• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابن ماجه

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
24- بَاب السَّارِقِ يَعْتَرِفُ
۲۴- باب: چور کا اعتراف ِجرم​


2588- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ، أَنْبَأَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ ثَعْلَبَةَ الأَنْصَارِيِّ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّ عَمْرَو بْنَ سَمُرَةَ بْنِ حَبِيبِ بْنِ عَبْدِشَمْسٍ جَاءَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنِّي سَرَقْتُ جَمَلا لِبَنِي فُلانٍ، فَطَهِّرْنِي، فَأَرْسَلَ إِلَيْهِمُ النَّبِيُّ ﷺ فَقَالُوا: إِنَّا افْتَقَدْنَا جَمَلا لَنَا، فَأَمَرَ بِهِ النَّبِيُّ ﷺ فَقُطِعَتْ يَدُهُ.
قَالَ ثَعْلَبَةُ: أَنَا أَنْظُرُ إِلَيْهِ حِينَ وَقَعَتْ يَدُهُ وَهُوَ يَقُولُ: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي طَهَّرَنِي مِنْكِ، أَرَدْتِ أَنْ تُدْخِلِي جَسَدِي النَّارَ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۲۰۷۵، ومصباح الزجاجۃ: ۹۱۵) (ضعیف)
(سندمیں عبد الرحمن بن ثعلبہ مجہول اور عبد اللہ بن لہیعہ ضعیف ہیں)
۲۵۸۸- ثعلبہ انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عمروبن سمرہ بن حبیب بن عبد شمس رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا، اورکہا: اللہ کے رسول! میں نے بنی فلاں کا اونٹ چرایاہے، لہٰذا مجھے اس جرم سے پاک کردیجیے ، نبی اکرم ﷺ نے ان لوگوں کے پاس کسی کو بھیجا ، انہوں نے بتایا کہ ہمارا ایک اونٹ غائب ہوگیا ہے، چنانچہ نبی اکرم ﷺ نے حکم دیا، اور اس کا ہاتھ کاٹ دیاگیا ۔
ثعلبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : میں دیکھ رہاتھا جب اس کا ہاتھ کٹ کر گرا تو وہ کہہ رہا تھا : اللہ کا شکر ہے جس نے مجھے تجھ سے پاک کیا ، تو چاہتا تھا کہ میرے جسم کو جہنم میں داخل کرے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
25-بَاب الْعَبْدِ يَسْرِقُ
۲۵- باب: غلام چوری کرے تو اس کے حکم کا بیان​


2589- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ أَبِي عَوَانَةَ، عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < إِذَا سَرَقَ الْعَبْدُ فَبِيعُوهُ وَلَوْ بِنَشٍّ >۔
* تخريج: د/الحدود ۲۲ (۴۴۱۲)، ن/قطع السارق ۱۳ (۴۹۸۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۹۷۹) (ضعیف)
(سند میں عمر بن أبی سلمہ ہیں ، جو روایت میں غلطی کرتے ہیں)
۲۵۸۹- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' اگر غلام چوری کرے تو اسے بیچ دو، خواہ وہ نصف اوقیہ (بیس درہم ) میں بک سکے '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یہ حدیث ضعیف ہے علماء کا اتفاق ہے کہ غلام اور لونڈی جب چوری کریں تو ان کا بھی ہاتھ کاٹا جائے ۔


2590- حَدَّثَنَا جُبَارَةُ بْنُ الْمُغَلِّسِ، حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ تَمِيمٍ عَنْ مَيْمُونِ بْنِ مِهْرَانَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ عَبْدًا مِنْ رَقِيقِ الْخُمُسِ سَرَقَ مِنَ الْخُمُسِ، فَرُفِعَ ذَلِكَ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ، فَلَمْ يَقْطَعْهُ وَقَالَ: < مَالُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ سَرَقَ بَعْضُهُ بَعْضًا >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۶۵۰۸ (ألف)، ومصباح الزجاجۃ: ۹۱۶) (ضعیف)
(حجاج بن تمیم ضعیف ہیں، ملاحظہ الإرواء : ۲۴۴۴)
۲۵۹۰- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ بیت المال کے لیے مال غنیمت کے پانچویں حصے میں جو غلام ملے تھے ان میں سے ایک غلام نے خمس (پانچویں حصہ) میں سے کچھ چرالیا، یہ معاملہ نبی اکرم ﷺ کے پاس پیش کیا گیا،آپ ﷺنے اس کا ہاتھ نہیں کاٹا اورفرمایا : ''(خمس) اللہ کا مال ہے، ایک نے دوسرے کو چرایا '' ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
26- بَاب الْخَائِنِ وَالْمُنْتَهِبِ وَالْمُخْتَلِسِ
۲۶- باب: خائن ، لٹیرے اور چھین کر بھاگنے والوں کا حکم​


