• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابن ماجه

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
19- بَاب لُزُومِ الْمَسَاجِدِ وَانْتِظَارِ الصَّلاةِ
۱۹ -باب: مسجد میں بیٹھ کر صلاۃ کے انتظار کی فضیلت​


799- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: <إِنَّ أَحَدَكُمْ إِذَا دَخَلَ الْمَسْجِدَ، كَانَ فِي صَلاةٍ، مَاكَانَتِ الصَّلاةُ تَحْبِسُهُ، وَالْمَلائِكَةُ يُصَلُّونَ عَلَى أَحَدِكُمْ مَا دَامَ فِي مَجْلِسِهِ الَّذِي صَلَّى فِيهِ .يَقُولُونَ: اللَّهُمَّ اغْفِرْ لَهُ، اللَّهُمَّ ارْحَمْهُ، اللَّهُمَّ تُبْ عَلَيْهِ، مَا لَمْ يُحْدِثْ فِيهِ، مَا لَمْ يُؤْذِ فِيهِ>۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۵۴۸)، وقد أخرجہ: خ/الوضوء ۳۵ (۱۷۶)، الصلاۃ ۶۱ (۴۴۵)، ۸۷ (۴۷۷)، الأذان ۳۰ (۶۴۷)، ۳۶ (۶۵۹)، البیوع ۴۹ (۲۱۱۹)، بدء الخلق (۳۲۲۹) ۷ (۶۴۹)، م/المساجد ۴۹ (۶۴۹)، د/الصلاۃ ۲۰ (۴۶۹)، ت/الصلاۃ ۱۲۹ (۳۳۰)، ن/المساجد ۴۰ (۷۳۴)، ط/قصر الصلاۃ ۱۸ (۵۴)، حم (۲/۲۶۶، ۲۸۹، ۳۱۲، ۳۹۴، ۴۱۵، ۴۲۱، ۴۸۶، ۵۰۲) (صحیح)
۷۹۹- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' جب کوئی شخص مسجد میں داخل ہوکر صلاۃکے لئے رکے رہتا ہے تو وہ صلاۃ ہی میں رہتا ہے،اور فرشتے اس شخص کے لئے اس وقت تک دعائے رحمت کرتے رہتے ہیں جب تک وہ اس جگہ بیٹھا رہتاہے جس جگہ اس نے صلاۃ ادا کی ہے،وہ کہتے ہیں: اے اللہ! اسے بخش دے،اے اللہ! اس پر رحم کر، اے اللہ! اس کی توبہ قبول فرما، یہ دعا یوں ہی جاری رہتی ہے جب تک کہ اس کا وضوء نہ ٹوٹے، اور جب تک وہ ایذا نہ دیں '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : فرشتے اس کے لئے اس وقت تک دعا کرتے رہتے ہیں جب تک وہ باو ضوء رہتا ہے، اگر وہ زبان یاہاتھ سے کسی مسلمان کو تکلیف پہنچادیتا ہے تو فرشتوں کی دعا بند ہو جاتی ہے، اس فضیلت کو حاصل کرنے کے لئے مسجد میں ہمیشہ با وضوء رہنا چاہئے، اگر چہ بے وضوء بھی رہ سکتا ہے، مگر یہ فضیلت حاصل نہ ہوگی۔


800- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا شَبَابَةُ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنِ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: <مَا تَوَطَّنَ رَجُلٌ مُسْلِمٌ الْمَسَاجِدَ لِلصَّلاةِ وَالذِّكْرِ، إِلا تَبَشْبَشَ اللَّهُ لَهُ كَمَا يَتَبَشْبَشُ أَهْلُ الْغَائِبِ بِغَائِبِهِمْ، إِذَا قَدِمَ عَلَيْهِمْ>۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۳۸۹، ومصباح الزجاجۃ: ۳۰۰)، وقد أخرجہ: حم (۲/۳۰۷، ۳۲۸، ۳۴۰، ۴۵۳) (صحیح)
۸۰۰- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ''جو مسلمان مسجد کو صلاۃ اور ذکر الٰہی کے لئے اپنا گھر بنالے تو اللہ تعالی اس سے ایسا خوش ہوتا ہے جیسے کہ کوئی شخص بہت دن غائب رہنے کے بعد گھر واپس لوٹے،تو گھر والے خوش ہوتے ہیں '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ا للہ کی خوشی اپنے ظاہری معنوں پر ہے، لیکن اس کی کیفیت اور حقیقت وہی جانتا ہے، تاویل کی ضرورت نہیں، اہل حدیث کا تمام صفات اللہ میں یہی طریقہ ہے۔


801- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ الدَّارِمِيُّ، حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: صَلَّيْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ الْمَغْرِبَ، فَرَجَعَ مَنْ رَجَعَ، وَعَقَّبَ مَنْ عَقَّبَ، فَجَائَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ مُسْرِعًا، قَدْ حَفَزَهُ النَّفَسُ، وَقَدْ حَسَرَ عَنْ رُكْبَتَيْهِ، فَقَالَ: < أَبْشِرُوا، هَذَا رَبُّكُمْ قَدْ فَتَحَ بَابًا مِنْ أَبْوَابِ السَّمَائِ، يُبَاهِي بِكُمُ الْمَلائِكَةَ يَقُولُ: انْظُرُوا إِلَى عِبَادِي قَدْ قَضَوْا فَرِيضَةً، وَهُمْ يَنْتَظِرُونَ أُخْرَى >۔
* تخريج: تفرد بہ، ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۸۹۴۷، ومصباح الزجاجۃ: ۳۰۱)، وقد أخرجہ: حم (۲/ ۱۹۷، ۲۰۸) (صحیح)
( ملا حظہ ہو: الصحیحہ: ۶۶۱)
۸۰۱- عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اکرم ﷺ کے ساتھ مغرب کی صلاۃ پڑھی، کچھ لوگ واپس چلے گئے، اور کچھ لوگ پیچھے مسجد میں رہ گئے،اتنے میں رسول اکرم ﷺ تیزی کے ساتھ آئے، آپ کا سانس پھول رہا تھا، اورآپ کے دونوں گھٹنے کھلے ہوئے تھے، آپﷺ نے فرمایا: '' خوش ہوجاؤ! یہ تمہارا رب ہے، اس نے آسمان کے دروازوں میں سے ایک دروازہ کھول دیا، اور تمہارا ذکر فرشتوں سے فخریہ فرمارہا ہے اور کہہ رہا ہے: فرشتو! میرے بندوں کو دیکھو، ان لوگوں نے ایک فریضے کی ادائیگی کرلی ہے، اور دوسرے کا انتظار کررہے ہیں '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : تیز تیز آنے کی وجہ سے نبی اکرمﷺ کا سانس پھول گیا اور گھٹنے کھل گئے، اس سے ان لوگوں نے استدلال کیا ہے، جو کہتے ہیں کہ گھٹنے ستر میں داخل نہیں،اس حدیث میں اللہ تعالی کا کلام کرنا،نزول فرمانا، خوش ہوناجیسی صفات کا ذکر ہے، ان کو اسی طرح بلاتاویل و تحریف ماننا ضروری ہے۔


802- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا رِشْدِينُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ دَرَّاجٍ، عَنْ أَبِي الْهَيْثَمِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ قَالَ: <إِذَا رَأَيْتُمُ الرَّجُلَ يَعْتَادُ الْمَسَاجِدَ فَاشْهَدُوا لَهُ بِالإِيمَانِ، قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: +إِنَّمَا يَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللَّهِ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ"، الآيَةَ>۔
* تخريج: ت/الإیمان ۹ (۲۶۱۷)، تفسیر القرآن ۱۰ (۳۰۹۳)، (تحفۃ الأشراف: ۴۰۵۰)، وقد أخرجہ: حم (۳/۶۸، ۷۶)، دي/الصلاۃ ۲۳ (۱۲۵۹) (ضعیف)
( اس سند میں رشدین بن سعدضعیف ہیں، ملاحظہ ہو: المشکاۃ: ۷۲۳)
۸۰۲- ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' جب تم کسی شخص کو مسجد میں(صلاۃ کے لئے) پابندی سے آتے جاتے دیکھو تو اس کے ایمان کی شہادت دو''، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: {إِنَّمَا يَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللَّهِ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ} [سورة التوبة: ۱۸] ( اللہ کی مسجدوں کو وہی لوگ آباد کرتے ہیں جو اللہ اور آخرت کے دن پہ ایمان رکھتے ہیں) ۔


