• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابن ماجه

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
3- بَاب الرُّؤْيَا ثَلاثٌ
۳-باب: خواب کی تین قسمیں ہیں​


3906- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا هَوْذَةُ بْنُ خَلِيفَةَ، حَدَّثَنَا عَوْفٌ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: " الرُّؤْيَا ثَلاثٌ: فَبُشْرَى مِنَ اللَّهِ، وَحَدِيثُ النَّفْسِ، وَتَخْوِيفٌ مِنَ الشَّيْطَانِ، فَإِنْ رَأَى أَحَدُكُمْ رُؤْيَا تُعْجِبُهُ فَلْيَقُصَّ، إِنْ شَائَ، وَإِنْ رَأَى شَيْئًا يَكْرَهُهُ، فَلايَقُصَّهُ عَلَى أَحَدٍ، وَلْيَقُمْ يُصَلِّي "۔
* تخريج:تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۴۹۳، ومصباح الزجاجۃ: ۱۳۶۶)، وقد أخرجہ: ت/الرؤیا ۱ (۲۲۷۰)، دي/الرؤیا ۶ (۲۱۸۹) (صحیح)
(سند میں ہوذہ بن خلیفہ صدوق راوی ہے، نیز حدیث کے طرق اور شواہد ہیں)
۳۹۰۶- ابو ہر یر ہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ''خو اب تین طرح کا ہو تا ہے: ایک اللہ کی طرف سے خوشخبری، دوسرے خیالی باتیں، تیسرے شیطان کا ڈرانا، پس جب تم میں سے کو ئی ایسا خو اب دیکھے جو اسے اچھا لگے تو اگر چاہے تو لوگوں سے بیان کر دے، اور اگر کو ئی براخواب دیکھے توا س کو کسی سے بیان نہ کرے، اور کھڑ ے ہو کر صلاۃ پڑھے '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : یعنی ایسے خواب کونہیں بیان کرنا چاہیے جو شیطانی تخویفات اور نفسیاتی تلبیسات ہو ں۔


3907- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ عَبِيدَةَ، حَدَّثَنِي أَبُوعُبَيْدِ اللَّهِ مُسْلِمُ بْنُ مِشْكَمٍ ، عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ قَالَ: " إِنَّ الرُّؤْيَا ثَلاثٌ: مِنْهَا أَهَاوِيلُ مِنَ الشَّيْطَانِ لِيَحْزُنَ بِهَا ابْنَ آدَمَ، وَمِنْهَا مَا يَهُمُّ بِهِ الرَّجُلُ فِي يَقَظَتِهِ، فَيَرَاهُ فِي مَنَامِهِ، وَمِنْهَا جُزْئٌ مِنْ سِتَّةٍ وَأَرْبَعِينَ جُزْئًا مِنَ النُّبُوَّةِ " قَالَ: قُلْتُ لَهُ: أَنْتَ سَمِعْتَ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ؟ قَالَ: نَعَمْ، أَنَا سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ، أَنَا سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، ( تحفۃ الأشراف: ۱۰۹۱۶، ومصباح الزجاجۃ: ۱۳۶۷) (صحیح)
۳۹۰۷- عوف بن ما لک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' خو اب تین طرح کے ہوتے ہیں: ایک تو شیطان کی ڈراونی باتیں تاکہ وہ ابن آدم کو ان کے ذریعہ غمگین کرے،بعض خواب ایسے ہو تے ہیں کہ حالت بیداری میں آدمی جس طرح کی باتیں سوچتا رہتا ہے، وہی سب خواب میں بھی دیکھتا ہے اور ایک وہ خو اب ہے جو نبو ت کا چھیالیسواں حصہ ہے۔
ابو عبید اللہ مسلم بن مشکم کہتے ہیں کہ میں نے عوف بن ما لک رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کیا آپ نے یہ حدیث رسول اللہ ﷺ سے سنی ہے؟توانہوں نے کہا: ہاں، میں نے اسے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے، میں نے اسے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
4-بَاب مَنْ رَأَى رُؤْيَا يَكْرَهُهَا
۴-باب: ناپسندیدہ اوربرا خواب دیکھنے پر کیا کرے؟​


3908- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ الْمِصْرِيُّ، أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرِبْنِ عَبْدِاللَّهِ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ أَنَّهُ قَالَ: " إِذَا رَأَى أَحَدُكُمُ الرُّؤْيَا يَكْرَهُهَا، فَلْيَبْصُقْ عَنْ يَسَارِهِ ثَلاثًا، وَلْيَسْتَعِذْ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ ثَلاثًا، وَلْيَتَحَوَّلْ عَنْ جَنْبِهِ الَّذِي كَانَ عَلَيْهِ "۔
* تخريج: م/الرؤیاح (۲۲۶۲)، د/الأدب ۹۶ (۵۰۲۲)، (تحفۃ الأشراف: ۲۹۰۷)، وقد أخرجہ: حم (۳/۳۵۰) (صحیح)
۳۹۰۸- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جب تم میں سے کو ئی ناپسندیدہ خواب دیکھے تو با ئیں طرف تین با ر تھو کے، اورتین بار شیطان سے اللہ کی پنا ہ ما نگے، اورجس پہلو پر تھا اسے بدل لے ''۔


3909- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: " الرُّؤْيَا مِنَ اللَّهِ،وَالْحُلْمُ مِنَ الشَّيْطَانِ،فَإِذَا رَأَى أَحَدُكُمْ شَيْئًا يَكْرَهُهُ، فَلْيَبْصُقْ عَنْ يَسَارِهِ ثَلاثًا، وَلْيَسْتَعِذْ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ ثَلاثًا، وَلْيَتَحَوَّلْ عَنْ جَنْبِهِ الَّذِي كَانَ عَلَيْهِ "۔
* تخريج: خ/بدء الخلق ۱۱ (۳۲۹۲)، التعبیر ۳ (۶۹۸۴)، م/الرؤیا (۲۶۶۱)، د/الأدب ۹۶ (۵۰۲۱)، ت/الرویا۵ (۲۲۷۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۱۳۵)، وقد أخرجہ: ط/الرؤیا ۱ (۴)، حم (۵/۲۹۶، ۳۰۳، ۳۰۴، ۳۰۵، ۳۰۹)، دي/الرؤیا ۵ (۲۱۸۷) (صحیح)
۳۹۰۹- ابو قتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''سچا خواب اللہ کی طرف سے ہے ،اور بر اخواب شیطان کی طرف سے ،پس اگر تم میں سے کو ئی نا پسندیدہ خواب دیکھے تو اپنے با ئیں جانب تین با ر تھو کے، اور شیطان مردود سے تین با ر اللہ کی پنا ہ ما نگے ،اورجس پہلو پر تھا اسے بدل لے ''۔


3910- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنِ الْعُمَرِيِّ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " إِذَا رَأَى أَحَدُكُمْ رُؤْيَا يَكْرَهُهَا، فَلْيَتَحَوَّلْ وَلْيَتْفُلْ عَنْ يَسَارِهِ ثَلاثًا، وَلْيَسْأَلِ اللَّهَ مِنْ خَيْرِهَا، وَلْيَتَعَوَّذْ مِنْ شَرِّهَا "۔
* تخريج: تفرد بہ، ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۹۷۱، ومصباح الزجاجۃ: ۱۳۶۸)، وقد أخرجہ: حم (۲/۳۶۴) (صحیح)
(سند میں عبد اللہ بن عمر العمری ضعیف راوی ہے، لیکن حدیث شواہد کی بناء پر صحیح ہے)
۳۹۱۰- ابو ہر یرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جب تم میں سے کو ئی ناپسندیدہ خواب دیکھے تو کروٹ بدل لے، اوراپنے با ئیں طرف تین با ر تھو کے، اوراللہ تعالی سے اس خو اب کی بھلا ئی کا سوال کرے ،اور اس کی برائی سے پناہ ما نگے''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
5- بَاب مَنْ لَعِبَ بِهِ الشَّيْطَانُ فِي مَنَامِهِ فَلا يُحَدِّثْ بِهِ النَّاسَ
۵-باب: جس نے خواب دیکھا کہ شیطان اس سے کھیل رہا ہے وہ اسے کسی سے بیان نہ کرے​


3911- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عُمَرَ بْنِ سَعِيدِ بْنِ أَبِي حُسَيْنٍ، حَدَّثَنِي عَطَاءُ بْنُ أَبِي رَبَاحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ: إِنِّي رَأَيْتُ رَأْسِي ضُرِبَ،فَرَأَيْتُهُ يَتَدَهْدَهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ " يَعْمِدُ الشَّيْطَانُ إِلَى أَحَدِكُمْ فَيَتَهَوَّلُ لَهُ، ثُمَّ يَغْدُو يُخْبِرُ النَّاسَ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۱۹۸، ومصباح الزجاجۃ: ۱۳۶۹)، وقد أخرجہ: حم (۲/۳۶۴) (صحیح)
۳۹۱۱- ابو ہر یرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کی خد مت میں ایک شخص حا ضر ہو ا،اور عرض کیا : میں نے خو اب میں دیکھا ہے کہ میری گردن ماردی گئی، اور سر لڑھکتا جارہا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: ''تم لو گوں کو شیطان خواب میں آکر ڈراتا ہے اورپھر تم اسے صبح کو لو گوں سے بیان بھی کر تے ہو ''۔


