• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابن ماجه

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
43- بَاب بَيْعَةِ النِّسَاء
۴۳- باب: عورتوں کی بیعت کا بیان ۱؎​
وضاحت ۱؎ : جس کا ذکر قرآن میں ہے : { إِذَا جَائكَ الْمُؤْمِنَاتُ يُبَايِعْنَكَ } [سورة الممتحنة : 12] ۔


2874- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ؛ أَنَّهُ سَمِعَ مُحَمَّدَ بْنَ الْمُنْكَدِرِ قَالَ: سَمِعْتُ أُمَيْمَةَ بِنْتَ رُقَيْقَةَ تَقُولُ: جِئْتُ النَّبِيَّ ﷺ فِي نِسْوَةٍ نُبَايِعُهُ، فَقَالَ لَنَا : " فِيمَا اسْتَطَعْتُنَّ وَأَطَقْتُنَّ، إِنِّي لا أُصَافِحُ النِّسَاءَ "۔
* تخريج: ت/السیر ۳۷ (۱۰۹۷)، ن/البیعۃ ۱۸( ۴۱۸۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۷۸۱)، وقد أخرجہ: ط/البیعۃ ۱ (۲) حم (۵/۳۲۳، ۶/۳۵۷) (صحیح)
۲۸۷۴- امیمہ بنت رقیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں کچھ عورتوں کے ہمراہ نبی اکرمﷺ کے پاس بیعت کر نے آئی، تو آپ نے ہم سے فرمایا: (امام کی بات سنواور مانو)'' جہاں تک تمہارے اندرطاقت وقوت ہو، میں عورتوں سے ہاتھ نہیں ملاتا '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : جب نبی معصوم ﷺ نے غیر عورتوں سے ہاتھ نہیں ملایا تو پیروں اور مرشدوں کے لیے کیونکر جائزہوگا کہ وہ غیر عورتوں سے ہاتھ ملائیں یا محرم کی طرح بے حجاب ہوکر ان سے خلوت کریں، اور جوکوئی پیر اس زمانہ میں ایسی حرکت کرتا ہے، تو یقین جان لیں کہ وہ شیطان کا مرید ہے ۔


2875- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ الْمِصْرِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي يُونُسُ عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ أَنَّ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ ﷺ قَالَتْ: كَانَتِ الْمُؤْمِنَاتُ إِذَا هَاجَرْنَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ يُمْتَحَنَّ بِقَوْلِ اللَّهِ: { يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا جَاءَكَ الْمُؤْمِنَاتُ يُبَايِعْنَكَ} إِلَى آخِرِ الآيَةِ: قَالَتْ عَائِشَةُ: فَمَنْ أَقَرَّ بِهَا مِنَ الْمُؤْمِنَاتِ، فَقَدْ أَقَرَّ بِالْمِحْنَةِ، فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: إِذَا أَقْرَرْنَ بِذَلِكَ مِنْ قَوْلِهِنَّ، قَالَ لَهُنَّ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ " انْطَلِقْنَ، فَقَدْ بَايَعْتُكُنَّ " لا، وَاللَّهِ ! مَا مَسَّتْ يَدُ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ يَدَ امْرَأَةٍ قَطُّ، غَيْرَ أَنَّهُ يُبَايِعُهُنَّ بِالْكَلامِ، قَالَتْ عَائِشَةُ: وَاللَّهِ! مَا أَخَذَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عَلَى النِّسَاءِ إِلا مَا أَمَرَهُ اللَّهُ، وَلا مَسَّتْ كَفُّ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ كَفَّ امْرَأَةٍ قَطُّ، وَكَانَ يَقُولُ لَهُنَّ، إِذَا أَخَذَ عَلَيْهِنَّ: " قَدْ بَايَعْتُكُنَّ " كَلامًا۔
* تخريج: خ/الطلاق ۲۰ (۵۲۸۸ تعلیقاً)، م/الإمارۃ ۲۱ (۱۸۶۶)، ت/تفسیرالقرآن ۶۰(۲) (۳۳۰۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۶۹۷) (صحیح)
۲۸۷۵- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ مومن عورتیں نبی اکرمﷺ کے پاس ہجرت کر کے آتیں تو اللہ تعا لی کے فرمان : {يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا جَائكَ الْمُؤْمِنَاتُ يُبَايِعْنَكَ عَلَى أَن لا يُشْرِكْنَ بِاللَّهِ شَيْئًا وَلا يَسْرِقْنَ وَلا يَزْنِينَ وَلا يَقْتُلْنَ أَوْلادَهُنَّ وَلا يَأْتِينَ بِبُهْتَانٍ يَفْتَرِينَهُ بَيْنَ أَيْدِيهِنَّ وَأَرْجُلِهِنَّ وَلا يَعْصِينَكَ فِي مَعْرُوفٍ فَبَايِعْهُنَّ وَاسْتَغْفِرْ لَهُنَّ اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ}[سورة الممتحنة : 12] اے نبی! جب مسلمان عورتیںآپ سے ان باتوں پر بیعت کرنے آئیں کہ اللہ تعالی کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں گی چوری نہ کریں گی، زنا کاری نہ کریں گی ، اپنی اولاد کو نہ مار ڈالیں گی ، اور کوئی ایسا بہتان نہ باندھ ھیں گی، جو خود اپنے ہاتھوں پیروں کے سامنے گھڑلیں اور کسی نیک کام میں تیری بے حکمی نہ کریں گی، تو آپ ان سے بیعت کرلیا کریں اور ان کے لئے اللہ تعالی سے مغفرت طلب کریں بیشک اللہ تعالی بخشنے اور معاف کرنے والا ہے) کی رو سے ان کا امتحان لیا جا تا،عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ مومن عورتوں میں سے جو اس آیت کے مطابق اقرار کرتی وہ امتحان میں پوری اتر جا تی، عورتیں اپنی زبان سے جب اس کا اقرار کر لیتیں تو رسول اللہﷺ فرماتے :''جا ئو میں نے تم سے بیعت لے لی ہے'' اللہ کی قسم، رسول اللہﷺ کا ہاتھ ہرگزکسی عورت کے ہاتھ سے کبھی نہیں لگا ، جب آپ ﷺ ان عورتوں سے بیعت لیتے تو صرف زبان سے اتنا کہتے : '' میں نے تم سے بیعت لے لی'' عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: اللہ کی قسم رسول اللہ ﷺ نے عورتوں سے صرف وہی عہد لیا جس کا حکم آپ کو اللہ تعالی نے دیا تھا، رسول اللہ ﷺ کی مبارک ہتھیلی نے کبھی کسی (نامحرم) عورت کی ہتھیلی کو مس نہ کیا ، آپ ان سے عہد لیتے وقت یہ فرماتے: '' میں نے تم سے بیعت لے لی'' صرف زبانی یہ کہتے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
44- بَاب السَّبَقِ وَالرِّهَانِ
۴۴- باب: گھوڑدوڑ میں مقابلہ کا بیان ۱؎​
وضاحت ۱؎ : گھوڑ دوڑ میں اگر روپیہ کی شرط ایک طرف سے ہو اور یہ روپیہ دوسرے لوگ دینا قبول کریں یعنی تماش بیں لوگ یا دوڑانے والوں میں سے ایک شخص تو یہ جائز ہے اور اگر دونوں طرف سے روپیہ کی شرط ہو تو ایک تیسرے شخص یعنی محلل کا ہونا ضرور ی ہے ،پھر اگر یہ تیسرا شخص محلل آگے بڑھ جائے تو دونوں سے شرط کا روپیہ لے لے گا ،اور جو ہار جائے تو اس پر کچھ نہ ہوگا، اور محلل کے ہونے کی وجہ سے یہ جوا نہیں کہلا ئے گا کیونکہ جو ا وہ ہوتا ہے جس میں آدمی کو نفع اور نقصان میں شک اورتردد ہو اور محلل کی وجہ سے یہ شک اورتردد جاتا رہتا ہے، پھر اگر محلل آگے نکل گیا ، اس کے بعد دونوں شرط والے ایک ساتھ آئے یا آگے پیچھے تو آگے والا (یعنی محلل ) مال لے لے گا،اور اگر محلل اور دونوں شرط والوں میں سے ایک مل کر آئے پھر دوسرا شخص شرط والوں میں سے آیا تو دونوں میں سے جو آگے آئے مال لے لے ، مولانا وحیدالزمان فرماتے ہیں: گھوڑ دوڑ کاعمدہ طریقہ یہ ہے کہ امام یا حاکم کی طرف سے یا تماشا دیکھنے والوں کی طرف سے اس کے لیے انعام کی شرط لگائی جائے جو آگے بڑھ جائے ، پھر جو کوئی آگے رہے وہ انعام کا روپیہ لے اگر تین یا چار گھوڑے ایک ساتھ دوڑیں اور ان میں سے سب برابر آئیں تو انعام کا روپیہ ان سب میں تقسیم کیا جائے یا دوبارہ دوڑائیں جیسے شرط ہوئی ہو، اور جو ان میں سے دو برابر آئیں باقی پیچھے رہ جائیں تو وہ دونوں انعام کا روپیہ بانٹ لیں ۔


