• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابن ماجه

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
23- بَاب الشِّرَاءِ وَالْبَيْعِ فِي الْغَزْوِ
۲۳- باب: جنگ میں خرید وفروخت کا بیان​


2823- حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ عَبْدِالْكَرِيمِ، حَدَّثَنَا سُنَيْدُ بْنُ دَاوُدَ، عَنْ خَالِدِ بْنِ حَيَّانَ الرَّقِّيِّ، أَنْبَأَنَا عَلِيُّ بْنُ عُرْوَةَ الْبَارِقِيُّ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ خَارِجَةَ بْنِ زَيْدٍ؛ قَالَ: رَأَيْتُ رَجُلا يَسْأَلُ أَبِي عَنِ الرَّجُلِ يَغْزُو فَيَشْتَرِي وَيَبِيعُ وَيَتَّجِرُ فِي غَزْوَتِهِ؟ فَقَالَ لَهُ أَبِي: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بِتَبُوكَ، نَشْتَرِي وَنَبِيعُ، وَهُوَ يَرَانَا وَلا يَنْهَانَا۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۳۷۱۳ ، ومصباح الزجاجۃ: ۹۹۷)، وقد أخرجہ: حم (۳/۴۴۰) (ضعیف جدا)
(علی بن عروہ البارقی متروک اور سنید بن داود ضعیف را وی ہے)۔
۲۸۲۳- خا رجہ بن زید کہتے ہیں کہ میں نے ایک شخص کو اپنے والد سے اس شخص کے با رے میں سوال کر تے دیکھا، جو جہا د کر نے جا ئے اور وہا ں خرید و فروخت کرے اور تجا رت کر ے، تو میرے والد نے اسے جوا ب دیا : ہم جنگ تبوک میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے آپ ہمیں خرید و فروخت کر تے دیکھتے لیکن منع نہ فرماتے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : پس معلوم ہوا کہ جہاد کے سفر میں خرید وفروخت اور تجارتی لین دین منع نہیں ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
24- بَاب تَشْيِيعِ الْغُزَاةِ وَوَدَاعِهِمْ
۲۴- باب: غازیوں کو الوداع کہنے (رخصت کر نے ) کا بیان​


2824- حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ مُسَافِرٍ، حَدَّثَنَا أَبُو الأَسْوَدِ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ زَبَّانَ بْنِ فَائِدٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ مُعَاذِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ قَالَ: " لأَنْ أُشَيِّعَ مُجَاهِدًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَأَكُفَّهُ عَلَى رَحْلِهِ، غَدْوَةً أَوْ رَوْحَةً، أَحَبُّ إِلَيَّ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا"۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۲۹۶، ومصباح الزجاجۃ: ۹۹۸) (ضعیف)
(ابن لہیعہ اور زبان بن فائد دونوں ضعیف ہیں، نیز ملاحظہ ہو : الإرواء : ۱۱۸۹)
۲۸۲۴- معاذ بن انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''اللہ کے راستے میں جہا د کرنے والے شخص کو صبح یا شام رخصت کروں، اور اسے سواری پر بٹھا ئوں، یہ میرے نز دیک دنیا اورا س کی تمام نعمتوں سے بہتر ہے''۔


2825- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ ثَوْبَانَ، عَنْ مُوسَى بْنِ وَرْدَانَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قَالَ: وَدَّعَنِي رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فَقَالَ: " أَسْتَوْدِعُكَ اللَّهَ الَّذِي لا تَضِيعُ وَدَائِعُهُ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۶۲۶ ، ومصباح الزجاجۃ: ۹۹۹)، وقد أخرجہ: حم (۲/۳۵۸، ۴۰۳) (صحیح)
( سند میں ابن لہیعہ ضعیف ہیں، لیکن متابعت کی وجہ سے حدیث صحیح ہے ، ملاحظہ ہو : الصحیحہ : ۱۶ و ۲۵۴۷)
۲۸۲۵- ابو ہر یر ہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے مجھے رخصت کیا تو یہ دعا فرمائی: ''أسْتَوْدِعُكَ اللَّهَ الَّذِي لا تَضِيعُ وَدَائِعُهُ '' (میں تمہیں اللہ کے سپرد کر تا ہوں جس کی اما نتیں ضا ئع نہیں ہو تیں)۔


2826- حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْوَلِيدِ،حَدَّثَنَا حَبَّانُ بْنُ هِلالٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مِحْصَنٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ؛ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ إِذَا أَشْخَصَ السَّرَايَا يَقُولُ لِلشَّاخِصِ: " أَسْتَوْدِعُ اللَّهَ دِينَكَ وَأَمَانَتَكَ وَخَوَاتِيمَ عَمَلِكَ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۸۴۲۷ ، ومصباح الزجاجۃ: ۱۰۰۰)، وقد أخرجہ: د/الجہاد ۸۰ (۲۶۰۰)، ت/الدعوات ۴۴ (۳۴۳۸) (صحیح)
(سند میں محمد بن عبد الرحمن بن أبی لیلیٰ ضعیف ہیں، لیکن متابعت کی وجہ سے حدیث صحیح ہے ، نیزملاحظہ ہو : الصحیحہ : ۱۶)
۲۸۲۶- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب کوئی لشکر روانہ فرما تے تو جانے والے کے لیے اس طرح دعا کر تے، ''أَسْتَوْدِعُ اللَّهَ دِينَكَ وَأَمَانَتَكَ وَخَوَاتِيمَ عَمَلِكَ '' (میں تیر ے دین، تیری امانت، اورتیرے آخری اعمال کو اللہ کے سپر د کرتا ہوں)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
25- بَاب السَّرَايَا
۲۵- باب: سریہ (فو جی دستوں) کا بیان​


