• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سانحہ قصور

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
اسلام نے معاشرے کی پاکیزگی اور’’ تزکیہ نفس ‘‘ کیلئے جامع ھدایات اور
انتہائی مفید احکامات عطا کئے :​
قرآن حکیم میں فحاشی کی ممانعت ،حرمت کو عقیدہ و ایمان کے ساتھ بیان کیا ،

قُلْ اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَالْاِثْمَ وَالْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَاَنْ تُشْرِكُوْا بِاللّٰهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهٖ سُلْطٰنًا وَّاَنْ تَقُوْلُوْا عَلَي اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ (الاعراف 33
آپ ان سے کہیے کہ ''میرے پروردگار نے جو چیزیں حرام کی ہیں وہ یہ ہیں'': بےحیائی کے کام خواہ ظاہر ہوں یا پوشیدہ ہوں اور گناہ کے کام اور ناحق زیادتی اور یہ کہ تم اللہ کے شریک بناؤ جس کے لیے اس نے کوئی سند نہیں اتاری اور یہ کہ تم اللہ کے ذمے ایسی باتیں لگا دو جن کا تمہیں علم نہیں''

مطلب واضح ہے کہ نور توحید سے قلب کو منور کرنا ہے ،تو کردار کی ظاہری و باطنی پاکیزگی لازم ہے ،فحاشی و بے حیائی کی اعلانیہ و پوشیدہ
ہر صورت سے اجتناب کرنا پڑے گا ،تبھی توحید اور ایمان کی لذت نصیب ہوگی ؛


اسی لئے تو جناب لوط نے اپنی قوم کو دعوت ایمان کے وقت جس برائی کے ترک کا درس دیا وہ فحاشی ہی تھی ؛؛
وَلُوْطًا اِذْ قَالَ لِقَوْمِهٖٓ اَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَةَ مَا سَبَقَكُمْ بِهَا مِنْ اَحَدٍ مِّنَ الْعٰلَمِيْنَ (الاعراف 80)
اور لوط نے جب اپنی قوم سے کہا : ''تم بےحیائی کا وہ کام کرتے ہو جو تم سے پہلے اہل عالم میں سے کسی نے بھی نہیں کیا تھا‘‘
یعنی تمہاری تو فطرت ہی مسخ ہوچکی ہے کہ نفسانی اشتہا کو مٹانے کیلئے
سب سے انوکھا طریقہ اختیا کرلیا ؛


علامہ عبد الرحمن کیلانی ؒ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
قوم لوط میں دوسری اخلاقی برائیوں کے علاوہ سب سے بڑی برائی یہ تھی کہ یہ لوگ عورتوں کی بجائے مردوں ہی سے ان کی دبر میں جنسی شہوت پوری کرتے تھے۔ اس فحاشی کی موجد بھی یہی قوم تھی اور اس فحاشی میں اس قوم نے شہرت دوام حاصل کی۔ حتیٰ کہ ایسی فحاشی کا نام بھی قوم لوط کی نسبت سے لواطت پڑ گیا یعنی فحاشی کی وہ قسم جس کے خلاف سیدنا لوط (علیہ السلام) نے جہاد کیا تھا۔ ممکن ہے کہ شیطان نے ان لوگوں کو اولاد کی تربیت اور اس کی ذمہ داریوں سے فرار کے لیے یہ راہ سجھائی ہو جیسا کہ بہت سے ادوار میں یہی بات قتل اولاد کی بھی محرک بنی رہی ہے۔
عمل قوم لوط اور تہذیب مغرب :۔ سیدنا لوط (علیہ السلام) کی قوم کے بعد دوسرے بدکردار لوگ بھی اس فحش مرض میں مبتلا رہے ہیں لیکن یہ فخر یونان کو حاصل ہے کہ اس کے فلاسفروں نے اس گھناؤنے جرم کو ایک اخلاقی خوبی کے مرتبہ تک پہنچا دیا اور رہی سہی کسر جدید مغربی تہذیب نے پوری کر دی ہے جس نے علی الاعلان ہم جنسی ( Sex ۔ Homo ) کے حق میں پروپیگنڈا کیا یعنی اگر مرد، مرد سے اور عورت، عورت سے لپٹ کر اپنی جنسی خواہش پوری کرلیں تو اس میں کوئی قباحت نہیں اور ملکی قانون کو ہرگز اس میں مزاحم نہ ہونا چاہیے۔ حتیٰ کہ کئی ممالک کی مجالس قانون ساز نے اس فعل کو جائز قرار دے دیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسلام نے صرف فحاشی و برائی کو ہی حرام قرار نہیں دیا ،بلکہ اس کی ترویج کے ذرائع و اسباب کو بھی سختی سے روکا ؛
اِنَّ الَّذِيْنَ يُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِيْعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ ۙ فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ ۭ وَاللّٰهُ يَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ (النور۔19 )
جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ ایمان لانے والوں میں بےحیائی کی اشاعت ہو ان کے لئے دنیا میں بھی دردناک عذاب ہے اور آخرت میں بھی۔ اور (اس کے نتائج کو) اللہ ہی بہتر جانتا ہے تم نہیں جانتے۔

تیسیر القرآن میں علامہ عبد الرحمن کیلانی لکھتے ہیں :
[الْفَاحِشَةُ] فاحشہ سے مراد ہر وہ کام جو انسان کی شہوانی خواہش میں تحریک پیدا کرنے کا سبب بن سکتا ہو ۔ فحاشی کی اشاعت کی بہت سی صورتیں ہیں ۔ پہلی اور سب سے اہم صورت وہی ہے جس کا اس صورت میں ذکر ہے۔ یعنی یہ کہ اگر کوئی شخص کسی پاک دامن عورت کو الزام لگا دے تو دوسرے لوگ بلاتحقیق اس بات کو آگے دوسرے سے بیان کرنا شروع کردیں ۔ دوسری صورت یہ ہے زنا (جسے قرآن نے فاحشہ مبینہ کہا ہے) کے علاوہ شہوت رانی کی دوسری صورتیں اختیار کی جائیں ۔

مثلاً مردوں کی مردوں سے خواہش پوری کرنا یا لواطت جس کی وجہ سے قوم لوط پر پتھروں کا عذاب نازل ہوا تھا اور ہماری شریعت میں لوطی کی سزا قتل ہے۔ تیسری صورت یہ ہے کہ مرد حیوانات سے یہ غرض پوری کریں ۔
اس کے متعلق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ ''اگر تم دیکھو کہ کوئی شخص حیوان پر جا پڑا ہے تو اس کو بھی اور اس حیوان کو بھی مار ڈالو'' (ترمذی۔ ابو اب الحدود۔ باب من وقع علی البھیمہ)

