• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابن ماجه

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
139- بَاب مَا جَاءَ فِي صَلاةِ الْمَرِيضِ
۱۳۹ -باب: بیمار کی صلاۃ کابیان​


1223- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ طَهْمَانَ، عَنْ حُسَيْنٍ الْمُعَلِّمِ، عَنِ ابْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، قَالَ: كَانَ بِيَ النَّاصُورُ ، فَسَأَلْتُ النَّبِيَّ ﷺ عَنِ الصَّلاةِ، فقَالَ: < صَلِّ قَائِمًا، فَإِنْ لَمْ تَسْتَطِعْ فَقَاعِدًا، فَإِنْ لَمْ تَسْتَطِعْ، فَعَلَى جَنْبٍ >۔
* تخريج: د/الصلاۃ ۱۷۹ (۹۵۲)، ت/الصلاۃ ۱۵۸ (۳۷۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۸۳۲)، وقد أخرجہ: خ/تقصیر الصلاۃ ۱۹ (۱۱۱۷) (صحیح)
۱۲۲۳- عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھے ناسور ۱؎ کی بیماری تھی، تو میں نے نبی اکرمﷺ سے صلاۃ کے متعلق پوچھا، تو آپ ﷺ نے فرمایا: ''تم کھڑے ہو کر صلاۃ پڑھو، اگر کھڑے ہونے کی طاقت نہ ہوتو بیٹھ کر پڑھو، اور اگر بیٹھنے کی بھی طاقت نہ ہوتو پہلو کے بل لیٹ کرپڑھو ۔
وضاحت ۱؎ : باء اور نون دونوں کے ساتھ اس لفظ کا استعمال ہوتاہے، باسور مقعدکے اندرونی حصہ میں ورم کی بیماری کا نام ہے اور ناسور ایک ایسا خراب زخم ہے کہ جب تک اس میں فاسد مادہ موجودرہے تب تک وہ اچھا نہیں ہوتا۔


1224- حَدَّثَنَا عَبْدُالْحَمِيدِ بْنُ بَيَانٍ الْوَاسِطِيُّ، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ الأَزْرَقُ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ جَابِرٍ، عَنْ أَبِي حَرِيزٍ، عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ قَالَ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ صَلّى جَالِسًا عَلَى يَمِينِهِ وَهُوَ وَجِعٌ.
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۷۸۹، ومصباح الزجاجۃ:۴۳۰) (ضعیف)
(اس کی سند میں جابر بن یزید الجعفی ضعیف ومتروک، اور ابو حریز مجہول ہیں)
۱۲۲۴- وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرمﷺ کو دیکھا کہ آپ نے دائیں پہلوپر بیٹھ کرصلاۃ پڑھی، اس وقت آپ بیمار تھے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
140- بَاب فِي صَلاةِ النَّافِلَةِ قَاعِدًا
۱۴۰ -باب: نفل صلاۃ بیٹھ کر پڑھنے کا بیان​


1225- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أُمِّ سلَمَةَ، قَالَتْ: وَالَّذِي ذَهَبَ بِنَفْسِهِ، ﷺ مَا مَاتَ حَتَّى كَانَ أَكْثَرُ صَلاتِهِ وَهُوَ جَالِسٌ، وَكَانَ أَحَبُّ الأَعْمَالِ إِلَيْهِ الْعَمَلَ الصَّالِحَ الَّذِي يَدُومُ عَلَيْهِ الْعَبْدُ، وَإِنْ كَانَ يَسِيرًا۔
* تخريج: ن/قیام اللیل ۱۷ (۱۶۵۵، ۱۶۵۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۲۳۶)، وقد أخرجہ: حم (۶/۳۰۵، ۳۱۹، ۳۲۰، ۳۲۱، ۳۲۲) (صحیح)
۱۲۲۵- ام المو منین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ قسم ہے اس ذات کی جس نے نبی اکرمﷺ کی جان کو قبض کیا، آپ انتقال سے پہلے اکثر بیٹھ کر صلاتیں پڑھا کرتے تھے، اور آپ کو وہ نیک عمل انتہائی محبوب اور پسندیدہ تھا جس پہ بندہ ہمیشہ کر ے، خواہ وہ تھوڑا ہی ہو ۱ ؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : عمل اگر چہ تھوڑا ہو جب وہ ہمیشہ کیا جائے تو اس کی برکت اور ہی ہوتی ہے، اور ہمیشگی کی وجہ سے وہ اس کثیر عمل سے بڑھ جاتا ہے جو چند روز کے لئے کیا جائے، ہر کام کا یہی حال ہے مواظبت اور دوام عجب برکت کی چیز ہے، اگر کوئی شخص ایک سطر قرآن شریف کی ہرروز حفظ کیا کرے تو سال میں دو پارے ہوجائیں گے، اور پندرہ سال میں سار ا قرآن حفظ ہوجائے گا، اس حدیث پر ساری حکمتیں قربان ہیں، دین ودنیا کے فائدے اس میں بھرے ہوئے ہیں، نفس پر زور ڈالو اور ہمیشہ کام کرنا سیکھو، اور ہر کام کے لئے وقت مقرر کرو اور کسی کام کا ناغہ نہ کرو، اور تھوڑا کام ہر روز اختیار کرو کہ دل پر بار نہ ہو، پھر دیکھو کیا برکت ہوتی ہے کہ تم خود تعجب کروگے ۔


1226- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ابْنُ عُلَيَّةَ، عَنِ الْوَلِيدِ بْنِ أَبِي هِشَامٍ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يَقْرَأُ وَهُوَ قَاعِدٌ، فَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ قَامَ قَدْرَ مَا يَقْرَأُ إِنْسَانٌ أَرْبَعِينَ آيَةً۔
* تخريج: م/المسافرین ۱۶ (۷۳۱)، ن/قیام اللیل ۱۶ (۱۶۵۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۹۵۰)، وقد أخرجہ: ط/صلاۃ الجماعۃ ۷ (۲۲)، حم (۶/۲۱۷) (صحیح)
۱۲۲۶- ام المو منین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ (نفل صلاۃ میں) بیٹھ کر قراء ت کرتے تھے، جب رکوع کا ارادہ کرتے تو اتنی دیر کے لئے کھڑے ہوجاتے جتنی دیر میں کوئی شخص چالیس آیتیں پڑھ لیتا ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : اور اتنی قرأت کھڑے کھڑے کرکے پھر رکوع کرتے، نفل میں ایسا کرنا صحیح ہے۔


1227- حَدَّثَنَا أَبُو مَرْوَانَ الْعُثْمَانِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: مَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يُصَلِّي فِي شَيْئٍ مِنْ صَلاةِ اللَّيْلِ إِلاقَائِمًا، حَتَّى دَخَلَ فِي السِّنِّ، فَجَعَلَ يُصَلِّي جَالِسًا، حَتَّى إِذَا بَقِيَ عَلَيْهِ مِنْ قِرَائَتِهِ أَرْبَعُونَ آيَةً، أَوْ ثَلاثُونَ آيَةً، قَامَ فَقَرَأَهَا وَسَجَدَ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف:۱۷۰۳۰، ومصباح الزجاجۃ: ۴۳۱)، وقد أخرجہ: خ/تقصیرالصلاۃ ۲۰ (۱۱۱۸)، م/المسافرین ۱۶ (۷۳۱)، د/الصلاۃ ۱۷۹ (۹۵۳)، ت/الصلاۃ ۱۵۸ (۳۷۲)، ن/قیام اللیل ۱۶ (۱۶۵۰)، ط/ صلاۃ الجماعۃ ۷ (۲۲)، حم (۶/۴۶) (صحیح)
۱۲۲۷- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو ہمیشہ رات کی صلاۃ کھڑے ہوکر پڑھتے ہوئے دیکھا، یہاں تک کہ آپ بوڑھے ہوگئے تو بیٹھ کر پڑھنے لگے، جب آپ کی قرا ء ت سے چالیس یا تیس آیتیں باقی رہ جاتیں تو کھڑے ہو کران کو پڑھتے (پھر رکوع) اور سجدے کرتے ۔


1228- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ الْعُقَيْلِيِّ، قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ عَنْ صَلاةِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بِاللَّيْلِ، فَقَالَتْ: كَانَ يُصَلِّي ليْلا طَوِيلا قَائِمًا، وَلَيْلا طَوِيلا قَاعِدًا، فَإِذَا قَرَأَ قَائِمًا رَكَعَ قَائِمًا، وَإِذَا قَرَأَ قَاعِدًا رَكَعَ قَاعِدًا۔
* تخريج: م/المسافرین ۱۶ (۷۳۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۲۰۵)، وقد أخرجہ: د/الصلاۃ ۱۷۹ (۹۵۵)، ت/الصلاۃ ۱۵۸ (۳۷۵)، ن/ قیام اللیل ۱۶ (۱۶۴۷)، حم (۶/۲۶۲، ۳۶۵) (صحیح)
۱۲۲۸- عبداللہ بن شقیق عُقیلی کہتے ہیں کہ میں نے ام المو منین عائشہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہﷺ کی رات کی صلاۃ کے متعلق پوچھا، تو انہوں نے کہا : آپﷺ رات میںدیر تک کھڑے ہوکر صلا ۃ پڑھتے، اورکبھی دیر تک بیٹھ کر صلاۃ پڑھتے، جب آپ کھڑے ہوکر قراء ت کرتے تو رکوع کھڑے ہوکر کرتے، اور جب بیٹھ کر قرا ء ت کرتے تورکوع بھی بیٹھ کر کرتے ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : غرض نفل میں ہر طرح اختیار ہے چاہے بیٹھ کر پڑھے، چاہے کھڑے ہوکر شروع کرے پھر بیٹھ جائے، چاہے بیٹھ کر شروع کرے پھر کھڑا ہوجائے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
141- بَاب صَلاةُ الْقَاعِدِ عَلَى النِّصْفِ مِنْ صَلاةِ الْقَائِمِ
۱۴۱ -باب: بیٹھ کر صلاۃ پڑھنے میں آدھا ثواب ہے​


