• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنت طریقہ نماز (رفع اليدين)

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
ور امام ابوداود سنن میں اس حدیث کو نقل کرکے فرماتے ہیں :قال أبو داود: هذا حديث مختصر من حديث طويل وليس هو بصحيح على هذا اللفظ
’’ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ ایک طویل حدیث کا اختصار ہے، اور یہ حدیث اس لفظ کے ساتھ صحیح نہیں۔
یہ بھی بتا دیجیے گا کہ وہ طویل حدیث کون سی ہے اور کس لفظ کے ساتھ صحیح نہیں ہے اور کس لفظ کے ساتھ صحیح ہے؟ اور صحیح نہیں ہے تو کیوں نہیں ہے؟
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
بقیہ پر ان شاء اللہ وقت ملتے ہی کلام کرتے ہیں ؛؛
مراسلہ نمبر 31 پر تفصیل بیان کی گئی ہے!

یہ بھی بتا دیجیے گا کہ وہ طویل حدیث کون سی ہے اور کس لفظ کے ساتھ صحیح نہیں ہے اور کس لفظ کے ساتھ صحیح ہے؟ اور صحیح نہیں ہے تو کیوں نہیں ہے؟
وَيُرْوَى عَنْ سُفْيَانَ , عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ , عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ , عَنْ عَلْقَمَةَ قَالَ: قَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ: " أَلَا أُصَلِّي بِكُمْ صَلَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَصَلَّى وَلَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ إِلَّا مَرَّةً
وَقَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ: عَنْ يَحْيَى بْنِ آدَمَ قَالَ: نَظَرْتُ فِي كِتَابِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ إِدْرِيسَ عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ لَيْسَ فِيهِ: ثُمَّ لَمْ يَعُدْ.
فَهَذَا أَصَحُّ لِأَنَّ الْكِتَابَ أَحْفَظُ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ لِأَنَّ الرَّجُلَ رُبَّمَا حَدَّثَ بِشَيْءٍ ثُمَّ يَرْجِعُ إِلَى الْكِتَابِ فَيَكُونُ كَمَا فِي الْكِتَابِ.

سفیان (الثوری) سے عن عاصم بن کلیب عن عبد الرحمٰن بن الأسود عن علقمہ (کی سند) سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا: ابن مسعود نے فرمایا: کیا میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز پڑھ کر نہ بتاؤں؟ پھر انہوں نے نماز پڑھی تو ایک دفعہ کے علاوہ رفع الیدین نہیں کیا۔
اور احمد بن حنبل نے یحییٰ بن آدم سے بیان کیا کہ: میں نے عبد اللہ بن ادریس کی عاصم بن کلیب سے کتاب میں دیکھا ہے۔ اس میں پھر دوبارہ نہیں کیا، کے الفاظ نہیں ہیں۔ اور (عبد اللہ بن ادریس کی) یہ روایت زیادہ صحیح ہے کیونکہ علماء کے نزدیک کتاب زیادہ محفوظ ہوتی ہے، کیونکہ آدمی بعض أوقات کوئی بات کرتا ہے پھر جب (اپنی کتاب) کی طرف رجوع کرتا ہے تو (صحیح) وہی ہوتا ہے جو کتاب میں ہے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 57 قرة العينين برفع اليدين في الصلاة مع ترجمه اردو جزء رفع اليدين - أبو عبد الله محمد بن إسماعيل البخاري، (المتوفى: 256هـ) – مكتبه اسلامیه
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 28 قرة العينين برفع اليدين في الصلاة - أبو عبد الله محمد بن إسماعيل البخاري، (المتوفى: 256هـ) - دار الأرقم للنشر والتوزيع، الكويت


حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الرَّبِيعِ , حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ , عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ , عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ , حَدَّثَنَا عَلْقَمَةُ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ، عَنْهُ قَالَ: " عَلَّمَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّلَاةَ: فَقَامَ فَكَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ , ثُمَّ رَكَعَ , فَطَبَّقَ يَدَيْهِ جَعَلَهُمَا بَيْنَ رُكْبَتَيْهِ فَبَلَغَ ذَلِكَ سَعْدًا فَقَالَ: صَدَقَ أَخِي قَدْ كُنَّا نَفْعَلُ ذَلِكَ فِي أَوَّلِ الْإِسْلَامِ ثُمَّ أُمِرْنَا بِهَذَا ".
قَالَ الْبُخَارِيُّ: " وَهَذَا الْمَحْفُوظُ عِنْدَ أَهْلِ النَّظَرِ مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ

ہمیں الحسن بن الربیع نے حدیث بیان کی: ہمیں اب ادریس نے حدیث بیان کی عاصم بن کلیب سے انہوں نے عبدالرحمٰن بن الأسود سے: ہمیں علقمہ نے حدیث بیان کی۔ بے شک عبد اللہ (بن مسعود) نے فرمایا: ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز سکھلائی ہے۔ پس وہ کھڑے ہوئے تو تکبیر کہی اور رفع الیدین کیا۔ پھر رکوع کیا تو اپنے دونوں ہاتھوں کو تطبیق کرتے ہوئے اپنے دونوں گھٹنوں کے درمیان رکھ دیا۔
پھر سعد (بن ابی وقاص) کو یہ بات پہنچی تو انہوں نے فرمایا: میرے بھائی نے سچ کہا ہے۔ ہم اسلام کے ابتدائی دور میں اسی طرح کرتے تھے پھر ہمیں اس کا حکم دیا گیا (کہ اپنے ہاتھ اپنے گھٹنوں پر رکھیں)

امام بخاری نے کہا: محقق علماء کے نزدیک عبد اللہ بن مسعود کی حدیث میں سے یہی روایت محفوظ ہے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 57 – 58 قرة العينين برفع اليدين في الصلاة مع ترجمه اردو جزء رفع اليدين - أبو عبد الله محمد بن إسماعيل البخاري، (المتوفى: 256هـ) – مكتبه اسلامیه
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 28- 29 قرة العينين برفع اليدين في الصلاة - أبو عبد الله محمد بن إسماعيل البخاري، (المتوفى: 256هـ) - دار الأرقم للنشر والتوزيع، الكويت



709 - قُلْتُ لِأَبِي حَدِيثُ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ حَدِيثُ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ حَدَّثَنَاهُ وَكِيعٌ فِي الْجَمَاعَةِ قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ عَنْ عَلْقَمَةَ قَالَ قَالَ بن مَسْعُود أَلا أُصَلِّي بكم صَلَاة رَسُول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فَصَلَّى فَلَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ إِلَّا مَرَّةً حَدثنِي أبي قَالَ حدّثنَاهُ وَكِيع مرّة أُخْرَى بِإِسْنَادِهِ سَوَاء فَقَالَ قَالَ عبد الله أُصَلِّي بكم صَلَاة رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم فَرفع يَدَيْهِ فِي أول
710 - حَدثنِي أبي قَالَ حَدثنَا أَبُو عبد الرَّحْمَن الضَّرِير قَالَ كَانَ وَكِيع رُبمَا قَالَ يَعْنِي ثمَّ لَا يعود قَالَ أبي كَانَ وَكِيع يَقُول هَذَا من قبل نَفسه يَعْنِي ثمَّ لَا يعود
711 - قَالَ أبي وَقَالَ الْأَشْجَعِيّ فَرفع يَدَيْهِ فِي أول شَيْء
712 - وَذَكَرْتُ لأَبِي حَدِيثَ الثَّوْرِيِّ عَنْ حُصَيْنٍ عَنْ إِبْرَاهِيمَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّهُ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِي أَوَّلِ الصَّلاةِ ثُمَّ لَا يَعُودُ قَالَ أَبِي حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ قَالَ حَدَّثَنَا حُصَيْنٌ عَنْ إِبْرَاهِيمَ لَمْ يَجُزْ بِهِ إِبْرَاهِيمُ وَهُشَيْمٌ أَعْلَمُ بِحَدِيثِ حُصَيْنٍ
713 - قَالَ أبي حَدِيث عَاصِم بن كُلَيْب رَوَاهُ بن إِدْرِيس فَلم يقل ثمَّ لَا يعود
714 - حَدَّثَنِي أَبِي قَالَ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ قَالَ أَمْلَاهُ عَلَيَّ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ مِنْ كِتَابِهِ عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ قَالَ حَدَّثَنَا عَلْقَمَةُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ عَلَّمَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّلَاةَ فَكَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ ثُمَّ رَكَعَ وَطَبَّقَ يَدَيْهِ وَجَعَلَهُمَا بَيْنَ رُكْبَتَيْهِ فَبَلَغَ سَعْدًا فَقَالَ صَدَقَ أَخِي قَدْ كُنَّا نَفْعَلُ ذَلِكَ ثُمَّ أَمَرَنَا بِهَذَا وَأَخَذَ بِرُكْبَتَيْهِ حَدثنِي عَاصِم بن كُلَيْب هَكَذَا قَالَ أبي هَذَا لفظ غير لفظ وَكِيع، وَكِيع يثبج الحَدِيث لِأَنَّهُ كَانَ يحمل نَفسه فِي حفظ الحَدِيث

