• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابن ماجه

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
16-بَاب النَّذْرِ فِي الْمَعْصِيَةِ
۱۶ -باب: نافرمانی ( گناہ ) کی نذر ماننے کا بیان​


2124- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي سَهْلٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ أَبِي قِلابَةَ،عَنْ عَمِّهِ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ الْحُصَيْنِ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " لا نَذْرَ فِي مَعْصِيَةٍ، وَلا نَذْرَ فِيمَا لا يَمْلِكُ ابْنُ آدَمَ "۔
* تخريج: م/النذر ۳ (۱۶۴۱)، د/الأیمان ۲۸ (۳۳۱۶)، ن/الأیمان ۳۰ (۳۸۴۳)، ۴۱ (۳۸۸۰)، (تحفۃ الأشرف: ۱۰۸۸۴، ۱۰۸۸۸)، وقد أخرجہ: حم (۴/۴۲۹، ۴۳۴) (صحیح)
۲۱۲۴- عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: '' معصیت (گناہ) میں نذر نہیں ہے ،اور نہ اس میں نذرہے جس کا آدمی مالک نہ ہو'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : مثلاً دوسرے کے غلام آزاد کرنے کی نذر کرے ۔


2125- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ الْمِصْرِيُّ أَبُو طَاهِرٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَنْبَأَنَا يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: "لانَذْرَ فِي مَعْصِيَةٍ، وَكَفَّارَتُهُ كَفَّارَةُ يَمِينٍ "۔
* تخريج: د/الأیمان ۲۲ (۳۲۹۰، ۳۲۹۱)، ت/الایمان ۲ (۱۵۲۴)، ن/الأیمان ۴۰ (۳۸۶۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۷۷۰)، وقد أخرجہ: خ/الأیمان ۲۸ (۶۶۹۶)، ۳۱ (۶۷۰۰)، ط/النذور۴ (۸)، حم (۶/۳۶، ۴۱، ۲۲۴)، دي/النذور ۳ (۲۳۸۳) (صحیح)
۲۱۲۵- ام المو منین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' معصیت (گناہ) میں نذر نہیں ہے، اور ایسی نذر کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے '' ۔


2126- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ عَبْدِالْمَلِكِ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَائِشَةَ؛ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "مَنْ نَذَرَ أَنْ يُطِيعَ اللَّهَ فَلْيُطِعْهُ، وَمَنْ نَذَرَ أَنْ يَعْصِيَ اللَّهَ فَلا يَعْصِهِ "۔
* تخريج: خ/الإیمان والنذور ۲۸ (۶۶۹۶)، ۳۱ (۶۷۰۰)، د/الإیمان والنذور ۲۲ (۳۲۸۹)، ت/النذور الإیمان ۲ (۱۵۲۶)، ن/الإیمان والنذور ۲۶ (۳۸۳۷)، ۲۷ (۳۸۳۸، ۳۸۳۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۴۵۸)، وقد أخرجہ: ط/النذور (۸)، حم (۶/۳۶، ۴۱، ۲۲۴، دي/النذور ۳ (۲۳۸۳) (صحیح)
۲۱۲۶- ام المو منین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' جس نے اللہ تعالی کی اطاعت کی نذر مانی ہو وہ اس کی اطاعت کرے، اور جس نے اللہ تعالی کی نافرمانی کی نذر مانی ہو تو وہ اس کی نافرمانی نہ کرے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : آیت کریمہ: {يُوفُونَ بِالنَّذْرِ } [ سورة الإنسان : 7] سے مراد یہی اطاعت کی نذرہے ، طبری نے باسناد صحیح قتادہ سے آیت کریمہ : {يُوفُونَ بِالنَّذْرِ } کی تفسیر نقل کی ہے کہ اگلے لوگ صوم، صلاۃ، زکاۃ، حج و عمرہ اور فرائض کی نذر کرتے تھے، تو اللہ تعالی نے ان کو ابرار کہا ، اور احمد ، ابوداود نے عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت کی کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ''نذر صرف وہی ہے جس سے اللہ تعالی کی رضامندی مطلوب ہو '' ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
17-بَاب مَنْ نَذَرَ نَذْرًا وَلَمْ يُسَمِّهِ
۱۷ -باب: جس نے نذرمانی لیکن یہ نہیں بتایا کہ وہ کس چیز کی نذر ہے تو کیا کرے؟​


2127- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ رَافِعٍ، عَنْ خَالِدِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ الْجُهَنِيِّ ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " مَنْ نَذَرَ نَذْرًا وَلَمْ يُسَمِّهِ، فَكَفَّارَتُهُ كَفَّارَةُ يَمِينٍ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۹۹۲۳)، وقد أخرجہ: م/النذر ۵ (۱۶۴۵)، د/الأیمان ۳۱ (۳۳۲۳)، ت/الأیمان ۴ (۱۵۲۸)، ن/الأیمان ۴۰ (۳۸۶۳)، حم (۴/۱۴۴،۱۴۶،۱۴۷) (صحیح)
دون قولہ ''اذا لم یسمّہ'' من غیر ھذا السند وأما ھذا السند فضعیف لأجل إسماعیل بن رافع۔(ملاحظہ ہو: إلارواء : ۲۵۸۶)
۲۱۲۷- عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' جس نے نذر مانی ،اور اس کی تعیین نہ کی تو اس کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے'' ۔


