• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابو داود

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
19- بَاب مَا جَاءَ فِي أَكْلِ اللَّحْمِ لا يُدْرَى أَذُكِرَ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ أَمْ لا
۱۹-باب: جس گوشت کے بارے میں یہ نہ معلوم ہو کہ وہ ''بسم اللہ'' پڑھ کر ذبح کیا گیا ہے یا بغیر ''بسم اللہ'' کے، اس کے کھانے کا کیا حکم ہے؟​


2829- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ (ح) وَحَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ (ح) وَحَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَيَّانَ وَمُحَاضِرٌ -الْمَعْنَى- عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ - وَلَمْ يَذْكُرَا عَنْ حَمَّادٍ وَمَالِكٍ عَنْ عَائِشَةَ- أَنَّهُمْ قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنَّ قَوْمًا حَدِيثُو عَهْدٍ بِالْجَاهِلِيَّةِ يَأْتُونَ بِلُحْمَانٍ لا نَدْرِي أَذَكَرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهَا أَمْ لَمْ يَذْكُرُوا، أَفَنَأْكُلُ مِنْهَا؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < سَمُّوا [اللَّهَ] وَكُلُوا >.
* تخريج: خ/البیوع ۵ (۲۰۵۷)، الصید ۲۱ (۵۵۰۷)، التوحید ۱۳ (۷۳۹۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۹۵۰، ۱۷۱۸۱، ۱۹۰۲۹ )، وقد أخرجہ: ن/الضحایا ۳۸ (۴۴۴۱)، ق/الذبائح ۴ (۳۱۷۴)، ط/الأضاحي ۴ (۷)، والذبائح ۱ (۱)، دي/الأضاحي ۱۴ (۲۰۱۹) (صحیح)
۲۸۲۹- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کچھ لوگ ہیں جو جاہلیت سے نکل کر ابھی نئے نئے ایمان لائے ہیں، وہ ہمارے پاس گوشت لے کر آتے ہیں، ہم نہیں جانتے کہ ذبح کے وقت اللہ کا نام لیتے ہیں یا نہیں تو کیا ہم اس میں سے کھائیں؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:''بسم اللہ کہہ کر کھاؤ'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : مطلب یہ ہے کہ تم اہل اسلام کے سلسلے میں نیک گمان رکھو کہ انہوں نے اللہ کا نام لے کر ذبح کیا ہوگا، پھر بھی شک وشبہ کو دور کرنے کے لئے کھاتے وقت بسم اللہ کہہ لیا کرو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
20- بَاب فِي الْعَتِيرَةِ
۲۰-باب: عتیرہ(یعنی ماہ رجب کی قر بانی) کا بیان​


2830- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ (ح) وَحَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، عَنْ بِشْرِ بْنِ الْمُفَضَّلِ، الْمَعْنَى، حَدَّثَنَا خَالِدٌ الْحَذَّاءُ، عَنْ أَبِي قِلابَةَ، عَنْ أَبِي الْمَلِيحِ، قَالَ: قَالَ نُبَيْشَةُ: نَادَى رَجُلٌ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ : إِنَّا كُنَّا نَعْتِرُ عَتِيرَةً فِي الْجَاهِلِيَّةِ فِي رَجَبٍ، فَمَا تَأْمُرُنَا؟ قَالَ: <اذْبَحُوا لِلَّهِ فِي أَيِّ شَهْرٍ كَانَ، وَبَرُّوا اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ، وَأَطْعِمُوا >، قَالَ: إِنَّا كُنَّا نُفْرِعُ فَرَعًا فِي الْجَاهِلِيَّةِ، فَمَا تَأْمُرُنَا؟ قَالَ: < فِي كُلِّ سَائِمَةٍ فَرَعٌ تَغْذُوهُ مَاشِيَتَكَ حَتَّى إِذَا اسْتَحْمَلَ>، قَالَ نَصْرٌ: < اسْتَحْمَلَ لِلْحَجِيجِ ذَبَحْتَهُ فَتَصَدَّقْتَ بِلَحْمِهِ >، قَالَ خَالِدٌ: أَحْسَبَهُ قَالَ: < عَلَى ابْنِ السَّبِيلِ، فَإِنَّ ذَلِكَ خَيْرٌ >، قَالَ خَالِدٌ: قُلْتُ لأَبِي قِلابَةَ: كَمِ السَّائِمَةُ؟ قَالَ: مِائَةٌ۔
* تخريج: ن/الفرع والعتیرۃ ۱ (۴۲۳۳)، ق/الذبائح ۲ (۳۱۳۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۵۸۶)، وقد أخرجہ: حم (۵/۷۵، ۷۶) (صحیح)
۲۸۳۰- نبیشہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ کو پکار کر کہا: ہم جاہلیت میں رجب کے مہینے میں عتیرۃ (یعنی جانور ذبح) کیا کرتے تھے تو آپ ہم کو کیا حکم کرتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ''جس مہینے میں بھی ہو سکے اللہ کی رضا کے لئے ذبح کرو، اللہ کے لئے نیکی کرو، اور کھلائو'' ۔
پھر وہ کہنے لگا:ہم زمانہ جاہلیت میں فرع (یعنی قربانی) کرتے تھے، اب آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ''ہر چرنے والے جانور میں ایک فرع ہے، جس کو تمہارے جانور جنتے ہیں ، یا جسے تم اپنے جانوروں کی فرع کھلاتے ہو، جب اونٹ بوجھ لادنے کے قابل ہو جائے( نصر کی روایت میں ہے: جب حاجیوں کے لئے بو جھ لادنے کے قابل ہوجائے) تو اس کو ذبح کرو پھر اس کا گوشت صدقہ کرو- خالد کہتے ہیں: میرا خیال ہے انہوں نے کہا: مسافروں پرصدقہ کرو- یہ بہتر ہے ''۔
خالد کہتے ہیں: میں نے ابو قلابہ سے پوچھا: کتنے جانوروں میں ایسا کرے؟ انہوں نے کہا: سو جانوروں میں۔




2831- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: < لا فَرَعَ وَلا عَتِيرَةَ >۔
* تخريج: خ/العقیقۃ ۴ (۵۴۷۳)، م/الأضاحي ۶ (۱۹۷۶)، ت/الأضاحي ۱۵ (۱۵۱۲)، ن/الفرع والعتیرۃ (۴۲۲۷)، ق/الذبائح ۲ (۳۱۶۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۱۲۷)، وقد أخرجہ: حم (۲/۲۳۹، ۲۵۴، ۲۸۵)، دي/الأضاحي ۸ (۲۰۰۷) (صحیح)
۲۸۳۱- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ''(اسلام میں) نہ فرع ہے اور نہ عتیرہ '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : فرع زمانہ جاہلیت میں جس جانور کا پہلوٹہ بچہ پیدا ہوتا اس کو بتوں کے نام ذبح کرتے تھے، اور ابتدائے اسلام میں مسلمان بھی ایسا اللہ کے واسطے کرتے تھے پھر کفار سے مشابہت کی بنا پر اسے منسوخ کر دیا گیا، اور اس کام سے منع کر دیا گیا ، اور عتیرہ رجب کے پہلے عشرہ میں تقرب حاصل کرنے کے لئے زمانہ جاہلیت میں ذبح کرتے تھے، اور اسلام کے ابتداء میں مسلمان بھی ایسا کرتے تھے، کافر اپنے بتوں سے تقرب کے لئے اور مسلمان اللہ تعالی سے تقرب کے لئے کرتے تھے، پھر یہ دونوں منسوخ ہو گئے، اب نہ فرع ہے اور نہ عتیرہ ، بلکہ مسلمانوں کے لئے عیدالاضحی کے روز قربانی ہے۔
2832- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدٍ قَالَ: الْفَرَعُ أَوَّلُ النَّتَاجِ، كَانَ يُنْتَجُ لَهُمْ فَيَذْبَحُونَهُ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۸۳۳) (صحیح)
۲۸۳۲- سعید بن مسیب کہتے ہیں : فرع پہلوٹے بچے کو کہتے ہیں جس کی پیدائش پر اسے ذبح کر دیا کرتے تھے ۔


2833- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُثْمَانَ بْنِ خُثَيْمٍ، عَنْ يُوسُفَ بْنِ مَاهَكَ، عَنْ حَفْصَةَ بِنْتِ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ مِنْ كُلِّ خَمْسِينَ شَاةً شَاةٌ.
قَالَ أَبو دَاود: قَالَ بَعْضُهُمُ: الْفَرَعُ أَوَّلُ مَا تُنْتِجُ الإِبِلُ، كَانُوا يَذْبَحُونَهُ لِطَوَاغِيتِهِمْ، ثُمَّ يَأْكُلُونَهُ، وَيُلْقَى جِلْدُهُ عَلَى الشَّجَرِ، وَالْعَتِيرَةُ: فِي الْعَشْرِ الأُوَلِ مِنْ رَجَبٍ۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۸۳۵)، وقد أخرجہ: حم (۶/۱۵۸، ۲۵۱) (صحیح)
۲۸۳۳- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں : رسول اللہ ﷺ نے ہمیں ہر پچاس بکری میں سے ایک بکری ذبح کرنے کا حکم دیا ۱؎ ۔
ابو داود کہتے ہیں: بعض حضرات نے فرع کا یہ مطلب بیان کیا ہے کہ اونٹ کے سب سے پہلے بچہ کی پیدائش پر کفار اسے بتوں کے نام ذبح کر کے کھا لیتے، اور اس کی کھال کو درخت پر ڈال دیتے تھے ، اور عتیرہ ایسے جانور کو کہتے ہیں جسے رجب کے پہلے عشرہ میں ذبح کرتے تھے ۔
وضاحت ۱؎ : یہ حکم مستحب تھا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
21- بَاب فِي الْعَقِيقَةِ
۲۱-باب: عقیقہ کا بیان​