3912- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ: أَتَى النَّبِيَّ ﷺ رَجُلٌ وَهُوَ يَخْطُبُ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! رَأَيْتُ الْبَارِحَةَ فِيمَا يَرَى النَّائِمُ، كَأَنَّ عُنُقِي ضُرِبَتْ، وَسَقَطَ رَأْسِي، فَاتَّبَعْتُهُ فَأَخَذْتُهُ فَأَعَدْتُهُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " إِذَا لَعِبَ الشَّيْطَانُ بِأَحَدِكُمْ فِي مَنَامِهِ، فَلا يُحَدِّثَنَّ بِهِ النَّاسَ "۔
* تخريج: م/الرؤیا ۱ (۲۲۶۸)، (تحفۃ الأشراف: ۲۳۰۸)، وقد أخرجہ: حم (۳/۳۱۵) (صحیح)
۳۹۱۲- جا بر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسو ل اللہ ﷺ خطبہ دے رہے تھے کہ ایک شخص آپ کی خدمت میں حا ضر ہوا، اور اس نے عر ض کیا: اللہ کے رسول ! میں نے کل رات خواب دیکھا کہ میری گردن اڑا دی گئی، اور میرا سر الگ ہوگیا ، میں اس کے پیچھے چلا اور اس کو اٹھا کر پھر اپنے مقام پر رکھ لیا؟تو آپ ﷺ نے فرمایا: ''جب شیطان خواب میں تم میں سے کسی کے ساتھ کھیلے تو وہ اسے لو گوں سے بیان نہ کرے ''۔


3913- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ، أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ، قَالَ: " إِذَا حَلَمَ أَحَدُكُمْ، فَلا يُخْبِرِ النَّاسَ بِتَلَعُّبِ الشَّيْطَانِ بِهِ فِي الْمَنَامِ "۔
* تخريج: م/الرؤیا ۲ (۲۲۶۸)، (تحفۃ الأشراف: ۲۹۱۵)، وقد أخرجہ: حم (۳/۳۵۰) (صحیح)
۳۹۱۳- جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جب تم میں سے کو ئی شخص شیطانی خواب دیکھے تو کسی سے اپنے ساتھ شیطان کے اس کھلو اڑ کو بیان نہ کرے ''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
6- بَاب الرُّؤْيَا إِذَا عُبِرَتْ وَقَعَتْ فَلا يَقُصُّهَا إِلا عَلَى وَادٍّ
۶-باب: خواب کی تعبیر بیان کرنے پر وہ اسی طرح واقع ہو جاتے ہیں اس لئے صرف دوست ہی کو بتائے ۱ ؎​
وضاحت ۱ ؎ : یعنی دانا اورعقلمند دوست کو خبرکرنی چاہئے اور نادان دوست اور دشمن کے سامنے کبھی خواب بیان نہ کرناچاہئے، ایسا نہ ہو و ہ کوئی مضر اورنقصان دہ تعبیر بیان کردے اور ویسا ہی واقع ہوجائے۔


3914- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ يَعْلَى بْنِ عَطَائٍ، عَنْ وَكِيعِ بْنِ عُدُسٍ الْعُقَيْلِيِّ، عَنْ عَمِّهِ أَبِي رَزِينٍ أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ ﷺ يَقُولُ: " الرُّؤْيَا عَلَى رِجْلِ طَائِرٍ مَا لَمْ تُعْبَرْ، فَإِذَا عُبِرَتْ وَقَعَتْ " قَالَ: " وَالرُّؤْيَا جُزْئٌ مِنْ سِتَّةٍ وَأَرْبَعِينَ جُزْئًا مِنَ النُّبُوَّةِ " قَالَ: وَأَحْسِبُهُ قَالَ: " لايَقُصُّهَا إِلا عَلَى وَادٍّ أَوْ ذِي رَأْيٍ "۔
* تخريج: د/الأدب ۹۶ (۵۰۲۰)، ت/الرؤیا ۶ (۲۲۷۸، ۲۲۷۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۱۷۴)، وقد أخرجہ: حم (۴/۱۰، ۱۱، ۱۲، ۱۳)، دي/الرؤیا ۱۱ (۲۱۹۴) (صحیح)
۳۹۱۴- ابورزین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے سنا: ''خواب کی جب تک تعبیر نہ بیان کی جائے وہ ایک پرندہ کے پیر پر ہو تا ہے،پھر جب تعبیر بیان کر دی جا تی ہے تو وہ واقع ہو جا تا ہے ۱؎ ،اورآپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا: '' خواب نبو ت کا چھیا لیسواں حصہ ہے'' ، اور میں سمجھتا ہوں کہ آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا: ''تم خواب کو صرف اسی شخص سے بیان کرو جس سے تمہا ری محبت و دوستی ہو، یا وہ صاحب عقل ہو '' ۲؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : یعنی جب تک اس خواب کی تعبیر بیان نہیں کی جاتی اس وقت تک یہ خواب معلق رہتا ہے ، اور اس کے لیے ٹھہراو نہیں ہوتا ، تعبیر آجانے کے بعد ہی اسے قرا رحاصل ہوتا ہے۔
وضاحت ۲ ؎ : خواب کی تعبیر بتانے والا رائے سلیم اور فہم مستقیم رکھتا ہو، بہتر ہے کہ آدمی اپنا خواب اس شخص سے بیان کرے جو علاوہ محبت اور عقل کے علم تعبیر سے بھی واقف ہو ، یہ ایک الگ اورمستقل علم ہوگیا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
7-بَاب عَلامَ تُعَبَّرُ بِهِ الرُّؤْيَا
۷-باب: خو اب کی تعبیر کس طرح بیان کی جائے؟​


3915- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، عَنْ يَزِيدَ الرَّقَاشِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " اعْتَبِرُوهَا بِأَسْمَائِهَا، وَكَنُّوهَا بِكُنَاهَا، وَالرُّؤْيَا لأَوَّلِ عَابِرٍ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، ( تحفۃ الأشراف: ۱۶۸۸، ومصباح الزجاجۃ:۱۳۷۰) (ضعیف)
(سند میں یزید بن ابان الرقاشی ضعیف ہیں،لیکن '' وَالرُّؤْيَا لأَوَّلِ عَابِرٍ '' کا صحیح شاہد موجود ہے)
۳۹۱۵- انس بن ما لک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا: ''تم خو اب کی تعبیر اس کے نام اورکنیت کی روشنی میں بتا یا کرو، اور اس کی تعبیرسب سے پہلے بتا نے والے کے مطا بق ہو تی ہے ''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
8-بَاب مَنْ تَحَلَّمَ حُلُمًا كَاذِبًا
۸-باب: جھوٹا خواب بیان کرنے والے کا حکم​


3916- حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ هِلالٍ الصَّوَّافُ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَارِثِ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " مَنْ تَحَلَّمَ حُلُمًا كَاذِبًا، كُلِّفَ أَنْ يَعْقِدَ بَيْنَ شَعِيرَتَيْنِ، وَيُعَذَّبُ عَلَى ذَلِكَ "۔
* تخريج: خ/التعبیر ۴۵ (۷۰۴۲)، د/الأدب ۹۶ (۵۰۲۴)، ت/الرؤیا ۸ (۲۲۸۳)، ن/الزینۃ من المجتبیٰ ۵۹ (۵۳۶۱)، (تحفۃ الأشراف: ۵۹۸۶) وقد أخرجہ: حم (۱/۲۱۶، ۲۴۱، ۲۴۶، ۳۵۰، ۳۵۹، ۳۶۰) (صحیح)
۳۹۱۶- عبداللہ بن عبا س رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جو شخص جھو ٹا خو اب بیان کرے گا وہ اس بات کا مکلف کیا جائے گا کہ جو کے دو دانوں کے درمیان گرہ لگا ئے اور اس پر وہ عذاب دیا جا ئے گا'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : کیونکہ جو کے ان دو دانوں کے درمیان اس سے گرہ نہ لگ سکے گی، اس پر اس کو عذاب دیا جائے گا، حالانکہ بیداری میں بھی جھوٹ بولنا گناہ ہے، مگر خواب میں جھوٹ بولنا اس سے بھی زیادہ سخت گناہ ہے، کیونکہ خواب نبوت کے مبشرات میں سے ہے، پس اس میں جھوٹ بولنا گویا اللہ تعالی پر جھوٹ باندھنا ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
9- بَاب أَصْدَقُ النَّاسِ رُؤْيَا أَصْدَقُهُمْ حَدِيثًا
۹-باب: جو شخص جتنا ہی زیا دہ سچّا ہو گا اسی قدر اس کا خواب بھی سچا ہو گا​


3917- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ الْمِصْرِيُّ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ بَكْرٍ، حَدَّثَنَا الأَوْزَاعِيُّ، عَنِ ابْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " إِذَا قَرُبَ الزَّمَانُ لَمْ تَكَدْ رُؤْيَا الْمُؤْمِنِ تَكْذِبُ، وَأَصْدَقُهُمْ رُؤْيَا أَصْدَقُهُمْ حَدِيثًا، وَرُؤْيَا الْمُؤْمِنِ جُزْئٌ مِنْ سِتَّةٍ وَأَرْبَعِينَ جُزْئًا مِنَ النُّبُوَّةِ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۴۷۸) (صحیح)
۳۹۱۷- ابو ہر یر ہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا: '' جب قیامت قریب آجائے گی تو مو من کے خواب کم ہی جھوٹے ہوں گے، اور جو شخص جتنا ہی بات میں سچا ہوگا اتنا ہی اس کا خواب سچا ہو گا ،کیو نکہ مو من کا خواب نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہے '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : اذا قرب الزمان کاترجمہ قیامت کے قریب ہو نے کے ہے، اور بعضوں نے کہا کہ قرب الزمان سے موت کا زمانہ مراد ہے یعنی جب آدمی کی موت نزدیک آتی ہے تو اس کے خواب سچے ہونے لگتے ہیں ، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ عالم آخرت کے وصال کا وقت نزدیک آجاتا ہے، اور وہاں کے حالات زیادہ منکشف ہونے لگتے ہیں ، بعضوں نے کہا قرب الزماں سے بڑھاپا مراد ہے کیونکہ اس وقت میں شہوت اور غضب کا زور گھٹ جاتا ہے ، اور مزاج معتدل ہوتا ہے پس اس وقت کے خواب زیادہ سچے ہوتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
10-بَاب تَعْبِيرِ الرُّؤْيَا
۱۰-باب: خواب کی تعبیر کا بیان​