2827- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْمَلِكِ بن مُحَمَّدٌ الصَّنْعَانِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ الْعَامِلِيُّ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: لأَكْثَمَ بْنِ الْجَوْنِ الْخُزَاعِيِّ: " يَا أَكْثَمُ! اغْزُ مَعَ غَيْرِ قَوْمِكَ يَحْسُنْ خُلُقُكَ، وَتَكْرُمْ عَلَى رُفَقَائِكَ، يَا أَكْثَمُ! [خَيْرُ الرُّفَقَاءِ أَرْبَعَةٌ، وَخَيْرُ السَّرَايَا أَرْبَعُ مِائَةٍ، وَخَيْرُ الْجُيُوشِ أَرْبَعَةُ آلافٍ، وَلَنْ يُغْلَبَ اثْنَا عَشَرَ أَلْفًا مِنْ قِلَّةٍ] "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۷۱ ، ومصباح الزجاجۃ: ۱۰۰۱) (ضعیف جداً)
(عبد الملک بن محمد الصنعانی لین الحدیث اور ابو سلمہ العاملی متروک ہے ،بلکہ ابو حاتم نے اسے جھوٹا قرار دیا ہے، آخری فقرہ: خَيْرُ الرُّفَقَاءِ ... دوسرے طریق سے صحیح ہے، ملاحظہ ہو : الصحیحہ : ۹۸۶)
۲۸۲۷- انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے اکثم بن جون خزاعی رضی اللہ عنہ سے فرمایا:'' اکثم! اپنی قوم کے علاوہ دوسرے لوگوں کے ہمراہ جہا د کرو،تمہارے اخلاق اچھے ہو جا ئیں گے، اور تمہارے ساتھیوں میں تمہاری عزت ہوگی، اکثم !چار ساتھی بہتر ہیں، بہترین دستہ چارسو سپاہیوں کا ہے، اور بہترین لشکر چار ہزار کا ہے، نیز بارہ ہزار کا لشکر کبھی کم تعداد کی وجہ سے مغلوب نہیں ہو گا'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : کیونکہ یہ تعداد کافی ہے ، اب باروہ ہزار کا جو لشکر مغلوب ہوگا وہ کسی اور وجہ سے جیسے بزدلی،سستی وغیرہ یا کسی آسمانی آفت سے، سبحان اللہ، اگلے مسلمان ایسے تھے کہ ان کی بارہ ہزار کی فوج کبھی کسی دشمن سے مغلوب نہیں ہوسکتی تھی، اور اب کروڑوں مسلمان ہیں مگر تھوڑے سے دشمنوں سے مغلوب ہیں۔
بجھی عشق کی آگ اندھیرہے​
مسلماں نہیں راکھ کا ڈھیرہے​


2828- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنِ الْبَرَاءِ ابْنِ عَازِبٍ؛ قَالَ: كُنَّا نَتَحَدَّثُ أَنَّ أَصْحَابَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ كَانُوا، يَوْمَ بَدْرٍ، ثَلاثَ مِائَةٍ وَبِضْعَةَ عَشَرَ، عَلَى عِدَّةِ أَصْحَابِ طَالُوتَ، مَنْ جَازَ مَعَهُ النَّهَرَ، وَمَا جَازَ مَعَهُ إِلا مُؤْمِنٌ "۔
* تخريج: خ/المغازي ۶ (۳۹۵۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۵۱)، وقد أخرجہ: ت/السیر ۳۸ (۱۵۹۸) (صحیح)
۲۸۲۸- براء بن عازب رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم برابر گفتگو کر تے رہتے تھے کہ غزوئہ بدر میں صحا بہ کی تعداد تین سودس سے کچھ اوپر تھی، اوریہی تعداد طالوت کے ان ساتھیوں کی بھی تھی جنہوں نے ان کے سا تھ نہر پا ر کی ( یا د رہے کہ ) ان کے ساتھ صرف اسی شخص نے نہر پا ر کی تھی جو ایمان والا تھا۔


2829- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ عَنِ ابْنِ لَهِيعَةَ، أَخْبَرَنِي يَزِيدُ ابْنُ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ لَهِيعَةَ بْنِ عُقْبَةَ؛ قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا الْوَرْدِ صَاحِبَ النَّبِيِّ ﷺ يَقُولُ: إِيَّاكُمْ وَالسَّرِيَّةَ الَّتِي إِنْ لَقِيَتْ فَرَّتْ وَإِنْ غَنِمَتْ غَلَّتْ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۵۱۸، ومصباح الزجاجۃ : ۱۰۰۲) (ضعیف الإسناد)
(سند میں لہیعہ بن عقبہ ضعیف راوی ہے)
۲۸۲۹- نبی اکرم ﷺ کے صحابی ابوالورد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس فوجی دستے میں شرکت سے بچو جس کی دشمن سے مڈبھیڑ ہو تو وہ بھاگ کھڑا ہو، اور اگر مال غنیمت حاصل ہو تو اس میں خیانت کر ے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
26- بَاب الأَكْلِ فِي قُدُورِالْمُشْرِكِينَ
۲۶- باب: کفارومشرکین کی ہا نڈیوں (برتنوں) میں کھا نے کا بیان​