1229- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، حَدَّثَنَا قُطْبَةُ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ بَابَاهُ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَمْرٍو أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ مَرَّ بِهِ وَهُوَ يُصَلِّي جَالِسًا، فَقَالَ: < صَلاةُ الْجَالِسِ عَلَى النِّصْفِ مِنْ صَلاةِ الْقَائِمِ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۸۸۳۷)، وقد أخرجہ: م/المسافرین ۱۶ ۷۳۵)، د/الصلاۃ ۱۷۹ (۹۵۰)، ن/قیام اللیل ۱۸ (۱۶۶۰)، ط/صلاۃ الجماعۃ ۶ (۱۹)، حم (۲/۱۶۲)، دي/الصلاۃ ۱۰۸ (۱۴۲۴) (صحیح)
۱۲۲۹- عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ ان کے پاس سے گزرے اس وقت وہ بیٹھ کر صلاۃ پڑھ رہے تھے، توآپﷺ نے فرمایا: ''بیٹھ کر پڑھنے والے کی صلاۃ کھڑے ہو کر پڑھنے والے کی صلاۃ کے مقابلے میں (ثواب میں) آدھی ہے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس سے تندرست اور صحت مند آدمی ہی نہیں بلکہ مریض بھی مراد ہے کیونکہ انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہﷺ کچھ لوگوں کے پاس آئے جوبیماری کی وجہ سے بیٹھ کر صلاۃ پڑھ رہے تھے، تو آپ ﷺ نے فرمایا ''بیٹھ کر صلاۃ پڑھنے والے کا ثواب کھڑے ہو کر صلاۃ پڑھنے والے سے آدھا ہے''۔


1230- حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنِي إِسْمَاعِيلُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ خَرَجَ فَرَأَى أُنَاسًا يُصَلُّونَ قُعُودًا، فَقَالَ: < صَلاةُ الْقَاعِدِ عَلَى النِّصْفِ مِنْ صَلاةِ الْقَائِمِ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۲۲۹، ومصباح الزجاجۃ:۴۳۲)، وقد أخرجہ: حم (۳/۲۱۴، ۲۴۰) (صحیح)
۱۲۳۰- انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ باہر نکلے تو کچھ لوگوں کو بیٹھ کر صلاۃ پڑھتے ہوئے دیکھا، توآپﷺ نے فرمایا :''بیٹھ کر پڑھنے والے کی صلاۃ کھڑے ہو کر پڑھنے والے کی صلاۃکے مقابلے میں (ثواب میں) آدھی ہے'' ۔

1231- حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ هِلالٍ الصَّوَّافُ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، عَنْ حُسَيْنٍ الْمُعَلِّمِ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ أَنَّهُ سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ عَنِ الرَّجُلِ يُصَلِّي قَاعِدًا، قالَ: < مَنْ صَلَّى قَائِمًا فَهُوَ أَفْضَلُ، وَمَنْ صَلَّى قَاعِدًا فَلَهُ نِصْفُ أَجْرِ الْقَائِمِ، وَمَنْ صَلَّى نَائِمًا فَلَهُ نِصْفُ أَجْرِ الْقَاعِدِ >۔
* تخريج: خ/تقصیرالصلاۃ ۱۷ (۱۱۱۵)، ۱۸ (۱۱۱۶)، ۱۹ (۱۱۱۸)، د/الصلاۃ ۱۷۹ (۹۵۱)، ت/الصلاۃ ۱۵۸ (۳۷۱)، ن/ قیام اللیل ۱۹ (۱۶۶۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۸۳۱)، وقد أخرجہ: حم (۴/۴۳۳، ۴۳۵، ۴۴۲، ۴۴۳) (صحیح)
۱۲۳۱- عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے اس شخص کے بارے میں پوچھا جو بیٹھ کر صلاۃ پڑھتا ہے تو آپﷺ نے فرمایا: ''جو کھڑے ہو کر صلاۃ پڑھے وہ زیادہ بہتر ہے، اور جو بیٹھ کر صلاۃ پڑھے تو اسے کھڑے ہوکر صلاۃ پڑھنے والے کے مقابلے میں آدھا ثواب ہے، اور جو شخص لیٹ کر صلاۃ پڑھے تو اسے بیٹھ کر پڑھنے والے کے مقابلے میں آدھا ثواب ہے''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
142- بَاب مَا جَاءَ فِي صَلاةِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فِي مَرَضِهِ
۱۴۲ -باب: مرض الموت میں نبی اکرمﷺ کی صلاۃ کابیان​


1232- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ وَوَكِيعٌ، عَنِ الأَعْمَشِ (ح) و حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ الأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: لَمَّا مَرِضَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ مَرَضَهُ الَّذِي مَاتَ فِيهِ ( وَقَالَ أَبُومُعَاوِيَةَ: لَمَّا ثَقُلَ ) جَاءَ بِلالٌ يُؤْذِنُهُ بِالصَّلاةِ فَقَالَ: <مُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ> قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنَّ أَبَا بَكْرٍ رَجُلٌ أَسِيفٌ، تَعْنِي رَقِيقٌ، وَمَتَى مَا يَقُومُ مَقَامَكَ يَبْكِي فَلا يَسْتَطِيعُ، فَلَوْ أَمَرْتَ عُمَرَ فَصَلَّى بِالنَّاسِ فَقَالَ: < مُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ، فَإِنَّكُنَّ صَوَاحِبَاتُ يُوسُفَ >، قَالَتْ: فَأَرْسَلْنَا إِلَى أَبِي بَكْرٍ، فَصَلَّى بِالنَّاسِ، فَوَجَدَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ مِنْ نَفْسِهِ خِفَّةً، فَخَرَجَ إِلَى الصَّلاةِ يُهَادَى بَيْنَ رَجُلَيْنِ، وَرِجْلاهُ تَخُطَّانِ فِي الأَرْضِ، فَلَمَّا أَحَسَّ بِهِ أَبُو بَكْرٍ ذَهَبَ لِيَتَأَخَّرَ، فَأَوْمَى إِلَيْهِ النَّبِيُّ ﷺ أَنْ مَكَانَكَ، قَالَ، فَجَاءَ حَتَّى أَجْلَسَاهُ إِلَى جَنْبِ أَبِي بَكْرٍ، فَكَانَ أَبُو بَكْرٍ يَأْتَمُّ بِالنَّبِيِّ ﷺ ، وَالنَّاسُ يَأْتَمُّونَ بِأَبِي بَكْرٍ۔
* تخريج: خ/الأذان ۳۹ (۶۶۴)، ۶۷ (۷۱۲)، ۶۸ (۷۱۳)، م/الصلاۃ ۲۲ (۴۱۸)، ن الکبري/الأمانۃ ۴۰ (۹۰۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۹۴۵)، وقد أخرجہ: ط/قصرالصلاۃ ۲۴ (۸۳)، حم (۵/۲۶۱، ۶/۲۱۰، ۲۲۴)، دي/المقدمۃ ۱۴ (۸۳) (صحیح)
۱۲۳۲- ام المو منین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ مرض الموت میں مبتلا ہوئے (ابومعاویہ نے کہا: جب آپ مرض کی گرانی میں مبتلا ہوئے) تو بلال رضی اللہ عنہ آپ کو صلاۃ کی اطلاع دینے کے لئے آئے، آپ ﷺ نے فرمایا: ''ابوبکر کو حکم دو کہ وہ لوگوں کو صلاۃ پڑھائیں''، ہم نے کہا : اللہ کے رسول ! ابوبکر رضی اللہ عنہ نرم دل آدمی ہیں، جب آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو رونے لگیں گے، اور صلاۃ نہ پڑھا سکیں گے، لہٰذا اگر آپ عمررضی اللہ عنہ کو حکم دیں کہ وہ لوگوں کو صلاۃ پڑھائیں، (تو بہتر ہو) تو آپﷺ نے فرمایا: ''ابوبکر کو حکم دو کہ وہ لوگوں کو صلاۃ پڑھائیں، تم تو یوسف علیہ السلام کے ساتھ والیوں جیسی ہو''، ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: ہم نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بلا بھیجا، انہوں نے لوگوں کو صلاۃ پڑھائی، پھر رسول اللہ ﷺ نے طبیعت میں کچھ ہلکا پن محسوس کیا، تو دو آدمیوں کے سہارے صلاۃ کے لئے نکلے، اور آپ کے پاؤں زمین پہ گھسٹ رہے تھے، جب ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آپ ﷺ کی آمد کی آہٹ محسوس کی تو پیچھے ہٹنے لگے، تو آپ ﷺ نے اشارہ کیا کہ''اپنی جگہ پر رہو''ان دونوں آدمیوں نے آپﷺ کو ابوبکر کے بائیں پہلو میں بیٹھا دیا، ابوبکر رضی اللہ عنہ نبی اکرمﷺ کی اور لوگ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی اقتداء کررہے تھے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ''فَإِنَّكُنَّ صَوَاحِبَاتُ يُوسُفَ'' میں صواحبات صاحبہ کی جمع ہے اور صواحبات سے مراد زلیخاہے اور '' فَإِنَّكُنَّ '' میں بھی اگرچہ ضمیر جمع ہے لیکن اس سے مراد ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا ہیں، یعنی جس طرح زلیخا نے عورتوں کے اعتراض کے سلسلے کو بندکر نے کے لئے انھیں بظاہر دعوت دی، اور ان کا اعزاز واکرام کیا، لیکن مقصد صرف انھیں یوسف علیہ السلام کو دکھانا تھا کہ تم مجھے کیا ملامت کرتی ہو، بات ہی کچھ ایسی ہے کہ میں مجبورہوگئی جس طرح زلیخا نے اس موقع پر اپنے دل کی بات چھپائے رکھی تھی، اوربہانا دعوت کا کیا، اسی طرح ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی بھی دلی تمنا یہی تھی کہ ابوبکررضی اللہ عنہ ہی صلاۃ پڑھائیں لیکن وہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے رقت قلبی کا عذر پیش کر کے باربار آپ سے جو بچھوا رہی تھیں، وہ ابوبکر کی امامت کی آپ سے مزید تائید وتوثیق چاہ رہی تھیں، اسی لئے آپ ﷺ نے فرمایا: تم یوسف کی زلیخا جیسی ہو کہ دل میں کچھ اور چھپائے ہوئے ہو، اور زبان سے اس کے خلاف کہہ رہی ہو۔