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 369 – 371جلد 01 العلل ومعرفة الرجال - أبو عبد الله أحمد بن محمد بن حنبل (المتوفى: 241هـ) - دار الخاني، الرياض
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
احناف سے بغض میں اتنا نہ بڑھ جاؤ کہ ایمان سے ہی ہاتھ دھو بیٹھو۔ صحابہ کرام کو اس قدر بلند مقام کیوں ملا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا؛
وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ (100)
یہ اس سبب سے کہ جب بھی کوئی صھابی ایمان لاتا تھا تو اپنی خوہشات کو چھوڑ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مکمل اتباع فرماتے تھے۔ یہی سبب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا؛
وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ آَمِنُوا كَمَا آَمَنَ النَّاسُ قَالُوا أَنُؤْمِنُ كَمَا آَمَنَ السُّفَهَاءُ أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهَاءُ وَلَكِنْ لَا يَعْلَمُونَ (13)
صحابہ کرام جو کچھ ”اخذ“ کرتے تھے وہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی سے کرتے تھے براہِ راست قرآن سے بھی نہیں۔
بھٹی صاحب! کیا ایمان سے فارغ ہو چکے ہو جو اتنا فریب!
جہالت کا طوق اتار کر دیکھو! میں نے لکھا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو ان کی غلطی پر تنبیہ کی ہے، اور وہ صحابہ نے آپ کی طرح اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احادیث کو رد نہیں کیا، انہوں نے اپنی اصلاح کرلی!
آپ نے آئیندہ سے کوئی اپنی جہالت کی بنا پر ہم پر کوئی تہمت باندھی تو وہ مراسلہ حذف کر دیا جائے گا! یہ میری جانب سے پہلے اور آخری تنبیہ ہے۔ لہٰذا لکھنے سے پہلے سوچ لیا کریں!
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
میں آپ کو ”اہلحدیث“ سمجھا تھا کہ ہر اہلحدیث مجتہد ہوتا ہے اس لئے ترجمہ نہ لکھا مجھے معلوم نہ تھا کہ ”مجتہد“ عربی نہیں جانتا ۔۔۔ ابتسامہ!
بقول امام غزالی اور امام الحرمین الجوینی کے جسے عربی نہیں آتی تھی، انہیں تو آپ نے امام اعظم بنا لیا ہے! کہو تو حوالہ پیش کروں! اس پر ابتسامہ کیسا رہے گا!
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہیں سے بھی اخذ کیا ہو، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اس ''اخذ'' کرنے کو غلط قرار دے دیا! کہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے بہر حال یہ غلط اخذ کیا تھا۔
جہالت کا طوق اتار کر دیکھو! میں نے لکھا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو ان کی غلطی پر تنبیہ کی ہے، اور وہ صحابہ نے آپ کی طرح اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احادیث کو رد نہیں کیا، انہوں نے اپنی اصلاح کرلی!
کیا صحابہ کرام (نعوذ باللہ) بدعتی تھے؟
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
آپ نے آئیندہ سے کوئی اپنی جہالت کی بنا پر ہم پر کوئی تہمت باندھی تو وہ مراسلہ حذف کر دیا جائے گا! یہ میری جانب سے پہلے اور آخری تنبیہ ہے۔ لہٰذا لکھنے سے پہلے سوچ لیا کریں!
آپ کے کچھ بڑے بھائی پہلے ہی بغیر تنبیہ کے ایسا کر رہے ہیں آپ بھی کریں گے تو نقصان کس کا ہوگا؟؟؟
جو مَنَّاعٍ لِلْخَيْرِ مُعْتَدٍ مُرِيبٍ (القرآن)ثابت ہوگا۔
who used to prevent (others) from good (behavior), who transgressed all bounds, who cast doubts (in true faith),
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
وَيُرْوَى عَنْ سُفْيَانَ , عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ , عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ , عَنْ عَلْقَمَةَ قَالَ: قَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ: " أَلَا أُصَلِّي بِكُمْ صَلَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَصَلَّى وَلَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ إِلَّا مَرَّةً
وَقَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ: عَنْ يَحْيَى بْنِ آدَمَ قَالَ: نَظَرْتُ فِي كِتَابِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ إِدْرِيسَ عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ لَيْسَ فِيهِ: ثُمَّ لَمْ يَعُدْ.
فَهَذَا أَصَحُّ لِأَنَّ الْكِتَابَ أَحْفَظُ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ لِأَنَّ الرَّجُلَ رُبَّمَا حَدَّثَ بِشَيْءٍ ثُمَّ يَرْجِعُ إِلَى الْكِتَابِ فَيَكُونُ كَمَا فِي الْكِتَابِ.

