6- بَاب مَا يُكْرَهُ مِنَ الضَّحَايَا
۶-باب: قربانی میں کون سا جانور مکروہ ہے
2802- حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ النَّمَرِيُّ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ فَيْرُوزَ قَالَ: سَأَلْتُ الْبَرَاءَ بْنَ عَازِبٍ: مَا لا يَجُوزُ فِي الأَضَاحِيِّ؟ فَقَالَ: قَامَ فِينَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ وَأَصَابِعِي أَقْصَرُ مِنْ أَصَابِعِهِ وَأَنَامِلِي أَقْصَرُ مِنْ أَنَامِلِهِ، فَقَالَ: < أَرْبَعٌ لا تَجُوزُ فِي الأَضَاحِيِّ > فَقَالَ: < الْعَوْرَاءُ بَيِّنٌ عَوَرُهَا، وَالْمَرِيضَةُ بَيِّنٌ مَرَضُهَا، وَالْعَرْجَاءُ بَيِّنٌ ظَلْعُهَا، وَالْكَسِيرُ الَّتِي لا تُنْقِى >، قَالَ: قُلْتُ: فَإِنِّي أَكْرَهُ أَنْ يَكُونَ فِي السِّنِّ نَقْصٌ قَالَ: مَا كَرِهْتَ فَدَعْهُ، وَلا تُحَرِّمْهُ عَلَى أَحَدٍ.
[قَالَ أَبو دَاود: لَيْسَ لَهَا مُخٌّ]۔
* تخريج: ت/الأضاحي ۵ (۱۴۹۷)، ن/الضحایا ۴ (۴۳۷۴)، ق/الأضاحي ۸ (۳۱۴۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۹۰)، وقد أخرجہ: ط/الضحایا ۱(۱)، حم (۴/۲۸۴، ۲۸۹، ۳۰۰، ۳۰۱)، دي/الأضاحي ۳ (۱۹۹۲) (صحیح)
۲۸۰۲- عبید بن فیروز کہتے ہیں کہ میں نے براء بن عازب رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ: کون سا جانور قربانی میں درست نہیں ہے؟ تو آپ نے کہا : رسول اللہ ﷺ ہمارے درمیان کھڑے ہوئے، میری انگلیاں آپ ﷺ کی انگلیوں سے چھوٹی ہیں اور میری پوریں آپ کی پوروں سے چھوٹی ہیں ، آپ ﷺ نے چارانگلیوں سے اشارہ کیا اور فرمایا: ''چار طرح کے جانور قربانی کے لائق نہیں ہیں، ایک کانا جس کا کاناپن بالکل ظاہر ہو، دوسرے بیمار جس کی بیماری بالکل ظاہر ہو، تیسرے لنگڑا جس کا لنگڑاپن بالکل واضح ہو ، اور چوتھے دبلا بوڑھا کمزور جانور جس کی ہڈیوں میں گودا نہ ہو'' ، میں نے کہا: مجھے قربانی کے لئے وہ جانور بھی برا لگتا ہے جس کے دانت میں نقص ہو ، آپ ﷺ نے فرمایا :'' جو تمہیں ناپسند ہواس کو چھوڑ دو لیکن کسی اور پر اس کو حرام نہ کرو''۔
ابو داود کہتے ہیں:(
''لا تُنْقِيْ'' کا مطلب یہ ہے کہ ) اس کی ہڈی میں گودا نہ ہو۔
2803- حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى الرَّازِيُّ قَالَ: أَخْبَرَنَا (ح) وَحَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ بَحْرِ [بْنِ بَرِيٍّ] حَدَّثَنَا عِيسَى [الْمَعْنَى] عَنْ ثَوْرٍ، حَدَّثَنِي أَبُو حُمَيْدٍ الرُّعَيْنِيُّ، أَخْبَرَنِي يَزِيدُ ذُو مِصْرَ قَالَ: أَتَيْتُ عُتْبَةَ بْنَ عَبْدٍ السُّلَمِيَّ فَقُلْتُ: يَا أَبَا الْوَلِيدِ! إِنِّي خَرَجْتُ أَلْتَمِسُ الضَّحَايَا فَلَمْ أَجِدْ شَيْئًا يُعْجِبُنِي غَيْرَ ثَرْمَاءَ فَكَرِهْتُهَا فَمَا تَقُولُ؟ قَالَ: أَفَلا جِئْتَنِي بِهَا، قُلْتُ: سُبْحَانَ اللَّهِ! تَجُوزُ عَنْكَ وَلا تَجُوزُ عَنِّي؟ قَالَ: نَعَمْ، إِنَّكَ تَشُكُّ وَلا أَشُكُّ، إِنَّمَا نَهَى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عَنِ الْمُصْفَرَّةِ وَالْمُسْتَأْصَلَةِ وَالْبَخْقَاءِ وَالْمُشَيَّعَةِ وَالْكَسْرَاء، وَالْمُصْفَرَّةُ: الَّتِي تُسْتَأْصَلُ أُذُنُهَا حَتَّى يَبْدُوَ سِمَاخُهَا، وَالْمُسْتَأْصَلَةُ: الَّتِي اسْتُؤْصِلَ قَرْنُهَا مِنْ أَصْلِهِ، وَالْبَخْقَاءُ: الَّتِي تُبْخَقُ عَيْنُهَا، وَالْمُشَيَّعَةُ: الَّتِي لا تَتْبَعُ الْغَنَمَ، عَجَفًا وَضَعْفًا، وَالْكَسْرَاءُ: الْكَسِيرَ[ةُ]۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۹۷۵۲)، وقد أخرجہ: حم (۴/۱۵۸) (ضعیف)
(اس کے راوی ''یزید ذومصر'' لین الحدیث ہیں)
۲۸۰۳- یزید ذومصر کہتے ہیں کہ میں عتبہ بن عبد سلمی کے پاس آیا اور ان سے کہا: ابو الولید! میں قربانی کے لئے جانور ڈھونڈھنے کے لئے نکلا تو مجھے سوائے ایک بکری کے جس کا ایک دانت گر چکا ہے کوئی جانور پسند نہ آیا ، تو میں نے اسے لینا اچھا نہیں سمجھا، اب آپ کیا کہتے ہیں؟ انہوں نے کہا: اس کو تم میرے لئے کیوں نہیں لے آئے ، میں نے کہا: سبحان اللہ! آپ کے لئے درست ہے اور میرے لئے درست نہیں ، انہوں نے کہا: ہاں تم کو شک ہے مجھے شک نہیں، رسول اللہ ﷺ نے بس
''مُصْفَرَّةٌ، مُسْتَأْصَلَةٌ، بَخْقَاْءُ، مُشَيَّعَةٌ، اور
كَسْرَاْء'' سے منع کیا ہے ،
''مُصْفَرَّة'' وہ ہے جس کا کان اتنا کٹا ہو کہ کان کا سوراخ کھل گیا ہو،
''مُسْتَأْصَلَة'' وہ ہے جس کی سینگ جڑ سے اکھڑ گئی ہو،
''بَخْقَاْء'' وہ ہے جس کی آنکھ کی بینائی جاتی رہے اور آنکھ باقی ہو، اور
''مُشَيَّعَة'' وہ ہے جو لاغری اور ضعف کی وجہ سے بکریوں کے ساتھ نہ چل پاتی ہو بلکہ پیچھے رہ جاتی ہو ،
''كَسْرَاْءَ'' وہ ہے جس کا ہاتھ پائوں ٹوٹ گیا ہو ، (لہٰذا ان کے علاوہ باقی سب جانور درست ہیں ، پھر شک کیوں کرتے ہو)۔
2804- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ، عَنْ شُرَيْحِ بْنِ النُّعْمَانِ -وَكَانَ رَجُلَ صِدْقٍ- عَنْ عَلِيٍّ قَالَ: أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَنْ نَسْتَشْرِفَ الْعَيْنَ وَالأُذُنَيْنِ، وَلا نُضَحِّي بِعَوْرَاءَ، وَلا مُقَابَلَةٍ، وَلا مُدَابَرَةٍ، وَلا خَرْقَاءَ، وَلا شَرْقَاءَ، قَالَ زُهَيْرٌ: فَقُلْتُ لأَبِي إِسْحَاقَ: أَذَكَرَ عَضْبَاءَ؟ قَالَ: لا، قُلْتُ: فَمَا الْمُقَابَلَةُ؟ قَال: يُقْطَعُ طَرَفُ الأُذُنِ، قُلْتُ: فَمَا الْمُدَابَرَةُ؟ قَالَ: يُقْطَعُ مِنْ مُؤَخَّرِ الأُذُنِ، قُلْتُ: فَمَا الشَّرْقَاءُ؟ قَالَ: تُشَقُّ الأُذُنُ، قُلْتُ: فَمَا الْخَرْقَاءُ؟ قَالَ: تُخْرَقُ أُذُنُهَا لِلسِّمَةِ۔
