• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سانحہ کربلا اور غزوۂ قسطنطنیہ کی امارت کا مسئلہ

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
10۔ابن زیاد کے نام یزید کا حکم نامہ
جب حضرت حسینؓ کی کوفہ روانگی کا علم یزید کو پہنچا تو اس نے عبیداللہ بن زیاد کو لکھا:
’’حمد وصلوٰۃ کے بعد …مجھے اطلاع پہنچی ہے کہ حضرت حسینؓ عراق کی طرف روانہ ہوچکے ہیں ،سرحدی چوکیوں پر نگران مقرر کرو، جن سے بدگمانی ہو اُنہیں حراست میں لو، جن پر تہمت ہو ،انہیں گرفتار کر لو۔‘‘ …
’’غیر أن لا تقتل إلا من قاتلک و اکتب إلی فی کل ما یحدث من خبر، والسلام‘‘ یعنی ’’جو خود تجھ سے جنگ نہ کرے ،اس سے تم بھی جنگ نہ کرنا اور جو واقعہ پیش آئے، اس کا حال لکھنا … والسلام ‘‘ (طبری ۶؍۲۱۵، البدایہ ۸؍۱۶۵)
بلکہ ناسخ التواریخ کے مؤلف نے لکھا ہے کہ ایک خط مروان کی طرف سے بھی ابن زیاد کو موصول ہوا جس میں مرقوم تھا کہ
’’أما بعد فإن الحسین بن علی قد توجہ إلیک وھو الحسین ابن فاطمۃ و فاطمۃ بنت رسول اللہﷺ وتاللہ ما أحد یسلمہ اللہ أحب الینا من الحسین فإیاک أن تھیج علی نفسک ما لا یسدہ شیئ و لاتنساہ العامۃ ولا تدع ذکرہ آخر الدھر، والسلام (البدایہ والنھایہ ص۸؍۱۶۵) ناسخ التواریخ مطبوعہ ایران ۱۳۰۹؁ھ
’’امابعد تمہیں معلوم ہے کہ حسین بن علی تمہاری طرف روانہ ہوچکے ہیں (یہ تو تمہیں معلوم ہے کہ) حسین فاطمہ کے بیٹے ہیں اور فاطمہ رسول اللہﷺ کی بیٹی ہے ـ۔خدا کی قسم حسین سے زیادہ (اللہ انہیں سلامت رکھے) کوئی شخص بھی ہم کو محبوب نہیں ،خبردار ایسا نہ ہو کہ نفس کے ہیجان میں کوئی ایسا کام کر بیٹھو جس کے برے نتائج کو اُمت فراموش نہ کرسکے۔ اور رہتی دنیا تک اس کا ذکر نہ بھولے اور قیامت تک اس کا تذکرہ ہوتا رہے (ملاحظہ ہو شیعہ مؤرخ مرزا محمد تقی سپہر کاشانی کی مشہور تالیف ناسخ التواریخ :کتاب دوم ص۶؍۲۱۲)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
11۔اہل کوفہ کے نام حضرت حسینؓ کا خط
حضرت حسینؓ ۱۱ ؍ذوالحجہ ۶۰ھ کو مکہ مکرمہ سے روانہ ہوئے جب آپ بارہ منزلیں طے کرکے مقام الحاجر پہنچے تو آپؓ نے قیس بن مسہر صیداوی کے ہاتھ یہ خط روانہ کیا کہ
’’بسم اللہ الرحمن الرحیم من الحسین ابن علی لإخوانہ من المؤمنین والمسلمین سلام علیکم فإني أحمد إلیکم اللہ الذی لا إلٰہ إلا ھو، أما بعد فإن کتاب مسلم جاء نی یخبرنی فیہ بحق رأیکم…الخ‘‘
’’میرے پاس مسلم کا خط پہنچ چکا ہے جس میں انہوں نے مجھے اطلاع دی ہے کہ تم لوگ میرے متعلق اچھی رائے رکھتے ہو اور ہماری نصرت اور حق کے طلب کرنے پر متفق ہو ـ۔خدا سے دعا کرتا ہوں کہ ہمارا مقصد برلائے اور تم لوگوں کو اس پر اَجر عظیم دے… جب میرا قاصد پہنچے تو تم لوگ اپنے کام میں کوشش کرو۔ کیونکہ میں انہی دنوں میں تمہارے پاس پہنچ جائوں گا ان شاء اللہ تعالیٰ والسلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ (طبری ص۲؍۲۲۳، البدایہ والنھایہ ص۸؍۱۶۸)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