* * * *​
* * *​
* *​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207

{ 5- كِتَاب إِقَامَةِ الصَّلاةِ وَالسُّنَّةِ فِيهَا }
۵ -کتاب: اقامت صلاۃ اور اس کے سنن و آداب اور احکام ومسائل


1- بَاب افْتِتَاحِ الصَّلاةِ
۱-باب: صلاۃ شروع کرنے کا بیان​


803- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ الطَّنَافِسِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، حَدَّثَنِي عَبْدُالْحَمِيدِ ابْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ عَطَائٍ؛ قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا حُمَيْدٍ السَّاعِدِيَّ يَقُولُ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ إِذَا قَامَ إِلَى الصَّلاةِ اسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ، وَرَفَعَ يَدَيْهِ وَقَالَ: <اللَّهُ أَكْبَرُ>.
* تخريج: خ/الأذان ۴۵ (۸۲۸)، د/الصلاۃ ۱۱۷ (۹۶۴، ۹۶۵)، ت/الصلاۃ ۷۸ (۳۰۴، ۳۰۵)، ن/التطبیق ۶ (۱۰۴۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۸۹۷)، وقد أخرجہ: حم (۵/۴۲۴) دي/الصلاۃ ۳۲ (۱۲۷۳) (صحیح)
۸۰۳- ابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب صلاۃ کے لئے کھڑے ہوتے تو قبلہ رخ ہوتے، اور اپنے دونوں ہاتھ اٹھاکر ''اللهُ أَكْبَرْ'' کہتے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس تکبیرکو تکبیر تحریمہ کہتے ہیں، جو متفقہ طور پر صلاۃ میں فرض ہے، علماء اہل حدیث کے نزدیک جلسہ اولیٰ اور جلسۂ استراحت کے سوا، صلاۃ کے تمام ارکان جو نبی اکرم ﷺ سے ثابت ہیں، فرض ہیں، اور تکبیر تحریمہ اور ہر رکعت میں سورئہ فاتحہ اور تشہد اخیر اور سلام کے علاوہ اذکار صلاۃ میں سے کوئی ذکر واجب نہیں ہے، اس کے علاوہ اور ادعیہ و اذکار سنت ہیں، اب تکبیر تحریمہ کے وقت ہاتھ اٹھانا کانوں تک یا مونڈھوں تک دونوں طرح وارد ہے، اور یہ سنت ہے۔


804- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ، حَدَّثَنِي جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ الضُّبَعِيُّ، حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ عَلِيٍّ الرِّفَاعِيُّ، عَنْ أَبِي الْمُتَوَكِّلِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَسْتَفْتِحُ صَلاتَهُ يَقُولُ: < سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِكَ، وَتَبَارَكَ اسْمُكَ، وَتَعَالَى جَدُّكَ، وَلا إِلَهَ غَيْرُكَ >۔
* تخريج: د/الصلاۃ ۱۲۲ (۷۷۵)، ت/الصلاۃ ۶۵ (۲۴۲)، ن/الافتتاح ۱۸ (۹۰۰، ۹۰۱)، (تحفۃ الأشراف: ۴۲۵۲)، وقد أخرجہ: حم (۳/۴۰، ۶۹)، دي/الصلاۃ ۳۳ (۱۲۷۵) (صحیح)
۸۰۴- ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب اپنی صلاۃ شروع کرتے تو یہ دعا پڑھتے: ''سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ و َبِحَمْدِكَ، وَتَبَارَكَ اسْمُكَ، وَتَعَالَى جَدُّكَ، وَلا إِلَهَ غَيْرُكَ'' (اے اللہ! تو پاک ہے اور سب تعریف تیرے لئے ہے، تیرا نام بابرکت ہے، تیری شان بلند ہے، اور تیرے علاوہ کوئی مستحق عبادت نہیں)۔


805- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ الْقَعْقَاعِ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ إِذَا كَبَّرَ سَكَتَ بَيْنَ التَّكْبِيرِ وَالْقِرَائَةِ، قَالَ فَقُلْتُ: بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي، أَرَأَيْتَ سُكُوتَكَ بَيْنَ التَّكْبِيرِ وَالْقِرَائَةِ، فَأَخْبِرْنِي مَا تَقُولُ قَالَ: < أَقُولُ: اللَّهُمَّ بَاعِدْ بَيْنِي وَبَيْنَ خَطَايَايَ كَمَا بَاعَدْتَ بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ، اللَّهُمَّ نَقِّنِي مِنْ خَطَايَايَ كَالثَّوْبِ الأَبْيَضِ مِنَ الدَّنَسِ، اللَّهُمَّ اغْسِلْنِي مِنْ خَطَايَايَ بِالْمَائِ وَالثَّلْجِ وَالْبَرَدِ >۔
* تخريج:خ/الأذان ۸۹ (۷۴۴)، م/المساجد ۲۷ (۵۹۸)، د/الصلاۃ ۱۲۳ (۷۸۱)، ن/الافتتاح ۱۴ (۸۹۵) ۱۵ (۸۹۶)، تحفۃ الأشراف:۱۴۸۹۶)، وقد أخرجہ: حم (۲/۲۳۱، ۴۴۸، ۴۹۴)، دي/الصلاۃ ۳۷ (۱۲۸۰)
(صحیح)
۸۰۵- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب تکبیر تحریمہ کہتے تو تکبیر اور قرأت کے درمیان تھوڑی دیر خاموش رہتے، میں نے عرض کیا: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، مجھے بتائیے آپ تکبیر وقرأت کے درمیان جو خاموش رہتے ہیں تو اس میں کیا پڑھتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ''میں یہ دعا پڑھتا ہوں: اللَّهُمَّ بَاعِدْ بَيْنِيْ وَبَيْنَ خَطَايَايَ كَمَا بَاعَدْتَ بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ، اللَّهُمَّ نَقِّنِي مِنْ خَطَايَايَ كَالثَّوْبِ الأَبْيَضِ مِنَ الدَّنَسِ، اللَّهُمَّ اغْسِلْنِي مِنْ خَطَايَايَ بِالْمَائِ وَالثَّلْجِ وَالْبَرَدِ (اے اللہ !میرے اور میرے گناہوں کے درمیان ایسی دوری کردے جیسی دوری تو نے مشرق ومغرب کے درمیان رکھی ہے، اے اللہ! مجھے گناہوں سے ویسے ہی صاف کردے جس طرح سفید کپڑا میل وکچیل سے صاف کیا جاتا ہے، اے اللہ! میرے گناہوں کو پانی، برف اور اولے سے دھودے)'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : برف اور اولے سے دھونا، اس کا مطلب یہ ہے کہ خوب صفائی کردے، کیونکہ برف اور اولے کا پانی بالکل خالص اور صاف ہوتا ہے، اس میں میل اور کچیل بالکل نہیں ہوتا تو اس سے طہارت بہت اچھی ہوگی، اس قسم کی حدیثیں بہت وارد ہیں، اور قرآن میں بھی موجود ہے "ليغفر لك الله ما تقدم من ذنبك وما تأخر" جن سے یہ نکلتا ہے کہ نبی اکرم ﷺ اپنے گناہوں کی مغفرت چاہتے تھے، حالانکہ آپ ﷺ تمام گناہوں سے مغفورو معصوم تھے، علماء نے اس سلسلے میں کئی باتیں کہیں ہیں، بعضوں نے کہا کہ مراد وہ گناہ ہیں جو آپ ﷺ سے نبوت سے پہلے ہوئے، بعضوں نے کہا صغائر مراد ہیں، او ر صغائر سے آپ ﷺ معصوم نہ تھے، اور حق یہ ہے کہ آپ صغائر اورکبائر دونوں سے پاک تھے، اور اس قسم کی دعاؤں میں آپ ﷺ نے امت کو تعلیم دی ہے، اور مقام تعلیم میں اپنے آپ کو بھی براہ تواضع مثل امت کے ایک شخص کے قرار دیا، اور بعضوں نے کہا انبیاء ورسل کے گناہ اس قسم کے ہیں کہ عوام کے حق میں وہ گناہ ہی نہیں ہیں، لیکن ان کے اللہ سے تقرب کی وجہ سے ان کے حق میں وہ گناہ شمار کئے جاتے ہیں، ایک بزرگ کا قول ہے: ''حسنات الأبرار سئيات المقربين'' ۔


806- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ عِمْرَانَ قَالا: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، حَدَّثَنَا حَارِثَةُ ابْنُ أَبِي الرِّجَالِ، عَنْ عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ إِذَا افْتَتَحَ الصَّلاةَ قَالَ: « سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِكَ، تَبَارَكَ اسْمُكَ، وَتَعَالَى جَدُّكَ، وَلا إِلَهَ غَيْرُكَ >۔
* تخريج: ت/الموا قیت ۶۵ (۲۴۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۸۸۵)، وقد أخرجہ: د/الصلاۃ ۱۲۲ (۷۷۵) (صحیح)


۸۰۶- ام المو منین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ جب صلاۃ شروع کرتے تو یہ دعا پڑھتے: ''سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِكَ، تَبَارَكَ اسْمُكَ ، وَتَعَالَى جَدُّكَ ، وَلا إِلَهَ غَيْرُكَ'' (اے اللہ! تو پاک ہے اورساری تعریفیں تیرے لیے ہیں، تیرا نام بابرکت ہے، تیری شان بلند ہے، اور تیرے علاوہ کوئی مستحق عبادت نہیں) ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
2- بَاب الاسْتِعَاذَةِ فِي الصَّلاةِ
۲-باب: صلاۃ میں اعوذ باللہ پڑھنے (یعنی شیطان سے اللہ کی پناہ مانگنے) کا بیان​


807 - حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ،حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ،حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ عَاصِمٍ الْعَنَزِيِّ، عَنِ ابْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ حِينَ دَخَلَ فِي الصَّلاةِ قَالَ: <اللَّهُ أَكْبَرُ كَبِيرًا، اللَّهُ أَكْبَرُ كَبِيرًا> ثَلاثًا، <الْحَمْدُلِلَّهِ كَثِيرًا، الْحَمْدُ لِلَّهِ كَثِيرًا> ثَلاثًا،<سُبْحَانَ اللَّهِ بُكْرَةً وَأَصِيلا> ثَلاثَ مَرَّاتِ، "اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ، مِنْ هَمْزِهِ وَنَفْخِهِ وَنَفْثِهِ>.
قَالَ عَمْرٌو: هَمْزُهُ الْمُوتَةُ، وَنَفْثُهُ الشِّعْرُ، وَنَفْخُهُ الْكِبْرُ.
* تخريج: د/الصلاۃ ۱۲۱ (۷۶۴)، (تحفۃ الأشراف: ۳۱۹۹)، وقد أخرجہ: حم (۱/۴۰۳، ۴۰۴، ۳/۵۰، ۴/۸۰، ۸۱، ۸۳، ۸۵، ۶/۱۵۶) (ضعیف)
(سند میں عاصم عنزی کی صرف ابن حبان نے توثیق کی ہے، یعنی وہ مجہول ہیں، نیز عاصم کے نام میں بھی اختلاف ہے، لیکن آخری ٹکڑا: ''اللهم إني أعوذ بك من الشيطان'' ثابت ہے، نیز ملاحظہ ہو: الإرواء ۲/۵۴)
۸۰۷ - جُبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم ﷺ کو دیکھا کہ جس وقت آپ صلاۃ میں داخل ہوئے تو آپ نے ''الله أكبر كبيرًا'' تین مرتبہ، ''الحمدلله كثيرًا'' تین مرتبہ، ''سبحان الله بكرة وأصيلاً'' تین مرتبہ کہا، اور پھر ''اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ، مِنْ هَمْزِهِ وَنَفْخِهِ وَنَفْثِهِ'' پڑھا (اے اللہ! میں مردود شیطان کے جنون، وسوسے اور کبروغرور سے تیری پناہ چاہتا ہوں) ۱؎ ۔
عمرو بن مرہ کہتے ہیں کہ شیطان کا ''ہمز'' اس کا جنون، ''نفث'' اس کا شعر ہے، اور ''نفخ'' اس کاکبر ہے ۔
وضاحت ۱؎ : جو شخص متبع سنت ہو اس کو چاہئے کہ کبھی ''سبحانك اللهم..'' پڑھے، کبھی ''اللهم باعد بيني..'' ، کبھی ''إني وجهت''، اور کبھی حدیث میں مذکور یہ دعا اور ہر وہ دعا جو اس موقع پر صحیح اور ثابت ہے، تاکہ ہر ایک سنت کا ثواب ہاتھ آئے، یہ ایسی نعمت غیر مترقبہ ہے جس سے دوسرے لوگ ہمیشہ محروم رہتے ہیں۔


808 - حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْمُنْذِرِ،حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَيْلٍ، حَدَّثَنَا عَطَائُ بْنُ السَّائِبِ، عَنْ أَبِي عَبْدِالرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: <اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ، وَهَمْزِهِ، وَنَفْخِهِ، وَنَفْثِهِ>.
قَالَ: هَمْزُهُ الْمُوتَةُ،وَنَفْثُهُ الشِّعْرُ، وَنَفْخُهُ الْكِبْرُ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۹۳۳۲، ومصباح الزجاجۃ:۳۰۲)، وقد أخرجہ: د/الصلاۃ ۱۲۲ (۷۷۵)، ت/المواقیت ۶۵ (۲۴۲)، حم (۱/۴۰۳) (صحیح)
(سند میں عطاء بن السائب اختلاط کی وجہ سے ضعیف ہیں، اور محمد بن فضیل نے ان سے اختلاط کے بعد روایت کی ہے، نیز ابو عبدالرحمن السلمی کے بارے میں کہا گیا ہے کہ انہوں نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے نہیں سنا ہے، لیکن طرق وشواہد کی وجہ سے حدیث صحیح ہے، تراجع الألبانی: رقم: ۴۷۲، و الإرواء: ۲/۵۴) ۔
۸۰۸- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ''اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ وَ هَمْزِهِ وَنَفْخِهِ وَنَفْثِهِ'' (اے اللہ! میں مردود شیطان کے جنون، وسوسے اور کبروغرور سے تیری پناہ چاہتا ہوں) ۔
راوی کہتے ہیں:''ہمز'' سے مراد اس کا جنون ہے، ''نفث'' سے مراد شعر ہے اور ''نفخ'' سے مراد کبروغرور ہے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : طیبی کہتے ہیں کہ اگر یہ تفسیر حدیث میں داخل ہے تو اس کے سوا دوسری تفسیر نہیں ہوسکتی، اور جو ر اوی نے یہ تفسیر کی ہے تو نفث سے سحر بھی مراد ہوسکتا ہے، اللہ تعالی نے فرمایا: {وَمِن شَرِّ النَّفَّاثَاتِ فِي الْعُقَدِ} [سورة الفلق: 4]، اور ہمز سے شیطان کا وسوسہ بھی مراد ہوسکتا ہے، جیسے قرآن میں ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
3- باب وَضْعِ الْيَمِينِ عَلَى الشِّمَالِ فِي الصَّلاةِ
۳-باب: صلاۃ میں دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھنے کا بیان ۱؎​
وضاحت ۱؎ : اس باب میں اٹھارہ صحابیوں نے روایت کی ہے، اور ارسال یعنی ہاتھوں کا چھوڑ دینا نبی اکرم ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے صحیح سند سے ثابت نہیں ہے، اب علماء کے درمیان اختلاف ہے کہ ہاتھ ناف کے اوپر باندھے یا ناف کے نیچے، ترمذی نے کہاکہ علماء کے نزدیک دونوں طرح درست ہے، او رابن ابی شیبہ نے حسن بصری او ر ابراہیم نخعی اور سعیدبن مسیب او رمحمدبن سیرین اور سعید بن جبیر سے ارسال بھی نقل کیا ہے، او رابن ابی شیبہ نے عمرو بن دینار سے روایت کی کہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما جب صلاۃ پڑھتے تھے تو دونوں ہاتھ چھوڑ دیتے تھے، یہ روایت شاذ ہے، ابو داود میں عبداللہ بن زبیر سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا : ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ پر باندھنا سنت ہے، اور امام مالک سے اس باب میں مختلف روایتیں ہیں، اہل مدینہ نے ان سے ہاتھ باندھنا اور اہل مصر نے ہاتھ چھوڑنا نقل کیا ہے، اور ابن قاسم نے مطلقاً ارسال نقل کیا ہے، اور مالکیہ کا اسی پر عمل ہے، اور امام ابن القیم ''اعلام الموقعین'' میں کہتے ہیں کہ امام مالک کے اس قول سے جس کو ابن قاسم نے روایت کیا کہ مجھ کو ہاتھ نہ باندھنا زیادہ پسند ہے، ہاتھ باندھنے کی متعدد حدیثیں چھوڑ دی گئیں، گرچہ اہل حدیث نے ہاتھ باندھنا اختیار کیا ہے، اور وہ بھی سینے پر، کیونکہ سینے پر ہاتھ باندھنے کی روایت صحیح ابن خزیمہ میں موجود ہے، اور ناف کے نیچے باندھنے میں ایک طرح بے ادبی ہے، اور صحیح مرفوع روایت سے وہ ثابت بھی نہیں، یہ علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے اس کو رزین اور ابو داود نے روایت کیا مگر اس کی سند ضعیف ہے، پھر بھی اگرکوئی ناف کے نیچے ہاتھ باندھے یا ناف کے اوپر سینے کے نیچے تو اس پر کوئی اعتراض نہ کرنا چاہئے کیونکہ امام ترمذی رحمہ اللہ نے فرمایا: ''والكل واسع عندهم'' یعنی ہر ایک میں علماء کے نزدیک وسعت ہے، اور اختلافی مسائل میں صحیح طریقہ یہ ہے کہ لوگوں کو دلائل کی روشنی میں صحیح مسائل بتائے جائیں اور فروعی اختلافات کی بناپر آپس میں اختلافات کو ہوا نہ دیا جائے۔


809- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ،حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ قَبِيصَةَ بْنِ هُلْبٍ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يَؤُمُّنَا، فَيَأْخُذُ شِمَالَهُ بِيَمِينِهِ۔
* تخريج: ت/الموا قیت ۷۳ (۲۵۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۷۳۵) (حسن صحیح)
۸۰۹- ہلب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ ہماری امامت فرماتے تو اپنا بایاں ہاتھ دائیں ہاتھ سے پکڑے رہتے تھے۔


810- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ،حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ،(ح) وحَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مُعَاذٍ الضَّرِيرُ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمَفَضَّلِ، قَالا: حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ كُلَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ،عَنْ وَائِلِ ابْنِ حُجْرٍ؛ قَالَ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ يُصَلِّي، فَأَخَذَشِمَالَهُ بِيَمِينِهِ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۷۸۷)، وقد أخرجہ: د/الصلاۃ ۱۱۶ (۷۲۶)، ن/الافتتاح ۱۱ (۸۹۰)، حم (۴/۳۱۶، ۳۱۸)، دي/الصلاۃ ۳۵ (۱۲۷۷)، ۹۲ (۱۳۹۷) (صحیح)
۸۱۰- وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو صلاۃ پڑھتے ہوئے دیکھاکہ آپ نے اپنا بایاں ہاتھ دائیں ہاتھ سے پکڑا ۔


811- حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ الْهَرَوِيُّ، إِبْرَاهِيمُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ حَاتِمٍ،أَنْبَأَنَا هُشَيْمٌ، أَنْبَأَنَا الْحَجَّاجُ بْنُ أَبِي زَيْنَبَ السُّلَمِيُّ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ؛ قَالَ: مَرَّ بِيَ النَّبِيُّ ﷺ وَأَنَا وَاضِعٌ يَدِي الْيُسْرَى عَلَى الْيُمْنَى، فَأَخَذَ بِيَدِي الْيُمْنَى فَوَضَعَهَا عَلَى الْيُسْرَى۔
* تخريج: د/الصلاۃ ۱۲۰ (۷۵۵)، ن/الافتتاح ۱۰ (۸۸۹)، (تحفۃ الأشراف: ۹۳۷۸)، وقد أخرجہ: حم (۱/۳۴۷) (صحیح)
۸۱۱- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ میرے پاس گزرے اور میں اپنے بائیں ہاتھ کو دائیں ہاتھ پر رکھے ہوئے تھا، توآپﷺ نے میرا دایاں ہاتھ پکڑ کر بائیں ہاتھ پر رکھ دیا ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
4-بَاب افْتِتَاحِ الْقِرَائَةِ
۴ -باب: صلاۃ میں قرأت شروع کرنے کا بیان ۱؎​
وضاحت ۱؎ : قراء ت یعنی قرآن کا پڑھنا صلاۃ میں فرض ہے، اہل حدیث کے نزدیک ہر رکعت میں سورئہ فاتحہ کا پڑھنا فرض ہے۔


812- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، عَنْ حُسَيْنٍ الْمُعَلِّمِ، عَنْ بُدَيْلِ بْنِ مَيْسَرَةَ، عَنْ أَبِي الْجَوْزَائِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَفْتَتِحُ الْقِرَائَةَ بـ {ا لْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ }.
* تخريج: م/الصلاۃ ۴۶ (۴۹۸)، د/الصلاۃ ۱۲۴ (۷۸۳)، (تحفۃ الأشراف:۱۶۰۴۰)، وقد أخرجہ: حم (۶/۳۱، ۱۱۰، ۱۷۱، ۱۹۴، ۲۸۱)، دي/الصلاۃ ۳۱ (۱۲۷۲) (صحیح)
۸۱۲- ام المو منین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ {الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ} سے قرا ء ت شروع کرتے تھے ۔


813- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ،أَنْبَأَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ (ح) و حَدَّثَنَا جُبَارَةُ بْنُ الْمُغَلِّسِ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ، وَأَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ يَفْتَتِحُونَ الْقِرَائَةَ بـ {الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ }.
* تخريج:خ/الأذان ۸۹ (۷۴۳)، م/الصلاۃ ۱۳ (۳۹۹)، د/الصلاۃ ۱۲۴ (۷۸۲)، ت/الصلاۃ ۶۸ (۲۴۶)، ن/الافتتاح ۲۰ (۹۰۳، ۹۰۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۴۲، ۱۴۳۵)، وقد أخرجہ: ط/الصلاۃ ۶ (۳۰)، حم (۳/۱۰۱، ۱۱۱، ۱۱۴، ۱۸۳)، دي/الصلاۃ ۳۴ (۱۲۷۶) (صحیح)
۸۱۳- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ اورابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما { الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ} سے قراءت شروع کرتے تھے ۔