3918- حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ حُمَيْدِ بْنِ كَاسِبٍ الْمَدَنِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: أَتَى النَّبِيَّ ﷺ رَجُلٌ مُنْصَرَفَهُ مِنْ أُحُدٍ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنِّي رَأَيْتُ فِي الْمَنَامِ ظُلَّةً تَنْطُفُ سَمْنًا وَعَسَلا، وَرَأَيْتُ النَّاسَ يَتَكَفَّفُونَ مِنْهَا، فَالْمُسْتَكْثِرُ وَالْمُسْتَقِلُّ، وَرَأَيْتُ سَبَبًا وَاصِلا إِلَى السَّمَاءِ، رَأَيْتُكَ أَخَذْتَ بِهِ، فَعَلَوْتَ بِهِ ثُمَّ أَخَذَ بِهِ رَجُلٌ بَعْدَكَ فَعَلا بِهِ، ثُمَّ أَخَذَ بِهِ رَجُلٌ بَعْدَهُ فَعَلا بِهِ، ثُمَّ أَخَذَ بِهِ رَجُلٌ بَعْدَهُ فَانْقَطَعَ بِهِ، ثُمَّ وُصِلَ لَهُ فَعَلا بِهِ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: دَعْنِي أَعْبُرُهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ! قَالَ: " اعْبُرْهَا " قَالَ: أَمَّا الظُّلَّةُ فَالإِسْلامُ، وَأَمَّا مَايَنْطُفُ مِنْهَا مِنَ الْعَسَلِ وَالسَّمْنِ، فَهُوَ الْقُرْآنُ حَلاوَتُهُ وَلِينُهُ، وَأَمَّا مَا يَتَكَفَّفُ مِنْهُ النَّاسُ، فَالآخِذُ مِنَ الْقُرْآنِ كَثِيرًا وَقَلِيلا، وَأَمَّا السَّبَبُ الْوَاصِلُ إِلَى السَّمَاءِ، فَمَا أَنْتَ عَلَيْهِ مِنَ الْحَقِّ، أَخَذْتَ بِهِ فَعَلا بِكَ، ثُمَّ يَأْخُذُهُ رَجُلٌ مِنْ بَعْدِكَ فَيَعْلُو بِهِ، ثُمَّ آخَرُ، فَيَعْلُو بِهِ، ثُمَّ آخَرُ فَيَنْقَطِعُ بِهِ، ثُمَّ يُوَصَّلُ لَهُ فَيَعْلُو بِهِ، قَالَ: " أَصَبْتَ بَعْضًا، وَأَخْطَأْتَ بَعْضًا" قَالَ أَبُو بَكْرٍ: أَقْسَمْتُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ! لَتُخْبِرَنِّي بِالَّذِي أَصَبْتُ مِنِ الَّذِي أَخْطَأْتُ، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: " لا تُقْسِمْ يَا أَبَا بَكْرٍ! ".
* تخريج: خ/التعبیر ۴۷ (۷۰۴۶)، م/الرؤیا ۳ (۲۲۶۹)، د/الأیمان والنذور ۱۳ (۳۲۶۷، ۳۲۶۹)، السنۃ ۹ (۴۶۳۲، ۴۶۳۳)، ت/الرؤیا۱۰ (۲۲۸۷)، (تحفۃ الأشراف: ۵۸۳۸)، وقد أخرجہ: حم (۱/۲۱۹)، دي/الرؤیا ۱۳ (۲۲۰۲) (صحیح)
۳۹۱۸- عبداللہ بن عبا س رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں ایک شخص آیا ،اس وقت آپ جنگ احد سے واپس تشریف لا ئے تھے، اس نے آپ سے عر ض کیا : اللہ کے رسول !میں نے خواب میں با دل کا ایک سایہ (ٹکڑا) دیکھا جس سے گھی اور شہد ٹپک رہا تھا، اور میں نے لو گوں کو دیکھا کہ اس میں سے ہتھیلی بھر بھر کر لے رہے ہیں ،کسی نے زیادہ لیا، کسی نے کم، اور میں نے دیکھا کہ ایک رسی آسمان تک تنی ہوئی ہے، میں نے آپ کو دیکھا کہ آپ نے وہ رسی پکڑی اور اوپر چڑھ گئے،آپ کے بعد ایک اور شخص نے پکڑی اور وہ بھی اوپر چڑھ گیا،اس کے بعد ایک اور شخص نے پکڑی تو وہ بھی او پرچڑھ گیا، پھر اس کے بعد ایک اور شخص نے پکڑی تو رسی ٹو ٹ گئی، لیکن وہ پھر جو ڑ دی گئی، اور وہ بھی اوپر چڑھ گیا،یہ سن کر ابو بکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول !اس خواب کی تعبیر مجھے بتانے دیجیے،آپ ﷺ نے فرمایا: ''تم اس کی تعبیر بیان کر و''،ابو بکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ وہ بادل کا ٹکڑا دین اسلام ہے، شہد اور گھی جو اس سے ٹپک رہا ہے اس سے مراد قرآن، اور اس کی حلاوت (شیرینی) اور لطا فت ہے، اور لو گ جو اس سے ہتھیلی بھر بھر کر لے رہے ہیں اس سے مراد قرآن حا صل کرنے والے ہیں، کو ئی زیا دہ حا صل کر رہا ہے کو ئی کم، اور وہ رسی جو آسمان تک گئی ہے اس سے وہ حق (نبوت یا خلا فت) کی رسی مراد ہے جس پر آپ ﷺ ہیں ،اورجوآپ نے پکڑی اور اوپرچلے گئے (یعنی اس حالت میں آپ نے وفات پا ئی)، پھر اس کے بعد دوسرے نے پکڑی اور وہ بھی او پر چڑ ھ گیا، پھر تیسرے نے پکڑی وہ بھی او پر چڑھ گیا، پھر چو تھے نے پکڑی تو حق کی رسی کمز ور ہو کر ٹو ٹ گئی ،لیکن اس کے بعد اس کے لئے وہ جوڑی جا تی ہے تو وہ اس کے ذریعے اوپر چڑھ جاتاہے، یہ سن کر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''تم نے کچھ تعبیرصحیح بتا ئی اور کچھ غلط''، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول!میں آپ کو قسم دلاتا ہوں، آپ ضرور بتایئے کہ میں نے کیا صحیح کہا، اور کیا غلط؟ تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ''اے ابو بکر! قسم نہ دلائو ''۔


3918/أ- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: كَانَ أَبُو هُرَيْرَةَ يُحَدِّثُ أَنَّ رَجُلا أَتَى رَسُولَ اللَّهِ ﷺ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! رَأَيْتُ ظُلَّةً بَيْنَ السَّمَاءِ وَالأَرْضِ تَنْطِفُ سَمْنًا وَعَسَلا، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ نَحْوَهُ۔
* تخريج: د/الأیمان والنذور ۱۳ (۳۲۶۸ ، ۴۶۳۲)، ت/الرؤیا ۹ (۲۲۹۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۵۷۵)، وقد أخرجہ: خ/التعبیر ۴۷ ( ۷۰۴۶)، م/الرؤیا ۳ (۲۲۶۹)، دي/الرؤیا ۱۳ (۲۲۰۲)
۳۹۱۸/أ - اس سند سے بھی ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ابو ہر یرہ رضی اللہ عنہ بیا ن کر تے تھے کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حا ضر ہو ا، اور اس نے عرض کیا : اللہ کے رسول! میں نے آسمان اور زمین کے درمیان ایک سایہ (بادل کا ایک ٹکڑا) دیکھا ، جس سے شہد اور گھی ٹپک رہا تھا، پھر راوی نے باقی حدیث اسی طرح ذکر کی۔


3919- حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ الْحِزَامِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ الصَّنْعَانِيُّ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: كُنْتُ غُلامًا، شَابًّا، عَزَبًا، فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ، فَكُنْتُ أَبِيتُ فِي الْمَسْجِدِ، فَكَانَ مَنْ رَأَى مِنَّا رُؤْيَا، يَقُصُّهَا عَلَى النَّبِيِّ ﷺ: فَقُلْتُ اللَّهُمَّ! إِنْ كَانَ لِي عِنْدَكَ خَيْرٌ فَأَرِنِي رُؤْيَا يُعَبِّرُهَا لِيَ النَّبِيُّ ﷺ، فَنِمْتُ فَرَأَيْتُ مَلَكَيْنِ أَتَيَانِي فَانْطَلَقَا بِي، فَلَقِيَهُمَا مَلَكٌ آخَرُ، فَقَالَ: لَمْ تُرَعْ، فَانْطَلَقَا بِي إِلَى النَّارِ، فَإِذَا هِيَ مَطْوِيَّةٌ كَطَيِّ الْبِئْرِ،وَإِذَا فِيهَا نَاسٌ قَدْ عَرَفْتُ بَعْضَهُمْ، فَأَخَذُوا بِي ذَاتَ الْيَمِينِ،فَلَمَّا أَصْبَحْتُ ذَكَرْتُ ذَلِكَ لِحَفْصَةَ، فَزَعَمَتْ حَفْصَةُ أَنَّهَا قَصَّتْهَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ، فَقَالَ: " إِنَّ عَبْدَاللَّهِ رَجُلٌ صَالِحٌ، لَوْ كَانَ يُكْثِرُ الصَّلاةَ مِنَ اللَّيْلِ " قَالَ: فَكَانَ عَبْدُاللَّهِ يُكْثِرُ الصَّلاةَ مِنَ اللَّيْلِ ۔
* تخريج: خ/الصلاۃ ۵۸ (۴۴۰)، فضائل الصحابۃ ۱۹ (۳۷۳۸، ۳۷۳۹)، التعبیر ۳۵ (۷۰۲۸)، م/فضائل الصحابۃ ۳۱ (۲۴۷۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۸۰۵)، وقد أخرجہ: ت/الصلاۃ ۱۲۳ (۳۲۱)، ن/المساجد ۲۹ (۷۲۳)، حم (۲/۱۴۶)، دي/الرؤیا ۱۳ (۲۱۹۸) (صحیح)
۳۹۱۹- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں ایک نو جو ان غیر شادی شد ہ لڑکا تھا، اور را ت میں مسجد میں سو یا کر تا تھا، اور ہم میں سے جو شخص بھی خو اب دیکھتا وہ اس کی تعبیر آپ سے پوچھا کر تا، میں نے( ایک دن دل میں) کہا: اے اللہ ! اگر میرے لئے تیرے پاس خیر ہے تو مجھے بھی ایک خوا ب دکھا جس کی تعبیر میرے لئے نبی اکرم ﷺ بیان فرمادیں،پھر میں سو یا تو میں نے دو فرشتوں کو دیکھا کہ وہ میرے پا س آئے، اور مجھے لے کرچلے، (راستے میں ) ان دونوں کو ایک اور فرشتہ ملا اور اس نے کہا: تم خو فزدہ نہ ہو، با لآ خر وہ دونوں فرشتے مجھ کو جہنم کی طر ف لے گئے، میں نے اسے ایک کنویں کی طرح گھر اہو اپایا، ( اور میں نے اس میں اوپر نیچے بہت سے درجے دیکھے) اور مجھے بہت سے جا نے پہچانے لو گ بھی نظر آئے، اس کے بعد وہ فرشتے مجھے دائیں طرف لے کر چلے ،پھر صبح ہو ئی تو میں نے یہ خو اب حفصہ رضی اللہ عنہا سے بیان کیا ، حفصہ رضی اللہ عنہا کاکہنا ہے کہ انہوں نے یہ خو اب رسول اللہ ﷺ سے بیان کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: ''عبداللہ ایک نیک آدمی ہے، اگر وہ رات کو صلاۃ زیادہ پڑھاکرے''۔
راوی کہتے ہیں اس کے بعد عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما رات کو صلاۃ زیا دہ پڑھنے لگے۔


