• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابو داود

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
181- بَاب فِي حَمْلِ السِّلاحِ إِلَى أَرْضِ الْعَدُوِّ
۱۸۱-باب: دشمن کے ملک میں ہتھیار جانے دینے کا بیان​


2786- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، أَخْبَرَنِي أَبِي، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ ذِي الْجَوْشَنِ -رَجُلٍ مِنَ الضِّبَابِ- قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ بَعْدَ أَنْ فَرَغَ مِنْ أَهْلِ بَدْرٍ بِابْنِ فَرَسٍ لِي يُقَالُ لَهَا الْقَرْحَاءُ فَقُلْتُ: يَا مُحَمَّدُ! إِنِّي قَدْ جِئْتُكَ بِابْنِ الْقَرْحَاءِ لِتَتَّخِذَهُ، قَالَ: <لا حَاجَةَ لِي فِيهِ، وَإِنْ شِئْتَ أَنْ أَقِيضَكَ بِهِ الْمُخْتَارَةَ مِنْ دُرُوعِ بَدْرٍ فَعَلْتُ >، قُلْتُ: مَا كُنْتُ أَقِيضُهُ الْيَوْمَ بِغُرَّةٍ، قَالَ: < فَلا حَاجَةَ لِي فِيهِ >۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۳۵۴۵)، وقد أخرجہ: حم (۳/۴۸۴) (ضعیف)
(ابواسحاق اورذی الجوشن کے درمیان سند میں انقطاع ہے)
۲۷۸۶- ذوالجوشن ابوشمرضبابی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کے اہل بدر سے فارغ ہونے کے بعد آپ کے پاس اپنے قرحاء نامی گھوڑے کا بچھڑا لے کر آیا، اور میں نے کہا: محمد! میں آپ کے پاس قرحا کا بچہ لے کر آیا ہوں تا کہ آپ اسے اپنے استعمال میں رکھیں، آپ ﷺ نے فرمایا: '' مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے، البتہ اگر تم بدر کی زر ہوں میں سے ایک زرہ اس کے بدلے میں لینا چاہو تو میں اسے لے لوں گا''، میں نے کہا: آج کے دن تو میں اس کے بدلے گھوڑا بھی نہ لوں گا، آپ ﷺ نے فرمایا: '' تو پھر مجھے بھی اس کی حاجت نہیں'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ذی الجوشن اس وقت مسلمان نہ تھے کافروں کے ملک میں رہتے تھے اس کے باوجود آپ ﷺ نے انہیں زرہ دینا منظور کیا اور مفت میں کسی مشرک کا تعاون گوارہ نہیں کیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
182- بَاب فِي الإِقَامَةِ بِأَرْضِ الشِّرْكِ
۱۸۲-باب: شرک کی سر زمین میں رہائش اختیار کرنا کیسا ہے؟​


2787- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ دَاوُدَ بْنِ سُفْيَانَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَسَّانَ، أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ مُوسَى أَبُودَاوُدَ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سَعْدِ بْنِ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ، حَدَّثَنِي خُبَيْبُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ أَبِيهِ سُلَيْمَانَ بْنِ سَمُرَةَ، عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ أَمَّا بَعْدُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < مَنْ جَامَعَ الْمُشْرِكَ وَسَكَنَ مَعَهُ فَإِنَّهُ مِثْلُهُ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۴۶۲۱)، وقد أخرجہ: ت/السیر ۴۲ (۱۶۰۵) (حسن لغیرہ)
(سند میں متعدد ضعیف ہیں لیکن دوسرے طریق جس کی تخریج حاکم نے کی ہے سے تقویت پاکر یہ حسن ہے(المستدرک ۱/۱۴۱-۱۴۲) ( ملاحظہ ہو الصحیحۃ: ۲۳۳۰)
۲۷۸۷- سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : أما بعد ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جو شخص مشرک کے ساتھ میل جول رکھے اور اس کے ساتھ رہے تو وہ اسی کے مثل ہے '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یہ آپ ﷺ نے تغلیظا اور تشدیدا فرمایا تا کہ آدمی مشرک کی صحبت سے بچے یا مراد یہ ہے کہ جب اس کے ساتھ رہے گا تو اسی کی طرح ہو جائے گا کیونکہ صحبت کا اثر یقینی طور پر پڑتا ہے۔


* * * * *​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
{ 10- كِتَاب الضَّحَايَا }
۱۰-کتاب: قربانی کے احکام و مسائل

1- بَاب مَا جَاءَ فِي إِيجَابِ الأَضَاحِيِّ
۱-باب: قربانی کے وجو ب کا بیان​


2788- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ (ح) وَحَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ، حَدَّثَنَا بِشْرٌ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ ابْنِ عَوْنٍ، عَنْ عَامِرٍ أَبِي رَمْلَةَ قَالَ: أَخْبَرَنَا مِخْنَفُ بْنُ سُلَيْمٍ قَالَ: وَنَحْنُ وُقُوفٌ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بِعَرَفَاتٍ قَالَ: < يَا أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّ عَلَى كُلِّ أَهْلِ بَيْتٍ فِي كُلِّ عَامٍ أُضْحِيَّةً وَعَتِيرَةً، أَتَدْرُونَ مَا الْعَتِيرَةُ؟ هَذِهِ الَّتِي يَقُولُ النَّاسُ الرَّجَبِيَّةُ >.
[قَالَ أَبو دَاود: الْعَتِيرَةُ مَنْسُوخَةٌ، هَذَا خَبَرٌ مَنْسُوخٌ]۔
* تخريج: ت/الأضاحي ۱۹(۱۵۱۸)، ن/الفرع والعتیرۃ ۱(۴۲۲۹)، ق/الأضاحي۲ (۳۱۲۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۲۴۴)، وقد أخرجہ: حم (۴/۲۱۵، ۵/۷۶) (حسن)
۲۷۸۸- مخنف بن سلیم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم( حجۃ الوداع کے موقع پر) رسول اللہ ﷺ کے ساتھ عرفات میں ٹھہرے ہوئے تھے، آپ ﷺ نے فرمایا: '' لوگو!( سن لو ) ہر سال ہر گھر والے پر قربانی اور عتیرہ ہے ۱؎ کیا تم جانتے ہو کہ عتیرہ کیا ہے؟ یہ وہی ہے جس کو لوگ رجبیہ کہتے ہیں''۔
ابوداود کہتے ہیں:عتیرہ منسوخ ہے یہ ایک منسوخ حدیث ہے۔
وضاحت ۱؎ : عتیرہ وہ ذبیحہ ہے جو اوائل اسلام میں رجب کے پہلے عشرہ میں ذبح کیا جاتا تھا ، اسی کا دوسرا نام رجبیہ بھی تھا، بعد میں عتیرہ منسوخ ہوگیا۔