2128- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْمَلِكِ بْنُ مُحَمَّدٍ الصَّنْعَانِيُّ، حَدَّثَنَا خَارِجَةُ بْنُ مُصْعَبٍ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ الأَشَجِّ، عَنْ كُرَيْبٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: " مَنْ نَذَرَ نَذْرًا وَلَمْ يُسَمِّهِ فَكَفَّارَتُهُ كَفَّارَةُ يَمِينٍ، وَمَنْ نَذَرَ نَذْرًا لَمْ يُطِقْهُ فَكَفَّارَتُهُ كَفَّارَةُ يَمِينٍ وَمَنْ نَذَرَ نَذْرًا أَطَاقَهُ فَلْيَفِ بِهِ ". ـ
* تخريج: د/الأیمان والنذور ۳۰ (۳۳۲۲)، (تحفۃ الأشراف: ۶۳۴۱) (ضعیف جدا)
(سند میں خارجہ بن مصعب متروک راوی ہے جو کذابین سے تدلیس کرتا تھا، صحیح یہ ہے کہ یہ موقوف ہے، نیز ملاحظہ ہو: الإرواء: ۸/ ۲۱۱)
۲۱۲۸- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: '' جس نے نذر مانی اور اس کی تعیین نہ کی، تو اس کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے، اور جس نے ایسی نذر مانی جس کے پورا کرنے کی طاقت نہیں رکھتا تو اس کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے،اور جس نے ایسی نذر مانی جس کے پورا کرنے کی طاقت ہو تو اس کو پورا کرے'' ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
18- بَاب الْوَفَاءِ بِالنَّذْرِ
۱۸-باب: نذر پوری کرنے کا بیان​


2129- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ،عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ؛ قَالَ: نَذَرْتُ نَذْرًا فِي الْجَاهِلِيَّةِ، فَسَأَلْتُ النَّبِيَّ ﷺ بَعْدَمَا أَسْلَمْتُ، فَأَمَرَنِي أَنْ أُوفِيَ بِنَذْرِي. ـ
* تخريج: خ/الاعتکاف ۵ (۲۰۳۲)، ۱۵ (۲۰۴۲)، ۱۶ (۲۰۴۳)، م/الأیمان ۶ (۱۶۵۶)، د/الصوم۸۰ (۲۴۷۴)، الأیمان ۳۲ (۳۳۲۵)، ت/الأیمان ۱۱ (۱۵۳۹)، ن/الأیمان ۳۵ (۳۸۵۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۵۵۰)، وقد أخرجہ: حم (۱/۳۷، ۲/۲۰،۸۲، ۱۵۳)، دي/النذور ۱ (۲۳۷۸) (صحیح)
۲۱۲۹- عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے زمانہ جاہلیت میں نذر مانی ،پھر اسلام قبول کرنے کے بعد میں نے نبی اکرم ﷺ سے پوچھا ،توآپﷺ نے مجھے اپنی نذر پوری کرنے کا حکم دیا'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ اگر کافریا مشرک حالت شرک وکفر میں کسی نیک کام کی نذر مانے جیسے اعتکاف یا صدقہ وغیرہ اور پھر اس کے بعد اسلام لے آئے تو اس نذر کا پورا کرنا واجب ہے ۔


2130- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، وَعَبْدُاللَّهِ بْنُ إِسْحَاقَ الْجَوْهَرِيُّ، قَالا: حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ رَجَائٍ، أَنْبَأَنَا الْمَسْعُودِيُّ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَجُلا جَاءَ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ ! إِنِّي نَذَرْتُ أَنْ أَنْحَرَ بِبُوَانَةَ، فَقَالَ: " فِي نَفْسِكَ شَيْئٌ مِنْ أَمْرِ الْجَاهِلِيَّةِ ؟ قَالَ: لا، قَالَ: " أَوْفِ بِنَذْرِكَ ". ـ
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۵۴۸۶ ، ومصباح الزجاجۃ: ۷۵۰) (صحیح)
۲۱۳۰- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبی اکرمﷺ کے پاس آکر عرض کیا : اللہ کے رسول! میں نے مقام بوانہ ۱؎ میں قربانی کرنے کی نذر مانی ہے؟ ! آپﷺ نے فرمایا: '' کیاتمہارے دل میں جاہلیت کا کوئی اعتقاد باقی ہے''؟ اس نے کہا: نہیں ، آپ ﷺنے فرمایا: ''اپنی نذر پوری کرو'' ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی مکہ کے نشیب میں یا ینبوع کے پیچھے ایک جگہ ہے۔
وضاحت ۲؎ : اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بت یا قبر جس کی لوگ پوجا کریں ، اس پر ذبح کرنا جائز نہیں ، اور جو جانور اولیاء اللہ کی قبروں پر ذبح کئے جاتے ہیں اور انہی کے نام پر پالے جاتے ہیں ان کا کھانا حرام ہے ، اگر چہ ذبح کے وقت اللہ تعالی کا نام لیا جائے ، کیونکہ مقصود ان کے ذبح کرنے سے غیر اللہ کی تعظیم ہے ، تو وہ { وَمَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللّهِ } [ سورة البقرة : 173] میں سے ہوا ۔