12۔ شہادت ِمسلم کی خبر حضرت حسینؓ کو ملی تو برادرانِ مسلم جوشِ انتقام میں آگئے
جب آپ اکیس منازل طے کرکے یکم محرم الحرام ۶۱ھ؁ کو زُبالۃ کے مقام پر پہنچے تو آپ کو عمر بن سعد اور محمد بن اشعث کا پیغام ملا کہ حضرت مسلم شہید ہوچکے ہیں، آپ واپس لوٹ جائیں۔ (اخبار الطوال ص۳۱۰) … مرزا محمد تقی سپہرکاشانی رقم طراز ہیں کہ
’’حضرت حسین ؓنے فرزندانِ عقیل کی جانب نظر ڈال کر کہا :اب رائے کیا ہے؟ انہوں نے کہا: واللہ ہم سے جو کچھ بن پڑے گا، ہم اُن کے خون کا بدلہ لینے کی کوشش کریں گے یا ہر وہ شربت ہم بھی نوش کریں گے جو انہوں نے نوش کیا۔ آنحضرت (حسینؓ) نے فرمایا کہ ان لوگوں کے بعد ہم کو بھی زندگانی کا کیا لطف رہے گا۔ (ناسخ التواریخ، کتاب ِدوم ص۳۱۶، جلد۶)
طبری ؒنے لکھا ہے کہ
’’شہادت ِمسلم کی خبر سنتے ہی برادرانِ مسلم جوشِ انتقام میں اُٹھ کھڑے ہوئے۔‘‘ (طبری ص۶؍۲۲۶)
اور البدایہ والنھایہ میں ہے کہ
’’إن بنی عقیل قالوا واللہ لا نرجع حتی ندرک ثأرنا أونذوق ما ذاق أخونا‘‘ (البدایہ ص۸؍۱۶۹، طبری ۶؍۲۲۵)
’’عقیل ؓ کے بیٹوں (مسلم کے بھائیوں)نے کہا: ہم اس وقت واپس نہ جائیں گے جب تک ہم انتقام نہ لے لیں یا ہم بھی اس موت کا مزہ چکھ لیں جو ہمارے بھائی نے چکھا‘‘
خلاصۃ المصائب کے مصنف نے لکھا ہے کہ حضرت حسینؓ نے ایک مبسوط خطبہ ارشاد فرمایا جس کے آخری الفاظ یہ ہیں کہ
’’من أحب منکم الانصراف فلینصرف في غیر حرج لیس علیہ زمام‘‘ (خلاصۃ المصائب، مطبوعہ نولکشور ص۵۶)
’’جو تم میں سے واپس جاناچاہے ، تو وہ چلا جائے، اس پر کوئی حرج نہیں‘‘
اور خود بھی حضرت حسین ؓ نے واپسی کا ارادہ کر لیا جیساکہ ایک شیعہ مؤرخ نے رقم کیا ہے کہ
’’واتصل بہ خبر مسلم فی الطریق فاراد الرجوع فامتنع بنو عقیل من ذلک‘‘ (عمدۃ الطالب فی انساب آل ابی طالب، مطبوعہ لکھنؤ، طبع اوّل ص ۱۷۹)
’’رستے میں مسلم کے قتل کی خبر ملی تو حضرت حسین ؓ نے واپسی کا ارادہ کیا ، لیکن عقیلؓ کے بیٹوں نے واپس جانے سے انکار کردیا‘‘
مگر بُر ا ہو اُن حواریوں کا جو حضرت حسینؓ پر ظاہراً جان قربان کرنے کے مدعی تھے مگر باطنا ًوہ حضرت حسینؓ کے خون کے پیاسے تھے، اس ارادہ کی تبدیلی پر انہوں نے کہا کہ
’’إنک واللہ ما أنت مثل مسلم بن عقیل ولو قدمت الکوفۃ لکان الناس إلیک أسرع ‘‘ (طبری ص۶؍۲۲۵)
’’واللہ آپ کی کیا بات ہے ،کہاں مسلم اور کہاں آپ؟ آپ کوفہ میں قدم رکھیں گے تو سب لوگ آپ کی طرف دوڑیں گے‘‘
حضرت حسینؓ نے اَپنے سفر کا پھر آغاز کیا جب آپ قادسیہ کے قریب پہنچے تو حر بن یزید تمیمی سے ملاقات ہوئی تو حرُ بن یزید نے پوچھا :کہاں کا ارادہ ہے؟