2876- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَمُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، قَالا: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَنْبَأَنَا سُفْيَانُ بْنُ حُسَيْنٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ،عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " مَنْ أَدْخَلَ فَرَسًا بَيْنَ فَرَسَيْنِ، وَهُوَ لا يَأْمَنُ أَنْ يَسْبِقَ، فَلَيْسَ بِقِمَارٍ، وَمَنْ أَدْخَلَ فَرَسًا بَيْنَ فَرَسَيْنِ وَهُوَ يَأْمَنُ أَنْ يَسْبِقَ فَهُوَ قِمَارٌ "۔
* تخريج: د/الجہاد ۴۹ (۲۵۷۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۱۲۱)، وقد أخرجہ: حم (۲/۵۰۵) (ضعیف)
(سفیان بن حسین کی زہری سے روایت میں ضعف ہے، نیز ملاحظہ ہو : الإروا ء : ۱۵۰۹)
۲۸۷۶- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : '' جس شخص نے دو گھوڑوں کے مابین ایک گھوڑا داخل کیا،اور اسے جیتنے کا یقین نہیں تو یہ جو ا نہیں ہے، لیکن جس شخص نے دو گھوڑوں کے مابین ایک گھوڑا داخل کیا ،اور اسے جیتنے کا یقین ہے تو یہ جواہے ''۔


2877- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ،عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: ضَمَّرَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ الْخَيْلَ، فَكَانَ يُرْسِلُ الَّتِي ضُمِّرَتْ، مِنَ الْحَفْيَاءِ إِلَى ثَنِيَّةِ الْوَدَاعِ، وَالَّتِي لَمْ تُضَمَّرْ، مِنْ ثَنِيَّةِ الْوَدَاعِ إِلَى مَسْجِدِ بَنِي زُرَيْقٍ۔
* تخريج: م/الإمارۃ ۲۵ (۱۸۷۰)، (تحفۃ الأشراف: ۷۹۵۶)، وقد أخرجہ: خ/الصلاۃ ۴۱ (۱۲۰)، الجہاد ۵۶ (۲۸۶۸)، ۵۷ (۲۸۶۹)، ۵۸ (۲۸۷۰)، الاعتصام ۱۶ (۷۳۳۶)، د/الجہاد ۶۷ (۲۵۷۵)، ت/الجہاد ۲۲ (۱۶۹۹)، ن/الخیل ۱۲ (۳۶۱۴)، ط/ الجہاد ۱۹(۴۵ )، حم (۲/۵، ۵۵، ۵۶)، دي/الجہاد ۳۶ (۲۴۷۳) (صحیح)
۲۸۷۷- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے گھوڑوں کوپھرتیلا بنایا ،آپ پھر تیلے چھریرے بدن والے گھوڑوں کو مقام حفیا ء سے ثنیۃ الوداع تک اور غیر پھرتیلے گھوڑوں کو ثنیۃ الوداع سے مسجد بنی زریق تک دوڑاتے تھے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : تضمیر (پھرتیلا بنانا ) یہ ہے کہ گھوڑے کو پہلے خوب کھلایا جائے یہاں تک کہ موٹا ہو جائے ، پھر اس کا چار ہ آہستہ آہستہ کم کردیاجائے، اور اسے ایک کو ٹھری میں بند کر کے اس پر جھول ڈال دی جائے تاکہ گرم ہو اور اسے خوب پسینہ آجائے ، ایسا کرنے سے گھوڑا سبک اور تیز رفتار ہو جاتا ہے ۔


2878- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي الْحَكَمِ مَوْلَى بَنِي لَيْثٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ "لاسَبْقَ إِلا فِي خُفٍّ أَوْ حَافِرٍ "۔
* تخريج: ن/الخیل ۱۳ (۳۶۱۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۸۷۷)، وقد أخرجہ: د/الجہاد ۶۷ (۲۵۷۴)، ت/الجہاد ۲۲ (۱۷۰۰)، حم (۲/۲۵۶، ۳۵۸، ۴۲۵، ۴۷۴) (صحیح)
۲۸۷۸- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: '' مسابقت (آگے بڑھنے )کی شرط گھوڑے اور اونٹ کے علاوہ کسی میں جا ئز نہیں'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ترمذی اورابوداود کی روایت میں'' أو نصل ''(یا تیرمیں) زیادہ ہے ،مطلب یہ ہے کہ ان تینوں میں آگے بڑھنے کی شرط لگانا اور جیتنے پر مال لینا جائز ہے ، تیر میں یہ شرط ہے کہ کس کا دور جاتا ہے، علامہ طیبی کہتے ہیں کہ گدھے اورخچر بھی گھوڑے کی طرح ہیں، ان میں بھی شرط درست ہوگی،لیکن حدیث میں یہ تین چیزیں مذکورہیں: نصل یعنی تیر، خف یعنی اونٹ، حافریعنی گھوڑا ،ایک شخص نے حدیث میں اپنی طرف سے یہ بڑھادیا ''أو جناح'' یعنی پرند ہ اڑانے میں شرط لگانا درست ہے جیسے کبوتر باز کیا کرتے ہیں اور یہ لفظ اس وقت روایت کیا جب ایک عباسی خلیفہ کبوتر بازی کررہا تھا ، یہ شخص خلیفہ کے پاس گیا اور اس کا دل خوش کرنے اور کبوتر بازی کو جائز کرنے کی خاطر حدیث میں یہ لفظ اپنی طرف سے بڑھادیا اور اللہ کا خوف بالکل نہ کیا ، اللہ تعالیٰ ائمہ حدیث کو جزائے خیر دے اگر وہ محنت کرکے صحیح حدیثوں کو جھوٹی اور ضعیف حدیثوں سے الگ نہ کرتے تو دین برباد ہوجاتا، حدیث سے یہ اہتمام اس امت سے خاص ہے، اگلی امتوں والے کتاب الہی کی بھی اچھی طرح حفاظت نہ کرسکے حدیث کا کیا ذکر { ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَاء وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ} [ سورة الجمعة : 4] .
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
45- بَاب النَّهْيِ أَنْ يُسَافَرَ بِالْقُرْآنِ إِلَى أَرْضِ الْعَدُوِّ
۴۵- باب: دشمن کے ملک میں قرآن لے کر جانے کی ممانعت​