2131- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ الطَّائِفِيِّ، عَنْ مَيْمُونَةَ بِنْتِ كَرْدَمٍ الْيَسَارِيَّةِ أَنَّ أَبَاهَا لَقِيَ النَّبِيَّ ﷺ، وَهِيَ رَدِيفَةٌ لَهُ، فَقَالَ: إِنِّي نَذَرْتُ أَنْ أَنْحَرَ بِبُوَانَةَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " هَلْ بِهَا وَثَنٌ؟" قَالَ: لا، قَالَ: "أَوْفِ بِنَذْرِكَ".
* تخريج : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۰۹۲، ومصباح الزجاجۃ: ۷۵۱)، وقد أخرجہ: د/الأیمان ۲۷ (۳۳۱۴)، حم (۶/۳۶۶) (صحیح)
۲۱۳۱- میمونہ بنت کردم یساریہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ان کے والدنے نبی اکرم ﷺ سے ملاقات کی، وہ اس وقت اپنے والد کے پیچھے ایک اونٹ پر بیٹھی تھیں، والد نے کہا: میں نے مقام بوانہ میں اونٹ ذبح کرنے کی نذر مانی ہے؟! آپ ﷺنے فرمایا : '' وہاں کوئی بت ہے'' ؟ کہا: نہیں ، آپ ﷺنے فرمایا: '' اپنی نذر پوری کرو''۔
2131/أ- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا ابْنُ دُكَيْنٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ مِقْسَمٍ، عَنْ مَيْمُونَةَ بِنْتِ كَرْدَمٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، بِنَحْوِهِـ.
۲۱۳۱/أ- اس سند سے بھی میمو نہ بنت کر دم رضی اللہ عنہما سے اسی طرح روایت ہے۔
* تخريج : انظر ماقبلہ (تحفۃ الأشراف: ۱۸۰۹۲) (یزید بن مقسم نے میمونہ سے نہیں سنا ہے ، اس لئے اس میں انقطاع ہے)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
19- بَاب مَنْ مَاتَ وَعَلَيْهِ نَذْرٌ
۱۹ -باب: جو شخص مرجائے اور اس کے ذمہ نذر ہوتو اس کے حکم کا بیان​


2132- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ،أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ،عَنِ ابْنِ شِهَابٍ،عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ؛ أَنَّ سَعْدَ بْنَ عُبَادَةَ اسْتَفْتَى رَسُولَ اللَّهِ ﷺ فِي نَذْرٍ كَانَ عَلَى أُمِّهِ . تُوُفِّيَتْ وَلَمْ تَقْضِهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " اقْضِهِ عَنْهَا ". ـ
* تخريج: خ/الوصایا ۱۹(۲۷۶۱)، الأیمان والنذور۳۰ (۶۶۹۸)، الحیل ۳ (۶۹۵۹)، م/النذور۱ (۱۶۳۸)، د/الأیمان ۲۵ (۳۳۰۷)، ت/الأیمان ۱۹ (۱۵۴۶)، ن/الوصایا ۸ (۳۶۸۶)، الأیمان ۳۴ (۳۸۴۸، ۳۸۴۹، ۳۸۵۰)، (تحفۃ الأشراف: ۵۸۳۵)، وقد أخرجہ: ط/النذور۱ (۱)، حم (۱/۲۱۹، ۳۲۹) (صحیح)
۲۱۳۲- عبداللہ بن عبا س رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے فتویٰ پوچھا کہ میری ماں کے ذمہ ایک نذر تھی وہ مرگئیں ،اور اس کو ادا نہ کرسکیں تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : '' تم ان کی جانب سے اسے پوری کردو''۔


2133- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ أَنَّ امْرَأَةً أَتَتْ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ فَقَالَتْ: إِنَّ أُمِّي تُوُفِّيَتْ وَعَلَيْهَا نَذْرُ صِيَامٍ، فَتُوُفِّيَتْ قَبْلَ أَنْ تَقْضِيَهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " لِيَصُمْ عَنْهَا الْوَلِيُّ ".
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۲۵۵۴) (صحیح)
(سند میں ابن لہیعہ ضعیف ہیں لیکن شواہد کی بناء پر حدیث صحیح ہے ،ملاحظہ ہو:صحیح أبی داود : ۲۰۷۷)
۲۱۳۳- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک عورت رسول اللہ ﷺ کے پاس آئی ، اور اس نے کہا : میری ماں کا انتقال ہوگیا، اور ان کے ذمہ روزوں کی نذر تھی، اوروہ اس کی ادائیگی سے پہلے وفا ت پا گئیں، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''ان کا ولی ان کی جانب سے صوم رکھے '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ میت کی طرف سے نذر کا صوم ہو یا صلاۃ اس کا ولی رکھ سکتا ہے جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے کہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ایک عورت کو جس کی ماں نے قبا میں صلاۃ پڑھنے کی نذر مانی تھی اور وہ مر گئی تھی، حکم دیا کہ تم اس کی طرف سے پڑھ لو ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
20- بَاب مَنْ نَذَرَ أَنْ يَحُجَّ مَاشِيًا
۲۰ -باب: جس نے پیدل چل کر حج کرنے کی نذر مانی اس کے حکم کا بیان​


2134- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ ابْنِ زَحْرٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الرُّعَيْنِيِّ؛ أَنَّ عَبْدَاللَّهِ بْنَ مَالِكٍ أَخْبَرَهُ أَنَّ عُقْبَةَ بْنَ عَامِرٍ أَخْبَرَهُ أَنَّ أُخْتَهُ نَذَرَتْ أَنْ تَمْشِيَ حَافِيَةً، غَيْرَ مُخْتَمِرَةٍ؛ وَأَنَّهُ ذَكَرَ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ ﷺ، فَقَالَ: " مُرْهَا فَلْتَرْكَبْ وَلْتَخْتَمِرْ وَلْتَصُمْ ثَلاثَةَ أَيَّامٍ ". ـ
* تخريج: د/الأیمان ۲۳ (۳۲۹۳، ۳۲۹۴)، ت/الأیمان ۱۶ (۱۵۴۴)، ن/الأیمان ۳۲ (۳۸۴۶)، (تحفۃ الأشراف: ۹۹۳۰)، وقد أخرجہ: حم (۳/۱۴۳، ۴/ ۱۴۵، ۱۴۹، ۱۵۱)، دي/النذور ۲ (۲۳۷۹) (ضعیف)
(سند میں عبید اللہ بن زحر ضعیف راوی ہے)
۲۱۳۴- عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ان کی بہن نے نذر مانی کہ ننگے پاؤں ، ننگے سراور پیدل چل کر حج کے لئے جائیں گی ، تو انہوں نے رسول اکرم ﷺ سے اس کا ذکر کیا تو آپ ﷺنے فرمایا: '' اسے حکم دو کہ سوار ہوجائے ، دوپٹہ اوڑھ لے ،اور تین دن کے صوم رکھے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی قسم کو توڑ دے ، اور بطور کفارہ تین دن کا صیام رکھے۔