1233- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَبَا بَكْرٍ أَنْ يُصَلِّيَ بِالنَّاسِ فِي مَرَضِهِ، فَكَانَ يُصَلِّي بِهِمْ، فَوَجَدَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ خِفَّةً، فَخَرَجَ، وَإِذَا أَبُو بَكْرٍ يَؤُمُّ النَّاسَ، فَلَمَّا رَآهُ أَبُو بَكْرٍ اسْتَأْخَرَ، فَأَشَارَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ ، أَيْ كَمَا أَنْتَ، فَجَلَسَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ حِذَاءَ أَبِي بَكْرٍ إِلَى جَنْبِهِ، فَكَانَ أَبُو بَكْرٍ يُصَلِّي بِصَلاةِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ ، وَالنَّاسُ يُصَلُّونَ بِصَلاةِ أَبِي بَكْرٍ۔
* تخريج: خ/الأذان ۴۷ (۶۸۳)، م/الصلاۃ ۲۱ (۴۱۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۹۷۹)، وقد أخرجہ: حم (۶/۲۳۱) (صحیح)
۱۲۳۳- ام المو منین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مرض الموت میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو صلاۃ پڑھائیں، وہ لوگوںکو صلاۃ پڑھایا کرتے تھے (ایک مرتبہ) رسول اللہ ﷺ نے طبیعت میں کچھ ہلکا پن محسو س کیا تو باہر نکلے، اس وقت ابوبکر رضی اللہ عنہ صلاۃ پڑھا رہے تھے، جب ابوبکررضی اللہ عنہ نے آپﷺ کو دیکھا تو پیچھے ہٹنے لگے، آپﷺ نے اشارہ کیا : ''اپنی جگہ رہو'' پھررسول اللہ ﷺ ابوبکر کے برابر ان کے پہلو میں بیٹھ گئے، ابوبکر رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کی اقتداء کررہے تھے، اور لوگ ابو بکر رضی اللہ عنہ کی اقتداء کر رہے تھے ۔


1234- حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ، أَنْبَأَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ دَاوُدَ - مِنْ كِتَابِهِ فِي بَيْتِهِ- قَالَ سَلَمَةُ بْن نُبَيطٍ، أَنْبَأَنَا عَنْ نُعَيْمِ بْنِ أَبِي هِنْدٍ، عَنْ نُبَيْطِ بْنِ شَرِيطٍ،عَنْ سَالِمِ بْنِ عُبَيْدٍ قَالَ: أُغْمِيَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فِي مَرَضِهِ، ثُمَّ أَفَاقَ، فَقَالَ: <أَحَضَرَتِ الصَّلاةُ؟ > قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: < مُرُوا بِلالا فَلْيُؤَذِّنْ، وَمُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ >، ثُمَّ أُغْمِيَ عَلَيْهِ، فَأَفَاقَ، فَقَالَ: < أَحَضَرَتِ الصَّلاةُ؟ > قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: < مُرُوا بِلالا فَلْيُؤَذِّنْ وَمُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ >، ثُمَّ أُغْمِيَ عَلَيْهِ، فَأَفَاقَ، فَقَالَ: < أَحَضَرَتِ الصَّلاةُ؟ > قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: < مُرُوا بِلالا فَلْيُؤَذِّنْ، وَمُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ > فَقَالَتْ عَائِشَةُ: إِنَّ أَبِي رَجُلٌ أَسِيفٌ، فإِذَا قَامَ ذَلِكَ الْمَقَامَ يَبْكِي، لا يَسْتَطِيعُ، فَلَوْ أَمَرْتَ غَيْرَهُ، ثُمَّ أُغْمِيَ عَلَيْهِ، فَأَفَاقَ، فَقَالَ: < مُرُوا بِلالا فَلْيُؤَذِّنْ، وَمُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ، فَإِنَّكُنَّ صَوَاحِبُ يُوسُفَ، أَوْ صَوَاحِبَاتُ يُوسُفَ > قَالَ فَأُمِرَ بِلالٌ فَأَذَّنَ، وَأُمِرَ أَبُو بَكْرٍ فَصَلَّى بِالنَّاسِ، ثُمَّ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ وَجَدَ خِفَّةً، فَقَالَ: <انْظُرُوا لِي مَنْ أَتَّكِئُ عَلَيْهِ > فَجَائَتْ بَرِيرَةُ وَرَجُلٌ آخَرُ، فَاتَّكَأَ عَلَيْهِمَا، فَلَمَّا رَآهُ أَبُو بَكْرٍ، ذَهَبَ لِيَنْكِصَ، فَأَوْمَأَ إِلَيْهِ أَنِ اثْبُتْ مَكَانَكَ، ثُمَّ جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ حَتَّى جَلَسَ إِلَى جَنْبِ أَبِي بَكْرٍ، حَتَّى قَضَى أَبُو بَكْرٍ صَلاتَهُ، ثُمَّ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قُبِضَ.
قَالَ أَبُو عَبْداللَّهِ: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لَمْ يُحَدِّثْ بِهِ غَيْرُ نَصْرِ بْنِ عَلِيٍّ ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۳۷۸۷، ومصباح الزجاجۃ: ۴۳۳) (صحیح)
۱۲۳۴- سالم بن عبید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ پر مرض الموت میں بے ہوشی طاری ہوئی، پھر ہوش میں آئے، تو آپ نے پوچھا: ''کیا صلاۃ کا وقت ہوگیا''؟لوگوں نے کہا: ہاں، توآپﷺ نے فرمایا: ''بلال کو حکم دو کہ وہ اذان دیں، اور ابوبکر کو حکم دو کہ وہ لوگوں کو صلاۃ پڑھائیں''، پھر آپ پر بے ہوشی طاری ہوئی، پھر ہوش آیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا: ''کیا صلاۃ کا وقت ہوگیا''؟ لوگوں نے کہا :ہاں، تو آپﷺ نے فرمایا: ''بلال کو حکم دو کہ وہ اذان دیں، اور ابو بکر کو حکم دو کہ وہ لوگوں کو صلاۃ پڑھائیں'' پھر آپ پر بے ہوشی طاری ہوئی، پھرہو ش آیا، تو فرمایا :''کیا صلاۃ کا وقت ہوگیا''؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا: ہاں، توآپﷺ نے فرمایا: ''بلال کو حکم دو کہ وہ اذان دیں، اور ابو بکر سے کہو کہ وہ لوگوں کو صلاۃ پڑھائیں'' توعائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: میرے والد نرم دل آدمی ہیں، جب اس جگہ پہ کھڑے ہوں گے تو رونے لگیں گے، صلاۃ نہ پڑھا سکیں گے، اگر آپ ان کے علاوہ کسی اور کو حکم دیتے (تو بہتر ہوتا) ! پھر آپ پر بے ہوشی طاری ہوگئی، پھر ہوش آیا، تو فرمایا: ''بلال کو حکم دو کہ وہ اذان کہیں، اور ابوبکر سے کہو کہ وہ لوگوں کو صلاۃ پڑھائیں، تم تو یوسف علیہ السلام کے ساتھ والیوں جیسی ہو'' بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا گیا، تو انہوں نے اذان دی، اور ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا گیا تو انہوں نے لوگوں کو صلاۃ پڑھائی، پھررسول اللہ ﷺ نے طبیعت میں کچھ ہلکا پن محسوس کیا تو فرمایا : ''دیکھو کسی کو لاو ٔ جس پر میں ٹیک دے کر (مسجد جا سکوں) بریرہ رضی اللہ عنہا اور ایک شخص آئے تو آپﷺ نے ان دونوں پہ ٹیک لگایا، جب ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آپ کی آمدمحسوس کی تو پیچھے ہٹنے لگے، آپ ﷺ نے انہیں اشارہ کیا کہ ''اپنی جگہ پر رہو'' پھر رسول اللہ ﷺ آئے، اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پہلو میں بیٹھ گئے یہاں تک کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنی صلاۃ پوری کی، پھر اس کے بعد رسول اللہ ﷺ کا انتقال ہوگیا ۔
ابوعبداللہ ابن ماجہ کہتے ہیں کہ یہ حدیث غریب ہے، نصر بن علی کے علاوہ کسی اور نے اس کو روایت نہیں کیا ہے۔