814 - حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ، وَبَكْرُ بْنُ خَلَفٍ، وَعُقْبَةُ بْنُ مُكْرَمٍ قَالُوا: حَدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ رَافِعٍ، عَنْ أَبِي عَبْدِاللَّهِ ابْنِ عَمِّ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يَفْتَتِحُ الْقِرَائَةَ بـ { الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ }.
* تخريج: تفر د بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۴۴۵، ومصباح الزجاجۃ: ۳۰۳) (صحیح)
(سند میں أبو عبد اللہ مجہول الحال ہیں، اور بشربن رافع متکلم فیہ، لیکن اصل حدیث کثرت طرق وشواہد کی وجہ سے صحیح ہے)
۸۱۴- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ {الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ} سے قراءت شروع فرماتے تھے۔
815- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ابْنُ عُلَيَّةَ، عَنِ الْجُرَيْرِيِّ، عَنْ قَيْسِ بْنِ عَبَايَةَ، حَدَّثَنِي ابْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ الْمُغَفَّلِ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: وَقَلَّمَا رَأَيْتُ رَجُلا أَشَدَّ عَلَيْهِ فِي الإِسْلامِ حَدَثًا مِنْهُ، فَسَمِعَنِي وَأَنَا أَقْرَأُ {بِسْمِ اللَّه الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ} فَقَالَ: أَيْ بُنَيَّ! إِيَّاكَ وَالْحَدَثَ، فَإِنِّي صَلَّيْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ، وَمَعَ أَبِي بَكْرٍ، وَمَعَ عُمَرَ، وَمَعَ عُثْمَانَ، فَلَمْ أَسْمَعْ رَجُلا مِنْهُمْ يَقُولُهُ، فَإِذَا قَرَأْتَ فَقُلْ: {الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ}۔
* تخريج: ت/الصلاۃ ۶۶ (۲۴۴)، ن/الافتتاح ۲۲ (۹۰۹)، (تحفۃ الأشراف: ۹۶۶۷)، وقد أخرجہ: حم (۴/۸۵، ۵/۵۴، ۵۵) (ضعیف) (سند میں یزیدبن عبد اللہ بن مغفل مجہول الحال ہے)
۸۱۵- ابن عبداللہ بن مغفل اپنے والد عبد اللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں نے ایسا آدمی بہت کم دیکھا جس کو اسلام میں نئی بات نکالنا ان سے زیادہ ناگوار ہوتا ہو، انہوں نے مجھے {بِسْمِ اللَّه الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ} (بآواز) بلند پڑھتے ہوئے سنا تو کہا: بیٹے! تم اپنے آپ کو بدعات سے بچاؤ، اس لئے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ، ابوبکر، عمراورعثمان رضی اللہ عنہم کے ساتھ صلاۃ پڑھی، لیکن میں نے ان میں سے کسی کو بھی {بِسْمِ اللَّه الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ} بآواز بلند پڑھتے ہوئے نہیں سنا، لہٰذا جب تم قراء ت کرو تو {الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ}سے کرو ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی ''بسم اللہ الرحمن الرحیم'' کوزور سے نہیں پڑھتے تھے، بلکہ آہستہ سے پڑھ کر ''الحمد للہ رب العالمین'' بلند آواز سے پڑھتے، امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا یہی قول ہے، اور اکثر اہل حدیث نے بھی اس کو اختیار کیا ہے، لیکن امام شافعی کا یہ قول ہے کہ ''بسم اللہ الرحمن الرحیم'' سورئہ فاتحہ اور ہر ایک سورہ کا جز ہے، پس جہری صلاۃ میں ''بسم اللہ'' جہر سے پڑھے، اور سری صلاۃ میں آہستہ سے پڑھے، ''بسم اللہ'' کا جہر نہ کرنا اولی ہے، ''بسم اللہ'' کو زور سے نہ پڑھنے کی احادیث صحیح ہیں، اور جہر سے پڑھنے والی احادیث سب ضعیف ہیں، اس لئے اگر کوئی ''بسم اللہ'' جہر سے بھی پڑھے تب بھی کوئی حرج نہیں ہے، سورئہ فاتحہ اور ہر سورت کے شروع میں ''بسم اللہ'' کا پڑھنا ضروری ہے، گو آہستہ سے ہی سہی، صحیح تر روایات میں ''بسم اللہ'' کو سری پڑھنا ہی وارد ہے، افضل یہی ہے کہ ''بسم اللہ'' سراً پڑھے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
5- باب الْقِرَائَةِ فِي صَلاةِ الْفَجْرِ
۵ -باب: فجر میں پڑھی جانے والی سورتوں کابیان​


816- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ،حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، وَسُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ زِيَادِ ابْنِ عِلاقَةَ عَنْ قُطْبَةَ بْنِ مَالِكٍ، سَمِعَ النَّبِيَّ ﷺ، يَقْرَأُفِي الصُّبْحِ {وَالنَّخْلَ بَاسِقَاتٍ لَهَا طَلْعٌ نَضِيدٌ}۔
* تخريج: م/الصلاۃ ۳۵ (۴۵۷)، ت/الصلاۃ ۱۱۲ (۳۰۶)، ن/الافتتاح ۴۳ (۹۵۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۰۸۷)، وقد أخرجہ: حم (۴/۳۲۲) دي/الصلاۃ ۶۶ (۱۲۳۵) (صحیح)
۸۱۶- قطبہ بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کو فجرمیں آیت کریمہ :{وَالنَّخْلَ بَاسِقَاتٍ لَهَا طَلْعٌ نَضِيدٌ} پڑھتے ہوئے سنا ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یہ آیت سورئہ ق (۱۰) میں ہے، مطلب یہ ہے کہ سورئہ (ق) اور اس کے برابر سورتیں فجر میں پڑھتے۔


817- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ أَصْبَغَ، مَوْلَى عَمْرِو بْنِ حُرَيْثٍ ،عَنْ عَمْرِو بْنِ حُرَيْثٍ قَالَ: صَلَّيْتُ مَعَ النَّبِيِّ ﷺ: فَكَانَ يَقْرَأُ فِي الْفَجْرِ، كَأَنِّي أَسْمَعُ قِرَائَتَهُ {فَلا أُقْسِمُ بِالْخُنَّسِ الْجَوَارِ الْكُنَّسِ}۔
* تخريج: د/الصلاۃ ۱۳۵ (۸۱۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۷۱۵)، وقد أخرجہ: م/ الصلاۃ ۳۵ (۴۵۶)، ن/ الافتتاح ۴۴ (۹۵۲)، حم (۴/۳۰۶، ۳۰۷)، دي/الصلاۃ ۶۶ (۱۳۳۷) (حسن)
۸۱۷- عمروبن حُریث رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کے ساتھ صلاۃ پڑھی، آپ فجر میں : {فَلا أُقْسِمُ بِالْخُنَّسِ الْجَوَارِ الْكُنَّسِ} ۱؎ کی قراء ت فرمارہے تھے، گویا کہ میں یہ قراء ت اب بھی سن رہاہوں ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی سورئہ تکویر کی قرأت فرمارہے تھے یہاں بھی جز ء بول کر کل مراد لیا گیا ہے۔


818- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ، حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ، عَنْ عَوْفٍ، عَنْ أَبِي الْمِنْهَالِ، عَنْ أَبِي بَرْزَةَ (ح) وحَدَّثَنَا سُوَيْدٌ، حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ أَبِيهِ حَدَّثَهُ أَبُو الْمِنْهَالِ، عَنْ أَبِي بَرْزَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ كَانَ يَقْرَأُ فِي الْفَجْرِ مَا بَيْنَ السِّتِّينَ إِلَى الْمِائَةِ۔
* تخريج: م/الصلاۃ ۳۵ (۶۴۷)، ن/المواقیت ۲ (۴۹۶)، ۱۶ (۵۲۶)، ۲۰ (۵۳۱)، الافتتاح ۴۲ (۹۴۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۶۰۷)، وقد أخرجہ: خ/المواقیت ۱۱ (۵۴۱)، ۱۳ (۵۴۷)، ۲۳ (۵۶۸)، ۳۸ (۵۹۹)، د/الصلاۃ ۳ (۳۹۸)، حم (۴/۴۲۰، ۴۲۱، ۴۲۳، ۴۲۴، ۴۲۵)، دي/الصلاۃ ۶۶ (۱۳۳۸) (صحیح)
۸۱۸- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ فجر کی صلاۃ میں ساٹھ (۶۰) آیات سے سو (۱۰۰) آیات تک پڑھا کرتے تھے ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی سورئہ (ق) پڑھی جس میں یہ آیت ہے، یہاں بھی جزء بول کر کل مراد لیا گیاہے۔


819- حَدَّثَنَا أَبُو بِشْرٍ، بَكْرُ بْنُ خَلَفٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ حَجَّاجٍ الصَّوَّافِ، عَنْ يَحْيَى ابْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ أَبِي قَتَادَةَ، وَعَنْ أبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ، يُصَلِّي بِنَا، فَيُطِيلُ فِي الرَّكْعَةِ الأُولَى مِنَ الظُّهْرِ وَيُقْصِرُ فِي الثَّانِيَةِ، وَكَذَلِكَ فِي الصُّبْحِ.
* تخريج: تفردبہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۱۱۶، ۱۲۱۴۰)، وقد أخرجہ: خ/الأذان ۹۶ (۷۵۹)، ۹۷ (۷۶۲)، ۱۰۷ (۷۷۶)، ۱۰۹ (۷۷۸)، ۱۱۰ (۷۷۹)، م/الصلاۃ ۳۴ (۴۵۱)، د/الصلاۃ ۱۲۹ (۷۹۹)، ن/الافتتاح ۵۶ (۹۷۵)، حم (۴/۳۸۳، ۵/۲۹۵، ۳۰۰، ۳۰۵، ۳۰۷، ۳۰، ۳۱۰، ۳۱۱)، دي/الصلاۃ ۶۳ (۱۳۳۰) (صحیح)
۸۱۹- ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ ہمیں صلاۃ پڑھاتے تو ظہر کی پہلی رکعت لمبی کرتے، اور دوسری رکعت چھوٹی کرتے، اور اسی طرح فجر کی صلاۃ میں بھی کرتے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : پہلی رکعت میں قراء ت کو طول دینا بہ نسبت دوسری رکعت کے مستحب ہے، اور اس کا بڑا فائدہ یہ ہے کہ لوگوں کو جماعت مل جائے، او رپہلی رکعت نہ چھوٹے، اور بعضوں نے کہا یہ صلاۃ فجر کے لیے خاص ہے، واللہ اعلم۔


820- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ السَّائِبِ قَالَ: قَرَأَ النَّبِيُّ ﷺ: فِي صَلاةِ الصُّبْحِ بـ: (الْمُؤْمِنُونَ)، فَلَمَّا أَتَى عَلَى ذِكْرِ عِيسَى، أَصَابَتْهُ شَرْقَةٌ، فَرَكَعَ، يَعْنِي سَعْلَةً۔
* تخريج: خ/الأذان ۱۰۶ (۷۷۴ تعلیقاً)، م/الصلاۃ ۳۵ (۴۵۵)، د/الصلاۃ ۸۹ (۶۴۹)، ن/الافتتاح ۷۶ (۱۰۰۸)، (تحفۃ الأشراف: ۵۳۱۳)، وقد أخرجہ: حم (۳/۴۱۱) (صحیح)
۸۲۰- عبداللہ بن سائب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے فجر کی صلاۃ میں''سورہ مومنون'' کی تلاوت فرمائی، جب اس آیت پہ پہنچے جس میں عیسیٰ وضاحت کا ذکر ہے، تو آپ کو کھانسی آگئی، اور آپ رکوع میں چلے گئے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس باب کی احادیث میں رسول اللہ ﷺ کی مقدار قراء ت مختلف بتائی گئی ہے، جس سے حسب موقعہ پڑھنے پر استدلال کیا جا سکتا ہے، آخری حدیث سے یہ بات بھی ثابت ہوئی کہ پوری سورہ کا پڑھنا ضروری نہیں، پہلی رکعت میں قراء ت طویل کرنا، اور دوسری میں ہلکی کرنا بھی سنت رسول ہے، اور ظاہر ی فائدہ اس کا یہ ہے کہ لوگوں کی اکثریت رکعت فوت ہونے سے بچ جاتی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
6- بَاب الْقِرَائَةِ فِي صَلاةِ الْفَجْرِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ
۶ -باب: جمعہ کے دن فجر میں پڑھی جانے والی سورتوں کابیان​


821- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ خَلادٍ الْبَاهِلِيُّ،حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، وَعَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، قَالا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مُخَوَّلٍ، عَنْ مُسْلِمٍ الْبَطِينِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ؛ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَقْرَأُ فِي صَلاةِ الصُّبْحِ، يَوْمَ الْجُمُعَةِ: الم تَنْزِيلُ، السَّجْدَةَ، وَهَلْ أَتَى عَلَى الإِنْسَانِ۔
* تخريج: م/الجمعۃ ۱۰ (۸۷۹)، د/الصلاۃ ۲۱۸ (۱۰۷۴، ۱۰۷۵)، ت/الصلاۃ ۲۵۸ (۵۲۰)، ن/الافتتاح ۴۷ (۹۵۷)، الجمعۃ ۳۸ (۱۴۲۲)، (تحفۃ الأشراف: ۵۶۱۳)، وقد أخرجہ: حم (۱/۲۲۶، ۳۰۷، ۳۲۸، ۳۳۴)
(صحیح)
۸۲۱- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جمعہ کے دن صبح کی صلاۃ میں ''الم تَنْزِيلُ، السَّجْدَةَ'' (سورہ سجدہ)، اور''هَلْ أَتَى عَلَى الإِنْسَانِِ'' (سورہ دہر) پڑھتے تھے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ جمعہ کو صلاۃ فجر میں ان دونوں سورتوں کا پڑھنا مستحب ہے ''كان يقرأ''کے صیغے سے اس پر نبی اکرمﷺ کی مواظبت کا پتہ چلتاہے، بلکہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت میں جس کی تخریج طبرانی نے کی ہے، اس پر آپ کی مداومت کی تصریح آئی ہے، اس میں شاید یہ حکمت ہوگی کہ ان دونوں سورتوں میں انسان کی پیدائش، خاتمہ، آدم، جنت اورجہنم کا ذکر ہے، اور قیامت کا حال ہے، اور یہ سب باتیں جمعہ کے دن ہونے والی ہیں، اور کچھ ہوچکی ہیں۔


822- حَدَّثَنَا أَزْهَرُ بْنُ مَرْوَانَ، حَدَّثَنَا الْحَارِثُ بْنُ نَبْهَانَ، حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ بَهْدَلَةَ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ؛ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَقْرَأُ فِي صَلاةِ الْفَجْرِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ "الم تَنْزِيلُ" و "هَلْ أَتَى عَلَى الإِنْسَانِ ".
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۳۹۴۵، ومصباح الزجاجۃ: ۳۰۴) (صحیح)
(سند میں حارث بن نبہان ضعیف ہیں، لیکن ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی اگلی حدیث سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے، نیز ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث پہلے گذر ی)
۸۲۲- سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جمعہ کے دن صبح کی صلاۃ میں ''الم تَنْزِيلُ'' اور ''هَلْ أَتَى عَلَى الإِنْسَانِِ'' پڑھاکرتے تھے ۔


823- حَدَّثَنَا حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ وَهْبٍ،أَخْبَرَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ كَانَ يَقْرَأُ فِي صَلاةِ الصُّبْحِ، يَوْمَ الْجُمُعَةِ: «الم تَنْزِيلُ»، وَ «هَلْ أَتَى عَلَى الإِنْسَانِ»۔
* تخريج: خ/الجمعۃ ۱۰ (۸۹۱)، سجود القرآن ۲ (۱۰۲۸)، م/الجمعۃ ۱۷ (۸۸۰)، ن/الافتتاح ۴۷ (۹۵۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۶۴۷)، وقد أخرجہ: حم (۲/۴۷۲)، دي/الصلاۃ ۱۹۲ (۱۵۸۳) (صحیح)
۸۲۳- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جمعہ کے دن صلاۃ فجر میں ''الم التَنْزِيلُ '' اور ''هَلْ أَتَى عَلَى الإِنْسَانِِ'' پڑھاکرتے تھے ۔


824- حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، أَنْبَأَنَا إِسْحَاقُ بْنُ سُلَيْمَانَ، أَنْبَأَنَا عَمْرُو بْنُ أَبِي قَيْسٍ، عَنْ أَبِي فَرْوَةَ، عَنْ أَبِي الأَحْوَصِ،عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ أَنّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ كَانَ يَقْرَأُ فِي صَلاةِ الصُّبْحِ، يَوْمَ الْجُمُعَةِ: "الم التَنْزِيلُ" وَ "هَلْ أَتَى عَلَى الإِنْسَانِ ".
قَالَ إِسْحَاقُ بْنُ سُلَيْمَانَ: هَكَذَا حَدَّثَنَا عَمْرٌو، عَنْ عَبْدِاللَّهِ، لا أَشُكُّ فِيهِ۔
* تخريج: تفر د بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۹۵۰۱، ومصباح الزجاجۃ: ۳۰۴/أ) (صحیح)
۸۲۴- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جمعہ کے دن فجر کی صلاۃ میں ''الم التَنْزِيلُ'' اور ''هَلْ أَتَى عَلَى الإِنْسَانِ'' پڑھاکرتے تھے ۔
اسحاق بن سلیمان کہتے ہیں کہ عمرو بن ابی قیس نے ہم سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ایسے ہی روایت کی ہے مجھے اس میں کوئی شک نہیں ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
7- باب الْقِرَائَةِ فِي الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ
۷ -باب: ظہر او رعصرکی قرأت کا بیان​


825- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا رَبِيعَةُ بْنُ يَزِيدَ، عَنْ قَزَعَةَ قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ عَنْ صَلاةِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ، فَقَالَ: لَيْسَ لَكَ فِي ذَلِكَ خَيْرٌ، قُلْتُ: بَيِّنْ، رَحِمَكَ اللَّهُ، قَالَ: كَانَتِ الصَّلاةُ تُقَامُ لِرَسُولِ اللَّهِ ﷺ، الظُّهْرَ، فَيَخْرُجُ أَحَدُنَا إِلَى الْبَقِيعِ، فَيَقْضِي حَاجَتَهُ، فَيَجِيئُ، فَيَتَوَضَّأُ، فَيَجِدُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ، فِي الرَّكْعَةِ الأُولَى مِنَ الظُّهْرِ۔
* تخريج: م/الصلاۃ ۳۴ (۴۵۴)، ن/ الافتتاح ۵۶ (۹۷۴)، (تحفۃ الأشراف: ۴۲۸۲) (صحیح)
۸۲۵- قزعہ کہتے ہیں کہ میں نے ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے رسول اکرم ﷺ کی صلاۃ کے متعلق پوچھا، تو انہوں نے کہا: تمہارے لئے اس میں کوئی خیر نہیں ۱؎ ، میں نے اصرار کیا کہ آپ بیان توکیجیے، اللہ آپ پہ رحم کرے، ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ ﷺ کے لئے صلاۃ ظہر کی اقامت کہی جاتی اس وقت ہم میں سے کوئی بقیع جاتا، اور قضائے حاجت (پیشاب پاخانہ) سے فارغ ہوکر واپس آتا، پھر وضو ء کرتا تو وہ رسول اللہ ﷺ کو ظہر کی پہلی رکعت میں پاتا ۲ ؎ ۔
وضاحت ۱؎ : کیوں کہ علم عمل کے لئے ہے، اگر تم اس پر عمل نہ کرسکے تو وہ تمہارے خلاف قیامت کے دن حجت ہوگا۔
وضاحت ۲؎ : مسجد نبوی سے مشرقی سمت میں بقیع غرقد نامی علاقہ ہے، جس جگہ مقبرہ ہے، یہاں مقصد یہ بیان کرنا ہے کہ آدمی قضاء حاجت کے لئے اتنا دور جاتا اور صلاۃ نبوی اتنی لمبی ہوتی کہ واپس آکر پہلی رکعت پاجاتا، شاید رسول اکرم ﷺ کبھی کبھی لمبی قراء ت کرتے تھے، ورنہ آپ نے صلاۃ ہلکی پڑھانے کا حکم دیا ہے، شاید صحابہ کرام رضی اللہ عنہم صلاۃ کے شوقین، صحت مند اور توانا تھے، آپ کے پیچھے طویل قیام میں دل لگتا ہوگا، اس لئے ایسا کرتے تھے، دوسروں میں وہ بات نہیں، بقیع میں حاجت پوری کرنے میں کوئی اشکال نہیں، بقیع ایک بڑا کھلا میدان تھا، اس قدر قبریں بھی وہاں نہ تھیں۔


826- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ أَبِي مَعْمَرٍ قَالَ: ُقْلتُ لِخَبَّابٍ: بِأَيِّ شَيْئٍ كُنْتُمْ تَعْرِفُونَ قِرَائَةَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فِي الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ ؟ قَالَ: بِاضْطِرَابِ لِحْيَتِهِ۔
* تخريج: خ/الأذان ۹۱ (۷۴۶)، ۹۶ (۷۶۰)، ۹۷ (۷۶۱)، ۱۰۸ (۷۷۷)، د/الصلاۃ ۱۲۹ (۸۰۱)، (تحفۃ الأشراف: ۳۵۱۷)، وقد أخرجہ: حم (۵/۱۰۹، ۱۱۲، ۶/۳۹۵) (صحیح)
۸۲۶- ابومعمر کہتے ہیں کہ میں نے خباب رضی اللہ عنہ سے پوچھا: آپ لوگ ظہر اور عصر میں رسول اللہ ﷺ کی قراءت کو کیسے پہچانتے تھے؟ انہوں نے کہا: آپ کی داڑھی (کے بال) کے ہلنے سے۔


827- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ الْحَنَفِيُّ، حَدَّثَنَا الضَّحَّاكُ بْنُ عُثْمَانَ، حَدَّثَنِي بُكَيْرُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ الأَشَجِّ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: مَا رَأَيْتُ أَحَدًا أَشْبَهَ صَلاةً بِرَسُولِ اللَّهِ ﷺ مِنْ فُلانٍ، قَالَ: وَكَانَ يُطِيلُ الأُولَيَيْنِ مِنَ الظُّهْرِ، وَيُخَفِّفُ الأُخْرَيَيْنِ، وَيُخَفِّفُ الْعَصْرَ۔
* تخريج: ن/الافتتاح ۶۱ (۹۸۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۴۸۴)، وقد أخرجہ: حم (۲/۳۰۰، ۳۲۹، ۳۳۰، ۵۳۲) (صحیح)
۸۲۷- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے فلاں یعنی عمرو بن سلمہ سے زیادہ رسول اللہ ﷺ کے مشابہ کسی کی صلاۃ نہیں دیکھی، آپ ﷺ ظہر کی پہلی دو رکعتیں لمبی کرتے، اور آخری دونوں ہلکی کرتے، اور عصر کی صلاۃ بھی ہلکی کرتے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس خیال سے کہ وہ کام کاج اور بازار کاوقت ہوتا ہے، لوگوں کو تکلیف نہ ہو۔


828- حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَكِيمٍ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا الْمَسْعُودِيُ، حَدَّثَنَا زَيْدٌ الْعَمِّيُّ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: اجْتَمَعَ ثَلاثُونَ بَدْرِيًّا مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَقَالُوا: تَعَالَوْا حَتَّى نَقِيسَ قِرَائَةَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فِيمَا لَمْ يَجْهَرْ فِيهِ مِنَ الصَّلاةِ، فَمَا اخْتَلَفَ مِنْهُمْ رَجُلانِ، فَقَاسُوا قِرَائَتَهُ فِي الرَّكْعَةِ الأُولَى مِنَ الظُّهْرِ بِقَدْرِ ثَلاثِينَ آيَةً، وَفِي الرَّكْعَةِ الأُخْرَى قَدْرَ النِّصْفِ مِنْ ذَلِكَ، وَقَاسُوا ذَلِكَ فِي صَلاةِ الْعَصْرِ عَلَى قَدْرِ النِّصْفِ مِنَ الرَّكْعَتَيْنِ الأُخْرَيَيْنِ مِنَ الظُّهْرِ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۴۳۲۴، ومصباح الزجاجۃ: ۳۰۵)، وقد أخرجہ: م/الصلاۃ ۳۴ (۴۵۲)، د/الصلاۃ ۱۳۰ (۸۰۴)، ن/الصلاۃ ۱۶ (۴۷۶)، حم (۳/۲)، دي/الصلاۃ ۶۲ (۱۳۲۵) (ضعیف)
(سند میں زید العمی ضعیف راوی ہیں، اور ابو داود اور طیالسی نے مسعودی سے جو مختلط روای ہیں بعد اختلاط روایت کی ہے، لیکن مرفوع حدیث دوسری سند سے صحیح مسلم میں ہے، لفظ قیاس کے بغیر جیسا کہ اوپر کی تخریج میں مذکور ہے) ۔
۸۲۸- ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ تیس بدری صحابہ اکٹھے ہوئے اور انہوں نے کہا کہ آؤ ہم سری صلاۃ میں رسول اللہ ﷺ کی قرا ء ت کااندازہ کریں، تو ان لوگوں نے ظہر کی پہلی رکعت میں آپ ﷺ کی قرا ء ت کا اندازہ تیس آیت کے بہ قدر کیا، اور دوسری رکعت میں اس کے آدھا، اور عصر کی صلاۃ میں ظہر کی پچھلی دونوں رکعتوں کے نصف کے بہ قدر، اس اندازے میں ان میں سے دوشخصوں کا بھی اختلاف نہیں ہوا ا ؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس باب کی احادیث سے صاف ظاہر ہے کہ کبھی کبھی ایک آدھ آیت کو اس طرح پڑھنا کہ پیچھے والے سن لیں درست ہے، سری وجہری میں فرق یہی ہے کہ سرّی میں اتنا آہستہ پڑھنا کہ خود سنے اورپاس والا بھی، اور جہری کہتے ہیں کہ خود بھی سنے اور دوسرے بھی سنیں، سنت کی پیروی میں کبھی کبھی ایک آدھ آیت سنا نا درست ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
8- بَاب الْجَهْرِ بِالآيَةِ أَحْيَانًا فِي صَلاةِ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ
۸ -باب: ظہر وعصر میں کبھی کوئی آیت آواز سے پڑھ دینے کا بیان​


829- حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ هِلالٍ الصَّوَّافُ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ الدَّسْتُوَائِيُّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي قَتَادَةَ، عَنْ أَبِيهِ؛ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَقْرَأُ بِنَا فِي الرَّكْعَتَيْنِ الأُولَيَيْنِ مِنْ صَلاةِ الظُّهْرِ، وَيُسْمِعُنَا الآيَةَ أَحْيَانًا۔
* تخريج: خ/الأذان ۹۶ (۷۵۹)، ۹۷ (۷۶۲)، ۱۰۷ (۷۷۶)، ۱۰۹ (۷۷۸)، ۱۱۰ (۷۷۹)، م/الصلاۃ ۳۴ (۴۵۱)، د/الصلاۃ ۱۲۹ (۷۹۸، ۷۹۹، ۸۰۰)، ن/الافتتاح ۵۶ (۹۷۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۱۰۸)، وقد أخرجہ: حم (۴/۳۸۳، ۵/۲۹۵، ۳۰۰، ۳۰۵، ۳۰۷، ۳۰۸، ۳۱۰، ۳۱۱) (صحیح)
۸۲۹- ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ظہر کی پہلی دونوں رکعتوں میں (سری) قر اءت فرماتے تھے، اور کبھی کبھی ہمیں کوئی آیت سنا دیا کرتے تھے ا ؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : یعنی اگرچہ رکعتوں میں نبی ﷺ سری قراء ت کرتے لیکن پڑھتے پڑھتے کبھی ایک آدھ آیت آواز سے بھی پڑھ دیتے، بعضوں نے کہاکہ یہ فعل عمداً نہ ہوتا بلکہ قراء ت میں استغراق کی وجہ سے خیال نہ رہتا، اور ایک آدھ آیت آواز کے ساتھ نکل جاتی، بعضوں نے کہاکہ عمدا ا یسا کرتے تھے تاکہ لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ آپ نے فلاں سورت پڑھی، اور لوگ اس کی پیروی کریں ۔


830- حَدَّثَنَا عُقْبَةُ بْنُ مُكْرَم، حَدَّثَنَا سَلْمُ بْنُ قُتَيْبَةَ، عَنْ هَاشِمِ بْنِ الْبَرِيدِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنِ الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يُصَلِّي بِنَا الظُّهْرَ، فَنَسْمَعُ مِنْهُ الآيَةَ بَعْدَ الآيَاتِ، مِنْ سُورَةِ لُقْمَانَ وَالذَّارِيَاتِ۔
* تخريج: ن/الافتتاح ۵۵ (۹۷۲)، (تحفۃ الأشراف:۱۸۹۱) (ضعیف)
(سند میں ابو اسحاق مدلس ہیں، اور عنعنہ سے روایت ہے، نیز ملاحظہ ہو: الضعیفہ: ۴۱۲۰)
۸۳۰- براء بن عازب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمیں ظہر کی صلاۃ پڑھاتے تو ہم سورہ ''لقمان'' اور سورہ ''ذاريات'' کی کئی آیتوں کے بعدکوئی آیت سن لیا کرتے تھے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
9- باب الْقِرَائَةِ فِي صَلاةِ الْمَغْرِبِ
۹ -باب: مغرب میں پڑھی جانے والی سورتوں کابیان​


831- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَهِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، قَالا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ أُمِّهِ -قَالَ أَبُو بَكْرِ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ: هِيَ لُبَابَةُ- أَنَّهَا سَمِعَتْ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقْرَأُ فِي الْمَغْرِبِ +وَالْمُرْسَلاتِ عُرْفًا"۔
* تخريج: خ/الأذان ۹۸ (۷۶۳)، المغازي ۸۳ (۴۴۲۹)، م/الصلاۃ ۳۵ (۴۶۲)، د/الصلاۃ ۱۳۲ (۸۱۰)، ت/الصلاۃ ۱۱۴ (۳۰۸)، ن/الافتتاح ۶۴ (۹۸۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۰۵۲)، وقد أخرجہ: ط/الصلاۃ ۵ (۲۴)، حم: ۶/۳۳۸، ۳۴۰، دي/الصلاۃ ۶۴ (۱۳۳۱) (صحیح)
۸۳۱- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اپنی ماں سے روایت کرتے ہیں (ابوبکربن ابی شیبہ نے کہا کہ ان کی والدہ کا نام ''لبابہ'' ہے): انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو مغرب میں "وَالْمُرْسَلاتِ عُرْفًا" پڑھتے سنا ۔


832- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ، أَنْبَأَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، عَنْ أَبِيهِ؛ قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ ﷺ يَقْرَأُ فِي الْمَغْرِبِ بِالطُّورِ، قَالَ جُبَيْرٌ فِي غَيْرِ هَذَا الْحَدِيثِ، فَلَمَّا سَمِعْتُهُ يَقْرَأُ: {أَمْ خُلِقُوا مِنْ غَيْرِ شَيْئٍ أَمْ هُمُ الْخَالِقُونَ" إِلَى قَوْلِهِ: +فَلْيَأْتِ مُسْتَمِعُهُمْ بِسُلْطَانٍ مُبِينٍ} كَادَ قَلْبِي يَطِيرُ۔
* تخريج: خ/الأذان ۱۹۹ (۷۶۵)، الجہاد ۱۷۲ (۳۰۵۰)، المغازي ۱۲ (۴۰۲۳)، تفسیر الطور ۱ (۴۸۵۴)، م/الصلاۃ ۳۵ (۴۶۳)، د/الصلاۃ ۱۳۲ (۸۱۱)، ن/الافتتاح ۶۵ (۹۸۸)، (تحفۃ الأشراف: ۳۱۸۹)، وقد أخرجہ: ط/الصلاۃ ۵ (۲۳)، حم (۴/۸۳، ۸۴، ۸۵)، دي/الصلاۃ ۶۴ (۱۳۳۲) (صحیح)
۸۳۲- جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو مغرب کی صلاۃ میں "والطور" پڑھتے سنا۔
جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ نے ایک دوسری حدیث میں کہا کہ جب میں نے آپ ﷺ کوسورہ طور میں سے یہ آیت کریمہ {أَمْ خُلِقُوا مِنْ غَيْرِ شَيْئٍ أَمْ هُمُ الْخَالِقُونَ} سے {فَلْيَأْتِ مُسْتَمِعُهُمْ بِسُلْطَانٍ مُبِينٍ}، یعنی: (کیا یہ بغیر کسی ''پیدا کرنے والے'' کے خود بخود پیدا ہوگئے ہیں؟ کیا انہوں نے ہی آسمانوں وزمینوں کو پیدا کیا ہے؟ بلکہ یہ یقین نہ کرنے والے لوگ ہیں، یا کیا ان کے پاس تیرے رب کے خزانے ہیں؟ یا ''ان خزانوں کے'' یہ داروغہ ہیں، یا کیا ان کے پاس کوئی سیڑھی ہے جس پر چڑھ کر سنتے ہیں؟ (اگر ایسا ہے) تو ان کا سننے والا کوئی روشن دلیل پیش کرے)، (سورہ طور : ۳۵- ۳۸) تک پڑھتے ہوئے سنا تو قریب تھا کہ میرا دل ا ڑ جائے گا ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ان آیتوں کے عمدہ مضمون کا اثر دل پر ایسا ہوا کہ دل ہی ہاتھ سے جانے کو تھا، سبحان اللہ ایک تو قرآن کا اثر کیا کم ہے، دوسرے نبی اکرم ﷺ کی زبان مبارک سے آیتوں کی تلاوت، اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہو ا کہ شفق کے ختم ہونے تک مغرب کا وقت پھیلاہوا ہے۔


833- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ بُدَيْلٍ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يَقْرَأُ فِي الْمَغْرِبِ: {قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ"، وَ{قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ"۔
* تخريج:تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۲۷۲۲)، وقد أخرجہ: ت/الصلاۃ ۱۹۲ (۴۱۷)، ن/الافتتاح ۶۸ (۹۹۳)، حم (۲/۹۴، ۹۵، ۹۹) (شاذ)
(یہ حدیث شاذ ہے، اس لئے کہ محفوظ اور ثابت حدیث میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ ا ن دونوںسورتوں کو''مغرب کی سنت'' میں پڑھتے تھے، ملاحظہ ہو: المشکاۃ : ۸۵۰)
۸۳۳- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ مغرب کی صلاۃ میں {قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ" اور {قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ" پڑھتے تھے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یہ حدیث شاذ یعنی ضعیف ہے، اوپر گزرا کہ نبی اکرم ﷺ نے مغرب میں سورۃ المرسلات اور سورۃ الطور جیسی درمیانی سورتیں پڑھی ہیں، مغرب میں ہمیشہ چھوٹی سورتوں کو ہی پڑھنا درست نہیں، بقول علامہ ابن القیم یہ مروان اور اس کے متبعین کی سنت ہے، ہم کو رسول اللہ ﷺ کی سنت پر عمل کرنا چاہئے ۔
 
Top