2135- حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ حُمَيْدِ بْنِ كَاسِبٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي عَمْرٍو، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قَالَ: رَأَى النَّبِيُّ ﷺ شَيْخًا يَمْشِي بَيْنَ ابْنَيْهِ، فَقَالَ: " مَا شَأْنُ هَذَا ؟ " فَقَالَ: ابْنَاهُ : نَذْرٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ ! قَالَ: " ارْكَبْ أَيُّهَا الشَّيْخُ ! فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنْكَ وَعَنْ نَذْرِكَ "۔
* تخريج: م/النذ ر ۴ (۱۶۴۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۹۴۸)، وقد أخرجہ: حم (۲/۳۷۳)، دي/النذور ۲ (۲۳۸۱) (صحیح)
۲۱۳۵- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک بوڑھے کو دیکھا کہ اپنے دوبیٹوں کے درمیان چل رہا ہے، آپ ﷺنے پوچھا: ''اس کا کیا معاملہ ہے'' ؟ اس کے بیٹوں نے کہا :اس نے نذر مانی ہے، اللہ کے رسول! آپﷺ نے فرمایا: '' بوڑھے سوار ہوجاؤ،اللہ تم سے اورتمہاری نذر سے بے نیاز ہے'' ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
21- بَاب مَنْ خَلَطَ فِي نَذْرِهِ طَاعَةً بِمَعْصِيَةٍ
۲۱ -باب: جس نے نذر میں عبادت اور گناہ دونوں کو ملا دیا ہو اس کے حکم کا بیان​


2136- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْفَرْوِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ عُمَرَ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ عَطَائٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ مَرَّ بِرَجُلٍ بِمَكَّةَ وَهُوَ قَائِمٌ فِي الشَّمْسِ، فَقَالَ: " مَا هَذَا؟ " قَالُوا: نَذَرَ أَنْ يَصُومَ وَلايَسْتَظِلَّ إِلَى اللَّيْلِ، وَلايَتَكَلَّمَ، وَلا يَزَالُ قَائِمًا،قَالَ : " لِيَتَكَلَّمْ وَلْيَسْتَظِلَّ وَلْيَجْلِسْ وَلْيُتِمَّ صَوْمَهُ " ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، ( تحفۃ الأشراف: ۵۹۳۴) (صحیح)
۲۱۳۶- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مکہ میں ایک آدمی کے پاس سے گزرے ، وہ دھوپ میں کھڑا تھا ، آپ ﷺنے پوچھا : ''یہ کیا ہے'' ؟ لوگوں نے کہا :اس نے نذر مانی ہے کہ وہ صوم رکھے گا، اور رات تک سایہ میں نہیں رہے گا، اور نہ بولے گا، اور برابر کھڑا رہے گا، تو آپ ﷺنے فرمایا : ''اس کو چاہئے کہ بولے، سایہ میں آجائے ،بیٹھ جائے اور اپنا صوم پورا کرے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس شخص نے بری اور اچھی دونوں کو ملا کر نذر کی تھی جیسے صوم جس کا رکھنا ایک اچھا اور ثواب کا کام ہے ، لیکن کسی سے بات نہ کرنا یہ لغو اوربے کار چیز ہے، بلکہ گناہ ہے ،تو آپﷺ نے بری باتوں کو ختم کر دیا ، اور اچھی بات کے پورا کرنے کا حکم دیا ۔


2136/أ- حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ ابْنُ مُحَمَّدِ بْنِ شَنْبَةَ الْوَاسِطِيُّ، حَدَّثَنَا الْعَلاءُ بْنُ عَبْدِالْجَبَّارِ، عَنْ وُهَيْبٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ؛ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، نَحْوَهُ، وَاللَّهُ أَعْلَمُ۔
* تخريج: خ/الأیمان والنذور ۳۱ (۶۷۰۴)، د/الأیمان ۲۳ (۳۳۰۰)، (تحفۃ الأشراف: ۵۹۹۱)
۲۱۳۶/أ - اس سند سے بھی ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اسی طرح کی مر فوعاً روایت آئی ہے۔ واللہ اعلم۔