1235- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنِ الأَرْقَمِ بْنِ شُرَحْبِيلَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: لَمَّا مَرِضَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ مَرَضَهُ الَّذِي مَاتَ فِيهِ، كَانَ فِي بَيْتِ عَائِشَةَ، فَقَالَ: < ادْعُوا لِي عَلِيًّا > قَالَتْ عَائِشَةُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! نَدْعُو لَكَ أَبَا بَكْرٍ؟ قَالَ: < ادْعُوهُ > قَالَتْ حَفْصَةُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! نَدْعُو لَكَ عُمَرَ؟ قَالَ: < ادْعُوهُ > قَالَتْ أُمُّ الْفَضْلِ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! نَدْعُو لَكَ الْعَبَّاسَ؟ قَالَ: نَعَمْ، فَلَمَّا اجْتَمَعُوا رَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ رَأْسَهُ، فَنَظَرَ فَسَكَتَ، فَقَالَ عُمَرُ: قُومُوا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ، ثُمَّ جَاءَ بِلالٌ يُؤْذِنُهُ بِالصَّلاةِ، فَقَالَ: < مُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ > فَقَالَتْ عَائِشَةُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنَّ أَبَا بَكْرٍ رَجُلٌ رَقِيقٌ حَصِرٌ، وَمَتَى لا يَرَاكَ يَبْكِي، وَالنَّاسُ يَبْكُونَ، فَلَوْ أَمَرْتَ عُمَرَ يُصَلِّي بِالنَّاسِ، فَخَرَجَ أَبُو بَكْرٍ فَصَلَّى بِالنَّاسِ، فَوَجَدَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فِي نَفْسِهِ خِفَّةً، فَخَرَجَ يُهَادَى بَيْنَ رَجُلَيْنِ، وَرِجْلاهُ تَخُطَّانِ فِي الأَرْضِ، فَلَمَّا رَآهُ النَّاسُ سَبَّحُوا بِأَبِي بَكْرٍ، فَذَهَبَ لِيَتَأْخِرَ، فَأَوْمَأَ إِلَيْهِ النَّبِيُّ ﷺ أَيْ مَكَانَكَ، فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فَجَلَسَ عَنْ يَمِينِهِ، وَقَامَ أَبُو بَكْرٍ، فَكَانَ أَبُو بَكْرٍ يَأْتَمُّ بِالنَّبِيِّ ﷺ ، وَالنَّاسُ يَأْتَمُّونَ بِأَبِي بَكْرٍ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: وَأَخَذَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ مِنَ الْقِرَائَةِ مِنْ حَيْثُ كَانَ بَلَغَ أَبُوبَكْرٍ،- قَالَ وَكِيعٌ: وَكَذَا السُّنَّةُ -.
قَالَ: فَمَاتَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فِي مَرَضِهِ ذَلِكَ۔
* تخريج:تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۵۳۵۸، ومصباح الزجاجۃ: ۴۳۴)، وقد أخرجہ: حم (۱/۲۳۱، ۲۳۲، ۳۴۳، ۳۵۵، ۳۵۶، ۳۵۷) (حسن)
(سند میں ابو اسحاق مدلس راوی ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، اس لئے ''علی'' کے ذکر کے ساتھ یہ ضعیف ہے، لیکن دوسری حدیث سے تقویت پاکر یہ حسن ہے)
۱۲۳۵- عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ اس بیماری میں مبتلا ہوئے جس میں آپ کی وفات ہوئی، اس وقت آپ عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں تھے، آپﷺ نے فرمایا: ''علی کو بلاؤ''عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا : اللہ کے رسول! کیا ہم ابو بکر رضی اللہ عنہ کو بلادیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ''انہیں بلاؤ'' حفصہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اللہ کے رسول! کیا عمر کو بلادیں؟ آپ نے فرمایا:''بلادو''، ام الفضل نے کہا : اللہ کے رسول! کیا ہم عباس کوبلا دیں؟آپﷺ نے فرمایا: ''ہاں'' جب سب لوگ جمع ہو گئے تو رسول اللہ ﷺ نے اپنا سر اٹھاکر ان لوگوں کی طرف دیکھا، اور خاموش رہے، عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ ﷺ کے پاس سے اٹھ جاؤ ۱؎ ، پھر بلال رضی اللہ عنہ آپ کو صلاۃ کی اطلاع دینے کے لئے آئے تو آپﷺ نے فرمایا:''ابوبکر کو حکم دو کہ وہ لوگوں کو صلاۃ پڑھائیں'' عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اللہ کے رسول ! ابوبکر نرم دل آدمی ہیں، پڑھنے میں ان کی زبان رک جاتی ہے، اور جب آپ کو نہ دیکھیں گے تو رونے لگیں گے، اور لوگ بھی رونا شروع کردیں گے، لہٰذا اگرآپ عمررضی اللہ عنہ کوحکم دیں کہ وہ لوگوں کو صلاۃ پڑھائیں (تو بہترہو)، لیکن ابوبکر نکلے، اور انہوں نے لوگوں کو صلاۃ پڑھائی، پھر رسول اللہﷺ نے اپنی طبیعت میں کچھ ہلکا پن محسوس کیا، تو دو آدمیوں پر ٹیک دے کرنکلے اور آپﷺ کے دونوں پاؤں زمین پر گھسٹ رہے تھے، جب لوگوں نے آپ کو آتے دیکھا تو ابوبکر کو''سبحان الله'' کہا، وہ پیچھے ہٹنے لگے تو نبی اکرم ﷺ نے ان کو اشارہ کیا کہ اپنی جگہ پر رہو، چنانچہ رسول اللہ ﷺ آئے، اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دائیں جانب بیٹھ گئے، اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کھڑے رہے، ابوبکر رضی اللہ عنہ نبی اکرم ﷺ کی اقتداء کررہے تھے، اور لوگ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی اقتداء کررہے تھے، عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے قراء ت وہاں سے شروع کی جہاں تک ابوبکر رضی اللہ عنہ پہنچے تھے ۲؎ ۔
وکیع نے کہا: یہی سنت ہے، راوی نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ کا اسی مرض میں انتقال ہوگیا ۔
وضاحت ۱؎ : کیوں کہ بیماری کی وجہ سے آپ کو ہمارے بیٹھنے سے تکلیف ہوگی۔
وضاحت ۲ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہو اکہ نبی کریم ﷺ نے علی رضی اللہ عنہ کو اپنی مرضی سے بلایا تھا، لیکن بیویوں کے اصرار سے اور لوگوں کو بھی بلالیا تاکہ ان کا دل ناراض نہ ہو، اور چونکہ بہت سے لوگ جمع ہوگئے اس لئے آپ دل کی بات نہ کہنے پائے، اور سکوت فرمایا، اور ابو بکر رضی اللہ عنہ کی فضیلت اور صحابہ پر ثابت ہوئی کہ آپ نے صلاۃ کی امامت کے لئے ان کو منتخب فرمایا، اور امامت صغری قرینہ ہے امامت کبری کا، اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جماعت میں شریک ہونا کیسا ضروری ہے کہ نبی اکرمﷺ بیماری اور کمزوری کے باوجود حجرہ سے باہر مسجد تشریف لائے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
143- بَاب مَا جَاءَ فِي صَلاةِ رَسُولِ اللَّه ﷺ خَلْفَ رَجُلٍ مِنْ أُمَّتِهِ
۱۴۳ -باب: رسول اللہ ﷺ کا اپنے ایک امتی کے پیچھے صلاۃ پڑھنے کا بیان​


1236- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ بَكْرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ، عَنْ حَمْزَةَ بْنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِيهِ؛ قَالَ: تَخَلَّفَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فَانْتَهَيْنَا إِلَى الْقَوْمِ وَقَدْ صَلَّى بِهِمْ عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ رَكْعَةً، فَلَمَّا أَحَسَّ بِالنَّبِيِّ ﷺ ذَهَبَ يَتَأَخَّرُ، فَأَوْمَأَ إِلَيْهِ النَّبِيُّ ﷺ أَنْ يُتِمَّ الصَّلاةَ قَالَ: < وَقَدْ أَحْسَنْتَ كَذَلِكَ فَافْعَلْ >۔
* تخريج: م/الطہارۃ ۲۲ (۲۷۴)، ن/الطہارۃ ۸۷ (۱۰۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۴۹۵)، وقد أخرجہ: حم (۶/ ۲۴۸، ۲۵۱، ۱۱۲، ۱۵۰، ۲۱۰، ۲۴۸)، دي/الصلاۃ ۸۱ (۱۳۷۵) (صحیح)
۱۲۳۶- مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ (ایک سفرمیں) پیچھے رہ گئے، اور ہم اس وقت لوگوں کے پاس پہنچے جب عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ انہیں ایک رکعت پڑھا چکے تھے، جب انہوں نے نبی اکرم ﷺ کی آمدمحسوس کی تو پیچھے ہٹنے لگے، نبی اکرم ﷺ نے ان کو صلاۃ مکمل کرنے کا اشارہ کیا، آپ ﷺ نے فرمایا: ''تم نے اچھا کیا، ایسے ہی کیا کرو'' ۱ ؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : یعنی جب صلاۃ کا وقت آجایا کرے تو صلاۃ شروع کردیا کرو، اور میرے انتظار میں تاخیر نہ کرو، یہ حکم آپﷺ نے سفر میں دیا، لیکن حضر میں تو آپ ہر روز صلاۃ کو افضل وقت پر پڑھا کرتے تھے، اور کبھی کبھی لوگ آپ کا انتظار بھی کرتے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
144- بَاب مَا جَاءَ فِي "إِنَّمَا جُعِلَ الإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ"
۱۴۴-باب: امام اس لیے مقررہوا ہے کہ اس کی پیروی کی جائے​