سفیان (الثوری) سے عن عاصم بن کلیب عن عبد الرحمٰن بن الأسود عن علقمہ (کی سند) سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا: ابن مسعود نے فرمایا: کیا میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز پڑھ کر نہ بتاؤں؟ پھر انہوں نے نماز پڑھی تو ایک دفعہ کے علاوہ رفع الیدین نہیں کیا۔
اور احمد بن حنبل نے یحییٰ بن آدم سے بیان کیا کہ: میں نے عبد اللہ بن ادریس کی عاصم بن کلیب سے کتاب میں دیکھا ہے۔ اس میں پھر دوبارہ نہیں کیا، کے الفاظ نہیں ہیں۔ اور (عبد اللہ بن ادریس کی) یہ روایت زیادہ صحیح ہے کیونکہ علماء کے نزدیک کتاب زیادہ محفوظ ہوتی ہے، کیونکہ آدمی بعض أوقات کوئی بات کرتا ہے پھر جب (اپنی کتاب) کی طرف رجوع کرتا ہے تو (صحیح) وہی ہوتا ہے جو کتاب میں ہے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 57 قرة العينين برفع اليدين في الصلاة مع ترجمه اردو جزء رفع اليدين - أبو عبد الله محمد بن إسماعيل البخاري، (المتوفى: 256هـ) – مكتبه اسلامیه