***​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207

{12-كِتَاب التِّجَارَاتِ }
۱۲-کتاب: تجارت کے احکام ومسائل ۱؎


وضاحت ۱؎ آپس کے لین دین کو تجارت کہتے ہیں، اوربیع کی تعریف یہ ہے کہ ایک مال کو دوسرے مال کے بدلے میں لیا جائے ، اللہ تعالیٰ کا ارشادہے : { وَأَحَلَّ اللّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا}[البقرة: 275] (اللہ نے بیع کو حلال کیا اورسود کو حرام )نیز فرمایا: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَأْكُلُواْ أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ إِلاَّ أَن تَكُونَ تِجَارَةً عَن تَرَاضٍ مِّنكُمْ}[سورة النساء:29] (مسلمانو! اپنے مال کو آپس میں غلط طریقے سے نہ کھاؤ ، ہاں اگرتمہاری آپس کی رضامندی کے ساتھ تجارت ہو توجائز ہے )۔
خریدوفروخت کے سلسلے میں چندشرطوں کا لحاظ رکھنا ضروری ہے :
(۱) باہمی رضامندی یعنی خریدنے اوربیچنے والے اگربیع پر راضی ہوں تو بیع صحیح ہوگی ، جیساکہ اوپرکی آیت میں گزرا۔
(۲) خریدنے اوربیچنے والے عاقل بالغ ہوں، پاگل اور دیوانہ کی بیع صحیح نہ ہوگی۔
(۳)جس چیز کو خریدا اور بیچا جارہا ہو اس سے فائدہ اٹھانا مباح اورجائز ہو ، سور ، کتا اورمردار کی بیع، نیز زانیہ عورت کی کمائی یا کاہن اورنجومی کی آمدنی صحیح نہیں ہے ۔
(۴) بیچی جانے والی چیز کا بیچنے والا مالک ہواس لیے کہ مالک کے علاوہ کا بیچنا ناجائز ہے ۔
(۵)بیچا گیا مال اس طرح ہو کہ بیچنے والا خریدنے والے کو اسے منتقل کرنے پر قاد رہو ، پانی میں موجودمچھلیوں یا فضا میں اڑتی چڑیوں پر آدمی کا کنٹرول نہیں رہتا کہ وہ خریدار کے قبضہ میں دیدے تو اس طرح کے مال کی تجارت جس پر قدرت نہ ہو درست نہیں ہے ۔
(۶) بیچاگیا مال معلوم ہو، مجہول اور معدوم کی بیع صحیح نہیں ہے ، آدمی اگر بیچی گئی چیز کو دیکھ کر یا اس کی صفات سے آگاہ ہوکراس کے بارے میں معلومات رکھتا ہو تو اس کی بیع جائز ہے ، ان شرطوں کا لحاظ رکھنا ضروری ہے ۔
ایسے ہی تجارتی لین دین میں چندباتوں کا لحاظ رکھنا بھی ضروری ہے ، تاکہ آدمی حرام اور ناجائز بیع سے دوررہ سکے ، جومندرجہ ذیل ہیں:
(۱) غلط اورناجائز طریقے سے لوگوں کے مال کو حاصل کرنے سے پرہیز کرنا ، جیسے دھوکہ ،فریب اورخیانت ، رشوت لینا دینا ، مال میں پھیرپھارکرنا ، ذخیرہ اندوزی وغیرہ وغیرہ ۔
(۲) جائز اورپاک چیزوں کی تجارت ، حرام چیزوں کی تجارت ناجائز ہے ، جیسے شراب ، مردار ، سور، بت وغیرہ وغیرہ ۔
(۳) مال میں موجودحقوق کی ادائیگی ، مسلمان تاجر کی ذمہ دار ی ہے کہ وہ مال میں عائد حقوق کو ادا کرے ، جیسے زکاۃ والے مال میں سے زکاۃ نکال کر فقراء ومساکین تک پہنچانا ، اوراگرتاجر مالدار ہے تو قرض کی ادائیگی میں ٹال مٹول نہ کرے ۔
(۴) سودی کاروبارسے دور رہنا اس لیے کہ سود ہلاک کرنے والی برائی ہے ، جس پر کئی طرح سے لعنت وارد ہوئی ہے ۔
(۵) ناپ تول میں کمی بیشی نہ کرنا۔
(۶)جھوٹی قسمیں کھانے سے پرہیزکرنا ۔
(۷) تجارت میں نیک نیتی کہ تجارت کے ذریعہ سے آدمی باعزت زندگی گزارے ، حرام سے بچے ، سوال کی ذلت سے دوررہے ، مال حلال سے اللہ کی اطاعت پر مدد حاصل کرے ، رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرے، تو اس طرح کی اچھی نیت سے اللہ تعالیٰ تاجر کو حرام اور ناجائز تجارت سے دور رکھے گا ۔
(۸) مسلمان تاجر کو بااخلاق ہونا چاہئے سچ بولنا ، امانت ودیانت والا ہونا ، لوگوں کے حقوق ادا کرنے والا اور ایسے ہی ہرطرح کی ظلم وزیادتی سے اپنے آپ کو دور رکھنے والا اوریہ اچھے اخلاق تاجرکو ناجائز اورحرام معاملات سے دور رکھنے میں موثر کردار ادا کریں گے ، ان شاء اللہ ، بیع وشراء اورتجارت کے ابواب میں وارد آیات شریفہ اور احادیث شریفہ میں غورکرنے سے مذکورہ بالا امور پر روشنی پڑتی ہے ، اور اس کتاب کی احادیث کے مطالعہ سے ان دلائل کا تفصیلی علم بھی قارئین کو ہوجائے گا ، ان شاء اللہ ۔

1- بَاب الْحَثِّ عَلَى الْمَكَاسِبِ
۱-باب: روزی کمانے کی ترغیب​


2137- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، وَإِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ حَبِيبٍ قَالُوا: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ الأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ < إِنَّ أَطْيَبَ مَا أَكَلَ الرَّجُلُ مِنْ كَسْبِهِ، وَإِنَّ وَلَدَهُ مِنْ كَسْبِهِ >۔
* تخريج: ن/البیوع ۱ (۴۴۵۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۹۶۱)، وقد أخرجہ: د/البیوع ۷۹ (۳۵۲۸)، ت/الأحکام ۲۲ (۱۳۵۸)، حم (۶/۳۱، ۴۲،۱۲۷،۱۶۲،۱۹۳،۲۲۰)، دي /البیوع ۶ (۲۵۷۹) (صحیح)
۲۱۳۷- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''آدمی کا سب سے عمدہ کھانا وہ ہے جو اس کی اپنی کمائی کا ہو، اور اس کی اولاد بھی اس کی کمائی ہے '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اگر والدین محتاج اورضرورت مند ہوں تو ان کا نفقہ(خرچ) اولاد پر واجب ہے ، اور جو محتاج یا عاجز نہ ہوں تب بھی اولاد کی رضامندی سے اس کے مال میں سے کھاسکتے ہیں ، مطلب حدیث کا یہ ہے کہ اولاد کا مال کھانا بھی طیب(پاکیزہ) اورحلال ہے ،اور اپنے کمائے ہوئے مال کی طرح ہے۔


