقے میں اتنا رعب ہونا چاہیے کہ کم از کم اس کے دفتر یا گھر سے دو تین میل کے دائرے میں کوئی مجرم داخل ہونے کی جرأت نہ کر سکے‘ کجا کہ وہ گھرتک پیچھے اور فائرنگ پر فرار ہو جائے‘ مگر جب عوام کی حفاظت پر مامور پولیس افسران اپنے تحفظ کے لیے کمانڈوز کے محتاج ہوں ‘ان کے گھر اور دفتر قلعے کی صورت اختیار کر لیں‘ اردگرد کی گلیاں اور سڑکیں شریف شہریوں کی آمدو رفت کے لیے بند کر دی جائیں‘ قصور میں مستعدو چاک و چوبند پولیس اہلکاروں کے حصار میں موجود انسپکٹر جنرل پولیس اور آر پی او پر جوتا پھینکنے والا آسانی سے فرار ہو جائے اور حکومت ڈی پی او قصور کے علاوہ ایڈیشنل آئی جی سپیشل برانچ کو ناقص انٹیلی جنس پر عہدوں سے ہٹا دے‘ وہاں آئی جی آفس کی اخبار نویسوں سے معلومات طلب کرنے پر حیرت کیسی؟
پولیس میں سپشل برانچ نام کا ایک محکمہ ہے جس کے ریگولر کارندے اور سفید پوش گلی گلی‘ محلے محلے موجود اور ہر چھوٹے بڑے واقعہ اور گپ شپ کی رپورٹ کرتے ہیں۔ حکومت ریگولر سٹاف کے علاوہ سفید پوشوں کو معقول تنخواہ دیتی ہے جبکہ ہر تھانے دارکے اپنے سفید پوش بھی ہوتے ہیں ‘مگر تھانہ گنڈا سنگھ والا کے نواح میں جب اس قدر وسیع پیمانے پر یہ دھندا چل رہا تھا تو کسی مخبر اور سفید پوش نے مقامی تھانے دار اور حکام بالا کو کوئی اطلاع دی نہ دیگر انٹیلی جنس ایجنسیوں کو خبر ہوئی جو وزیر اعلیٰ کو آگاہ کرتیں ‘یہ بے خبری نہیں پردہ پوشی تھی جس کی قیمت پولیس افسروں اور اہلکاروں کے علاوہ ان کے سرپرست مقامی سیاستدانوں نے بھی وصول کی۔ اگر سابق ایس ایچ او مہر اکمل کے علاوہ ان کے پیشروئوں ‘ بعض مقامی سیاسی کارندوں اور ماسٹرظفر‘ و مبین غزنوی سے ڈھنگ کی تفتیش ہو‘ ان کے بنک اکائونٹس کو تفصیل سے چیک کیا جائے تو حیرت انگیز انکشافات ہو سکتے ہیں۔ مگر یہ کام کرے کون؟
میڈیا نے بھر پور طریقے سے یہ معاملہ8اگست کو اٹھایا۔ حسین خان والا اور اردگرد کے لوگوں نے جلوس ایک ہفتہ قبل نکالا جسے لاہور جانے سے روک دیا گیا مگر 8اگست سے قبل آئی جی کو قصور جانے کی ضرورت محسوس ہوئی نہ وزیر اعلیٰ نے نوٹس لیا اور نہ کوئی کمیٹی تشکیل ہوئی؛ حالانکہ اس وقت تک معاملہ الم نشرح ہو چکا تھا اور ایف آئی آر کا اندراج بھی عمل میں آ گیا تھا۔میڈیا فعال ہے مگر پولیس کو معلومات فراہم کرنا اس کی ذمہ داری کب سے ہو گئی؟
پولیس‘ انتظامیہ اورسول حکومتوں کے اس سہل پسندانہ بلکہ مجرمانہ طرز عمل کی وجہ سے قصور کے سانحہ نے ملک گیر بلکہ عالمی شہرت حاصل کی اور ملک و قوم کی بدنامی ہوئی۔ چھ سال تک سنگین جرم کا ارتکاب ہوتا رہا۔ خاندان کے خاندان تباہ ہوئے اور معصوم بچیاں اوربچے ذہنی نفسیاتی اور روحانی اذیت کے مسلسل عمل سے گزرتے رہے مگر کسی کو ہوش نہ آئی۔ کسی کی آنکھوں پر رشوت کی پٹی بندھی تھی اور کسی کو سیاسی مصلحتوں اور مفادات نے اندھا کر رکھا تھا۔ مسلم لیگ (ن) کے طرز حکمرانی میں ایک خامی یہ بھی ہے کہ اختیارات کی مرکزیت نے ہر ایک کو اپنے فرائض کی ادائیگی سے بے نیاز کر دیا ہے اور پسندیدہ افسر و عوامی نمائندہ ہر طرح کے احتساب اور مواخذے سے آزاد ہے۔ جس کا فائدہ سرکاری افسران اور ارکان اسمبلی کے علاوہ ‘وہ مجرم اور بلیک میلر گروہ اٹھاتے ہیں جنہوں نے شہر‘ دیہات میں عوام کو یرغمال بنا رکھا ہے۔
قصور کے ایک گائوں میں انفرادی واقعہ پولیس کی غفلت‘ ناقص جاسوسی نظام‘ بااثر افراد کی سرپرستی اور صوبائی حکومت کی بے خبری کی وجہ سے گھنائونے اجتماعی جرم کی شکل اختیار کر گیا اور اس وقت پوری قوم اور ریاست عالمی سطح پر مجرموں کے کٹہرے میں کھڑی ہے۔ یونیسف کا بیان پوری قوم کی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہے۔ کراچی میں بھی پولیس و انتظامیہ کی غفلت وسہل پسندی‘ مختلف سیاسی و فوجی حکومتوں کی بے نیازی اور سیاسی و مذہبی جماعتوں کی بے حسی کی وجہ سے جرم و سیاست ایک دوسرے میں مدغم ہوئے۔ آج حالت یہ ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کے علاوہ رینجرز کے آپریشن کو متنازع بنانے کی کوششیں عروج پر پہنچ گئی ہیں اور پوری ریاست ‘ پارلیمنٹ اور حکومت کو بلیک میل کیا جا رہا ہے۔