2591- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرِ ابْنِ عَبْدِاللَّهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < لا يُقْطَعُ الْخَائِنُ وَلا الْمُنْتَهِبُ وَلا الْمُخْتَلِسُ >۔
* تخريج: د/الحدود ۱۳ (۴۳۹۱، ۴۳۹۲)، ت/الحدود ۱۸ (۱۴۴۸)، ن/قطع السارق ۱۰ (۴۹۷۵)، (تحفۃ الأشراف: ۲۸۰۰)، وقد أخرجہ: حم (۳/۳۸۰)، دي/الحدود ۸ (۴۹۸۸) (صحیح)
۲۵۹۱- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''خائن ،لٹیرے اورچھین کر بھاگنے والے کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا '' ۔


2592- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَاصِمِ بْنِ جَعْفَرٍ الْمِصْرِيُّ، حَدَّثَنَا الْمُفَضَّلُ بْنُ فَضَالَةَ، عَنْ يُونُسَ بْنِ يَزِيدَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ ابْنِ عَوْفٍ، عَنْ أَبِيهِ؛ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < لَيْسَ عَلَى الْمُخْتَلِسِ قَطْعٌ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، ( تحفۃ الأشراف: ۹۷۱۵، ومصباح الزجاجۃ: ۹۱۷) (صحیح)
۲۵۹۲- عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' چھین کر بھاگنے والے کی سزا ہاتھ کاٹنا نہیں ہے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : جیب کترے کا ہاتھ کاٹا جائے گا ، کیونکہ چوری کی تعریف اس پر صادق آتی ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
27- بَاب لا يُقْطَعُ فِي ثَمَرٍ وَلا كَثَرٍ
۲۷ - باب: پھل اور کھجور کے گابھے کی چوری میں ہاتھ نہ کا ٹا جائے گا​


2593- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ حَبَّانَ، عَنْ عَمِّهِ وَاسِعِ بْنِ حَبَّانَ، عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < لا قَطْعَ فِي ثَمَرٍ وَلا كَثَرٍ >۔
* تخريج: ت/الحدود ۱۹ (۱۴۴۹)، ن/قطع السارق ۱۰ (۴۹۶۴)، (تحفۃ الأشراف: ۳۵۸۸)، وقد أخرجہ: د/الحدود ۱۲ (۴۳۸۸)، ط/الحدود ۱۱ (۳۲)، حم (۳/۴۶۳، ۴۶۴)، دي/الحدود ۷ (۲۳۵۰) (صحیح)
۲۵۹۳- رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' نہ پھل چرانے سے ہاتھ کاٹا جائے گا اور نہ کھجور کا گابھا چرانے سے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث معلوم ہوا کہ میوہ ، پھل اور کھجور کے گابھے کی چوری میں ہاتھ نہیں کاٹاجائے گا، جب تک یہ چیزیں محفوظ مقام میں سوکھنے کے لئے نہ رکھی جائیں ، یعنی جرین (کھلیان) میں، مگر شرط یہ ہے کہ چو ر ا س میوے یا پھل کو صرف کھالے، اور گود میں بھر کر نہ لے جائے ، اگر گود میں بھر کر لے جائے تو اس کو دو گنی قیمت اس کی دینا ہوگی، اور سزا کے لئے مار بھی پڑے گی ۔


2594- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا سَعْدُ بْنُ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيُّ، عَنْ أَخِيهِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < لا قَطْعَ فِي ثَمَرٍ وَلا كَثَرٍ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۹۶۷، ومصباح الزجاجۃ: ۹۱۸) (صحیح)
(سند میں عبد اللہ بن سعید المقبری ضعیف ہیں، لیکن سابقہ رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کی حدیث سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو : الإرواء : ۸؍ ۷۳)
۲۵۹۴- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' پھل اور کھجور کا گابھا چرانے سے ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا '' ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
28- بَاب مَنْ سَرَقَ مِنَ الْحِرْزِ
۲۸ - باب: حرز ( محفوظ جگہ) میں سے چرانے کا بیان​


2595- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا شَبَابَةُ عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ صَفْوَانَ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ نَامَ فِي الْمَسْجِدِ وَتَوَسَّدَ رِدَائَهُ، فَأُخِذَ مِنْ تَحْتِ رَأْسِهِ، فَجَاءَ بِسَارِقِهِ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ فَأَمَرَ بِهِ النَّبِيُّ ﷺ أَنْ يُقْطَعَ، فَقَالَ صَفْوَانُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! لَمْ أُرِدْ هَذَا، رِدَائِي عَلَيْهِ صَدَقَةٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < فَهَلا قَبْلَ أَنْ تَأْتِيَنِي بِهِ >۔
* تخريج: د/الحدود ۱۴ (۴۳۹۴)، ن/قطع السارق ۴ (۴۸۸۲ مرسلاً)، (تحفۃ الأشراف: ۴۹۴۳)، وقد أخرجہ: ط/الحدود ۹ (۲۸)، حم (۳/۴۰۱، ۶/۴۶۵، ۴۶۶)، دي/الحدود ۳ (۲۳۴۵) (صحیح)
۲۵۹۵- صفوان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ مسجد میں سوگئے، اور اپنی چادر کو تکیہ بنالیا ، کسی نے ان کے سر کے نیچے سے اسے نکال لیا، وہ چور کو لے کر نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے، چنانچہ نبی اکرم ﷺ نے ہاتھ کاٹے جانے کا حکم دیا ، صفوان رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! میرا مقصد یہ نہ تھا، میری چادر اس کے لئے صدقہ ہے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' تم نے آخر میرے پاس اسے لانے سے پہلے ایسا کیوں نہیں کیا '' ؟ ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس سے معلوم ہوا کہ اگر مسجد یا صحرامیں کوئی مال کا محافظ ہو تو اس کے چرانے میں ہاتھ کاٹا جائے گا ، اکثر علماء اسی طرف گئے ہیں کہ قطع کے لئے حرز (یعنی مال کا محفوظ ہونا) ضرور ی ہے ۔


