- شمولیت
- فروری 14، 2011
- پیغامات
- 9,748
- ری ایکشن اسکور
- 26,379
- پوائنٹ
- 995
سلفی منہج کی جانب انتساب کرنا
ترجمہ: طارق علی بروہی
قرآن کریم میں اللہ تعالی کا فرمان ہے:شیخ محمد ناصر الدین البانی رحمہ اللہ (المتوفی سن 1420ھ) فرماتے ہیں:﴿وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِيْنَ وَالْاَنْصَارِ وَالَّذِيْنَ اتَّبَعُوْھُمْ بِاِحْسَانٍ ۙ رَّضِيَ اللّٰهُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ وَاَعَدَّ لَھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَآ اَبَدًا ۭذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ﴾ (التوبۃ: 100)
(مہاجرین وانصار میں سے سابقین اولین اور جنہوں نے بطور احسن ان کی پیروی کی، اللہ ان سے راضی اور وہ اس سے، اور ان کے لیے ایسے باغات تیار کیے ہیں کہ جن کے نیچے نہریں رواں ہیں، اس میں وہ ہمیشہ ہمیش رہیں گے، یہی سب سے بڑی کامیابی ہے)
فرمان الہی ہے:’’ یہ آیت کریمہ وہ اساس ہے کہ جس سے ہر مسلمان اس دعوت حق کو کشید کرسکتا ہے جسے قدیم وجدید علماء کرام نے سلفی دعوت کا نام دیا ہے اور بعض نے اسے انصار السنۃ المحمدیۃ کا اسی طرح سے بعض نے دعوت اہلحدیث کے نام سے موسوم کیا ہے۔ اور یہ سب نام ایک ہی معنی کی جانب اشارہ کرتے ہیں کہ جس کی طرف تمام دینی جماعتوں نے کوئی توجہ نہیں دی اور اگر دی بھی تو کماحقہ اس سے تمسک اختیار نہیں کیا۔ اسی وجہ سے کسی مسلمان کے لیے ناممکن ہے کہ وہ فرقۂ ناجیہ (نجات پانے والے فرقے) میں شمار ہو سوائے اس کے کہ وہ قرآن وسنت اور منہج سلف صالحین پر چلے۔یہ جو تیسری اساس یعنی منہج سلف ہے وہ تمام مسلمانوں کے ذہنوں میں ہمیشہ رہنی چاہیے اگر وہ واقعی اس دن نجات پانے کے بارے میں سچے ہیں کہ جس دن نہ مال کام آئے کا نہ بیٹے۔ اسی لیے دینی مفہاہیم اور افکار وآراء کے اعتبار سے اس چیز کی طرف رجوع نہ کرنا جس پر کہ سلف صالحین تھے یہی بنیادی سبب ہے کہ مسلمان اتنے مذاہب اور فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ جو کوئی قرآن وسنت کی جانب رجوع کرنے میں صادق ہے تو اسے اس چیز کی پیروی کرنی ہوگی جس پر اصحاب نبیﷺ، تابعین اور ان کے متبعین تھے‘‘ ([1])
شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:﴿وَمَنْ يُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدٰى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيْلِ الْمُؤْمِنِيْنَ نُوَلِّهٖ مَا تَوَلّٰى وَنُصْلِهٖ جَهَنَّمَ ۭ وَسَاۗءَتْ مَصِيْرًا﴾ (النساء: 115)
(اور جو رسول کی مخالفت کرے بعد اس کے کہ ہدایت اس پر واضح ہوچکی اور مومنوں کی راہ چھوڑ کر کسی اور راہ پر چلے تو ہم اسے وہیں پھیر دیتے ہیں جہاں وہ خود پھرتا ہے اور پھر اسے جہنم میں پہنچائیں گے، اور وہ کیا ہی برا ٹھکانہ ہے)
سلف صالحین کی اتباع کا مسئلہ دین میں کوئی نیا کام یا بدعت نہیں بلکہ یہ تو ایک واجب ولازم چیز ہے جو کہ اللہ تعالی نے اپنے کلام میں بالکل واضح طور پر ارشاد فرمائی ہے:’’ جو کوئی بھی فرقۂ ناجیہ([2]) میں سے ہونا چاہتا ہے تو اس پر لازم ہے کہ وہ اس چیز کی جانب نسبت کرے جس پر یہ صحابہ کرام، تابعین اور ان کے متبعین تھے۔ یہ وہ سلف صالحین ہیں کہ جن کی ہم پیروی کرتے ہیں۔
بلاشبہ اللہ تعالی نے نبی کریم ﷺ کے راستے کی مخالف کرنے پر شدید وعید سنائی ہے مگر اسے اس بات کے ساتھ جوڑ دیا ہے کہ: "اور مومنوں کی راہ چھوڑ کر کوئی اور راہ چلے" اور اس میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ یہاں مومنوں سے مراد وہ مومن لوگ کہ جن کی مخالفت پر سختی کے ساتھ آیت میں ڈرایا گیا ہے وہی مومنین ہیں جن کا اس سے پہلے والی آیت میں ذکر ہوا مہاجرین وانصار صحابہ کرام اور بھلائی کے ساتھ ان کے نقش قدم پر چلنے والے۔﴿وَمَنْ يُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدٰى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيْلِ الْمُؤْمِنِيْنَ نُوَلِّهٖ مَا تَوَلّٰى وَنُصْلِهٖ جَهَنَّمَ ۭ وَسَاۗءَتْ مَصِيْرًا﴾ (النساء: 115)
’’ اور جو رسول کی مخالفت کرے بعد اس کے کہ ہدایت اس پر واضح ہوچکی اور مومنوں کی راہ چھوڑ کر کسی اور راہ پر چلے تو ہم اسے وہیں پھیر دیتے ہیں جہاں وہ خود پھرتا ہے اور پھر اسے جہنم میں پہنچائیں گے، اور وہ کیا ہی برا ٹھکانہ ہے‘‘
بلاشبہ اللہ تعالی ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے۔ لہذا یہ ثابت ہوا کہ منہج السلف ہی وہ اساس ہے کہ جو ایک ایسے مسلمان کہ جو اپنی زبان سے قرآن وسنت کی جانب منسوب تو ہوتا ہے لیکن پھر اپنے عمل سے قرآن وسنت کی پیروی کی مخالفت کرتا ہے یعنی کہ اس عصمت کی طرف نہیں لوٹتا کہ جو اسے قرآن وسنت کی مخالفت سے بچاسکے اور یہ صحابہ کرامکے منہج کی پیروی کے سوا اور کچھ نہیں)۔([3])