2879- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سِنَانٍ وَأَبُو عُمَرَ، قَالا: حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ نَهَى أَنْ يُسَافَرَ بِالْقُرْآنِ إِلَى أَرْضِ الْعَدُوِّ، مَخَافَةَ أَنْ يَنَالَهُ الْعَدُوُّ۔
* تخريج: خ/الجہاد ۱۲۹ (۲۹۹۰)، م/الإمارۃ ۲۴ (۱۸۶۹)، د/الجہاد ۸۸ (۲۶۱۰)، (تحفۃ الأشراف: ۸۳۴۷)، وقد أخرجہ: ط/الجہاد ۲ (۷)، حم (۲/۶، ۷، ۱۰، ۵۵، ۶۳، ۷۶، ۱۲۸) (صحیح)
۲۸۷۹- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسو ل اللہﷺ نے دشمن کی سر زمین میں قرآن لے کر جانے کی ممانعت اس خطرے کے پیش نظر فرما ئی کہ کہیں اسے دشمن پا نہ لیں ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اور اس کو ضائع کردیں یا اس کی اہانت اوربے حرمتی کریں ، ممکن ہے کہ یہ ممانعت نبی کریم ﷺ کے عہد سے خاص ہو جب مصحف کے نسخے بہت کم تھے، اور اکثر ایسا تھا کہ مصحف کی بعض آیتیں یا بعض سورتیں خاص خاص لوگوں کے پاس تھیں اور پورا مصحف کسی کے پاس نہ تھا تو آپ ﷺ کو یہ ڈر ہوا کہ کہیں یہ مصحف تلف ہوجائیں اور قرآن کا کوئی جزء مسلمانوں سے بالکل اٹھ جائے ، لیکن اس زمانہ میں جب قرآن مجید کے لاکھوں نسخے چھپے موجود ہیں اور قرآن کے ہزاروں بلکہ لاکھوں حفاظ موجودہیں ، یہ اندیشہ بالکل نہیں رہا ، جب کہ قرآن کریم کی اہانت اوربے حرمتی کا اندیشہ اب بھی باقی ہے ، سبحان اللہ، اگلی امتوں میں سے کسی بھی امت میں ایک شخص بھی ایسا نہیں ملتا تھا جو پوری تورات یاانجیل کا حافظ ہو، اب مسلمانوں میں ہر بستی میں سینکڑوں حافظ موجود ہیں ، یہ فضیلت بھی اللہ تعالی نے اسی امت کو دی ہے ۔


2880- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ، أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ؛ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ أَنَّهُ كَانَ يَنْهَى أَنْ يُسَافَرَ بِالْقُرْآنِ إِلَى أَرْضِ الْعَدُوِّ، مَخَافَةَ أَنْ يَنَالَهُ الْعَدُوُّ۔
* تخريج: م/الإمارۃ ۲۴ (۱۸۶۹)، (تحفۃ الأشراف: ۸۲۸۶) (صحیح)
۲۸۸۰- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ دشمن کی سر زمین میں قرآن لے کر جانے سے منع فرماتے تھے، کیونکہ یہ خطرہ ہے کہ کہیں دشمن اسے پا نہ لیں ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی اس کی بے حرمتی کر بیٹھیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
46- بَاب قِسْمَةِ الْخُمُسِ
۴۶- باب: ( مال غنیمت میں سے ) خمس کی تقسیم کا بیان​
وضاحت ۱؎ : جنگ میں دشمنوں سے جو مال غنیمت مسلمانوں کے ہاتھ آئے اس کے پانچ حصے کئے جائیں گے ، چار حصے تو مجاہدین میں تقسیم کردیئے جائیں گے اور ایک حصہ امام اپنے پاس رکھے گا ، اس میں پھر پانچ حصے ہوں گے ، ایک حصہ تو بنو ہاشم اور سادات کا ہے اور ایک حصہ یتیموں کا اور ایک مسکینوں کا اور باقی مسلمانوں کے مفید کاموں میں صرف ہوں گے، جیسے لشکر کی تیاری ، پلوں کی تعمیر، سڑکوں کی مرمت وغیرہ وغیرہ اور قرآن مجید میں خمس کی تقسیم یوں مذکور ہے: {وَاعْلَمُواْ أَنَّمَا غَنِمْتُم مِّن شَيْئٍ فَأَنَّ لِلّهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ } [سورة الأنفال:41] (اور جان لو کہ تم کو جو کچھ بھی مال غنیمت میں ملے اس کا پانچواں حصہ اللہ کے لئے ، رسول کے لئے ،رشتے ناتے والوں کے لئے ، یتیموں کے لئے ، مسکینوں کے لئے ، اورمسافروں کے لیے) یہ پانچ قسمیں ہوئیں ،اس وجہ سے خمس کے پھر پانچ حصے ہوں گے، لیکن اللہ اوررسول کا حصہ اب نہیں رہا ،ذوی القربی یعنی ناتے والے سے بنی ہاشم اور بنی مطلب مراد ہیں جن پر زکاۃ حرام کردی گئی ہے ، لیکن مال غنیمت کے وہ حقدار ہیں، اور اگروہ موجود ہوں تو آج بھی اس شعبہ سے استفادے کے حقدار ہیں، رہ گئے یتیم،مسکین اورمسافر تو وہ موجود ہیں ان میں مال غنیمت کاخمس تقسیم ہوگا، یعنی اس کے تین حصے دار تو موجود ہیں اور دو حصے جو بچیں وہ بھی انہی لوگوں میں تقسیم کئے جائیں یا مسلمانوں کے عام مفید کاموں میں صرف ہوں جیسے سامان جہاد خریدنے اور تیاری میں ، اب خود امام یعنی حاکم اسلام کا حصہ تو وہ ہمارے دین میں ایک سپاہی یعنی لشکری کے برابر ہے صرف امام کو اتنا اختیار ہے کہ غنیمت کا مال بانٹنے سے پہلے کوئی ایک چیز جو اس کو پسند آئے اٹھا لے سکتا ہے جیسے کوئی غلام یا لونڈی یا گھوڑا یا ہتھیار،اصطلاح میں اس کو صفی کہتے ہیں ، اس کے علاوہ امام کو دوسروں پر کوئی فضیلت نہیں ہے ،نہ مال غنیمت میں اس کو زیادہ تصرف کرنے کا اختیار ہے، صرف ایک سپاہی کی طرح وہ بھی تنخواہ لے ، البتہ امام کی جو ذاتی جائداد یا تجارت ہو اس کے کچھ غرض نہیں ، لیکن ملک کی آمدنی میں سے امام کا حصہ ادنی سپاہی سے زیادہ نہیں ہے ، اب دیکھنا چاہئے کہ اسلام سے بڑھ کر دنیا کے کسی اور دین میں زیادہ عدل وانصاف ہے ،یا اسلام سے بڑھ کر کسی اور دین میں بے تکلفی اور سادہ پن ہے، کیا کوئی جمہوریت جو آج کل مہذب نصاری نے قائم کی ہے اس طرز حکومت سے بہتر ہوسکتی ہے کہ امام اور بادشاہ بھی کسی ایک آدمی کے برابر حصہ پائے، اور ملک کی آمدنی میں سارے مسلمان برابر شریک ہوں ، جب اس قاعدے پر عمل ہوتا ہے تو درحقیقت ملک کا ہر ایک شخص بادشاہ ہوتا ہے، اور ہر ایک شخص کو اپنا ملک بچانے کی ایسی ہی فکر ہوتی ہے جیسے خود بادشاہ یا امام کو ، اسی وجہ سے مسلمانوں کی حکومت میں جو شرع کے قواعد پر ہو، درحقیقت ملازم فوجیوں کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ ہر مسلمان ایک سپاہی ، فوجی اور عسکری ہوتا ہے ۔