2596 - حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنِ الْوَلِيدِ بْنِ كَثِيرٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ أَنَّ رَجُلا مِنْ مُزَيْنَةَ سَأَلَ النَّبِيَّ ﷺ عَنِ الثِّمَارِ فَقَالَ: <مَا أُخِذَ فِي أَكْمَامِهِ فَاحْتُمِلَ، فَثَمَنُهُ وَمِثْلُهُ مَعَهُ، وَمَا كَانَ مِنَ الْجَرِينِ فَفِيهِ الْقَطْعُ إِذَا بَلَغَ ثَمَنَ الْمِجَنِّ، وَإِنْ أَكَلَ وَلَمْ يَأْخُذْ فَلَيْسَ عَلَيْهِ > قَالَ: الشَّاةُ الْحَرِيسَةُ مِنْهُنَّ يَارَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: < ثَمَنُهَا وَمِثْلُهُ مَعَهُ وَالنَّكَالُ، وَمَا كَانَ فِي الْمُرَاحِ فَفِيهِ الْقَطْعُ إِذَا كَانَ مَا يَأْخُذُ مِنْ ذَلِكَ ثَمَنَ الْمِجَنِّ >۔
* تخريج: د/اللقطۃ ۱ (۱۷۱۱)، الحدود ۱۲ (۴۳۹۰)، (تحفۃ الأشراف: ۸۸۱۲)، وقد أخرجہ: ت/البیوع ۵۴ (۱۲۸۹)، ن/قطع السارق ۱۱ (۴۹۷۲)، حم (۲/۱۸۶) (حسن)
۲۵۹۶- عبداللہ بن عمروبن العاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ قبیلہ مزینہ کے ایک شخص نے نبی اکرم ﷺ سے پھلوں کے بارے میں پوچھا تو آپ ﷺنے فرمایا: '' جو شخص پھل خوشے میں سے توڑ کر چرائے تو اسے اس کی دوگنی قیمت دینی ہوگی، اور اگر پھل کھلیان میں ہو تو ہاتھ کاٹا جائے گا، بشرطیکہ وہ ڈھال کی قیمت کے برابر ہو، اور اگر اس نے صرف کھایا ہو لیا نہ ہو تو اس پر کچھ نہیں''، اس شخص نے پوچھا : اگر کوئی چراگاہ میں سے بکریاں چرالے جائے ( تو کیا ہوگا )؟ اللہ کے رسول! آپﷺ نے فرمایا: ''اس کی دوگنی قیمت اداکرنی ہوگی، اور سزا بھی ملے گی، اور اگر وہ اپنے باڑے میں ہو تو اس میں ( چوری کرنے پر ) ہاتھ کاٹا جائے بشرطیکہ چرائی گئی چیز کی قیمت ڈھال کی قیمت کے برابر ہو '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ابو دا ود کی روایت میں ہے جو کوئی پھلوں کو منہ میں ڈال لے، اور گود میں بھر کر نہ لے جائے اس پر کچھ نہیں ہے، اور جو اٹھاکر لے جائے اس پر دو گنی قیمت ہے ، اور سزا کے لئے مار ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
29- بَاب تَلْقِينِ السَّارِقِ
۲۹- باب: چور کو تلقین کر نا کہ تم نے چوری نہ کی ہوگی!​