چوتھی صورت یہ ہے کہ عورتیں عورتوں سے ہمبستری کریں ۔ شریعت نے عورتوں کے لئے بھی ستر کے حدود مقرر کر دیئے ہیں ۔ یعنی کوئی عورت کسی عورت کے سامنے بی ناف سے لے کر گھنٹوں تک کا حصہ کسی صورت میں نہیں کھول سکتی اور ہمارے ہاں جو یہ رواج ہے کہ عورتیں ایک دوسرے کے سامنے ننگے بدن ایکسا قد نپا لیتی ہیں یہ باکل خلاف شرع ہے اور عورتوں کا ننگے بدن ایک دوسرے سے چمٹنا اور بھی بری بات ہے۔ اس بات سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سختی سے منع کیا اور فرمایا ''کوئی عورت کسی دوسری عورت کے ساتھ نہ چمٹے'' (بخاری۔ کتاب النکاح۔ باب لاتبا شرا المراۃ المراۃ
اس حدیث کے الفاظ سے پپٹی لگانا بھی مراد لیا جاسکتا ہے (یعنی عورت کا عورت کے ساتھ لگ کر جنسی خواہش پوری کرنا) کیونکہ عربی زبان میں مجامعت کے لئے مباشرت کا لفظ بھی عام استعمال ہوتا ہے۔
پانچویں صورت یہ ہے کہ عورتیں بعض حیوانات سے اپنی جنسی خواہش پوری کریں جیسا کہ بنگلوں میں رہنے والی بعض مہذب خواتین اپنے پالتو کتوں سے بدفعلی کرواتی ہیں اس کا حکم بھی تیسری صورت پر قیاس کیا جاسکتا ہے۔
چھٹی صورت یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے دوستوں سے اپنی بیوی سے ہمبستری کی باتیں دلچسپی لے لے کر بیان کرے یا کوئی عورت اپنی سہیلیوں سے ایسے ہی تذکرے کرے۔ یا کوئی عورت ننگے بدن دوسری ننگی عورت سے چمٹے پھر اس بات کا تذکرہ اپنے خاوند سے کرے اور اس عورت کے مقامات ستر سے اسے آگہ کرے تاکہ اس کے شہوانی جذبات بیدارہوں اور اس کا خاوند اس کی طرف مائل ہو ۔ ایسی تمام باتوں سے بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے۔ (بخاری۔ کتاب النکاح۔ باب لاتباشر المراۃ المراۃ)
پھر آج کل فحاشی کی اشاعت کی اور بھی بہت سی صورتیں ایجاد ہوچکی ہیں ۔ مثلاً ٹھیٹر، سینماگھر، کلب ہاؤس، اور ہوٹلوں کے پرائیوٹ کمرے۔ ریڈیو اور ٹی وی پر شہوت انگیز پروگرام اور زہد شکن گانے۔ فحاشی پھیلانے والا لٹریچر، ناول افسانے اور ڈرانے وعیرہ اور جنسی ادب۔ اخبارات اور اشتہارات وغیرہ میں عورتوں کی عریاں تصاویر۔ ناچ گانے کی محفلیں ۔ غرض فحاشی کی اشاعت کا دائرہ آج کل بہت وسیع ہوچکا ہے اور اس موجودہ دور میں فحاشی کے اس سیلاب کی ذمہ دار یا تو خود حکومت ہے یا پھر سرمایہ دار لوگ جو سینما، ٹھیٹر اور کلب گھر وغیرہ بناتے ہیں یا اپنا میک اپ کا سامان بیچنے کی خاطر انہوں نے عورتوں کی عریاں تصاویر شائع کرنے کا محبوب مشغلہ اپنا رکھا ہے یا بعض اداروں اور مکانوں میں عورتوں کو سیل مین کے طور پر ملازم رکھا جاتا ہے تاکہ مردوں کے لئے وہ باعث کشش ہوں اور ان کے کاروبار کو فروغ حاصل ہو ۔ ان سب باتوں کے لئے وہی وعید ہے جو اس آیت میں مذکور ہے۔ اور اسلامی حکومت کا فرض ہے کہ فحاشی کی ان تمام اقسام کو قابل دست اندازی پولیس جرم قرار دے۔ تاکہ کم ازکم دنیا کے عذاب سے تو لوگ بچ سکیں ۔ ورنہ انھیں دنیا میں عذاب چکھنا ہوگا اور آخرت کا عذاب تو بہرحال یقینی ہے۔
[٢٣] یعنی یہ اللہ ہی جانتا ہے کہ ان فحاشی کے کاموں کا دائرہ اثر کتنا وسیع اور ان کی زد کہاں کہاں تک پہنچتی ہے۔ کس طرح چند لوگوں کی فحاشی سے یا فحاشی کی افواہیں پھیلانے سے پوری قوم کا اخلاق تباہ و برباد ہوتا ہے بدکار لوگوں کو بدکاری کے نئے نئے مراکز کیسے مہیا ہوتے ہیں ۔ نیز نئی نسل کے ذہنوں میں جب ابتداًء فحاشی بھر دی جائے تو پوری قوم کس طرح اللہ اور روز آخرت سے غافل ہو کر اللہ کی نافرمان بن جاتی ہے۔ یہ باتیں تم نہیں جان سکتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’ لَا يُحِبُّ اللّٰهُ الْجَــهْرَ بِالسُّوْۗءِ مِنَ الْقَوْلِ اِلَّا مَنْ ظُلِمَ ۭ وَكَانَ اللّٰهُ سَمِيْعًا عَلِـــيْمًا ۔۔المائدہ ١٤۸
اللہ کو بالکل پسند نہیں ہے کہ کسی بری بات کو بلند آواز سے کہا جائے ‘ سوائے اس کے جس پر ظلم ہوا ہے اور اللہ سننے والا اور جاننے والا ہے‘‘