تو آپؓ نے فرمایا:’’اس (کوفہ) شہر کو جارہا ہوں‘‘
تو حرُ نے کہا:
’’خدارا ،واپس لوٹ جائیے، وہاں آپ کے لئے کسی بہتری کی امید نہیں۔‘‘ اس پر آپ نے پھر واپس لوٹ جانے کا ارادہ کیا مگر مسلم کے بھائیوں نے کہا کہ’’واللہ ہم اس وقت تک واپس نہیں لوٹیں گے جب تک ہم اپنا انتقام نہ لے لیں یاہم سب قتل نہ کر دئے جائیں‘‘
تو آپؓ نے فرمایا: تمہارے بعد ہمیں بھی زندگی کا کوئی لطف نہیں‘‘ یہ کہہ کر آپ آگے بڑھے تو ابن زیاد کے لشکر کا ہراول دستہ سامنے آگیا تو آپ کربلا کی طرف پلٹ گئے۔ (طبری ص۶؍۲۲۰)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
13۔ کوفہ کی بجائے شام کی طرف روانگی اور مقامِ کربلا پر رکاوٹ
عمدۃ الطالب کے مؤلف نے لکھا ہے کہ
حضرت حسینؓ نے واپس لوٹ جانے کا ارادہ کیا مگر فرزندانِ عقیل مانع ہوئے جب کوفہ کے قریب گئے تو حر بن یزید الریاحی سے مڈ بھیڑ ہوئی۔ اس نے کوفہ لے جانے کا ارادہ کیا تو آپ نے منع کیا اور ملک شام کی طرف مڑ گئے تاکہ یزید بن معاویہ کے پاس چلے جائیں لیکن جب آپ کربلا پہنچے تو آگے بڑھنے سے روک دیا گیا اور کوفہ لے جانے اور ابن زیاد کا حکم ماننے کے لئے کہا گیا تو آپ نے اس سے انکار کردیا اور ملک شام جانا پسند کیا (عمدۃ الطالب، طبع اول، لکھنؤ، ص۱۷۹) جب آپ کو مقام کربلا پر روکا گیا تو آپ نے کوفہ کے گورنر کے افسروں کے سامنے تین شرطیں پیش کیں:
1۔مجھے چھوڑ دو ،میں واپس چلا جائوں ،
2۔ممالک اسلامیہ کی حد پر چلا جائوں ،
3۔مجھے براہِ راست یزید بن معاویہ کے پاس جانے دو۔
(طبری طبع بیروت، ص۳؍۲۳۵، ناسخ التواریخ ص۱۷۵)
شریف المرتضی المتوفی ۴۴۶ھ؁ رقم فرماتے ہیں کہ
’’رُوي أنہ علیہ السلام قال لعمر بن سعد اختاروا منی، أمّا الرجوع إلی مکان الذی أقبلت منہ أو أن أضع یدی فی ید یزید وھو ابن عمی فیری فی رأیہ وأما أسیر إلی ثغر من ثغور المسلمین فأکون رجلا من أھلہ‘‘ (کتاب الشافی شریف المرتضی المتوفی ۴۳۶ھ؁، ص۴۷۱)
یعنی حضرت حسینؓ نے عمر بن سعد کے سامنے تین شرطیں پیش کیں: (۱) یعنی میں جہاں سے آیا ،واپس چلا جائوں، (۲) براہِ راست یزید کے پاس جانے دو، وہ میرا چچا زاد بھائی ہے، وہ میرے متعلق خود اپنی رائے قائم کرے گا، (۳) یا مسلمانوں کی سرحد پر چلا جائوں اور وہاں کا باشندہ بن جائوں۔‘‘
نیز الإمامۃ والسیاسۃکے مؤلف نے بھی ’’أن أضع یدي فی ید یزید‘‘ کا تذکرہ کیا ہے۔ مزید تفصیل کے لئے البدایہ ص۸؍۱۷۰، طبری طبع بیروت ۳؍۲۳۵، اصابہ طبع مصر ص۱؍۳۳۴، ابن اثیر طبع بیروت ص۳؍۲۸۳، مختصر تاریخ دمشق لابن عساکر ص۳۲۵، جلد۴ و ص۳۳۷، جلد ۴ ملاحظہ فرمائیں ۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
14۔حضرت حسینؓ کا اپنے موقف سے رجوع