2830- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ قَبِيصَةَ بْنِ هُلْبٍ، عَنْ أَبِيهِ ؛ قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ عَنْ طَعَامِ النَّصَارَى؟ فَقَالَ: " لايَخْتَلِجَنَّ فِي صَدْرِكَ طَعَامٌ ضَارَعْتَ فِيهِ نَصْرَانِيَّةً "۔
* تخريج: د/الأطعمۃ ۲۴ (۳۷۸۴)، ت/السیر ۱۶ (۱۵۶۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۷۳۴)، وقد حم (۵/۲۲۶) (حسن)
(سند میں قبیصہ بن ہلب مجہول العین ہیں ، ان سے صرف سماک نے روایت کی ہے، لیکن حدیث کے شواہد کی بناء پر یہ حسن ہے ، ملاحظہ ہو : جلباب المرأۃ المسلۃ : ۱۸۲)
۲۸۳۰- ہلب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم ﷺ سے نصاری کے کھا نے کے متعلق سوال کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا:'' کسی کھا نے سے متعلق تمہا رے دل میں وسوسہ نہ آ نا چا ہیے، ورنہ یہ نصاری کی مشا بہت ہو جائے گی''۔
وضاحت ۱؎ : وہ اپنے مذہب والوں کے سوا دوسرے لوگوں کا کھانا نہیں کھاتے ، یہ حال نصاری کا شاید نبی کریم ﷺ کے زمانہ میں ہوگا اب تو نصاری ہر مذہب والے کا کھانا یہاں تک کہ مشرکین کا بھی کھالیتے ہیں ، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اہل کتاب کا پکایا ہوا کھانا مسلمان کو کھانا جائز ہے اور اللہ تعالی قرآن پاک میں فرماتا ہے : { وَطَعَامُ الَّذِينَ أُوتُواْ الْكِتَابَ حِلٌّ لَّكُمْ } [سورة المائدة : 5] (اہل کتاب کا کھانا تمہارے لیے حلال ہے ) اور نبی کریم ﷺ نے یہود کا کھانا خیبر میں کھایا، لیکن یہ شرط ہے کہ اس کھانے میں شراب اور سور نہ ہو، اور نہ وہ جانور ہو جو مردار ہو مثلاً گلا گھونٹا ہوا یا اللہ کے سوا اور کسی کے نام پر ذبح کیا ہوا ، ورنہ وہ کھانا بالاجماع حرام ہوگا ۔


2831- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، حَدَّثَنِي أَبُو فَرْوَةَ يَزِيدُ بْنُ سِنَانٍ، حَدَّثَنِي عُرْوَةُ بْنُ رُوَيْمٍ اللَّخْمِيُّ، عَنْ أَبِي ثَعْلَبَةَ الْخُشَنِيِّ (قَالَ وَلَقِيَهُ وَكَلَّمَهُ) قَالَ: أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ فَسَأَلْتُهُ فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ قُدُورُ الْمُشْرِكِينَ نَطْبُخُ فِيهَا؟ قَالَ: " لا تَطْبُخُوا فِيهَا " قُلْتُ: فَإِنِ احْتَجْنَا إِلَيْهَا، فَلَمْ نَجِدْ مِنْهَا بُدًّا ؟ قَالَ: "فَارْحَضُوهَا رَحْضًا حَسَنًا، ثُمَّ اطْبُخُوا وَكُلُوا "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۸۶۹ ، ومصباح الزجاجۃ: ۱۰۰۳) (صحیح)
(سند میں ابو فروہ یزید بن سنان ضعیف راوی ہیں، لیکن شواہد و متابعات کی وجہ سے حدیث صحیح ہے ، ملاحظہ ہو : الإرواء : ۳۷ - ۳۲۰۷، نیز یہ حدیث آگے آرہی ہے)
۲۸۳۱- ابو ثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہﷺ کے پاس حاضر ہوا تو میں نے سوال کیا: اللہ کے رسول!کیا ہم مشرکین کی ہا نڈیوں میں کھانا پکا سکتے ہیں؟آپ ﷺ نے فرمایا:''ان میں نہ پکا ئو'' میں نے کہا : اگر اس کی ضرورت پیش آجا ئے اور ہمارے لیے کو ئی چا رہ کا رہی نہ ہو؟ توآپ ﷺ نے فرمایا:'' تب تم انہیں اچھی طرح دھولو ، پھر پکا ئو اورکھائو'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جو لوگ اپنے برتنوں میں نجاستوں کا استعمال کرتے ہیں جیسے مردار کھانے والے اور شراب پینے والے ، اگرچہ مسلمان ہی ہوں تو ان کے برتنوں کا استعمال بغیر دھوئے جائز نہیں ،اور جو کھانا ان کے برتنوں میں پکا ہو اس کا بھی کھانا درست نہیں ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
27- بَاب الاسْتِعَانَةِ بِالْمُشْرِكِينَ
۲۷- باب: جنگ میں کفارو مشرکین سے مددلینے کا بیان​


2832- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ دِينَارٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ؛ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " إِنَّا لا نَسْتَعِينُ بِمُشْرِكٍ "، قَالَ عَلِيٌّ فِي حَدِيثِهِ: عَبْدُاللَّهِ بْنُ يَزِيدَ أَوْ زَيْدٍ۔
* تخريج: م/الجہاد ۵۱ (۱۸۱۷)، د/الجہاد ۱۵۳ (۲۷۳۲)، ت/السیر ۱۰ (۱۵۵۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۳۵۸)، وقد أخرجہ: حم (۶/۶۷، ۱۴۸)، دي/السیر ۵۴ (۲۵۳۸) (صحیح)
۲۸۳۲- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:'' ہم کسی مشرک سے مدد نہیں لیتے''۔
علی بن محمد نے اپنی روایت میں عبداللہ بن یزید یا زید کہا ہے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : کافر ومشرک سے جہاد میں بلاضرورت مدد لینا جائز نہیں، صحیح مسلم میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مشرک نے نبی کریم ﷺ کے ساتھ جہاد کا قصد کیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا: لوٹ جاؤ ، میں مشرک سے مدد نہیں چاہتا ، جب وہ اسلام لایا تو اس سے مدد لی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
28- بَاب الْخَدِيعَةِ فِي الْحَرْبِ
۲۸- باب: جنگ میں دھوکہ اور فریب کا بیان​