3920- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَى الأَشْيَبُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ بَهْدَلَةَ، عَنِ الْمُسَيَّبِ بْنِ رَافِعٍ، عَنْ خَرَشَةَ بْنِ الْحُرِّ قَالَ: قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ، فَجَلَسْتُ إِلَى شِيَخَةٍ فِي مَسْجِدِ النَّبِيِّ ﷺ، فَجَاءَ شَيْخٌ يَتَوَكَّأُ عَلَى عَصًا لَهُ، فَقَالَ الْقَوْمُ: مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَنْظُرَ إِلَى رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَلْيَنْظُرْ إِلَى هَذَا، فَقَامَ خَلْفَ سَارِيَةٍ، فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ، فَقُمْتُ إِلَيْهِ، فَقُلْتُ لَهُ: قَالَ بَعْضُ الْقَوْمِ: كَذَا وَكَذَا: قَالَ: الْحَمْدُ لِلَّهِ،الْجَنَّةُ لِلَّهِ يُدْخِلُهَا مَنْ يَشَاءُ، وَإِنِّي رَأَيْتُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ رُؤْيَا،رَأَيْتُ كَأَنَّ رَجُلا أَتَانِي فَقَالَ لِي: انْطَلِقْ، فَذَهَبْتُ مَعَهُ، فَسَلَكَ بِي فِي نَهْجٍ عَظِيمٍ، فَعُرِضَتْ عَلَيَّ طَرِيقٌ عَلَى يَسَارِي، فَأَرَدْتُ أَنْ أَسْلُكَهَا، فَقَالَ: إِنَّكَ لَسْتَ مِنْ أَهْلِهَا، ثُمَّ عُرِضَتْ عَلَيَّ طَرِيقٌ عَنْ يَمِينِي، فَسَلَكْتُهَا، حَتَّى إِذَا انْتَهَيْتُ إِلَى جَبَلٍ زَلَقٍ فَأَخَذَ بِيَدِي، فَزَجَّلَ بِي،فَإِذَا أَنَا عَلَى ذُرْوَتِهِ، فَلَمْ أَتَقَارَّ وَلَمْ أَتَمَاسَكْ، وَإِذَا عَمُودٌ مِنْ حَدِيدٍ فِي ذُرْوَتِهِ حَلْقَةٌ مِنْ ذَهَبٍ، فَأَخَذَ بِيَدِي فَزَجَّلَ بِي، حَتَّى أَخَذْتُ بِالْعُرْوَةِ، فَقَالَ: اسْتَمْسَكْتَ؟ قُلْتُ: نَعَمْ،فَضَرَبَ الْعَمُودَ بِرِجْلِهِ، فَاسْتَمْسَكْتُ بِالْعُرْوَةِ، فَقَالَ: قَصَصْتُهَا عَلَى النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: " رَأَيْتَ خَيْرًا، أَمَّا الْمَنْهَجُ الْعَظِيمُ فَالْمَحْشَرُ، وَأَمَّا الطَّرِيقُ الَّتِي عُرِضَتْ عَنْ يَسَارِكَ، فَطَرِيقُ أَهْلِ النَّارِ، وَلَسْتَ مِنْ أَهْلِهَا، وَأَمَّا الطَّرِيقُ الَّتِي عُرِضَتْ عَنْ يَمِينِكَ، فَطَرِيقُ َهْلِ الْجَنَّةِ، وَأَمَّا الْجَبَلُ الزَّلَقُ فَمَنْزِلُ الشُّهَدَاءِ، وَأَمَّا الْعُرْوَةُ الَّتِي اسْتَمْسَكْتَ بِهَا، فَعُرْوَةُ الإِسْلامِ، فَاسْتَمْسِكْ بِهَا حَتَّى تَمُوتَ " فَأَنَا أَرْجُو أَنْ أَكُونَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ، فَإِذَا هُوَ عَبْدُاللَّهِ بْنُ سَلامٍ ۔
* تخريج: م/فضائل الصحابۃ ۳۳ (۲۴۸۴)، (تحفۃ الأشراف: ۵۳۳۰)، وقد أخرجہ: خ/مناقب الأنصار۱۹ (۳۸۱۳)، حم (۲/۳۴۳، ۳۶۷ ۵/۴۵۲) (صحیح)
(یہ سند حسن ہے، اور اصل حدیث صحیح مسلم میں: جریر عن الاعمش عن سلیمان بن مسہر عن خرشہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: نیز یہ صحیح بخاری میں بھی ہے: کما فی التخریج۔
۳۹۲۰- خرشہ بن حر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب میں مدینہ آیا تو مسجد نبوی میں چند بو ڑھو ں کے پاس آکر بیٹھ گیا، اتنے میں ایک بو ڑھا اپنی لا ٹھی ٹیکتے ہوئے آیا ،تو لوگوں نے کہا :جسے کوئی جنتی آدمی دیکھنا پسند ہو وہ اس شخص کو دیکھ لے، پھر اس نے ایک ستون کے پیچھے جا کر دو رکعت صلاۃ ادا کی، تو میں ان کے پاس گیا، اور ان سے عرض کیا کہ آپ کی نسبت کچھ لو گوں کا ایسا ایسا کہنا ہے ؟ انہوں نے کہا:الحمدللہ! جنت اللہ کی ملکیت ہے وہ جسے چا ہے اس میں داخل فرمائے ،میں نے رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں ایک خواب دیکھا تھا ، میں نے دیکھا،گویا ایک شخص میرے پاس آیا، اور کہنے لگا: میرے ساتھ چلو، تو میں اس کے ساتھ ہو گیا ،پھر وہ مجھے ایک بڑے میدان میں لے کر چلا، پھر میرے با ئیں جا نب ایک راستہ سامنے آیا، میں نے اس پر چلنا چاہا تو اس نے کہا :یہ تمہا را راستہ نہیں،پھر دائیں طرف ایک راستہ سامنے آیا تو میں اس پر چل پڑایہا ں تک کہ جب میں ایک ایسے پہاڑ کے پاس پہنچا جس پر پیر نہیں ٹکتا تھا، تو اس شخص نے میرا ہا تھ پکڑا اور مجھ کوڈھکیلایہا ں تک کہ میں اس چو ٹی پر پہنچ گیا، لیکن وہاں پر میں ٹھہر نہ سکا اور نہ وہاں کو ئی ایسی چیزتھی جسے میں پکڑ سکتا،اچانک مجھے لو ہے کا ایک کھمبا نظر آیاجس کے سر ے پر سونے کا ایک کڑا تھا ، پھر اس شخص نے میرا ہا تھ پکڑا، اور مجھے دھکا دیا یہاں تک کہ میں نے وہ کڑا پکڑ لیا، تو اس نے مجھ سے پوچھا: کیا تم نے مضبو طی سے پکڑلیا؟ میں نے کہا: ہا ں، میں نے پکڑ لیا، پھر اس نے کھمبے کو پائوں سے ٹھو کر ما ری، لیکن میں کڑاپکڑے رہا ۔
میں نے یہ خواب نبی اکرم ﷺ سے بیان کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: ''تم نے خو اب تو بہت ہی اچھا دیکھا ،وہ بڑا میدان میدان حشر تھا، اور جو راستہ تمہارے با ئیں جا نب دکھایا گیا وہ جہنمیوں کا راستہ تھا، لیکن تم جہنم والوں میں سے نہیں ہو اور وہ راستہ جو تمہارے دا ئیں جا نب دکھایا گیا وہ جنتیوں کا راستہ ہے، اور جوپھسلنے والا پہاڑ تم نے دیکھا وہ شہیدوں کا مقام ہے، اور وہ کڑا جو تم نے تھاما وہ اسلام کا کڑاہے، لہٰذ ا تم اسے مر تے دم تک مضبو طی سے پکڑ ے رہو،تو مجھے امید ہے کہ میں اہل جنت میں ہوں گااور وہ (بوڑھے آدمی ) عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ تھے۔