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 28 قرة العينين برفع اليدين في الصلاة - أبو عبد الله محمد بن إسماعيل البخاري، (المتوفى: 256هـ) - دار الأرقم للنشر والتوزيع، الكويت
اللہ پاک آپ کو جزائے خیر دیں۔
عجیب سی بات نہیں ہے؟ میں ذرا وضاحت کرتا ہوں۔
ایک تو جہاں اس کا امکان ہے کہ راوی سے سہو ہو گئی اور کتاب میں درست ہو وہیں اس کا بھی اتنا ہی امکان ہے کہ لکھنے والا جلدی یا کسی وجہ سے لکھنے سے رہ گیا ہو۔ کتاب میں تو تحریف (اصطلاحی) بھی بہت ہوتی ہے۔
دوسرا ایک جانب بیان کرنے والے سفیان ثوری ہیں اور دوسری جانب دیکھا عبد اللہ بن ادریس کی کتاب میں گیا ہے۔ ظاہر یہی کہ عاصم بن کلیب نے جب حدیثیں بیان کیں تو سفیان نے یاد کیں اور ابن ادریس نے لکھیں۔ دونوں افراد الگ الگ ہیں۔ پھر "اپنی کتاب" میں دیکھنے کا قاعدہ یہاں کیسے لگتا ہے؟ "اپنی کتاب" تو وہ ہے ہی نہیں دوسرے کی کتاب ہے۔
تیسرا اصول حدیث کا مشہور قاعدہ ہے کہ ثقہ راوی کی زیادتی مقبول ہوتی ہے (یعنی اگر شذوذ کی حد میں نہ آئے)۔ تو اگر یہ سفیان کی زیادتی ہے تب بھی معتبر ہی ہونی چاہئے۔
چوتھا یحیی بن آدم کہتے ہیں کہ "میں نے ابن ادریس کی کتاب میں دیکھا" اب یحیی بن آدم نے ابن ادریس سے اس کے بارے میں پوچھا بھی نہیں۔ اگر پوچھ لیتے تو وہ وضاحت کر دیتے کہ یہ لفظ تھا ہی نہیں یا میں نے لکھا نہیں۔ کیا احتمال آنے کی وجہ سے یہ استدلال باطل نہیں ہو جاتا؟ جس روایت کو عبد اللہ بن ادریس نے خود املاء کرایا ہے وہ آگے آ رہی ہے۔ اس میں اور اس اوپر والی روایت میں فرق ہے۔

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الرَّبِيعِ , حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ , عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ , عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ , حَدَّثَنَا عَلْقَمَةُ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ، عَنْهُ قَالَ: " عَلَّمَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّلَاةَ: فَقَامَ فَكَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ , ثُمَّ رَكَعَ , فَطَبَّقَ يَدَيْهِ جَعَلَهُمَا بَيْنَ رُكْبَتَيْهِ فَبَلَغَ ذَلِكَ سَعْدًا فَقَالَ: صَدَقَ أَخِي قَدْ كُنَّا نَفْعَلُ ذَلِكَ فِي أَوَّلِ الْإِسْلَامِ ثُمَّ أُمِرْنَا بِهَذَا ".
قَالَ الْبُخَارِيُّ: " وَهَذَا الْمَحْفُوظُ عِنْدَ أَهْلِ النَّظَرِ مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ
ہمیں الحسن بن الربیع نے حدیث بیان کی: ہمیں اب ادریس نے حدیث بیان کی عاصم بن کلیب سے انہوں نے عبدالرحمٰن بن الأسود سے: ہمیں علقمہ نے حدیث بیان کی۔ بے شک عبد اللہ (بن مسعود) نے فرمایا: ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز سکھلائی ہے۔ پس وہ کھڑے ہوئے تو تکبیر کہی اور رفع الیدین کیا۔ پھر رکوع کیا تو اپنے دونوں ہاتھوں کو تطبیق کرتے ہوئے اپنے دونوں گھٹنوں کے درمیان رکھ دیا۔
پھر سعد (بن ابی وقاص) کو یہ بات پہنچی تو انہوں نے فرمایا: میرے بھائی نے سچ کہا ہے۔ ہم اسلام کے ابتدائی دور میں اسی طرح کرتے تھے پھر ہمیں اس کا حکم دیا گیا (کہ اپنے ہاتھ اپنے گھٹنوں پر رکھیں)
امام بخاری نے کہا: محقق علماء کے نزدیک عبد اللہ بن مسعود کی حدیث میں سے یہی روایت محفوظ ہے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 57 – 58 قرة العينين برفع اليدين في الصلاة مع ترجمه اردو جزء رفع اليدين - أبو عبد الله محمد بن إسماعيل البخاري، (المتوفى: 256هـ) – مكتبه اسلامیه