2833- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ رُومَانَ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: " الْحَرْبُ خَدْعَةٌ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، ( تحفۃ الأشراف: ۱۷۳۶۱ ، ومصباح الزجاجۃ: ۱۰۰۴) (صحیح)
(سند میں محمد بن اسحاق مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، لیکن شواہد کی بناء پر یہ حدیث صحیح ، بلکہ متواتر ہے، نیز ملاحظہ ہو: صحیح أبی داود: ۲۳۷۰ )
۲۸۳۳- ام المومنین عا ئشہ رضی اللہ عنہا سے روا یت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:'' جنگ دھو کہ ہے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : جنگ میں دھوکہ دھڑی جس طرح سے بھی ہوسکے مثلاً کافروں میں نااتفاقی ڈلوادینا ، ان کے سامنے سے بھاگنا تاکہ وہ پیچھا کریں پھر ان کو ہلاکت وبربادی کے مقام پر لے جانا ، اسی طرح اور سب مکر وحیلہ درست اورجائز ہے ، لیکن عہد کرکے اس کا توڑنا جائز نہیں (نووی) ۔


2834- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ عَنْ مَطَرِ بْنِ مَيْمُونٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: " الْحَرْبُ خَدْعَةٌ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۶۲۱۸ ، ومصباح الزجاجۃ: ۱۰۰۵) (صحیح)
(سند میں مطربن میمون ضعیف راوی ہیں ، لیکن اصل حدیث متواتر ہے ، کما تقدم )
۲۸۳۴- عبداللہ بن عبا س رضی اللہ عنہما سے روا یت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:'' جنگ دھو کہ ہے''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
29- بَاب الْمُبَارَزَةِ وَالسَّلَبِ
۲۹- باب: دشمن کو دعوت مبارزت دینے (مقابلے کے لیے للکارنے) اور سامانِ جنگ لو ٹنے کا بیان​


2835- حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَكِيمٍ وَحَفْصُ بْنُ عَمْرٍو، قَالا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ ، (ح) و حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ: أَنْبَأَنَا وَكِيعٌ قَالا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ أَبِي هَاشِمٍ الرُّمَّانِيِّ (قَالَ أَبو عَبْد اللَّهِ: هُوَ يَحْيَى بْنُ الأَسْوَدِ) عَنْ أَبِي مِجْلَزٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ عُبَادٍ؛ قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا ذَرٍّ يُقْسِمُ: لَنَزَلَتْ هَذِهِ الآيَةُ فِي هَؤُلاءِ الرَّهْطِ السِّتَّةِ يَوْمَ بَدْرٍ: {هَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِي رَبِّهِمْ} إِلَى قَوْلِهِ: {إنّ اللهَ يَفْعَلُ مَا يُرِيْدُ } فِي حَمْزَةَ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، وَعَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، وَعُبَيْدَةَ بْنِ الْحَارِثِ، وَعُتْبَةَ بْنِ رَبِيعَةَ، وَشَيْبَةَ بْنِ رَبِيعَةَ، وَالْوَلِيدِ بْنِ عُتْبَةَ، اخْتَصَمُوا فِي الْحُجَجِ، يَوْمَ بَدْرٍ۔
* تخريج: خ/المغازي ۸ (۳۹۶۶، ۳۹۶۸)، تفسیر سورۃ الحج ۳ (۴۷۴۳)، م/التفسیر ۷ (۳۰۳۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۹۷۴) (صحیح)
۲۸۳۵- قیس بن عباد کہتے ہیں کہ میں نے ابو ذر رضی اللہ عنہ کو قسم کھا کر کہتے سنا کہ آیت کریمہ : { هَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِي رَبِّهِمْ } (سورۃ الحج: ۱۹) (یہ دونوں ایک دوسرے کے دشمن ہیں اپنے رب کے بارے میں انہوں نے جھگڑا کیا)سے {إنّ اللهَ يَفْعَلُ مَا يُرِيْدُ} (سورۃ الحج: ۲۴) تک ان چھ لو گوں کے بارے میں اتری جو بد ر کے دن باہم لڑے، حمزہ بن عبدالمطلب ،علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہما مسلمانوں کی طرف سے، اور عبیدہ بن حارث، عتبہ بن ربیعہ ،شیبہ بن ربیعہ اور ولید بن عتبہ کافروں کی طرف سے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : بد ر کے دن جب فوجیں آمنے سامنے ہوگئیں تو کفار قریش میں سے تین شخص: عتبہ ، شیبہ اور ولید نکلے اور دعوتِ مبارزت دی یعنی کون ہمارے مقابلے میں آتا ہے ، یہ پکار انصار کے لوگوں نے سنی تو ان کے مقابلہ کے لئے آگئے، انہوں نے کہا کہ ہم تم کو نہیں چاہتے ،ہم کو اپنے قریشی بھائیوں سے لڑنا منظور ہے ، جب نبی کریم ﷺ نے یہ سنا تو فرمایا: ''حمزہ اٹھو، علی اٹھو، عبیدہ اٹھو ''آخر یہ تینوں بہادر مسلمانوں کی طرف سے نکلے ، حمزہ رضی اللہ عنہ نے عتبہ کا کام تمام کردیا، اور علی رضی اللہ عنہ نے ولید کا ، اور عبیدہ رضی اللہ عنہ او ر شیبہ میں جنگ ہوئی دونوں زخمی ہوئے ، علی اور حمزہ رضی اللہ عنہما نے اپنے حریفوں سے فراغت کے بعد شیبہ کو بھی مار ڈالا، اور عبیدہ رضی اللہ عنہ کو میدان جنگ سے اٹھالائے ، ان تینوں کافروں میں عتبہ سردار تھا یعنی ہندہ کا باپ جو معاویہ کا نانا تھا ، شیبہ اس کا بھائی تھا، ولید اس کا بیٹا تھا ، یہ تینوں حمزہ اور علی رضی اللہ عنہما کے ہاتھوں سے واصل جہنم ہوئے، ہندہ کو حمزہ رضی اللہ عنہ سے بڑی عداوت اوردشمنی تھی، اس نے احد کے دن حمزہ رضی اللہ عنہ کا کلیجہ نکال کر چبایا ، یہ واضح رہے کہ رسول اکرم ﷺ نے اپنے قریبی رشتہ داروں کو آگے بڑھایا ، حمزہ رضی اللہ عنہ آپ کے چچا اور علی بن ابی طالب آپ کے چچا کے لڑکے اور داماد نیز آپ کے پروردہ اور عبیدہ بن حارث بن عبد المطلب آپ کے چچا کے بیٹے ، اور یہ سب اسلا م کے غلبہ کے لئے آئے اور انسانیت کو درس تو حید دیا اور ظلم و ستم کا قلع قمع کرنے کے لئے جا ن کی بازی لگائیf۔