2881- حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ عَبْدِ الأَعْلَى، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ بْنُ سُوَيْدٍ عَنْ يُونُسَ بْنِ يَزِيدَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ؛ أَنَّ جُبَيْرَ بْنَ مُطْعِمٍ أَخْبَرَهُ أَنَّهُ جَاءَ هُوَ وَعُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ يُكَلِّمَانِهِ فِيمَا قَسَمَ مِنْ خُمُسِ خَيْبَرَ لِبَنِي هَاشِمٍ وَبَنِي الْمُطَّلِبِ، فَقَالا: قَسَمْتَ لإِخْوَانِنَا بَنِي هَاشِمٍ وَبَنِي الْمُطَّلِبِ، وَقَرَابَتُنَا وَاحِدَةٌ؛ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " إِنَّمَا أَرَى بَنِي هَاشِمٍ وَبَنِي الْمُطَّلِبِ شَيْئًا وَاحِدًا "۔
* تخريج: خ/الخمس ۱۷ (۳۱۴۰)، المناقب ۲ (۳۵۰۲)، المغازي ۳۹ (۴۲۲۹)، د/الخراج ۲۰ ۲۹۷۸، ۲۹۸۹)، ن/قسم الفئی ۱ (۴۱۴۱)، (تحفۃ الأشراف: ۳۱۸۵)، وقد أخرجہ: حم (۴/۸۱، ۸۳، ۸۵) (صحیح)
۲۸۸۱- جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ وہ اور عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے، اور خیبر کے خمس مال میں سے جو حصہ آپ نے بنی ہاشم اور بنی مطلب کو دیا تھا اس کے بارے میں گفتگو کرنے لگے، چنا نچہ انہوں نے کہا : آپ نے ہمارے بھا ئی بنی ہاشم اور بنی مطلب کو تو دے دیا، جب کہ ہما ری اور بنی مطلب کی قرابت بنی ہاشم سے یکساں ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''میں بنی ہاشم اور بنی مطلب کو ایک ہی سمجھتا ہوں '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : عبد مناف کے چار بیٹے تھے: ہاشم، مطلب ، نوفل اور عبد شمس ، جبیر نوفل کی اولاد میں سے تھے اور عثمان عبد شمس کی اولاد میں سے ، تو نبی کریم ﷺ نے ذوی القربی کا حصہ ہاشم اور مطلب کو دیا، اس وقت ان دونوں نے اعتراض کیا کہ بنی ہاشم کی فضیلت کا تو ہمیں انکار نہیں کیونکہ آپ ﷺ بنی ہاشم کی اولاد میں سے ہیں ، لیکن بنی مطلب کو ہمارے اوپر ترجیح کی کوئی وجہ نہیں ، ہماری اور ان کی قرابت آپ ﷺ سے یکساں ہے ، آپ ﷺ نے فرمایا: سچ یہی ہے لیکن بنی مطلب ہمیشہ یہاں تک کہ جاہلیت کے زمانہ میں بھی بنی ہاشم کے ساتھ رہے تو وہ اور بنی ہاشم ایک ہی ہیں، برخلاف بنی امیہ کے یعنی عبدشمس کی اولاد کے کیونکہ امیہ عبد شمس کا بیٹا تھا جس کی اولاد میں عثمان اور معاویہ اور تمام بنی امیہ تھے کہ ان میں اور بنی ہاشم میں کبھی اتفاق نہیں رہا، اور جب قریش نے قسم کھائی تھی کہ بنی ہاشم اور بنی مطلب سے نہ شادی بیاہ کریں گے ، نہ میل جول رکھیں گے جب تک وہ نبی کریم ﷺ کو ہمارے حوالہ نہ کردیں ، اس وقت بھی بنی مطلب اور بنی ہاشم ساتھ ہی رہے، پس اس لحاظ سے آپ ﷺ نے ذوی القربی کا حصہ دونوں کو دلایا ۔


* * *​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207

{ 25- كِتَاب الْمَنَاسِكِ }
۲۵-کتاب: حج و عمرہ کے احکام ومسائل


1- بَاب الْخُرُوجِ إِلَى الْحَجِّ
۱- باب: حج کے لیے نکلنے کا بیان​


2882- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ وَأَبُو مُصْعَبٍ الزُّهْرِيُّ وَسُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ؛ قَالُوا: حَدَّثَنَا مَالِكُ ابْنُ أَنَسٍ عَنْ سُمَيٍّ مَوْلَى أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ السَّمَّانِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: " السَّفَرُ قِطْعَةٌ مِنَ الْعَذَابِ، يَمْنَعُ أَحَدَكُمْ نَوْمَهُ وَطَعَامَهُ وَشَرَابَهُ، فَإِذَا قَضَى أَحَدُكُمْ نَهْمَتَهُ مِنْ سَفَرِهِ، فَلْيُعَجِّلِ الرُّجُوعَ إِلَى أَهْلِهِ ".
* تخريج: خ/العمرۃ ۱۹ (۱۸۰۴)، الجہاد ۱۳۶ (۳۰۰۱)، الأطعمۃ ۳۰ (۵۴۲۹)، م/الإمارۃ ۵۵ (۱۹۲۷)، (تحفۃ الأشراف:۱۲۵۷۲)، وقد أخرجہ: ط/الاستئذان ۱۵(۳۹)، حم (۲/۲۳۶، ۴۴۵)، دي/الاستئذان ۴۰ (۲۷۱۲) (صحیح)
۲۸۸۲- ابو ہر یرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:''سفر عذاب کا ایک ٹکڑا ہے، وہ تمہارے سونے،اور کھانے پینے ( کی سہولتوں )میں رکاوٹ بنتا ہے، لہٰذا تم میں سے کوئی جب اپنے سفر کی ضرورت پوری کرلے، تو جلد سے جلد اپنے گھر لوٹ آئے''۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بلا ضرورت سفر میں رہنا اور تکلیفیں اٹھانا صحیح نہیں ہے ، یہ بھی معلوم ہو اکہ سفر گرچہ حج یاجہاد کے لیے ہو تب بھی کام پورا ہونے کے بعد جلدی گھر لوٹنا بہتر ہے ، اس میں خود اس شخص کو بھی آرام ہے اور اس کے گھر والوں کو بھی جو جدائی سے پریشان رہتے ہیں، اور مدت دراز تک شوہر کا اپنی بیوی سے علاحدہ رہنا بھی مناسب نہیں ہے ، حاجت بشری اور خواہش انسانی ساتھ لگی ہوئی ہے مبادا گناہ میں گرفتاری ہو ، اللہ بچائے ۔
2882/أ- حدثنا يَعْقُوبُ بْنُ حُمَيْدِ بْنِ كَاسِبٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ سُهَيْلٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، بِنَحْوِهِ۔
۲۸۸۲/أ- اس سند سے بھی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اسی طرح مروی ہے ۔