2789- حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ يَزِيدَ، حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي أَيُّوبَ، حَدَّثَنِي عَيَّاشُ بْنُ عَبَّاسٍ الْقِتْبَانِيُّ، عَنْ عِيسَى بْنِ هِلالٍ الصَّدَفِيِّ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: < أُمِرْتُ بِيَوْمِ الأَضْحَى عِيدًا جَعَلَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لِهَذِهِ الأُمَّةِ >، قَالَ الرَّجُلُ: أَرَأَيْتَ إِنْ لَمْ أَجِدْ إِلا منيحةً أُنْثَى أَفَأُضَحِّي بِهَا؟ قَالَ: < لا، وَلَكِنْ تَأْخُذُ مِنْ شَعْرِكَ وَأَظْفَارِكَ، وَتَقُصُّ شَارِبَكَ، وَتَحْلِقُ عَانَتَكَ، فَتِلْكَ تَمَامُ أُضْحِيَّتِكَ عِنْدَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ >۔
* تخريج: ن/الضحایا ۱ (۴۳۷۰)، (تحفۃ الأشراف: ۸۹۰۹)، وقد أخرجہ: حم (۲/۱۶۹) (حسن)
(البانی کے نزدیک یہ حدیث ''عیسیٰ'' کے مجہول ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے، جبکہ عیسیٰ بتحقیق ابن حجر صدوق ہیں، اور اسی وجہ سے شیخ مساعد بن سلیمان الراشد نے احکام العیدین للفریابی کی تحقیق وتخریج میں اسے حسن قرار دیا ہے، نیز ملاحظہ ہو: ضعیف ابی داود: ۲؍ ۳۷۰)
۲۷۸۹- عبداللہ بن عمر و بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ''اضحی کے دن (دسویں ذی الحجہ کو) مجھے عید منانے کا حکم دیا گیا ہے جسے اللہ عزو جل نے اس امت کے لئے مقرر و متعین فرمایا ہے''، ایک شخص کہنے لگا: بتائیے اگر میں بجز مادہ اونٹنی یا بکری کے کوئی اور چیز نہ پاؤں تو کیا اسی کی قربانی کردوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ''نہیں ، تم اپنے بال کترلو، ناخن تراش لو، مونچھ کتر لو، اور زیر ناف کے بال لے لو ، اللہ عزو جل کے نز دیک (ثواب میں ) بس یہی تمہاری پوری قربانی ہے''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
2- بَاب الأُضْحِيَّةِ عَنِ الْمَيِّتِ
۲-باب: مردے کی طرف سے قربانی کا بیان​


2790- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنْ أَبِي الْحَسْنَاءِ، عَنِ الْحَكَمِ، عَنْ حَنَشٍ قَالَ: رَأَيْتُ عَلِيًّا يُضَحِّي بِكَبْشَيْنِ، فَقُلْتُ [لَهُ]: مَا هَذَا؟ فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ أَوْصَانِي أَنْ أُضَحِّيَ عَنْهُ، فَأَنَا أُضَحِّي عَنْهُ۔
* تخريج: ت/الأضاحي ۳ (۱۴۹۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۰۷۲)، وقد أخرجہ: حم (۱/۱۰۷، ۱۴۹، ۱۵۰) (ضعیف)
(اس کے راوی ''ابوالحسناء'' مجہول ہیں ، نیز ''حنش'' کے بارے میں بھی اختلاف ہے)
۲۷۹۰- حنش کہتے ہیں کہ میں نے علی رضی اللہ عنہ کو دو دنبے قربانی کرتے دیکھا تو میں نے ان سے پوچھا: یہ کیا ہے؟ (یعنی قربانی میں ایک دنبہ کفایت کرتا ہے آپ دو کیوں کرتے ہیں) تو انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے مجھے وصیت فرمائی ہے کہ میں آپ کی طرف سے قربانی کیا کروں ، تو میں آپ کی طر ف سے(بھی) قربانی کرتا ہوں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
3- بَاب الرَّجُلِ يَأْخُذُ مِنْ شَعْرِهِ فِي الْعَشْرِ وَهُوَ يُرِيدُ أَنْ يُضَحِّيَ
۳-باب: قربانی کا ارادہ کرنے والا ذی الحجہ کے پہلے عشرہ میں بال نہ کاٹے​


2791- حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مُسْلِمٍ اللَّيْثِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ [سَعِيدَ] بْنَ الْمُسَيِّبِ يَقُولُ: سَمِعْتُ أُمَّ سَلَمَةَ تَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < مَنْ كَانَ لَهُ ذِبْحٌ يَذْبَحُهُ فَإِذَا أَهَلَّ هِلالُ ذِي الْحِجَّةِ فَلا يَأْخُذَنَّ مِنْ شَعْرِهِ وَلا مِنْ أَظْفَارِهِ شَيْئًا حَتَّى يُضَحِّيَ >.
[قَالَ أَبو دَاود: اخْتَلَفُوا عَلَى مَالِكٍ وَعَلَى مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، فِي عَمْرِو بْنِ مُسْلِمٍ، قَالَ بَعْضُهُمْ: عُمَرُ، وَأَكْثَرُهُمْ قَالَ: عَمْرٌو.
قَالَ أَبو دَاود: وَهُوَ عَمْرُو بْنُ مُسْلِمِ بْنِ أُكَيْمَةَ اللَّيْثِيُّ الْجُنْدُعِيُّ]۔
* تخريج: م/الأضاحي ۳ (۱۹۷۷)، ت/الأضاحي ۲۴ (۱۵۲۳)، ن/الضحایا ۱ (۴۳۶۶)، ق/الأضاحي ۱۱ (۳۱۴۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۱۵۲)، وقد أخرجہ: حم (۶/۲۸۹، ۳۰۱، ۳۱۱)، دي/الأضاحي ۲ (۱۹۹۰) (حسن صحیح)
۲۷۹۱- ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جس کے پاس قربانی کا جانور ہو اور وہ اسے عید کے روز ذبح کرنے کا ارادہ رکھتا ہو تو جب عید کا چاند نکل آئے تو اپنے بال اور ناخن نہ کترے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : جمہور کے نزدیک یہ حکم مستحب ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
4- بَاب مَا يُسْتَحَبُّ مِنَ الضَّحَايَا ؟
۴-باب: کس قسم کا جانور قربانی میں بہتر ہوتا ہے ؟​