2836- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ،حَدَّثَنَا أَبُو الْعُمَيْسِ وَعِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ، عَنْ إِيَاسِ بْنِ سَلَمَةَ بْنِ الأَكْوَعِ،عَنْ أَبِيهِ ؛ قَالَ: بَارَزْتُ رَجُلا فَقَتَلْتُهُ، فَنَفَّلَنِي رَسُولُ اللَّهِ ﷺ سَلَبَهُ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۴۵۲۹، ومصباح الزجاجۃ: ۱۰۰۶) وقد أخرجہ: خ/الجہاد ۱۷۳ (۳۰۵۱)، م/الجہاد ۱۳ (۱۷۵۴)، حم (۴/۴۵، ۴۶)، دي/السیر ۱۵ (۲۴۹۵) (صحیح)
۲۸۳۶- سلمہ بن الاکو ع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک شخص کو مقابلہ کے لئے للکارا، اور اسے قتل کر ڈالا تو رسول اللہ ﷺ نے اس سے چھینا ہو ا سامان بطور انعام مجھے ہی دے دیا ۔


2837- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ، أَنْبَأَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ كَثِيرِ بْنِ أَفْلَحَ، عَنْ أَبِي مُحَمَّدٍ، مَوْلَى أَبِي قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ نَفَّلَهُ سَلَبَ قَتِيلٍ قَتَلَهُ يَوْمَ حُنَيْنٍ۔
* تخريج: خ/البیوع ۳۷ (۲۱۰۰)، فرض الخمس ۱۸ (۳۱۴۲)، المغازي ۱۸ (۴۳۲۱، ۴۳۲۲)، الاحکام ۲۱ (۷۱۷۰)، م/الجہاد ۱۳ (۱۷۵۱)، د/الجہاد ۱۴۷ (۲۷۱۷)، ت/السیر ۱۳(۱۵۶۲)،(تحفۃ الأشراف: ۱۲۱۳۲)، وقد أخرجہ: ط/الجہاد ۱۰ (۱۸)، حم (۵/۲۹۵، ۲۹۶، ۳۰۶)، دي/السیر ۴۴ (۲۵۲۸) (صحیح)
۲۸۳۷- ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روا یت ہے کہ رسول اللہﷺ نے جنگ حنین کے مو قعہ پر ان کے ہاتھ سے قتل کیے گئے شخص کا سامان انہیں کو دے دیا۔


2838- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو مَالِكٍ الأَشْجَعِيُّ، عَنْ نُعَيْمِ بْنِ أَبِي هِنْدٍ، عَنِ ابْنِ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ، عَنْ أَبِيهِ ؛ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : " مَنْ قَتَلَ فَلَهُ السَّلَبُ ".
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۴۶۲۲ ، ومصباح الزجاجۃ: ۱۰۰۷)، وقد أخرجہ: حم (۵/۱۲) (صحیح)
۲۸۳۸- سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:'' جو شخص ( کسی کا فر) کو قتل کر ے، تو اس سے چھینا ہو ا مال اسی کو ملے گا '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی اس کے کپڑے ہتھیار سواری وغیرہ، امام کو اختیار ہے جب چاہے جنگ میں لوگوں کو رغبت دلانے کے لئے یہ کہہ دے کہ جو کوئی کسی کو مارے اس کا سامان وہی لے ، یا کسی خاص ٹکڑی سے کہے تم کو مال غنیمت میں سے اس قدر زیادہ ملے گا ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
30- بَاب الْغَارَةِ وَالْبَيَاتِ وَقَتْلِ النِّسَاءِ وَالصِّبْيَانِ
۳۰- باب: دشمن پر حملہ کرنے ، شبخون (رات میں چھاپہ) مارنے ، ان کی عورتوں اور بچوں کو قتل کر نے کے احکام کا بیان ۱؎​
وضاحت ۱؎ : یعنی رات کو جب کافروں پر چھاپہ ماریں، اور عورتیں اور بچے بلا قصد مارے جائیں تو کچھ گناہ نہیں ہے کیونکہ وہ بھی انہی میں داخل ہیں ، لیکن قصداً اور علاحدہ عورتوں اور بچوں کو اسی طرح بالکل بوڑھوں کو جو لڑائی کے قابل نہ ہوں قتل کرنا جائز نہیں ہے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث صحیحین میں ہے کہ کسی لڑائی میں ایک عورت مقتول پائی گئی تو نبی کریم نے عورتوں اور بچوں کے قتل سے منع فرمادیا۔