2883- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ وَعَمْرُو بْنُ عَبْدِاللَّهِ؛ قَالا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا إِسْماعِيلُ أَبُو إِسْرَائِيلَ عَنْ فُضَيْلِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ،عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ الْفَضْلِ (أَوْ أَحَدِهِمَا عَنِ الآخَرِ) قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " مَنْ أَرَادَ الْحَجَّ فَلْيَتَعَجَّلْ، فَإِنَّهُ قَدْ يَمْرَضُ الْمَرِيضُ، وَتَضِلُّ الضَّالَّةُ، وَتَعْرِضُ الْحَاجَةُ " ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۰۴۷، ومصباح الزجاجۃ: ۱۰۱۵)، وقد أخرجہ: د/المناسک ۶ (۱۷۳۲)، حم (۱/۲۲۵، ۳۲۳، ۳۵۵)، دي/الحج ۱(۱۸۲۵) (حسن)
(سند میں اسماعیل بن خلیفہ ضعیف ہیں، لیکن متابعات وشواہد کی وجہ سے یہ حسن ہے، ملا حظہ ہو : الإرواء : ۹۹۰)۔
۲۸۸۳- عبداللہ بن عباس؛ فضل رضی اللہ عنہم سے روایت کرتے ہیں یا ان میں ایک دوسرے سے روایت کرتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:''جو شخص حج کا قصد کرے تو اسے جلدی سے انجام د ے لے، اس لیے کہ کبھی آدمی بیمار پڑ جا تا ہے یا کبھی کوئی چیز گم ہو جاتی ہے، (جیسے سواری وغیرہ)یا کبھی کو ئی ضرورت پیش آجا تی ہے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : تاخیر کی صورت میں اس قسم کے حالات سے دوچارہوسکتا ہے، اور آدمی ایک فرض کا تارک ہو سکتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
2- بَابُ فَرْضِ الْحَجِّ
۲- باب: حج کی فرضیت کابیان​


2884- حَدَّثَنَ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالا: حَدَّثَنَا مَنْصُورُ بْنُ وَرْدَانَ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِالأَعْلَى عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي الْبَخْتَرِيِّ، عَنْ عَلِيٍّ؛ قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ {وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلا} قَالُوا: يَارَسُولَ اللَّهِ الْحَجُّ! فِي كُلِّ عَامٍ؟ فَسَكَتَ، ثُمَّ قَالُوا: أَفِي كُلِّ عَامٍ ؟ فَقَالَ: " لا وَلَوْ قُلْتُ: نَعَمْ، لَوَجَبَتْ" فَنَزَلَتْ: " يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَسْأَلُوا عَنْ أَشْيَائَ إِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ "۔
* تخريج: ت/الحج ۵ (۸۱۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۱۱۱)، وقد أخرجہ: حم (۱/۱۱۳) (ضعیف)
(سند میں عبد الاعلی ضعیف راوی ہیں، لیکن متن حدیث نزول آیت کے علاوہ صحیح و ثابت ہے، ملاحظہ ہو: آگے حدیث نمبر ۲۸۸۵)
۲۸۸۴- علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب آیت کریمہ: {وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيْلاً} ( اللہ کے لیے ان لوگوں پر بیت اللہ کا حج کرنا فرض ہے، جو وہاں تک پہنچنے کی قدرت رکھتے ہوں) (سورۃ آل عمران: ۹۷) نازل ہوئی تو لوگوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول!کیا حج ہر سال فرض ہے ۱ ؎ ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے، لوگوں نے پھر سوال کیا:کیا ہر سال حج فرض ہے؟تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :''نہیں، اور اگر میں 'ہاں' کہہ دیتا تو (ہر سال)واجب ہو جاتا''،اس پر آیت کریمہ: { يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَسْأَلُوا عَنْ أَشْيَائَ إِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ } (سورۃ المائدۃ: ۱۰۱) ( اے ایمان والو !تم ان چیزوں کے بارے میں سوال نہ کرو اگر وہ تم پرظاہر کر دی جائیں تو تمہارے لیے بار خاطر ہوںگی)نازل ہوئی ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : حج اسلام کا پانچواں بنیادی رکن ہے جو ۵ھ ؁ یا ۶ھ؁ میں فرض ہوا، بعض لوگوں کے نزدیک ۹ھ؁ یا ۱۰ھ؁ میں فرض ہواہے زادالمعاد میں حافظ ابن القیم کا رجحان اسی طرف ہے ۔
وضاحت ۲؎ : بلا ضرورت سوال کرنا منع ہے ، کیونکہ سوال سے ہر چیز کھول کر بیان کی جاتی ہے اور جو سوال نہ ہو تو مجمل رہتی ہے اور مجمل میں بڑی گنجائش رہتی ہے ، اسی حج کی آیت میں دیکھیں کہ اس میں تفصیل نہیں تھی کہ ہر سال حج فرض ہے یا زندگی میں ایک بار، پس اگر زندگی میں ایک بار بھی حج کرلیا تو آیت پر عمل ہوگیا،اور یہ کافی تھا پوچھنے کی حاجت نہ تھی ، لیکن صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے پوچھا ، اگر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہاں فرمادیتے تو ہر سال حج فرض ہوجاتا اور امت کو بڑی تکلیف ہوتی خصوصاً دور دراز ملک والوں کو وہ ہرسال حج کے لیے کیونکر جاسکتے ہیں، مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت پر رحم فرمایا، اور خاموش رہے جب انہوں نے پھر سوال کیا تو انکار میں جواب دیا یعنی ہرسال فرض نہیں ، اورآئندہ کے لیے ان کو بلاضرورت سوال کرنے سے منع فرمایا ۔


2885- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عُبَيْدَةَ عَنْ أَبِيهِ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ؛ قَالَ: قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ الْحَجُّ ! فِي كُلِّ عَامٍ ؟ قَالَ: " لَوْ قُلْتُ: نَعَمْ، لَوَجَبَتْ، وَلَوْ وَجَبَتْ لَمْ تَقُومُوا بِهَا، وَلَوْ لَمْ تَقُومُوا بِهَا عُذِّبْتُمْ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۹۲۷، ومصباح الزجاجۃ: ۱۰۱۶)، وقد أخرجہ: حم (۱/۳۸۷) (صحیح)
۲۸۸۵- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ لوگوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول !کیا حج ہر سال واجب ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو اب دیا: ''اگر میں ''ہاں'' کہہ دوں تو وہ (ہر سال) واجب ہوجائے گا ۱؎ ،اور اگر (ہر سال) واجب ہوگیا تو تم اسے انجام نہ دے سکوگے، اور اگر انجام نہ دے سکے تو تمہیں عذاب دیا جائے گا''۔
وضاحت ۱ ؎ : یعنی اگر میں ہاں کہتا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھی میری مرضی کی تائید میں آسمانی حکم نازل ہو جاتا اور بعض علماء نے کہا ہے کہ تحریم اور ایجاب کا اختیار رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی حاصل تھا۔