2597- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا الْمُنْذِرِ مَوْلَى أَبِي ذَرٍّ يَذْكُرُ أَنَّ أَبَا أُمَيَّةَ حَدَّثَهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ أُتِيَ بِلِصٍّ: فَاعْتَرَفَ اعْتِرَافًا، وَلَمْ يُوجَدْ مَعَهُ الْمَتَاعُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ < مَا إِخَالُكَ سَرَقْتَ > قَالَ: بَلَى، ثُمَّ قَالَ: < مَا إِخَالُكَ سَرَقْتَ > قَالَ: بَلَى، فَأَمَرَ بِهِ فَقُطِعَ، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: < قُلْ أَسْتَغْفِرُ اللَّهَ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ > قَالَ: أَسْتَغْفِرُ اللَّهَ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ، قَالَ: < اللَّهُمَّ تُبْ عَلَيْهِ > مَرَّتَيْنِ۔
* تخريج: د/الحدود ۸ (۴۳۸۰)، ن/قطع السارق ۳ (۴۸۸۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۸۶۱)، وقد أخرجہ: حم (۵/۲۹۳)، دي/الحدود ۶ (۲۳۴۹) (ضعیف)
(سند میں ابو المنذر غیر معروف راوی ہیں )
۲۵۹۷- ابوامیہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک چور لایاگیا ، اس نے اقبال جرم تو کیا لیکن اس کے پاس سامان نہیں ملا ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''میرا خیال ہے کہ تم نے چوری نہیں کی ہے''، اس نے کہا: کیوں نہیں؟ آپﷺ نے پھر فرمایا: '' میرے خیال میں تم نے چوری نہیں کی ''، اس نے کہا: کیوں نہیں ؟ پھر آپﷺ نے حکم دیا، تو اس کا ہاتھ کاٹ دیاگیا، اس کے بعد نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: کہو ''أَسْتَغْفِرُ اللَّهَ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ'' (میں اللہ سے مغفرت طلب کرتا ہوں اور اس سے توبہ کرتاہوں )،تواس نے کہا: '' أَسْتَغْفِرُ اللَّهَ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ'' تب آپﷺ نے دو مرتبہ فرمایا: ''اللَّهُمَّ تُبْ عَلَيْهِ'' (اے اللہ تو اس کی توبہ قبول فرما)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
30- بَاب الْمُسْتَكْرَهِ
۳۰- باب: مجبور پر حد کے نفاذکاحکم​


2598- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مَيْمُونٍ الرَّقِّيُّ، وَأَيُّوبُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْوَزَّانُ، وَعَبْدُاللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، قَالُوا: حَدَّثَنَا مُعَمَّرُ بْنُ سُلَيْمَانَ،أَنْبَأَنَا الْحَجَّاجُ بْنُ أَرْطَاةَ عَنْ عَبْدِالْجَبَّارِ بْنِ وَائِلٍ، عَنْ أَبِيهِ؛ قَالَ اسْتُكْرِهَتِ امْرَأَةٌ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ؛ فَدَرَأَ عَنْهَا الْحَدَّ، وَأَقَامَهُ عَلَى الَّذِي أَصَابَهَا، وَلَمْ يَذْكُرْ أَنَّهُ جَعَلَ لَهَا مَهْرًا۔
* تخريج: ت/الحدود ۲۲ (۱۴۵۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۷۶۰)، وقد أخرجہ: حم (۴/۳۱۸) (ضعیف)
(حجاج بن أرطاہ مدلس ہیں ، روایت عنعنہ سے کی ہے ،ملاحظہ ہو : الإرواء : ۷/۴۴۱)
۲۵۹۸- وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ایک عورت کے ساتھ جبراًبدکاری کی گئی، آپﷺ نے اس عور ت پر حد نہیں لگائی بلکہ اس شخص پرحد جاری کی جس نے اس کے ساتھ جبراً بدکاری کی تھی، اس روایت میں اس کاتذکرہ نہیں ہے کہ آپﷺ نے اسے مہر بھی دلایاہو ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس پر اکثر علماء کا اتفاق ہے کہ جب کسی کوایسے جرم پر مجبورکیاجائے جس پر حدہے ،تو اس مجبور پر حد جاری نہیں ہوگی بلکہ جبراً بدکاری کرنے والے پر حد جاری ہوگی ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
31- بَاب النَّهْيِ عَنْ إِقَامَةِ الْحُدُودِ فِي الْمَسَاجِدِ
۳۱- باب: مساجد میں حدکا نفاذ منع ہے​


2599- حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ(ح) و حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَرَفَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو حَفْصٍ الأَبَّارُ، جَمِيعًا عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < لا تُقَامُ الْحُدُودُ فِي الْمَسَاجِدِ >۔
* تخريج: ت/الدیات ۹ (۱۴۰۱)، (تحفۃ الأشراف: ۵۷۴۰)، وقد أخرجہ: دي/الدیات ۶ (۲۴۰۲) (حسن)
(اس کی سند میں اسماعیل بن مسلم مکی ضعیف ہے لیکن شواہد کی بناء پر حدیث حسن ہے )
۲۵۹۹- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ''مساجد میں حدود نہ جاری کی جائیں '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : کیونکہ وہ ذکر ، تلاوت اور صلاۃ وغیرہ کی جگہ ہے، اس میں مارپیٹ سزا وغیرہ مناسب نہیں، کیونکہ چیخ و پکار سے مسجد کے احترام میں فرق آئے گا، نیز اس کے خون وغیرہ سے نجاست کا بھی خطرہ ہے۔