* تخريج: ت/الأضاحي ۶ (۱۴۹۸)، ن/الضحایا ۸ (۴۳۷۷) ۸ (۴۳۷۸)، ۹ (۴۳۷۹)، ق/الأضاحي ۸ (۳۱۴۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۱۲۵)، وقد أخرجہ: حم (۱/۸۰، ۱۰۸، ۱۲۸، ۱۴۹)، دي/الأضاحي ۳ (۱۹۹۵) (ضعیف)
(اس کے راوی ''ابواسحاق'' مختلط اور مدلس ہیں ، نیز ''شریح'' سے ان کا سماع نہیں، اس لیے سند میں انقطاع بھی ہے، مگر ''مطلق کان، ناک دیکھ بھال کرلینے کا حکم '' صحیح ہے)
۲۸۰۴- علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم کو حکم دیا کہ قربانی کے جانور کی آنکھ اور کان خوب دیکھ لیں (کہ اس میں ایسا نقص نہ ہو جس کی وجہ سے قربانی درست نہ ہو )اور کانے جانور کی قربانی نہ کریں، اور نہ
''مُقَاْبَلَةً '' کی ، نہ
''مُدَابَرَةً''کی، نہ
''خَرْقَاْءَ ''کی اور نہ
'' شَرْقَاْءَ'' کی۔
زہیر کہتے ہیں: میں نے ابو اسحاق سے پوچھا: کیا عضباء کا بھی ذکر کیا؟ تو انہوں نے کہا: نہیں (عضباء اس بکری کو کہتے ہیں جس کے کان کٹے ہوں اور سینگ ٹوٹے ہوں)۔
میں نے پوچھا
'' مُقَاْبَلَة'' کے کیا معنی ہیں؟ کہا :جس کا کان اگلی طرف سے کٹا ہو، پھر میں نے کہا:
''مُدَابَرَة'' کے کیا معنی ہیں؟ کہا: جس کے کان پچھلی طرف سے کٹے ہوں، میں نے کہا:
'' خَرْقَاْءَ'' کیا ہے؟ کہا: جس کے کان پھٹے ہوں (گولائی میں) میں نے کہا:
''شَرْقَاْءَ'' کیا ہے؟ کہا: جس بکری کے کان لمبائی میں چرے ہوئے ہوں (نشان کے لئے)۔
2805- حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا هِشَامُ [بْنُ أَبِي عَبْدِاللَّهِ الدَّسْتُوَائِيُّ، وَيُقَالُ لَهُ هِشَامُ بْنُ سَنْبَرٍ] عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ جُرَيِّ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ عَلِيٍّ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ نَهَى أَنْ يُضَحَّى بِعَضْبَاءِ الأُذُنِ وَالْقَرْنِ.
قَالَ أَبو دَاود: جُرَيٌّ سَدُوسِيٌّ [بَصْرِيٌّ] لَمْ يُحَدِّثْ عَنْهُ إِلا قَتَادَةُ۔
* تخريج: ت/الأضاحي ۹ (۱۵۰۴)، ن/الضحایا ۱۱ (۴۳۸۲)، ق/الأضاحي ۸ (۳۱۴۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۰۳۱)، وقد أخرجہ: حم (۱/۸۳، ۱۰۱، ۱۰۹، ۱۲۷، ۱۲۹، ۱۵۰) (ضعیف)
(اس کے راوی ''جری'' لین الحدیث ہیں)
۲۸۰۵- علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے عضبا ء ( یعنی سینگ ٹوٹے کان کٹے جانور) کی قربانی سے منع فرمایا ہے ۔
2806- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ قَتَادَةَ قَالَ: قُلْتُ لِسَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ: مَاالأَعْضَبُ؟ قَالَ: النِّصْفُ فَمَا فَوْقَهُ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۷۲۱) (صحیح)
۲۸۰۶- قتادہ کہتے ہیں: میں نے سعید بن مسیب سے پوچھا: اعضب ( یا عضباء ) کیا ہے؟ انہوں نے کہا: (جس کی سینگ یا کان) آدھا یا آدھے سے زیادہ ٹوٹا یا کٹا ہوا ہو۔