1237- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتِ: اشْتَكَى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فَدَخَلَ عَلَيْهِ نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِهِ يَعُودُونَهُ، فَصَلَّى النَّبِيُّ ﷺ جَالِسًا، فَصَلَّوْا بِصَلاتِهِ قِيَامًا، فَأَشَارَ إِلَيْهِمْ أَنِ اجْلِسُوا، فَلَمَّا انْصَرَفَ قَالَ: < إِنَّمَا جُعِلَ الإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ، فَإِذَا رَكَعَ فَارْكَعُوا، وَإِذَا رَفَعَ فَارْفَعُوا، وَإِذَا صَلَّى جَالِسًا فَصَلُّوا جُلُوسًا >۔
* تخريج: م/الصلاۃ ۱۹ (۴۱۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۰۶۷)، وقد أخرجہ: خ/الأذان ۵۱ (۶۸۸)، تقصیر الصلاۃ ۱۷ (۱۱۱۳)، ۲۰ (۱۱۱۹)، د/الصلاۃ ۶۹ (۶۰۵)، حم (۶/۱۱۴، ۱۶۹) (صحیح)
۲۳۷ا- ام المو منین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرمﷺ بیمار ہوئے، توآپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کچھ لوگ آپ کی عیادت کے لئے اندر آئے، آپ نے بیٹھ کر صلاۃ پڑھائی، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ کے پیچھے کھڑے ہوکر صلاۃ پڑھی، آپﷺ نے اشارہ کیا کہ بیٹھ جاؤ، جب آپ صلاۃ سے فارغ ہوئے تو فرمایا: ''امام اس لئے بنایا گیا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے، لہٰذا جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو، اور جب رکوع سے سر اٹھائے تو تم بھی اپنا سر اٹھاؤ، اور جب بیٹھ کر صلاۃ پڑھے تو تم بھی بیٹھ کر پڑھو'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : مرض الموت والی روایت سے جس میں ہے کہ آپ ﷺ نے بیٹھ کر صلاۃ پڑھائی، اور لوگوں نے کھڑے ہو کر پڑھی، یہ روایت منسوخ ہے۔


1238- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ صُرِعَ عَنْ فَرَسٍ فَجُحِشَ شِقُّهُ الأَيْمَنُ، فَدَخَلْنَا نَعُودُهُ، وَحَضَرَتِ الصَّلاةُ، فَصَلَّى بنَا قَاعِدً ، وَصَلَّيْنَا وَرَائَهُ قُعُودًا، فَلَمَّا قَضَى الصَّلاةَ قَالَ: < إِنَّمَا جُعِلَ الإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ، فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا، وَإِذَا رَكَعَ فَارْكَعُوا، وَإِذَا قَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ فَقُولُوا: رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ، وَإِذَا سَجَدَ فَاسْجُدُوا، وَإِذَا صَلَّى قَاعِدًا فَصَلُّوا قُعُودًا أَجْمَعِينَ >۔
* تخريج: خ/الصلاۃ ۱۸ (۳۷۸)، الأذان ۵۱ (۶۸۹)، ۸۲ (۷۳۲)، ۱۲۸ (۸۰۵)، تقصیرالصلاۃ ۱۷ (۱۱۱۴)، م/الصلاۃ ۱۹ (۴۱۱)، ن/الإمامۃ ۱۶ (۷۹۵)، ۴۰ (۸۳۳)، التطبیق ۲۲ (۱۰۶۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۸۵)، وقد أخرجہ: د/الصلاۃ ۶۹ (۳۶۱)، ت/الصلاۃ ۱۵۱ (۷۹۳)، ط/الجماعۃ ۵ (۱۶)، حم (۳/۱۱۰، ۱۶۲)، دي/الصلاۃ ۴۴ (۱۲۹۱) (صحیح)
۱۲۳۸- انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ گھوڑے سے گر گئے، تو آپ کے دائیں جانب خراش آگئی، ہم آپ کی عیادت کے لئے گئے، اتنے میں صلاۃ کا وقت ہوگیا، تو آپ ﷺ نے ہمیں بیٹھ کر صلاۃ پڑھائی، اور ہم نے آپ کے پیچھے بیٹھ کر صلاۃ پڑھی، جب آپﷺ نے صلاۃ پوری کرلی تو فرمایا:''امام اس لئے بنایا گیا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے، لہٰذا جب وہ ''الله أكبر'' کہے، تو تم بھی''الله أكبر'' کہو، اور جب رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو، اور جب ''سمع الله لمن حمده'' کہے، تو تم لوگ ''ربنا ولك الحمد'' کہو، اور جب سجدہ کرے تو تم سب لوگ سجدہ کرو، اورجب بیٹھ کر صلاۃ پڑھائے تو تم سب لوگ بیٹھ کر صلاۃ پڑھو'' ۔


1239- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا هُشَيْمُ بْنُ بَشِيرٍ عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < إِنَّمَا جُعِلَ الإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ، فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا، وَإِذَا رَكَعَ فَارْكَعُوا، وَإِذَا قَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، فَقُولُوا: رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ، وَإِنْ صَلَّى قَائِمًا فَصَلُّوا قِيَامًا، وَإِنْ صَلَّى قَاعِدًا فَصَلُّوا قُعُودًا >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۹۸۸)، وقد أخرجہ: خ/الأذان ۸۲ (۷۳۴)، تقصیر الصلاۃ ۱۷ (۱۱۱۴)، م/الصلاۃ ۱۹ (۴۱۴)، د/الصلاۃ ۶۹ (۶۰۳)، حم (۲/۳۱۴، ۲۳۰، ۴۱۱، ۴۳۸، ۴۷۵)، دي/الصلاۃ ۷۱ (۱۳۵۰) (صحیح)
۱۲۳۹- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''امام اس لئے بنا یا گیا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے، لہٰذا جب وہ ''اللہ أکبر'' کہے، تو تم بھی''الله أكبر'' کہو، اور جب رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو، اور جب ''سمع الله لمن حمده''کہے تو تم بھی ''ربنا ولك الحمد''کہو، اور اگر وہ کھڑے ہوکر صلاۃ پڑھے تو تم بھی کھڑے ہوکر صلاۃ پڑھو، اور اگر بیٹھ کر پڑھے تو تم بھی بیٹھ کر پڑھو''۔


1240- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ الْمِصْرِيُّ، أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ: اشْتَكَى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ، فَصَلَّيْنَا وَرَائَهُ وَهُوَ قَاعِدٌ، وَأَبُو بَكْرٍ يُكَبِّرُ يُسْمِعُ النَّاسَ تكْبِيرَهُ، فَالْتَفَتَ إِلَيْنَا فَرَآنَا قِيَامًا، فَأَشَارَ إِلَيْنَا فَقَعَدْنَا فَصَلَّيْنَا بِصَلاتِهِ قُعُودًا، فَلَمَّا سَلَّمَ قَالَ: " إِنْ كِدْتُمْ أَنْ تَفْعَلُوا فِعْلَ فَارِسَ وَالرُّومِ يَقُومُونَ عَلَى مُلُوكِهِمْ وَهُمْ قُعُودٌ، فَلاتَفْعَلُوا، ائْتَمُّوا بِأَئِمَّتِكُمْ، إِنْ صَلَّى قَائِمًا فَصَلُّوا قِيَامًا، وَإِنْ صَلَّى قَاعِدًا فَصَلُّوا قُعُودًا >۔
* تخريج: م/الصلاۃ ۱۹ (۴۱۳)، د/الصلاۃ ۶۹ (۶۰۶)، ن السہو ۱۱ (۱۱۹۹)، (تحفۃ الأشراف: ۲۹۰۶)، وقد أخرجہ: حم (۳/۳۳۴) (صحیح)
۱۲۴۰- جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسو ل اللہ ﷺ بیمار ہوئے تو ہم نے آپ کے پیچھے صلاۃ پڑھی، آپ بیٹھے ہوئے تھے، اور ابو بکر رضی اللہ عنہ تکبیر کہہ رہے تھے تاکہ لو گ سن لیں، آپ ہماری جانب متوجہ ہوئے تو ہمیں کھڑے دیکھ کر ہماری جانب اشارہ کیا، ہم بیٹھ گئے، پھر ہم نے آپ کے ساتھ بیٹھ کر صلاۃ پڑھی، جب آپ ﷺ نے سلام پھیرا تو فرمایا : ''اس وقت تم فارس اور روم والوں کی طرح کرنے والے تھے کہ وہ لوگ اپنے بادشاہوں کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں، اور بادشاہ بیٹھے رہتے ہیں، لہٰذا تم ایسا نہ کرو، اپنے اماموں کی اقتداء کرو، اگر وہ کھڑے ہو کر صلا ۃ پڑھا ئیں توکھڑے ہوکر صلاۃ پڑھو، اور اگر بیٹھ کر صلاۃ پڑھا ئیں تو بیٹھ کر صلاۃ پڑھو'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یہ واقعہ مرض الموت والے واقعے سے پہلے کا ہے، مرض الموت والے واقعے میں ہے کہ آپﷺ نے بیٹھ کر امامت کرائی، اور لوگوں نے کھڑے ہو کر آپ کے پیچھے صلاۃ پڑھی، اورآپ نے اس بارے میں کچھ نہیں کہا، اس لئے یہ بات اب منسوخ ہوگئی، اورصلاۃ میں آپ کا التفات کر نا آپ کی خصوصیات میں سے تھا، امت کے لئے آپ کا یہ فرمان ہے کہ التفات صلاۃ میں چھینا جھپٹی کانام ہے جو شیطان مصلی کے ساتھ کرتا ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
145- بَاب مَا جَائَ فِي الْقُنُوتِ فِي صَلاةِ الْفَجْرِ
۱۴۵-باب: صلاۃ فجر میں دعائے قنوت پڑھنے کا بیان​


1241- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ، وَحَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ، وَيَزِيدُ ابْنُ هَارُونَ، عَنْ أَبِي مَالِكٍ الأَشْجَعِيِّ سَعْدِ بْنِ طَارِقٍ قَالَ: قُلْتُ لأَبِي: يَاأَبَتِ! إِنَّكَ قَدْ صَلَّيْتَ خَلْفَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ وَأَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ وَعُثْمَانَ وَعَلِيٍّ هَاهُنَا بِالْكُوفَةِ، نَحْوًا مِنْ خَمْسِ سِنِينَ، فَكَانُوا يَقْنُتُونَ فِي الْفَجْرِ؟ فَقَالَ: أَيْ بُنَيَّ! مُحْدَثٌ۔
* تخريج: ت/الصلاۃ ۱۷۸ (۴۰۲)، ن/التطبیق ۳۲ (۱۰۷۹)، (تحفۃ الأشراف :۴۹۷۶)، وقد أخرجہ: حم (۳/۴۷۲، ۶/۳۹۴) (صحیح)
۱۲۴۱- ابو مالک سعد بن طارق اشجعی کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد سے کہا :ابا جان! آپ نے رسول اللہ ﷺ پھر ابوبکر وعمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے پیچھے اور کوفہ میں تقریباً پانچ سال تک علی رضی اللہ عنہ کے پیچھے صلاۃ پڑھی ہے، تو کیا وہ لوگ صلاۃ فجر میں دعائے قنوت پڑھتے تھے؟انہوں نے کہا: بیٹے یہ نئی بات ہے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : قنوت نازلہ صلاۃ فجر میں بوقت ضرورت پڑھی گئی تھی، پھر چھوڑ دی گئی، اس لئے مداومت (ہمیشہ پڑھنے) کو طارق اشجعی رضی اللہ عنہ نے بدعت کہا ہے، ضرورت پڑنے پر اب بھی پڑھی جاسکتی ہے۔