2600- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ، أَنْبَأَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلانَ أَنَّهُ سَمِعَ عَمْرَو بْنَ شُعَيْبٍ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ نَهَى عَنْ جَلْدِ الْحَدِّ فِي الْمَسَاجِدِ.
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۸۸۰۲، ومصباح الزجاجۃ: ۹۱۹) (حسن)
(سند میں ابن لہیعہ اور محمد بن عجلان ضعیف ہیں، لیکن شواہد سے یہ حسن ہے)
۲۶۰۰- عبداللہ بن عمروبن العاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کو رسول اللہ ﷺ نے مساجد میں حد کے نفاذ سے منع فرمایا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
32- بَاب التَّعْزِيرِ
۳۲ - باب: تعزیرات( تادیبی سزاؤں ) کا بیان ۱؎​
وضاحت ۱؎ : تعزیرایسے جرائم پر تادیب اور سزاکوکہتے ہیں جن پر اسلامی شریعت میں کوئی حد (سزا) مقرر نہیں ہے ، اورنہ ہی اس میں کوئی کفارہ ہے ، امام اور حاکم کو اختیار ہے کہ جس طرح سے چاہے سزا دے، کوڑے لگاکر یا قید کر کے یا مارکر یا فقط ڈانٹ پلادے یا کوئی مالی جرمانہ کرے،یا مجرم کا مال بربادکردے، وغیرہ وغیرہ ۔