2138- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ بَحِيرِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، عَنِ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِيكَرِبَ الزُّبَيْدِيِّ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ قَالَ: <مَا كَسَبَ الرَّجُلُ كَسْبًا أَطْيَبَ مِنْ عَمَلِ يَدِهِ، وَمَا أَنْفَقَ الرَّجُلُ عَلَى نَفْسِهِ وَأَهْلِهِ وَوَلَدِهِ وَخَادِمِهِ، فَهُوَ صَدَقَةٌ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۵۶۱)، وقد أخرجہ: خ/البیوع ۱۵ (۲۰۷۲)، حم (۴/۱۳۱،۱۳۲) (صحیح)
۲۱۳۸- مقدام بن معدیکرب زبیدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' آدمی کی کوئی کمائی اس کمائی سے بہتر نہیں جسے اس نے اپنی محنت سے کمایا ہو، اور آدمی اپنی ذات ،اپنی بیوی ، اپنے بچوں اور اپنے خادم پر جوخرچ کرے وہ صدقہ ہے''۔


2139- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سِنَانٍ، حَدَّثَنَا كَثِيرُ بْنُ هِشَامٍ، حَدَّثَنَا كُلْثُومُ بْنُ جَوْشَنٍ الْقُشَيْرِيُّ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < التَّاجِرُ الأَمِينُ الصَّدُوقُ الْمُسْلِمُ، مَعَ الشُّهَدَاءِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۷۵۹۸ ، ومصباح الزجاجۃ: ۷۵۵) (حسن صحیح)
(تراجع الألبانی: رقم : ۲۴۸)
۲۱۳۹- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' سچّا، امانت دار مسلمان تاجر قیامت کے دن شہداء کے ساتھ ہوگا ' ' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : تجارت کے ساتھ سچائی اور امانت داری بہت مشکل کام ہے ، اکثر تاجر جھوٹ بولتے ہیں اور سودی لین دین کرتے ہیں ، تو کوئی تاجر سچا امانت دار،متقی اور پرہیزگار ہوگا تو اس کو شہیدوں کا درجہ ملے گا ، اس لئے کہ جان کے بعد آدمی کو مال عزیز ہے ، بلکہ بعض مال کے لئے جان گنواتے ہیں جیسے شہید نے اپنی جان اللہ کی راہ میں قربان کی، ایسے ہی متقی تاجر نے اللہ تعالی کی راہ میں دولت خرچ کی ،اور حرام کا لالچ نہ کیا ۔


2140- حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ حُمَيْدِ بْنِ كَاسِبٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ الدَّرَاوَرْدِيُّ، عَنْ ثَوْرِ بْنِ زَيْدٍ الدِّيْلِيِّ، عَنْ أَبِي الْغَيْثِ مَوْلَى ابْنِ مُطِيعٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ فَقَالَ: < السَّاعِي عَلَى الأَرْمَلَةِ وَالْمِسْكِينِ كَالْمُجَاهِدِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَكَالَّذِي يَقُومُ اللَّيْلَ وَيَصُومُ النَّهَارَ >۔
* تخريج: خ/النفقات ۱ (۵۳۵۳)، م/الزہد والرقائق ۲ (۲۹۸۲)، ت/البروالصلۃ ۴۴ (۱۹۶۹)، ن/الزکاۃ ۷۸ (۲۵۷۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۹۱۴)، وقد أخرجہ: حم (۲/۳۶۱) (حسن صحیح)
۲۱۴۰- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''بیوہ عورتوں اور مسکینوں کے لیے محنت وکوشش کرنے والا اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کے مانند ہے، اور اس شخص کے مانندہے جو رات بھر قیام کرتا، اور دن کو صوم رکھتا ہے''۔


2141- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ خُبَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَمِّهِ؛ قَالَ: كُنَّا فِي مَجْلِسٍ، فَجَاءَ النَّبِيُّ ﷺ وَعَلَى رَأْسِهِ أَثَرُ مَائٍ،فَقَالَ لَهُ بَعْضُنَا: نَرَاكَ الْيَوْمَ طَيِّبَ النَّفْسِ، فَقَالَ: < أَجَلْ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ > ثُمَّ أَفَاضَ الْقَوْمُ فِي ذِكْرِ الْغِنَى، فَقَالَ: < لا بَأْسَ بِالْغِنَى لِمَنِ اتَّقَى، وَالصِّحَّةُ لِمَنِ اتَّقَى خَيْرٌ مِنَ الْغِنَى، وَطِيبُ النَّفْسِ مِنَ النَّعِيمِ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۶۰۶، ومصباح الزجاجۃ: ۷۵۶)، وقد أخرجہ: حم (۵/۳۷۲، ۳۸۱) (صحیح)
۲۱۴۱ - عبداللہ بن خبیب کے چچاسے روایت ہے : ہم ایک مجلس میں تھے، رسول اللہ ﷺ بھی وہاں اچانک تشریف لے آئے ، آپ کے سر مبارک پر پانی کا اثر تھا، ہم میں سے ایک آدمی نے آپ سے عرض کیا: آپ کو ہم آج بہت خوش دل پا رہے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا:'' ہاں، بحمداللہ خوش ہوں'' ،پھر لوگوں نے مالداری کا ذکر چھیڑ دیا، تو آپﷺ نے فرمایا:'' اہل تقویٰ کے لئے مالداری کوئی حرج کی بات نہیں، اور تندرستی متقی کے لئے مالداری سے بہتر ہے، اور خوش دلی بھی ایک نعمت ہے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : بلکہ صحت اور خوش دلی کی نعمت تمام نعمتوں سے بڑھ کر ہے اگر مال لاکھوں کروڑوں ہو، لیکن صحت اور خوش دلی واطمینان نفس نہ ہو تو سب بیکار ہے، یہ صحت اور طبیعت کی خوشی اللہ تعالی کی طرف سے ہے، جس بندے کو اللہ چاہتا ہے ان نعمتوں کوعطاکرتا ہے ، یا اللہ ہم کوبھی ہمیشہ صحت وعافیت اورخوش دلی اوراطمینان قلب کی نعمت میں رکھ ۔آمین۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
2- بَابُ الا قْتِصَادِ فِيْ طَلَبِ الْمَعِيْشَةِ
۲-باب: روزی کمانے میں میانہ روی اپنانے کا بیان​


