• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنت طریقہ نماز (مقتدی کی قراءت)

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
263
پوائنٹ
142
اللہ تعالی فرماتے ہیں:
"وَاذْكُرْ رَّبَّكَ فِىْ نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَّخِيْفَةً"
اور ذکر کر اپنے رب کا آہستہ عاجزی کے ساتھ اور ڈر کے ساتھ۔(سورة اعراف آية 205)

اور اس آیت سے پہلے چونکہ قرآن مجید سننے کا حکم ہے اس لئے یہاں بتلا دیا گیا ہے کہ آہستہ پڑھو،آہستہ پڑھنا انصات و سماع کے منافی نہیں۔

یہی وجہ ہے کہ علامہ آلوسی حنفی رح فرماتے ہیں:

"والآية عنده خطاب للمأموم المأمور بالإنصات أي اذكر ربك أيها المنصت في نفسك ولا تجهر بالذكر"
كه اس كے نزديك آيت كا خطاب مقتدي كو هے جسے انصات كا حكم هے كه اے خاموش رهنے والے! آهسته اپنے رب كو ياد كر اور بلند آواز سے ذكر نه كر۔[[ روح المعاني ج 5 ص 144 ]]

اگر پہلی آیت یعنی آیت ۲۰۴ نماز سے متعلق ہے تو دوسری آیت یعنی آیت ۲۰۵ نماز سے متعلق کیوں نہیں ہے؟

جزاک اللہ خیراً
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
اللہ تعالی فرماتے ہیں:
"وَاذْكُرْ رَّبَّكَ فِىْ نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَّخِيْفَةً"
اور ذکر کر اپنے رب کا آہستہ عاجزی کے ساتھ اور ڈر کے ساتھ۔(سورة اعراف آية 205)

اور اس آیت سے پہلے چونکہ قرآن مجید سننے کا حکم ہے
اس آیت سے پہلے نہ صرف توجہ سے سننے کا بلکہ خاموش رہنے کا بھی حکم ہے۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
اگر پہلی آیت یعنی آیت ۲۰۴ نماز سے متعلق ہے تو دوسری آیت یعنی آیت ۲۰۵ نماز سے متعلق کیوں نہیں ہے؟
کیا یہ کلیہ ہے کہ ہر آیت کے ساتھ اسی سےہی متعلق آیت ہوگی؟
 

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
263
پوائنٹ
142
اس آیت سے پہلے نہ صرف توجہ سے سننے کا بلکہ خاموش رہنے کا بھی حکم ہے۔
خاموش رہنے کا صاف مفہوم یہی ہے کہ آواز نہ نکالی جائے۔کیا آپ یہ معنی لے رہے ہیں کہ خاموش رہتے ہوئے کچھ پڑھ بھی نہیں سکتے؟ اگر ہاں تو ذرا وہ دلیل بھی عنایت کر دیں

اس کی دلیل تفسیری حدیث سے مرحمت فرمادیں۔ شکریہ
جناب اس کی دلیل خود قرآن مجید میں موجود ہے کہ توجہ سے سنو اور خاموش رہو اور اپنے رب کا ذکر آہستہ ڈر اور عاجزی کے ساتھ کرو لہذا ثابت یہی ہو رہا ہے کہ آہستہ پڑھنا انصات و سماع کے منافی نہیں

کیا یہ کلیہ ہے کہ ہر آیت کے ساتھ اسی سےہی متعلق آیت ہوگی؟
بالکل یہ کلیہ نہیں لیکن میرے علم میں جن اہل علم نے اس آیت کی تفسیر کی ہے آیت ۲۰۵ اور ۲۰۴ کو ملا کر ہی کی ہے۔ اور ثابت یہی ہوتا ہے کہ آہستہ پڑھو
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
اس آیت سے پہلے چونکہ قرآن مجید سننے کا حکم ہے اس لئے یہاں بتلا دیا گیا ہے کہ آہستہ پڑھو،آہستہ پڑھنا انصات و سماع کے منافی نہیں۔
وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآَنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ (204) وَاذْكُرْ رَبَّكَ فِي نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَخِيفَةً وَدُونَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالْآَصَالِ وَلَا تَكُنْ مِنَ الْغَافِلِينَ (205)
آیت میں”وَإِذَا قُرِئَ“متقاضی ہے کسی پڑھنے والے کا اور ”فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا“ متقاضی ہے کسی سننے والے کا۔ سننے والے کو دو حکم دیئے گئے ہیں۔ ایک توجہ سے سننے کا اور دوسرے خاموش رہنے کا۔ دوسری آیت میں ”وَاذْكُرْ رَبَّكَ“ کا حکمنہ قاری کو ہو سکتا ہے نہ سامع کو۔ کیوں؟ اس لئے کہ سامع کو توجہ سے سننے کو کہا ہے اور خاموش رہنے کو بھی۔اب یہ بعید ہے کہ اللہ تعالیٰ جس کو خاموش رہ کر توجہ سے سننے کا حکم فرما رہے ہیں اسی کو ذکر کا بھی حکم فرمائیں۔
تفسير ابن كثير - (ج 3 / ص 538)
يأمر تعالى بذكره أول النهار وآخره، كما أمر بعبادته في هذين الوقتين في قوله: { وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ الْغُرُوبِ } [ق:39] وقد كان هذا قبل أن تفرض الصلوات الخمس ليلة الإسراء
 