2792- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي حَيْوَةُ، حَدَّثَنِي أَبُوصَخْرٍ، عَنِ ابْنِ قُسَيْطٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ أَمَرَ بِكَبْشٍ أَقْرَنَ يَطَأُ فِي سَوَادٍ وَيَنْظُرُ فِي سَوَادٍ وَيَبْرُكُ فِي سَوَادٍ، فَأُتِيَ بِهِ، فَضَحَّى بِهِ فَقَالَ: < يَا عَائِشَةُ، هَلُمِّي الْمُدْيَةَ > ثُمَّ قَالَ: < اشْحَذِيهَا بِحَجَرٍ > فَفَعَلَتْ، فَأَخَذَهَا وَأَخَذَ الْكَبْشَ فَأَضْجَعَهُ وَذَبَحَهُ، وَقَالَ: < بِسْمِ اللَّهِ، اللَّهُمَّ تَقَبَّلْ مِنْ مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَمِنْ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ > ثُمَّ ضَحَّى بِهِ ﷺ ۔
* تخريج: م/الأضاحي ۳ (۱۹۶۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۳۶۳)، وقد أخرجہ: حم (۶/۷۸) (حسن)
۲۷۹۲- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے سینگ دار مینڈھا لانے کا حکم دیا جس کی آنکھ سیاہ ہو ، سینہ ، پیٹ اور پائوں بھی سیاہ ہوں، پھر اس کی قربانی کی، آپ ﷺ نے فرمایا : ''عائشہ چھری لاؤ''، پھر فرمایا :''اسے پتھر پر تیز کرو''، تو میں نے چھری تیز کی، آپ ﷺ نے اسے ہاتھ میں لیا اور مینڈھے کو پکڑ کر لٹایا اور ذبح کرنے کا ارادہ کیا اور کہا: ''بِسْمِ اللَّهِ، اللَّهُمَّ تَقَبَّلْ مِنْ مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَمِنْ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ'' (اللہ کے نام سے ذبح کرتا ہوں ، اے اللہ! محمد، آل محمد اور امت محمد کی جانب سے اسے قبول فرما) پھر آپ ﷺ نے اس کی قربانی کی۔


2793- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا وَهْبٌ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلابَةَ، عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ نَحَرَ سَبْعَ بَدَنَاتٍ بِيَدِهِ قِيَامًا، وَضَحَّى بِالْمَدِينَةِ بِكَبْشَيْنِ أَقْرَنَيْنِ أَمْلَحَيْنِ۔
* تخريج: خ/الحج ۲۴ (۱۵۴۷)، ۲۵ (۱۵۴۸)، ۲۷ (۱۵۵۱)، ۱۱۹ (۱۷۱۵)، الجہاد ۱۰۴ (۲۹۵۱)، ۱۲۶ (۲۹۸۶)، م/صلاۃ المسافرین ۱ (۶۹۰)، ن/الضحایا ۱۳ (۴۳۹۲)، وقد مضی ہذا الحدیث برقم (۱۷۹۶)، ( تحفۃ الأشراف: ۹۴۷) (صحیح)
۲۷۹۳- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے اپنے ہاتھ سے سات اونٹ کھڑے کر کے نحر کئے اور مدینہ میں دو سینگ دار مینڈھوں کی قربانی کی جن کا رنگ سیاہ اور سفید تھا (یعنی ابلق تھے سفید کھال کے اندرسیاہ دھاریاں تھیں)۔


2794- حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ ضَحَّى بِكَبْشَيْنِ أَقْرَنَيْنِ أَمْلَحَيْنِ، يَذْبَحُ وَيُكَبِّرُ وَيُسَمِّي وَيَضَعُ رِجْلَهُ عَلَى صَفْحَتِهِمَا۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۶۴) (صحیح)
۲۷۹۴- انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے سینگ دار ابلق دنبوں کی قربانی کی، اپنا دایاں پاؤں ان کی گردن پر رکھ کر ''بسم الله، الله أكبر'' کہہ کر انہیں ذبح کر رہے تھے۔


2795- حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى الرَّازِيُّ، حَدَّثَنَا عِيسَى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ أَبِي عَيَّاشٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ قَالَ: ذَبَحَ النَّبِيُّ ﷺ يَوْمَ الذَّبْحِ كَبْشَيْنِ أَقْرَنَيْنِ أَمْلَحَيْنِ مُوجَأَيْنِ فَلَمَّا وَجَّهَهُمَا قَالَ: < إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضَ، عَلَى مِلَّةِ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا، وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ، إِنَّ صَلاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ، لاشَرِيكَ لَهُ، وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِينَ، اللَّهُمَّ مِنْكَ وَلَكَ وَعَنْ مُحَمَّدٍ وَأُمَّتِهِ، بِاسْمِ اللَّهِ وَاللَّهُ أَكْبَرُ > ثُمَّ ذَبَحَ۔
* تخريج: ق/الأضاحي ۱ (۳۱۲۱)، (تحفۃ الأشراف: ۳۱۶۶)، وقد أخرجہ: ت/الأضاحي ۲۲ (۱۵۲۱)، حم (۳/۳۵۶، ۳۶۲، ۳۷۵)، دي/الأضاحي ۱ (۱۹۸۹) (حسن)
(اس کے راوی ''ابوعیاش مصری'' مجہول، لین الحدیث ہیں، لیکن تابعی ہیں، اور تین ثقہ راویوں نے ان سے روایت کی ہے، نیز حدیث کی تصحیح ابن خزیمہ، حاکم، اور ذھبی نے کی ہے، البانی نے پہلے اسے ضعیف ابی داود میں رکھا تھا، پھر تحسین کے بعد اسے صحیح ابی داود میں داخل کیا ) (۸؍ ۱۴۲)
۲۷۹۵- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے قر بانی کے دن سینگ دار ابلق خصی کئے ہوئے دو دنبے ذبح کئے، جب انہیں قبلہ رخ کیا تو آپ ﷺ نے یہ دعا پڑھی : ''إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضَ، عَلَى مِلَّةِ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا، وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ، إِنَّ صَلاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ، لا شَرِيكَ لَهُ، وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِينَ، اللَّهُمَّ مِنْكَ وَلَكَ وَعَنْ مُحَمَّدٍ وَأُمَّتِهِ، بِاسْمِ اللَّهِ وَاللَّهُ أَكْبَرُ'' ( میں اپنا رخ اس ذات کی طرف کرتا ہوں جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، میں ابراہیم کے دین پر ہوں ،کامل موحد ہوں ، مشرکوں میں سے نہیں ہوں بیشک میری صلاۃ میری تمام عبادتیں ، میرا جینا اور میرا مرنا خالص اس اللہ کے لئے ہے جو سارے جہان کا رب ہے ، کوئی اس کا شریک نہیں، مجھے اسی کا حکم دیا گیا ہے، اور میں مسلمانوں میں سے ہوں، اے اللہ! یہ قربانی تیری ہی عطا ہے، اور خاص تیری رضا کے لئے ہے، محمد اور اس کی امت کی طرف سے اسے قبول کر،(بسم اللہ واللہ اکبر) اللہ کے نام کے ساتھ، اور اللہ بہت بڑا ہے) پھر ذبح کیا۔