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 28- 29 قرة العينين برفع اليدين في الصلاة - أبو عبد الله محمد بن إسماعيل البخاري، (المتوفى: 256هـ) - دار الأرقم للنشر والتوزيع، الكويت
اس روایت کے نقل سے کیا مقصود ہے میں سمجھا نہیں۔ سمجھا دیجیے۔
ظاہراً تو اس روایت میں عبد اللہ بن مسعود رض کے یہ الفاظ ہیں: ہمیں رسول اللہ ﷺ نے نماز سکھائی تو۔۔۔۔۔۔۔۔
اور جس روایت کے لیے اسے پیش کیا گیا ہے اس میں علقمہ کے الفاظ اور عبد اللہ بن مسعود رض کا فعل ہے۔ تو اس روایت کے محفوظ ہونے کا تعلق اس روایت سے کیسے ہو سکتا ہے؟ یہ تو دونوں الگ الگ روایات ہیں۔

709 - قُلْتُ لِأَبِي حَدِيثُ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ حَدِيثُ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ حَدَّثَنَاهُ وَكِيعٌ فِي الْجَمَاعَةِ قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ عَنْ عَلْقَمَةَ قَالَ قَالَ بن مَسْعُود أَلا أُصَلِّي بكم صَلَاة رَسُول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فَصَلَّى فَلَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ إِلَّا مَرَّةً حَدثنِي أبي قَالَ حدّثنَاهُ وَكِيع مرّة أُخْرَى بِإِسْنَادِهِ سَوَاء فَقَالَ قَالَ عبد الله أُصَلِّي بكم صَلَاة رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم فَرفع يَدَيْهِ فِي أول
710 - حَدثنِي أبي قَالَ حَدثنَا أَبُو عبد الرَّحْمَن الضَّرِير قَالَ كَانَ وَكِيع رُبمَا قَالَ يَعْنِي ثمَّ لَا يعود قَالَ أبي كَانَ وَكِيع يَقُول هَذَا من قبل نَفسه يَعْنِي ثمَّ لَا يعود
711 - قَالَ أبي وَقَالَ الْأَشْجَعِيّ فَرفع يَدَيْهِ فِي أول شَيْء
712 - وَذَكَرْتُ لأَبِي حَدِيثَ الثَّوْرِيِّ عَنْ حُصَيْنٍ عَنْ إِبْرَاهِيمَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّهُ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِي أَوَّلِ الصَّلاةِ ثُمَّ لَا يَعُودُ قَالَ أَبِي حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ قَالَ حَدَّثَنَا حُصَيْنٌ عَنْ إِبْرَاهِيمَ لَمْ يَجُزْ بِهِ إِبْرَاهِيمُ وَهُشَيْمٌ أَعْلَمُ بِحَدِيثِ حُصَيْنٍ
713 - قَالَ أبي حَدِيث عَاصِم بن كُلَيْب رَوَاهُ بن إِدْرِيس فَلم يقل ثمَّ لَا يعود
714 - حَدَّثَنِي أَبِي قَالَ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ قَالَ أَمْلَاهُ عَلَيَّ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ مِنْ كِتَابِهِ عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ قَالَ حَدَّثَنَا عَلْقَمَةُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ عَلَّمَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّلَاةَ فَكَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ ثُمَّ رَكَعَ وَطَبَّقَ يَدَيْهِ وَجَعَلَهُمَا بَيْنَ رُكْبَتَيْهِ فَبَلَغَ سَعْدًا فَقَالَ صَدَقَ أَخِي قَدْ كُنَّا نَفْعَلُ ذَلِكَ ثُمَّ أَمَرَنَا بِهَذَا وَأَخَذَ بِرُكْبَتَيْهِ حَدثنِي عَاصِم بن كُلَيْب هَكَذَا قَالَ أبي هَذَا لفظ غير لفظ وَكِيع، وَكِيع يثبج الحَدِيث لِأَنَّهُ كَانَ يحمل نَفسه فِي حفظ الحَدِيث
یہاں تو واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ دونوں روایات میں بہت فرق ہے۔ اگر امام احمد کی " غیر لفظ وکیع" سے مراد اوپر والی حدیث ہی ہے تو پھر تو دونوں روایات میں فرق نظر آ رہا ہے۔ اور اگر امام احمد کی مراد کوئی اور روایت ہے تو پھر بات ہی ختم ہو جاتی ہے۔
اشجعی کون ہیں اور ان کی روایت کون سی ہے؟
 