3921- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلانَ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، حَدَّثَنَا بُرَيْدَةُ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: " رَأَيْتُ فِي الْمَنَامِ أَنِّي أُهَاجِرُ مِنْ مَكَّةَ إِلَى أَرْضٍ بِهَا نَخْلٌ، فَذَهَبَ وَهَلِي إِلَى أَنَّهَا يَمَامَةُ أَوْ هَجَرٌ، فَإِذَا هِيَ الْمَدِينَةُ، يَثْرِبُ، وَرَأَيْتُ فِي رُؤْيَايَ هَذِهِ، أَنِّي هَزَزْتُ سَيْفًا فَانْقَطَعَ صَدْرُهُ، فَإِذَا هُوَ مَا أُصِيبَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ أُحُدٍ، ثُمَّ هَزَزْتُهُ فَعَادَ أَحْسَنَ مَا كَانَ. فَإِذَا هُوَ مَا جَاءَ اللَّهُ بِهِ مِنَ الْفَتْحِ وَاجْتِمَاعِ الْمُؤْمِنِينَ، وَرَأَيْتُ فِيهَا أَيْضًا بَقَرًا، وَاللَّهُ خَيْرٌ، فَإِذَا هُمُ النَّفَرُ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ أُحُدٍ، وَإِذَا الْخَيْرُ مَا جَاءَ اللَّهُ بِهِ مِنَ الْخَيْرِ بَعْدُ، وَثَوَابِ الصِّدْقِ الَّذِي آتَانَا اللَّهُ بِهِ يَوْمَ بَدْرٍ "۔
* تخريج: خ/المناقب ۲۵ (۳۶۲۲)، م/الرؤیا ۴ (۲۲۷۲)، (تحفۃ الأشراف: ۹۰۴۳)، وقد أخرجہ: دي/الرؤیا ۱۳ (۲۲۰۴) (صحیح)
۳۹۲۱- ابو مو سیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ''میں نے خو اب میں دیکھا کہ میں مکہ سے ایسی سرزمین کی طرف ہجرت کر رہا ہوں جہاں کھجورکے درخت (بہت) ہیں، پھر میر اخیا ل یما مہ (ریاض) یاہجر (احساء) کی طرف گیا، لیکن وہ مدینہ ( یثرب )نکلا ،اور میں نے اسی خواب میں یہ بھی دیکھا کہ میں نے ایک تلو ار ہلا ئی جس کا سرا ٹوٹ گیا ،اس کی تعبیر وہ صدمہ ہے جو احد کے دن مسلمانوں کو لاحق ہوا، ا س کے بعد میں نے پھر تلوار لہرائی تووہ پہلے سے بھی بہتر ہو گئی، اس کی تعبیر وہ فتح اور وہ اجتماعیت ہے جو اللہ نے بعد میں مسلمانوں کو عطا کی، پھر میں نے اسی خواب میں کچھ گائیں بھی دیکھیں،اور یہ آواز سنی ''وَاللّٰہُ خَیْرٌ'' یعنی اللہ بہتر ہے، ا س کی تعبیر یہ تھی کہ چند مسلمان جنگ احد کے دن کام آئے ۱ ؎ ،''واللهُ خيرٌ '' کی آواز آنے سے مرا د وہ بہتری تھی جو اللہ تعالی نے ہمیں اس کے بعد دی، اور وہ سچا ثواب ہے جو غزوہ بدر میں اللہ تعالی نے ہمیں عطاکیا ''۔
وضاحت ۱ ؎ : تو گایوں کا ذبح ہو نا ان لوگوں کی شہا دت کی طرف اشارہ تھا۔


3922- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ،عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " رَأَيْتُ فِي يَدِي سِوَارَيْنِ مِنْ ذَهَبٍ، فَنَفَخْتُهُمَا، فَأَوَّلْتُهُمَا هَذَيْنِ الْكَذَّابَيْنِ: مُسَيْلِمَةَ وَالْعَنْسِيَّ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۰۹۷)، وقد أخرجہ: خ/المناقب ۲۵ (۳۶۲۱)، م/الرؤیا ۴ (۲۲۷۴)، ت/الرؤیا ۱۰( ۲۲۹۲)، حم (۲/۳۳۸، ۳۴۴) (صحیح)
۳۹۲۲- ابو ہر یر ہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' میں نے خو اب میں سونے کے دو کنگن دیکھے، پھر میں نے انہیں پھو نک ما ری ( تو وہ اڑ گئے )، پھر میں نے اس کی تعبیر یہ سمجھی کہ اس سے مراد نبوت کے دونوں جھوٹے دعوے دار مسیلمہ اور عنسی ہیں ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : نبوت کے یہ دونوں جھوٹے دعویدار مارے گئے ، اسود عنسی فیروز دیلمی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ سے ماراگیا، اور مسیلمہ کذاب وحشی بن حرب حبشی رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں مارا گیا۔


3923- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ هِشَامٍ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ قَابُوسَ قَالَ: قَالَتْ أُمُّ الْفَضْلِ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! رَأَيْتُ كَأَنَّ فِي بَيْتِي عُضْوًا مِنْ أَعْضَائِكَ، قَالَ: " خَيْرًا رَأَيْتِ، تَلِدُ فَاطِمَةُ غُلامًا فَتُرْضِعِيهِ " فَوَلَدَتْ حُسَيْنًا، أَوْحَسَنًا فَأَرْضَعَتْهُ بِلَبَنِ قُثَمٍ، قَالَتْ: فَجِئْتُ بِهِ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ، فَوَضَعْتُهُ فِي حَجْرِهِ فَبَالَ، فَضَرَبْتُ كَتِفَهُ، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: " أَوْجَعْتِ ابْنِي،رَحِمَكِ اللَّهُ ! " ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۰۵۵، ومصباح الزجاجۃ: ۱۳۷۱)، وقد أخرجہ: د/الطہارۃ ۱۳۷ (۳۷۵)، حم (۶/۳۳۹) (ضعیف)
(سند میں قابوس اور ام الفضل رضی اللہ عنہا کے درمیان انقطاع ہے)
۳۹۲۳- قابو س کہتے ہیں کہ ام الفضل رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے خو اب میں دیکھا ہے کہ آپ کے جسم کا ایک ٹکڑا میرے گھر میں آگیا ہے ، آپ ﷺ نے فرمایا:'' تم نے اچھا خواب دیکھا ہے، فا طمہ کو اللہ تعا لی بیٹا عطا کر ے گا اور تم اسے دودھ پلا ئو گی'' ،پھر جب حسین یا حسن ( رضی اللہ عنہما ) پیدا ہو ئے توانہوں نے ان کو دودھ پلا یا، جو قثم بن عبا س کادودھ تھا، پھر میں اس بچے کو لے کر نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں آئی، اور آپ کی گود میں بٹھا دیا، اس بچے نے پیشاب کر دیا، میں نے اس کے کندھے پر ما را تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ''تم نے میرے بچے کوتکلیف پہنچا ئی ہے، اللہ تم پر رحم کرے!'' ۔


3924- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، أَخْبَرَنِي ابْنُ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَنِي مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ، أَخْبَرَنِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ رُؤْيَا النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: " رَأَيْتُ امْرَأَةً سَوْدَائَ ثَائِرَةَ الرَّأْسِ، خَرَجَتْ مِنَ الْمَدِينَةِ حَتَّى قَامَتْ بِالْمَهْيَعَةِ، وَهِيَ الْجُحْفَةُ، فَأَوَّلْتُهَا وَبَائً بِالْمَدِينَةِ، فَنُقِلَ إِلَى الْجُحْفَةِ "۔
* تخريج: خ/التعبیر ۴۱ (۷۰۳۸)، ت/الرؤیا (۲۲۹۰)، (تحفۃ الأشراف: ۷۰۲۳)، وقد أخرجہ: حم (۲/۲۷، ۸۹، ۱۰۴، ۱۰۷، ۱۱۷)، دي/الرؤیا ۱۳ (۲۲۰۷) (صحیح)
۳۹۲۴- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نبی اکرم ﷺ کے خو اب کے متعلق روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ''میں نے خواب میں دیکھاکہ ایک کا لی عورت جس کے با ل بکھرے ہوئے تھے، مدینہ سے نکلی یہاں تک کہ مقام مہیعہ آکررکی، اور وہ جحفہ ہے، پھر میں نے اس کی تعبیرمدینے کی وبا سے کی جسے جحفہ ۱؎ منتقل کردیا گیا ''۔
وضاحت ۱ ؎ : یہی اہل شام کی میقات ہے۔