اس آیت کا عام مفہوم تو یہی ہے کہ کسی کی برائی کا چرچہ ،اور اشتہار کسی کیلئے جائز نہیں ،سوائے مظلوم کے؛
اس ممانعت کی ایک وجہ تو یہ سمجھ آتی ہے کہ جب کسی برائی تشہیر کی جائے ،تو معاشرے میں اس برائی کو ’’ ہلکا ‘‘ تصور کیا جانے لگتا ہے ؛
اور برائی کا سن کر بھی کبھی برائی کی تحریک پیدا ہوتی ہے ،
اس لیئے سوائے متاثرہ فریق کے کسی کیلئے کسی کی برائی کی تشہیر روا نہیں ۔۔۔
لیکن اگر حالات مخصوص نوعیت کے ہوں ،اور متاثرہ فریق ایک فرد نہیں
بلکہ معاشرہ ہو ،
تو اس کے خلاف اجتماعی آواز بلند کرنا زندہ قوموں کیلئے
ضروری ہو جاتا ہے۔۔۔اس کی مثالیں دائیں ، بائیں دیکھنے سے مل جائیں گی؛
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے یہاں ہم علامہ ابتسام الہی صاحب کے ایک کالم کے کچھ پیرے مستعار لیتے ہیں :
وہ لکھتے ہیں :
اس موقع پر جہاں پوری قوم کو یکجا ہو کر وحشی درندوں اور عصمت کے بیوپاریوں کے خلاف آواز اُٹھانی چاہیے‘ وہاں اس قسم کے واقعات کے مستقل تدارک کے لیے ٹھوس اقدامات بھی ہونے چاہئیں۔ بعض بے ضمیر اس گھٹیا کاروبار سے کروڑوں ڈالر کما رہے ہیں۔ اس واقعہ کی غیر جانبدار تحقیقات کرانا اور مجرموں کے اصل مقاصد کو بے نقاب کرنا حکومت اور ریاست کی ذمہ داری ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ معاشرے میں اخلاقی گراوٹ کے اسباب کو سمجھنا بھی وقت کی اہم ضرورت ہے۔
حالیہ سالوں میں بچوں کے ساتھ جنسی تشدد کے واقعات میں بہت زیادہ اضافے کی متعدد وجوہ ہیں۔
ان میں سے چند اہم درج ذیل ہیں:
1۔ بڑے پیمانے پر فحش مواد کا پھیلاؤ: حالیہ سالوں میں معاشرے میں بڑے پیمانے پر فحش مواد کا پھیلاؤ ہوا ہے اور یہ مواد سی ڈیز، انٹرنیٹ اور کیبل نیٹ ورکس کے ذریعے پورے معاشرے میں سرایت کر چکا ہے۔ جب نوجوان اس قسم کے مواد کو دیکھتے اور پڑھتے ہیں‘ تو ان میں جنسی ہیجان پیدا ہوتا ہے۔ نوجوانوں کے لیے صحت مند تفریحی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر ہیں اور وہ اپنی توانائیوں کو میدانی کھیلوں میں استعمال کرنے کی بجائے میڈیا کے غلط استعمال پر صرف کر رہے ہیں‘ جس سے وہ بڑی تیزی کے ساتھ اخلاقی انحطاط کا شکار ہو رہے ہیں۔ بے قابو خواہشات کااظہار زنا بالجبر اور بچوں کے ساتھ جنسی زیادتیوں کی شکل میں ہوتا ہے۔ ایک مرتبہ برائی کا مرتکب شخص اس کے دوبارہ ارتکاب میں پہلے کے مقابلے میں زیادہ بے باک ہو جاتا ہے اور رفتہ رفتہ ہلاکت کے گڑھے میں گر جاتا ہے۔
2۔ بری صحبت: اچھے افراد کے مشاغل مثبت جبکہ برے افراد کے منفی نوعیت کے ہوتے ہیں۔ بری صحبت انسان کی تباہی میں نمایاں کردار ادا کرتی ہے۔ برے افراد کی صحبت میں بیٹھنے والے بہت سے افراد منشیات، جوئے اور بدکرداری کے عادی ہو جاتے ہیں۔ برے دوست‘ انسان کی برے کاموں میں معاونت اور حوصلہ افزائی کرکے اس کے ضمیر کی آواز کو دبانے میں نمایاں کردار ادا کرتے ہیں۔ کم عمری میں چونکہ شعور ناپختہ ہوتا ہے اس لیے صحیح دوستوں کے چناؤ میں مشکل پیش آتی ہے۔ والدین کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ بچوںکی صحبت پر نظر رکھیں اور اگر ان کے تعلقات کسی منفی کردار والے بچے یا نوجوان سے ہو جائیں‘ تو ان کا فی الفور احتساب کر کے ان کو بھٹکنے سے بچائیں۔
3۔ والدین اور بچوں کے درمیان فاصلہ: والدین کو اپنے بچوں کو خود سے زیادہ فاصلے پر نہیں رکھنا چاہیے۔ ان کی دلچسپیوں اور سرگرمیوں کا خود بھی حصہ بننا چاہیے۔ ان کے روزمرہ معمولات کے بارے میں معلومات رکھنی چاہئیں۔ جو والدین اپنے بچوں کے ساتھ دوستانہ برتاؤ رکھتے ہیں وہ اپنے بچوں کے بدلتے ہوئے رجحانات سے بروقت آگاہ ہو جاتے ہیں اور کسی بھی منفی تبدیلی پر بروقت قابو پا سکتے ہیں۔ والد کی اپنے بچے اور والدہ کی اپنی بچی سے دوستی ان کی شخصیت کی نشوونما اور پختگی میں نمایاں کردار ادا کرتی ہے۔ دور حاضر میں معیشت کی گاڑی کو چلانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے، بڑھتی ہوئی مہنگائی اور ضروریات زندگی کو پورا کرنا کسی آزمائش سے کم نہیں۔ ان حالات میں کئی گھروں کے معاملات کو درست رکھنے کے لیے شوہر اور بیوی کو بیک وقت محنت کرنا پڑتی ہے۔ معاشی ذمہ داریوں کی وجہ سے کئی مرتبہ والدین اپنے بچوں کے مشاغل سے غافل ہو جاتے ہیں اور اسی دوران اولاد بھٹک جاتی ہے۔ والدین کو اپنا معیار زندگی بلند کرنے پر نسبتاً کم اور اولاد کی تربیت پر زیادہ توجہ دینی چاہیے۔ اگر اولاد کی تربیت درست ہوگئی تو معیار زندگی پر کیے گئے سمجھوتے کا وقت کے ساتھ ساتھ خودبخود ازالہ ہو جائے گا۔ دور حاضر کے بہت سے والدین اور ان کی اولادوں کے درمیان ''جنریشن گیپ‘‘ پایا جاتا ہے۔ بعض ناخواندہ یا کم پڑھے لکھے والدین جدید ٹیکنالوجی کے منفی اثرات سے بے بہرہ ہیں۔ وہ کمپیوٹر پر مشغول بچوں کو تعلیمی معاملات میں مصروف سمجھ کر مطمئن ہو جاتے ہیں جبکہ حقیقت میں اس ٹیکنالوجی کا غلط استعمال کیا جا رہا ہوتا ہے۔ والدین کو بچوں کو ہمیشہ اپنی آنکھوں کے سامنے رکھنا چاہیے اور ان کے کمپیوٹر اور موبائل فون کے استعمال کی نگرانی کرنی چاہیے تاکہ ان کو بے راہ روی سے بچایا جا سکے۔

4۔ دینی تعلیمات سے دوری: ہمارا معاشرہ بتدریج دینی تعلیمات سے دور ہوتا جا رہا ہے۔ قرآن مجید میں ظاہری اور پوشیدہ گناہوں اور برائیوں کی بھرپورطریقے سے مذمت کی گئی ہے۔ بدکرداری اور منکرات کو اُخروی تباہی کے ساتھ ساتھ دنیا کی تباہی اور بربادی کا بڑا سبب قرار دیا گیا ہے۔ چونکہ ہمارے سماج میں قرآن مجید کو سمجھنے کا شوق اور جستجو نہیں ہے‘ اس لیے برائی کے کاموں کے نقصانات کے بار ے میں بھی شعور اور آگاہی کی سطح انتہائی پست ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جہاں سورہ بنی اسرائیل میں زنا کے قریب جانے سے بھی منع کیا ہے، وہیں پر اللہ تعالیٰ نے جنسی بے راہ روی کا شکار قوم سدوم کا ذکر بھی قرآن مجید میں بڑی تفصیل سے کیا ہے۔ اس قوم کے لوگ جنسی طور پر عورتوں کی بجائے مردوں کی طرف مائل تھے۔ اللہ تعالیٰ کے جلیل القدر نبی حضرت لوط ؑ ان کو صحیح راستے پر آنے کی دعوت دیتے رہے‘ لیکن ان ظالموں نے حضرت لوط ؑ کی دعوت کو ٹھکرا دیا۔ حضرت لوط ؑ اصلاح کی شرط پر قوم کے لوگوں کے ساتھ اپنی بیٹیاں بیاہنے پر بھی آمادہ ہو گئے‘ لیکن ان بدبختوں نے اپنے رسول کی دعوت کو قبول نہ کیا۔ اللہ تعالیٰ نے قوم لوط کو بلندی پر اُٹھا کر پستی کی طرف پٹخ دیا اور اس قوم کے ہر بدکار شخص کو نشانہ باندھ باندھ کر پتھروں سے کچل ڈالا۔ قوم لوطؑ کا واقعہ آنے والی قوموں کے لیے باعث عبرت ہے۔
اس درس عبرت کو حاصل کرنے کے لیے قرآن و سنت سے وابستگی انتہائی ضروری ہے۔ یہ المیہ ہے کہ عصری تعلیم و ترقی کا جذبہ رکھنے والی قوم اس نسخہ کیمیا سے غافل ہے‘ جسے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوںکی فلاح و نجات کے لیے نازل فرمایا۔

5۔ نکاح میں غیرضروری تاخیر: اسلام میں ہر عاقل و بالغ شخص کو جلد از جلد نکاح کی ترغیب دی گئی ہے۔ دور حاضر میں کچھ لوگ جہیز کی مجبوری اور کچھ لوگ لاپروائی کی وجہ سے خواہ مخواہ اپنی اولاد کے نکاح میں تاخیر کرتے ہیں۔ اولاد اور والدین کے درمیان فطری طور پر حجاب ہوتا ہے جس کی وجہ سے اولاد کھل کر اپنی خواہشات کا اپنے والدین سے اظہار نہیں کر پاتی۔ اگر اشارو ں کنایوں میں کسی وقت اظہار کیا بھی جائے تو والدین اس کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ اس رویے کی وجہ سے معاشر ے میں ناجائز تعلقات اور جنسی بے راہروی کے دروازے کھلتے ہیں۔ بداخلاقی کی روک تھا م کے لیے والدین کو اپنی اولاد کی بلوغت کے بعد جلد از جلد ان کے نکاح کا بندوبست کرنا چاہیے تاکہ ان کو صاف ستھری زندگی گزارنے کے مواقع فراہم کیے جا سکیں۔