2834- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ عَطَائٍ، عَنْ حَبِيبَةَ بِنْتِ مَيْسَرَةَ، عَنْ أُمِّ كُرْزٍ الْكَعْبِيَّةِ قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < عَنِ الْغُلامِ شَاتَانِ مُكَافِئَتَانِ، وَعَنِ الْجَارِيَةِ شَاةٌ >.
قَالَ أَبو دَاود: سَمِعْت أَحْمَدَ قَالَ: مُكَافِئَتَانِ أَيْ مُسْتَوِيَتَانِ أَوْ مُقَارِبَتَانِ۔
* تخريج: ت/الأضاحي ۱۷ (۱۵۱۶)، ن/العقیقۃ ۲ (۴۲۲۱)، ق/الذبائح ۱ (۳۱۶۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۳۵۲)، وقد أخرجہ: حم (۶/۳۸۱، ۴۲۲)، دي/الأضاحي ۹ (۲۰۰۹) (صحیح)
۲۸۳۴- ام کرز کعبیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ فرماتے تھے: ''(عقیقہ )میں لڑکے کی طرف سے دو بکریاں برابر کی ہیں، اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری ہے''۔
ابو داود کہتے ہیں:احمد نے ''مُكَاْفِئَتَاْنِ'' کے معنی یہ کئے ہیں کہ دونوں (عمرمیں) برابر ہوں یا قریب قریب ہوں ۔


2835- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ أَبِي يَزِيدَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ سِبَاعِ بْنِ ثَابِتٍ، عَنْ أُمِّ كُرْزٍ قَالَتْ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ ﷺ يَقُولُ: < أَقِرُّوا الطَّيْرَ عَلَى مَكِنَاتِهَا >، قَالَتْ: وَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: < عَنِ الْغُلامِ شَاتَانِ، وَعَنِ الْجَارِيَةِ شَاةٌ، لايَضُرُّكُمْ أَذُكْرَانًا كُنَّ أَمْ إِنَاثًا >۔
* تخريج: ن/العقیقۃ ۳ (۴۲۲۳، ۴۲۲۲)، ق/الذبائح ۱ (۳۱۶۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۳۴۷)، وقد أخرجہ: دی/ الأضاحی ۹ (۲۰۱۱) (ضعیف)
(یہ حدیث ضعیف ہے ،اس کی سند میں اضطراب ہے، عقیقہ سے متعلق حدیث کے لئے اوپر اور نیچے کی احادیث دیکھئے، ملاحظہ ہو: صحیح ابوداود ۸/۱۸۳)
۲۸۳۵- ام کرز رضی اللہ عنہا کہتی ہیں میں نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے سنا: ''پرندوں کو ان کے گھونسلوں میں بیٹھے رہنے دو (یعنی ان کو گھونسلوں سے اڑا کر تکلیف نہ دو )''، میں نے آپ ﷺ کو یہ بھی فرماتے ہوئے سنا ہے:'' لڑکے کی طرف سے (عقیقہ میں) دو بکریاں ہیں، اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری ہے، اور تمہیں اس میں کچھ نقصان نہیں کہ وہ نر ہوں یا مادہ''۔


2836- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ أَبِي يَزِيدَ، عَنْ سِبَاعِ بْنِ ثَابِتٍ، عَنْ أُمِّ كُرْزٍ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < عَنِ الْغُلامِ شَاتَانِ مِثْلانِ، وَعَنِ الْجَارِيَةِ شَاةٌ >.
قَالَ أَبو دَاود: هَذَا هُوَ الْحَدِيثُ، وَحَدِيثُ سُفْيَانَ وَهْمٌ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم : (۲۸۳۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۳۴۷) (صحیح)
۲۸۳۶- ام کر ز رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''(عقیقے میں) لڑکے کی طرف سے برابر کی دو بکریاں ہیں، اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری ہے ''۔
ابو داود کہتے ہیں: یہی دراصل حدیث ہے، اور سفیان کی حدیث (نمبر : ۲۸۳۵) وہم ہے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی : عبید اللہ بن ابی یزید کے بعد سند میں ''عن ابیہ '' کا اضافہ سفیان کا وہم ہے، حماد کی روایت میں یہ اضافہ نہیں ہے اور یہی دیگر لوگوں کی روایتوں میں ہے۔


2837- حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ النَّمَرِيُّ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ سَمُرَةَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < كُلُّ غُلامٍ رَهِينَةٌ بِعَقِيقَتِهِ: تُذْبَحُ عَنْهُ يَوْمَ السَّابِعِ، وَيُحْلَقُ رَأْسُهُ وَيُدَمَّى >، فَكَانَ قَتَادَةُ إِذَا سُئِلَ عَنِ الدَّمِ كَيْفَ يُصْنَعُ بِهِ؟ قَالَ: إِذَا ذَبَحْتَ الْعَقِيقَةَ أَخَذْتَ مِنْهَا صُوفَةً وَاسْتَقْبَلْتَ بِهِ أَوْدَاجَهَا ثُمَّ تُوضَعُ عَلَى يَافُوخِ الصَّبِيِّ حَتَّى يَسِيلَ عَلَى رَأْسِهِ مِثْلَ الْخَيْطِ ثُمَّ يُغْسَلُ رَأْسُهُ بَعْدُ وَيُحْلَقُ.
قَالَ أَبو دَاود: وَهَذَا وَهْمٌ مِنْ هَمَّامٍ: < وَيُدَمَّى >.
[قَالَ أَبو دَاود: خُولِفَ هَمَّامٌ فِي هَذَا الْكَلامِ، وَهُوَ وَهْمٌ مِنْ هَمَّامٍ، وَإِنَّمَا قَالُوا: <يُسَمَّى> فَقَالَ هَمَّامٌ: < يُدَمَّى >.
قَالَ أَبو دَاود: وَلَيْسَ يُؤْخَذُ بِهَذَا]۔
* تخريج: ت/الأضاحي ۲۳ (۱۵۲۲)، ن/العقیقۃ ۴ (۴۲۲۵)، ق/الذبائح ۱ (۳۱۶۵)، (تحفۃ الأشراف: ۴۵۸۱)، وقد أخرجہ: خ/العقیقۃ ۲ (۵۴۷۲)، حم (۵/۷، ۸، ۱۲، ۱۷، ۱۸، ۲۲)، دي/الأضاحي ۹ (۲۰۱۲) (صحیح)
(لیکن ''یدمی '' کی جگہ ''یسمی'' صحیح ہے جیسا کہ اگلی روایت میں آرہا ہے ، ترمذی نسائی اور ابن ماجہ میں ''یسمی '' ہی ہے)
۲۸۳۷- سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' ہر لڑکا اپنے عقیقہ کے بدلے میں گروی ہے ساتویں دن اس کی طرف سے ذبح کیا جائے اور اس کا سر مونڈا جائے اور عقیقہ کا خون اس کے سر پر لگایا جائے'' ۱؎ ۔
قتادہ سے جب پوچھا جاتا کہ کس طرح خو ن لگایا جائے؟ توکہتے: جب عقیقے کا جانور ذبح کرنے لگو تو اس کے بالوں کا ایک گچھالے کر اس کی رگوں پر رکھ دو، پھر وہ گچھا لڑکے کی چندیا پر رکھ دیا جائے، یہاں تک کہ خون دھاگے کی طرح اس کے سر سے بہنے لگے پھر اس کے بعد اس کا سر دھو دیا جائے اور سر مونڈ دیا جائے ۔
ابو داود کہتے ہیں: '' يُدْمَي'' ہمام کا وہم ہے، اصل میں ''ويسمى'' تھا جسے ہمام نے ''يُدمى'' کر دیا، ابوداود کہتے ہیں: اس پر عمل نہیں ہے ۔
وضاحت ۱؎ : بریدہ رضی اللہ عنہ کی آنے والی حدیث نمبر (۲۸۴۳) اس حدیث کے لئے ناسخ ہے ، لہٰذا عقیقہ کا خون بچے کے سر پر نہیں لگایا جائے گا۔


2838- حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < كُلُّ غُلامٍ رَهِينَةٌ بِعَقِيقَتِهِ: تُذْبَحُ عَنْهُ يَوْمَ سَابِعِهِ، وَيُحْلَقُ، وَيُسَمَّى >.
قَالَ أَبو دَاود: < وَيُسَمَّى > أَصَحُّ، كَذَا قَالَ سَلامُ بْنُ أَبِي مُطِيعٍ عَنْ قَتَادَةَ، وَإِيَاسُ بْنُ دَغْفَلٍ وَأَشْعَثُ عَنِ الْحَسَنِ [قَالَ: < وَيُسَمَّى > وَرَوَاهُ أَشْعَثُ عَنِ الْحَسَنِ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ : <وَيُسَمَّى >] ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۴۵۸۱) (صحیح)
۲۸۳۸- سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''ہر لڑکا اپنے عقیقہ کے بدلے گروی ہے، ساتویں روز اس کی طرف سے ذبح کیا جائے، اس کا سر منڈایا جائے اور اس کا نام رکھا جائے ''۔
ابو داود کہتے ہیں: لفظ'' يُسَمَّى'' لفظ '' يُدمى'' سے زیادہ صحیح ہے، سلام بن ابی مطیع نے اسی طرح قتادہ، ایاس بن دغفل اور اشعث سے اور ان لوگوں نے حسن سے روایت کی ہے، اس میں ''ويُسمَّى'' کا لفظ ہے، اور اسے اشعث نے حسن سے اور حسن نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کیا ہے، اس میں بھی ''ويُسمَّى'' ہی ہے۔


2839- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ حَسَّانَ، عَنْ حَفْصَةَ بِنْتِ سِيرِينَ، عَنِ الرَّبَابِ، عَنْ سَلْمَانَ بْنِ عَامِرٍ الضَّبِّيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < مَعَ الْغُلامِ عَقِيقَةٌ، فَأَهْرِيقُوا عَنْهُ دَمًا، وَأَمِيطُوا عَنْهُ الأَذَى >۔
* تخريج: خ/العقیقۃ ۲ (۵۴۷۱)، ت/الأضاحي ۱۷ (۱۵۱۵)، ن/العقیقۃ ۱ (۴۲۱۹)، ق/الذبائح ۱ (۳۱۶۴)، (تحفۃ الأشراف: ۴۴۸۵)، وقد أخرجہ: حم (۴/۱۷، ۱۸، ۲۱۴)، دي/الأضاحي ۹ (۲۰۱۰) (صحیح)
۲۸۳۹- سلمان بن عامر ضبی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :'' لڑکے کی پیدائش کے ساتھ اس کا عقیقہ ہے تو اس کی جانب سے خون بہاؤ ،اور اس سے تکلیف اور نجاست کو دور کرو''( یعنی سر کے بال مونڈو اور غسل دو) ۔