2886- حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدَّوْرَقِيُّ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ إِبْرَاهِيْمَ، أَنْبَأَنَا سُفْيَانُ بْنُ حُسَيْنٍ عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سِنَانٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ الأَقْرَعَ بْنَ حَابِسٍ سَأَلَ النَّبِيَّ ﷺ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! الْحَجُّ فِي كُلِّ سَنَةٍ، أَوْ مَرَّةً وَاحِدَةً ؟ قَالَ: " بَلْ مَرَّةً وَاحِدَةً، فَمَنِ اسْتَطَاعَ، فَتَطَوَّعَ "۔
* تخريج: د/الحج ۱ (۱۷۲۱)، ن/الحج ۱ (۲۶۲۱)، (تحفۃ الأشراف: ۶۵۵۶، ومصباح الزجاجۃ: ۱۰۱۷)، وقد أخرجہ: حم (۱/۲۵۵، ۲۹۰، ۳۰۱، ۳۰۳، ۳۲۳، ۳۲۵، ۳۵۲، ۳۷۰، ۳۷۱)، دي/الحج ۴ (۱۸۲۹) (صحیح)
۲۸۸۶- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ اقرع بن حابس رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا اورکہا : اللہ کے رسول! کیا حج ہر سال فرض ہے، یا صرف ایک بار ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' نہیں، صرف ایک مرتبہ فرض ہے، البتہ جو (مزید کی) استطاعت رکھتا ہو تو وہ اسے بطور نفل کرے''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
3- بَاب فَضْلِ الْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ
۳- باب: حج اور عمرہ کی فضیلت​


2887- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُبَيْدِاللَّهِ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَامِرٍ عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: " تَابِعُوا بَيْنَ الْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ، فَإِنَّ الْمُتَابَعَةَ بَيْنَهُمَا تَنْفِي الْفَقْرَ وَالذُّنُوبَ كَمَا يَنْفِي الْكِيرُ خَبَثَ الْحَدِيدِ ".
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۴۷۷، ومصباح الزجاجۃ: ۱۰۱۸) (صحیح)
( سند میں عاصم بن عبید اللہ ضعیف راوی ہیں، لیکن اصل حدیث ابن مسعود رضی اللہ عنہ وغیرہ سے ثابت ہے، ملاحظہ ہو : الصحیحہ : ۱۲۰۰)۔
۲۸۸۷- عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:''حج اورعمر ہ کو یکے بعد دیگرے ادا کرو، اس لیے کہ انہیںباربار کرنا فقر اور گناہوں کو ایسے ہی دور کر دیتا ہے جیسے بھٹی لوہے کے میل کو''۔
2887/أ- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ عُمَرَ عَنْ عَاصِمِ ابْنِ عُبَيْدِاللَّهِ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَهُ۔
۲۸۸۷/أ- اس سند سے بھی عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے ۔


2888- حَدَّثَنَا أَبُو مُصْعَبٍ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ سُمَيٍّ، مَوْلَى أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ السَّمَّانِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: " الْعُمْرَةُ إِلَى الْعُمْرَةِ كَفَّارَةُ مَا بَيْنَهُمَا، وَالْحَجُّ الْمَبْرُورُ لَيْسَ لَهُ جَزَائٌ إِلا الْجَنَّةُ "۔
* تخريج: خ/العمرۃ ۱ (۱۷۷۳)، م/الحج ۷۹ (۱۳۴۹)، ن/الحج ۵ (۲۶۳۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۵۷۳)، وقد أخرجہ: ت/الحج ۹۰ (۹۳۳)، ط/الحج ۲۱ (۶۵)، حم (۲/۲۴۶، ۴۶۱، ۴۶۲)، دي/الحج ۷ (۱۸۳۶) (صحیح)
۲۸۸۸- ابو ہر یرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' ایک عمرہ سے دوسرے عمرے تک جتنے گنا ہ ہوں ان سب کا کفارہ یہ عمرہ ہو تا ہے، اور حج مبرور (مقبول) کا بدلہ سوائے جنت کے کچھ اور نہیں'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : حج مبرور : حج مقبول کو کہتے ہیں اور بعض کے نزدیک مبرور وہ حج ہے جس میں کوئی گنا ہ سرزدنہ ہو ، نیز ایک قول یہ بھی ہے کہ حج مبرور وہ حج ہے جس میں حج کے تمام شرائط اور آداب کی پابندی کی گئی ہو، اور بعضوں نے کہاکہ حج مبرور کی نشانی یہ ہے کہ اس کے بعد حاجی کا حال بدل جائے یعنی توجہ الی اللہ اور عبادت میں مصروف رہے، اور جن گناہوں کو حج سے پہلے کیا کرتا تھا ان سے باز رہے ۔ واللہ اعلم ۔


2889- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ مِسْعَرٍ،َسُفْيَانُ عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " مَنْ حَجَّ هَذَا الْبَيْتَ فَلَمْ يَرْفُثْ وَلَمْ يَفْسُقْ رَجَعَ كَمَا وَلَدَتْهُ أُمُّهُ "۔
* تخريج: خ/الإیمان ۱۸ (۲۶)، الحج ۴ (۱۵۱۹و۱۵۲۱)، المحصر ۹ (۱۸۱۹)، ۱۰ (۱۸۲۰)، م/الحج ۷۸ (۱۳۵۰)، ت/الحج ۲ (۸۱۱)، ن/الحج ۴ (۲۶۲۸)، (تحفۃ الأشراف:۱۳۴۳۱)، وقد أخرجہ: حم (۲/۲۲۹، ۲۴۸، ۴۱۰، ۴۸۴، ۴۹۴)، دي/الحج ۷ (۱۸۳۶) (صحیح) (تراجع الألبانی: رقم: ۳۴۲)
۲۸۸۹- ابو ہر یرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''جس نے اس گھر (کعبہ) کا حج کیا، اور نہ (ایام حج میں) جماع کیا، اور نہ گناہ کے کام کئے، تو وہ اس طرح واپس آئے گا جیسے اس کی ماں نے اسے جنم دیا ہے''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
4- بَاب الْحَجِّ عَلَى الرَّحْلِ
۴- باب: سواری پر حج کرنے کا بیان​