2142- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ غَزِيَّةَ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ أَبِي عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ عَبْدِالْمَلِكِ بْنِ سَعِيدٍ الأَنْصَارِيِّ، عَنْ أَبِي حُمَيْدٍ السَّاعِدِيِّ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < أَجْمِلُوا فِي طَلَبِ الدُّنْيَا فَإِنَّ كُلا مُيَسَّرٌ لِمَا خُلِقَ لَهُ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۸۹۴، ومصباح الزجاجۃ: ۷۵۷) (صحیح)
( ملاحظہ ہو: الصحیحہ : ۸۹۸- ۲۶۰۷- ۲۶۰۷)
۲۱۴۲- ابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' دنیا کی طلب میں اعتدال کا طریقہ اپناؤ اس لیے کہ جس چیز کے لیے آدمی پیدا کیا گیا ہے وہ اسے مل کر رہے گی '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی کمانے کے چکر میں زیادہ نہ پڑو، آدمی کے مقد ر(قسمت) میں جو چیز اللہ تعالی نے لکھ دی ہے، وہ اسے مل کر رہے گی، تو بے اعتدالی اور ظلم کی کوئی ضرورت نہیں ۔


2143- حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ بِهْرَامٍ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عُثْمَانَ، زَوْجُ بِنْتِ الشَّعْبِيِّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ يَزِيدَ الرَّقَاشِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < أَعْظَمُ النَّاسِ هَمًّا الْمُؤْمِنُ الَّذِي يَهُمُّ بِأَمْرِ دُنْيَاهُ وَآخِرَتِهِ >.
قَالَ أَبُو عَبْداللَّهِ: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ تَفَرَّدَ بِهِ إِسْمَاعِيلُ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۸۴، ومصباح الزجاجۃ: ۷۵۸) (ضعیف)
(سند میں یزید الرقاشی، حسن بن محمد اور اسماعیل بن بہرام تینوں ضعیف ہیں)
۲۱۴۳- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''سب سے زیادہ فکر مندی اس مومن کو ہوتی ہے جسے دنیا کی بھی فکر ہو اور آخرت کی بھی''۔
ابوعبداللہ(ابن ماجہ) کہتے ہیں :یہ حدیث غریب ہے ، اس لئے کہ اسماعیل اس کی روایت میں منفرد ہیں ۔
وضاحت ۱؎ : بے دین آدمی کو آخرت سے کوئی غرض اور دلچسپی نہیں ، اسے تو صرف دنیا کی فکر ہے ،اور جو کچا مسلمان ہے اس کو دونوں فکریں لگی ہوتی ہیں ، کیونکہ اللہ تعالی پر اس کو پورا بھروسہ اور اعتماد نہیں ہے، اور جو پکا مسلمان ہے اس کو فقط آخرت کی ہی فکر ہے، اور دنیا کی زیادہ فکر نہیں ہوتی، اللہ تعالیٰ رازق اور مسبب الاسباب ہے ، جب تک زندگی ہے ، وہ کہیں سے ضرور کھلائے اور پلائے گا ۔


2144- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُصَفَّى الْحِمْصِيُّ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < أَيُّهَا النَّاسُ! اتَّقُوا اللَّهَ وَأَجْمِلُوا فِي الطَّلَبِ، فَإِنَّ نَفْسًا لَنْ تَمُوتَ حَتَّى تَسْتَوْفِيَ رِزْقَهَا، وَإِنْ أَبْطَأَ عَنْهَا، فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَجْمِلُوا فِي الطَّلَبِ، خُذُوا مَا حَلَّ، وَدَعُوا مَا حَرُمَ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۲۸۸۰ ، ومصباح الزجاجۃ: ۷۵۹) (صحیح)
(سند میں ولید بن مسلم ، ابن جریج اور ابوالزبیر تینوں مدلس راوی ہیں، لیکن حدیث شواہد کی وجہ سے صحیح ہے، ملاحظہ ہو: الصحیحہ: ۲۶۰۷)
۲۱۴۴- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''لوگو ! اللہ سے ڈرو، اور دنیا طلبی میں اعتدال کا راستہ اختیار کرو، اس لئے کہ کوئی اس وقت تک نہیں مرے گا جب تک اپنی روزی پوری نہ کرلے گو اس میں تاخیر ہو، لہٰذا اللہ سے ڈرو، اور روزی کی طلب میں اعتدال کا راستہ اختیار کرو، صرف وہی لو جو حلال ہو، اور جو حرام ہو اسے چھوڑ دو ''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
3- بَاب التَّوَقِّي فِي التِّجَارَةِ
۳-باب: تجارت میں احتیاط برتنے کا بیان​


2145- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ شَقِيقٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي غَرَزَةَ؛ قَالَ: كُنَّا نُسَمَّى فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ السَّمَاسِرَةَ، فَمَرَّ بِنَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ، فَسَمَّانَا بِاسْمٍ هُوَ أَحْسَنُ مِنْهُ، فَقَالَ يَا مَعْشَرَ التُّجَّارِ! إِنَّ الْبَيْعَ يَحْضُرُهُ الْحَلِفُ وَاللَّغْوُ فَشُوبُوهُ بِالصَّدَقَةِ >۔
* تخريج: د/البیوع ۱ (۳۳۲۶، ۳۳۲۷)، ت/البیوع ۴ (۱۲۰۸)، ن/الأیمان ۲۱ (۳۸۲۸)، البیوع ۷ (۴۴۶۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۱۰۳)، وقد أخرجہ: حم (۴/۶،۲۸۰) (صحیح)
۲۱۴۵- قیس بن ابی غرزہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے عہد میں سماسرہ (دلال) کہے جاتے تھے،ایک بار رسول اللہﷺ کا ہمارے پاس سے گزر ہوا، توآپ نے ہمارا ایک ایسا نام رکھاجو اس سے اچھا تھا،آپ ﷺ نے فرمایا:'' اے تاجروں کی جماعت! خرید وفروخت میں قسمیں اورلغو باتیں بھی ہوتی رہتی ہیں، تو تم اس میں صدقہ ملا دیا کرو '' ۱ ؎ ۔