حضرت حسینؓ کی تیسری شرط کی منظوری سے متعلق جو تحریر امیر لشکر حضرت عمر بن سعد نے گورنر ِکوفہ کو ارسال کی تھی ،ناسخ التواریخ کے مؤلف نے اس کا اِن الفاظ میں تذکرہ کیا ہے کہ
’’أویأتی أمیر المؤمنین یزید بن معاویۃ فیضع یدہ فی یدہ فیما بینہ و بینہ فیری رأیہ و فی ھذا لک رضی وللأمۃ صلاح‘‘
’’یا وہ امیر المو ٔمنین یزید بن معاویہؓ کے پاس چلے جائیں اور اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ دیں اس معاملے میں جو ان دونوں کے درمیان ہے۔ اس کے بعد وہ اپنا فیصلہ کرے گا، اس میں تیری رضامندی اور امت کی بہبود ہے‘‘ (ناسخ التواریخ، کتاب دوم طبع ایران، ص۲۳۷)
بہرحال حضرت حسینؓ کی پاکیزگی ،سرشت اور طہارت ِطینت تھی کہ انہوں نے اپنے مؤقف سے رجوع کر لیا ۔یہ وہ چیز تھی جو اکابر علما اور عقلا کے نزدیک حضرت حسینؓ کو ان احادیث کی زد سے بچا لے گئی جن احادیث میں امارت ِقائمہ میں خروج کرنے والے کو واجب ُالقتل قرار دیا گیا ہے، چنانچہ امام ابن تیمیہ ؒرقم فرماتے ہیں کہ
’’صحیح مسلم میں رسول اللہﷺ کا فرمان روایت ہوا ہے کہ ’’تمہارا نظم مملکت کسی ایک شخص کی سربراہی میں قائم ہوجائے تو اس وقت جو بھی جماعت میں تفرقہ ڈالنے کی کوشش کرے اس کی گردن تلوار سے اُڑا دو ،چاہے وہ کوئی بھی ہو۔‘‘ لیکن حضرت حسینؓ اس روایت کی زد میں نہیں آتے، کیونکہ انہیں تو اس وقت شہیدکیا گیا جب انہوں نے اپنے موقف سے دست برداری دے کر یہ چاہا تھا کہ ’’یا تو مجھے اپنے شہر واپس لوٹ جانے دو، یا کسی سرحدی چوکی پر جانے دو، یا یزید کے پاس بھیج دو تاکہ میں اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں دے دوں۔ اس کا مطلب صاف ظاہر ہے کہ حضرت حسینؓ خروج اور طلب ِخلافت کا خیال چھوڑ کر داخل فی الجماعۃ ہوگئے تھے، اور تفریق سے رجوع فرما لیا تھا،لہٰذا حریف پر لازم تھا کہ ان میں سے کوئی بات تسلیم کرتا اور قتل نہ کرتا، یہ باتیں تو ایسی تھیں کہ اگر ایک معمولی آدمی بھی ان کا مطالبہ کرتا تو منظور کرلینا چاہئے تھا، تو حضرت حسینؓ جیسے معظم انسان کا مطالبہ کیوں نہ منظور کیا گیا؟ اور حضرت حسینؓ سے کمتر آدمی بھی ایسے مطالبہ کے بعد اس کا مستحق نہ تھا کہ اس کی راہ روکی جائے چہ جائیکہ اُسے قید یا قتل کیا جائے … یہ ماننا پڑے گا کہ حضرت حسینؓ مظلوم قتل کئے گئے اور یقینا شہید ہوئے …رضی اللہ عنہ‘‘ (منہاج السنۃ ص۲؍۲۵۶)
نیز طبری ؒنے زہیر بن قیس کے اس وقت کے الفاظ نقل کئے ہیں جس وقت ان کا راستہ روکا جارہا تھا اور ہتھیار ڈالنے پر مجبور کیا جارہا تھا کہ
’’فخلوا بین ھذا الرجل وبین ابن عمہ یزید بن معاویۃ فلعمري أن یزید لیرضی من طاعتکم بدون قتل الحسین‘‘ (طبری ص۲۴۳، جلد۶)