مفتی عبداللہ

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 21، 2011
پیغامات
531
ری ایکشن اسکور
2,183
پوائنٹ
171
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
اس امیج میں پہلی روایت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی ہے ،جو درج ذیل ہے :
امام ترمذی فرماتے ہیں :
حدثنا هناد قال: حدثنا وكيع، عن سفيان، عن عاصم بن كليب، عن عبد الرحمن بن الأسود، عن علقمة، قال: قال عبد الله بن مسعود: «ألا أصلي بكم صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فصلى، فلم يرفع يديه إلا في أول مرة»
جناب علقمہ کہتے ہیں کہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ نے کہا: ”کیا میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح نماز نہ پڑھاؤں؟
تو انہوں نے نماز پڑھائی اور صرف پہلی مرتبہ اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے ‘‘
امام ترمذی ؒ نے اس حدیث کے متعلق عبد اللہ بن مبارک کا قول نقل کیا ہے کہ یہ حدیث ثابت نہیں ،
وقال عبد الله بن المبارك: قد ثبت حديث من يرفع، وذكر حديث الزهري، عن سالم، عن أبيه، ولم يثبت حديث ابن مسعود أن النبي صلى الله عليه وسلم لم يرفع إلا في أول مرة. [ص:39] حدثنا بذلك أحمد بن عبدة الآملي قال: حدثنا وهب بن زمعة، عن سفيان بن عبد الملك، عن عبد الله بن المبارك، وحدثنا يحيى بن موسى، قال: حدثنا إسماعيل بن أبي أويس، قال: «كان مالك بن أنس يرى رفع اليدين في الصلاة». وقال يحيى: وحدثنا عبد الرزاق قال: «كان معمر يرى رفع اليدين في الصلاة» وسمعت الجارود بن معاذ يقول: «كان سفيان بن عيينة، وعمر بن هارون، [ص:40] والنضر بن شميل يرفعون أيديهم إذا افتتحوا الصلاة، وإذا ركعوا، وإذا رفعوا رءوسهم»