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
263
پوائنٹ
142
وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآَنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ (204) وَاذْكُرْ رَبَّكَ فِي نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَخِيفَةً وَدُونَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالْآَصَالِ وَلَا تَكُنْ مِنَ الْغَافِلِينَ (205)
آیت میں”وَإِذَا قُرِئَ“متقاضی ہے کسی پڑھنے والے کا اور ”فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا“ متقاضی ہے کسی سننے والے کا۔ سننے والے کو دو حکم دیئے گئے ہیں۔ ایک توجہ سے سننے کا اور دوسرے خاموش رہنے کا۔ دوسری آیت میں ”وَاذْكُرْ رَبَّكَ“ کا حکمنہ قاری کو ہو سکتا ہے نہ سامع کو۔ کیوں؟ اس لئے کہ سامع کو توجہ سے سننے کو کہا ہے اور خاموش رہنے کو بھی۔اب یہ بعید ہے کہ اللہ تعالیٰ جس کو خاموش رہ کر توجہ سے سننے کا حکم فرما رہے ہیں اسی کو ذکر کا بھی حکم فرمائیں۔
تفسير ابن كثير - (ج 3 / ص 538)
يأمر تعالى بذكره أول النهار وآخره، كما أمر بعبادته في هذين الوقتين في قوله: { وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ الْغُرُوبِ } [ق:39] وقد كان هذا قبل أن تفرض الصلوات الخمس ليلة الإسراء
امام ابن جریر رح آیت ۲۰۵ کے متعلق فرماتے ہیں:
"لا تستكبر ايها المستمع المنصت للقرا'ن عن عبادة ربك و اذكره اذا قرئ القرا'ن تضرعا و خيف و دون الجهر من القول"
اے قرآن سننے والے اور اس کے لئے خاموشی اختیار کرنے والے اپنے رب کی عبادت سے تکبر نہ کر بلکہ جب قرآن پڑھا جائے تو اس وقت اس کا ذکر عاجزی اور ڈر کر آہستہ سے کر۔(تفسیر ابن جریر ج ۹ ص ۱۶۸)

اسی طرح علامہ آلوسی رح نقل فرماتے ہیں:

"والآية عنده خطاب للمأموم المأمور بالإنصات أي اذكر ربك أيها المنصت في نفسك ولا تجهر بالذكر"
اس كے نزديك آيت كا خطاب مقتدي كو هے جسے انصات كا حكم هے كه اے خاموش رهنے والے! آهسته اپنے رب كو ياد كر اور بلند آواز سے ذكر نه كر۔[[ روح المعاني ج 5 ص 144 ]]

علامہ عبدالحی لکھنوی رح رقم طراز ہیں:

"ان هذة الاية محمولة على سامع القرا'ن كما يدل عليه اتصاله بقوله تعالي (وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآَنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ) فالمعنى اذْكُرْ رَبَّكَ فِي نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَخِيفَةً وكذا اخرجه ابن جرير وابو االشيخ عن ابن زيد"
یہ آیت قرآن سننے والے پر محمول ہے جیسا کہ اس کا اتصال وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآَنُ سے معلوم ہوتا ہے یعنی جب قرآن پڑھا جائے تو سنو اور خاموش رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔پس اس کے معنی یوں ہوں گے کہ اے خاموش رہنے والے! اپنے رب کا ذکر آہستہ ڈر اور عاجزی سے کر۔جیسا کہ ابن جریر رح اور ابو الشیخ رح نے ابن زید رح سے نقل کیا ہے۔ (سباحة الفكر ص ۵۴)

تابعین میں سے یہی قول حضرت زید رح بن اسلم کا ہے۔ (کتاب زلقراءة ص ۸۳)