’’حضرت حسینؓ کو اس کے چچا زاد بھائی یزید کے پاس جانے دو اس کا رستہ مت روکو، میری جان کی قسم ،یزید تمہاری اطاعت گزاری سے قتل حسین ؓکے بغیر بھی راضی رہیں گے۔ ‘‘
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
15۔جملہ معترضہ
یہی تیسری بات ہی مبنی بر حقیقت تھی کیونکہ حضرت حسین ؓ نے جن اَمیروں کے سہارے کوفہ کا سفر اختیار کیا تھا وہ اُمیدیں ایک ایک کر کے دم توڑ چکی تھیں اورآپ کی فہم وفراست جو کوفیوں کے خطوط کی بھر مار میں دَب کر رہ گئی تھی، تبدیلی حالات سے اب پھر اُبھر کے سامنے آچکی تھی ، مگر گیا وقت ہاتھ آتا نہیں ۔
دَراصل فوج کامطالبہ ہتھیاروں کی سپردگی کااس بنا پر تھا کہ آپ کو بحفاظت دمشق پہنچایا جائے اور آئینی تقاضہ بھی یہی تھا مگر آپ کو بھی اس بات کا اندیشہ تھا کہ مکہ سے جو کوفی ہمراہ آئے ہیں وہ کوئی نقصان نہ پہنچائیں کیونکہ آپ وہ خطوط یزید کے سامنے پیش کرنا چاہتے تھے۔ اور حقیقت بھی یہی تھی کہ اگر وہ خطوط یزید کے سامنے پیش کیے جاتے تو یہ خطوط بھیجنے والے مجرم گردانے جاتے ۔یہی تکرار بلآخر جنگ وجدل کی صورت اختیار کر گئی اورکوفیوں کی یہی گستاخی حضرت حسین ؓ کا ہاتھ تلوار کے قبضے تک پہنچنے کا سبب بنی ۔کوفی بدکردار حضرت حسین ؓ کے مقام سے کب آشنا تھے ،انہوں نے ہلہ بول دیا اور حضرت حسین ؓ بمعہ چنداقربا شہید کر دیئے گئے …انا للہ وانا الیہ راجعون
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
16۔شہادت ِحسین ؓ کا یزید پر اثر اورقاتل سے سلوک
شہادت ِحسینؓ کی خبر جب یزید تک پہنچی تو اسے بڑا دکھ ہوا ۔راوی کا بیان ہے کہ ’’بیدہ مندیل یمسح دموعہ‘‘ اُس کے ہاتھ میں رومال تھا جس سے وہ اپنے آنسو پونچھتا تھا، (مزید تفصیل کے لیے خلاصۃ المصائب ص ۲۹۲ تا ۲۹۴ دیکھئے) اور جب شمر حضرت حسین ؓ کا سر مبارک دربار ِیزید میں پیش کرتا او ریہ رجز پڑھتا ہے کہ
أفلا رکابی فضۃ وذھبا
قتلت خیر الخلق أما وأبا
’’کاش میرے پائے رکاب سونے چاندی کے ہوتے ، میںنے ماں اور باپ ہر دو لحاظ سے اعلیٰ ترین شخصیت کو قتل کیا ہے‘‘
تو یزید انتہائی غصے کی حالت میں کہتا ہے …
’’خدا تیرے رکا ب کو آگ سے بھر دے تیرے لیے بربادی ہو جب تجھے معلوم تھا کہ حسین خیر الخلق ہے پھر تو نے اسے قتل کیوں کیا؟ میر ی آنکھوں سے دور ہو جا ‘‘(خلاصۃ المصائب ص ۳۰۴)
بلکہ ناسخ التواریخ میں ہے کہ یزید نے شمر کو کہا کہ ’’میری طرف سے تجھے کوئی انعام نہیں ملے گا ‘‘یہ سن کر شمر خائب وخاسر واپس ہوا اور اسی طرح وہ دین ودنیا سے بے نصیب رہا (ناسخ التواریخ ص ۲۶۹) نیز اسی کتاب کے ص ۲۷۸ پر ہے کہ یزید نے کہا :
’’خدا اس کوغارت کرے جس نے حسین ؓ کو قتل کیا ‘‘
طراز مذہب مظفری میں ہے کہ یزید نے کہا کہ ’’خدا ابن زیاد کو غارت کرے اس نے حسین کو قتل کیا اور مجھے دونوں جہاں میں رسوا کیا۔‘‘( ص ۴۵۶)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