امام عبداللہؒ بن مبارک کہتے ہیں: جو اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے ہیں ان کی حدیث (دلیل) صحیح ہے، پھر انہوں نے بطریق زہری روایت کی ہے، ۵- اور ابن مسعود رضی الله عنہ کی حدیث ”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف پہلی مرتبہ اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے“ والی ثابت نہیں ہے،
امام ترمذی فرماتے ہیں امام مالک بن انس بھی نماز میں رفع یدین کو صحیح سمجھتے تھے،
۷- عبدالرزاق کا بیان ہے کہ معمر بھی نماز میں رفع یدین کو صحیح سمجھتے تھے،
۸- اور میں نے جارود بن معاذ کو کہتے سنا کہ ”سفیان بن عیینہ، عمر بن ہارون اور امام نضر بن شمیل اپنے ہاتھ اٹھاتے جب نماز شروع کرتے اور جب رکوع کرتے اور جب رکوع سے اپنا سر اٹھاتے“۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور امام ابوداود سنن میں اس حدیث کو نقل کرکے فرماتے ہیں :قال أبو داود: هذا حديث مختصر من حديث طويل وليس هو بصحيح على هذا اللفظ
’’ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ ایک طویل حدیث کا اختصار ہے، اور یہ حدیث اس لفظ کے ساتھ صحیح نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ ’’ علل الحدیث ‘‘ میں فرماتے ہیں :
’’ یہ حدیث سراسر خطا ہے ،اس میں امام سفیان الثوری سے وہم ہوا ہے ،
وسألتُ أَبِي عَنْ حديثٍ رَوَاهُ الثَّوْرِيُّ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيب، عن عبد الرحمن بْنِ الأسود، عَنْ عَلْقَمَة ، عَنْ عبد الله: أنَّ النبيَّ (ص) قَامَ، فكبَّر فَرَفَعَ يدَيه، ثُمَّ لَمْ يَعُدْ؟
قَالَ أَبِي: هَذَا خطأٌ؛ يُقَالُ: وَهِمَ فِيهِ الثَّوْرِيُّ، وَرَوَى هَذَا الحديثَ عَنْ عاصمٍ جماعةٌ ، فَقَالُوا كلُّهم: إنَّ النبيَّ (ص) افتتَحَ، فَرَفَعَ يدَيه، ثُمَّ رَكَعَ، فطبَّق، وجَعَلَها بَيْنَ رُكْبَتَيْهِ. وَلَمْ يقُلْ أحدٌ ما رواه الثوريُّ ‘‘( علل الحدیث لابن ابی حاتم ج۲ ص۱۲۴ )

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقیہ پر ان شاء اللہ وقت ملتے ہی کلام کرتے ہیں ؛؛
جزاک اللہ خیرا کثیرا اسحاق بھائی بارک اللہ فی علمک وعملک وزادک اللہ علما وعملا
ایک سوال ذہن میں آتا ہے کہ اما م ترمذی نے اس وہم والی ، اس خطاء ، غلط حدیث کوکیوں ذکر کیا َ؟؟
؟
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
ایک سوال ذہن میں آتا ہے کہ اما م ترمذی نے اس وہم والی ، اس خطاء ، غلط حدیث کوکیوں ذکر کیا َ؟؟؟
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
اس کے کئی اسباب ہیں ، ہوسکتے ہیں ، آپ کیلئے آسان فہم صورت عرض ہے کہ :
بخاری و مسلم کے علاوہ دیگر اصحاب السنن صحیح کے ساتھ اس باب کی ضعیف احادیث قاری کی معلومات کیلئے درج کرتے ہیں ،کہ اگر صحیح طرق سے یہ مسئلہ یوں مروی ہے ، تو ضعیف طریق سے یوں بھی مروی ہے ،اس کی ضعف والی سند نقل کرکے قاری اور طالب علم کیلئے تحقیق آسان بنادیتے ہیں ،
اور امام ترمذی کا اسلوب تو تدوین روایات میں خاص ہے کہ وہ اکثر ابواب میں احادیث نقل کرنے کے بعد یہ بھی بتاتے ہیں کہ اس باب میں دیگر فلاں فلاں صحابی سے بھی احادیث مروی ہیں ،
احکام یعنی عملی امور کی مختلف احادیث کو جمع کرکے مختلف فقہی مکاتب و اقوال کے دلائل کا تعارف کروانا بھی مقصود ہو سکتا ہے ،جیسا کہ یہاں سیدنا عبد اللہ بن مسعود کی روایت کو ذکر کرنے سے سمجھ آتا ہے ،
یعنی اثبات رفع الیدین کے قول کی دلیل ذکر کے عدم رفع کے قائلین کی دلیل بھی بتادی ،
اجمالاً یہ کہ کسی اہم موضوع پر مروی صحیح اور ضعیف تمام قابل ذکر روایات طالب علم تک پہنچانا تاکہ اسے تحقیق اور تفتیش ہر طرح کا علمی مواد میسر ہو ،
اس موضوع پر یہ تھریڈ بھی ملاحظہ فرمائیں
ضعیف احادیث کیوں جمع کی گئیں؟
 
Last edited:
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top