2- بَاب النَّهْيِ أَنْ يُحْلَفَ بِغَيْرِ اللَّهِ
۲-باب: اللہ کے علاوہ کسی اور کی قسم کھانے کی ممانعت
2094- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عُمَرَ الْعَدَنِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمِ ابْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ،عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عُمَرَ؛ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ سَمِعَهُ يَحْلِفُ بِأَبِيهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " إِنَّ اللَّهَ يَنْهَاكُمْ أَنْ تَحْلِفُوا بِآبَائِكُمْ " قَالَ عُمَرُ: فَمَا حَلَفْتُ بِهَا ذَاكِرًا وَلا آثِرًا۔
* تخريج: خ/الأیمان ۴ (۶۶۴۷)، م/الأیمان والنذور۵ (۱۶۴۶)، ن/الأیمان والنذور ۴ (۳۷۹۸)، د/الأیمان والنذور ۵ (۳۲۵۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۵۱۸)، وقد أخرجہ: ت/الأیمان ۸ (۱۵۳۳)، حم (۲/۱۱، ۳۴، ۶۹، ۸۷، ۱۲۵، ۱۴۲) (صحیح)
۲۰۹۴- عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے انہیں باپ کی قسم کھا تے ہو ے سنا تو فرمایا: ''اللہ تمہیں باپ دادا کی قسم کھا نے سے منع کرتا ہے،'' اس کے بعد میں نے کبھی باپ دادا کی قسم نہیں کھائی، نہ اپنی طرف سے، اور نہ دوسرے کی نقل کر کے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : امام مسلم کی روایت میں اتنا زیادہ ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : پھر جو کوئی قسم کھانا چاہے تو اللہ کی قسم کھائے یا چپ رہے ۔
2095- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُالأَعْلَى، عَنْ هِشَامٍ،عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ سَمُرَةَ ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " لا تَحْلِفُوا بِالطَّوَاغِي، وَلا بِآبَائِكُمْ "۔
* تخريج: م/الایمان ۲ (۱۶۴۸)، ن/الأیمان ۹ (۳۸۰۵)، (تحفۃ الأشراف: ۹۶۹۷)، وقد أخرجہ: حم (۵/۶۲) (صحیح)
۲۰۹۵- عبدالرحمن بن سمرہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''نہ طاغوتوں( بتوں) کی، اور نہ اپنے باپ دادا کی قسم کھا ئو '' ۔
2096- حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدِّمَشْقِيُّ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ عَبْدِالْوَاحِدِ،عَنِ الأَوْزَاعِيِّ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: " مَنْ حَلَفَ، فَقَالَ فِي يَمِينِهِ: بِاللاتِ وَالْعُزَّى، فَلْيَقُلْ: لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ "۔
* تخريج: خ/تفسیر سورۃ النجم ۲ (۴۸۶۰)، الادب ۷۴ (۶۱۰۷)، الاستئذان ۵۲ (۶۳۰۱)، الأیمان ۵ (۶۶۵۰)، م/الأیمان ۲ (۱۶۴۷)، د/الایمان ۴ (۲۳۴۷)، ت/الأیمان ۱۷ (۱۵۴۵)، ن/الأیمان ۱۰ (۳۸۰۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۲۷۶)، وقد أخرجہ: حم (۲/۳۰۹) (صحیح)
۲۰۹۶- ابو ہر یرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : ''جس نے قسم کھائی، اور اپنی قسم میں لات اور عزیٰ کی قسم کھائی ، تو اسے چا ہیے کہ وہ
''لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ '' کہے : ( اللہ تعالی کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں) '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : '' لات '' اور '' عزی'' دو بڑے بت تھے جن کی زمانہ جاہلیت میں عرب عبادت کرتے تھے، واضح رہے اگر بے اختیار عادت کے طور پر ان کا نام نکل جائے اور دل میں ان کی کوئی تعظیم نہ ہو تو آدمی کافر نہ ہوگا، اگر تعظیم کی نیت سے کہا تو وہ کافر و مرتد ہے ، اس پر دوبارہ اسلام لانا واجب ہے(لمعات التنقیح) ۔
2097- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، وَالْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلالُ، قَالا: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ،عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ سَعْدٍ؛ قَالَ: حَلَفْتُ بِاللاتِ وَالْعُزَّى، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " قُلْ : لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ وَحْدَهُ لا شَرِيكَ لَهُ، ثُمَّ انْفُثْ عَنْ يَسَارِكَ ثَلاثًا، وَتَعَوَّذْ،وَلا تَعُدْ "۔
* تخريج: ن/الأیمان والنذور ۱۱ (۳۸۰۷)، ( تحفۃ الأشراف: ۳۹۳۸)، وقد أخرجہ: حم (۱/۱۸۳) (ضعیف)
(سند میں ابو اسحاق مختلط ومدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے،ملاحظہ ہو: إلارواء : ۸/۱۹۲ )
۲۰۹۷- سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے لات اور عزیٰ کی قسم کھا لی، تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''تم
''لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ وَحْدَهُ لا شَرِيكَ لَهُ'' کہو ( اللہ تعالی کے علاوہ کو ئی معبود برحق نہیں اس کا کوئی شریک نہیں ) ، پھر اپنے با ئیں طرف تین بار تھو تھو کرو، اور اعوذ باللہ کہو( میں شیطا ن سے اللہ تعالی کی پناہ چاہتا ہوں) پھر ایسی قسم نہ کھانا '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے اور اوپر کی حدیث سے یہ نکلتا ہے کہ اگر غیراللہ کی قسم اس کو معظم سمجھ کر کھائے تو آدمی کافر ہوجاتا ہے، لیکن معظم سمجھنے سے کیا مراد ہے؟ اس میں علماء کا اختلاف ہے، بعضوں نے کہا: ان کو اللہ تعالیٰ کے برابر اور ہمسر سمجھے، لیکن ایسا تو کفارو مشرکین بھی نہیں سمجھتے تھے، وہ بھی جانتے تھے کہ اللہ سب سے بڑا ہے، اور آسمان اور زمین کا وہی خالق ہے جیسے اس آیت میں ہے:
{وَلَئِن سَأَلْتَهُم مَّنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ } [سورة لقمان:25] اور اس آیت میں :
{ مَا نَعْبُدُهُمْ إِلا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّهِ زُلْفَى } [سورة الزمر:3] یعنی ہم بتوں کو اس لئے پوجتے ہیں تا کہ وہ ہم کو اللہ کے نزدیک کردیں، اور یہ مسئلہ بڑا نازک ہے اور شرک کا معاملہ بہت بڑا ہے، شرک ایسا گناہ ہے جو کبھی نہیں بخشا جائے گا، پس ہر مسلمان کو اس سے پرہیز کرنا چاہئے، شرک یہ ہے کہ جب اللہ کے علاوہ کسی کو کوئی اس لائق سمجھے کہ وہ بغیر اللہ کی مشیت اور ارادے کے کوئی برائی یا بھلائی کا کام کرسکتا ہے، یا اس کا کچھ زور اللہ تعالیٰ پر ہے، معاذ اللہ، دنیا کے بادشاہوں کی طرح جیسے وہ اپنے نائبوں کا لحاظ رکھتے ہیں، یہ ڈر کر کہ اگر وہ ناراض ہوجائیں گے تو ان کے کارخانہ میں خلل ہوجائے گا۔