گزشتہ روز ایم کیو ایم نے سندھ و قومی اسمبلی اور سینٹ سے استعفوں کا جو ڈرامہ رچایا وہ اس بلیک میلنگ کا شاہکار ہے۔ کراچی آپریشن میں پیپلز پارٹی‘ اے این پی‘ سنی تحریک‘ لیاری کی امن کمیٹی کے کارکن‘ ہمدرد اور وابستگان گرفتار ہوئے‘ سنی تحریک کے ہیڈ کوارٹر پر رینجرز نے چھاپہ مارا اور تحریک کے سربراہ ثروت اعجاز قادری سے کئی گھنٹے تک تفتیش ہوتی رہی ‘مدارس پر چھاپے مارے جا رہے ہیں‘ مگر کسی جماعت یا گروہ نے آپریشن کومتنازع بنانے کی کوشش کی نہ کسی رنگ‘ نسل‘ زبان اور مسلک سے وابستہ طبقے سے امتیازی سلوک کا پروپیگنڈا کیا اور نہ اقوام متحدہ ‘نیٹو یا بھارت سے مداخلت کی اپیل کی۔ سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئر پرسن آصف علی زرداری نے جوش جذبات میں غیر محتاط زبان استعمال کی مگر سنبھل گئے اور یوسف رضا گیلانی‘ راجہ پرویز اشرف اور دیگر لیڈروں نے ان سے اختلاف کیا مگر ایم کیو ایم کا معاملہ عجیب ہے‘ کوئی ٹارگٹ کلر پکڑا جائے‘ بھتہ خور یا اغوا برائے تاوان کا مجرم‘ ایم کیو ایم فوراً اسے اپنا کارکن اور مہاجر قوم کا ہیرو قرار دے کر احتجاج پر اتر آتی ہے۔
جب تک کراچی مقتل ‘ جرائم کی آماجگاہ اور بھتہ خوروں کی چرا گاہ بنا رہا ایم کیو ایم مطمئن رہی ۔جب سے کراچی کی روشنیاں بحال ہوئیں اور عوام نے سکھ کا سانس لیا ایم کیو ایم کے قائدین انگاروں پر لوٹ رہے ہیں جس کی وجہ سے مخالفین کو یہ کہنے کا موقع مل رہا ہے کہ کراچی کا امن ایم کیو ایم کو گوارا نہیں۔ دنیا نیوز کی سپیشل ٹرانسمیشن کے دوران مجھے ایک برقی پیغام موصول ہوا ''مورخ لکھے گا کہ کراچی کی منتخب جماعت نے شہر میں امن ہونے پر احتجاجاً استعفیٰ دے دیا‘‘۔ قومی اتفاق رائے سے شروع کیے جانے والے آپریشن اور رینجرز پر مہاجروں کی نسل کشی کا الزام دھرنا حب الوطنی اور مہاجر دوستی کی کون سی قسم ہے؟ ڈاکٹر فاروق ستار ہی بتا سکتے ہیں۔ افسوس ناک رویہ وفاقی حکومت اور سپیکر قومی و صوبائی اسمبلی کا ہے جو اپنے سامنے پیش کئے گئے استعفوں کو منظور کرنے کے بجائے حیل و حجت سے کام لے رہے ہیں۔ کیا قوم یہ سمجھنے میں حق بجانب ہے کہ کراچی آپریشن کی بساط لپیٹنے کے لیے ایم کیو ایم نے استعفوں کا کارڈ استعمال کیا اور میاں نواز شریف و آصف علی زرداری اس کے پشت پناہ ہیں۔
یہ ایم کیو ایم کو آکسیجن فراہم کی ناکام کوشش ہے۔ ایم کیو ایم کے منحرف ارکان پارلیمنٹ کی تعداد چھپانے‘ بغاوت کو روکنے اور ضمنی انتخابات کے ذریعے ایک بار پھر عوامی مینڈیٹ کا ڈرامہ رچا کر ریاستی اداروں کو بلیک میل کرنے کی یہ کوشش صرف اسی صورت میں کامیاب ہو سکتی ہے کہ وفاق و سندھ میں برسر اقتدار جماعتیں مصلحت پسندی کو گلے لگا لیں اور الطاف بھائی کے مطالبات و مفادات کو کراچی آپریشن پر ترجیح دیں۔
ایم کیو ایم کے ارکان بے چارے تو مجبور ہیں ‘انہوں نے کراچی /کے امن پر قائد کے حکم کو ترجیح دی ورنہ وہ قائد تحریک سے کہہ سکتے تھے کہ اس موقع پر پارلیمنٹ سے باہر آنا خودکشی ہے کیونکہ یہ ارکان اس تحفظ سے محروم ہو جائیں گے جو انہیں سپیکر اور چیئرمین اب تک فراہم کرتے چلے آ رہے ہیں ‘مگر مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی مجبوری کیا ہے؟ کیا بلیک میلنگ کی سیاست جمہوری نظام کے لیے خوش آئند ہے اور سول ملٹری تعلقات کو مضبوط بنانے میں معاون؟ آئندہ چند دنوں میں سب کچھ کھل کر سامنے آ جائیگا ۔جب ریاست کمزور‘ ریاستی ادارے مصلحت پسند اور حکمران مفادات کے بندے ہوں تو یہی ہوتا ہے جو قصور اور کراچی میں ہو رہا ہے۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
حسین خانوالہ ، جوڈیشل کمیشن کا فیصلہ
عمار چوہدری
روز نامہ دنیا