امام ابن تیمیہ رح نے بھی سری نمازوں میں
اور جہری میں جب کہ وہ قراءت نہ سن رہا ہو، امام کے پیچھے فاتحہ پڑھنے پر اس آیت سے استدلال کیا ہے۔ (ملاحظہ ہو فتاوی مصریہ ج ۲ ص ۱۴۹ و مجموع الفتاوی ج ۲۳ ص ۲۸۵)

جزاک اللہ خیراً

 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
امام ابن جریر رح آیت ۲۰۵ کے متعلق فرماتے ہیں:
"لا تستكبر ايها المستمع المنصت للقرا'ن عن عبادة ربك و اذكره اذا قرئ القرا'ن تضرعا و خيف و دون الجهر من القول"
اے قرآن سننے والے اور اس کے لئے خاموشی اختیار کرنے والے اپنے رب کی عبادت سے تکبر نہ کر بلکہ جب قرآن پڑھا جائے تو اس وقت اس کا ذکر عاجزی اور ڈر کر آہستہ سے کر۔(تفسیر ابن جریر ج ۹ ص ۱۶۸)
یہ آیت 206 کی تفسیر ہے نہ کہ 204 یا 205 کی جب کہ بات آیت نمبر 204 کے حوالہ سےہے۔
لہٰذا یہ دلیل صحیح نہیں۔
آیت 204 کی تفسیر ابنِ جریر میں یوں ہے؛
القول في تأويل قوله : { وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ (204) }
قال أبو جعفر: يقول تعالى ذكره للمؤمنين به، المصدقين بكتابه، الذين القرآنُ لهم هدى ورحمة:(إذا قرئ)، عليكم، أيها المؤمنون،(القرآن فاستمعوا له)، يقول: أصغوا له سمعكم، لتتفهموا آياته، وتعتبروا بمواعظه
(وأنصتوا)، إليه لتعقلوه وتتدبروه، ولا تلغوا فيه فلا تعقلوه (لعلكم ترحمون)، يقول: ليرحمكم ربكم باتعاظكم بمواعظه، واعتباركم بعبره، واستعمالكم ما بينه لكم ربكم من فرائضه في آيه.
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
اسی طرح علامہ آلوسی رح نقل فرماتے ہیں:
"والآية عنده خطاب للمأموم المأمور بالإنصات أي اذكر ربك أيها المنصت في نفسك ولا تجهر بالذكر"
اس كے نزديك آيت كا خطاب مقتدي كو هے جسے انصات كا حكم هے كه اے خاموش رهنے والے! آهسته اپنے رب كو ياد كر اور بلند آواز سے ذكر نه كر۔[[ روح المعاني ج 5 ص 144 ]]

علامہ عبدالحی لکھنوی رح رقم طراز ہیں:

"ان هذة الاية محمولة على سامع القرا'ن كما يدل عليه اتصاله بقوله تعالي (وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآَنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ) فالمعنى اذْكُرْ رَبَّكَ فِي نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَخِيفَةً وكذا اخرجه ابن جرير وابو االشيخ عن ابن زيد"
یہ آیت قرآن سننے والے پر محمول ہے جیسا کہ اس کا اتصال وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآَنُ سے معلوم ہوتا ہے یعنی جب قرآن پڑھا جائے تو سنو اور خاموش رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔پس اس کے معنی یوں ہوں گے کہ اے خاموش رہنے والے! اپنے رب کا ذکر آہستہ ڈر اور عاجزی سے کر۔جیسا کہ ابن جریر رح اور ابو الشیخ رح نے ابن زید رح سے نقل کیا ہے۔ (سباحة الفكر ص ۵۴)