6۔ جرم و سزا کا کمزور نظام: جرم و سزا کے کمزور نظا م کی وجہ سے بھی معاشرے میں جرائم کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ ایک مجرم کو کھلے عام پھرتا دیکھ کر دوسرے مجرم حوصلہ پکڑتے ہیں۔ حکمرانوں کے بلند بانگ دعووں کے باوجود عام طور پر جنسی جرائم میں ملوث افراد قانون کی گرفت سے بچ نکلتے ہیں۔ اگر معاشرے میں جنسی جرائم میں ملوث افراد کو شرعی تقاضوں کے مطابق کڑی سزائیں دی جائیں تو بیمار ذہنیت کے بہت سے لوگ اس قسم کے جرائم کے ارتکاب سے باز آسکتے ہیں۔
ان تما م تجاویز پر عمل کو یقینی بنانے میں حکومت کے ساتھ ساتھ تعلیم یافتہ طبقے، اساتذہ اور طلبہ نمایاں کردار ادا کر سکتے ہیں۔ یونیورسٹی اورکالجزکے فیکلٹی ممبران، مدارس کے اساتذہ، مساجد کے خطیبوں اور دینی اور دنیاوی طالب علموں کو معاشرے کی اخلاقی حالت بہتر بنانے کے لیے اپنا کردار موثر طریقے سے ادا کرنا چاہیے تاکہ معاشرے میں جنسی جرائم کے خاتمے کو یقینی بنایا جا سکے۔
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
ایک پاکیزہ معاشرہ کیلئے اسلامی تعلیمات کی جامعیت کی ایک مثال

’’يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُيُوْتًا غَيْرَ بُيُوْتِكُمْ حَتّٰى تَسْتَاْنِسُوْا وَتُسَلِّمُوْا عَلٰٓي اَهْلِهَا ۭ ذٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ (النور 27 )
اے ایمان والو! اپنے گھروں کے سوا دوسروں کے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو جب تک کہ ان کی رضا حاصل نہ کرو اور گھر والوں پر سلام نہ کرلو ۔ یہ بات تمہارے حق میں بہتر ہے توقع ہے کہ تم اسے یاد رکھو (اور اس پر عمل کرو) گے۔‘‘

یہاں ایک اور سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ''اپنے گھروں'' سے کیا مراد ہے؟ اور اس کے مفہوم میں کون کون سے گھر شامل ہیں؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اپنے گھر سے صرف وہ گھر ہے جہاں اس کی بیوی رہتی ہو ۔ یہی وہ گھر ہے جس میں شوہر ہر وقت بلاجھجک اور بلا اجازت داخل ہوسکتا ہے۔ اپنی ماں اور بیٹیوں تک کے گھروں میں داخل ہونے سے پہلے ’’ استیناس ‘‘ ضروری ہے جیسا کہ درج ذیل حدیث سے معلوم ہوتا ہے :
علاء بن سیار کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا۔ کیا میں گھر جاتے وقت اپنی ماں سے بھی اذن مانگوں؟'' آپ نے فرمایا : ''ہاں'' وہ بولا : ''میں تو اس کے ساتھ گھر میں رہتا ہوں'' آپ نے فرمایا'': پھر بھی اجازت لے کر داخل ہو'' وہ کہنے لگا : ''میں ہی تو اس کی خدمت کرتا ہوں'' آپ نے فرمایا : '' پھر بھی اجازت لے کر داخل ہو ۔ کیا تو اس بات کو پسند کرتا ہے کہ تو اپنی ماں کو ننگا دیکھے؟'' وہ کہنے لگا : ''نہیں'' آپ نے فرفایا'': تو پھر اذن لے کر جاؤ؛
(موطا امام مالک۔ کتاب الجامع۔ باب الاستیذان)
 

makki pakistani

سینئر رکن
شمولیت
مئی 25، 2011
پیغامات
1,323
ری ایکشن اسکور
3,040
پوائنٹ
282
قصور سب کا ہے
طیبہ ضیاء
واقعہ قصور کے حوالے سے ہمارے ذہن میں ایسا ہی ایک ہولناک واقعہ گردش کر رہا تھا مگر تفصیل محو ہو چکی تھی، ساتھی صحافی نے اپنی ویب سائٹ پر تفصیل لوڈ کرکے یاددہانی میں مدد دی۔ 90 کی دہائی کا واقعہ ہے جب جاوید اقبال نامی ایک شقی القلب شخص نے 100بچوں سے زیادتی کے بعد ان کی لاشوں کو تلف کرنے کے لئے تیزاب کا استعمال کیا تھا۔ بچوں کی عمر چھ سے سولہ سال تھی۔ ان میں زیادہ بچے گھر سے بھاگے ہوئے تھے۔ بچوں کو اپنی جانب متوجہ کرنے کے لئے قاتل نے ویڈیو کی دکان کھول رکھی تھی،کم قیمت اور کبھی مفت میں بھی بچوں کو کھیلنے کا موقع فراہم کرتا۔ بہانوں سے بچوں کو دکان کے پچھلے کمرے میں لے جاتا، کچھ بچوں نے والدین سے شکایت کی تو والدین نے بچوں کو دکان بھیجنا بند کر دیا، اس پر قاتل نے ویڈیو دکان بند کرکے، جم سینٹر کھول لیا، کبھی فیشن کی دکان کھول لیتا کبھی ،سکول کھول لیتا، تمام عارضی کاروبار سے بیزار آ کر ذہنی مریض ایک روز ایک اخبار کے دفتر جا پہنچا اور اپنے جرم کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ اسے خود سے نفرت ہو گئی ہے، اس نے سو بچوں کا قتل کیا ہے، وہ چاہتا تو پانچ سو بچوں کا بھی قتل کر سکتا تھا، اسے اپنے جرم پر افسوس نہیں۔ قاتل نے مزید کہا کہ لاہور پولیس نے اسے گرفتار کیا اور اس پر اس قدر تشدد کیا کہ اس نے تہیہ کر لیا کہ پولیس کے ہاتھوں میری ماں روئی ہے، اب سو مائیں روئیں گی۔ اخبار کے دفتر کی مدد سے اس شخص کو گرفتار کر لیا گیا اور مقدمہ چلنے کے بعد اسے پھانسی دے دی گئی۔ بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنانے والے نفسیاتی مسائل کا شکار ہوتے ہیں۔ اس گھناﺅنے فعل کا مذہب اور اخلاق سے نہیں نفسیاتی امراض سے تعلق ہوتا ہے۔ مسلم و غیر مسلم معاشروں میں یہ شرمناک واقعات معاشروں کے لئے لمحہ فکریہ ہیں۔ پاکستانی معاشرے کی بدنصیبی کہ غریب اور ان پڑھ والدین درجنوں بچے پیدا کرکے گلیوں میں پھینک دیتے ہیں جبکہ تعلیم یافتہ اور خوشحال طبقہ دو بچے پیدا کرتا ہے۔ غریب صرف بچے پیدا کرنا جانتا ہے، انہیںانسان بنانا نہیں جانتا۔ زیادہ بچے روزگار کے لیئے پید اکرتا ہے، کم سن بچوں کو مزدوری پر لگا دیتا ہے لیکن اس کے ساتھ ہونے والے سلوک سے غفلت برتتا ہے۔ بچوں کو بھی علم ہوتا ہے کہ والد کو دیہاڑی چاہیے شکایت نہیں، خوف کے مارے بچہ کچھ نہیں بتاتا کہ الٹا باپ نے اس کی ہڈی پسلی توڑ دینی ہے۔ جب مکروہ سکینڈلز بے نقاب ہوجاتے ہیں تو جاہل اور غافل والدین بھی احتجاج کا حصہ بن کر شہیدوں میں شامل ہو جاتے ہیں۔ جبکہ بچپن میں زیادتی کا نشانہ بننے والے بچے بڑے ہو کر خونی قاتل جاوید اقبال کی طرح سو بچوں سے انتقام لیتے ہیں اور کبھی عورتوں کو تشدد کا نشانہ بناتے ہیں۔ ماہر نفسیات اپنے مریض کی ہسٹری لیتا ہے تو مریض سے اس کے بچپن کو کریدتا ہے تاکہ شخصیت اور مرض کو سمجھنے میں آسانی ہو سکے۔ ازدواجی زندگی کے مسائل کے پس پشت بھی مرد یا عورت کے نفسیاتی مسائل پنہاں ہو تے ہیں۔ بچپن میں والدین کا آپس میں برا سلوک بھی بچوں کے ذہن پر برے اثرات مرتب کرتا ہے۔ وہی بچہ جب شوہر بن کر اپنی بیوی کے ساتھ ناروا سلوک کرتاہے، باپ کا انتقام لےتاہے اور کبھی ماں کے خلاف جذبات کا اظہار کر تا ہے۔ میاں بیوی کے تنازعات کو سمجھنے کے لئے ان کے بچپن کو جاننا ضروری ہے۔ ڈگری یافتہ ماہر نفسیات تو نہیں لیکن ہم وطنوں کے مسائل سن سن کر ماہر نفسیات بن چکے ہیں۔ اپنے بچوں کے بارے میں بھی
حساس اور وہمی تھے۔ ملازم کو بھی ہمارے بیٹوں کو گود میں اٹھانے کی اجازت نہ تھی۔ علم اور شعور انسان کو بزدل بنا دیتاہے۔ ان باتوں کی طرف اس وقت دھیان دینا شروع کیا جب ہماری تین سالہ مومنہ نے امریکی سکول جانا شروع کیا۔ اولاد کی دینی و اخلاقی تربیت کی ذمہ داری ماں پر عائد ہوتی ہے ۔ایک غیر مسلم معاشرے میں ایک مسلمان کے لئے اپنے بچے کو عقائد اقدار کی تعلیم و تربیت دینا ایک کٹھن آزمائش ہے بلکہ اس منزل سے کامیاب گزرنا ایک پل صراط ہے۔ بچے کی نفسیات چار سال کی عمر میں مکمل ہو جاتی ہے اور ان چار سالوں میں وہ جو کچھ اپنے ماحول میں دیکھتا اور محسوس کرتا ہے اسے اپنے دل و دماغ کے کمپیوٹر میں محفوظ کر لیتا ہے۔ بیٹوں کو سکول جاتے ہوئے سمجھا دیتے کہ ٹیچر بھی آپ کو ہاتھ لگائے تو ہمیں بتانا۔ کسی کی دی ہوئی چیز حتیٰ کہ ٹیچر بھی کھانے کو کچھ دے، مت کھانا۔ بچوں کو محتاط رہنے کے تمام اسباق سمجھا دیتے۔ پاکستان میں غربت کے ہاتھوں والدین اپنے بچوں کو غیروں کے گھروں میں ملازم اور ملازمہ لگانے پرمجبور ہیں اور ان کی مجبوری کا ناجائز فائدہ اٹھانے والے صاحب ، بیگم صاحبہ یا ان کے گھر کا دیگر فردنفسیاتی مسائل کا شکار ہوں تو اس کے خلاف آواز کون اٹھائے گا؟ ایک جنونی مافیا گھر سے باہر گھوم رہا ہے اور دوسرا مافیا گھرکے اندر موجود ہے یعنی ”انٹر نیٹ“ کمروں میں موجود مافیا پر تو قابو پایا جا سکتا ہے؟ امریکہ میں ہم نے ایسے والدین بھی دیکھے ہیں جو اٹھارہ سال سے کم عمر بچوں کے موبائل فون اور کمپیوٹر رات سونے سے پہلے ان سے لے لیتے ہیں اور صبح سکول جاتے وقت لوٹاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی ویب سائٹس اور فون بھی چیک کئے جاتے ہیں۔ بچوں کو والدین کا ڈر ہونا چاہئے۔ اگر پنجاب پولیس ناکارہ ہے تو والدین بھی بے بس دکھائی دے رہے ہیں۔ فیس بُک پر فحش سوشل گروپس بنے ہوئے ہیںجن میں پاکستان کی کم عمر بچیاں بھی برہنہ تصاویر لوڈ کر رہی ہیں۔ واقعہ قصور ہی بدنام نہیں، یہاں تو گھر گھر میں”قصور“ دکھائی دے رہا ہے۔
 