1242- حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ بَكْرٍ الضَّبِّيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَعْلَى، زُنْبُورٌ، حَدَّثَنَا عَنْبَسَةُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ نَافِعٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ قَالَتْ: نُهِيَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عَنِ الْقُنُوتِ فِي الْفَجْرِ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ (تحفۃ الأشراف: ۱۸۲۱۹، ومصباح الزجاجۃ: ۴۳۵) (موضوع)
(محمد بن یعلی متروک الحدیث اورجہمی ہے، اورعنبسہ حدیث گھڑا کرتا تھا، اور عبد اللہ بن نافع منکر احادیث کے راوی ہیں، نیز نافع کا سماع ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے صحیح نہیں ہے)
۱۲۴۲- ام المو منین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کو صلاۃ فجر میں دعائے قنوت پڑھنے سے منع کردیا گیا ۔
وضاحت ۱ ؎ : یہ حدیث جھوٹی ہے، اگر صحیح ہوتی تو حنفیہ کی عمدہ دلیل تھی ۔


1243- حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ كَانَ يَقْنُتُ فِي صَلاةِ الصُّبْحِ، يَدْعُو عَلَى حَيٍّ مِنْ أَحْيَاءِ الْعَرَبِ، شَهْرًا، ثُمَّ تَرَكَ۔
* تخريج:خ/المغازي ۲۹ (۴۰۸۹)، م/المساجد ۵۴ (۶۷۷)، ن/التطبیق ۲۷ (۱۰۷۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۵۴)، وقد أخرجہ: د/الصلاۃ ۳۴۵ (۱۴۴۴)، حم (۳/۱۱۵، ۱۸۰، ۲۱۷، ۲۶۱) (صحیح)
۱۴۴۳- انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ صلاۃ فجر میں دعائے قنوت پڑھتے رہے، اور عرب کے ایک قبیلہ (مضرپر) ایک مہینہ تک بددعا کرتے رہے، پھراسے آپ نے ترک کردیا ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : جنہوں نے چند قراء کرام رضی اللہ عنہم کو دھوکے سے مار ڈالا تھا ۔


1244- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدبْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: لَمَّا رَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ رَأْسَهُ مِنْ صَلاةِ الصُّبْحِ قَالَ: < اللَّهُمَّ! أَنْجِ الْوَلِيدَ بْنَ الْوَلِيدِ، وَسَلَمَةَ بْنَ هِشَامٍ، وَعَيَّاشَ بْنَ أَبِي رَبِيعَةَ، وَالْمُسْتَضْعَفِينَ بِمَكَّةَ، اللَّهُمَّ! اشْدُدْ وَطْأَتَكَ عَلَى مُضَرَ، وَاجْعَلْهَا عَلَيْهِمْ سِنِينَ كَسِنِي يُوسُفَ >۔
* تخريج: خ/الأذان ۱۲۸ (۸۰۴)، الاستسقاء ۲ (۱۰۰۶)، الجہاد ۹۸ (۲۹۳۲)، الأنبیاء ۱۹ (۳۳۸۶)، تفسیرآلعمران ۹ (۴۵۶۰)، تفسیرالنساء ۲۱ (۴۵۹۸)، الدعوات ۵۸ (۶۳۹۳)، الإکرا ہ ۱ (۶۹۴۰)، الأدب ۱۱۰ (۶۲۰۰)، م/المساجد ۵۴ (۶۷۵)، ن/التطبیق ۲۷ (۱۰۷۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۱۳۲)، وقد أخرجہ: د/الصلاۃ ۳۴۵ (۱۴۴۲)، حم (۲/۲۳۹، ۲۵۵، ۲۷۱، ۴۱۸، ۴۷۰، ۵۰۷، ۵۲۱)، دي/الصلاۃ ۲۱۶ (۱۶۳۶) (صحیح)
۱۲۴۴- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ صلاۃ فجر سے اپنا سر اٹھاتے توفرماتے: ''اللَّهُمَّ! أَنْجِ الْوَلِيدَ بْنَ الْوَلِيدِ، وَسَلَمَةَ بْنَ هِشَامٍ، وَعَيَّاشَ بْنَ أَبِي رَبِيعَةَ، وَالْمُسْتَضْعَفِينَ بِمَكَّةَ، اللَّهُمَّ! اشْدُدْ وَطْأَتَكَ عَلَى مُضَرَ، وَاجْعَلْهَا عَلَيْهِمْ سِنِينَ كَسِنِي يُوسُفَ'' (اے اللہ! ولید بن ولید، سلمہ بن ہشام، عیاش بن ابی ربیعہ اور مکہ کے کمزور حال مسلمانوں کونجات دے دے، اے اللہ !تو اپنی پکڑ قبیلہ مضر پر سخت کردے، اور یوسف علیہ السلام کے عہد کے قحط کے سالوں کی طرح ان پر بھی قحط مسلط کردے) ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : جیسے سالہا سال یوسف علیہ السلام کے عہد میں مصر میں گزرے تھے کہ پانی بالکل نہیں برسا اور قحط ہوگیا، ویسا ہی کفار مضر پر قحط بھیج تاکہ یہ بھوک سے تباہ و برباد ہوجائیں ۔ دوسری روایت میں دعاء قنوت یوں وارد ہے : اللهم اغفر للمؤمنين والمؤمنات و المسلمين و المسلمات، و ألف بين قلوبهم، و أصلح ذات بينهم، وانصرهم على عدوك وعدوهم، اللهم العن الكفرة الذين يصدون عن سبيلك، ويكذبون رسلك، ويقاتلون أوليائك، اللهم خالف بين كلمتهم، و زلزل أقدامهم، و أنزل بهم بأسك الذي لاترده عن القوم المجرمين ۔ جب کافر مسلمانوں کو ستائیں یا مسلمانوں پر کوئی آفت کافروں کی طرف سے آئے تو اس دعاء قنوت کو پڑھے، اور اس کے بعد یوں کہے: اللهم أنج فلانا وفلانا اور فلاں کی جگہ ان مسلمانوں کا نام لے جن کا چھڑانا کافروں سے مطلوب ہو۔ والمستضعفين بمكة میں مکہ کی جگہ پر اس کا نام لے جہاں یہ مسلمان کافروں کے ہاتھ سے تکلیف اٹھارہے ہوں۔ اللهم اشدد وطأتك على مضر کی جگہ بھی ان کافروں کا نام لے جو مسلمانوں کو تکلیف دیتے ہیں ۔ حدیث میں ولید، سلمہ اور عیاش رضی اللہ عنہم کے لئے آپ ﷺ نے دعا کی، یہ سب مسلمان ہوگئے تھے لیکن مکہ میں ابو جہل اور دوسرے کافروں نے ان کو سخت قید اور تکلیف میں رکھا تھا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
146- بَاب مَا جَاءَ فِي قَتْلِ الْحَيَّةِ وَالْعَقْرَبِ فِي الصَّلاةِ
۱۴۶ -باب: دورانِ صلاۃ سانپ اور بچھو مارنے کا بیان​


1245- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ قَالا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ ضَمْضَمِ بْنِ جَوْسٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ أَمَرَ بِقَتْلِ الأَسْوَدَيْنِ فِي الصَّلاةِ: الْعَقْرَبِ وَالْحَيَّةِ۔
* تخريج: د/الصلاۃ ۱۶۹ (۹۲۱)، ت/الصلاۃ ۱۷۰ (۳۹۰)، ن/السہو۱۲ (۱۲۰۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۵۱۳)، وقد أخرجہ: حم (۲/۲۳۳، ۲۵۵، ۲۷۳، ۲۷۵، ۲۸۴، ۴۹۰)، دي/الصلاۃ ۱۷۸ (۱۵۴۵) (صحیح)
۱۲۴۵- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے صلاۃ میں دو کالوں کو مار ڈالنے کا حکم دیا: سانپ کو اور بچھوکو ۱ ؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : کیونکہ یہ دونوں سخت موذی جانور ہیں اور اگر صلاۃ کے تمام ہونے کا انتظار کیا جائے گا تو ان کے بھاگ جانے کا اندیشہ ہے، اس لئے صلاۃ کے اندر ہی ان کو مارنا درست ہوا، اگر چہ چلنے اورعمل کثیر کی حاجت پڑے پھربھی صلاۃ فاسد نہ ہوگی، اور پھر مارنے کے بعد صلاۃ وہیں سے شروع کردے جہاں تک پڑھی تھی، واضح رہے جن کاموں کے کرنے کی اجازت نبی اکرم ﷺ نے دی ہے ان سے صلاۃ فاسد نہیں ہوتی جیسے سانپ بچھو مارنا، اگر کوئی اور گھر میں نہ ہو تو زنجیر کھول دینا، اشارہ سے سلام کا جواب دینا، ضرورت کے وقت کھنکار دینا مثلاً باہر کوئی پکارے اور یہ گھر کے اندر صلاۃ میں ہو تو کھنکار دے، قیام اور رکوع منبر پر کرنا، اور سجدہ کے لئے نیچے اترنا، پھر منبرپر چلے جانا، بچے کو کندھے پر اٹھالینا، رکوع اور سجدہ کے وقت اس کو زمین پر بٹھادینا پھر قیام کے وقت لے لینا، بھولے سے بات کرنا، اور امام بھول جائے تواس کو بتانا یعنی لقمہ دینا، نفل صلاۃ میں قرآن (مصحف) میں دیکھ کر پڑھنا، کوئی مصلی کے سامنے سے گزرتا ہو تو ہاتھ سے اس کو ہٹانا یا ہاتھ سے اس کو ضرب لگانا۔