تابعین میں سے یہی قول حضرت زید رح بن اسلم کا ہے۔ (کتاب زلقراءة ص ۸۳)
مذکورہ بیانات تفسیر ابنِ کثیر میں مذکور صحابہ کرام یعنی ابنِ مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ (جن کے بارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ قرآن ان سے سیکھو) اور ابوہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فرامین سے متصادم ہیں لہٰذا یہ کوئی اہمیت نہیں رکھتے (اور غیر مقلدین، اہلحدیث یا سلفی وغیرہ کے منہج کے بھی خلاف ہیں)۔
حدثنا أبو كريب، حدثنا المحاربي، عن داود بن أبي هند، عن بشير بن جابر قال: صلى ابن مسعود، فسمع ناسًا يقرءون مع الإمام، فلما انصرف قال: أما آن لكم أن تفهموا؟ أما آن لكم أن تعقلوا؟ { وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا } كما أمركم الله
وقد روى الإمام أحمد وأهل السنن، من حديث الزهري، عن أبي أُكَيْمضة الليثي، عن أبي هريرة؛ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم انصرف من صلاة جهر فيها بالقراءة، فقال:
"هل قرأ أحد منكم معي آنفا؟" قال رجل: نعم يا رسول الله. قال إني أقول: ما لي أنازع القرآن؟" قال: فانتهى الناس عن القراءة مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فيما جهر فيه رسول الله صلى الله عليه وسلم بالقراءة من الصلوات حين سمعوا ذلك من رسول الله صلى الله عليه وسلم
وقال الترمذي: "هذا حديث حسن". وصححه أبو حاتم الرازي.
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
{ وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا } سورۃ الاعراف آیت204
تفسير الطبري - (ج 13 / ص 346)
15583 - حدثني أبو السائب قال: حدثنا حفص، عن أشعث، عن الزهري قال: نزلت هذه الآية في فتى من الأنصار، كان رسول الله صلى الله عليه وسلم كلما قرأ شيئًا قرأه، فنزلت:( وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا).
15584 - حدثنا أبو كريب قال: حدثنا المحاربي، عن داود بن أبي هند، عن بشير بن جابر قال: صلى ابن مسعود، فسمع ناسًا يقرأون مع الإمام، فلما انصرف قال: أما آن لكم أن تفقهوا! أما آن لكم أن تعقلوا؟(وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا)، كما أمركم الله.

تفسير ابن كثير - (ج 3 / ص 536)
لما ذكر تعالى أن القرآن بصائر للناس وهدى ورحمة، أمر تعالى بالإنصات عند تلاوته إعظامًا له واحترامًا، لا كما كان يعتمده كفار قريش المشركون في قولهم: { لا تَسْمَعُوا لِهَذَا الْقُرْآنِ وَالْغَوْا فِيهِ [ لَعَلَّكُمْ تَغْلِبُونَ ]} [فصلت:26] ولكن يتأكد ذلك في الصلاة المكتوبة إذا جهر الإمام بالقراءة كما ورد الحديث الذي رواه مسلم في صحيحه، من حديث أبي موسى الأشعري، رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "إنما جعل الإمام ليؤتم به، فإذا كبر فكبروا، وإذا قرأ فأنصتوا" وكذلك رواه أهل السنن من حديث أبي هريرة وصححه مسلم بن الحجاج أيضا، ولم يخرجه في كتابه
صلى ابن مسعود، فسمع ناسًا يقرءون مع الإمام، فلما انصرف قال: أما آن لكم أن تفهموا؟ أما آن لكم أن تعقلوا؟ { وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا } كما أمركم الله
وقد روى الإمام أحمد وأهل السنن، من حديث الزهري، عن أبي أُكَيْمضة الليثي، عن أبي هريرة؛ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم انصرف من صلاة جهر فيها بالقراءة، فقال: "هل قرأ أحد منكم معي آنفا؟" قال رجل: نعم يا رسول الله. قال إني أقول: ما لي أنازع القرآن؟" قال: فانتهى الناس عن القراءة مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فيما جهر فيه رسول الله صلى الله عليه وسلم بالقراءة من الصلوات حين سمعوا ذلك من رسول الله صلى الله عليه وسلم (وقال الترمذي: "هذا حديث حسن". وصححه أبو حاتم الرازي.)۔

تفسير الألوسي - (ج 6 / ص 494)
{ وَإِذَا قُرِىء القرءان فاستمعوا لَهُ وَأَنصِتُواْ } إرشاد إلى طريق الفوز بما أشير إليه من المنافع الجليلة التي ينطوي عليها القرآن ، والاستماع معروف؛ واللام يجوز أن تكون أجلية وأن تكون بمعنى إلى وأن تكون صلة ، أي فاستمعوه ، والإنصات السكوت يقال : نصت ينصت وأنصت وانتصت إذا سكت والاسم النصتة بالضم ، ويقال كما قال الأزهري : أنصته وأنصت له إذا سكت له واستمع لحديثه ، وجاء أنصته إذا أسكته ، والعطف للاهتمام بأمر القرآن ، وعلل الأمر بقوله سبحانه وتعالى : { لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ } أي لكي تفوزوا بالرحمة التي هي أقصى ثمراته ، والآية دليل لأبي حنيفة رضي الله تعالى عنه في أن المأموم لا يقرأ في سرية ولا جهرية لأنها تقتضي وجوب الاستماع عند قراءة القرآن في الصلاة وغيرها؛ وقد قام الدليل في غيرها على جواز الاستماع وتركه فبقي فيها على حاله في الإنصات للجهر وكذا في الإخفاء لعلمنا بأنه قرأ
 
Top