2796- حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ، حَدَّثَنَا حَفْصٌ، عَنْ جَعْفَرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يُضَحِّي بِكَبْشٍ أَقْرَنَ فَحِيلٍ يَنْظُرُ فِي سَوَادٍ وَيَأْكُلُ فِي سَوَادٍ وَيَمْشِي فِي سَوَادٍ۔
* تخريج: ت/الأضاحي ۴ (۱۴۹۶)، ن/الضحایا ۱۳ (۴۳۹۵)، ق/الأضاحي ۴ (۳۱۲۸)، (تحفۃ الأشراف: ۴۲۹۷) (صحیح)
۲۷۹۶- ابو سعید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سینگ دار فربہ دنبہ کی قربانی کرتے تھے جو دیکھتا تھا سیاہی میں اورکھاتا تھا سیاہی میں اور چلتا تھا سیاہی میں (یعنی آنکھ کے اردگرد)، نیز منہ اور پاؤں سب سیاہ تھے۔
 
  • پسند
Reactions: Dua

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
5- بَاب مَا يَجُوزُ مِنَ السِّنِّ فِي الضَّحَايَا ؟
۵-باب: کس عمرکے جانور کی قربانی جائز ہے؟​


2797- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ أَبِي شُعَيْبٍ الْحَرَّانِيُّ، حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ مُعَاوِيَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < لا تَذْبَحُوا إِلا مُسِنَّةً، إِلا أَنْ يَعْسُرَ عَلَيْكُمْ فَتَذْبَحُوا جَذَعَةً مِنَ الضَّأْنِ >۔
* تخريج: م/الأضاحي ۲ (۱۹۶۲)، ن/الضحایا ۱۲ (۴۳۸۳)، ق/الأضاحي ۷ (۳۱۴۱)، (تحفۃ الأشراف: ۲۷۱۵)، وقد أخرجہ: حم (۳/۳۱۲، ۳۲۷) (صحیح)
(اس حدیث پر مزید بحث کے لئے ملاحظہ ہو: ضعیف أبي داود ۲/۳۷۴، والضعیفہ ۶۵، والإرواء ۱۱۴۵، وفتح الباري ۱۰/۱۵)
۲۷۹۷- جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''صرف مسنہ ۱؎ ہی ذبح کرو، مسنہ نہ پائو تو بھیڑ کا جذعہ ذبح کرو''۔
وضاحت ۱؎ : مسنّہ وہ جانور جس کے دودھ کے دانت ٹوٹ چکے ہوں ، یہ اونٹ میں عموما اس وقت ہوتا ہے جب وہ پانچ برس پورے کر کے چھٹے میں داخل ہو گیا ہو، گائے بیل اور بھینس جب وہ دو برس پورے کرکے تیسرے میں داخل ہو جائیں، بکری اور بھیڑ میں جب ایک برس پورا کرکے دوسرے میں داخل ہو جائیں، جذعہ اس دنبہ یا بھیڑ کو کہتے ہیں جو سال بھر کا ہو چکا ہو، اہل لغت اور شارحین میں محققین کا یہی قول صحیح ہے، (دیکھئے مرعاۃ شرح مشکاۃ)


2798- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ صُدْرَانَ، حَدَّثَنَا عَبْدُالأَعْلَى بْنُ عَبْدِالأَعْلَى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ، حَدَّثَنِي عُمَارَةُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ طُعْمَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ قَالَ: قَسَمَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فِي أَصْحَابِهِ ضَحَايَا، فَأَعْطَانِي عَتُودًا جَذَعًا، قَالَ: فَرَجَعْتُ بِهِ إِلَيْهِ فَقُلْتُ [لَهُ]: إِنَّهُ جَذَعٌ، قَالَ: < ضَحِّ بِهِ > فَضَحَّيْتُ بِهِ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۳۷۵۱)، وقد أخرجہ: خ/الوکالۃ ۱ (۲۳۰۰)، والشرکۃ ۱۲ (۲۵۰۰)، والأضاحي ۲، (۵۵۴۷) ۷ (۵۵۵۵)، م/الأضاحي ۲ (۱۹۶۵)، ت/الأضاحي ۷ (۱۵۰۰)، ن/الضحایا ۱۲ (۴۳۸۴)، ق/الأضاحي ۷ (۳۱۳۸)، حم (۴/۱۴۹، ۱۵۲، ۵/۱۹۴)، دي/الأضاحي ۴ (۱۹۹۶)، کلھم عن عقبۃ بن عامر رضي اللہ عنہ (حسن صحیح)
۲۷۹۸- زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام میں قربانی کے جانور تقسیم کئے تو مجھ کو ایک بکری کا بچہ جو جذع تھا ( یعنی دوسرے سال میں داخل ہو چکا تھا ) دیا ، میں اس کو لوٹا کر آپ کے پاس لایا اور میں نے کہا کہ یہ جذع ہے ، آپ ﷺ نے فرمایا: ''اس کی قربانی کر ڈالو''، تو میں نے اسی کی قربانی کر ڈالی۔