2601- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ، أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ الأَشَجِّ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ بْنِ نِيَارٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ كَانَ يَقُولُ: < لا يُجْلَدُ أَحَدٌ فَوْقَ عَشْرِ جَلَدَاتٍ، إِلافِي حَدٍّ مِنْ حُدُودِ اللَّهِ >۔
* تخريج: خ/الحدود ۴۲ (۶۸۴۸، ۶۸۴۹،۶۸۵۰)، م/الحدود ۹ (۱۷۰۸)، د/الحدود ۳۹ (۴۴۹۱، ۴۴۹۲)، ت/الحدود ۳۰ (۱۴۶۳)، وقد أخرجہ: حم (۳/۴۶۶، ۴/۴۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۷۲۰)، دي/الحدود ۱۱ (۲۳۶۰) (صحیح)
۲۶۰۱- ابوبردہ بن نیار انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ فرماتے تھے: ''دس کوڑے سے زیادہ کسی کو نہ لگائے جائیں سوائے اس کے کہ اللہ تعالی کی حدود میں سے کوئی حد جاری کرنا ہو ۔'' ۱؎
وضاحت ۱؎ : ان احادیث میں رسول اکرمﷺنے خاندان کے سرپرستوں کے لیے یہ ہدایت فرمائی ہے کہ ان کی تربیت ونگرانی میں رہنے والے افراد کے اخلاق سدھارنے میں اگرسارے وسائل ناکام ہوجائیں توتادیباً ان کومارنا پیٹنابھی جائزہے، اور اس کی آخری حددس کوڑے ہیں، اس سے زیادہ کی سزانہ دینی چاہئے، اس حدیث کا علماء کے اقوال میں سب سے صحیح مطلب یہی ہے ، حدیث کے آخری ٹکڑے میں حدوداللہ کا لفظ استعمال ہواہے ، جس سے مراد بعض علماء کے یہاںوہ حدود(جرائم)ہیں،جن کی سزا اسلامی شریعت میں موجودہے، جیسے : زانی کی سزا ، بہتان لگانے والے کی سزا، چورکی سزا، ناحق جان لینے پرقصاص یا دیت اوراعضاء اور جوارح کے تلف ہوجانے پر مقررسزائیں، ان سب کو حدودکہاجاتاہے۔
ان جرائم کے علاوہ جن میں سزامقررہے ، دوسرے جرائم اورگناہ ایسے ہیں جن میں تعزیر (یعنی تادیبی سزا) ہے، یعنی دس کوڑے اور اس سے کم ،یہ امام احمدبن حنبل کا مذہب ہے، اوریہ سزاایسے آدمی کودی جائے گی جس نے جرم اورگناہ کا کام کرلیا ہے، اور جوشخص گناہ اورجرم میں برابر ملوث ہے، تو اس کی تادیب اس وقت تک ہوتی رہے گی ، جب تک کہ وہ اس سے باز نہ آجائے ۔شیخ الإسلام امام ابن تیمیہ اس مسئلہ میں فرماتے ہیں: ہمارے اصحاب (حنابلہ ) نے جوتعزیرات (تادیبی سزائیں) مقررفرمائی ہیں ، وہ اس گناہ پر ہے ، جو ماضی میں ہواہے ، چاہے اس کا تعلق کسی ناجائز کام کے کرنے سے ہویا کسی مشروع کا م کے چھوڑنے سے ہو، لیکن اگرتعزیر اس گناہ اورجرم میں ملوث آدمی پر ہو تو وہ مرتد اور حربی کافر کے قتل اور باغی سے جنگ کے مقام میں ہے ، اور اس تعزیر کی کوئی حدمقررنہیں ہے ، یہ قتل تک ہوسکتی ہے ،جیساکہ کسی آدمی کے مال کوکوئی زبردستی لینے کی کوشش کرے ، تو صاحبِ مال کے لیے جائزہے کہ اس حملہ آور کواس اقدام سے روکے ، اوراپنے مال کوبچائے چاہے یہ کام اس کے قتل ہی کے ذریعہ انجام پائے ۔
امام ابوحنیفہ اورامام شافعی کے یہاں تعزیرات(تادیبی سزائیں) مقررہ حدود سے زیادہ نہ ہوں گی ۔
بعض علماء نے '' إلا في حد من حدود الله''کے بارے میں یہ فرمایا ہے کہ حدوداللہ سے مراد اللہ کے اوامرواحکام اورنواہی وممنوعات ہیں، توکسی واجب کام کے چھوڑدینے یا کسی حرام کام کے کرنے پرتعزیر وتادیب کا معاملہ امام اورحاکم کی رائے پر ہے کہ وہ ایسی سزادے جس سے آدمی غلط کام سے باز آجائے ، اوریہ حالات وزمانہ ، مقام ، اشخاص اورگناہ کی نوعیت پر مبنی ہے ، زمانے اورمقام کی بناپرخطاکاروں کی سزامیں کمی اورزیادتی کی جاسکتی ہے ، ایسے ہی افراد واشخاص کا معاملہ ہے ، بعض لوگوں کوہلکی یا سخت ڈانٹ ہی جرم کے ارتکاب سے روکنے میں کافی ہوجاتی ہے ، بعض لوگوں کا علاج جیل بھیج کرہوتاہے ، اوربعض لوگوں کو مال کاتاوان لے کر پابندکیا جاسکتاہے ، معاشرہ میں ایسے لوگ بھی ہوتے ہیںجوکسی نہ کسی سطح پر اچھی شہرت رکھتے ہیں، اوران کا شمارشرفاء یا دینداروں میں ہوتاہے ،اورایسے لوگوں سے بھی کبھی کبھارغلطی ہوجاتی ہے توان سے چشم پوشی کی جانی چاہئے ، بعض لوگ جرائم کا ارتکاب کھلم کھلاکرتے ہیں، اورعنادوتمرد کامظاہرہ کرتے ہیں توایسے لوگوں کو قرارِ واقعی سزاملنی چاہئے تاکہ وہ اپنے جرائم سے باز آجائیں۔
جرائم اورمعصیت کے کام چھوٹے بڑے ہوتے ہیں، اس لیے حاکم کو اس کا پس منظرمعلوم رہناچاہئے تاکہ تادیبی سزاؤں کے صحیح نتائج برآمد ہوں، حاکم کوہرطرح کی چھوٹی بڑی سزائیںدینے کا اختیارہے ، ان سزاؤں کی اصل شرع میں موجودہے ، امام احمدرحمہ اللہ ''رمضان میں دن کے وقت شراب پینے والے کے بارے میں یااس طرح کا کام کرنے والے کے سلسلے میں فرماتے ہیں کہ اس پرحدنافذکی جائے گی ، اور اس کے بارے میں سختی کی جائے گی ، جیسے حرم میں قتل کرنے والے پردیت ہے ، اورمزیدتہائی دیت''۔
