- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,584
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
56- بَاب إِذَا رَأَى الضَّيْفُ مُنْكَرًا رَجَعَ
۵۶-باب: (دعوت میں ) خلا ف شرع بات دیکھ کر مہمان کے لوٹ جانے کا بیان
3359- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ،حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ هِشَامٍ الدَّسْتُوَائِيِّ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: صَنَعْتُ طَعَامًا، فَدَعَوْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ، فَجَائَ فَرَأَى فِي الْبَيْتِ تَصَاوِيرَ، فَرَجَعَ۔
* تخريج: ن/الزینۃ من المجتبیٰ ۵۷ (۵۳۵۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۱۱۷) (صحیح)
۳۳۵۹- علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے کھا نا تیا ر کیا، اور رسول اللہ ﷺ کو مدعو کیا،آپ تشریف لائے تو آپ کی نظر گھرمیں تصویر وں پر پڑی، تو آ پ واپس لو ٹ گئے ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : اکثر علماء کا یہی قول ہے کہ جس دعوت میں خلاف شرع باتیں ہوں جیسے ناچ گانا، اور بے حیائی بے پردگی وغیرہ وغیرہ یا شراب نوشی ،یا دوسری نشہ آور چیزوں کا استعمال تواس میں شریک ہونا ضروری نہیں، اور جب وہاں جا کر یہ باتیں دیکھے تو لوٹ آئے اورکھانانہ کھائے، اوراگر عالم دین اورپیشوا ہو اور اس بات کو دور نہ کرسکے تو لوٹ آئے کیونکہ وہاں بیٹھنے میں دین کی بے حرمتی اوراہانتہے ، اور دوسرے لوگوں کو گناہ کرنے کی جرأت بڑھے گی، یہ جب کہ دعوت میں جانے سے پہلیان باتوں کی خبر نہ ہو،اگر پہلے سے یہ معلوم ہو کہ وہاں خلاف شرع کوئی بات ہے تو دعوت قبول کرنا اس پر ضروری نہیں۔
3360- حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِاللَّهِ الْجَزَرِيُّ، حَدَّثَنَا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ جُمْهَانَ، حَدَّثَنَا سَفِينَةُ، أَبُو عَبْدِالرَّحْمَنِ: أَنَّ رَجُلا أَضَافَ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ، فَصَنَعَ لَهُ طَعَامًا، فَقَالَتْ فَاطِمَةُ: لَوْ دَعَوْنَا النَّبِيَّ ﷺ فَأَكَلَ مَعَنَا، فَدَعَوْهُ فَجَائَ، فَوَضَعَ يَدَهُ عَلَى عِضَادَتَيِ الْبَابِ،فَرَأَى قِرَامًا فِي نَاحِيَةِ الْبَيْتِ، فَرَجَعَ فَقَالَتْ فَاطِمَةُ لِعَلِيٍّ: الْحَقْ،فَقُلْ لَهُ: مَارَجَعَكَ؟ يَا رَسُولَ اللَّهِ! قَالَ: " إِنَّهُ لَيْسَ لِي أَنْ أَدْخُلَ بَيْتًا مُزَوَّقًا "۔
* تخريج:د/الأطعمۃ ۸ (۳۷۵۵)، (تحفۃ الأشراف: ۴۴۸۳)، وقد أخرجہ: حم (۵/۲۲۰، ۲۲۱، ۲۲۲) (حسن)
۳۳۶۰- سفینہ ابو عبد الرحمن رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی ضیا فت کی اور آپ کے لئے کھا نا تیا ر کیا،فا طمہ رضی اللہ عنہا نے کہا:کا ش ہم لو گ نبی اکرم ﷺ کو بلا لیتے تو آ پ بھی ہما رے ساتھ کھانا تناول فرماتے، چنا نچہ لوگوں نے آ پ کوبھی مد عو کیا، آپ ﷺ تشریف لا ئے ،آپ نے اپنے ہاتھ دروازے کے دونوں بازو پر رکھے، تو آپ کی نظر گھر کے ایک گو شے میں ایک باریک منقش پردے پر پڑی، آپ لو ٹ آئے، فاطمہ رضی اللہ عنہا نے علی رضی اللہ عنہ سے کہا : جا ئیے اور پو چھئے: اللہ کے رسول ! آپ کیوں واپس آگئے ہیں؟آپ ﷺ نے فرمایا: ''یہ میرے لئے منا سب نہیں کہ میں ایسے گھر میں قدم رکھوں جس میں آر ا ئش وتزیین کی گئی ہو '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : حدیث میں مزوق کا لفظ آیا ہے یعنی آرائش وتزیین ، بعضوں نے کہاکہ مزوق کے معنی یہ ہیں کہ سونا چڑھا ہوا، یعنی جس گھر کی چھت یا دیوار پر طلائی نقرئی کام ہو یاقیمتی پردے لٹکے ہوں ،مطلب یہ ہے کہ رسول اکرم ﷺ کے لائق اتنی بھی دنیا کی زیب وزینت نہیں ہے، گرچہ عوام کے لئے یہ امر منع نہ ہو، عوام کو صرف حرام سے بچنا کافی ہے، اور خواص مکروہ اور مباح سے بھی پچتے ہیں، ایسا نہ ہو کہ حدود سے غفلت ہو جا ئے۔