2799- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، حَدَّثَنَا الثَّوْرِيُّ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: كُنَّا مَعَ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ يُقَالُ لَهُ مُجَاشِعٌ مِنْ بَنِي سُلَيْمٍ، فَعَزَّتِ الْغَنَمُ فَأَمَرَ مُنَادِيًا فَنَادَى: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ كَانَ يَقُولُ: < إِنَّ الْجَذَعَ يُوَفِّي مِمَّا يُوَفِّي مِنْهُ الثَّنِيُّ >.
[ قَالَ أَبودَاود: وَهُوَ مُجَاشِعُ بْنُ مَسْعُودٍ ]۔
* تخريج: ن/الضحایا ۱۲(۴۳۸۹)، ق/الأضاحي ۷ (۳۱۴۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۲۱۱)، وقد أخرجہ: حم (۵/۳۶۸) (صحیح)
۲۷۹۹- کلیب کہتے ہیں کہ ہم مجاشع نامی بنی سلیم کے ایک صحابی رسول کے ساتھ تھے اس وقت بکریاں مہنگی ہوگئیں تو انہوں نے منادی کو حکم دیا کہ وہ اعلان کر دے کہ رسول اللہ ﷺ فر ماتے تھے: ''جذع (ایک سالہ )اس چیز سے کفایت کرتا ہے جس سے ثنی ( وہ جانور جس کے سامنے کے دانت گر گئے ہوں) کفایت کرتا ہے ''۔
ابو داود کہتے ہیں:یہ مجاشع بن مسعود رضی اللہ عنہ تھے۔


2800- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ، حَدَّثَنَا مَنْصُورٌ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنِ الْبَرَاءِ قَالَ: خَطَبَنَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَوْمَ النَّحْرِ بَعْدَ الصَّلاةِ فَقَالَ: < مَنْ صَلَّى صَلاتَنَا وَنَسَكَ نُسُكَنَا فَقَدْ أَصَابَ النُّسُكَ، وَمَنْ نَسَكَ قَبْلَ الصَّلاةِ فَتِلْكَ شَاةُ لَحْمٍ > فَقَامَ أَبُوبُرْدَةَ بْنُ نِيَارٍ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! وَاللَّهِ لَقَدْ نَسَكْتُ قَبْلَ أَنْ أَخْرُجَ إِلَى الصَّلاةِ، وَعَرَفْتُ أَنَّ الْيَوْمَ يَوْمُ أَكْلٍ وَشُرْبٍ، فَتَعَجَّلْتُ فَأَكَلْتُ وَأَطْعَمْتُ أَهْلِي وَجِيرَانِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < تِلْكَ شَاةُ لَحْمٍ >، فَقَالَ: إِنَّ عِنْدِي عَنَاقًا جَذَعَةً وَهِيَ خَيْرٌ مِنْ شَاتَيْ لَحْمٍ، فَهَلْ تُجْزِءُ عَنِّي؟ قَالَ: < نَعَمْ وَلَنْ تُجْزِءَ عَنْ أَحَدٍ بَعْدَكَ >۔
* تخريج: خ/العیدین ۳ (۹۵۱)، ۵ (۹۵۵)، ۸ (۹۷۵)، ۱۰ (۹۶۸)، ۱۷ (۹۷۶)، ۲۳ (۹۸۳)، الأضاحي ۱ (۵۵۴۵) (۵۵۵۶)، ۸ (۵۵۵۷)، ۱۱ (۵۵۵۷)، ۱۲ (۵۵۶۳)، الأیمان والنذور ۱۵ (۶۶۷۳)، م/الأضاحي ۱ (۱۹۶۱)، ت/الأضاحي ۱۲ (۱۵۰۸)، ن/العیدین ۸ (۱۵۶۴)، الضحایا ۱۶ (۴۴۰۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۶۹)، وقد أخرجہ: حم (۴/۲۸۰، ۲۹۷، ۳۰۲، ۳۰۳)، دي/الأضاحي ۷ (۲۰۰۵) (صحیح)
۲۸۰۰- براء بن عازب رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے دسویں ذی الحجہ کو صلاۃِ عید کے بعد ہمیں خطبہ دیا اور فرمایا: ''جس نے ہماری صلاۃ کی طرح صلاۃ پڑھی، اور ہماری قربانی کی طرح قربانی کی، تو اس نے قربانی کی ( یعنی اس کو قربانی کا ثواب ملا) اور جس نے صلاۃِ عید سے پہلے قربانی کر لی تو وہ گوشت کی بکری ۱؎ ہو گی ''، یہ سن کر ابو بردہ بن نیار رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہوکر عرض کیا : اللہ کے رسول! میں نے تو صلاۃ کے لئے نکلنے سے پہلے قربانی کر ڈالی اور میں نے یہ سمجھا کہ یہ دن کھانے اور پینے کا دن ہے، تو میں نے جلدی کی، میں نے خود کھایا، اور اپنے اہل و عیال اور ہمسایوں کو بھی کھلایا ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''یہ گوشت کی بکری ہے'' ۲؎ ، تو انہوں نے کہا:میرے پاس ایک سالہ جوان بکری اور وہ گوشت کی دو بکریوں سے بہتر ہے، کیا وہ میری طرف سے کفایت کرے گی؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ''ہاں، لیکن تمہارے بعد کسی کے لئے کافی نہ ہوگی ( یعنی یہ حکم تمہارے لئے خاص ہے)''۔
وضاحت ۱؎ : یعنی یہ قربانی شمار نہیں ہوگی اور نہ ہی اُسے قربانی کا ثواب ملے گا اس سے صرف گوشت حاصل ہوگا جسے وہ کھا سکتا ہے۔
وضاحت ۲؎ : یعنی اس سے تمہیں صرف گوشت حاصل ہوا قربانی کا ثواب نہیں۔