نیزفرمایا : عورت عورت کے ساتھ فحش کاری کرے تودونوں کوسزادی جائے گی اوردونوں کی تادیب ہوگی ، نیز صحابہ کوگالی دینے والے کے بارے میں فرمایا کہ حاکم پرواجب ہے کہ اس کوسزادے اگرتوبہ نہ کرے تودوبارہ سزاکامستحق ہے ۔
شیخ الإسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں جوفرمایا ہے ان میں سے اختیارات سے آپ کے بعض اقوال مندرجہ ذیل ہیں:
فرماتے ہیں: ''آدمی کی تعزیرکبھی اس کی بے عزتی کرکے ہوتی ہے ، جیسے اس کو پکارا جائے : اے ظالم ، اے ظلم وعدوان کرنے والے اور اسے مجلس سے اٹھادیا جائے ، مزید فرمایا: مال سے تعزیرجائز ہے ،کبھی مال لے کر اورکبھی مال ضائع کرکے اوریہ امام احمد کے قاعدہ کے مطابق ہے ،اس لیے کہ اصحابِ امام احمدسے اس مسئلہ میں اختلاف نہیں ہے کہ مال میں سزائیں سب کی سب منسوخ نہیں ہیں، امام محمدمقدسی کا یہ قول:'' ولا يجوز أخذ مال المعزر'' (جس کی تعزیرکی گئی ہے اس کا مال لینا جائز نہیں ہے) ، اس سے آپ نے اس بات کی طرف سے اشارہ کیا ہے جو ظالم حکمراں کرتے ہیں''۔
نیز فرمایا : ''حاکم کے نزدیک یہ ثابت ہوجائے کہ فلاں آدمی نے ضروری خبرچھپائی ہے تو اس کو اختیار ہے کہ اس کی تعزیرکرے ، جیسے کہ مجہول اقرارکرنے والے کے بارے میں اس کو تعزیرکا حق ہے تاکہ اس کی تفسیر وتوضیح کرے ، یا جس نے اقرارکوچھپالیا اس پر بھی حاکم کو تعزیرکا حق حاصل ہے ''۔
کبھی مستحب کام کے ترک پر بھی تعزیرہوتی ہے ، جیسے چھینکنے والا آدمی اگر '' الحمد لله'' نہ کہے تو اس کا جواب '' يهديكم الله''کہہ کرنہیں دیا جاتا، شیخ الإسلام فرماتے ہیں: میں نے جنگ میں ایک بڑے لشکرکے ذمہ دار امیرکوفتویٰ دیا کہ وہ ان لوگوں کوجنہوں نے مسلمانوں کے مال لوٹے ہیں اورصرف قتل ہی سے وہ اس اقدام سے رُکیں گے کوقتل کریں چاہے دس آدمی مارے جائیں اس لیے کہ یہ صائل (حملہ آور) سے دفاع کے قبیل سے ہے ۔
امام ابن القیم فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں حدودسے مرادحقوق ہیں، یعنی اللہ تعالیٰ کے اوامرواحکام اور اس کی منع کی ہوئی چیزیں،او ر مندرجہ ذیل آیات میں حدوداللہ سے مراد اللہ کے اوامرونواہی ہی ہیں : {وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ اللّهِ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ} [سورة البقرة:229]{ وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ } [ سورة الطلاق:1] {تِلْكَ حُدُودُ اللّهِ فَلاَ تَعْتَدُوهَا} [ سورة البقرة:229]
اورایسے لوگ جن کی تعزیروتادیب دس کوڑے سے زیادہ نہیں ہے ، تووہ ایسی تعزیرات ہیں جن کا تعلق گناہوں (معصیت) سے نہیں ہے ، جیسے :باپ اپنے چھوٹے بچے کی تادیب کرے ۔
امام ابویوسف کہتے ہیں: تعزیرگناہ کے بڑے اورچھوٹے ہونے کے مطابق ہوگی، اورحاکم کی رائے کے مطابق کہ جس آدمی کی تادیب کی جائے وہ اس کو برداشت بھی کرے ، اور اس کی حداسی کوڑے سے کم ہے ۔
امام مالک کہتے ہیں: تعزیرجرم کے مطابق ہوگی، اگراس کا جرم بہتان لگانے سے بڑا ہوگا توسو (۱۰۰) یا اس سے زیادہ کوڑوں کا مستحق ہوگا ۔
امام ابوثورکہتے ہیں: تعزیرجرم کے مطابق ہوگی اورشروفسادکرنے والے کی تعزیر جلدکی جائے گی اور اس مقدارمیں ہوگی جوادب کو پورے طورپر سکھادے چاہے تعزیرحدسے بڑھ جائے جب کہ جرم بڑا ہو، جیسے کہ آدمی اپنے غلام کوقتل کردے ، یا اس کے جسم کے کسی حصے کوکاٹ لے ،یا اس کو سزادینے میں اسراف ومبالغے سے کام لے تو اس کی سزاجرم کے مطابق ہوگی، اور اگرامام عادل ومأمون ہوتواس کی رائے کے مطابق ۔
علامہ عبدالرحمن سعدی فرماتے ہیں: مصلحت اورتنبیہ کوسامنے رکھتے ہوئے دس کوڑوں سے زیادہ تعزیرکا جائز ہونا صحیح مذہب ہے ۔
زیرنظرحدیث کا خلاصہ یہ ہے کہ کسی آدمی کو دس کوڑے سے زیادہ نہ مارا جائے ، إلا یہ کہ اللہ کی حدود میں سے کوئی حدہو(تواس سے زیادہ مارنا جائز ہے)اس سے مراد معصیت اورگناہ ہے ،اورچھوٹے بچے ، بیوی ، اورخادم وغیرہ کی گناہ کے کاموں کے علاوہ باتوںمیں تادیب دس کوڑے سے زیادہ نہیں ہوگی۔
شیخ الإسلام ابن تیمیہ کہتے ہیں: عمررضی اللہ عنہ کئی کئی بار تعزیرکرتے تھے اورجب وہ کئی حرام کاموں پرتعزیرہوتی تو اس کوالگ الگ کرتے تھے ، پہلے سو کوڑے لگاتے پھردوسرے دن سو پھرتیسرے دن سو، الگ الگ اس واسطے لگاتے کہ مجرم کا کوئی عضوٹوٹ نہ جائے ،نیز فرماتے ہیں: جس آدمی کے پاس غلام ہوں تواس پرواجب ہے کہ وہ انہیں معروف کا حکم دے اورمنکرسے روکے ، اوراگران کوسزادینے پرقادرہوتو واجبات کے چھوڑنے اورمحرمات کاارتکاب کرنے پرتعزیرکرے ، (ملاحظہ ہو: توضیح الأحکام من بلوغ المرام للشیخ عبداللہ بن عبدالرحمن البسّام /باب التعزیر من کتاب الحدود حدیث نمبر: ۱۰۸۹)