2840- حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ خَلَفٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالأَعْلَى، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنِ الْحَسَنِ أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ: إِمَاطَةُ الأَذَى حَلْقُ الرَّأْسِ.
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۵۵۶) (صحیح)
۲۸۴۰- حسن سے روایت ہے ، وہ کہتے تھے: تکلیف اور نجاست دور کرنے سے مراد سر مونڈنا ہے۔


2841- حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ عَبْدُاللَّهِ بْنُ عَمْرٍو، حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَارِثِ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ عَقَّ عَنِ الْحَسَنِ وَالْحُسَيْنِ كَبْشًا كَبْشًا۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۶۰۱۱)، وقد أخرجہ: ن/العقیقۃ ۳ (۴۲۲۴) (صحیح)
لکن في روایۃ النسائي:''کبشین کبشین''، وھوالأصح ۱؎ ۔
۲۸۴۱- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حسن اور حسین کی طرف سے ایک ایک دنبہ کا عقیقہ کیا۔
وضاحت ۱؎ : سنن نسائی میں ''کبشین کبشین'' یعنی دو دو دنبے کی روایت ہے، اور یہی زیادہ صحیح ہے۔


2842- حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ قَيْسٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ (ح) وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سُلَيْمَانَ الأَنْبَارِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْمَلِكِ -يَعْنِي ابْنَ عَمْرٍو- عَنْ دَاوُدَ، عَنْ عَمْرِو ابْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ أُرَاهُ عَنْ جَدِّهِ قَالَ: سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عَنِ الْعَقِيقَةِ فَقَالَ: < لا يُحِبُّ اللَّهُ الْعُقُوقَ > كَأَنَّهُ كَرِهَ الاسْمَ، وَقَالَ: <مَنْ وُلِدَ لَهُ [وَلَدٌ] فَأَحَبَّ أَنْ يَنْسُكَ عَنْهُ فَلْيَنْسُكْ، عَنِ الْغُلامِ شَاتَانِ مُكَافِئَتَانِ، وَعَنِ الْجَارِيَةِ شَاةٌ >، وَسُئِلَ عَنِ الْفَرَعِ قَالَ: < وَالْفَرَعُ حَقٌّ وَأَنْ تَتْرُكُوهُ حَتَّى يَكُونَ بَكْرًا شُغْزُبًّا ابْنَ مَخَاضٍ أَوِ ابْنَ لَبُونٍ فَتُعْطِيَهُ أَرْمَلَةً أَوْ تَحْمِلَ عَلَيْهِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ خَيْرٌ مِنْ أَنْ تَذْبَحَهُ فَيَلْزَقَ لَحْمُهُ بِوَبَرِهِ وَتَكْفَأَ إِنَائَكَ وَتُولِهُ نَاقَتَكَ >۔
* تخريج: ن/العقیقۃ ۱ (۴۲۱۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۹۱۶۹، ۸۷۰۰)، وقد أخرجہ: حم (۲/۱۸۲، ۱۸۳، ۱۹۴) (حسن)
۲۸۴۲- عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے عقیقہ کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: ''اللہ تعالی عقوق ( ماں باپ کی نافرمانی ) کو پسند نہیں کرتا'' ، گویا آپ ﷺ نے اس نام کو ناپسند فرمایا، اور مکروہ جانا، اور فرمایا : ''جس کے یہاں بچہ پیدا ہو اور وہ اپنے بچے کی طرف سے قربانی (عقیقہ) کرنا چاہے تو لڑکے کی طرف سے برابر کی دو بکریاں کرے، اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری''، پھر آپ ﷺ سے فرع کے متعلق پوچھا گیا، تو آپ نے فرمایا: ''فرع حق ہے اور یہ کہ تم اس کو چھوڑ دو یہاں تک کہ اونٹ جوان ہو جائے، ایک برس کا یا دو برس کا، پھر اس کو بیوائوں محتاجوں کو دے دو، یا اللہ کی راہ میں جہاد کے لئے دے دو، یہ اس سے بہتر ہے کہ اس کو ( پید ا ہوتے ہی) کاٹ ڈالو کہ گوشت اس کا بالوں سے چپکا ہو ( یعنی کم ہو ) اور تم اپنا برتن اوندھا رکھو، ( گوشت نہ ہو گا تو پکائو گے کہاں سے) اور اپنی اونٹنی کو بچے کی جدائی کا غم دو''۔


2843- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ ثَابِتٍ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ، حَدَّثَنِي أَبِي، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ بُرَيْدَةَ قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي بُرَيْدَةَ يَقُولُ: كُنَّا فِي الْجَاهِلِيَّةِ إِذَا وُلِدَ لأَحَدِنَا غُلامٌ ذَبَحَ شَاةً وَلَطَخَ رَأْسَهُ بِدَمِهَا، فَلَمَّا جَاءَ اللَّهُ بِالإِسْلامِ كُنَّا نَذْبَحُ شَاةً وَنَحْلِقُ رَأْسَهُ وَنُلَطِّخُهُ بِزَعْفَرَانٍ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۹۶۴) (حسن صحیح)
۲۸۴۳- بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : زمانہ جاہلیت میں جب ہم میں سے کسی کے ہاں لڑکا پیدا ہوتا تو وہ ایک بکری ذبح کرتا اور اس کا خون بچے کے سر میں لگاتا، پھر جب اسلام آیا تو ہم بکری ذبح کرتے اور بچے کا سر مونڈ کر زعفران لگاتے تھے (خون لگا نا موقوف ہو گیا) ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یہ حدیث سمرہ کی حدیث نمبر (۲۸۳۷) کی ناسخ ہے ۔



* * * * *​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
{ 11- كِتَاب الصَّيْدِ }
۱۱-کتاب: شکار کے احکام و مسائل

1- بَاب [فِي] اتِّخَاذِ الْكَلْبِ لِلصَّيْدِ وَغَيْرِهِ
۱-باب: شکار یا کسی اور کام کے لئے کتا رکھنے کا بیان​


2844- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: < مَنِ اتَّخَذَ كَلْبًا إِلا كَلْبَ مَاشِيَةٍ أَوْ صَيْدٍ أَوْ زَرْعٍ انْتَقَصَ مِنْ أَجْرِهِ كُلَّ يَوْمٍ قِيرَاطٌ >۔
* تخريج: م/المساقاۃ ۱۰ (۱۵۷۵)، ت/الصید ۴ (۱۴۹۰)، ن/الصید ۱۴ (۴۲۹۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۲۷۱، ۱۵۳۹۰)، وقد أخرجہ: خ/الحرث ۳ (۲۳۲۳)، وبدء الخلق ۱۷ (۳۳۲۴)، ق/الصید ۲ (۳۲۰۴)، حم (۲/۲۶۷، ۳۴۵) (صحیح) ولیس عند (خ) ''أو صید'' إلا معلقًا
۲۸۴۴- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' جو مویشی کی نگہبانی ، یا شکار یا کھیتی کی رکھوالی کے علاوہ کسی اور غرض سے کتا پالے تو ہر روز اس کے ثواب میں سے ایک قیراط کے برابر کم ہوتا جائے گا '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ چوپایوں کی نگہبانی، زمین و جائیداد کی حفاظت اور شکار کی خاطر کتوں کا پالنا درست ہے ۔
نیز حدیث میں مذکورہ غرض کے علاوہ کتا پالنے میں ثواب کم ہونے کی وجہ یہ ہے کہ کتا نجس ہے، اس کے گھر میں رہنے سے رحمت کے فرشتے نہیں آتے ، یا آنے جانے والوں کو تکلیف ہوتی ہے۔


2845- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ، حَدَّثَنَا يُونُسُ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < لَوْلا أَنَّ الْكِلابَ أُمَّةٌ مِنَ الأُمَمِ لأَمَرْتُ بِقَتْلِهَا، فَاقْتُلُوا مِنْهَا الأَسْوَدَ الْبَهِيمَ >۔
* تخريج: ت/الصید ۳ (۱۴۸۶)، ن/الصید ۱۰ (۴۳۸۵)، ق/الصید ۲ (۳۲۰۵)، (تحفۃ الأشراف: ۹۶۴۹)، وقد أخرجہ: حم (۴/۸۵، ۸۶، ۵/۵۴، ۵۶، ۵۷)، دی/ الصید ۲ (۲۰۴۹) (صحیح)
۲۸۴۵- عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''اگر یہ بات نہ ہوتی کہ کتے بھی امتوں میں سے ایک امت ہیں ۱؎ تو میں ان کے قتل کا ضرور حکم دیتا ، تو اب تم ان میں سے خالص کالے کتوں کو قتل کرو''۔
وضاحت ۱؎ : یعنی اللہ تعالیٰ کی دیگر مخلوقات کی طرح یہ بھی ایک مخلوق ہیں ۔


2846- حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ خَلَفٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُوالزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ قَالَ: أَمَرَ نَبِيُّ اللَّهِ ﷺ بِقَتْلِ الْكِلابِ حَتَّى إِنْ كَانَتِ الْمَرْأَةُ تَقْدَمُ مِنَ الْبَادِيَةِ -يَعْنِي بِالْكَلْبِ- فَنَقْتُلُهُ، ثُمَّ نَهَانَا عَنْ قَتْلِهَا وَقَالَ: < عَلَيْكُمْ بِالأَسْوَدِ >۔
* تخريج: م/المساقاۃ ۱۰ (۱۵۷۲)، (تحفۃ الأشراف: ۲۸۱۳)، وقد أخرجہ: حم (۳/۳۳۳) (صحیح)
۲۸۴۶- جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے کتوں کے ما رنے کا حکم دیا یہاں تک کہ کوئی عورت دیہا ت سے اپنے ساتھ کتا لے کر آتی تو ہم اسے بھی مار ڈالتے، پھر آپ ﷺ نے کتوں کو مارنے سے منع فرما دیا اور فرمایا کہ صرف کالے کتوں کو مارو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
2- بَاب فِي الصَّيْدِ
۲-باب: شکار کرنے کا بیان​