2801- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ، عَنْ مُطَرِّفٍ، عَنْ عَامِرٍ، عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ: ضَحَّى خَالٌ لِي -يُقَالُ لَهُ: أَبُو بُرْدَةَ- قَبْلَ الصَّلاةِ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < شَاتُكَ شَاةُ لَحْمٍ > فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنَّ عِنْدِي دَاجِنًا جَذَعَةً مِنَ الْمَعْزِ، فَقَالَ: < اذْبَحْهَا وَلا تَصْلُحُ لِغَيْرِكَ >۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۶۹) (صحیح)
۲۸۰۱- براء بن عازب رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میرے ابو بردہ نامی ایک ماموں نے صلاۃ سے پہلے قربانی کر لی تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا: ''یہ تمہاری بکری گوشت کی بکری ہوئی''، انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! میرے پاس بکریوں میں سے ایک پلی ہوئی جذعہ ہے؛ آپ ﷺ نے فرمایا: ''اسی کو ذبح کر ڈالو، لیکن تمہارے سوا اور کسی کے لئے ایسا کرنا درست نہیں''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
6- بَاب مَا يُكْرَهُ مِنَ الضَّحَايَا
۶-باب: قربانی میں کون سا جانور مکروہ ہے​


2802- حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ النَّمَرِيُّ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ فَيْرُوزَ قَالَ: سَأَلْتُ الْبَرَاءَ بْنَ عَازِبٍ: مَا لا يَجُوزُ فِي الأَضَاحِيِّ؟ فَقَالَ: قَامَ فِينَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ وَأَصَابِعِي أَقْصَرُ مِنْ أَصَابِعِهِ وَأَنَامِلِي أَقْصَرُ مِنْ أَنَامِلِهِ، فَقَالَ: < أَرْبَعٌ لا تَجُوزُ فِي الأَضَاحِيِّ > فَقَالَ: < الْعَوْرَاءُ بَيِّنٌ عَوَرُهَا، وَالْمَرِيضَةُ بَيِّنٌ مَرَضُهَا، وَالْعَرْجَاءُ بَيِّنٌ ظَلْعُهَا، وَالْكَسِيرُ الَّتِي لا تُنْقِى >، قَالَ: قُلْتُ: فَإِنِّي أَكْرَهُ أَنْ يَكُونَ فِي السِّنِّ نَقْصٌ قَالَ: مَا كَرِهْتَ فَدَعْهُ، وَلا تُحَرِّمْهُ عَلَى أَحَدٍ.
[قَالَ أَبو دَاود: لَيْسَ لَهَا مُخٌّ]۔
* تخريج: ت/الأضاحي ۵ (۱۴۹۷)، ن/الضحایا ۴ (۴۳۷۴)، ق/الأضاحي ۸ (۳۱۴۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۹۰)، وقد أخرجہ: ط/الضحایا ۱(۱)، حم (۴/۲۸۴، ۲۸۹، ۳۰۰، ۳۰۱)، دي/الأضاحي ۳ (۱۹۹۲) (صحیح)
۲۸۰۲- عبید بن فیروز کہتے ہیں کہ میں نے براء بن عازب رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ: کون سا جانور قربانی میں درست نہیں ہے؟ تو آپ نے کہا : رسول اللہ ﷺ ہمارے درمیان کھڑے ہوئے، میری انگلیاں آپ ﷺ کی انگلیوں سے چھوٹی ہیں اور میری پوریں آپ کی پوروں سے چھوٹی ہیں ، آپ ﷺ نے چارانگلیوں سے اشارہ کیا اور فرمایا: ''چار طرح کے جانور قربانی کے لائق نہیں ہیں، ایک کانا جس کا کاناپن بالکل ظاہر ہو، دوسرے بیمار جس کی بیماری بالکل ظاہر ہو، تیسرے لنگڑا جس کا لنگڑاپن بالکل واضح ہو ، اور چوتھے دبلا بوڑھا کمزور جانور جس کی ہڈیوں میں گودا نہ ہو'' ، میں نے کہا: مجھے قربانی کے لئے وہ جانور بھی برا لگتا ہے جس کے دانت میں نقص ہو ، آپ ﷺ نے فرمایا :'' جو تمہیں ناپسند ہواس کو چھوڑ دو لیکن کسی اور پر اس کو حرام نہ کرو''۔
ابو داود کہتے ہیں:( ''لا تُنْقِيْ'' کا مطلب یہ ہے کہ ) اس کی ہڈی میں گودا نہ ہو۔


2803- حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى الرَّازِيُّ قَالَ: أَخْبَرَنَا (ح) وَحَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ بَحْرِ [بْنِ بَرِيٍّ] حَدَّثَنَا عِيسَى [الْمَعْنَى] عَنْ ثَوْرٍ، حَدَّثَنِي أَبُو حُمَيْدٍ الرُّعَيْنِيُّ، أَخْبَرَنِي يَزِيدُ ذُو مِصْرَ قَالَ: أَتَيْتُ عُتْبَةَ بْنَ عَبْدٍ السُّلَمِيَّ فَقُلْتُ: يَا أَبَا الْوَلِيدِ! إِنِّي خَرَجْتُ أَلْتَمِسُ الضَّحَايَا فَلَمْ أَجِدْ شَيْئًا يُعْجِبُنِي غَيْرَ ثَرْمَاءَ فَكَرِهْتُهَا فَمَا تَقُولُ؟ قَالَ: أَفَلا جِئْتَنِي بِهَا، قُلْتُ: سُبْحَانَ اللَّهِ! تَجُوزُ عَنْكَ وَلا تَجُوزُ عَنِّي؟ قَالَ: نَعَمْ، إِنَّكَ تَشُكُّ وَلا أَشُكُّ، إِنَّمَا نَهَى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عَنِ الْمُصْفَرَّةِ وَالْمُسْتَأْصَلَةِ وَالْبَخْقَاءِ وَالْمُشَيَّعَةِ وَالْكَسْرَاء، وَالْمُصْفَرَّةُ: الَّتِي تُسْتَأْصَلُ أُذُنُهَا حَتَّى يَبْدُوَ سِمَاخُهَا، وَالْمُسْتَأْصَلَةُ: الَّتِي اسْتُؤْصِلَ قَرْنُهَا مِنْ أَصْلِهِ، وَالْبَخْقَاءُ: الَّتِي تُبْخَقُ عَيْنُهَا، وَالْمُشَيَّعَةُ: الَّتِي لا تَتْبَعُ الْغَنَمَ، عَجَفًا وَضَعْفًا، وَالْكَسْرَاءُ: الْكَسِيرَ[ةُ]۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۹۷۵۲)، وقد أخرجہ: حم (۴/۱۵۸) (ضعیف)
(اس کے راوی ''یزید ذومصر'' لین الحدیث ہیں)
۲۸۰۳- یزید ذومصر کہتے ہیں کہ میں عتبہ بن عبد سلمی کے پاس آیا اور ان سے کہا: ابو الولید! میں قربانی کے لئے جانور ڈھونڈھنے کے لئے نکلا تو مجھے سوائے ایک بکری کے جس کا ایک دانت گر چکا ہے کوئی جانور پسند نہ آیا ، تو میں نے اسے لینا اچھا نہیں سمجھا، اب آپ کیا کہتے ہیں؟ انہوں نے کہا: اس کو تم میرے لئے کیوں نہیں لے آئے ، میں نے کہا: سبحان اللہ! آپ کے لئے درست ہے اور میرے لئے درست نہیں ، انہوں نے کہا: ہاں تم کو شک ہے مجھے شک نہیں، رسول اللہ ﷺ نے بس ''مُصْفَرَّةٌ، مُسْتَأْصَلَةٌ، بَخْقَاْءُ، مُشَيَّعَةٌ، اور كَسْرَاْء'' سے منع کیا ہے ، ''مُصْفَرَّة'' وہ ہے جس کا کان اتنا کٹا ہو کہ کان کا سوراخ کھل گیا ہو، ''مُسْتَأْصَلَة'' وہ ہے جس کی سینگ جڑ سے اکھڑ گئی ہو، ''بَخْقَاْء'' وہ ہے جس کی آنکھ کی بینائی جاتی رہے اور آنکھ باقی ہو، اور ''مُشَيَّعَة'' وہ ہے جو لاغری اور ضعف کی وجہ سے بکریوں کے ساتھ نہ چل پاتی ہو بلکہ پیچھے رہ جاتی ہو ، ''كَسْرَاْءَ'' وہ ہے جس کا ہاتھ پائوں ٹوٹ گیا ہو ، (لہٰذا ان کے علاوہ باقی سب جانور درست ہیں ، پھر شک کیوں کرتے ہو)۔