حسین خاں والا ماڈل ٹائون سے پچاس کلومیٹر کی دوری پر ہے اور گاڑی میں یہاں پہنچنے میں تیس چالیس منٹ لگتے ہیں۔ جبکہ حسین خان والا سے بنی گالہ تقریباً ساڑھے تین سو کلومیٹر کی دوری پر ہے اور بنی گالہ سے قصور آنے میں کم از کم پانچ گھنٹے لگتے ہیں۔کیا یہ پنجاب کے حکمرانوں کے لیے سوچنے کا مقام نہیں کہ صوبہ ان کا‘گائوں میں موجود ایم پی اے اُن کی اپنی جماعت کا لیکن متاثرہ بچوں کے دکھ بانٹنے اسلام آباد سے عمران خان کی اہلیہ ریحام خان تو پہنچ گئیں جبکہ وزیراعلیٰ پنجاب جن کے پاس کہیں زیادہ تیز رفتار گاڑیوں کا قافلہ اور ہیلی کاپٹر تک موجود ہیں‘ انہوں نے وہاں ابھی تک قدم رنجہ فرمانا مناسب نہیں سمجھا ۔ کہا جا رہا ہے کہ متعلقہ گائوں کا ایم پی اے پچاس لاکھ روپے رشوت لے چکا ہے۔ اسی طرح تھانیدار بھی بیس لاکھ میں بک چکا۔ دونوں اس معاملے کو اراضی کے تنازعے کا رنگ بھی دینے کی کوشش کر رہے ہیں تو کہیں ایسا تو نہیں کہ وزیراعلیٰ کے وہاں پہنچنے سے پہلے کہانی کو اس انداز میں موڑ دیا جائے کہ بااثر ملزمان اور حکمران جماعت کے ایم پی اے اور پولیس کا گٹھ جوڑ ثابت ہی نہ ہو سکے اور متاثرہ خاندان کو دھمکیاں اور دبائو دے کر معاملے کو واقعتاً اراضی کے تنازعے میں تبدیل کر دیا جائے ۔
کم سن بچوں کے ساتھ زیادتی اور ان کی ویڈیوز بنا کر بلیک میلنگ کرنے کے جس واقعے نے پاکستان سمیت دنیا کو ہلا دیا ‘ وہ واقعہ پنجاب کے حکمرانوں کو کیوں نہ جگا سکا‘ یہ آج کا سوال ہے۔ اس سے بھی بڑا سوال یہ ہے کہ جس طرح کسی کیس پر پردہ ڈالنے اور لٹکانے کے لئے ماضی میں کمیٹیاں بنائی جاتی تھیں‘ اُن سہ رکنی کمیٹیوں کی جگہ اب جوڈیشل کمیشن نے لے لی ہے۔ رپورٹ کمیٹیاں بنائیں یا کمیشن‘بنانی تو انسانوں نے ہیں اور پیش بھی حکمرانوں کے سامنے کرنی ہے۔ اب آگے ان کی مرضی کہ وہ اسے عوام کے سامنے پیش کریں یا پھر ایک نئی جوڈیشل انکوائری ٹیم بنا کر من پسند رپورٹ سامنے لے آئیں۔ مثال کے لئے ملاحظہ ہو‘ جسٹس باقر نجفی کی سانحہ ماڈل ٹائون رپورٹ‘ جس کے بارے میں جب وزیراعلیٰ پنجاب سے سوال کیا جائے تو وہ یہ کہہ کر بات گول کر دیتے ہیں کہ یہ معاملہ عدالت میں ہے اور وہ اس پر کوئی کمنٹ نہیں دے سکتے۔ بندہ ان سے پوچھے کہ اس معاملے کو عدالت تک پہنچایا کس نے؟ پہلی رپورٹ کی تیاری میں حکمران جماعت اور پولیس جوڈیشل کمیشن کے سامنے پیش ہوئی‘ عوامی تحریک والوں کا اس پر دبائو کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا۔ وہ رپورٹ جب دنیا ٹی وی میں کامران شاہد سامنے لائے تو رانا ثنا اللہ نے بجائے رپورٹ کے مندرجات کا جواب دینے کے‘ الٹا یہ کہنا شروع کر دیا کہ جس نے آپ کو یہ رپورٹ دی ہے ‘ جواب بھی آپ انہی سے لے لیں۔ یہی رانا ثنا اللہ آج قصور واقعے پر بھی مٹی ڈالنے کی کوشش میں ہیں۔ کیوں؟ کیونکہ وہاں کی پولیس اور وہاں کے بااثر افراد وہاں کے مقامی ایم پی اے کے زیراثر ہیں۔ ایسا لگتا ہے رانا صاحب کی یہی ذمہ داری ہے کہ انہوں نے ہر حال میں پولیس کو بچانا ہے چاہے اس کے لئے معصوم بچوں کی زندگیاں ہی کیوں نہ برباد ہو جائیں۔ جب کئی ملزمان اعتراف جرم کر چکے‘ ویڈیوز میں ان کی شناخت ہو چکی تو اس کے بعد جوڈیشل کمیشن کی کیا ضرورت؟ اگر ہر کام جوڈیشل کمشن نے کرنا ہے تو پھر پولیس کا محکمہ ختم کیوں نہیں کر دیا جاتا۔ جوڈیشل کمیشن زیادہ سے زیادہ اپنی فائنڈنگ پر مبنی ایک رپورٹ پیش کرے گا لیکن