Last edited by a moderator:

makki pakistani

سینئر رکن
شمولیت
مئی 25، 2011
پیغامات
1,323
ری ایکشن اسکور
3,040
پوائنٹ
282
قصور رینجرز کے حوالے ، مقدمہ فوجی عدالت میں

اجمل نیازی
قصور کے سانحے پر اتنا لکھا گیا ہے کہا گیا ہے کہ لگتا ہے ہم سب قصوروار ہیں۔ پہلی کارروائی یہ کی جائے کہ اس مقدمے کو فوجی عدالتوں کے حوالے کیا جائے۔ اور قصور اور حسین والا کو رینجرز کے حوالے کر دیا جائے۔ درندوں کو سخت ترین عبرتناک سزا دیں کہ دوبارہ کسی کو یہ جرات نہ ہو۔ یہ مذاق حکومت انتظامیہ اور لوگوں کے ساتھ کرنے کی جرات نہ ہو۔
جو بھی لوگ ملوث ہیں۔ اصل مجرم ہیں ان کے جو سرپرست ہیں ان کو بچانے والے جتنے بااثر لوگوں کا نام لیا جاتا ہے۔ پولیس والے نااہل اور ظالموں کے ساتھی اور بزدل افسران اور ملازمین کو ایک جیسی سزا دی جائے۔ لوگوں کو یاد ہو گا کہ جنرل ضیاالحق کے زمانے میں پپو کیس میں سرعام مجرموں ظالموں کو پھانسی دی گئی تھی۔ اور بہت مدت تک ایسی کوئی واردات نہیں ہوئی تھی۔ ہر طرف سے عبرتناک سزا دینے کی بات کی جا رہی ہے۔
نوائے وقت کے ڈپٹی ایڈیٹر سعید آسی نے اپنے کالم میں لکھا ہے کہ سب سے پہلے نوائے وقت اس ظلم زیادتی کو سامنے لایا۔ اللہ کے فضل سے مجھے یہ اعزاز ملا کہ میں نے سب سے پہلے کالم لکھا۔ ابھی میں کئی کالم اور بھی لکھوں گا۔یہ کالک کی طرح سب کے منہ پر مل دیا جائے۔ انتظامیہ پولیس حکومت ممبران اسمبلی بااثر لوگ اور علاقے کے اہم آدمیوں کوننگا کیا ہے مگر اس حمام میں سب ننگے ہیں۔ ننگے کو ننگے سے شرم نہیں آتی۔ ایک دفعہ کھلے عام عبرتناک سزا مل جائے تو انہیں شرم شاید پھر بھی نہ آئے مگر خوف ضرور آئے گا۔ اور میرے خیال میں سزا اتنی سخت ہونا چاہیے کہ سزا سے سزا کا ڈر زیادہ اہم ہو جائے۔ پھر جرم ختم ہو گا۔ ظالم ہمیشہ بزدل ہوتے ہیں۔
سعودی عرب میں سرعام ملزموں کو فوری طور پر سزا ملتی ہے۔ ان کا سر قلم کر دیا جاتا ہے اور ان کے کٹے ہوئے دھڑ کئی دنوں تک لوگوں کے لئے تماشا بنے رہتے ہیں۔ وہاں جرم نہ ہونے کے برابر ہے۔ ہمارے ہاں یہ ظلم اور درندگی روز بڑھتی جاتی ہے۔ کئی شہروں میں چھوٹے بچوں اور بچیوں کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے اور پھر انہیں قتل کر دیا جاتا ہے۔ قیامت کے دن یہ سب سے بڑے حاکم کا گریبان پکڑیں گے۔ کئی جگہوں پر سخت گیر وزیراعلیٰ شہباز شریف جاتے ہیں لوگ خوش ہوتے ہیں۔ کچھ دنوں ہل چل رہتی ہے مگر پھر وہی کام شروع ہو جاتا ہے۔ کسی ملزم کو قرارواقعی سزا نہیں ملتی۔ پولیس ظالموں کی ساتھی بنی رہتی ہے۔ بے چارے مظلوم کچھ دن رو پیٹ کر خاموش ہو جاتے ہیں۔ قصہ ختم اور پیسہ ہضم؟
یہ تو سوچا جائے کہ شہباز شریف حسین والا قصور میں اب تک نہیں گئے۔ کسی پولیس والے کو سزا نہیں ملی۔ عمران خان کی اہلیہ ریحام خان پہنچی ہے۔ اور انہوں نے بہت سخت باتیں کی ہیں۔ حکومت کی بے حسی اور بے بسی پر افسوس کیا۔ انہوں نے کہا کہ سب کچھ سب کے سامنے ہے تو جوڈیشل کمشن کا کیا فائدہ؟ شہباز شریف نہیں گئے تو حمزہ شہباز ہی چلے جاتے۔ نواز شریف کو ایسے کاموں کے لئے وقت نہیں ملتا۔ میری بہن کلثوم نواز ہمت کریں۔ ورنہ مریم نواز تو ضرور ایسے موقعے ضائع نہ کریں۔ وہ تو جنازے میں نظر نہیں آتے۔ جنرل راحیل شریف ہر کیس میں موجود ہوتے ہیں۔ وہ اگلے خطرناک مورچوں پر اپنے سپاہیوں کے ساتھ چاند رات اور عید مناتے ہیں۔ نواز شریف سعودی عرب چلے جاتے ہیں۔ شہباز شریف لندن اور ’’صدر‘‘ زرداری دبئی چلے جاتے ہیں۔ ہر کوئی اپنے گھر میں عید کرتا ہے۔ وطن بھی گھر ہی ہوتا ہے تو حکمرانوں اور سیاستدانوں کا اصل گھر کونسا ہے۔
رانا ثنااللہ حسین والا قصور گئے ہیں اور وہاں ایسی باتیں کی ہیں جو زخموں پر نمک چھڑکنے والی ہیں۔ لوگوں کو ماڈل ٹائون والی قتل و غارت یاد آ گئی ہے۔ دل میں رانا صاحب کے لئے ایک نرم گوشہ ہے۔ ان سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی ورنہ میں ان سے کہتا کہ آپ کے سینے میں وہ دل کہاں گیا جو مشرف کے دور میں ڈپٹی اپوزیشن لیڈر کے طور پر ہوتا تھا اور آپ کا پیپلز پارٹی کا اپوزیشن لیڈر قاسم ضیا تو آج کل نیب کے ہاتھوں میں ہے۔ اس کی دستگیری کے لئے بھی کچھ کریں؟ کوئی الٹا سیدھا بیان ہی دے دیں۔ سینکڑوں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی میں چند ایکڑ زمین کا جھگڑا کہاں سے نکل آیا۔ رانا صاحب سے زیادتی فیصل آباد میں اس سے کم نہ تھی جو حسین والا میں مظلوم بچوں کے ساتھ ہوئی ہے۔ ڈی پی او قصور رائے صاحب بھی ایسی ہی باتیں کر رہے ہیں۔ ان کے چہرے پر حیرت اور پریشانی دیکھ کر لگتا ہے کہ ان کا بڑا نقصان ہوا ہے؟ ڈی آئی جی شہزاد سلطان کے چہرے پر مسخرگی اور شرارت رقص کر رہی تھی۔ یہ آر پی او ہیں۔ ان کو چاہئے کہ سی سی پی او امین وینس کی صحبت میں بیٹھیں۔ کچھ دردمندگی سیکھیں۔ اتنا بڑا واقعہ کسی بے حس آدمی کے دور میں بھی ہوا ہوتا تو وہ مستعفی ہو گیا ہوتا۔ اور ڈی پی او قصور رائے صاحب تو گھر سے ہی نہ نکلتے۔ نجانے وہ اپنے بچوں کا سامنا کیسے کرتے ہیں۔
آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرا کے لئے اپنے قبیلے کی ڈائریکٹر پبلک ریلیشنز نبیلہ غضنفر کی وجہ سے اچھا خیال ہے۔ مگر وہ پولیس کے لئے اب تک کیا کر سکے ہیں؟ روٹین میں سب کچھ ہو رہا ہے۔ وہ حکمرانوں کی مرضی بغیر کچھ نہیں کر سکتے۔ وہ حسین والا پہنچے تو ان کی طرف جوتا اچھالا گیا۔ میرا خیال ہے کہ پولیس عجائب گھر میں یہ جوتا محفوظ رکھا جائے۔
جب تک پولیس افسران ٹھیک نہیں ہوں گے پولیس کلچر ٹھیک نہیں ہو سکتا۔ شاید ہم پولیس کلچر ٹھیک کرنا ہی نہیں چاہتے۔ مشتاق سکھیرا صاحب ہی ہمت کریں اور کچھ کر کے دکھائیں۔ انسانوں والا معاشرہ بنائیں۔ ہم مغربی معاشرے کو اس حوالے سے برا بھلا کہتے ہیں۔ وہاں اس حیوانیت کا تصور بھی نہیں ہو سکتا۔ ایسا تو جنگل میں بھی نہیں ہوتا۔ وہاں درندے چھوٹے درندوں کو اس درندگی کا نشانہ نہیں بناتے۔ کیا ہم درندوں سے بھی بدتر ہیں۔ یہ بڑی دہشت گردی ہے۔ آخر ہمارا قصور کیا ہے؟ ہم یہاں پیدا ہوئے ہیں۔ یہ میرے کالم کا عنوان تھا۔
ممبران اسمبلی خاص طور پر حلقے کے ایم پی اے ملک احمد سعید خان نے کہا ہے کہ مجھ پر پچاس لاکھ کا الزام ثابت ہو جائے اور مجرموں کی پشت پناہی کا پتہ چل جائے تو میں استعفیٰ دے دوں گا۔ کوئی ان سے پوچھے آج تک کسی شخص نے پاکستان کی سیاسی تاریخ میں استعفیٰ دیا ہے۔ کوئی بندہ کسی سیاسی اہم شخصیت اور پولیس والوں کے تعاون کے بغیر اتنا ظلم اور درندگی نہیں کر سکتا۔ پھر کوئی تو ہے جس نے یہ سب کام کیا ہے۔ میرے خیال کے مطابق ملک صاحب کے علاوہ کوئی دوسرا نہیں ہے۔ دوسرا بھی ان کا ساتھی ہو گا اور وہ بھی ملک ہی ہو گا۔
ہائی کورٹ کا سینئر کلرک تنزیل الرحمن اس مکروہ دھندے میں ملوث تھا اور وہ معطل ہو گیا۔ صرف معطلی کوئی سزا نہیں ہے تنزیل الرحمن حسین والا کے ساتھ کے گائوں کا رہنے والا ہے۔
اس سکینڈل کی وڈیوز پوری دنیا میں پھیلائی گئی ہیں۔ یہ کسی کمرشل مقاصد کے لئے استعمال ہوئی ہے۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور وزیر تجارت خرم دستگیر تحقیقات کریں۔
مبین غزنوی چند لوگوں اور بچوں کے ساتھ آیا تھا اور ایک وڈیو مجھے دے گیا۔ مگر اب مبین غزنوی کا نام بھی اس سکینڈل میں آ رہا ہے۔ اس کے ساتھ ایک خبر میں عزیزم عبداللہ گل کا نام بھی آیا کہ اس کی تنظیم میں مبین بہت سرگرم تھا مگر اچھا ہوا کہ عبداللہ نے اسے نکال دیا تھا۔ عبداللہ گل جنرل حمید گل کا صاحبزاہ ہے۔ اس کی محفلوں میں شرکت میں نے بھی کی ہے۔ وہاں مبین غزنوی بھی ہوتا تھا۔ شریف آدمی لگتا تھا۔ اس کے مطابق وہ اس معاملے میں ملوث نہ تھا۔ جو بھی ملوث ہے۔ اسے عبرناک سزا ملنی چاہیے۔ اس کے لئے اس مقدمے کو فوجی عدالتوں کے سپرد کیا جائے اور یہ ان کے لیے ایک امتحان ہو گا کہ وہ کراچی کی طرح اصل لوگوں تک پہنچیں اور ان کو عبرتناک سزا دیں۔
ملک احمد سعید اعوان کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ مختلف ایجنسیوں کی رپورٹ کے مطابق کہ مقامی پولیس کے افسران اور ملازمین کئی ممبر اسمبلی ایک ممبر بالخصوص اور ایک طالب علم رہنما بری طرح ملوث ہیں۔ اصل مجرم درندے اس کے علاوہ ہیں۔ زمین کے تنازعے کا اس کے ساتھ کوئی تعلق لگتا نہیں۔ رانا صاحب اور رائے صاحب خاص طور پر نوٹ کریں۔ 2013ء سے پولیس اس معاملے کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کر رہی ہے۔ اس واقعے کو سامنے لانے والے مبین غزنوی کا بھی سکینڈل سے گہرا تعلق لگتا ہے اور وہ بہت عرصہ سے بہت کچھ جانتا ہے۔ سب سے پہلے ان وڈیوز کو انڈیا میں بیچا گیا۔ اس میں ’’را‘‘ بھی ملوث ہو گی۔ پھر ساری دنیا میں یہ کہانی پھیلائی گئی اور بہت بڑی رقم حاصل کی گئی۔ مبینہ طور پر مقامی ایم پی اے یعنی ملک احمد سعید خان بھی اس دھندے میں شامل ہے۔ کیا مسلم لیگ اپنے ارکان کے لئے خاموش ہے اور اس مقدمے کو فوجی عدالتوں میں پیش کرنے میں پس و پیش سے کام لے رہی ہے۔ زیادہ آبادی یہاں ارائیں قبیلے کی ہے۔تو وہ کیوںخاموش ہیں؟ ڈی پی او او رایس ایچ او کو شامل تفتیش کرنا لازمی ہے۔ یہ کام فوجی عدالت کے بغیر نہیں ہو گا۔ یہ رپورٹیں وزیراعلیٰ تک نہیں پہنچائی گئیں؟ نچلے ملازمین کو ہٹا کر اوپر والے پولیس افسران کو کچھ نہ کہا جائے اور ارکان اسمبلی اور بااثر شخصیات کو بھی بچایا جائے۔ پہلے حسین والا کو رینجرز کے حوالے کیا جائے۔ فوجی عدالت کارروائی کرے۔ کہا جاتا ہے کہ آرمی پبلک سکول پشاور میں بچوں کی قتل و غارت سے یہ واقعہ کم نہیں ہے۔ تو پھر آپریشن ضرب عضب قصور میں بھی شروع کیا جائے۔
 