2804- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ، عَنْ شُرَيْحِ بْنِ النُّعْمَانِ -وَكَانَ رَجُلَ صِدْقٍ- عَنْ عَلِيٍّ قَالَ: أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَنْ نَسْتَشْرِفَ الْعَيْنَ وَالأُذُنَيْنِ، وَلا نُضَحِّي بِعَوْرَاءَ، وَلا مُقَابَلَةٍ، وَلا مُدَابَرَةٍ، وَلا خَرْقَاءَ، وَلا شَرْقَاءَ، قَالَ زُهَيْرٌ: فَقُلْتُ لأَبِي إِسْحَاقَ: أَذَكَرَ عَضْبَاءَ؟ قَالَ: لا، قُلْتُ: فَمَا الْمُقَابَلَةُ؟ قَال: يُقْطَعُ طَرَفُ الأُذُنِ، قُلْتُ: فَمَا الْمُدَابَرَةُ؟ قَالَ: يُقْطَعُ مِنْ مُؤَخَّرِ الأُذُنِ، قُلْتُ: فَمَا الشَّرْقَاءُ؟ قَالَ: تُشَقُّ الأُذُنُ، قُلْتُ: فَمَا الْخَرْقَاءُ؟ قَالَ: تُخْرَقُ أُذُنُهَا لِلسِّمَةِ۔
* تخريج: ت/الأضاحي ۶ (۱۴۹۸)، ن/الضحایا ۸ (۴۳۷۷) ۸ (۴۳۷۸)، ۹ (۴۳۷۹)، ق/الأضاحي ۸ (۳۱۴۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۱۲۵)، وقد أخرجہ: حم (۱/۸۰، ۱۰۸، ۱۲۸، ۱۴۹)، دي/الأضاحي ۳ (۱۹۹۵) (ضعیف)
(اس کے راوی ''ابواسحاق'' مختلط اور مدلس ہیں ، نیز ''شریح'' سے ان کا سماع نہیں، اس لیے سند میں انقطاع بھی ہے، مگر ''مطلق کان، ناک دیکھ بھال کرلینے کا حکم '' صحیح ہے)
۲۸۰۴- علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم کو حکم دیا کہ قربانی کے جانور کی آنکھ اور کان خوب دیکھ لیں (کہ اس میں ایسا نقص نہ ہو جس کی وجہ سے قربانی درست نہ ہو )اور کانے جانور کی قربانی نہ کریں، اور نہ ''مُقَاْبَلَةً '' کی ، نہ ''مُدَابَرَةً''کی، نہ ''خَرْقَاْءَ ''کی اور نہ '' شَرْقَاْءَ'' کی۔
زہیر کہتے ہیں: میں نے ابو اسحاق سے پوچھا: کیا عضباء کا بھی ذکر کیا؟ تو انہوں نے کہا: نہیں (عضباء اس بکری کو کہتے ہیں جس کے کان کٹے ہوں اور سینگ ٹوٹے ہوں)۔
میں نے پوچھا '' مُقَاْبَلَة'' کے کیا معنی ہیں؟ کہا :جس کا کان اگلی طرف سے کٹا ہو، پھر میں نے کہا: ''مُدَابَرَة'' کے کیا معنی ہیں؟ کہا: جس کے کان پچھلی طرف سے کٹے ہوں، میں نے کہا: '' خَرْقَاْءَ'' کیا ہے؟ کہا: جس کے کان پھٹے ہوں (گولائی میں) میں نے کہا: ''شَرْقَاْءَ'' کیا ہے؟ کہا: جس بکری کے کان لمبائی میں چرے ہوئے ہوں (نشان کے لئے)۔


2805- حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا هِشَامُ [بْنُ أَبِي عَبْدِاللَّهِ الدَّسْتُوَائِيُّ، وَيُقَالُ لَهُ هِشَامُ بْنُ سَنْبَرٍ] عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ جُرَيِّ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ عَلِيٍّ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ نَهَى أَنْ يُضَحَّى بِعَضْبَاءِ الأُذُنِ وَالْقَرْنِ.
قَالَ أَبو دَاود: جُرَيٌّ سَدُوسِيٌّ [بَصْرِيٌّ] لَمْ يُحَدِّثْ عَنْهُ إِلا قَتَادَةُ۔
* تخريج: ت/الأضاحي ۹ (۱۵۰۴)، ن/الضحایا ۱۱ (۴۳۸۲)، ق/الأضاحي ۸ (۳۱۴۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۰۳۱)، وقد أخرجہ: حم (۱/۸۳، ۱۰۱، ۱۰۹، ۱۲۷، ۱۲۹، ۱۵۰) (ضعیف)
(اس کے راوی ''جری'' لین الحدیث ہیں)
۲۸۰۵- علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے عضبا ء ( یعنی سینگ ٹوٹے کان کٹے جانور) کی قربانی سے منع فرمایا ہے ۔