2839- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ ابْنِ عَبْدِاللَّهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا الصَّعْبُ بْنُ جَثَّامَةَ ؛ قَالَ: سُئِلَ النَّبِيُّ ﷺ عَنْ أَهْلِ الدَّارِ مِنَ الْمُشْرِكِينَ يُبَيَّتُونَ، فَيُصَابُ النِّسَاءُ وَالصِّبْيَانُ ؟ قَالَ: "هُمْ مِنْهُمْ "۔
* تخريج: خ/الجہاد ۱۴۶(۳۰۱۲)، م/الجہاد ۹ (۱۷۸۵)، ت/السیر ۱۹ (۱۵۷۰)، د/الجہاد ۱۲۱ (۲۶۷۲)، (تحفۃ الأشراف: ۴۹۳۹)، وقد أخرجہ: حم (۴/۳۸، ۷۱، ۷۲، ۷۳) (صحیح)
۲۸۳۹- صعب بن جثامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ سے سوال کیا گیا کہ مشرکین کی آبادی پر شبخون مارتے (رات میں حملہ کرتے ) وقت عورتیں اوربچے بھی قتل ہو جا ئیں گے، تو اس کا کیا حکم ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا:'' وہ بھی انہیں میں سے ہیں'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یہ آمادئہ جنگ اور دشمنی پر اصرار کرنے والے اور اسلام کے خلاف ایڑی چوٹی کازور لگانے والوں پر رات کے حملہ کا مسئلہ ہے، جن تک اسلام کی دعوت سالہاسال تک اچھی طرح سے پہنچانے کا انتظام کیا گیا ، اب آخری حربہ کے طور پر ان کے قلع قمع کا ہر دروازہ کھلا ہوا ہے، اور ان کے ساتھ رہنے والی آبادی میں موجود بچوں اور عورتوں کو اگر کوئی تکلیف پہنچتی ہے، تو یہ بدرجہ مجبوری ہے اس لئے کوئی حرج نہیں ہے۔


2840- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، أَنْبَأَنَا وَكِيعٌ عَنْ عِكْرِمَةَ بْنِ عَمَّارٍ، عَنْ إِيَاسِ بْنِ سَلَمَةَ بْنِ الأَكْوَعِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: غَزَوْنَا مَعَ أَبِي بَكْرٍ هَوَازِنَ عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ ﷺ، فَأَتَيْنَا مَائً لِبَنِي فَزَارَةَ فَعَرَّسْنَا، حَتَّى إِذَا كَانَ عِنْدَ الصُّبْحِ شَنَنَّاهَا عَلَيْهِمْ غَارَةً، فَأَتَيْنَا أَهْلَ مَائٍ فَبَيَّتْنَاهُمْ، فَقَتَلْنَاهُمْ، تِسْعَةً أَوْ سَبْعَةَ أَبْيَاتٍ۔
* تخريج: د/الجہاد ۱۳۴ (۲۵۹۷)، (تحفۃ الأشراف: ۴۵۱۶)، وقد أخرجہ: م/الجہاد ۱۴ (۱۷۵۵)، حم (۵/۳۷۷) (حسن)
۲۸۴۰- سلمہ بن الاکو ع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ کے زمانے میں ہم نے ابو بکر رضی اللہ عنہ کے ہمراہ قبیلئہ ہوازن سے جہاد کیا، چنانچہ ہم بنی فزارہ کے چشمہ کے پاس آئے اور ہم نے وہیں پر پڑائو ڈالا ، جب صبح کا وقت ہو ا،تو ہم نے ان پر حملہ کر دیا ،پھر ہم چشمہ والوں کے پاس آئے ان پر بھی شبخون ما را، اور ان کے نو یا سات گھروں کے لوگوں کو قتل کیا ۔


2841- حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَكِيمٍ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، أَنْبَأَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ رَأَى امْرَأَةً مَقْتُولَةً فِي بَعْضِ الطَّرِيقِ، فَنَهَى عَنْ قَتْلِ النِّسَاءِ وَالصِّبْيَانِ ۔
* تخريج: تفردبہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۸۴۰۱)، وقد أخرجہ: خ/الجہاد ۱۴۷ (۳۰۱۴)، م/الجہاد ۸ (۱۷۴۴)، د/الجہاد ۱۲۱ (۲۶۶۸)، ت/الجہاد ۱۹ (۱۵۶۹)، ط/الجہاد ۳ (۹)، حم (۲/۱۲۲، ۱۲۳)، دي/السیر ۲۵ (۲۵۰۵) (صحیح)
۲۸۴۱- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روا یت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے راستے میں ایک عورت کو دیکھا جسے قتل کردیا گیاتھا تو آپ ﷺ نے عورتوں اور بچوں کے قتل سے منع فرمادیا ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ایسے بچے، عورتیں یا بوڑھے جو شریک جنگ نہ ہوں ، اور اگر یہ ثابت ہو جا ئے کہ یہ بھی شریک جنگ ہیں، تو ان کے خلاف بھی کارروائی کی جائے گی۔