2890- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنِ الرَّبِيعِ بْنِ صَبِيحٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبَانَ،عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ؛ قَالَ: حَجَّ النَّبِيُّ ﷺ عَلَى رَحْلٍ رَثٍّ، وَقَطِيفَةٍ تُسَاوِي أَرْبَعَةَ دَرَاهِمَ، أَوْ لا تُسَاوِي، ثُمَّ قَالَ: " اللَّهُمَّ! حَجَّةٌ لا رِيَائَ فِيهَا وَلا سُمْعَةَ "۔
* تخريج:تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۷۲، ومصباح الزجاجۃ: ۱۰۱۹)، وقد أخرجہ: خ/الحج ۳ (۱۵۱۷)، عن ثمامۃ بن عبد اللہ بن أنس قال: حج أنس علی رحل ولم یکن شحیحاً وحدث أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حج علی رحل وکانت زاعلتہ (صحیح)
(الربیع بن صبیح و یزید بن ابان دونوں ضعیف ہیں ، لیکن حدیث متابعت اور شواہد کی بناء پر صحیح ہے، ملاحظہ ہو : الصحیحہ : ۲۶۱۷، و مختصر الشمائل : ۲۸۸، فتح الباری : ۳؍ ۳۸۷)۔
۲۸۹۰- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک پرانے کجاوے پر سوار ہو کر ایک ایسی چادر میں حج کیا جس کی قیمت چار درہم کے برابررہی ہوگی، یا اتنی بھی نہیں ،پھر فرمایا :''اے اللہ! یہ ایسا حج ہے جس میں نہ ریا کا ری ہے اورنہ شہرت'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی خالص تیری رضا مندی اور ثواب کے لیے حج کرتا ہوں، نہ نمائش اور فخر ومباہات کے لیے ، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حج میں زیادہ زیب وزینت کرنا اورزیادہ عمدہ سواری یا عمدہ لباس رکھنا خلاف سنت ہے ، حج میں بندہ اپنے مالک کے حضور میں جاتا ہے تو جس قدر عاجزی کے ساتھ جائے پھٹے پرانے حال سے اتنا ہی بہتر ہے تاکہ مالک کی رحمت جوش میں آئے، اور یہی وجہ ہے کہ حج میں سلے ہوئے کپڑے پہننے سے اور خوشبو لگانے سے منع کیا گیا ہے۔


2891- حَدَّثَنَا أَبُو بِشْرٍ بَكْرُ بْنُ خَلَفٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ؛ قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَيْنَ مَكَّةَ وَالْمَدِينَةِ، فَمَرَرْنَا بِوَادٍ فَقَالَ: " أَيُّ وَادٍ هَذَا؟ " قَالُوا: وَادِي الأَزْرَقِ، قَالَ: " كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى مُوسَى ﷺ - فَذَكَرَ مِنْ طُولِ شَعَرِهِ شَيْئًا، لا يَحْفَظُهُ دَاوُدُ- وَاضِعًا إِصْبَعَيْهِ فِي أُذُنَيْهِ، لَهُ جُؤَارٌ إِلَى اللَّهِ بِالتَّلْبِيَةِ، مَارًّا بِهَذَا الْوَادِي " قَالَ: ثُمَّ سِرْنَا حَتَّى أَتَيْنَا عَلَى ثَنِيَّةٍ، فَقَالَ: " أَيُّ ثَنِيَّةٍ هَذِهِ ؟ " قَالُوا: ثَنِيَّةُ هَرْشَى أَوْ لَفْتٍ، قَالَ: " كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى يُونُسَ عَلَى نَاقَةٍ حَمْرَائَ عَلَيْهِ جُبَّةُ صُوفٍ، وَخِطَامُ نَاقَتِهِ خُلْبَةٌ، مَارًّا بِهَذَا الْوَادِي، مُلَبِّيًا "۔
* تخريج: م/الإیمان ۷۴ (۱۶۶)، (تحفۃ الأشراف: ۵۴۲۴)، وقد أخرجہ: خ/الحج ۳۰ (۱۵۵۵) (صحیح)
۲۸۹۱- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ اور مدینہ کے درمیان تھے، ہمارا گزر ایک وادی سے ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا:'' یہ کون سی وادی ہے؟'' لوگوں نے عرض کیا: وادی ازرق ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:''گویا میں موسیٰ علیہ السلام کو دیکھ رہا ہوں، پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے موسیٰ علیہ السلام کے بالوں کی لمبائی کا تذکرہ کیا ( جو راوی داود کو یادنہیں رہا) اپنی دو انگلیا ں اپنے دونوں کانوں میںڈالے ہوئے بلند آواز سے، لبیک کہتے ہوے، اللہ سے فریاد کرتے ہوے اس وادی سے گزرے''۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم چلے یہاں تک کہ ہم ایک وادی میں پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا:'' یہ کون سی وادی ہے ''؟ لوگوں نے عرض کیا :ہر شیٰ یالفْت ۱؎ کی وادی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:''گویا میں یونس علیہ السلام کو دیکھ رہا ہوں جو بالوں کا جبہ پہنے ہوئے،سرخ اونٹنی پر سوار ہیں، ان کی اونٹنی کی نکیل کھجور کے پتوں کی رسی کی ہے، ا ور وہ اس وادی سے لبیک کہتے ہوئے گزر رہے ہیں'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ہرشیٰ اورلفْت دونوںٹیلوں کے نام ہیں۔
وضاحت ۲؎ : احتمال ہے کہ عالم ارواح میں موسیٰ اور یونس علیہما السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس وقت اسی طرح سے گزرے ہوں ، یا یہ واقعہ ان کے زمانہ کا ہے، اللہ تبارک وتعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پھر دکھلادیا ، یا یہ تشبیہ ہے کمال علم اور یقین کی جیسے اس بات کو دیکھ رہے ہیں ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
5- بَاب فَضْلِ دُعَاءِ الْحَاجِّ
۵- باب: حاجی کی دعا کی فضیلت​


2892- حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ الْحِزَامِيُّ، حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ صَالِحٍ، مَوْلَى بَنِي عَامِرٍ، حَدَّثَنِي يَعْقُوبُ بْنُ يَحْيَى بْنِ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ السَّمَّانِ،عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ أَنَّهُ قَالَ: " الْحُجَّاجُ وَالْعُمَّارُ وَفْدُ اللَّهِ، إِنْ دَعَوْهُ أَجَابَهُمْ، وَإِنِ اسْتَغْفَرُوهُ غَفَرَ لَهُمْ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، ( تحفۃ الأشراف: ۱۲۸۸۸، ومصباح الزجاجۃ: ۱۰۲۰) (ضعیف)
(سند میں صالح بن عبد اللہ منکر الحدیث راوی ہے)
۲۸۹۲- ابو ہر یرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' حجا ج اور معتمرین ( حج اور عمرہ کرنے والے) اللہ کے وفد (مہمان) ہیں،اگر وہ اللہ تعا لی سے دعا کر تے ہیں تو وہ ان کی دعا ئوں کو قبول کر تا ہے، اوراگر وہ اس سے مغفرت طلب کرتے ہیں تو وہ انہیں معاف کر دیتا ہے''۔


2893- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ طَرِيفٍ، حَدَّثَنَا عِمْرَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ؛ قَالَ: " الْغَازِي فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالْحَاجُّ وَالْمُعْتَمِرُ، وَفْدُ اللَّهِ، دَعَاهُمْ فَأَجَابُوهُ، وَسَأَلُوهُ فَأَعْطَاهُمْ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۷۴۰۶، ومصباح الزجاجۃ: ۱۰۲۱) (حسن)
۲۸۹۳- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:''اللہ کی راہ میں جہاد کر نے والا ، حج کرنے والا اور عمرہ کرنے والا اللہ تعالی کا مہمان ہے، اللہ تعا لی نے ان کو بلایا تو انہوں نے حاضری دی، اورا نہوں نے اللہ تعالی سے مانگا تو اس نے انہیں عطا کیا ''۔