اس رپورٹ کو منظر عام پر لانے میں پھر یہی حکمران رکاوٹ بن جائیں گے تو پھر اس سارے پراسیس کا فائدہ؟ اس طرح کا سیکنڈل پہلی بار آیا ہے نہ پولیس کے جانبدارانہ رویے کی یہ کوئی پہلی مثال ہے۔ یہ سارا کمزور اور طاقتور کا کھیل ہے۔ کون نہیں جانتا جوڈیشل کمیشن اور کمیٹیاں عوام کی آنکھوں میں دُھول جھونکنے کے لئے بنائی جاتی ہیں۔ ایسا کرتے ہوئے حکمرانوں کو پولیس اور ارکان اسمبلی کی عزت کا تو بڑا خیال آتا ہے لیکن ان غریب بچوں کا نہیں جن کے ساتھ یہ دل سوز واقعہ پیش آیا۔ ایسے بچوں اور ان کے والدین کو فوری طور پر نفسیاتی معالجین کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمدردی اور حوصلے کے چند الفاظ ان کے دکھ ختم نہیں کم تو کر سکتے ہیں لیکن ان متاثرہ خاندانوں کو آج بھی دھمکیاں مل رہی ہیں کہ اگر عدالت میں اپنے بیان پر قائم رہے تو اپنے قدموں پر گھر نہیں جا سکو گے۔ جن غریب بچوں کے ساتھ ایسے واقعات پیش آئے ہیں‘ ان کے والدین صبح سے شام تک زمینداروں کی زمینوں کو جنت بنانے میں جتے رہتے ہیں لیکن بدلے میں دو وقت کی روٹی بھی حاصل نہیں کر پاتے۔ یہ لوگ کیسے اتنے بڑے گینگ کا مقابلہ کر پائیں گے کہ جن کی سرپرستی کسی نہ کسی زاویے سے حکمران بھی کرتے ہیں۔ یہ پولیس کو پالتے پوستے ہی اسی دن کے لئے ہیں اور پولیس بھی ان کے ناز نخرے اس لئے اٹھاتی ہے کہ جب پولیس پر ایسا وقت آئے تو حکمران کمیشنوں اور کمیٹیوں کی گتھیوں میں معاملے کو ایسا اُلجھائیں کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔
سنا تھا‘بچے سانجھے ہوتے ہیں۔ حکمران اس روایت کو بھی بدلنے پر مصر ہیں۔ یہ ''اپنے‘‘ لوگوں کو بچانے میں لگے ہیں۔ خدا کی پناہ ہے۔ پولیس کیا آسمان سے نازل ہوئی ہے؟ کیا گنڈا سنگھ والا کا ایس ایچ او خدائی خدمت گار ہے جو اسے ابھی تک ہتھکڑی نہیں لگائی گئی؟ کیا پولیس‘ عدالتیں اور دیگر نظام از خود ذمہ داری ادا کرنے سے معذور ہو چکا ہے کہ بات صرف وزیراعلیٰ کے حکم پر ہی آگے بڑھتی ہے۔ کیا یہ جھوٹ ہے کہ پولیس اور بیوروکریسی کو حکمرانوں نے ایسی کسی کارروائی کی اجازت ہی نہیں دی کہ اس طرح حکمرانوں کی جگہ ان کی خبریں اور تصویریں میڈیا میں چلیں گی۔پنجاب فوڈ اتھارٹی کی ڈائریکٹر آپریشنز عائشہ ممتاز کو وزیراعلیٰ کی آشیرباد نہ ہو تو ان کی کیا مجال کہ چھوٹے بڑے ہوٹلوں پر چھاپے ماریں؟کیسے مان لیا جائے کہ چار برس سے زیادتی کی چھوٹی بڑی انفرادی خبریں متواتر اخبارات میں چھپ رہی ہوں اور متعلقہ ایم پی اے اور پولیس لا علم ہو؟ میں شرط لگا کر کہتا ہوں کہ پنجاب حکومت صوبہ خیبر کے کئی اقدامات کی نقل تو پنجاب میں کر رہی ہے مگر یہ وہاں کی پولیس کی طرح پنجاب پولیس کو کبھی بھی سیاسی مداخلت سے آزاد نہیں کرے گی۔ اس کی چاہے اسے جو مرضی قیمت چکانا پڑے‘ یہ چکائے گی۔اگر یہ گڈ گورننس ہے تو پھر جنگل کا راج کسے کہتے ہیں؟
اگر یہ کیس فوجی عدالت میں نہیں چلتا تو پھر اس کا حال بھی وہی ہو گا جیسا پی ٹی آئی کے دھاندلی والے کیس میں ہوا۔ وہ ایک جادو تھا‘ جسے سب نے دیکھا۔ ایک جادو چند دنوں میں ہونے والا ہے۔ ہم اور آپ یہ جادو اکٹھے دیکھیں گے۔ چونکہ ج سے جادو اور ج سے ہی جوڈیشل کمیشن بنتا ہے تو دھاندلی والے جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ کی طرح اس کمیشن کی جادو بھری رپورٹ بھی کچھ ایسی آئے گی کہ اس واقعے کی ویڈیوز بھی موجود ہیں‘ گواہ بھی اور مدعی بھی‘ ملزمان اعتراف جرم بھی کر چکے اور ان کی شکلیں بھی کیمروں میں صاف پہچانی جا چکیں‘ یہ ویڈیوز جن کو بیچی گئیں ان کو بھی پکڑ لیا گیا‘جنہوں نے بنائیں انہوں نے بھی اعتراف جرم کر لیا اور اس سارے معاملے میں پولیس اور بااثر افراد کا گٹھ جوڑ بھی واضح ہے لیکن یہ سارا کچھ چونکہ قانونی نکتہ نگاہ سے منظم طور پر ثابت نہیں ہو سکا اس لئے ملزموں کو باعزت بری کیا جاتا ہے اور یہی حسین خاں والا جوڈیشل کمیشن کا فیصلہ ہے۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
سانحہ قصور اور اونچی کرین!