1246- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ حَكِيمٍ الأَوْدِيُّ، وَالْعَبَّاسُ بْنُ جَعْفَرٍ قَالا: حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ ثَابِتٍ الدَّهَّانُ، حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ عَبْدِالْمَلِكِ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: لَدَغَتِ النَّبِيَّ ﷺ عَقْرَبٌ وَهُوَ فِي الصَّلاةِ، فَقَالَ: < لَعَنَ اللَّهُ الْعَقْرَبَ، مَا تَدَعُ الْمُصَلِّيَ وَغَيْرَ الْمُصَلِّي، اقْتُلُوهَا فِي الْحِلِّ وَالْحَرَمِ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۱۲۵، ومصباح الزجاجۃ: ۴۳۶)، وقد أخرجہ: حم (۶/۲۵۰) (صحیح)
(اس کی سند میں حکم بن عبد الملک ضعیف ہیں، لیکن دوسرے طرق سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے)
۱۲۴۶- ام المو منین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرمﷺ کو ایک بچھو نے صلاۃ میں ڈنک مار دیا، صلاۃ سے فارغ ہوکر آپﷺ نے فرمایا: ''اللہ بچھو پر لعنت کرے کہ وہ مصلی و غیر مصلی کسی کو نہیں چھوڑتا، اسے حرم اور حرم سے باہر، ہر جگہ میں مار ڈالو''۔


1247- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا الْهَيْثَمُ بْنُ جَمِيلٍ، حَدَّثَنَا مِنْدَلٌ، عَنِ ابْنِ أَبِي رَافِعٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَتَلَ عَقْرَبًا وَهُوَ فِي الصَّلاةِ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۰۲۲، ومصباح الزجاجۃ: ۴۳۷) (ضعیف)
(اس کی سند میں مندل ابن علی العنبری الکوفی ضعیف راوی ہیں)
۱۲۴۷- ابو رافع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے صلاۃ کی حالت میں ایک بچھو کو مارڈالا ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
147- بَاب النَّهْيِ عَنِ الصَّلاةِ بَعْدَ الْفَجْرِ وَبَعْدَ الْعَصْرِ
۱۴۷-باب: فجراور عصر کے بعد صلاۃ پڑھنے کی ممانعت​


1248- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، وَأَبُو أُسَامَةَ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ خُبَيْبِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ حَفْصِ بْنِ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ نَهَى عَنْ صَلاتَيْنِ: عَنِ الصَّلاةِ بَعْدَ الْفَجْرِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ، وَبَعْدَ الْعَصْرِ حَتَّى تَغْرُبَ الشَّمْسُ ۔
* تخريج: خ/المواقیت ۳۰ (۵۸۴)، ۳۱ (۵۸۸)، اللباس ۲۰ (۵۸۱۹)، م/المسافرین ۵۱ (۸۲۵)، ن/المواقیت ۳۲ (۵۶۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۲۶۵)، وقد أخرجہ: ط/القرآن ۱۰ (۴۸)، حم (۲/۴۶۲، ۴۹۶، ۵۱۰، ۵۲۹)، (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے : ۲۱۶۹، ۳۵۶۰) (صحیح)
۱۲۴۸- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے دو صلاۃ سے منع فرمایا، ایک فجر کے بعد صلاۃ پڑھنے سے سورج نکلنے تک، دوسرے عصر کے بعد صلاۃ پڑھنے سے سورج ڈوب جانے تک ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : مکروہ اوقات میں سے اس حدیث میں دو وقت، مذکور ہیں اور دوسری حدیث میں دیگر تین اوقات مذکور ہیں، ایک سورج نکلنے کے وقت، دوسرے سورج ڈوبنے کے وقت، تیسرے ٹھیک دوپہر کے وقت، علماء کا اس مسئلہ میں بہت اختلاف ہے، دلائل متعارض ہیں، اور اہل حدیث نے اس کو ترجیح دی ہے کہ ان اوقات میں بلاضرورت اور بلاسبب اور ضرورت سے جیسے طواف کے بعد دورکعت یا تحیۃ المسجد کی سنت اور واجب کی قضا جیسے وتر یا فجر یا ظہر کے دو رکعت کی قضا ان اوقات میں درست اورصحیح ہے، اسی طرح مکہ مستثنیٰ ہے، وہاں ہر وقت صلاۃ صحیح ہے، اسی طرح جمعہ کی صلاۃ مستثنیٰ ہے اور وہ ٹھیک دوپہر کے وقت بھی صحیح ہے۔


1249- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَعْلَى التَّيْمِيُّ، عَنْ عَبْدِالْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ قَزَعَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: <لاصَلاةَ بَعْدَ الْعَصْرِ حَتَّى تَغْرُبَ الشَّمْسُ، وَلا صَلاةَ بَعْدَ الْفَجْرِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ >۔
* تخريج: خ/المواقیت ۳۱ (۵۸۶)، الصوم ۶۷ (۱۹۹۵)، (تحفۃ الأشراف: ۴۲۷۹)، وقد أخرجہ: م/المسافرین۵۱ (۸۲۷)، ن/المواقیت ۳۴ (۵۶۸)، حم (۳/۷، ۳۹، ۴۶، ۵۲، ۵۳، ۶۰، ۶۷، ۷۱) (صحیح)
۴۹ ۱۲- ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ' 'صلاۃِ عصر کے بعد کوئی صلاۃ نہیں یہاں تک کہ سورج ڈوب جائے اور صلاۃ فجر کے بعد کوئی صلاۃ نہیں یہاں تک کہ سور ج نکل آ ئے''۔


1250- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ (ح) وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: شَهِدَ عِنْدِي رِجَالٌ مَرْضِيُّونَ، فِيهِمْ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، وَأَرْضَاهُمْ عِنْدِي عُمَرُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < لا صَلاةَ بَعْدَ الْفَجْرِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ، وَلا صَلاةَ بَعْدَ الْعَصْرِ حَتَّى تَغْرُبَ الشَّمْسُ >۔
* تخريج: خ/المواقیت۳۰ (۵۸۱)، م/المسافرین ۵۱ (۸۲۶)، د/الصلاۃ ۲۹۹ (۱۲۷۶)، ت/الصلاۃ۲۰ (۱۸۳)، ن/المواقیت ۳۲ (۵۶۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۴۹۲)، وقد أخرجہ: حم (۱/۲۱، ۳۹، ۵۰، ۵۱)، دي/الصلاۃ ۱۴۲ (۱۴۷۳) (صحیح)
۱۲۵۰- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میرے پاس کئی اچھے لوگوں نے گواہی دی، ان میں میرے نزدیک سب زیادہ اچھے شخص عمررضی اللہ عنہ تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''صلاۃ فجر کے بعد کوئی صلاۃ نہیں یہاں تک کہ سورج نکل آئے، اور عصر کے بعد کوئی صلاۃ نہیں یہاں تک کہ سورج ڈوب جائے'' ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
148- بَاب مَا جَاءَ فِي السَّاعَاتِ الَّتِي تُكْرَهُ فِيهَا الصَّلاةُ
۱۴۸ -باب: جن اوقات میں صلاۃ مکروہ ہے ان کابیان​


1251- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ يَعْلَى بْنِ عَطَائٍ، عَنْ يَزِيدَ ابْنِ طَلْقٍ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ الْبَيْلَمَانِيِّ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ عَبَسَةَ، قَالَ: أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ فَقُلْتُ: هَلْ مِنْ سَاعَةٍ أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ مِنْ أُخْرَى؟ قَالَ: < نَعَمْ، جَوْفُ اللَّيْلِ الأَوْسَطُ، فَصَلِّ مَا بَدَا لَكَ حَتَّى يَطْلُعَ الصُّبْحُ، ثُمَّ انْتَهِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ، وَمَا دَامَتْ كَأَنَّهَا حَجَفَةٌ حَتَّى تُبَشْبِشَ، ثُمَّ صَلِّ مَا بَدَا لَكَ حَتَّى يَقُومَ الْعَمُودُ عَلَى ظِلِّهِ، ثُمَّ انْتَهِ حَتَّى تَزِيغَ الشَّمْسُ فَإِنَّ جَهَنَّمَ تُسْجَرُ نِصْفَ النَّهَارِ، ثُمَّ صَلِّ مَا بَدَا لَكَ حَتَّى تُصَلِّيَ الْعَصْرَ، ثُمَّ انْتَهِ حَتَّى تَغْرُبَ الشَّمْسُ، فَإِنَّهَا تَغْرُبُ بَيْنَ قَرْنَيِ الشَّيْطَانِ وَتَطْلُعُ بَيْنَ قَرْنَي الشَّيْطَانِ >۔
* تخريج: ن/المواقیت ۳۹ (۵۸۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۷۶۲)، وقد أخرجہ: م/المسافرین ۵۲ (۸۳۲)، د/الصلاۃ ۲۹۹ (۱۲۷۷)، ت/الدعوات ۱۱۹ (۳۵۷۹)، حم (۴/۱۱۱، ۱۱۴، ۳۸۵)، (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے: ۱۳۶۴) (صحیح)
(دوسرے طرق سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس کی سند میں یزید بن طلق مجہول اور عبد الرحمن بن البیلمانی ضعیف ہیں، نیز ''جَوْفُ اللَّيْلِ الأَوْسَطُ'' کا جملہ منکر ہے، بلکہ صحیح جملہ''جَوْفُ اللَّيْلِ الأَخير'' ہے، جو دوسری حدیثوں سے ثابت ہے)
۱۲۵۱- عمروبن عبسہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میںنے رسول اللہ ﷺ کے پاس آکر عرض کیا: کیا کوئی وقت اللہ تعالیٰ کے نزدیک دوسرے وقت سے زیادہ محبوب وپسندیدہ ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: ''ہاں، رات کا بیچ کا حصہ، لہٰذا اس میں جتنی صلاتیں چاہتے ہو پڑھو، یہاں تک کہ صبح صادق ہوجائے، پھر رک جاؤ یہاں تک کہ سورج نکل آئے، اور جب تک وہ ڈھال کے مانند رہے رکے رہویہاں تک کہ وہ پوری طرح روشن ہوجائے، پھر جتنی صلاتیں چاہتے ہو پڑھو یہاں تک کہ ستون کا اپنا اصلی سایہ رہ جائے، پھر رک جاؤ یہاں تک کہ سورج ڈھل جائے، اس لئے کہ دو پہر کے وقت جہنم بھڑکائی جاتی ہے، پھر عصر تک جتنی صلاۃ چاہو پڑھو، پھر رک جاؤ یہاں تک کہ سورج ڈوب جائے اس لئے کہ اس کا نکلنا اور ڈوبنا شیطان کی دونوں سینگوں کے درمیان ہوتا ہے ۔