2894- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُبَيْدِاللَّهِ، عَنْ سَالِمٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ عُمَرَ أَنَّهُ اسْتَأْذَنَ النَّبِيَّ ﷺ فِي الْعُمْرَةِ، فَأَذِنَ لَهُ، وَقَالَ لَهُ : " يَا أُخَيَّ! أَشْرِكْنَا فِي شَيْئٍ مِنْ دُعَاءِكَ، وَلا تَنْسَنَا "۔
* تخريج: د/الصلاۃ ۳۵۸ (۱۴۹۸)، ت/الدعوات ۱۱۰ (۳۵۶۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۵۲۲)، وقد أٰخرجہ: حم (/۲۹) (ضعیف)
(سند میں عاصم بن عبید اللہ ضعیف راوی ہیں)
۲۸۹۴- عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عمرہ کی اجازت طلب کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت عطاء فرمائی، اور ان سے فرمایا :''اے میرے بھا ئی!ہمیں بھی دعائوں میں شریک رکھنا، اور ہمیںنہ بھولنا '' ۱؎ ۔


2895- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ عَنْ عَبْدِالْمَلِكِ بْنِ أَبِي سُلَيْمَانَ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ صَفْوَانَ؛ قَالَ: وَكَانَتْ تَحْتَهُ ابْنَةُ أَبِي الدَّرْدَائِ، فَأَتَاهَا فَوَجَدَ أُمَّ الدَّرْدَائِ، وَلَمْ يَجِدْ أَبَا الدَّرْدَائِ، فَقَالَتْ لَهُ: تُرِيدُ الْحَجَّ الْعَامَ ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَتْ: فَادْعُ اللَّهَ لَنَا بِخَيْرٍ، فَإِنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يَقُولُ: " دَعْوَةُ الْمَرْئِ مُسْتَجَابَةٌ لأَخِيهِ بِظَهْرِ الْغَيْبِ، عِنْدَ رَأْسِهِ مَلَكٌ يُؤَمِّنُ عَلَى دُعَاءِهِ، كُلَّمَا دَعَا لَهُ بِخَيْرٍ قَالَ: آمِينَ، وَلَكَ بِمِثْلِهِ " قَالَ: ثُمَّ خَرَجْتُ إِلَى السُّوقِ فَلَقِيتُ أَبَا الدَّرْدَائِ، فَحَدَّثَنِي عَنِ النَّبِيِّ ﷺ بِمِثْلِ ذَلِكَ۔
* تخريج: م/الذکر والدعاء ۲۳ (۲۷۳۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۹۳۹) (صحیح)
۲۸۹۵- صفوان بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ان کی زوجیت میں ابوالدرداء رضی اللہ عنہ کی صا حبزادی تھیں،وہ ان کے پاس گئے، وہاں ام الدرداء cیعنی ساس کو پایا ،ابو الدرداء کو نہیں ،ام الدرداء c نے ان سے پو چھا: کیا تمہارا امسال حج کا ارادہ ہے؟ انہوں نے جواب دیا:ہاں،تو انہوں نے کہا: ہمارے لیے اللہ تعالی سے خیرکی دعا کرنا،اس لیے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ''آدمی کی وہ دعا جو وہ اپنے بھا ئی کے لیے اس کے غا ئبا نے میں کرتا ہے قبو ل کی جا تی ہے، اس کے سر کے پاس ایک فرشتہ ہو تا ہے، جو اس کی دعا پر آمین کہتا ہے، جب وہ اس کے لیے خیر کی دعا کرتا ہے تو وہ آمین کہتا ہے ، اور کہتا ہے: تیرے لیے بھی ایسا ہی ہو''۔
صفوان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ پھر میں بازار کی طرف چلا گیا، تو میری ملاقات ابو الدرداء رضی اللہ عنہ سے ہوئی تو انہوں نے بھی مجھ سے اسی کے مثل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
6- بَاب مَا يُوجِبُ الْحَجَّ
۶- باب: حج کو کون سی چیز واجب کر دیتی ہے ؟​


2896- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ، (ح) وحَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، وَعَمْرُو بْنُ عَبْدِاللَّهِ؛ قَالا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ يَزِيدَ الْمَكِّيُّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبَّادِ بنِ جَعْفَرٍ الْمَخْزُومِيِّ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ؛ قَالَ: قَامَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! مَا يُوجِبُ الْحَجَّ ؟ قَالَ: " الزَّادُ وَالرَّاحِلَةُ " قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ ! فَمَا الْحَاجُّ ؟ قَالَ: " الشَّعِثُ التَّفِلُ " وَقَامَ آخَرُ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! وَ مَا الْحَجُّ ؟ قَالَ: " الْعَجُّ وَالثَّجُّ "، قَالَ: وَكِيعٌ : يَعْنِي بِالْعَجِّ الْعَجِيجَ بِالتَّلْبِيَةِ، وَالثَّجُّ نَحْرُ الْبُدْنِ۔
* تخريج: ت/الحج ۴ (۸۱۳)، (تحفۃ الأشراف: ۷۴۴۰) (ضعیف جدا)
(ابراہیم بن یزید مکی متروک الحدیث راوی ہے، لیکن ''العج و الثج'' کا جملہ دوسری حدیث سے ثابت ہے، جو ۲۹۲۴ نمبر پر آئے گا،نیز ملاحظہ ہو : الإرواء : ۹۸۸)
۲۸۹۶- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھڑا ہو ا، او رعرض کیا: اللہ کے رسول! کو ن سی چیز حج کو واجب کر دیتی ہے،؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا:'' زاد سفر اور سواری (کا انتظام)'' اس نے پو چھا : اللہ کے رسول ! حاجی کیسا ہو تا ہے ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' پرا گندہ سر اور خو شبو سے عاری '' ایک دوسرا شخص اٹھا، اور اس نے عرض کیا : اللہ کے رسول! حج کیا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' عج اور ثج ''۔
وکیع کہتے ہیں کہ عج کا مطلب ہے لبیک پکارنا، اور ثج: کا مطلب ہے خون بہانا یعنی قربانی کرنا ۔


2897- حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ سُلَيْمَانَ الْقُرَشِيُّ عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، قَالَ: وَأَخْبَرَنِيهِ أَيْضًا عَنِ ابْنِ عَطَائٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ؛ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: " الزَّادُ وَالرَّاحِلَةُ " يَعْنِي قَوْلَهُ : { مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلا } ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۶۱۵۲، ۶۱۶۳، ومصباح الزجاجۃ: ۱۰۲۲) (ضعیف جدا)
(سوید بن سعید متکلم فیہ اور عمر بن عطاء ضعیف راوی ہیں،نیز ملاحظہ ہو : الإروا ء : ۹۸۸)
۲۸۹۷- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ''اللہ کے فرما ن: { مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلا} کا مطلب زاد سفر اور سو اری ہے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی قرآن میں جو آیا ہے کہ جوحج کے راہ کی طاقت رکھے اس سے مراد یہ ہے کہ کھانا اور سواری کا خرچ اس کے پاس ہوجائے تو حج فرض ہوگیا ۔
 
Top