Last edited by a moderator:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
قصورواقعے کی شاہی تحقیقات اور رائیونڈ محل سے دو امرود توڑنے کی سزا!!

محمد عاصم حفيظ
قصور میں ہونیوالے شرمناک جرائم کے باعث تو ایسا لگتا ہے کہ ہم واقعی بحثیت قوم
ذلت و رسوائی کی گہری کھائی میں گرچکے ہیں ۔ اس سکینڈل نے ہمارے معاشرے کے ایک دردناک اور بھیانک روپ کا انکشاف کیا ہے۔یہ سب ہماری جیتی جاگتی بستیوں میں ہوتا رہا لیکن شائد وہاں کے سارے ہی بڑے سوئے ہوئے تھے کہ جو اس بے حیائی اورظلم و ستم کے خلاف بول بھی نہ سکے۔اس کی بہت سی وجوہات میں ایک بڑی وجہ پولیس ، انتظامیہ اور مقامی سیاستدانوں کی سرپرستی تھی کہ جس کے زور پر مجرموں نے ان دیہات کو اندھیر نگری بنائے رکھا۔جب محافظ ہی قاتل و ظالم بن جائیں تو پھر فریاد کون سنے گا۔ ان واقعات کے بارے آپ نے یقینا بہت کچھ پڑھا اور سنا ہوگا ۔ میں شائد آپ کی معلومات میں کچھ زیادہ اضافہ نہ کر پاو ¿ں لیکن میں ایک افسوسناک پہلو کی طرف آپ کی توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ اس سانحے کی تحقیقات کے لئے ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بنائی گئی ہے۔ اس کی جانب سے آج کے اخبارات میں اشتہار چھپا ہے کہ جس جس کے پاس ان واقعات کے بارے میں معلومات ہوں وہ فوری طور پر اس ٹیم سے رابطہ کرے۔ لیکن حیران کن پہلو یہ ہے کہ ٹیم جائے وقوع اور ان دیہات میں جا کر تحقیقات کرنے کی بجائے قصور شہر کے ریسٹ ہاو ¿س میں قیام پذیر ہو گی ۔ذرا تصور کریں کہ اگر کسی نے ظلم کے خلاف کوئی ثبوت دینا ہے تو وہ کئی کلومیٹر دور گاو ¿ں سے چلے اور قصور شہر میں آکر ان افسران کے سامنے پیش ہو۔ خوف اور دہشت کے ماحول میں کون ہوگا جو اتنی جرات کرے گا ۔ میرے خیال میں مجرموں کو بچانے کا اس سے بہتر کوئی اور طریقہ نہیں تھا جو کہ اس پولیس ٹیم نے اپنایا ہے ۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ خادم اعلی کی یہ حکومت اس سانحے کے مجرموں کو” عبرتناک سزا“ دینے کے حوالے سے کس قدر مخلص ہے۔ وزیر اعظم اور خادم اعلی صاحب تو پولیس ٹیم سے ان دیہات میں جاکر تفتیش نہیں کرا سکے ۔ان مجرموں کو سزا دینا تو بہت دور کی بات ہے۔یہاں فوری سزا تو شائد اسی وقت ملی تھی کہ جب رائیونڈ کے شاہی محل میں دو سرکاری اہلکاروں نے امرود توڑ لئے تھے ۔ان کو فوری طور پر نوکری سے نکال دیا گیا تھا ۔ قصور واقعے میں ملوث درندوں کا جرم شائد دو امرود توڑنے کے برابر بھی نہیں ہے اسی لئے ان کو بچانے کے لئے شاندار انتظامات کر لئے گئے ہیں ۔ اس کا اندازہ آپ پولیس ٹیم کی جانب سے ریسٹ ہاوس میں قیام سے ہی لگا سکتے ہیں ۔
کاش سانحہ قصور میں ملوث درندہ صفت بھیڑیوں کا جرم رائیونڈ محل کے دو امرود توڑنے کے برابر ہی تسلیم کرلیا جائے تاکہ ان کو فوری سزا ہو سکے..
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
daily-pakistan-logo.png

12 اگست 2015
قصور ویڈیو سکینڈل ،ا ے آئی جی سپیشل برانچ اور ڈی پی او قصور تبدیل ،مظاہرین کا احتجاج ،پولیس افسروں کا گھیراؤ،آئی جی پر جوتا پھینک دیا گیا