1252- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ دَاوُدَ الْمُنْكَدِرِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ، عَنِ الضَّحَّاكِ بْنِ عُثْمَانَ، عَنِ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: سَأَلَ صَفْوَانُ بْنُ الْمُعَطَّلِ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ فَقَالَ: يَارَسُولَ اللَّهِ! إِنِّي سَائِلُكَ عَنْ أَمْرٍ أَنْتَ بِهِ عَالِمٌ وَأَنَا بِهِ جَاهِلٌ ؟ قَالَ: < وَمَا هُوَ؟ > قَالَ: هَلْ مِنْ سَاعَاتِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ سَاعَةٌ تُكْرَهُ فِيهَا الصَّلاةُ ؟ قَالَ: < نَعَمْ، إِذَا صَلَّيْتَ الصُّبْحَ، فَدَعِ الصَّلاةَ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ، فَإِنَّهَا تَطْلُعُ بِقَرْنَيِ الشَّيْطَانِ، ثُمَّ صَلِّ فَالصَّلاةُ مَحْضُورَةٌ مُتَقَبَّلَةٌ حَتَّى تَسْتَوِيَ الشَّمْسُ عَلَى رَأْسِكَ كَالرُّمْحِ، فَإِذَا كَانَتْ عَلَى رَأْسِكَ كَالرُّمْحِ فَدَعِ الصَّلاةَ، فَإِنَّ تِلْكَ السَّاعَةَ تُسْجَرُ فِيهَا جَهَنَّمُ وَتُفْتَحُ فِيهَا أَبْوَابُهَا، حَتَّى تَزِيغَ الشَّمْسُ عَنْ حَاجِبِكَ الأَيْمَنِ، فَإِذَا زَالَتْ فَالصَّلاةُ مَحْضُورَةٌ مُتَقَبَّلَةٌ حَتَّى تُصَلِّيَ الْعَصْرَ، ثُمَّ دَعِ الصَّلاةَ حَتَّى تَغِيبَ الشَّمْسُ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۹۶۳، ومصباح الزجاجۃ: ۴۳۸)، و حم (۵/۳۱۲) (صحیح)
۱۲۵۲- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ صفوان بن معطل رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا:اللہ کے رسول! میں آپ سے ایک ایسی بات پوچھ رہاہوں جسے آپ جانتے ہیں میں نہیں جانتا، آپ ﷺ نے پوچھا: ''وہ کیا ہے''؟ صفوان رضی اللہ عنہ نے کہا: رات اور دن میں کوئی وقت ایسا بھی ہے جس میں صلاۃ مکروہ ہو؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ''ہاں''، جب تم صلاۃ فجر پڑھ لو تو صلاۃ سے رکے رہو یہاں تک کہ سورج نکل آ ئے، اس لئے کہ وہ شیطان کے دوسینگوں کے درمیان نکلتا ہے، پھر صلاۃ پڑھو اس میں فرشتے حاضر ہوں گے اور وہ قبول ہوگی، یہاں تک کہ سورج سیدھے سر پہ نیزے کی طرح آجائے تو صلاۃ چھوڑدو کیوں کہ اس وقت جہنم بھڑکائی جاتی ہے، اور اس کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں، یہاں تک کہ سورج تمہارے دائیں ابرو سے ڈھل جائے، لہٰذا جب سورج ڈھل جائے (تو صلاۃ پڑھو) اس میںفرشتے حاضر ہوں گے اور وہ قبول ہوگی، یہاں تک کہ عصر پڑھ لو، پھر (عصر کے بعد) صلاۃ چھوڑ دو یہاں تک کہ سورج ڈوب جائے'' ۔


1253- حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، أَنْبَأَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي عَبْدِاللَّهِ الصُّنَابِحِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < إِنَّ الشَّمْسَ تَطْلُعُ بَيْنَ قَرْنَيِ الشَّيْطَانِ (أَوْ قَالَ يَطْلُعُ مَعَهَا قَرْنَا الشَّيْطَانِ) فَإِذَا ارْتَفَعَتْ فَارَقَهَا، فَإِذَا كَانَتْ فِي وَسَطِ السَّمَاءِ قارَنَهَا، فَإِذَا دَلَكَتْ ( أَوْ قَالَ زَالَتْ ) فَارَقَهَا، فَإِذَا دَنَتْ لِلْغُرُوبِ قَارَنَهَا، فَإِذَا غَرَبَتْ فَارَقَهَا ، فَلا تُصَلُّوا هَذِهِ السَّاعَاتِ الثَّلاثَ >۔
* تخريج: ن/المواقیت ۳۰ (۵۶۰)، (تحفۃ الأشراف: ۹۶۷۸)، ط/القرآن ۱۰ (۴۴)، حم (۴/۳۴۸، ۳۴۹) (ضعیف)
(ابوعبد اللہ صنابحی عبد الرحمن بن عُسیلہ تابعی ہیں اس لئے یہ حدیث مرسل اور ضعیف ہے نیز ملاحظہ ہو: ضعیف الجامع برقم : ۱۴۷۲)
۱۲۵۳- ابوعبداللہ صنابحی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''بیشک سورج شیطان کے دوسینگوں کے درمیان نکلتا ہے، یا فرمایا کہ سورج کے ساتھ وہ کی دونوں سینگیں نکلتی ہیں، جب سورج بلند ہوجاتا ہے تو وہ اس سے الگ ہوجاتا ہے، پھر جب سورج آسمان کے بیچ میں آتا ہے تو وہ اس سے مل جاتا ہے، پھر جب سورج ڈھل جاتا ہے تو شیطان اس سے الگ ہوجاتا ہے، پھر جب ڈوبنے کے قریب ہوتا ہے تو وہ اس سے مل جاتا ہے، پھر جب ڈوب جاتا ہے تووہ اس سے جدا ہوجاتا ہے، لہٰذا تم ان تین اوقات میں صلاۃ نہ پڑھو'' ۱ ؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ یہ اوقات مشرکین کی عبادت کے اوقات ہیں جو اللہ کے سوا سورج کی عبادت کرتے ہیں، تو ان اوقات میں گو اللہ تعالی کی عبادت کی جائے لیکن مشرکین کی مشابہت کی وجہ سے مکروہ اور منع ٹھہری ۔ یہاں ایک اعتراض ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ زمین کروی (گول) ہے اور وہ سورج کے گرد گھوتی ہے اب جو لوگ زمین کے چاروں طرف رہتے ہیں، ان کا کوئی وقت اس سے خالی نہ ہوگا یعنی کہیں دوپہر ضرور ہی ہوگی اور کہیں سورج نکل رہا ہوگا اور کہیں ڈوب رہا ہوگا، پس ہر وقت میں صلاۃ منع ٹھہرے گی، اس کا جواب یہ ہے کہ ہر ایک ملک والوں کو اپنے طلوع اور غروب اور استواء سے غرض ہے، دوسرے ملکوں سے غرض نہیں، پس جس وقت ہمارے ملک میں زوال ہوجائے تو صلاۃ صحیح ہوگی، حالانکہ جس وقت ہمارے ہاں زوال ہوا ہے اس وقت ان لوگوں کے پاس جو مغرب کی طرف ہٹے ہوئے ہیں استواء کا وقت ہوا ۔ ایک اعتراض اور ہوتا ہے کہ جب سورج کسی وقت میں خالی نہ ہوا یعنی کسی نہ کسی ملک میں اس وقت استواء ہوگا، اور کسی نہ کسی ملک میں اس وقت طلوع ہوگا، اور کسی نہ کسی ملک میں غروب تو شیطان سورج سے جدا کیونکر ہوگا بلکہ ہروقت سورج کے ساتھ رہے گا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ بے شک جو شیطان سورج پر متعین ہے وہ ہر وقت اس کے ساتھ رہتا ہے، اور سورج کے ساتھ ہی ساتھ پھرتا رہتا ہے، لیکن جدا ہونے کا مقصد یہ ہے کہ سورج کے ساتھ ہی وہ ہماری سمت سے ہٹ جاتا ہے، اور مشرکوں کی عبادت کا وقت ہمارے ملک میں ختم ہوجاتا ہے، اور ہمارے لیے صلاۃ کی ادائیگی اور عبادت کرنا صحیح ہوجاتا ہے، گو نفس الامر میں وہ سورج سے جدا نہ ہو اس لئے کہ ہر گھڑی کہیں نہ کہیں طلوع او ر غروب اور استواء کا وقت ہے۔ واللہ اعلم ۔
 
Top