آفتاب اقبال بدھ 12 اگست 2015


بچوں پر جنسی تشدد معاشرتی سرطان کی طرح پوری دنیا میں پھیلتا چلا جا رہا ہے۔ صرف برطانیہ میں گزشتہ ایک سال کے دوران 23ہزار کیس رجسٹر ہوئے۔ پاکستان میں گزشتہ سال کے دوران 70مختلف اخبارات میں بچوں کے ساتھ ہونے والی جنسی زیادتی کے 3508 واقعات رپورٹ ہوئے جن میں 2054 واقعات کے ساتھ صوبہ پنجاب سر فہرست رہا۔

ان تمام واقعات کی سب سے زیادہ لرزہ خیز مشابہت یہ ہے کہ 90فیصد مجرم وہ تھے جو کسی نہ کسی حوالے سے یا تو، ان معصوم بچوں کو جانتے تھے، یا انکے ساتھ خاندانی، کاروباری اور معاشرتی تعلق رکھتے تھے۔

آج سے تقریباً 12سال ادھر ایک ڈاکو مینٹری فلم پر کام کرتے ہوئے ہم نے اپنے طور پر ایک سروے کنڈکٹ کیا جس کے نتائج ہماری ڈپریشن میں بے پناہ اضافے کا باعث بنے۔ اس سروے کے مطابق تقریباً 82فیصد گھریلو ملازمین بچے، بچیاں جنسی تشدد کا شکار بنتے ہیں۔ تقریباً 45 فیصد گھریلو ملازم اور خادمائیں مالکان کے بچوں کو جنسی تشددکانشانہ بناتے اور بناتی ہیں۔

قصور میں رونما ہونے والا واقعہ ہماری معاشرتی ذلالتوں کی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے۔ اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے۔ اس حوالے سے بہت بھاری ذمے داری والدین پر عائد ہوتی ہے جو بچوں سے متعلق اپنے اولین فرائض سے روگردانی کرتے ہیں۔ پھر ذمے داری عائد ہوتی ہے معاشرے پر، ان ہمسایوں پر، محلے داروں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر کہ جن کی ناک تلے یہ انسانیت سوزی وقوع پذیر ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں ہماری پولیس کا کردار نہایت شرمناک ہے۔

اس کے ڈر سے زیادہ تر والدین جانتے بوجھتے بھی معاملے کو دبا جاتے ہیں۔ اس کی وجہ ایک تو ہمارا تھانہ کلچر اور پولیس کا عمومی رویہ ہے اور دوسرا وہ قانونی سقم جن کا سہارا لے کر یہ درندے تختہ دار پر چڑھنے کی بجائے تخت طاؤس پر جا بیٹھتے ہیں اور بیچارے والدین بدنامی اور دشمنی کی دوزخ میں ساری عمر جلتے رہتے ہیں۔

اہل نظر کو معلوم ہے کہ بچوں اور عورتوں پر ہونے والے جنسی تشدد میں روز افزوں اضافے کی بڑی وجہ ہمارے ہاں موجود قانون میں سقم بتائی جاتی ہے کہ جس کے سبب متاثرہ خاندان نہ تو پولیس پر اعتماد کرتے ہیں اور نہ ہی عدالتوں پر۔

اس حوالے سے دو بڑے مشہور روسی ناول ہیں جن پر لازوال فلمیں بھی بن چکی ہیں۔ ان میں پہلا پرزنرایکس (Prisoner-x)ہے جس پر بنی فلم کسی شاہکار سے کم نہیں دوسرا ناول چائلڈ فورٹی فور (Child-44) ہے اور اس پر حال ہی میں ایک فلم بنی ہے۔ ان فلموں کی خاص بات یہ ہے کہ اس قدر گھناؤنے جرائم سرزد ہو جانے کے باوجود معاشرے کی منفی قوتیں مجرم کو بچانے اور معاملے کو دبانے پر مصر دکھائی دیتی ہیں۔

یعنی جوزف سٹالن اپنے بھیانک دور کو بزعم خویش جنت نظیر دور کہا کرتا تھا۔ اس دور میں رونما ہونے والے ان دونوں سچے واقعات کو صرف اس بنا پر چھپایا، تفتیشی افسروں کو ڈرایا، دھمکایا اور عہدوں سے ہٹایا گیا کہ سٹالن کا روس تو فردوس برِیں ہے اور فردوس میں جرم نہیں ہوا کرتے!!