3925- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ، أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنِ ابْنِ الْهَادِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِاللَّهِ أَنَّ رَجُلَيْنِ مِنْ بَلِيٍّ قَدِمَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ، وَكَانَ إِسْلامُهُمَا جَمِيعًا،فَكَانَ أَحَدُهُمَا أَشَدَّ اجْتِهَادًا مِنَ الآخَرِ، فَغَزَا الْمُجْتَهِدُ مِنْهُمَا فَاسْتُشْهِدَ، ثُمَّ مَكَثَ الآخَرُ بَعْدَهُ سَنَةً، ثُمَّ تُوُفِّيَ، قَالَ طَلْحَةُ: فَرَأَيْتُ فِي الْمَنَامِ: بَيْنَا أَنَا عِنْدَ بَابِ الْجَنَّةِ، إِذَا أَنَابِهِمَا، فَخَرَجَ خَارِجٌ مِنَ الْجَنَّةِ فَأَذِنَ لِلَّذِي تُوُفِّيَ الآخِرَ مِنْهُمَا، ثُمَّ خَرَجَ، فَأَذِنَ لِلَّذِي اسْتُشْهِدَ، ثُمَّ رَجَعَ إِلَيَّ فَقَالَ: ارْجِعْ، فَإِنَّكَ لَمْ يَأْنِ لَكَ بَعْدُ، فَأَصْبَحَ طَلْحَةُ يُحَدِّثُ بِهِ النَّاسَ، فَعَجِبُوا لِذَلِكَ: فَبَلَغَ ذَلِكَ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ، وَحَدَّثُوهُ الْحَدِيثَ، فَقَالَ: " مِنْ أَيِّ ذَلِكَ تَعْجَبُونَ ؟" فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ! هَذَا كَانَ أَشَدَّ الرَّجُلَيْنِ اجْتِهَادًا، ثُمَّ اسْتُشْهِدَ، وَدَخَلَ هَذَا الآخِرُ الْجَنَّةَ قَبْلَهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " أَلَيْسَ قَدْ مَكَثَ هَذَا بَعْدَهُ سَنَةً؟ " قَالُوا: بَلَى، قَالَ: " وَأَدْرَكَ رَمَضَانَ فَصَامَ، وَصَلَّى كَذَا وَكَذَا مِنْ سَجْدَةٍ فِي السَّنَةِ؟ " قَالُوا: بَلَى، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " فَمَا بَيْنَهُمَا أَبْعَدُ مِمَّا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالأَرْضِ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۵۰۱۷، ومصباح الزجاجۃ: ۱۳۷۲)، وقد أخرجہ: حم (۱/۱۶۳) (صحیح)
(سند میں ابوسلمہ اور طلحہ کے مابین انقطاع ہے ، لیکن دوسرے شواہد کی بناء پر حدیث صحیح ہے)
۳۹۲۵- طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ دو ر دراز کے دو شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حا ضر ہوئے ، وہ دونوں ایک ساتھ اسلا م لا ئے تھے، ان میں ایک دوسرے کی نسبت بہت ہی محنتی تھا، تو محنتی نے جہادکیا اور شہیدہوگیا،پھر دوسرا شخص ا س کے ایک سال بعد تک زندہ رہا، اس کے بعد وہ بھی مر گیا،طلحہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میں جنت کے دروازے پر کھڑا ہوں، اتنے میں وہ دونوں شخص نظر آئے اور جنت کے اندر سے ایک شخص نکلا، اور اس شخص کو اندر جا نے کی اجا زت دی جس کا انتقال آخر میں ہو ا تھا، پھر دوسری با ر نکلا، اور اس کو اجا زت دی جو شہید کردیا گیا تھا، اس کے بعد اس شخص نے میرے پاس آکر کہا: تم واپس چلے جا ئو، ابھی تمہا را وقت نہیں آیا ،صبح اٹھ کر طلحہ رضی اللہ عنہ لو گوں سے خواب بیان کر نے لگیتو لو گوں نے بڑی حیر ت ظا ہر کی، پھر خبر رسول اللہ ﷺ کو پہنچی ، اورلوگوں نے یہ سا را قصہ اور واقعہ آپ سے بیان کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: ''تمہیں کس با ت پر تعجب ہے؟'' انہوں نے کہا: اللہ کے رسول !پہلا شخص نہا یت عبا دت گزارتھا،پھر وہ شہید بھی کردیا گیا، اور یہ دوسرا اس سے پہلے جنت میں داخل کیا گیا ! آپ ﷺ نے فرمایا: '' کیا یہ اس کے بعد ایک سال مزید زندہ نہیں رہا؟''، لو گوں نے عر ض کیا: کیوں نہیں، ضرور زندہ رہا، آپ ﷺ نے فرمایا: '' ایک سال میں تو اس نے رمضا ن کا مہینہ پا یا ، صیام رکھے، اور صلاۃ بھی پڑھی اور اتنے سجدے کئے، کیا یہ حقیقت نہیں ہے؟لو گوں نے عر ض کیا :یہ تو ہے ،آپ ﷺ نے فرمایا: ''تو اسی وجہ سے ان دونوں ( کے درجوں) میں زمین و آسمان کے فا صلہ سے بھی زیا دہ دوری ہے '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : معلوم ہوا کہ اللہ تعالی کے یہاں کوئی عمل ضائع ہونے والا نہیں بشرطیکہ خلوص دل کے ساتھ اس کوراضی کرنے کے لیے کیا ہو ،اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ تھوڑی عبادت کا درجہ بڑے عابداور زاہد سے بڑھ جاتا ہے، خلوص اور محبت الہی کے ساتھ تھوڑا عمل بھی سینکڑوں اعمال سے زیادہ ہے۔


3926- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ الْهُذَلِيُّ، عَنِ ابْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " أَكْرَهُ الْغِلَّ، وَأُحِبُّ الْقَيْدَ الْقَيْدُ، ثَبَاتٌ فِي الدِّينِ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۵۸۵)، وقد أخرجہ: خ/التعبیر ۲۶ (۷۰۱۷)، م/الرؤیا (۲۲۶۳)، د/الأدب ۹۶ (۵۰۱۹)، ت/الرؤیا ۱ (۲۲۷۰)، دي/الرؤیا ۱۳ (۲۲۰۶) (ضعیف)
(سند میں ابو بکرا لہذلی متروک الحدیث ہے، لیکن موقوفا ثابت ہے، ملاحظہ ہو: فتح البار ی : ۱۲؍ ۴۰۴- ۴۱ )
۳۹۲۶- ابو ہر یر ہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''میں خواب میں گلے میں زنجیر اور طوق دیکھنے کو ناپسند کرتاہوں، اور پاؤں میں بیڑی دیکھنے کو پسند کرتا ہوں ، کیوں کہ بیڑی کی تعبیر دین میں ثابت قدمی ہے '' ۔

* * *​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207

{ 36- كِتَاب الْفِتَنِ }
۳۶-کتاب: فتنوں سے متعلق احکام ومسائل ۱ ؎


1- بَاب الْكَفِّ عَمَّنْ قَالَ: لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ
۱-باب: ''لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ'' کہنے والے سے ہاتھ روک لینے کا بیان​
وضاحت ۱ ؎ : فتنہ ہر اس فساد کو کہتے ہیں جو مسلمانوں میں واقع ہو خواہ یہ فساد آپس کی لڑائی جھگڑے کا ہو یاگمراہی وبداعتقادی کا یا مال دولت اور آل اولاد کا جو اللہ تعالی سے غافل کردے ، رسول اکرم ﷺ نے اپنی امت میں جو بڑے بڑے فتنے واقع ہوں گے ان کی خبر دے دی تھی۔


3927- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ وَحَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَقُولُوا: لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ،فَإِذَا قَالُوهَا، عَصَمُوا مِنِّي دِمَائَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ، إِلابِحَقِّهَا، وَحِسَابُهُمْ عَلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ "۔
* تخريج: حدیث حفص بن غیاث أخرجہ: م/الإیمان ۸ (۲۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۳۶۷)، وحدیث أبي معاویۃ أخرجہ: د/الجہاد ۱۰۴ (۲۶۴۰)، ت/الإیمان ۱ (۲۶۰۶)، ن/المحاربۃ ۱ (۳۹۸۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۵۰۶)، وقد أخرجہ: خ/الزکاۃ ۱ (۱۳۹۹)، الجہاد ۱۰۲ (۲۹۴۶)، المرتدین ۳ (۶۹۲۴)، الاعتصام ۲ (۷۲۸۴)، حم (۲/۵۲۸) (صحیح)
۳۹۲۷- ابو ہر یر ہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا:''مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اس وقت تک لو گوں سے جنگ کر وں جب تک و ہ ''لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ'' نہ کہہ دیں ،جب وہ '' لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ '' کا اقرا ر کر لیں ( اور شرک سے تائب ہوجائیں) تو انہوں نے اپنے ما ل اور اپنی جا ن کو مجھ سے بچا لیا، مگران کے حق کے بدلے ۱؎ اور ان کا حسا ب اللہ تعالی کے سپرد ہے'' ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : '' ان کے حق کے بدلے'' کا مطلب یہ ہے کہ اگرکسی نے اس کلمہ کے اقرارکے بعد کوئی ایساجرم کیا جوقابل حدہے تو وہ حداس پر نافذہوگی مثلاً چوری کی توہاتھ کاٹا جائے گا، زناکیا توسوکوڑوں کی یارجم کی سزادی جائے گی، کسی کو ناحق قتل کیا تو قصاص میں اسے قتل کیا جائے گا۔
وضاحت ۲؎ : ''اوران کا حساب اللہ کے سپردہے ''کا مطلب یہ ہے کہ اگر وہ قبول اسلام میں مخلص نہیں ہوں گے بلکہ منافقانہ طورپر اسلام کا اظہار کریں گے یا قابل حدجرم کاارتکاب کریں گے، لیکن اسلامی عدالت اور حکام کے علم میں ان کا جرم نہیں آسکا اور وہ سزاسے بچ گئے ، توان کا حساب اللہ کے سپردہوگا یعنی آخرت میں اللہ تعالیٰ ان کا فیصلہ فرمائے گا۔


3928- حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَقُولُوا: لاإِلَهَ إِلا اللَّهُ، فَإِذَا قَالُوا: لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ،عَصَمُوا مِنِّي دِمَائَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ، إِلا بِحَقِّهَا، وَحِسَابُهُمْ عَلَى اللَّهِ "۔
* تخريج: م/الإیمان ۸ (۲۱)، ن/الجہاد ۱ (۳۰۹۲)، تحریم الدم ۱ (۳۹۸۲)، (تحفۃ الأشراف: ۲۲۹۸)، وقد أخرجہ: حم (۳/۳۹۴) (صحیح)
۳۹۲۸- جا بر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:''مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ میں اس وقت تک لو گوں سے لڑ تا رہوں جب تک وہ '' لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ '' کا اقرار نہ کر لیں، جب انہوں نے اس کا اقرار کر لیا، تو اپنے مال اور اپنی جان کو مجھ سے بچالیا، مگر ان کے حق کے بدلے، اور ان کا حساب اللہ تعالی کے سپرد ہے''۔