2806- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ قَتَادَةَ قَالَ: قُلْتُ لِسَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ: مَاالأَعْضَبُ؟ قَالَ: النِّصْفُ فَمَا فَوْقَهُ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۷۲۱) (صحیح)
۲۸۰۶- قتادہ کہتے ہیں: میں نے سعید بن مسیب سے پوچھا: اعضب ( یا عضباء ) کیا ہے؟ انہوں نے کہا: (جس کی سینگ یا کان) آدھا یا آدھے سے زیادہ ٹوٹا یا کٹا ہوا ہو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
7- بَاب فِي الْبَقَرِ وَالْجَزُورِ عَنْ كَمْ تُجْزِءُ
۷-باب: گائے بیل اور اونٹ کی قربانی کتنے آدمیوں کی طرف سے کفایت کرتی ہے؟​


2807- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْمَلِكِ، عَنْ عَطَائٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ قَالَ: كُنَّا نَتَمَتَّعُ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ نَذْبَحُ الْبَقَرَةَ عَنْ سَبْعَةٍ [وَالْجَزُورَ عَنْ سَبْعَةٍ] نَشْتَرِكُ فِيهَا۔
* تخريج: م/الحج ۶۲ (۱۳۱۸)، ن/الضحایا ۱۵ (۴۳۹۸)، (تحفۃ الأشراف: ۲۴۳۵)، وقد أخرجہ: ت/الحج ۶۶ (۹۰۴)، ط/الضحایا ۵ (۹) (صحیح)
۲۸۰۷- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں حج تمتع کرتے تو گائے سات آدمیوں کی طرف سے ذبح کرتے تھے، اور اونٹ بھی سات آدمیوں کی طرف سے، ہم سب اس میں شریک ہو جاتے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : سات افراد کی طرف سے اونٹ یا گائے ذبح کرنے کا یہ ضابطہ واصول ہدی کے جانوروں کے لئے ہے، قربانی میں اونٹ دس افراد کی طرف سے بھی جائز ہے، سنن ترمذی میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ہم سفر میں نبی اکرم ﷺ کے ساتھ تھے، قربانی کا وقت آگیا تو گائے میں ہم سات آدمی شریک ہوئے، اور اونٹ میں دس آدمی، یہ روایت سنن نسائی اور سنن ابن ماجہ میں بھی ہے۔


2808- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ قَيْسٍ، عَنْ عَطَائٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: < الْبَقَرَةُ عَنْ سَبْعَةٍ، وَالْجَزُورُ عَنْ سَبْعَةٍ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۲۴۷۴)، وقد أخرجہ: حم (۳/۳۶۳) (صحیح)
۲۸۰۸- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:''گائے سات کی طرف سے کفایت کرتی ہے اور اونٹ بھی سات کی طرف سے''۔


2809- حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ الْمَكِّيِّ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ أَنَّهُ قَالَ: نَحَرْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بِالْحُدَيْبِيَّةِ الْبَدَنَةَ عَنْ سَبْعَةٍ، وَالْبَقَرَةَ عَنْ سَبْعَةٍ۔
* تخريج: م/ المناسک ۶۲ (۱۳۱۸)، ت/ الحج ۶۶ (۹۰۴)، الأضاحی ۸ (۱۵۰۲)، ق/ الأضاحی ۵ (۳۱۳۲)، (تحفۃ الأشراف: ۲۹۳۳)، وقد أخرجہ: حم (۳/۲۹۳) (صحیح)
۲۸۰۹- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم نے حدیبیہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سات آدمیوں کی طرف سے اونٹ نحر کئے ، اور گائے بھی سات آدمیوں کی طرف سے ذبح کی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
8- بَاب فِي الشَّاةِ يُضَحَّى بِهَا عَنْ جَمَاعَةٍ
۸-باب: ایک بکری کی قربانی کئی آدمیوں کی طرف سے کافی ہے​


2810- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ -يَعْنِي الإِسْكَنْدَرَانِيَّ- عَنْ عَمْرٍو، عَنِ الْمُطَّلِبِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ قَالَ: شَهِدْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ الأَضْحَى بِالْمُصَلَّى، فَلَمَّا قَضَى خُطْبَتَهُ نَزَلَ مِنْ مِنْبَرِهِ وَأُتِيَ بِكَبْشٍ فَذَبَحَهُ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بِيَدِهِ وَقَالَ: < بِسْمِ اللَّهِ وَاللَّهُ أَكْبَرُ، هَذَا عَنِّي وَعَمَّنْ لَمْ يُضَحِّ مِنْ أُمَّتِي >۔
* تخريج: ت/الأضاحي ۲۲ (۱۵۲۱)، ق/الأضاحي ۱ (۳۱۲۱)، (تحفۃ الأشراف: ۳۰۹۹)، وقد أخرجہ: دي/الأضاحي ۱ (۱۹۸۹)، حم (۳/۳۵۶، ۳۶۲) (صحیح)
۲۸۱۰- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں عیدالاضحی میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ عیدگاہ میں موجود تھا ، جب آپ ﷺ خطبہ دے چکے تو منبر سے اترے اور آپ کے پاس ایک مینڈھا لایا گیا، تو آپ ﷺ نے : ''بِسْمِ اللَّهِ وَاللَّهُ أَكْبَرُ، هَذَا عَنِّي وَعَمَّنْ لَمْ يُضَحِّ مِنْ أُمَّتِي'' (اللہ کے نام سے، اللہ سب سے بڑا ہے، یہ میری طرف سے اور میری امت کے ہر اس شخص کی طرف سے ہے جس نے قربانی نہیں کی ہے ۱؎ )کہہ کر اسے اپنے ہاتھ سے ذبح کیا۔
وضاحت ۱؎ : ا س جملے سے ثابت ہوا کہ مسلم کی جس روایت میں اجمال ہے (یعنی : یہ میری امت کی طرف سے ہے) اس سے مراد امت کے وہ زندہ لوگ ہیں جوعدم ِاستطاعت کے سبب اُس سال قربانی نہیں کرسکے تھے نہ کہ مردہ لوگ۔
 
Top