یا وہ اللہ کی طرح ہرپکارنے والے کی پکارسن لیتا ہے ،یا نزدیک ہو یا دور،یا ہرمشکل کے وقت نزدیک ہو دور کام آسکتاہے، یا ہربات دیکھتا اورسنتاہے ، تو اس نے شرک کیا ، گووہ اس کو اللہ کے برابر نہ سمجھے ، معظم سمجھنے کے یہی معنی ہیں، یہ مطلب نہیں ہے کہ غیر اللہ کی عظمت بالکل نہ کرے ، انبیاء ورسل ، فرشتوں اور اولیاء وصلحاء کی تعظیم ہماری شریعت میں ہے ، مگر یہ تعظیم یہی ہے کہ ان سے محبت کی جائے ، ان کو اللہ کا نیک بندہ سمجھاجائے ، مگر یہ نہیں ہوسکتاکہ وہ اللہ کی مشیت کے بغیرکسی کا رتی بھر کام نکال سکتے ہیں، یا اللہ تعالیٰ کے حکم میں کچھ چوں وچرا کرسکتے ہیں، یا ان کا کچھ زور- معاذ اللہ- اللہ تعالیٰ پر ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کو کسی سے رتی برابربھی ڈر وخوف نہیں ہے ۔ اوریہ سب اگراللہ تعالیٰ کے حکم کے خلاف متحدہوجائیں تووہ ایک لحظہ میں ان سب کو تباہ وبرباد کرسکتاہے ، اور ان سب کے خلاف ہوجانے سے اس کا ذرہ برابر بھی کوئی کام متاثرنہیں ہوسکتا، یہ موحدوں کا اعتقادہے ، پس موحد جب غیر اللہ کی قسم کھا ئے گا تو یقینا کہا جائے گا کہ اس کی قسم لغو اور عادت کے طور پر ہے کیونکہ ممکن نہیں کہ موحد غیر اللہ میں سے کسی میں کچھ بالاستقلال قدرت یا اختیار سمجھے۔ جو شرکیہ افعال کیا کرتاہے لیکن نام کا مسلمان ہے وہ جب غیر اللہ کی قسم کھا ئے گا تو شرک کا گمان اس کی طرف اور زیادہ قوی ہوگا ، اوربہت مسلمان ایسے ہیں کہ اللہ کی قسم کہو تو وہ سو کھا ڈالیں لیکن کیا ممکن ہے کہ اپنے پیر مرشد یا مدار یا سالار یا غوث کی جھوٹی قسم کھائیں، ان کے مشرک ہو نے میں تو کوئی شبہ نہیں ہے، اب یہ بھی سمجھ لینا چاہئے کہ جو چیزیں ہماری شریعت میں بالکل لائق تعظیم نہیں ہیں بلکہ ان کی تحقیر اور توڑ ڈالنے کا حکم ہے، جیسے بت ،اورتعزیہ والے جھنڈے وغیرہ ان کی تو ذراسی تعظیم بھی کفرہے ، اس لیے کہ ان کی تعظیم مشرکین کی خاص نشانی ہے مثلاً ایک شخص رسول اللہﷺ کی قبریا کسی ولی یا نبی کی قبر پر ہاتھ باندھ کر کھڑاہو، اور دوسرا شخص کسی بت کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑا ہو تو دوسرے شخص کے کفر میں کوئی شبہ نہ رہے گا، لیکن پہلے شخص کی نیت معلوم کی جائے گی ، اگر عبادت کی نیت سے اس نے ایسا کیا تو وہ بھی کافرہوجائے گا ، اور جو صرف ادب اور تعظیم میں ایسا کیا لیکن عقیدہ اس کا توحید کا ہے ، تو وہ کافر نہ ہوگامگر شرع کے خلاف کر نے پر اس کو اس سے منع کیا جائے گا ۔
اکثر علماء محققین نے اس فرق کو مانا ہے، اور بعضوں نے اس باب میں دونوں کا حکم ایک سا رکھا ہے جو فعل ایک کے ساتھ کفر ہے وہ دوسرے کے ساتھ بھی کفر ہے ، مثلاً بت کا سجدہ بھی کفرہے اور قبر کا سجدہ بھی کفر ہے البتہ فرق یہ ہے کہ بت کی اہانت وتذلیل اور اس کے توڑنے کا حکم ہے، اور مومنین صالحین کی قبریں کھودنے کا حکم نہیں ہے اور یہ فرقہ کہتاہے کہ انبیاء ،اولیاء ، ملائکہ اور شعائر اللہ کی تعظیم درحقیقت اللہ کی ہی تعظیم ہے کیونکہ اللہ ہی کے حکم سے اللہ کا مقبول بندہ سمجھ کر اس کی تعظیم کرتے ہیں، پس یہ غیر اللہ کی تعظیم نہیں ہوئی بلکہ صلحاء کی تعظیم ہوئی، وہ اس میں مستثنیٰ رہے گی ، اس لیے کہ وہ اللہ ہی کی تعظیم ہے ۔اس فائدہ کو یاد رکھنا چاہئے اور ممکنہ حدتک جس کام میں شرک شک وشبہ بھی ہو اسے باز رہنا چاہئے۔