اب ظاہر ہے اس تناظر میں ہمارا دھیان لا محالہ خادم پنجاب کی طرف جاتا ہے جن کے بارے میں پچھلے چند گھنٹوں سے ہم لگاتار سنتے چلے آ رہے ہیں کہ آپ اس واقعے میں ملوث افراد کے خاندانوں کی طرف سے شدید پریشر کا شکار ہیں۔ اب جس شہباز شریف کو ہم جانتے ہیں وہ شاید دیگر تمام طرح کے پریشر تو قبول کر لے مگر اس قسم کا پریشر تو دورحاضر کا بدترین اور احمق ترین حکمران بھی قبول نہیں کر سکتا۔ لیکن اس کے باوجود سوشل میڈیا میں یہ بات بار بار کہی جا رہی تھی کہ شہباز شریف پر شدید سیاسی پریشر ہے ،وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔

ہم نے کافی غوروخوض کیا مگر ہمیں اس پریشر کی سمجھ نہ آسکی جس کا شہباز شریف مبینہ طور پرشکار ہیں۔ چنانچہ تھک ہار کر ہم نے موصوف کو فون کر ڈالا کہ جناب اس سلسلے میں اپنی پوزیشن واضح کریں۔

کہنے لگے، آفتاب صاحب میں نے جان اللہ کو دینی ہے کسی سیاسی حلیف یا حکومتی دوست کو نہیں۔ خدا کی قسم، کوئی مائی کا لعل ابھی تک پیدا ہی نہیں ہوا جو مجھ پر اس جیسے سنگین معاملے میں پریشر ڈالنے کی جرات بھی کر سکے‘‘۔ خیر ہماری ذاتی تشفی کیلیے تو وزیراعلیٰ کا اتنا کہہ دینا ہی کافی ہے البتہ ان کے سیاسی حریف کیا سوچتے اور کہتے پائے جاتے ہیں۔ یہ ہمارا مسئلہ نہیں ہے۔ ہمارا مسئلہ تو صرف یہ ہے کہ قصور شہر میں واقع موبائل فون شاپ پر بچوں کے ساتھ جنسی تشدد کے وڈیو کلپ فروخت ہوتے رہے ہیں اور جن جن مجرمان نے اقبال جرم بھی کر لیا ہے اب ان کے معاملے میں انصاف اور قانون کسی تعطل کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔

اب اگر قانونی سقم کو دیکھیں تو ایک نیا پنڈورا بکس کھولنے کا اندیشہ ہے۔ عین ممکن ہے کہ یہ درندے اپنے اپنے اقبالی بیانات سے پھر جائیں۔ ایسی صورت میں پولیس کے پاس اور کوئی راستہ نہیں بچتا کہ وہ ان کے ’’فرار‘‘ کی دعائیں کرے اور پھر یہ جانور صفت انسان پولیس کی حراست سے ’’فرار‘‘ ہونے کی کوشش میں گولیوں کا نشانہ بن جائیں۔ ہماری دعا ہے کہ ایسا نہ ہو ورنہ عبرت دلانے کا ایک بہت بڑا اور نادر موقع ضائع ہو جائے گا۔

ضیا الحق کے دور میں ایک مشہور واقعہ رونما ہوا جسے دنیا آج بھی پپو قتل کیس کے نام سے یاد کرتی ہے۔ پپو وہ معصوم بچہ تھا جسے چند درندوں نے ہوس کا نشانہ بنا کر قتل کر ڈالا۔ یہ وہ دور تھا جب ہر تیسرے چوتھے روز بچوں کا اغوا اور جنسی تشدد دیہی علاقوں میں رپورٹ ہوا کرتا تھا۔ مگر شہری علاقے میں پپو کیس اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ تھا۔

دیکھتے ہی دیکھتے خصوصی عدالت نے تمام قاتلوں کو سزائے موت سنائی اور ضیا الحق نے انکی سرعام پھانسی کا حکم دیا۔ چنانچہ کیمپ جیل لاہور کے اندر انہیں انتہائی اونچی کرین کے ساتھ تقریباً دو لاکھ افراد کے سامنے لٹکا دیا گیا۔ اب اس واقعے کا تذکرہ ہم نے صرف اس لیے کیا ہے کہ وزیراعلیٰ شہباز شریف کو معلوم ہو سکے کہ پپو کے قاتلوں کی پھانسی کے بعد تقریباً 300روز تک اس نوعیت کا واقعہ نہ تو رونما ہوا اور نہ ہی رپورٹ۔ اب اگر ان درندوں کو بھی انکاؤنٹر یعنی ’’پلس مقابلہ‘‘ میں پار کر دیا گیا تو یہ بھیڑیے تو کیفر کردار تک پہنچ جائیں گے مگر وہ لاتعداد پاگل کتے جو گلی محلے کی نکڑ پر کھڑے آتے جاتے معصوم بچوں کو للچائی نظروں سے دیکھتے ہیں ۔