2842- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ الْمُرَقَّعِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ صَيْفِيٍّ،عَنْ حَنْظَلَةَ الْكَاتِبِ؛ قَالَ: غَزَوْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ، فَمَرَرْنَا عَلَى امْرَأَةٍ مَقْتُولَةٍ قَدِ اجْتَمَعَ عَلَيْهَا النَّاسُ، فَأَفْرَجُوا لَهُ، فَقَالَ: " مَا كَانَتْ هَذِهِ تُقَاتِلُ فِيمَنْ يُقَاتِلُ "، ثُمَّ قَالَ. لِرَجُلٍ: " انْطَلِقْ إِلَى خَالِدِ بْنِ الْوَلِيدِ، فَقُلْ لَهُ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَأْمُرُكَ، يَقُولُ: لا تَقْتُلَنَّ ذُرِّيَّةً وَلا عَسِيفًا " .
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۳۴۴۹ ، ومصباح الزجاجۃ: ۱۰۰۸)، وقد أخرجہ: د/الجہاد ۱۲۱ (۲۶۶۹)، حم (۴/۱۷۸) (حسن صحیح)
۲۸۴۲- حنظلہ الکا تب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہم رسول اکرم ﷺ کے سا تھ ایک غزوہ (جنگ) میں شریک تھے، ہمارا گزر ایک مقتول عورت کے پاس سے ہو ا، وہاں لوگ اکٹھے ہو گئے تھے، (آپ کو دیکھ کر) لوگوں نے آپ کے لئے جگہ خالی کردی تو آپ ﷺ نے فرمایا:'' یہ تو لڑنے والوں میں نہ تھی''( پھر اسے کیوں ما ر ڈالا گیا) اس کے بعد ایک شخص سے کہا: خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے پاس جائو، اور ان سے کہو کہ رسول اللہﷺ تمہیں حکم دے رہے ہیں کہ عورتوں ،بچوں ، مزدوروں اور خادموں کو ہرگز قتل نہ کرنا''۔


2842/أ- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا الْمُغِيرَةُ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ الْمُرَقَّعِ، عَنْ جَدِّهِ رَبَاحِ بْنِ الرَّبِيعِ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، نَحْوَهُ، قَالَ أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ: يُخْطِئُ الثَّوْرِيُّ فِيهِ۔
* تخريج: د/الجہاد ۱۲۱ (۲۶۶۹)، (تحفۃ الأشراف: ۳۶۰۰)، وقد أخرجہ: حم (۲/۴۸۸، ۴/۱۷۸، ۳۴۶) (حسن صحیح)
۲۸۴۲/أ- اس سند سے رباح بن ربیع سے بھی اسی طرح مروی ہے،ابوبکر بن ابی شیبہ کہتے ہیں: سفیان ثوری اس میں غلطی کرتے تھے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی سفیان نے ابوالزناد سے اور انہوں نے مرقع بن عبد اللہ سے اور مرقع نے حنظلہ سے روایت کی ہے، جب کہ اس کی دوسری سند میں مغیرہ بن شعبہ سے اور مرقع نے اپنے دادا رباح بن الربیع سے روایت کی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
31- بَاب التَّحْرِيقِ بِأَرْضِ الْعَدُوِّ
۳۱- باب: دشمن کی سرزمین کو آگ لگا نے کا بیان​


2843- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ بْنِ سَمُرَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ صَالِحِ بْنِ أَبِي الأَخْضَرِ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ؛ قَالَ: بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ ﷺ إِلَى قَرْيَةٍ يُقَالُ لَهَا: أُبْنَى، فَقَالَ: " ائْتِ أُبْنَى صَبَاحًا ثُمَّ حَرِّقْ "۔
* تخريج: د/الجہاد ۹۱ (۲۶۱۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۷)، وقد أخرجہ: حم (۵/۲۰۵، ۲۰۹) (ضعیف)
(صالح بن أبی الاخضر ضعیف ہیں جن کی وجہ سے یہ حدیث ضعیف ہے)
۲۸۴۳- اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے مجھے اُبنیٰ نامی بستی کی جانب بھیجا اور فرمایا:'' ابنیٰ میں صبح کے وقت جاؤ، اور اسے آگ لگادو'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ اُبنی : فلسطین میں عسقلان اور رملہ کے درمیان ایک مقام ہے، صحیح بخاری میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ہم کو ایک لشکر میں بھیجا ،تو فرمایا :'' اگر تم فلاں فلاں دو شخصوں کو پاؤ توآگ سے جلا دینا'' ، پھر جب ہم نکلنے لگے تو آپ ﷺ نے فرمایا : میں نے تم کو حکم دیا تھا فلانے فلانے کو جلانے کا ، لیکن آگ سے اللہ ہی عذاب کرتا ہے تم اگر ان کو پاؤ تو قتل کر ڈالنا، لیکن درختوں کا اور بتوں کا اور سامان کا جلانا تو جائز ہے، اور کئی احادیث سے اس کی اجازت ثابت ہے جب اس میں مصلحت ہو ۔