لاہور(نامہ نگار خصوصی ، وقائع نگار خصوصی ،مانیٹرنگ ڈیسک) قصور ویڈیو سکینڈل کے سلسلے میں متعدد پولیس افسروں کو ان کے عہدوں سے ہٹا دیا گیا ہے۔ ان میں ایڈیشنل آئی جی سپیشل برانچ ، ڈی پی او اور ڈی ایس پی شامل ہیں۔
آئی جی پنجاب ویڈیو سکینڈل کے حوالے سے لوگوں کو ٹھنڈا کرنے قصور گئے مگر لوگ انہیں دیکھ کر مشتعل ہوگئے، ان کی موجودگی میں پولیس کے خلاف احتجاج کیا۔ اس دوران ایک شخص نے آئی جی کی طرف جوتا پھینکا جو ایک دوسرے افسر کے سرپر جا لگا۔
دریں اثناء لاہور ہائیکورٹ نے ویڈیو سکینڈل کے مقدمہ میں دہشت گردی کی دفعات شامل کرنے اور اسے سماعت کے لئے فوجی عدالت کو بھجوانے کے لئے دائر درخواست پر صوبائی سیکرٹری داخلہ اورآئی جی پنجاب اور دیگر فریقین کو آج پیش ہونے کا حکم دے دیا ہے۔تفصیل کے مطابق ویڈیوکیس پر ڈی پی او قصور رائے بابر سعید اور ڈی ایس پی سٹی حسن فاروق گھمن کو عہدوں سے ہٹا دیا گیا اور ایڈیشنل آئی جی عارف مشتاق کواو ایس ڈی بنا دیا گیا ہے۔
وزیراعلیٰ پنجاب کی زیر صدرات اعلیٰ سطحی اجلاس ہوا جس میں شہباز شریف نے قصور ویڈیوکیس پر افسروں کے غفلت برتنے پر برہمی کا اظہار کیا۔اجلاس کے بعد شہباز شریف نے ڈی پی او قصور رائے بابر سعید کوعہدے سے ہٹا دیا جبکہ اسپیشل برانچ کی جانب سے قصور واقعے سے متعلق حکام کو بے خبر رکھنے پر ایڈ یشنل آئی جی عارف مشتاق کو اوایس ڈی بنا دیا گیا۔ادھر لاہور ہائیکورٹ نے قصور ویڈیوزسکینڈل کے مقدمہ میں دہشت گردی کی دفعات شامل کرنے اور اسے ٹرائل کے لئے فوجی عدالت میں بھجوانے کے لئے دائر درخواست پر نوٹس جاری کرتے ہوئے صوبائی سیکرٹری داخلہ، آئی جی پنجاب اور دیگر فریقین کو آج12 اگست کوپیش ہونے کا حکم دے دیا ہے ۔چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ مسٹر جسٹس منظور احمد ملک نے یہ حکم قصور کی رہائشی ثناء مراد سمیت متعدد افراد کی طرف سے دائر درخواست پر جاری کیا ، درخواست گزار کے وکیل آفتاب باجوہ نے موقف اختیار کیا کہ درندہ صفت گروہ کے ارکان گزشتہ 10برس سے معصوم بچوں کی زندگیاں برباد کرتے رہے اوربھتہ وصول کرتے رہے، میڈیا میں خبریں آنے کے بعد ویڈیوسکینڈل کا پردہ فاش ہوا ۔ قصور کے رہائشیوں نے اپنے بچوں کو سکول بھیجنا بند کر دیا ہے، مذکورہ واقعہ کے 7 مقدمات تعزیرات پاکستان کی دفعات 377، 386، 387 اور 293 کے تحت درج کئے گئے ہیں جبکہ ملزمان متاثرہ بچوں کے والدین سے بھتہ وصول کرتے رہے اور پولیس نے درج کئے گئے مقدمات میں انسداد دہشت گردی کی کوئی بھی دفعات شامل نہیں کیں، جبکہ انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ 6(کے) کے تحت بھتہ خوروں کے خلاف مقدمہ کیا جانا چاہئے، انہوں نے مزید موقف اختیار کیا کہ قانون میں اتنی گنجائش موجود ہے کہ تعزیرات پاکستان کی دفعات کے تحت درج کئے گئے مقدمات کے ٹرائل بھی انسداد دہشت گردی عدالت میں چلائے جا سکتے ہیں جبکہ پولیس نے تاحال گرفتار کئے گئے ملزموں کا ریمانڈ علاقہ مجسٹریٹ سے لیا ہے جو کہ قانون کی خلاف ورزی ہے اور ایسے سنگین مقدمات میں عام ٹرائل کورٹ کو ٹرائل کا اختیار نہیں ہے، انہوں نے عدالت کو بتایا کہ آرمی ایکٹ 1952 کی دفعہ 2 میں کی گئی ترمیم میں واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ پاکستان میں کوئی بھی دہشت گردی اور شہریوں کے عدم تحفظ کی سرگرمیاں پائی جائیں تو ان کے مقدمات فوجی عدالتوں میں بھجوائے جائیں جبکہ مقامی پولیس ملزموں کو تحفظ فراہم کرنے کی کوشش کر رہی ہے اس وجہ سے ملزموں کو انسداد دہشت گردی عدالت یا فوجی عدالت کے روبرو پیش نہیں کیا گیا بلکہ ان کا ریمانڈ علاقہ مجسٹریٹ سے حاصل کر لیا گیا ہے، قصور سکینڈل کا مقدمہ فوجی عدالت میں چلانے کا حکم دیا جائے اور سیکرٹری داخلہ پنجاب کو حکم دیا جائے کہ مقدمہ کی تفتیش کے لئے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم تشکیل دی جائے اور چالان انسداد دہشت گردی عدالت میں پیش کیا جائے تاکہ مقدمہ فوجی عدالت کو بھجوایا جاسکے ۔ انہوں نے استدعا کی کہ علاقہ مجسٹریٹ اور ایڈیشنل سیشن جج کے روبرو قصور واقعہ کے مقدمات کی کارروائی روکنے کا حکم دیا جائے۔قصورسے بیوروچیف کے مطابق آئی جی پنجاب پولیس مشتاق احمد سکھیرا کی حسین خانوالا آمد پر متاثرین نے احتجاج کیا، مظاہرین نے آئی جی پنجاب کی گاڑی کو گھیرے میں لیے رکھا اور پولیس کیخلاف نعرہ بازی کرتے رہے ۔اس موقع پر مظاہرین کی طرف سے آئی جی پنجاب پر جوتا پھینکا جو کہ سکیورٹی پر مامور سب انسپکٹر کے سر پر لگا ۔مظاہرین کے احتجاج کے دوران پولیس اہلکاروں نے بڑی مشکل سے آئی جی پنجاب کو دھکم پیل سے نکال کر گاڑی میں بٹھا یا جبکہ مظاہرین گاڑی کے آگے لیٹنے اور پیچھے بھاگنے کی کوشش کرتے رہے ۔مظاہرین کے احتجاج کے دوران پولیس اہلکاروں نے مظاہرین کیساتھ مصلحت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان پرکسی قسم کا کوئی تشدد نہ کیااور آئی جی پنجاب کو سخت سکیورٹی کیساتھ وہاں سے روانہ کیا گیا ۔مظاہرین نے شدید احتجاج کرتے ہوئے پولیس پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے پولیس کے رویہ کیخلاف نعرہ بازی بھی کی قصورکے نواحی گاؤں حسین خانوالہ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے آئی جی پنجا ب پولیس مشتاق احمد سکھیرا نے کیس کی تفتیش چودہ روز میں مکمل کرنے کی ہدایت کی اور بتایا کہ معصوم بچوں کیساتھ وحشیانہ کھیل کھیلنے والے ملزمان کیخلاف درج شدہ مقدمات میں دہشت گردی کی دفعات شامل کر دی گئی ہیں ۔دہشت گردی کی عدالت سے متاثرین کو انصاف ملے گا ملزمان سزا سے نہیں بچ سکتے ۔ملٹری کورٹ میں مقدمات چلانے کی ضرورت محسوس نہیں ہو گی اس کیس میں کوئی بھی اثر انداز نہیں ہو گا ۔اس شرمناک واقعہ سے ہمارے سر شرم سے جھک گئے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ اس دلخراش واقعہ میں ملوث ملزمان کیساتھ رعایت برتنے والے پولیس افسروں اور اہلکاروں کو ہر گز برداشت نہیں کیا جائے گا ۔انہوں نے کہا کہ ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچانے کیلئے جے،آئی ،ٹی تشکیل دیدی گئی ہے جو کہ چودہ روز تک تفتیش کو مکمل کرکے رپورٹ پیش کرے گی ۔جبکہ نئے مقدمات کے اندراج میں تاخیر برداشت نہیں کی جائے گی مگر بیگناہ لوگوں کو ملوث کرنے سے بھی گریز کیا جائے ۔آئی جی پنجاب نے متاثرہ بچے کے والد کی شکایت پر متعلقہ ایس ایچ او کیخلاف ٹی وی چینل پر چلنے والی ویڈیو فلم کی انکوائری کا حکم دیدیا ہے ۔انکوائری میں گنہگار ثابت ہونے پر نوکری سے برخاست کر دیا جائے گا قبل ازیں انہوں نے پریس کانفرنس کو موخر کرکے متاثرہ بچوں اور ان کے لواحقین کیساتھ سکول کے ایک کمرہ میں میڈیا کے بغیر ملاقات کی ۔اور اصل حقائق جاننے کی کوشش کی پریس کانفرنس میں متاثرہ لوگ اور علاقہ مکین احتجاج کرتے رہے ،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Last edited:
Top