17۔شہاد تِ حسین ؓ کے بعد محمد بن حنفیہ ؒ کی یزید سے ملاقات
واقعہ ٔشہادت ِحسین ؓ کے عرصہ بعد جب حضرت محمد بن حنفیہ دمشق تشریف لائے تو یزید نے ان کے ساتھ اسی طرح اظہار ِتاسف کیا اورتعزیت کی ۔راوی کا بیان ہے کہ پھر یزید نے محمد بن حنفیہ ؒکو ملاقات کے لیے بلایا اوراپنے پاس بٹھا کر ان سے کہا کہ
’’حسین کی موت پرخدا مجھے اور تمہیں اجر عطا فرمائے ۔بخدا حسین کا نقصان جتنا بھاری تمہارے لیے ہے ،اتنا ہی میری لیے بھی ہے اور ان کی موت سے جتنی اذیت تمہیں ہوئی ہے، اتنی ہی مجھے بھی ہوئی ہے۔ اگر ان کا معاملہ میر ے ہاتھ میں سپرد ہوتا او رمیں دیکھتا کہ ان کی موت کو اپنی انگلیاں کاٹ کر اوراپنی آنکھیں دے کر ٹال سکتا ہوں تو بلا مبالغہ دونوں کواُن کے لیے قربان کر دیتا ‘‘ تو محمد بن حنفیہ ؒنے کہا :’’خدا تمہارا بھلا کرے اورحسین ؓپر رحم فرمائے اور ان کے گناہوں کو معاف فرمائے یہ معلوم کر کے مجھے مسرت ہوئی ہے کہ ہمارا نقصان ،تمہارا نقصان ،ہماری محرومی، تمہاری محرومی ہے ! حسین ؓاس بات کے مستحق نہیں کہ تم اُن کوبرا بھلا کہو اور ان کی مذمت کرو ۔ امیر المو ٔمنین میں درخواست کرتا ہوں کہ حسین کے بارہ میں کوئی ایسی بات نہ کیجئے جو مجھے ناگوار ہو۔ ‘‘ تو یزید نے کہا :’’میرے چچیرے بھائی !میں حسین ؓکے متعلق کوئی ایسی بات نہیں کروں گا جس سے تمہارا دل دُکھے ‘‘ (انساب الاشراف از بلاذری ،ج ۳)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
18۔واقعہ کر بلااور حجۃ الاسلام امام غزالی ؒ (۵۰۵ھ)
جو شخص یہ گمان کرتا ہے کہ یزید نے قتل حسین کا حکم دیا تھا، یا اس پررضامندی کا اظہار کیا تھا، وہ شخص پرلے درجہ کا احمق ہے ۔اکابر ،وزراء اور سلاطین میں سے جو جو اپنے اپنے زمانہ میں قتل ہوئے اگر کوئی شخص ان کی یہ حقیقت معلوم کرنا چاہے کہ قتل کا حکم کس نے دیا تھا؟ کون اس پر راضی تھا ؟ اور کس نے اس کو ناپسند کیا ؟ تو وہ ا س پر قادر نہ ہو گا کہ اس کی تہہ تک پہنچ سکے اگرچہ یہ قتل اس کے پڑوس میںاس کے زمانہ میں، اور اس کی موجودگی میں ہی کیوں نہ ہوا ہو تو اس واقعہ تک کیونکر رسائی ہو سکتی ہے جو دور دراز شہروں ،اور قدیم میں گزرا ہو پس کیونکر اس واقعہ کی حقیقت کا پتہ چل سکتا ہے جس پر چار سو برس کی طویل مدت ،بعید مقام میں گزرہو چکی ہو۔
امر واقعہ یہ ہے کہ اس بارے میں شدید تعصب کی راہ اختیار کی گئی اس وجہ سے اس واقعہ کے بارہ میں مختلف گروہوں کی طرف سے بکثرت روایتیں مروی ہیں پس یہ ایک ایسا واقعہ ہے جس کی حقیقت کا ہرگز پتہ نہیں چل سکتا او رحقیقت تعصب کے پردوں میں روپوش ہے تو پھر ہر مسلمان کے ساتھ حسن ظن رکھنا واجب ہے جہاں حسن ظن کے قرائن ممکن ہوں …الخ (وفیات الاعیان لابن خلکان بذیل ترجمہ الکیا الہراسی ص ۴۶۰)