2844- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ، أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ؛ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ حَرَّقَ نَخْلَ بَنِي النَّضِيرِ، وَقَطَعَ -وَهِيَ الْبُوَيْرَةُ- فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: {مَا قَطَعْتُمْ مِنْ لِينَةٍ أَوْ تَرَكْتُمُوهَا قَائِمَةً } الآيَةَ ۔
* تخريج: خ/الحرث والمزارعۃ ۴ (۲۳۵۶)، الجہاد ۱۵۴ (۳۰۲۰)، المغازي ۱۴ (۴۰۳۱)، م/الجہاد ۱۰ (۱۷۴۶)، د/الجہاد ۹۱ (۲۶۱۵)، ت/التفسیر ۵۹ (۳۳۰۲، السیر ۴ (۱۵۵۲)، (تحفۃ الأشراف: ۸۲۶۷)، وقد أخرجہ: حم (۲/۱۲۳، ۱۴۰)، دي/السیر ۲۳ (۲۵۰۳) (صحیح)
۲۸۴۴- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روا یت ہے کہ رسول اللہﷺ نے قبیلہ بنو نضیر کے کھجورکا باغ جلادیا، اور کاٹ ڈالا ، اس باغ کا نام بویرہ تھا، چنا نچہ اللہ تعالی کا یہ فرمان نا زل ہوا: { مَا قَطَعْتُمْ مِنْ لِينَةٍ أَوْ تَرَكْتُمُوهَا قَائِمَةً} یعنی تم نے کھجو روں کے جو درخت کا ٹ ڈالے یا جنہیں تم نے ان کی جڑوں پہ با قی رہنے دیا یہ سب اللہ تعالی کے حکم سے تھا، اور اس لیے بھی کہ فا سقوں کو اللہ تعالی رسواکرے (سورۃ الحشر: ۵) ۔


2845- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا عُقْبَةُ بْنُ خَالِدٍ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ حَرَّقَ نَخْلَ بَنِي النَّضِيرِ، وَقَطَعَ، وَفِيهِ يَقُولُ شَاعِرُهُمْ:
فَهَانَ عَلَى سَرَاةِ بَنِي لُؤَيٍّ
حَرِيقٌ بِالْبُوَيْرَةِ مُسْتَطِيرُ
* تخريج: أنظر ماقبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۸۰۶۰) (صحیح)
۲۸۴۵- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روا یت ہے کہ رسول اللہﷺ نے قبیلہ بنونضیر کے کھجو ر کے درخت جلا دئیے اور انہیں کا ٹ دیا، اسی سے متعلق ایک شاعر کہتا ہے:


فَهَانَ عَلَى سَرَاةِ بَنِي لُؤَيٍّ
حَرِيقٌ بِالْبُوَيْرَةِ مُسْتَطِيرُ
بنی لؤی کے سرداروں کے لیے آسان ہوا، بویرہ میں آگ لگانا جوہر طرف پھیلتی جارہی تھی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
32- بَاب فِدَاءِ الأُسَارَى
۳۲- باب: (جنگی) قیدیوں کو فدیہ میں دینے کا بیان​


2846- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ؛ قَالا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ عِكْرِمَةَ بْنِ َمَّارٍ،عَنْ إِيَاسِ بْنِ سَلَمَةَ بْنِ الأَكْوَعِ ، عَنْ أَبِيهِ؛ قَالَ: غَزَوْنَا مَعَ أَبِي بَكْرٍ هَوَازِنَ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ: فَنَفَّلَنِي جَارِيَةً مِنْ بَنِي فَزَارَةَ، مِنْ أَجْمَلِ الْعَرَبِ، عَلَيْهَا قَشْعٌ لَهَا، فَمَا كَشَفْتُ لَهَا عَنْ ثَوْبٍ حَتَّى أَتَيْتُ الْمَدِينَةَ، فَلَقِيَنِي النَّبِيُّ ﷺ فِي السُّوقِ، فَقَالَ: " لِلَّهِ أَبُوكَ! هَبْهَا لِي " فَوَهَبْتُهَا لَهُ، فَبَعَثَ بِهَا، فَفَادَى بِهَا أُسَارَى مِنْ أُسَارَى الْمُسْلِمِينَ كَانُوا بِمَكَّةَ۔
* تخريج: م/المغازي ۱۴ (۱۷۵۵)، د/الجہاد ۱۳۴ (۲۶۹۷)، (تحفۃ الأشراف: ۴۵۱۵)، وقد أخرجہ: حم (۴/ و ۴۷، ۵۱) (صحیح)
۲۸۴۶- سلمہ بن الاکو ع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کے زمانہ میں ہم نے ابو بکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ قبیلئہ ہوازن سے جنگ کی، تو ابو بکر رضی اللہ عنہ نے قبیلہ بنی فزارہ سے حاصل کی ہوئی ایک لو نڈی مجھے بطورنفل(انعام ) دی، وہ عرب کے خوب صورت ترین لوگوں میں سے تھی، اور پوستین پہنے ہو ئی تھی، میں نے اس کا کپڑا بھی نہیں کھو لا تھا کہ مدینہ آیا، بازار میں میری ملاقات نبی اکرمﷺ سے ہو ئی، آپ ﷺ نے فرمایا:''اللہ کی شان، تمہارا باپ بھی کیا خوب آدمی تھا !یہ لونڈی مجھے دے دو، میں نے وہ آپ کو ہبہ کر دی، چنانچہ آپ ﷺ نے وہ لونڈی ان مسلمانوں کے عوض فدیہ میں دے دی جو مکہ میں تھے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : معلوم ہوا کہ امام کسی کو کوئی چیز دے کر پھر اس کو واپس لے لے تو بھی جائزہے جب اس میں کوئی مصلحت ہو ، آپ ﷺ نے صفیہ رضی اللہ عنہا کو پہلے دحیہ رضی اللہ عنہ کو دیا تھا پھر ان سے واپس لے لیا ۔
 
Top