3929- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ بَكْرٍ السَّهْمِيُّ، حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ أَبِي صَغِيرَةَ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ سَالِمٍ أَنَّ عَمْرَو بْنَ أَوْسٍ أَخْبَرَهُ أَنَّ أَبَاهُ أَوْسًا أَخْبَرَهُ قَالَ: إِنَّا لَقُعُودٌ عِنْدَ النَّبِيِّ ﷺ: " وَهُوَ يَقُصُّ عَلَيْنَا وَيُذَكِّرُنَا،إِذْ أَتَاهُ رَجُلٌ فَسَارَّهُ"، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: " اذْهَبُوا بِهِ فَاقْتُلُوهُ "،فَلَمَّا وَلَّى الرَّجُلُ، دَعَاهُ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ، فَقَالَ: " هَلْ تَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ؟ " قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: " اذْهَبُوا فَخَلُّوا سَبِيلَهُ، فَإِنَّمَا أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَقُولُوا: لاإِلَهَ إِلا اللَّهُ، فَإِذَا فَعَلُوا: ذَلِكَ حَرُمَ عَلَيَّ دِمَاؤُهُمْ وَأَمْوَالُهُمْ "۔
* تخريج: ن/تحریم ۱ (۳۹۸۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۳۸، ومصباح الزجاجۃ: ۱۳۷۳)، وقد أخرجہ: حم (۴/۸)، دي/السیر ۱۰ (۲۴۹۰) (صحیح)
۳۹۲۹- اوس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نبی اکرم ﷺ کے پاس بیٹھے ہو ئے تھے، اور آپ حکا یا ت و وا قعا ت سنا کر ہمیں نصیحت فرما رہے تھے، کہ اتنے میں ایک شخص حا ضرہوا، اور اس نے آپ کے کان میں کچھ با تیں کیں ،تو آپ ﷺ نے فرمایا:''اسے لے جا کر قتل کر دو'' ، جب وہ جا نے لگا تو آپ ﷺ نے اسے پھر واپس بلا یا، اور پو چھا : ''کیا تم ''لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ '' کہتے ہو؟'' اس نے عرض کیا: جی ہاں، آپ ﷺ نے فرمایا:'' تم لو گ جا ئو اسے چھو ڑ دو، کیو نکہ مجھے لو گوں سے لڑا ئی کر نے کا حکم دیا گیا ہے یہاں تک کہ وہ '' لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ '' کہیں، جب انہوں نے '' لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ '' کہہ دیا توا ب ان کا خون اور مال مجھ پر حرام ہو گیا''۔


3930- حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنِ السُّمَيْطِ بْنِ السَّمِيرِ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ الْحُصَيْنِ قَالَ: أَتَى نَافِعُ بْنُ الأَزْرَقِ وَأَصْحَابُهُ، فَقَالُوا: هَلَكْتَ يَا عِمْرَانُ! قَالَ: مَا هَلَكْتُ، قَالُوا: بَلَى، قَالَ: مَا الَّذِي أَهْلَكَنِي؟ قَالُوا: قَالَ اللَّهُ: {وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لاَ تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ كُلُّهُ لِلَّهِ}، قَالَ: قَدْ قَاتَلْنَاهُمْ حَتَّى نَفَيْنَاهُمْ، فَكَانَ الدِّينُ كُلُّهُ لِلَّهِ، إِنْ شِئْتُمْ حَدَّثْتُكُمْ حَدِيثًا سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ، قَالُوا: وَأَنْتَ سَمِعْتَهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ؟ قَالَ: نَعَمْ، شَهِدْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ، وَقَدْ بَعَثَ جَيْشًا مِنَ الْمُسْلِمِينَ إِلَى الْمُشْرِكِينَ،فَلَمَّا لَقُوهُمْ قَاتَلُوهُمْ قِتَالا شَدِيدًا، فَمَنَحُوهُمْ أَكْتَافَهُمْ،فَحَمَلَ رَجُلٌ مِنْ لُحْمَتِي عَلَى رَجُلٍ مِنَ الْمُشْرِكِينَ بِالرُّمْحِ. فَلَمَّا غَشِيَهُ قَالَ: أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، إِنِّي مُسْلِمٌ فَطَعَنَهُ فَقَتَلَهُ،فَأَتَى رَسُولَ اللَّهِ ﷺ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! هَلَكْتُ، قَالَ: " وَمَا الَّذِي صَنَعْتَ؟ " مَرَّةً أَوْ مَرَّتَيْنِ،فَأَخْبَرَهُ بِالَّذِي صَنَعَ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " فَهَلا شَقَقْتَ عَنْ بَطْنِهِ فَعَلِمْتَ مَا فِي قَلْبِهِ؟ "، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! لَوْ شَقَقْتُ بَطْنَهُ لَكُنْتُ أَعْلَمُ مَا فِي قَلْبِهِ، قَالَ: " فَلا أَنْتَ قَبِلْتَ مَاتَكَلَّمَ بِهِ، وَلا أَنْتَ تَعْلَمُ مَا فِي قَلْبِهِ "، قَالَ: فَسَكَتَ عَنْهُ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ، فَلَمْ يَلْبَثْ إِلا يَسِيرًا حَتَّى مَاتَ، فَدَفَنَّاهُ فَأَصْبَحَ عَلَى ظَهْرِ الأَرْضِ، فَقَالُوا: لَعَلَّ عَدُوًّا نَبَشَهُ، فَدَفَنَّاهُ، ثُمَّ أَمَرْنَا غِلْمَانَنَا يَحْرُسُونَهُ، فَأَصْبَحَ عَلَى ظَهْرِ الأَرْضِ، فَقُلْنَا: لَعَلَّ الْغِلْمَانَ نَعَسُوا، فَدَفَنَّاهُ، ثُمَّ حَرَسْنَاهُ بِأَنْفُسِنَا، فَأَصْبَحَ عَلَى ظَهْرِ الأَرْضِ، فَأَلْقَيْنَاهُ فِي بَعْضِ تِلْكَ الشِّعَابِ .
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۸۲۸، ومصباح الزجاجۃ: ۱۳۷۴)، وقد أخرجہ: حم (۴/۴۳۸) (حسن)
(سند میں سوید بن سعید متکلم فیہ راوی ہیں،نیز علی بن مسہر کے یہاں نابینا ہونے کے بعد غرائب کی روایت ہے، لیکن اگلے طریق سے یہ حسن ہے بوصیری نے اس کی تحسین کی ہے)
۳۹۳۰- عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نا فع بن أزرق اور ان کے اصحاب (وتلامیذ) آئے، اور کہنے لگے : عمران! آپ ہلا ک و بر باد ہو گئے! عمران رضی اللہ عنہ نے کہا: میں ہلا ک نہیں ہوا، انہوں نے کہا: کیوں نہیں ،آپ ضرور ہلا ک ہوگئے، تو انہوں نے کہا: آخر کس چیز نے مجھے ہلا ک کیا ہے ؟ انہوں نے کہا: اللہ تعالی فر ما تا ہے: '' وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لاَ تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ كُلُّهُ لِلَّهِ'' [ سورة الأنفال : 39] (کا فروں و مشرکوں سے قتال کرو یہاں تک کہ فتنہ ( یعنی شرک ) با قی نہ رہے، اور دین پورا کا پورا اللہ کا ہو جا ئے)، عمران رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم نے کفا ر سے اسی طرح لڑا ئی کی یہاں تک کہ ہم نے ان کو وطن سے باہر نکال دیا، اور دین پورا کا پورا اللہ کا ہو گیا ، اگر تم چاہو تو میں تم سے ایک حدیث بیان کروں جو میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنی ہے، ان لوگوں نے کہا: کیا آپ نے اسے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے ؟ کہا: ہا ں، میں نے خو د رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے ،میں آپ کے ساتھ موجو د تھا، اور آپ نے مسلما نوں کا ایک لشکر مشرکین کے مقابلے کے لئے بھیجا تھا، جب ان کی مڈبھیڑ مشرکوں سے ہوئی، تو انہوں نے ان سے ڈٹ کر جنگ کی، آخر کار مشرکین نے اپنے کندھے ہما ری جا نب کر دئے ( یعنی ہار کر بھاگ نکلے)، میرے ایک رشتہ دار نے مشرکین کا تعاقب کر کے ایک مشرک پر نیزے سے حملہ کیا ،جب اس کو پکڑ لیا، (اور کا فر نے اپنے آپ کو خطرہ میں دیکھا) تواس نے ''أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ'' کہہ کر اپنے آپ کو مسلما ن ظاہر کیا ، لیکن اس نے اسے بر چھی سے ما ر کر قتل کر دیا، پھر وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آیا، اور اس نے عر ض کیا: اللہ کے رسول !میں ہلا ک اور برباد ہو گیا ،آپ ﷺ نے فرمایا:'' تم نے کیا کیا؟'' ایک با ر یا دو بارکہا، اس نے آپ ﷺ سے اپنا وہ واقعہ بتایا جو اس نے کیا تھا، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:''تم نے اس کا پیٹ کیوں نہیں پھاڑا کہ جان لیتے اس کے دل میں کیا ہے؟ '' اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اگر میں اس کا پیٹ پھاڑ دیتا تو کیا میں جان لیتا کہ اس کے دل میں کیا تھا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ''تم نے نہ تو اس کی بات قبو ل کی، اور نہ تمہیں اس کی دلی حالت معلوم تھی'' ۱؎ ۔
عمرا ن رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اس کے متعلق خا موش رہے،پھر وہ کچھ ہی دن زندہ رہ کر مر گیا، ہم نے اسے دفن کیا، لیکن صبح کو اس کی لا ش قبر کے با ہر پڑ ی تھی ،لو گوں نے خیا ل ظا ہر کیا کہ کسی دشمن نے اس کی لا ش نکا ل پھینکی ہے، خیر پھر ہم نے اس کو دفن کیا ،اس کے بعد ہم نے اپنے غلا موں کو حکم دیا کہ اس کی قبر کی حفا ظت کر یں ،لیکن پھر صبح اس کی لا ش قبر سے باہر پڑ ی تھی، ہم نے سمجھا کہ شا ید غلا م سو گئے ( اور کسی دشمن نے آکر پھر اس کی لا ش نکا ل کر با ہر پھینک دی )، آخر ہم نے اس کو دفن کیا، اور را ت بھر خو د پہر ا دیا لیکن پھر اس کی لاش صبح کے وقت قبر کے با ہرتھی، پھر ہم نے اس کی لا ش ان گھاٹیوں میں سے ایک گھاٹی میں ڈال دی'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : اس لئے جب اس نے کلمہء شہادت پڑ ھ کر اپنے آپ کو مسلمان کہا تواسے چھو ڑ دینا تھا ۔
وضاحت ۲ ؎ : نافع بن ازرق وغیرہ نے عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کو مسلمانوں سے لڑنے کا مشورہ دیا ،اور یہ سمجھے کہ آیت میں قتال کا حکم فتنہ کے دفع کرنے کے لئے ہے اورعمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے اس حکم کو چھوڑدیاہے، جب عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے یہ جواب دیا کہ آیت میں فتنے سے شرک مراد ہے، اور مشرکین سے ہم ہی لوگوں نے لڑائی کی تھی ، اور شرک کو مٹایاتھا، اب تم مسلمانوں سے لڑنا چاہتے ہو جو کلمہ گوہیں ؟تمہارا حال وہی ہوگا جو اس شخص کا ہوا کہ زمین نے اس کی لاش قبول نہیں کی، اس کو بار بار دفن کرتے تھے ،اور زمین اس کو نکال کر قبرسے باہر پھینک دیتی تھی، مسلمان کو قتل کر نے کی یہی سزا ہے ، دوسرے ایک صحابی سے منقول ہے کہ مسلمانوں کے آپسی فتنے میں ان کو بھی لڑنے کے لئے کہا گیا، تو انہوں نے کہا کہ ہم نے تو اس واسطے کفارکے خلاف جنگ کی تھی کہ فتنہ باقی نہ رہے اور اللہ تعالی کا دین ایک ہو جائے اور تم اس لئے لڑتے ہو کہ فتنہ پیدا ہو ، آج کل اسلامی ملکوں میں جہادکے نام پر مسلمانوں اورقانونی طریقے سے مقیم غیرمسلموں یا ان کی رعایا یعنی ذمیوں کو قتل کرنے والے قطعاً کسی خیراوربھلائی والے عمل پر نہیں ہیں، یہ خارجی اور تکفیری ذہن رکھنے والے خود صحیح راستہ سے دورہیں، اللہ انہیں ہدایت دے۔آمین۔