2847- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ هَمَّامٍ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ قَالَ: سَأَلْتُ النَّبِيَّﷺ قُلْتُ: إِنِّي أُرْسِلُ الْكِلابَ الْمُعَلَّمَةَ فَتُمْسِكُ عَلَيَّ، أَفَآكُلُ؟ قَالَ: < إِذَا أَرْسَلْتَ الْكِلابَ الْمُعَلَّمَةَ، وَذَكَرْتَ اسْمَ اللَّهِ، فَكُلْ مِمَّا أَمْسَكْنَ عَلَيْكَ >، قُلْتُ: وَإِنْ قَتَلْنَ؟ قَالَ: < وَإِنْ قَتَلْنَ، مَا لَمْ يَشْرَكْهَا كَلْبٌ لَيْسَ مِنْهَا>، قُلْتُ: أَرْمِي بِالْمِعْرَاضِ فَأُصِيبُ أَفَآكُلُ؟ قَالَ: < إِذَا رَمَيْتَ بِالْمِعْرَاضِ وَذَكَرْتَ اسْمَ اللَّهِ فَأَصَابَ فَخَرَقَ فَكُلْ، وَإِنْ أَصَابَ بِعَرْضِهِ فَلا تَأْكُلْ >۔
* تخريج: خ/الوضوء ۳۳ (۱۷۵)، والبیوع ۳ (۲۰۵۴)، والصید ۱ (۵۴۷۵)، ۲ (۵۴۷۶)، ۳ (۵۴۷۷)، ۷ (۵۴۸۳)، ۹ (۵۴۸۴)، ۱۰ (۵۴۸۵)، م/الصید ۱ (۱۹۲۹)، ت/الصید ۱ (۱۴۶۵)، ۳ (۱۴۶۷)، ۴ (۱۴۶۸)، ۵ (۱۴۷۹)، ۶ (۱۴۷۰)، ۷ (۱۴۷۱)، ن/الصید ۱ (۴۲۷۴)، ۲ (۴۲۷۵)، ۳ (۴۲۷۰)، ۸ (۴۲۸۵)، ۲۱ (۴۳۱۷)، ق/الصید ۳ (۳۲۰۸)، ۵ (۳۲۱۲)، ۶ (۳۲۱۳)، ۷ (۳۲۱۵)، (تحفۃ الأشراف: ۲۰۴۵، ۹۸۵۵، ۹۸۷۸)، وقد أخرجہ: حم (۴/۲۵۶، ۲۵۷، ۲۵۸، ۳۷۷، ۳۷۹، ۳۸۰)، دي/الصید ۱ (۲۰۴۵) (صحیح)
۲۸۴۷- عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ سے پوچھا کہ میں سدھائے ہوئے کتے کو شکار پر چھوڑتا ہوں تو وہ میرے لئے شکار پکڑ کر لاتا ہے تو کیا میں اسے کھائوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ''جب تم اپنے سدھائے ہوئے کتوں کو چھوڑو، اور اللہ کا نام اس پر لو تو ان کا شکار جس کو وہ تمہارے لئے روکے رکھیں کھاؤ''۔
عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے عرض کیا: اگرچہ وہ شکار کو قتل کر ڈالیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ''ہاں اگرچہ وہ قتل کر ڈالیں جب تک دوسرا غیر شکاری کتا اس کے قتل میں شریک نہ ہو''، میں نے پوچھا:میں لاٹھی یا بے پر اور بے کانسی کے تیر سے شکار کرتا ہوں ( جو بوجھ اور وزن سے جانور کو مارتا ہے ) تو کیا اسے کھائوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ''جب تم لاٹھی، یا بے پر، اور بے کانسی کے تیر اللہ کا نام لے کر مارو، اور وہ تیر شکار کے جسم میں گھس کر پھا ڑ ڈالے تو کھاؤ ، اور اگر وہ شکار کو چوڑا ہو کر لگے تو مت کھاؤ''۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے کئی مسئلے معلوم ہوئے : (پہلا) یہ کہ سدھائے ہوئے کتے کا شکار مباح اور حلال ہے ، ( دوسرا) یہ کہ کتا مُعَلَّم ہو یعنی اسے شکار کی تعلیم دی گئی ہو ، (تیسرا) یہ کہ اس سدھائے ہوئے کتے کو شکار کے لئے بھیجا گیا ہو پس اگر وہ خود سے بلا بھیجے شکار کر لائے تو اس کا کھانا حلال نہیں یہی جمہور علماء کا قول ہے ، ( چوتھا) یہ کہ کتے کو شکار پر بھیجتے وقت ''بسم الله'' کہا گیا ہو ، (پانچواں) یہ کہ معلّم کتے کے ساتھ کوئی دوسرا کتا شکار میں شریک نہ ہو، اگر دوسرا شریک ہے تو حرمت کا پہلو غالب ہوگا اور یہ شکار حلال نہ ہوگا، (چھٹواں) یہ کہ کتا شکار میں سے کچھ نہ کھائے بلکہ اپنے مالک کے لئے محفوظ رکھے تب یہ شکار حلال ہوگا ورنہ نہیں ۔


2848- حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ بَيَانٍ، عَنْ عَامِرٍ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ قَالَ: سَأَلْتُ النَّبِيَّ ﷺ قُلْتُ: إِنَّا نَصِيدُ بِهَذِهِ الْكِلابِ، فَقَالَ لِي: < إِذَا أَرْسَلْتَ كِلابَكَ الْمُعَلَّمَةَ، وَذَكَرْتَ اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهَا، فَكُلْ مِمَّا أَمْسَكْنَ عَلَيْكَ وَإِنْ قَتَلَ، إِلا أَنْ يَأْكُلَ الْكَلْبُ، فَإِنْ أَكَلَ [الْكَلْبُ] فَلا تَأْكُلْ، فَإِنِّي أَخَافُ أَنْ يَكُونَ إِنَّمَا أَمْسَكَهُ عَلَى نَفْسِهِ >۔
* تخريج: خ/ الصید ۷ (۵۴۸۳)، ۱۰ (۵۴۸۷)، م/ الصید ۱ (۱۹۲۹)، ق/ الصید ۳ (۳۲۰۸)، (تحفۃ الأشراف: ۹۸۵۵)، وقد أخرجہ: حم (۴/۲۵۸، ۳۷۷) (صحیح)
۲۸۴۸- عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ سے پوچھا : ہم ان کتوں سے شکار کرتے ہیں (آپ کیا فرماتے ہیں؟) تو آپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا: ''جب تم اپنے سدھائے ہوئے کتوں کو اللہ کا نام لے کر شکار پر چھوڑو تو وہ جو شکار تمہارے لئے پکڑ کر رکھیں انہیں کھاؤ گرچہ وہ انہیں مار ڈالیں سوائے ان کے جنہیں کتا کھالے، اگر کتا اس میں سے کھالے تو پھر نہ کھاؤ کیونکہ مجھے اندیشہ ہے کہ اس نے اسے اپنے لئے پکڑا ہو'' ۔


2849- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ عَاصِمٍ الأَحْوَلِ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: < إِذَا رَمَيْتَ بِسَهْمِكَ، وَذَكَرْتَ اسْمَ اللَّهِ، فَوَجَدْتَهُ مِنَ الْغَدِ وَلَمْ تَجِدْهُ فِي مَاءِ وَلا فِيهِ أَثَرٌ غَيْرُ سَهْمِكَ، فَكُلْ، وَإِذَا اخْتَلَطَ بِكِلابِكَ كَلْبٌ مِنْ غَيْرِهَا فَلا تَأْكُلْ، لاتَدْرِي لَعَلَّهُ قَتَلَهُ الَّذِي لَيْسَ مِنْهَا >۔
* تخريج: انظر حدیث رقم : (۲۸۴۷)، (تحفۃ الأشراف: ۹۸۶۲) (صحیح)
۲۸۴۹- عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ''جب تم بسم اللہ کہہ کر تیر چلاؤ، پھر اس شکار کو دوسرے روز پاؤ ( یعنی شکار تیر کی چوٹ کھا کر نکل گیا پھر دوسرے روز ملا ) اور وہ تمہیں پانی میں نہ ملا ہو ۱؎ ، اور نہ تمہارے تیر کے زخم کے سوا اور کوئی نشان ہو تو اسے کھاؤ، اور جب تمہارے کتے کے ساتھ دوسرا کتا بھی شامل ہو گیا ہو ( یعنی دونوں نے مل کر شکار مارا ہو) تو پھر اس کو مت کھاؤ، کیوں کہ تمہیں معلوم نہیں کہ اس جانور کو کس نے قتل کیا ہے؟ ہوسکتا ہے کہ دوسرے کتے نے اسے قتل کیا ہو''۔
وضاحت ۱؎ : کیونکہ اس بات کا امکان ہے کہ کتے کے قتل کرنے کے سبب وہ ہلاک ہوا ہو بلکہ پانی ہی اس کے ہلاک ہونے کا سبب بنا ہو۔


2850- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ فَارِسٍ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ زَكَرِيَّا ابْنِ أَبِي زَائِدَةَ أَخْبَرَنِي عَاصِمٌ الأَحْوَلُ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: < إِذَا وَقَعَتْ رَمِيَّتُكَ فِي مَاءِ فَغَرِقَ فَمَاتَ فَلا تَأْكُلْ >۔
* تخريج: خ/الذبائح ۸ (۵۴۸۴)، م/الصید ۱ (۱۹۲۹)، ت/الصید ۳ (۱۴۶۹)، ق/ الصید ۶ (۳۲۱۳)، (تحفۃ الأشراف: ۹۸۶۲) (صحیح)
۲۸۵۰- عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ''جب تمہارے تیر کا شکار پانی میں گر پڑے اور ڈوب کر مر جائے تو اسے مت کھاؤ''۔