انھیں عبرت بھلا کیسے ہو گی؟ حضور یہ کیس انسداد دہشت گردی کی عدالت میں دیں، خود مدعی بنیں اور فوری طور پر ایک اونچی کرین کا بندوبست کریں ورنہ بہت دیر ہو جائے گی۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
سانحہ قصور1
ہارون الرشید
روزنامہ دنیا
سانحۂ قصور کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ دنیا بھر میں پاکستان رسوا ہوا۔ واقعہ سنگین اور شرمناک ہے۔ مکمل اور منصفانہ تحقیق اس کی ہونی چاہئے کہ مجرم کیفرکردار کو پہنچیں۔ اس قدر چیخ و پکار کے بعد کچھ نہ کچھ امید بھی کی جا سکتی ہے۔ بعض باتیں البتہ سمجھ سے بالاتر ہیں‘ مثلاً عمران خان کا یہ بیان کہ پولیس افسر اور سیاستدان اس میں ملوث ہیں۔ کون سے سیاستدان اور کون سے افسر؟ مثلاً جرم کا شکار ہونے والوں کی تعداد 284ہے۔ اس تعداد کا تعیّن کس طرح کیا گیا؟ اسی طرح ویڈیو کلپوں کی تعداد بھی مبالغہ آمیز ہے۔ ناقابل فہم یہ بھی ہے کہ وزیراعلیٰ شہبازشریف کی طرف سے نوٹس لئے جانے‘ مجرموں کو کسی حال میں معاف نہ کرنے اور عدالتی تحقیقات کے بعد وزیراعظم کو بیان داغنے کی ضرورت کیا تھی؟۔
کوئی بے حس یا احمق ہی معاملے کی سنگینی سے انکار کر سکتا ہے مگر واقعہ یہ بھی ہے کہ میڈیا کے ایک حصّے نے مبالغہ آرائی کی انتہاء کردی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ عالمی ذرائع ابلاغ میں ملک کی ایک گھنائونی تصویر ابھری۔ دنیا بھر میں اس طرح کے واقعات رونما ہوتے ہیں۔ شاید مغرب میں اس سے کہیں زیادہ۔ لازم ہے کہ واقعات اور اعدادوشمار پوری صحت سے بیان کئے جائیں۔ ہدف یہ ہونا چاہئے کہ حادثے کی نوعیت کو سمجھ لیا جائے۔ عوامل کا ادراک کیا جائے تاکہ سدّباب کی راہ کھلے اور مجرم بچ نہ پائیں۔ بے بسی اور لاچارگی کا شکار ہو کر چیخ و پکار سے کیا حاصل؟۔
عالم عرب کے مشہور اور معتبر چینل الجزیرہ کی ویب سائٹ پر جاری ہونے والی رپورٹ کے بنیادی نکات یہ ہیں: صوبہ پنجاب کے افسروں نے وفاقی سطح پر ملک کی تاریخ سے سب سے بڑے سکینڈل کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے جس میں تقریباً تین سو بچے ملّوث ہیں۔ واقعات کی 400 ویڈیو ریکارڈنگز موجود ہیں۔ ایک چھ سالہ کمسن سمیت زیادہ تر بچوں کی عمریں 14 سال سے کم ہیں۔ ویڈیوز کی ہزاروں کاپیاں بنائی گئیں اور حسین خان والا گائوں میں فروخت کی گئیں۔ سانحہ اس وقت نمایاں ہوا جب پولیس سے المیے کا شکار ہونے والے بچوں کے والدین کا تصادم ہوا۔ اس لئے کہ حکومت مجرموں کو گرفتار کرنے میں ناکام رہی۔
الجزیرہ کی رپورٹ مبالغہ آمیز ہی نہیں بلکہ بعض اعتبار سے صریح کذب بیانی بھی ‘ اگرچہ اس کے ذمہ دار خود پاکستان کے بعض پرائیویٹ ٹی وی چینل ہیں۔ سنسنی پھیلانے یا شاید دبائو ڈالنے کی خواہش میں جنہوں نے تحقیق اور احتیاط کے تمام تقاضے بھلا دیئے۔ کس قدر ظالمانہ الزام ہے کہ ملزموں کے خلاف کارروائی نہیں کی جا رہی ۔ سات کے سات ملزم گرفتار ہیں‘ البتہ ان میں سے بعض کے بزرگوں نے ضمانت قبل از گرفتاری کرا لی‘ پولیس نے جسے منسوخ کرنے کی درخواست کی ہے‘ جب تک یہ سطور شائع ہوں گی شاید ان کی ضمانت منسوخ ہو چکی ہوںگی۔ معاملے کا سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ باخبر لوگوں کے مطابق ملوث نوجوانوں کے بزرگوں کو محض جذبۂ اِنتقام کے تحت پھنسایا گیا۔ قصورواروں کا بچ نکلنا ایک المیہ ہوتا ہے مگر بے قصوروں کو موردالزام ٹھہرانا‘ رسوا کرنا اور ممکنہ طورپر سزا دلوانا کیا اتنا ہی بڑا المیہ نہیں؟۔
پیر کا دن اس ناچیز نے تحقیق میں صرف کیا۔ اس نے پولیس افسروں کو ایک دوسرے سے کہتے سنا کہ حکومت اور میڈیا کے دبائو میں ہم بعض بے گناہوں کو اذیت پہنچانے کے مرتکب ہیں۔ ایک سرکاری افسر نے کہا کہ وزیراعلیٰ کو صرف اپنی فکر لاحق ہے۔ وہ صرف میڈیا اور اپنے امیّج کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ یہ بھی کہا کہ متاثرین کی تعداد زیادہ سے زیادہ 27 ہو سکتی ہے۔ معلوم نہیں 284 کی داستان کسی نے تراشی ہے۔ اگر بے گناہوں کو سزا دی گئی تو کیا مستقل طور پر قائم رہنے والی دشمنیاں وجود میں نہیں آئیں گی؟ کیا اس طرح قتل و غارت کے واقعات کا اندیشہ نہیں؟۔ اس سوال کے جواب میں ایک پولیس افسر نے یہ کہا جی ہاں‘ مگر ہم میڈیا اور حکومت کے سامنے بے بس ہیں۔ ظلم کا شکار ہونے والے بچوں کی تعداد بھی بڑھا چڑھا کر بیان کی گئی ہے۔ اب تک صرف سات چہرے شناخت کئے جا سکے۔ اندازہ ہے کہ یہ کچھ زیادہ ہو سکتے ہیں مگر تین سو کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔چھ سو گھروں پر مشتمل ایک چھوٹے سے گائو ں میں ہزاروں ویڈیو کیسے بک گئیں؟