آپ ابو حامد الغزالی ؒ ۵۰۵؁ء کے آخری فقرہ فھذا الامر لایعلم حقیقتہ أصلا پر غور فرمائیں جو انہوں نے آج سے نو سوبرس پہلے سپرد ِقلم کیا تھا ، جب کہ اس وقت بھی واقعہ کی صورت ِکا ذبہ کی تصویر کشی کے لیے وضعی روایات کا انبار موجود تھا ۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
18۔واقعہ کر بلا سے متعلق ایک شیعہ مؤرخ کے تاثرات
واقعہ کربلا سے متعلق ایک مشہور شیعہ مؤرخ جناب شاکر حسین امر وہی کے تاثرات بھی ملاحظہ فرمائیں…فرماتے ہیں کہ
’’ صدہا باتیں طبع زاد تراشی گئیں۔ واقعات کی تدوین عرصہ دارز کے بعد ہوئی۔ رفتہ رفتہ اختلافات کی اس قدر کثر ت ہو گئی کہ سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کوسچ سے علیحدہ کرنا مشکل ہو گیا ابو مِخْنَفْ لوط بن یحییٰ ازدی کربلا میں خود موجود نہ تھا، اس لیے یہ سب واقعات انہوں نے سماعی لکھے ہیں لہٰذا مقتل ابو مِخْنَفْ پر پورا وثوق نہیں۔ پھر لطف یہ کہ مقتل ابو مِخْنَفْ کے متعدد نسخے پائے جاتے ہیں جو ایک دوسرے سے مختلف البیان ہیں اوران سے صاف پایا جاتا ہے کہ خود ابو مخنف واقعات کو جمع کرنے والا نہیں بلکہ کسی اورشخص نے ا ن کے بیان کردہ سماعی واقعات کو قلمبند کیا ہے ـ ۔ مختصر یہ کہ شہادت ِامام حسین ؓ کے متعلق تمام واقعات ابتدا سے انتہا تک اس قدر اختلاف سے پرہیں کہ اگر ان کو فرداً فردا ًبیان کیا جائے تو کئی ضخیم دفتر فراہم ہوجائیں …اکثر واقعات مثلاً:
اہل بیت پر تین شبانہ روز پانی کابند رہنا ،فوجِ مخالف کا لاکھوں کی تعداد میںہونا ، شمر کاسینہ مطہر پربیٹھ کر سر جدا کرنا ، آپ کی لاشِ مقدس سے کپڑوں تک کا اتا ر لینا ، نعش مبارک کا سم اسپاں کئے جانا ، سر اوقات اہل بیت کی غارت گری ،نبی زادیوں کی چادریں تک چھین کر رعب جمانا وغیرہ وغیرہ…بہت ہی مشہور اور زبان زد خاص وعام ہیں حالانکہ ان میں سے بعض غلط،بعض مشکوک ،بعض ضعیف ،بعض مبالغہ آمیز اوربعض من گھڑت ہیں۔ (مجاہد اعظم ص ۱۷۸ مؤلف جناب شاکر حسین امروہی)
دوسرے مقام پر رقم فرماتے ہیں کہ:
’’ہم تسلیم کرتے ہیں کہ بعض واقعات جو نہایت مشہور اور سینکڑوں برس سے سُنّیوں اورشیعوں میں نسلاً بعد نسل منتقل ہوتے چلے آرہے ہیں ،سرے سے بے بنیاد اوربے اصل ہیں ہم اس کو بھی مانتے ہیں کہ طبقہ علماء کے بڑے اراکین مفسرین ہویامحدثین ،مؤرخین یادوسرے مصنّفین ،متقدمین ہویا متأخرین ان کویکے بعد دیگرے بلا سوچے سمجھے نقل کرتے آئے ہیں۔ اوران کی صحت وغیر صحت کو معیارِ اصول پر نہیں جا نچا۔ اس تساہل وتسامح کا نتیجہ یہ ہوا کہ غلط اور بے بنیاد قصے عوام تو عوام خواص کے اذہان وقلوب میںایسے راسخ اور استوار ہو گئے کہ اب ان کا انکار گویا کہ بدیہیات کاانکار ہے ۔ (مجاہد اعظم از شاکر حسین امروہی :ص ۱۶۴)
 
Top