2851- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا مُجَالِدٌ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: < مَا عَلَّمْتَ مِنْ كَلْبٍ أَوْ بَازٍ ثُمَّ أَرْسَلْتَهُ وَذَكَرْتَ اسْمَ اللَّهِ فَكُلْ مِمَّا أَمْسَكَ عَلَيْكَ >، قُلْتُ: وَإِنْ قَتَلَ؟ قَالَ: < إِذَا قَتَلَهُ وَلَمْ يَأْكُلْ مِنْهُ شَيْئًا فَإِنَّمَا أَمْسَكَهُ عَلَيْكَ >.
[قَالَ أَبو دَاود: الْبَازُ إِذَا أَكَلَ فَلا بَأْسَ بِهِ، وَالْكَلْبُ إِذَا أَكَلَ كُرِهَ، وَإِنْ شَرِبَ الدَّمَ فَلا بَأْسَ بِهِ]۔
* تخريج: ت/الصید ۳ (۱۴۶۷)، (تحفۃ الأشراف: ۹۸۶۵)، وقد أخرجہ: حم (۴/۲۵۷، ۳۷۹) (صحیح)
(مگر''باز'' کا اضافہ منکر ہے)
۲۸۵۱- عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' جس کتے یا باز کو تم سدھا رکھو اور اسے اللہ کا نام لے کر یعنی ( بسم اللہ کہہ کر ) شکارکے لئے چھوڑو تو جس شکار کو اس نے تمہارے لئے روک رکھا ہو اسے کھاؤ''۔
عدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے عرض کیا: اگرچہ اس نے مار ڈالاہو؟ آپ نے فرمایا:''جب اس نے مار ڈالا ہو اور اس میں سے کچھ کھایا نہ ہو تو سمجھ لو کہ اس نے شکار کو تمہارے لئے روک رکھا ہے''۔
ابوداود کہتے ہیں:باز جب کھالے تو اس کے کھانے میں کوئی حرج نہیں اور کتا جب کھالے تو وہ مکروہ ہے اگر خون پی لے تو کوئی حرج نہیں ۔


2852- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ بُسْرِ بْنِ عُبَيْدِاللَّهِ، عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ الْخَوْلانِيِّ، عَنْ أَبِي ثَعْلَبَةَ الْخُشَنِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فِي صَيْدِ الْكَلْبِ: < إِذَا أَرْسَلْتَ كَلْبَكَ وَذَكَرْتَ اسْمَ اللَّهِ فَكُلْ، وَإِنْ أَكَلَ مِنْهُ، وَكُلْ مَا رَدَّتْ عَلَيْكَ يَدَاكَ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، وانظر ما یأتي برقم : (۲۸۵۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۸۷۸) (منکر)
(اس میں ''وإن أَکَلَ مِنْہ'' کا جملہ منکر ہے اور کسی راوی کے یہاں نہیں ہے، مسند احمد میں اس کی جگہ ''وإنّ قَتَلَ'' (اگرچہ قتل کرڈالاہو) کا جملہ ہے ، اور یہ حدیث عدی رضی اللہ عنہ کی حدیث کے مطابق ہے ، اس کے راوی ''داود ازدی'' گرچہ صدوق ہیں مگر ان سے بہت غلطیاں ہو جایا کرتی تھیں)
۲۸۵۲- ابو ثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے شکاری کتے کے سلسلہ میں فرمایا: ''جب تم اپنے (شکاری) کتے کو چھوڑو، اور اللہ کا نام لے کر (یعنی بسم اللہ کہہ) کر چھوڑو تو (اس کا شکار) کھائو اگرچہ وہ اس میں سے کھالے ۱؎ اور اپنے ہاتھ سے کیا ہوا شکار کھائو'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ابوثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ کی اس حدیث اور عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ اس سے ماقبل کی حدیث کے مابین تطبیق کی صورت یہ ہے کہ ابوثعلبہ رضی اللہ عنہ کی روایت کو بیان جواز پر، اور عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کی روایت کو نہی تنزیہی پر محمول کیا جائے گا، ایک تاویل یہ بھی کی جاتی ہے کہ عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کی حدیث حرمت کے سلسلہ میں اصل ہے، اور ابوثعلبہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں ''وإن أكل'' کے معنی ہیں اگرچہ وہ اس سے پہلے کھاتا رہا ہو مگر اس شکار میں اس نے نہ کھایا ہو ۔


2853- حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ مُعَاذِ بْنِ خُلَيْفٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالأَعْلَى، حَدَّثَنَا دَاوُدُ، عَنْ عَامِرٍ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ أَنَّهُ قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَحَدُنَا يَرْمِي الصَّيْدَ فَيَقْتَفِي أَثَرَهُ الْيَوْمَيْنِ وَالثَّلاثَةَ ثُمَّ يَجِدُهُ مَيِّتًا وَفِيهِ سَهْمُهُ، أَيَأْكُلُ؟ قَالَ: < نَعَمْ إِنْ شَاءَ >، أَوْ قَالَ: <يَأْكُلُ إِنْ شَاءَ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۹۸۵۹)، وقد أخرجہ: خ/ الصید ۸ (۵۴۸۵ تعلیقًا) (صحیح)
۲۸۵۳- عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا :اللہ کے رسول! ہم میں سے کوئی اپنے شکار کو تیر مارتا ہے پھر اسے دو دو تین تین دن تک تلا ش کرتا پھرتا ہے، پھر اسے مرا ہوا پا تا ہے، اور اس کا تیر اس میں پیوست ہوتا ہے تو کیا وہ اسے کھائے؟ آپ ﷺ نے فرمایا:''ہاں اگر چاہے''، یا فرمایا:'' کھا سکتا ہے اگر چاہے''۔


2854- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ أَبِي السَّفَرِ، عَنِ الشَّعْبِيِّ قَالَ: قَالَ عَدِيُّ بْنُ حَاتِمٍ: سَأَلْتُ النَّبِيَّ ﷺ عَنِ الْمِعْرَاضِ فَقَالَ: < إِذَا أَصَابَ بِحَدِّهِ فَكُلْ، وَإِذَا أَصَابَ بِعَرْضِهِ فَلا تَأْكُلْ فَإِنَّهُ وَقِيذٌ > قُلْتُ: أُرْسِلُ كَلْبِي [قَالَ: <إِذَا سَمَّيْتَ فَكُلْ، وَإِلا فَلا تَأْكُلْ، وَإِنْ أَكَلَ مِنْهُ فَلا تَأْكُلْ، فَإِنَّمَا أَمْسَكَ لِنَفْسِهِ>، فَقَالَ: أُرْسِلُ كَلْبِي] فَأَجِدُ عَلَيْهِ كَلْبًا آخَرَ، فَقَالَ: < لا تَأْكُلْ لأَنَّكَ إِنَّمَا سَمَّيْتَ عَلَى كَلْبِكَ >۔
* تخريج: خ/ الوضوء ۳۳ (۱۷۵)، البیوع ۳ (۲۰۵۴)، الصید ۲ (۵۴۷۶)، م/ الصید ۱۹ (۱۹۲۹)، ن/الصید ۷ (۴۲۷۷)، (تحفۃ الأشراف: ۹۸۶۳)، وقد أخرجہ: حم (۴/۳۸۰)، دی/ الصید ۱ (۲۰۴۵) (صحیح)
۲۸۵۴- عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ سے بے پر کے تیر کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا: ''جب وہ اپنی تیزی سے پہنچے تو کھاؤ (یعنی جب وہ تیزی سے گھس گیا ہو)، اور جو تیر چوڑائی میں لگا ہو تو مت کھاؤ کیونکہ وہ چوٹ کھایا ہوا ہے''۔
پھر میں نے کہا: میں اپنے کتے کو شکار پر چھوڑتا ہوں (ا س بارے میں کیا حکم ہے؟) آپ ﷺ نے فرمایا:'' جب ''بِسْمِ اللهِ'' پڑھ کر چھوڑو تو کھائو، ورنہ نہ کھائو ،اور اگر کتے نے اس میں سے کھایا ہو تو اس کو مت کھائو ، اس لئے کہ اس نے اسے اپنے لئے پکڑا ہے'' ۔
پھر میں نے پوچھا: میں اپنے کتے کو شکار پر چھوڑتا ہوں کہ دوسرا کتا بھی آکر اس کے ساتھ لگ جاتا ہے ( تب کیا کروں؟) آپ ﷺ نے فرمایا : ''مت کھائو ، اس لئے کہ ''بسم اللہ'' تم نے صرف اپنے ہی کتے پر کہا ہے''۔


2855- حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، عَنِ ابْنِ الْمُبَارَكِ، عَنْ حَيْوَةَ بْنِ شُرَيْحٍ قَالَ: سَمِعْتُ رَبِيعَةَ ابْنَ يَزِيدَ الدِّمَشْقِيَّ يَقُولُ: أَخْبَرَنِي أَبُو إِدْرِيسَ الْخَوْلانِيُّ [عَائِذُ اللَّهِ] قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا ثَعْلَبَةَ الْخُشَنِيَّ يَقُولُ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنِّي أَصِيدُ بِكَلْبِي الْمُعَلَّمِ وَبِكَلْبِي الَّذِي لَيْسَ بِمُعَلَّمٍ، قَالَ: < مَا صِدْتَ بِكَلْبِكَ الْمُعَلَّمِ فَاذْكُرِ اسْمَ اللَّهِ وَكُلْ، وَمَا أَصَّدْتَ بِكَلْبِكَ الَّذِي لَيْسَ بِمُعَلَّمٍ فَأَدْرَكْتَ ذَكَاتَهُ فَكُلْ >۔
* تخريج: خ/الصید ۴ (۵۴۷۸)، ۱۰ (۵۴۸۸)، ۱۴ (۵۴۹۶)، م/الصید ۱ (۱۹۳۰)، ت/ السیر ۱۱ (۱۵۶۰)، ن/الصید ۴ (۴۲۷۱) ق/الصید ۳ (۳۲۰۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۸۷۵)، وقد أخرجہ: حم (۴/۱۹۳، ۱۹۴، ۱۹۵)، دي/السیر۵۶ (۲۵۴۱) (صحیح)
۲۸۵۵- ابو ثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ! میں سدھائے اور بے سدھائے ہوئے کتوں سے شکار کرتا ہوں ، تو آپ ﷺ نے فرمایا:'' جو شکار تم سدھائے ہوئے کتے سے کرو اس پر اللہ کا نام لو'' (یعنی ''بسم اللہ'' کہو) اور کھائو، اور جو شکار اپنے غیر سدھائے ہوئے کتے کے ذریعہ کرو اور اس کے ذبح کو پائو ( یعنی زندہ پائو ) تو ذبح کر کے کھائو (ورنہ نہ کھائو کیونکہ وہ کتا جو تر بیت یافتہ نہیں ہے تو اس کا مار ڈالنا ذبح کے قائم مقام نہیں ہو سکتا )''۔