اگر ایک بچہ بھی ہدف ہوتا تو یہ اذیت ناک تھا‘ ایک قتل سے بھی زیادہ اذیت ناک۔ شخصیت ٹوٹ پھوٹ جاتی ہے ۔ وہ ذہنی مریض بن جاتے ہیں یا جرم کی راہ پر چل نکلتے ہیں مگر واویلا کرنے کے لئے جھوٹ کیوں گھڑا جائے؟۔ ''عجیب قوم ہے‘‘ ایک پولیس افسر نے کہا ''ساری دنیا میں خود کو بدنام کرنے کے درپے‘‘۔ ایک اخبار نویس کا تبصرہ یہ تھا: ''اس بے لگام میڈیا کے ساتھ یہ ملک کیسے چلے گا۔ اس میں ذمہ داری کا احساس پیدا کرنا ہوگا‘ اس کی حدود کا تعین کرنا ہوگا‘‘۔ ڈی آئی جی شہزاد سلطان کے مطابق ویڈیوز کی تعداد 30 عدد ہے۔ وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ یہ400 کیسے ہوگئی؟۔
واقعے کا انکشاف 26 مئی کو ہوا‘ جب مبین غازی نام کے ایک شخص نے ڈسٹرکٹ پولیس افسر سے شکایت کی۔ اسی روز گائوں کی مساجد میں منادی کرا دی گئی‘ کسی نے پولیس کے پاس شکایت درج نہ کرائی۔ 30جون کو بند ٹوٹ گیا اور طوفان اٹھ کھڑا ہوا۔ 94 کنال سرکاری زمین کی خریداری کے تنازع میں ملوث فریقین میں سے ایک نے جب لطیف سرا نامی وکیل کو بتایا کہ ان کے مخالف اس معاملے میں ملوث ہیں۔ 2009ء میں شاملات کی یہ زمین نیلام کردی گئی تھی۔ گائوں کے کچھ لوگ عدالت میں چلے گئے کہ یہ قانون کی خلاف ورزی ہے۔ اراضی گائوں کی مشترکہ ملکیت تھی۔ بچوں کے لیے کھیل کود کے علاوہ دوسرے اجتماعی مقاصد کے لئے مختص‘مثلاً کسی وقت سکول یا ہسپتال کے لیے ضرورت پڑے۔ بجا طور پر انہوں نے یہ موقف اختیار کیا کہ نیلامی کا فیصلہ منسوخ ہونا چاہئے۔ ایک سوال البتہ ہے کہ زمین فروخت کرنے کی ذمہ داری صوبائی حکومت اور وزیراعلیٰ شہبازشریف پر عائد ہوتی ہے، ہر چیز بیچ کر جو سرکاری خزانہ پُر کرنے پر تلے تھے تاکہ اپنی ترجیحات کے مطابق دونوں ہاتھوں سے سرمایہ لٹا سکیں۔ خریدنے والوں کا جرم کیا ہے؟ بدقسمتی یہ کہ اسی خاندان کے بعض نوجوانوں پر گھنائونے جرم میں ملوث ہونے کا الزام ہے۔ مقدمے کی تیاری کے دوران وکیل صاحب ضروری نکات مرتب فرما رہے تھے تو سرسری طور پر کسی نے یہ حوالہ دیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس پر وہ چونکے اور یہ کہا بس اور کسی چیز کی ضرورت نہیں۔ اگر یہ بات ثابت ہوگئی تو مطلوبہ دبائو قائم ہو جائے گا۔
گنڈا سنگھ والا تھانے میں اب تک ایک مقدمہ بھی درج نہ ہوا تھا لیکن اس کے بعد لین ڈوری لگ گئی۔ یکم جولائی کو مقدمات نمبر190‘ 191 اور 192 درج ہوئے۔ 4 جولائی کو 201‘ 5 جولائی کو مقدمہ نمبر212 اور 13 جولائی کو 218 اور 219 ۔ کیا یہ زمین کی نیلامی سے متعلق مدعیوں کی کاوش کا نتیجہ تھا یا کچھ اور عوامل بروئے کار لائے؟۔ اس سوال کا جواب نہیں ملتا‘ گمان ہے کہ یہ پہلو لازماً اثرانداز ہواہوگا۔ گائوں کا آدمی زمین سے جڑا ہوتا ہے۔ ایک محدود سے دائرے میں وہ بروئے کار آتا ہے۔ حسد کا جذبہ اس میں زیادہ شدّت سے ابھرتا ہے۔ دشمنی کو وہ برقرار رکھتا ہے‘ اس کی آبیاری کرتا رہتا ہے۔ انسانی تاریخ کے منفرد حقائق میں سے ایک یہ ہے کہ کبھی کسی گائوں میں کوئی پیغمبر نہ اتارا گیا ہے‘ بیشتر قصبات میں‘ جہاں زندگی زیادہ مرتب اور استوار ہوتی ہے۔
( 12 اگست کو اس کالم کےآخر میں ’’ جاری ہے ‘‘ چھپا ، لیکن اس کے بعد تیرہ اگست کو انہوں نے کسی اور عنوان پر کالم لکھا ہے ، گویا سانحہ قصور کا بقیہ حصہ ابھی تک منظر عام پر نہیں آیا )
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
ام السانحات
سلیم صافی
روزنامہ جنگ

 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
عجب اک سانحہ سا ہوگیا ہے
ڈاکٹر حسین احمد پراچہ
روز نامہ جنگ


وضاحت : حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے منسوب قول ، مستند محسوس نہیں ہوتا ، واللہ اعلم ۔
 
Top