2602- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا إِسمَعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ، حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ كَثِيرٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: <لا تُعَزِّرُوا فَوْقَ عَشَرَةِ أَسْوَاطٍ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۳۸۱، ومصباح الزجاجۃ: ۹۲۰) (حسن)
(سند میں عباد بن کثیر ثقفی اور اسماعیل بن عیاش دونوں ضعیف ہیں ، لیکن سابقہ حدیث سے تقویت پاکر حدیث حسن ہے )
۲۶۰۲- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' تعزیراً دس کوڑوں سے زیادہ کی سزا نہ دو '' ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
33- بَاب الْحَدُّ كَفَّارَةٌ
۳۳- باب: حد کا نفاذ گناہ کا کفارہ ہے​


2603 - حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَهَّابِ وَابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ، عَنْ أَبِي قلابَةَ، عَنْ أَبِي الأَشْعَثِ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < مَنْ أَصَابَ مِنْكُمْ حَدًّا، فَعُجِّلَتْ لَهُ عُقُوبَتُهُ، فَهُوَ كَفَّارَتُهُ، وَإِلا فَأَمْرُهُ إِلَى اللَّهِ >۔
* تخريج: م/الحدود ۱۰ (۱۷۰۹)، (تحفۃ الأشراف: ۵۰۹۰)، وقد أخرجہ: خ/الایمان ۱۱ (۱۸)، مناقب الانصار۴۳ (۳۸۹۲)، تفسیرسورۃالممتحنۃ ۳ (۴۸۹۴)، الحدود ۸ (۶۷۸۴)، ۱۴(۸۰۱)، الاحکام ۴۹ (۷۲۱۳)، التوحید ۳۱ (۷۴۶)، ت/الحدود ۱۲ (۱۴۳۹)، ن/البیعۃ ۹ (۴۱۶۶)، حم (۵/۳۱۴، ۳۲۱، ۳۳۳)، دي/السیر ۱۷ (۲۴۹۷) (صحیح)
۲۶۰۳- عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' تم میں سے اگرکوئی ایسا کام کرے جس سے حد لازم آئے ،اور اسے اس کی سزا مل جائے، تو یہی اس کا کفار ہ ہے ، ورنہ اس کامعاملہ اللہ کے حوالے ہے '' ۔


2604- حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ الْحَمَّالُ، حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي جُحَيْفَةَ، عَنْ عَلِيٍّ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < مَنْ أَصَابَ فِي الدُّنْيَا ذَنْبًا، فَعُوقِبَ بِهِ، فَاللَّهُ أَعْدَلُ مِنْ أَنْ يُثَنِّيَ عُقُوبَتَهُ عَلَى عَبْدِهِ، وَمَنْ أَذْنَبَ ذَنْبًا فِي الدُّنْيَا، فَسَتَرَهُ اللَّهُ عَلَيْهِ، فَاللَّهُ أَكْرَمُ مِنْ أَنْ يَعُودَ فِي شَيْئٍ قَدْ عَفَا عَنْهُ >۔
* تخريج: ت/الإیمان ۱۱ (۲۶۲۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۳۱۳)، وقد أخرجہ: حم (۱/۹۹، ۱۵۹) (ضعیف)
(سند میں حجاج بن محمد مصیصی ہیں، جو بغداد آنے کے بعد اختلاط کا شکار ہو گئے ، اور ہارون بن عبد اللہ الحمال ان کے شاگرد بغدادی ہیں، اس لئے ان کی روایت حجاج سے اختلاط کی وجہ سے ضعیف ہے)
۲۶۰۴- علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ''جس نے دنیا میں کوئی گناہ کیا ،اور اسے اس کی سزا مل گئی، تو اللہ تعالی اس بات سے زیادہ انصاف پسند ہے کہ بندے کو دوبارہ سزا دے، اور جو دنیا میں کوئی گناہ کرے، اور اللہ تعالی اس کے گناہ پر پر دہ ڈال دے ،تو اللہ تعالی کا کرم اس سے کہیں بڑھ کر ہے کہ وہ بندے سے اس بات پر دوبارہ مواخذہ کرے جسے وہ پہلے معاف کرچکا ہے '' ۔
وضاحت ۱؎ : گذشتہ صحیح حدیثوں سے پتلا چلا کہ حدود کے نفاذ سے گناہ کا کفارہ ہوجاتا ہے ، محققین علماء کا یہی قول ہے ، لیکن بعض علماء نے کہا کہ حد سے گناہ معاف نہیں ہوتا بلکہ گناہ کی معافی کے لئے توبہ درکار ہے اور اس کی کئی دلیلیں ہیں: ایک یہ کہ ڈکیتی میں اللہ تعالی نے فرمایا : { ذَلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيَا وَلَهُمْ فِي الآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ } [ سورة المائدة : 33] یعنی حد دنیا کی رسوائی ہے، اور آخرت میں ان کو دردناک عذاب ہے ، دوسرے یہ کہ ایک روایت میں ہے : میں نہیں جانتا حدود کفارہ ہیں یا نہیں ، تیسرے یہ کہ ابو امیہ مخزومی کی حدیث میں گزرا کہ آپ ﷺ نے جب چورکا ہاتھ کاٹا گیا تواس سے کہا: ''اللہ سے استغفار کر اور توبہ کر '' ۔
 
Top