2856- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُصَفَّى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَرْبٍ (ح) وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُصَفَّى، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ، عَنِ الزُّبَيْدِيِّ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ سَيْفٍ، حَدَّثَنَا أَبُو إِدْرِيسَ الْخَوْلانِيُّ، حَدَّثَنِي أَبُو ثَعْلَبَةَ الْخُشَنِيُّ قَالَ: قَالَ [لِي] رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < يَا أَبَا ثَعْلَبَةَ، كُلْ مَا رَدَّتْ عَلَيْكَ قَوْسُكَ وَكَلْبُكَ >، زَادَ عَنِ ابْنِ حَرْبٍ: <الْمُعَلَّمُ وَيَدُكَ فَكُلْ ذَكِيًّا وَغَيْرَ ذَكِيٍّ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۸۷۷)، وقد أخرجہ: م/ الصید ۱ (۱۹۳۱)، ت/ الصید ۱۶ (۱۴۴۶) (صحیح)
۲۸۵۶- ابو ثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے عرض کیا: ''ابوثعلبہ! جس جانور کو تم اپنے تیر وکمان سے یا اپنے کتے سے مارو اسے کھائو ''۔
ابن حرب کی روایت میں اتنا اضافہ ہے کہ: '' وہ کتا سدھایا ہوا( شکاری )ہو، اور اپنے ہاتھ سے ( یعنی تیر سے) شکار کیا ہوا جانور ہو توکھائو خواہ اس کو ذبح کر سکو یا نہ کر سکو ''۔


2857- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمِنْهَالِ الضَّرِيرُ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا حَبِيبٌ الْمُعَلِّمُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ أَنَّ أَعْرَابِيًّا يُقَالُ لَهُ أَبُو ثَعْلَبَةَ قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنَّ لِي كِلابًا مُكَلَّبَةً فَأَفْتِنِي فِي صَيْدِهَا فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ : < إِنْ كَانَ لَكَ كِلابٌ مُكَلَّبَةٌ فَكُلْ مِمَّا أَمْسَكْنَ عَلَيْكَ >، قَالَ: ذَكِيًّا أَوْ غَيْرَ ذَكِيٍّ؟ قَالَ: <نَعَمْ>، قَالَ: فَإِنْ أَكَلَ مِنْهُ قَالَ: < وَإِنْ أَكَلَ مِنْهُ >، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَفْتِنِي فِي قَوْسِي، قَالَ: < كُلْ مَا رَدَّتْ عَلَيْكَ قَوْسُكَ >، قَالَ: < ذَكِيًّا، أَوْ غَيْرَ ذَكِيٍّ >، قَالَ: وَإِنْ تَغَيَّبَ عَنِّي؟ قَالَ: < وَإِنْ تَغَيَّبَ عَنْكَ، مَا لَمْ يَضِلَّ، أَوْ تَجِدْ فِيهِ أَثَرًا غَيْرَ سَهْمِكَ >، قَالَ: أَفْتِنِي فِي آنِيَةِ الْمَجُوسِ إِنِ اضْطُرِرْنَا إِلَيْهَا، قَالَ: < اغْسِلْهَا وَكُلْ فِيهَا > ۔
* تخريج: تفرد بہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۸۶۷۱)، وقد أخرجہ: ن/الصید ۱۶ (۴۳۰۱)، حم (۲/۱۸۴) (حسن)
(مگر''وإن اَکَلَ منہ'' کا جملہ منکر ہے جو عدی کی حدیث (۲۸۵۴) کے مخالف ہے ، اور نسائی کی روایت میں یہ جملہ ہے تو مگر اس میں اس کی جگہ ''وإن قتلنَ''ہے جو عدی کی حدیث کے مطابق ہے)
۲۸۵۷- عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ابوثعلبہ رضی اللہ عنہ نامی ایک دیہاتی نے کہا: اللہ کے رسول ! میرے پاس شکار کے لئے تیار سدھائے ہوئے کتے ہیں ، ان کے شکار کے سلسلہ میں مجھے بتائیے ، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :'' اگر تمہارے پاس سدھائے ہوئے کتے ہیں تو جو شکار وہ تمہارے لئے پکڑ رکھیں انہیں کھائو'' ۔
ابو ثعلبہ نے کہا: خواہ میں ان کو ذبح کرسکوں یا نہ کر سکوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا:'' ہاں'' ۔
ابو ثعلبہ نے کہا: اگرچہ وہ کتے اس جانور میں سے کھا لیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ''اگرچہ وہ اس جانور میں سے کھالیں''۔
پھر انہوں نے کہا: اللہ کے رسول ! میرے تیر کمان سے شکار کے متعلق بتائیے ، آپ ﷺ نے فرمایا:'' تمہارا تیر کمان جو تمہیں لوٹا دے اسے کھاؤ، خواہ تم اسے ذبح کر پائو یا نہ کر پائو'' ۔
انہوں نے کہا: اگرچہ وہ شکار تیر کھا کر میری نظروں سے اوجھل ہو جائے؟ آپ ﷺ نے فرمایا:'' ہاں اگرچہ وہ تمہاری نظروں سے اوجھل ہو جائے جب تک کہ گلے سڑے نہیں، اور تمہارے تیر کے سوا اس کی ہلا کت کا کوئی اور اثر معلوم نہ ہو سکے''۔
پھر انہوں نے کہا: مجوسیوں ( پارسیوں ) کے برتن کے متعلق بتائیے جب کہ ہمیں اس کے سوا دوسرا برتن نہ ملے ، آپ ﷺ نے فرمایا: ''دھو ڈالو اور اس میں کھائو''۔


2858- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي وَاقِدٍ قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ ﷺ : < مَا قُطِعَ مِنَ الْبَهِيمَةِ وَهِيَ حَيَّةٌ فَهِيَ مَيْتَةٌ >۔
* تخريج: ت/الصید ۴ (۱۴۸۰) أتم منہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۵۱۵)، وقد أخرجہ: حم (۵/۲۱۸)، دي/الصید ۹ (۲۰۶۱) (صحیح)
۲۸۵۸- ابو واقد لیثی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' زندہ جانور کے بدن سے جو چیز کاٹی جائے وہ مردار ہے''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
3- بَاب فِي صَيْدٍ قُطِعَ مِنْهُ قِطْعَةٌ
۳-باب: زندہ شکار(جانور) کے جسم سے کوئی حصہ کاٹ لیا جائے اس کے حکم کا بیان​
4- بَاب فِي اتِّبَاعِ الصَّيْدِ
۴-باب: شکار کا پیچھا کرنا کیسا ہے؟​


2859- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ سُفْيَانَ، حَدَّثَنِي أَبُو مُوسَى، عَنْ وَهْبِ بْنِ مُنَبِّهٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ النَّبِيّ ﷺ ، وَقَالَ مَرَّةً سُفْيَانُ: وَلا أَعْلَمُهُ إِلا عَنِ النَّبِيِّ ﷺ ، قَالَ: <مَنْ سَكَنَ الْبَادِيَةَ جَفَا، وَمَنِ اتَّبَعَ الصَّيْدَ غَفَلَ، وَمَنْ أَتَى السُّلْطَانَ افْتُتِنَ >۔
* تخريج: ت/الفتن ۶۹ (۲۲۵۶)، ن/الصید ۲۴ (۴۳۱۴)، (تحفۃ الأشراف: ۶۵۳۹)، وقد أخرجہ: حم (۱/۳۵۷) (صحیح)
۲۸۵۹- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ''جو شخص صحراء اور بیابان میں رہے گا اس کا دل سخت ہو جائے گا، اور جو شکار کے پیچھے رہے گا وہ (دنیا یا دین کے کاموں سے) غافل ہوجائے گا، اور جو شخص بادشاہ کے پاس آئے جائے گا وہ فتنہ وآزمائش میں پڑے گا( اس سے دنیا بھی خراب ہو سکتی ہے اور آخرت بھی )'' ۔


2860- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الْحَكَمِ النَّخَعِيُّ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ، عَنْ شَيْخٍ مِنَ الأَنْصَارِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّﷺ -بِمَعْنَى- مُسَدَّدٍ قَالَ: < وَمَنْ لَزِمَ السُّلْطَانَ افْتُتِنَ >، زَادَ: < وَمَا ازْدَادَ عَبْدٌ مِنَ السُّلْطَانِ دُنُوًّا إِلا ازْدَادَ مِنَ اللَّهِ بُعْدًا >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۴۹۵)، وقد أخرجہ: حم (۲/۳۷۱، ۴۴۰) (ضعیف)
(اس کے ایک راوی ''شیخ من الانصار'' مبہم ہیں)
۲۸۶۰- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم ﷺ سے مسدد والی حدیث کے ہم معنی حدیث روایت کی ہے، اس میں ہے: ''جو شخص بادشاہ کے ساتھ چمٹا رہے گا وہ فتنے میں پڑے گا ''، اور اتنا اضافہ ہے:'' جو شخص بادشاہ کے جتنا قریب ہوتا جائے گا اتنا ہی وہ اللہ سے دور ہوتا جائے گا''۔