2146- حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ حُمَيْدِ بْنِ كَاسِبٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمٍ الطَّائِفِيُّ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ ابْنِ عُثْمَانَ بْنِ خُثَيْمٍ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ عُبَيْدِ بْنِ رِفَاعَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، رِفَاعَةَ؛ قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَإِذَا النَّاسُ يَتَبَايَعُونَ بُكْرَةً، فَنَادَاهُمْ: <يَامَعْشَرَ التُّجَّارِ! > فَلَمَّا رَفَعُوا أَبْصَارَهُمْ، وَمَدُّوا أَعْنَاقَهُمْ، قَالَ: [ إِنَّ التُّجَّارَ يُبْعَثُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فُجَّارًا، إِلا مَنِ اتَّقَى اللَّهَ وَبَرَّ وَصَدَقَ ]۔
* تخريج: ت/البیوع ۴ (۱۲۱۰)، (تحفۃ الأشراف: ۳۶۰۷)، وقد أخرجہ: دي/البیوع ۷ (۲۵۸۰) (صحیح)
(سند میں اسماعیل بن عبید ضعیف راوی ہے، لیکن اصل حدیث : '' إِنَّ التُّجَّارَ يُبْعَثُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فُجَّارًا '' صحیح ہے، ملاحظہ ہو: الصحیحہ : ۱۴۵۸)
۲۱۴۶- رفاعہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے کہ اچانک کچھ لوگ صبح کے وقت خرید وفروخت کرتے نظر آئے ،آپ نے ان کوپکارا : '' اے تاجروں کی جماعت ! '' جب ان لوگوں نے اپنی نگاہیں اونچی اور گردنیں لمبی کرلیں ۱؎ تو آپ نے فرمایا:'' تاجرقیامت کے دن اس حال میں اٹھائے جائیں گے کہ وہ فاسق وفاجر ہوں گے، سوائے ان کے جو اللہ سے ڈریں ، اور نیکو کار اور سچّے ہوں '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : نیک ہو نے کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں سے اچھا سلوک کرے ،مفلس کو مہلت دے ، بلکہ اگر ہوسکے تو معاف کردے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
4- بَاب إِذَا قُسِمَ لِلرَّجُلِ رِزْقٌ مِنْ وَجْهٍ فَلْيَلْزَمْهُ
۴-باب: روزی کا کوئی ذریعہ مل جانے پر اسے پکڑے ر ہے​


2147- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ، حَدَّثَنَا فَرْوَةُ أَبُويُونُسَ، عَنْ هِلالِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < مَنْ أَصَابَ مِنْ شَيْئٍ فَلْيَلْزَمْهُ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۴۲، ومصباح الزجاجۃ: ۷۶۰) (ضعیف)
(سند میں فروہ اور ہلال بن جبیر دونوں ضعیف ہیں)
۲۱۴۷- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جسے روزی کا کوئی ذریعہ مل جائے ،تو چاہئے کہ وہ اسے پکڑے رہے ''۔


2148- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى،حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، أَخْبَرَنِي أَبِي، عَنِ الزُّبَيْرِ بْنِ عُبَيْدٍ، عَنْ نَافِعٍ، قَالَ: كُنْتُ أُجَهِّزُ إِلَى الشَّامِ وَإِلَى مِصْرَ، فَجَهَّزْتُ إِلَى الْعِرَاقِ، فَأَتَيْتُ عَائِشَةَ أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ فَقُلْتُ لَهَا: يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ! كُنْتُ أُجَهِّزُ إِلَى الشَّامِ، فَجَهَّزْتُ إِلَى الْعِرَاقِ، فَقَالَتْ: لا تَفْعَلْ، مَا لَكَ وَلِمَتْجَرِكَ ؟ فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < إِذَا سَبَّبَ اللَّهُ لأَحَدِكُمْ رِزْقًا مِنْ وَجْهٍ، فَلا يَدَعْهُ حَتَّى يَتَغَيَّرَ لَهُ، أَوْ يَتَنَكَّرَ لَهُ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۶۷۴، ومصباح الزجاجۃ: ۷۶۱)، وقد أخرجہ: حم (۶/۲۴۶) (ضعیف)
(سند میں زبیربن عبید مجہول راوی ، اور ابوعاصم کے والد مختلف فیہ راوی ہیں)
۲۱۴۸- نافع کہتے ہیں کہ میں اپناسامان تجارت شام اور مصر بھیجا کرتا تھا، پھر میں نے عراق کی طرف بھیج دیا، پھر میں ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آیا، اور ان سے کہاکہ میں اپناسامان تجارت شام بھیجا کرتا تھا، لیکن اس بار میں نے عراق بھیج دیا ہے، تو انہوں نے کہا : ایسا نہ کرو ، تمہاری پہلی تجارت گاہ کو کیا ہوا کہ اس کو چھوڑ کر تم نے دوسری اختیار کرلی؟ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے:''اللہ تعالی جب تم میں سے کسی کے لئے روزی کا کوئی ذریعہ پیدا کردے، تو وہ اسے نہ چھوڑے یہاں تک کہ وہ بدل جائے ، یا بگڑ جائے'' ۔
 
Top