3930/أ- حَدَّثَنَا إِسْماعِيلُ بْنُ حَفْصٍ الأَبلِيُّ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنِ السُّمَيْطِ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ الْحُصَيْنِ قَالَ: بَعَثَنَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فِي سَرِيَّةٍ، فَحَمَلَ رَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ عَلَى رَجُلٍ مِنَ الْمُشْرِكِينَ، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ، وَزَادَ فِيهِ: فَنَبَذَتْهُ الأَرْضُ: فَأُخْبِرَ النَّبِيُّ ﷺ وَقَالَ: " إِنَّ الأَرْضَ لَتَقْبَلُ مَنْ هُوَ شَرٌّ مِنْهُ، وَلَكِنَّ اللَّهَ أَحَبَّ أَنْ يُرِيَكُمْ تَعْظِيمَ حُرْمَةِ ـ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۸۲۸)، ومصباح الزجاجۃ: ۱۳۷۵) (حسن)
( آخری عمر میں حفص بن غیاث کے حافظہ میں معمولی تبدیلی آگئی تھی، لیکن سابقہ طریق سے تقویت پاکر یہ حسن ہے، بوصیری نے اس کی تحسین کی ہے)
۳۹۳۰/أ- اس سند سے بھی عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم کو ایک سریہ کے ساتھ روانہ کیاتو ایک مسلمان نے ایک مشرک پر حملہ کیا ،پھر راوی نے وہی سا بقہ قصہ بیان کیا، اور اتنا اضا فہ کیا کہ زمین نے اس کو پھینک دیا ،اس کی خبر نبی اکرم ﷺ کو دی گئی تو آپ ﷺ نے فرمایا:'' زمین تو اس سے بھی بد تر آدمی کو قبول کرلیتی ہے، لیکن اللہ تعالی نے چاہا کہ تمہیں یہ دکھائے کہ'' لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ '' کی حرمت کس قدر بڑی ہے'' ۱ ؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : جب کافر نے لاالہ الا اللہ کہہ دیا تو اس کو چھوڑ دینا چاہئے اس شخص نے اس کلمے کا احترام نہیں کیا تو اس کی سزا اللہ تعالی نے تم کو دکھلادی تا کہ آئندہ تم کو خیال رہے کہ کسی مسلمان کو متقتل کرو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
2- بَاب حُرْمَةِ دَمِ الْمُؤْمِنِ وَمَالِهِ
۲-باب: مومن کی جا ن و مال کی حرمت کا بیان​


3931- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ: " أَلا! إِنَّ أَحْرَمَ الأَيَّامِ يَوْمُكُمْ هَذَا، أَلا! وَإِنَّ أَحْرَمَ الشُّهُورِ شَهْرُكُمْ هَذَا،أَلا! وَإِنَّ أَحْرَمَ الْبَلَدِ بَلَدُكُمْ هَذَا، أَلا! وَإِنَّ دِمَائَكُمْ وَأَمْوَالَكُمْ عَلَيْكُمْ حَرَامٌ كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا،فِي شَهْرِكُمْ هَذَا، فِي بَلَدِكُمْ هَذَا،أَلا هَلْ بَلَّغْتُ؟ " قَالُوا: نَعَمْ،قَالَ: " اللَّهُمَّ اشْهَدْ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۴۰۲۲، ومصباح الزجاجۃ: ۱۳۷۶)، وقد أخرجہ: حم (۳/۸۰، ۳۷۱) (صحیح)
۳۹۳۱- ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حجۃالوداع کے موقع پر فرمایا:'' آگا ہ رہو! تما م دنوں میں سب سے زیا دہ حرمت والاتمہا را یہ دن ہے، آ گاہ رہو ! تما م مہینوں میں سب سے زیا دہ حرمت والا تمہارا یہ مہینہ ہے، آگاہ رہو! شہروں میں سب سے زیادہ حرمت والا تمہارا یہ شہر ہے،آگا ہ رہو ! تمہا ری جا ن، تمہا رے ما ل ایک دوسرے پراسی طرح حرام ہیں جیسے تمہارا یہ دن تمہارے اس مہینے میں، تمہارے اس شہر میں، آگاہ رہو ! کیا میں نے تمہیں اللہ کا پیغام نہیں پہنچا دیا؟ '' لوگوں نے عرض کیا : ہاں، آپ نے پہنچا دیا، آپ ﷺ نے فرمایا:'' اے اللہ تو گواہ رہ''۔


3932- حَدَّثَنَا أَبُو الْقَاسِمِ بْنُ أَبِي ضَمْرَةَ نَصْرُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سُلَيْمَانَ الْحِمْصِيُّ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ أَبِي قَيْسٍ النَّصْرِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ عَمْرو قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَطُوفُ بِالْكَعْبَةِ وَيَقُولُ: " مَا أَطْيَبَكِ وَأَطْيَبَ رِيحَكِ، مَا أَعْظَمَكِ وَأَعْظَمَ حُرْمَتَكِ، وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ! لَحُرْمَةُ الْمُؤْمِنِ أَعْظَمُ عِنْدَ اللَّهِ حُرْمَةً مِنْكِ، مَالِهِ وَدَمِهِ، وَأَنْ نَظُنَّ بِهِ إِلا خَيْرًا "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۷۲۸۴، ومصباح الزجاجۃ: ۱۳۷۷) (حسن)
(سند میں نصربن محمد ضعیف ہیں، ملاحظہ ہو : تراجع الألبانی: رقم: ۸۹)
۳۹۳۲- عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کوخانہ کعبہ کا طواف کر تے دیکھا، اورآپ ﷺ یہ فرمارہے تھے:'' تو کتنا عمدہ ہے، تیری خو شبو کتنی اچھی ہے ،تو کتنا بڑے رتبہ والا ہے اور تیری حرمت کتنی عظیم ہے، لیکن قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جا ن ہے، مو من کی حرمت (یعنی مو من کے جا ن و ما ل کی حرمت) اللہ تعالی کے نزدیک تجھ سے بھی زیا دہ ہے، اس لئے ہمیں مو من کے ساتھ حسن ظن ہی رکھنا چا ہئے''۔


3933- حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ عَبْدِالْوَهَّابِ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ نَافِعٍ وَيُونُسُ بْنُ يَحْيَى جَمِيعًا، عَنْ دَاوُدَ بْنِ قَيْسٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ مَوْلَى عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَامِرِ بْنِ كُرَيْزٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: " كُلُّ الْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ حَرَامٌ، دَمُهُ وَمَالُهُ وَعِرْضُهُ "۔
* تخريج: م/البر والصلۃ ۱۰ (۲۵۶۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۹۴۱)، وقد أخرجہ: حم (۲/۲۷۷، ۳۱۱، ۳۶۰) (صحیح)
۳۹۳۳- ابو ہر یر ہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' ہر مسلما ن کا خو ن ، ما ل اور عز ت وآبرو دوسرے مسلمان پر حرام ہے''۔


3934- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ الْمِصْرِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، عَنْ أَبِي هَانِئٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَالِكٍ الْجَنْبِيِّ أَنَّ فَضَالَةَ بْنَ عُبَيْدٍ حَدَّثَهُ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: "الْمُؤْمِنُ مَنْ أَمِنَهُ النَّاسُ عَلَى أَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ، وَالْمُهَاجِرُ مَنْ هَجَرَ الْخَطَايَا وَالذُّنُوبَ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۰۳۹، ومصباح الزجاجۃ: ۱۳۷۸)، وقد أخرجہ: حم (۶/۲۰، ۲۱، ۲۲) (صحیح)
۳۹۳۴- فضا لہ بن عبید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:''مو من وہ ہے جس سے لو گوں کو اپنی جان اور مال کا خو ف اور ڈر نہ ہو، اور مہاجر وہ ہے جو برائیوں اور گنا ہوں کو ترک کر دے''۔
 
Top