2861- حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ خَالِدٍ الْخَيَّاطُ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي ثَعْلَبَةَ الْخُشَنِيِّ، عَنِ النَّبِيّ ﷺ قَالَ: < إِذَا رَمَيْتَ الصَّيْدَ فَأَدْرَكْتَهُ بَعْدَ ثَلاثِ لَيَالٍ وَسَهْمُكَ فِيهِ فَكُلْهُ مَا لَمْ يُنْتِنْ >۔
* تخريج: م/الصید ۲ (۱۹۳۱)، ن/الصید ۲۰ (۴۳۰۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۸۶۳)، وقد أخرجہ: حم (۴/۱۹۴) (صحیح)
۲۸۶۱- ابو ثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ''جب تم کسی شکار کو تیر مارو اور تین دن بعد اس جانور کو اس طرح پائو کہ تمہارا تیر اس میں موجود ہو تو جب تک کہ اس میں سے بدبو پیدا نہ ہو اسے کھاؤ'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : تیر کے موجود رہنے کی شرط اس لئے ہے کہ شکاری کو یہ یقین ہوجائے کہ شکار کی موت کا سبب شکاری کا تیر ہے نہ کہ کوئی دوسری چیز اس کی موت کا سبب بنی ہے ۔


* * * * *​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207

{ 12- كِتَاب الْوَصَايَا }
۱۲-کتاب: وصیت کے احکام و مسائل


1- بَاب مَا جَاءَ فِي مَا يُؤْمَرُ بِهِ مِنَ الْوَصِيَّةِ
۱-باب: وصیت کرنے کی تاکید کا بیان ۱؎​


2862- حَدَّثَنَا مُسَدَّدُ بْنُ مُسَرْهَدٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى [بْنُ سَعِيدٍ] عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ، حَدَّثَنِي نَافِعٌ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ -يَعْنِي ابْنَ عُمَرَ- عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < مَا حَقُّ امْرِئٍ مُسْلِمٍ لَهُ شَيْئٌ يُوصِي فِيهِ يَبِيتُ لَيْلَتَيْنِ إِلا وَوَصِيَّتُهُ مَكْتُوبَةٌ عِنْدَهُ >۔
* تخريج: م/الوصایا ۱ (۱۶۲۷)، (تحفۃ الأشراف:۷۹۴۴، ۸۱۷۶)، وقد أخرجہ: خ/الوصایا ۱ (۲۷۳۸)، ت/الجنائز ۵ (۹۷۴)، والوصایا ۳ (۲۱۱۹)، ن/الوصایا ۱ (۳۶۴۵)، ق/الوصایا ۲ (۲۶۹۹)، ط/الوصایا ۱ (۱)، حم (۲/۴، ۱۰، ۳۴، ۵۰، ۵۷،۸۰، ۱۱۳)، دي/الوصایا ۱ (۳۲۱۹ ) (صحیح)
۲۸۶۲- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' کسی مسلمان کے لئے جس کے پاس کوئی ایسی چیز ہو جس میں اسے وصیت کرنی ہو مناسب نہیں ہے کہ اس کی دو راتیں بھی ایسی گزریں کہ اس کی لکھی ہوئی وصیت اس کے پاس موجو د نہ ہو''۔
وضاحت ۱؎ : اگر کسی شخص کے ذمہ کوئی ایسا واجبی حق ہے جس کی ادائیگی ضروری ہے مثلاً قرض وامانت وغیرہ تو ایسے شخص پر وصیت واجب ہے اور اگر اس کے ذمہ کوئی واجبی حق نہیں ہے تو وصیت مستحب ہے ۔


2863- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاءِ قَالا: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: مَا تَرَكَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ دِينَارًا، وَلادِرْهَمًا، وَلا بَعِيرًا، وَلا شَاةً، وَلاأَوْصَى بِشَيْئٍ.
* تخريج: م/الوصایا ۶ (۱۶۳۵)، ن/الوصایا ۲ (۳۶۵۱)، ق/الوصایا ۱ (۲۶۹۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۶۱۰)، وقد أخرجہ: حم (۶/۴۴) (صحیح)
۲۸۶۳- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے (اپنی وفات کے وقت) دینار و درہم ، اونٹ وبکری نہیں چھوڑی اور نہ کسی چیز کی وصیت فرمائی ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : کسی چیز کی وصیت نہیں فرمائی کا مطلب یہ ہے کہ مال وجائیداد سے متعلق کسی چیز کی وصیت نہیں فرمائی، کیونکہ آپ ﷺ نے اپنی امت کو عام وصیت فرمائی ہے، مثلاً صلاۃسے متعلق وصیت، اسی طرح جزیرۃ العرب سے یہودیوں کو نکالنے کی وصیت وغیرہ وغیرہ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
2- بَاب مَا جَاءَ فِي مَا لا يَجُوزُ لِلْمُوصِي فِي مَالِهِ
۲-باب: وصیت کرنے والے کے لیے جو چیز ناجائز ہے اس کا بیان​


2864- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَابْنُ أَبِي خَلَفٍ قَالا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: مَرِضَ مَرَضًا، [قَالَ ابْنُ أَبِي خَلَفٍ: بِمَكَّةَ، ثُمَّ اتَّفَقَا] أَشْفَى فِيهِ، فَعَادَهُ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنَّ لِي مَالا كَثِيرًا، وَلَيْسَ يَرِثُنِي إِلا ابْنَتِي، أَفَأَتَصَدَّقُ بِالثُّلُثَيْنِ؟ قَالَ: < لا >، قَالَ: فَبِالشَّطْرِ؟ قَالَ: < لا > قَالَ: فَبِالثُّلُثِ؟ قَالَ: <الثُّلُثُ، وَالثُّلُثُ كَثِيرٌ، إِنَّكَ أَنْ تَتْرُكَ وَرَثَتَكَ أَغْنِيَائَ خَيْرٌ مِنْ أَنْ تَدَعَهُمْ عَالَةً يَتَكَفَّفُونَ النَّاسَ، وَإِنَّكَ لَنْ تُنْفِقَ نَفَقَةً إِلا أُجِرْتَ بِهَا، حَتَّى اللُّقْمَةُ تَرْفَعُهَا إِلَى فِي امْرَأَتِكِ >، قُلْتُ: يَارَسُولَ اللَّهِ! أَتَخَلَّفُ عَنْ هِجْرَتِي؟ قَالَ: < إِنَّكَ إِنْ تُخَلَّفْ بَعْدِي، فَتَعْمَلَ عَمَلا [صَالِحًا] تُرِيدُ بِهِ وَجْهَ اللَّهِ لا تَزْدَادُ بِهِ إِلا رِفْعَةً وَدَرَجَةً، لَعَلَّكَ أَنْ تُخَلَّفَ حَتَّى يَنْتَفِعَ بِكَ أَقْوَامٌ وَيُضَرَّ بِكَ آخَرُونَ>، ثُمَّ قَالَ: < اللَّهُمَّ أَمْضِ لأَصْحَابِي هِجْرَتَهُمْ، وَلا تَرُدَّهُمْ عَلَى أَعْقَابِهِمْ >، لَكِنِ الْبَائِسُ سَعْدُ بْنُ خَوْلَةَ، يَرْثِي لَهُ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَنْ مَاتَ بِمَكَّةَ ۔
* تخريج: خ/الجنائز ۳۶ (۱۲۹۵)، الوصایا ۲ (۲۷۴۲)، ۳ (۲۷۴۴)، مناقب الأنصار ۴۹ (۳۹۳۶)، المغازي ۷۷ (۴۳۹۵)، النفقات ۱ (۵۳۵۴)، المرضی ۱۳ (۵۶۵۹)، ۱۶ (۵۶۶۸)، الدعوات ۴۳ (۶۳۷۳)، الفرائض ۶ (۶۷۳۳)، م/الوصایا ۲ (۱۶۲۸)، ت/الجنائز ۶ (۹۷۵)، الوصایا ۱ (۲۱۱۷)، ن/الوصایا ۳ (۳۶۲۸)، ق/الوصایا ۵ (۲۷۰۸)، (تحفۃ الأشراف:۳۸۹۰)، وقد أخرجہ: ط/الوصایا ۳ (۴)، حم (۱/۱۶۸، ۱۷۲، ۱۷۶، ۱۷۹)، دی/ الوصایا ۷ (۳۲۳۸) (صحیح)
۲۸۶۴- سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ وہ بیمار ہوئے (ابن ابی خلف کی روایت میں ہے: مکہ میں،آگے دونوں راوی متفق ہیں کہ) اس بیماری میں وہ مرنے کے قریب پہنچ گئے تو رسول اللہ ﷺ نے ان کی عیادت فرمائی، تو میں نے کہا: اللہ کے رسول ! میں بہت مالدار ہو ں اور میری بیٹی کے سوا میرا کوئی وارث نہیں، کیا میں اپنے مال کا دو تہائی صدقہ کردوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ''نہیں''، پوچھا :کیا آدھا مال صدقہ کردوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ''نہیں''، پھر پوچھا: تہائی مال خیرات کردوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ''تہائی مال (دے سکتے ہو) اور تہائی مال بھی بہت ہے، تمہارا اپنے ورثاء کو مالدار چھوڑنا اس سے بہتر ہے کہ تم انہیں محتاج چھوڑ کر جائو وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں، اور جو چیز بھی تم اللہ کی رضامندی کے لئے خرچ کرو گے اس کا ثواب تمہیں ملے گا، یہاں تک کہ تم اپنی بیوی کے منہ میں لقمہ اٹھا کر دوگے تو اس کا ثوا ب بھی پائوگے'' ۱؎ ، میں نے کہا :اللہ کے رسول! کیا میں ہجرت سے پیچھے رہ جائوں گا؟ (یعنی آپ ﷺ مکہ سے چلے جائیں گے، اور میں اپنی بیماری کی وجہ سے مکہ ہی میں رہ جائوں گا، جب کہ صحابہ مکہ چھو ڑ کر ہجرت کر چکے تھے )، آپ ﷺ نے فرمایا:'' اگرتم پیچھے رہ گئے، اور میرے بعد میرے غائبانہ میں بھی نیک عمل اللہ کی رضامندی کے لئے کرتے رہے تو تمہارا درجہ بلند رہے گا،امید ہے کہ تم زندہ رہو گے، یہاں تک کہ تمہاری ذات سے کچھ اقوام کو فائدہ پہنچے گا اور کچھ کو نقصان وتکلیف ۲؎ ''، پھر آپ ﷺ نے دعا فرمائی کہ:'' اے اللہ! میرے اصحاب کی ہجرت مکمل فرما، اور انہیں ان کے ایڑیوں کے بل پیچھے کی طرف نہ پلٹا''،لیکن بیچارے سعد بن خولہ رضی اللہ عنہ ان کے لئے رسول اللہ ﷺ رنج وافسوس کا اظہار فرماتے تھے کہ وہ مکہ ہی میں انتقال فرماگئے ۳؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ وارثوں کا حق فقیروں پر مقدم ہے، اور تہائی سے زیادہ وصیت درست نہیں، اور بیوی بچوں پر خرچ کرنے میں بھی ثواب ہے، بشرطیکہ اسے اللہ تعالی کا حکم سمجھ کر خرچ کرے۔
وضاحت ۲؎ : چنانچہ ایسا ہی ہوا وہ اس کے بعد (۴۵) سال تک زندہ رہے ، اور جنگ قادسیہ وغیرہ میں مسلم فوج کے قائد وسربراہ رہے اور رب العزت نے ان کے ہاتھوں مسلمانوں کو فتح وکامرانی سے نوازا، جب کہ مشرکین کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
وضاحت ۳؎ : سعد بن خولہ رضی اللہ عنہ پر رسول اللہ ﷺ نے رنج وافسوس کا اظہار اس لئے کیا کہ ان کا انتقال مکہ میں ہوا، اور مکہ ہی سے وہ ہجرت کر کے گئے تھے ، اگر وہ مکہ کے علاوہ دوسری سرزمین میں وفات پاتے تو ان کا مقام ومرتبہ کچھ اور ہوتا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
3- بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ الإِضْرَارِ فِي الْوَصِيَّةِ
۳-باب: وصیت سے (ورثہ کو) نقصان پہنچانے کی کراہت کابیان​


2865- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ، حَدَّثَنَا عُمَارَةُ بْنُ الْقَعْقَاعِ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ ابْنِ عَمْرِو بْنِ جَرِيرٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَجُلٌ لِلنَّبِيِّ ﷺ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَيُّ الصَّدَقَةِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: < أَنْ تَصَدَّقَ وَأَنْتَ صَحِيحٌ حَرِيصٌ، تَأْمُلُ الْبَقَائَ، وَتَخْشَى الْفَقْرَ، وَلا تُمْهِلَ، حَتَّى إِذَا بَلَغَتِ الْحُلْقُومَ قُلْتَ: لِفُلانٍ كَذَا، وَلِفُلانٍ كَذَا، وَقَدْ كَانَ لِفُلانٍ >۔
* تخريج: خ/الزکاۃ ۱۱ (۱۴۱۹)، والوصایا ۷ (۲۷۴۸)، م/الزکاۃ ۳۱ (۱۰۳۲)، ن/الزکاۃ ۶۰ (۲۵۴۳)، الوصایا ۱ (۳۶۴۱)، (تحفۃ الأشراف:۱۴۹۰۰)، وقد أخرجہ: حم (۲/۲۳۱، ۲۵۰، ۴۱۵، ۴۴۷) (صحیح)
۲۸۶۵- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی اکرم ﷺ سے عرض کیا :کون سا صدقہ افضل ہے؟ آپ ﷺ نے فرما یا: ''وہ جسے تم صحت و حرص کی حالت میں کرو،اور تمہیں زندگی کی امید ہو،اور محتاجی کا خوف ہو، یہ نہیں کہ تم اسے مر نے کے وقت کے لئے اٹھا رکھو یہاں تک کہ جب جان حلق میں اٹکنے لگے توکہو کہ: فلاں کو اتنا دے دینا، فلاں کو اتنا ، حالانکہ اس وقت وہ فلاں کا ہو چکا ہوگا'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی مرتے وقت جب مال کے وارث اس کے حق دار ہوگئے تو صدقہ کے ذریعہ ان کے حق میں خلل ڈالنا مناسب نہیں، بہتر یہ ہے کہ حالت صحت میں صدقہ کرے کیونکہ یہ اس کے لئے زیادہ باعث ثواب ہوگا۔


2866- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ، أَخْبَرَنِي ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ شُرَحْبِيلَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < لأَنْ يَتَصَدَّقَ الْمَرْئُ فِي حَيَاتِهِ بِدِرْهَمٍ خَيْرٌ لَهُ مِنْ أَنْ يَتَصَدَّقَ بِمِائَةِ [دِرْهَمٍ] عِنْدَ مَوْتِهِ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف:۴۰۷۱) (ضعیف)
(اس کے راوی ''شرحبیل'' آخرعمرمیں مختلط ہوگئے تھے)
۲۸۶۶- ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''آدمی کا اپنی زندگی میں( جب تندرست ہو) ایک درہم خیر ات کر دینا اس سے بہتر ہے کہ مرتے وقت سو درہم خیر ات کر ے ''۔


2867- حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ، أَخْبَرَنَا عَبْدُالْصَّمَدِ، حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْحُدَّانِيُّ، حَدَّثَنَا الأَشْعَثُ بْنُ جَابِرٍ، حَدَّثَنِي شَهْرُ بْنُ حَوْشَبٍ أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ حَدَّثَهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < إِنَّ الرَّجُلَ لَيَعْمَلُ وَالْمَرْأَةُ بِطَاعَةِ اللَّهِ سِتِّينَ سَنَةً ثُمَّ يَحْضُرُهُمَا الْمَوْتُ فَيُضَارَّانِ فِي الْوَصِيَّةِ فَتَجِبُ لَهُمَا النَّارُ>، قَالَ: وَقَرَأَ عَلَيَّ أَبُو هُرَيْرَةَ مِنْ هَا هُنَا: {مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصَى بِهَا أَوْ دَيْنٍ غَيْرَ مُضَارٍّ} حَتَّى بَلَغَ: {ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ}.
[قَالَ أَبو دَاود: هَذَا -يَعْنِي الأَشْعَثَ بْنَ جَابِرٍ- جَدُّ نَصْرِ بْنِ عَلِيٍّ]۔
* تخريج: ت/الوصایا ۲ (۲۱۱۷) ، ق/الوصایا ۳ (۲۷۰۴)، (تحفۃ الأشراف:۱۳۴۹۵)، وقد أخرجہ: حم (۲/۲۷۸) (ضعیف)
(اس کے راوی ''شہربن حوشب'' ضعیف ہیں)
۲۸۶۷- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' مرد اور عورت دونوں ساٹھ برس تک اللہ کی اطاعت کے کام میں لگے رہتے ہیں، پھر جب انہیں موت آنے لگتی ہے ،تو وہ غلط وصیت کر کے وارثوں کو نقصان پہنچاتے ہیں (کسی کو محروم کر دیتے ہیں، کسی کا حق کم کر دیتے ہیں) تو ان کے لئے جہنم و اجب ہو جاتی ہے''۔
شہر بن حو شب کہتے ہیں: اس مو قع پر ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے آیت کریمہ {مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصَى بِهَا أَوْ دَيْنٍ غَيْرَ مُضَارٍّ} ۱؎ پڑھی یہاں تک کہ {ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ}پر پہنچے ۔
ابوداود کہتے ہیں: یہ یعنی اشعت بن جابر؛ نصر بن علی کے دادا ہیں۔
وضاحت ۱؎ : اس وصیت کے بعد جو کی جائے اور قرض کے بعد جب کہ اوروں کا نقصان نہ کیا گیا ہو، یہ مقرر کیا ہوا اللہ کی طرف سے ہے، اور اللہ تعالیٰ دانا ہے بردبار، یہ حدیں اللہ تعالیٰ کی مقرر کی ہوئی ہیں، اور جو اللہ تعالیٰ کی اوراس کے رسول ﷺ کی فرماں برداری کرے گا اسے اللہ تعالیٰ جنتوں میں لے جائے گا جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں، جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے ،اور یہ بہت بڑی کامیابی ہے ۔ ( سورۃ النساء : ۱۱، ۱۲)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
4- بَاب مَا جَاءَ فِي الدُّخُولِ فِي الْوَصَايَا
۴-باب: وصی بننا اور ذمہ داری قبول کرنا کیسا ہے؟​


2868- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِالرَّحْمَنِ الْمُقْرِئُ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي أَيُّوبَ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ أَبِي جَعْفَرٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي سَالِمٍ الْجَيْشَانِيِّ، عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < يَا أَبَا ذَرٍّ، إِنِّي أَرَاكَ ضَعِيفًا، وَإِنِّي أُحِبُّ لَكَ مَا أُحِبُّ لِنَفْسِي، فَلا تَأَمَّرَنَّ عَلَى اثْنَيْنِ، وَلا تَوَلَّيَنَّ مَالَ يَتِيمٍ >.
[قَالَ أَبو دَاود: تَفَرَّدَ بِهِ أَهْلُ مِصْرَ]۔
* تخريج: م/الإمارۃ ۴ (۱۸۲۵) ، ن/الوصایا ۹ (۳۶۹۷)، (تحفۃ الأشراف:۱۱۹۱۹)، وقد أخرجہ: حم (۵/۱۸۰) (صحیح)
۲۸۶۸- ابو ذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا : ''اے ابو ذر! میں تمہیں ضعیف دیکھتا ہوں اور میں تمہارے لئے وہی پسند کرتا ہوں جو میں اپنے لئے پسند کر تا ہوں، تو تم دو آدمیوں پر بھی حاکم نہ ہونا، اور نہ یتیم کے مال کا ولی بننا ۱؎ ''۔
ابوداود کہتے ہیں:اس حدیث کی روایت کرنے میں اہل مصر منفرد ہیں۔
وضاحت ۱؎ : حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ جس طرح یتیم کے مال کا ولی بننااور لوگوں پر حاکم بننا ایک مشکل کام ہے اور خوف کا باعث ہے اسی طرح وصیت کرنے والے کا وصی بننا بھی ایک مشکل عمل اور باعث خوف ہے ۔
 
Top