4- بَاب كَرَاهِيَةِ اسْتِقْبَالِ الْقِبْلَةِ عِنْدَ قَضَاءِ الْحَاجَةِ
۴- باب: قضائے حاجت (پیشاب وپاخانہ) کے وقت قبلہ کی طرف منہ کرنا مکروہ ہے
7- حَدَّثَنَا مُسَدَّدُ بْنُ مُسَرْهَدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ سَلْمَانَ، قَالَ: قِيلَ لَهُ: لَقَدْ عَلَّمَكُمْ نَبِيُّكُمْ كُلَّ شَيْئٍ حَتَّى الْخِرَائَةَ! قَالَ : أَجَلْ، لَقَدْ نَهَانَا صلی اللہ علیہ وسلم أَنْ نَسْتَقْبِلَ الْقِبْلَةَ بِغَائِطٍ أَوْ بَوْلٍ، وَأَنْ لا نَسْتَنْجِيَ بِالْيَمِينِ، وَأَنْ لا يَسْتَنْجِيَ أَحَدُنَا بِأَقَلَّ مِنْ ثَلاثَةِ أَحْجَارٍ، أَوْ يسْتَنْجِيَ بِرَجِيعٍ أَوْ عَظْمٍ۔
* تخريج: م/الطھارۃ ۱۷ (۲۶۲)، ت/الطھارۃ ۱۲ (۱۶)، ن/الطھارۃ ۳۷ (۴۱)، ق/الطھارۃ ۱۶ (۳۱۶)، (تحفۃ الأشراف: ۴۵۰۵)، وقد أخرجہ: حم (۵/۴۳۷، ۴۳۸، ۴۳۹) (صحیح)
۷ - سلمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ان سے (بطور استہزاء) یہ کہا گیا کہ تمہارے نبی نے تو تمہیں سب چیزیں سکھادی ہیں حتی کہ پاخانہ کرنا بھی، تو انہوں نے( فخریہ انداز میں) کہا: ہاں، بیشک ہمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو پاخانہ اور پیشاب کے وقت قبلہ رخ ہونے، داہنے ہاتھ سے استنجا کرنے ، استنجا میں تین سے کم پتھر استعمال کرنے اورگوبر اور ہڈی سے استنجا کرنے سے منع فرمایا ہے۔
8- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلانَ، عَنِ الْقَعْقَاعِ بْنِ حَكِيمٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم : < إِنَّمَا أَنَا لَكُمْ بِمَنْزِلَةِ الْوَالِدِ أُعَلِّمُكُمْ، فَإِذَا أَتَى أَحَدُكُمُ الْغَائِطَ فَلا يَسْتَقْبِلِ الْقِبْلَةَ وَلا يَسْتَدْبِرْهَا، وَلا يَسْتَطِبْ بِيَمِينِهِ >، وَكَانَ يَأْمُرُ بِثَلاثَةِ أَحْجَارٍ، وَيَنْهَى عَنِ الرَّوْثِ وَالرِّمَّةِ۔
* تخريج: ن/الطھارۃ ۳۶ (۴۰)، ق/الطھارۃ ۱۶ (۳۱۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۸۵۹)، وقد أخرجہ: حم (۲/۲۴۷، ۲۵۰) (حسن)
۸- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’( لوگو!) میں تمہارے لئے والد کے درجے میں ہوں ،تم کو (ہر چیز) سکھاتا ہوں، تو جب تم میں سے کوئی شخص قضائے حاجت (پیشاب وپاخانہ) کے لئے جائے تو قبلہ کی طرف منہ اور پیٹھ کرکے نہ بیٹھے، اور نہ (ہی ) داہنے ہاتھ سے استنجا کرے‘‘، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ( استنجا کے لئے )تین پتھر لینے کا حکم فرماتے، اور گوبر اور ہڈی کے استعمال سے روکتے تھے۔
9- حَدَّثَنَا مُسَدَّدُ بْنُ مُسَرْهَدٍ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَزِيدَ [اللَّيْثِيِّ ]، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ رِوَايَةً قَالَ: < إِذَا أَتَيْتُمُ الْغَائِطَ فَلا تَسْتَقْبِلُوا الْقِبْلَةَ بِغَائِطٍ وَلا بَوْلٍ، وَلَكِنْ شَرِّقُوا أَوْ غَرِّبُوا >، فَقَدِمْنَا الشَّامَ فَوَجَدْنَا مَرَاحِيضَ قَدْ بُنِيَتْ قِبَلَ الْقِبْلَةِ فَكُنَّا نَنْحَرِفُ عَنْهَا وَنَسْتَغْفِرُ اللَّهَ۔
* تخريج: خ/الوضوء ۱۱ (۱۴۴)، الصلاۃ ۲۹ (۳۹۴)، م/الطھارۃ ۱۷ (۲۶۴)، ت/الطھارۃ ۶ (۸)، ن/الطھارۃ ۲۰ (۲۱)، ۲۱ (۲۲)، ق/الطھارۃ ۱۷ (۳۱۸)، (تحفۃ الأشراف: ۳۴۷۸)، وقد أخرجہ: ط/القبلۃ ۱ (۱)، حم (۵/۴۱۶، ۴۱۷، ۴۲۱)، دي/الطھارۃ ۶ (۶۹۲) (صحیح)
۹- ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تم قضا حاجت کے لئے آئو تو پاخانہ اور پیشاب کرتے وقت قبلہ رو ہو کر نہ بیٹھو، بلکہ پورب یا پچھم کی طرف رخ کر لیا کرو‘‘ ۱؎ ، (ابوایوب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ) پھر ہم ملک شام آئے تو وہاں ہمیں بیت الخلاء قبلہ رخ بنے ہوئے ملے،تو ہم پاخانہ و پیشاب کرتے وقت قبلہ کی طرف سے رخ پھیر لیتے تھے، اور اللہ سے مغفرت طلب کرتے تھے۔
وضاحت ۱؎ : اہل مدینہ کا قبلہ مدینہ سے جنوبی سمت میں واقع ہے، اسی کا لحاظ کرتے ہوئے اہل مدینہ کو مشرق یا مغرب کی جانب منہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے، اور جن کا قبلہ مشرق یا مغرب کی طرف ہے ایسے لوگ قضا حاجت کے وقت شمال یا جنوب کی طرف منہ اور پیٹھ کرکے بیٹھیں گے۔
10- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ يَحْيَى، عَنْ أَبِي زَيْدٍ، عَنْ مَعْقِلِ بْنِ أَبِي مَعْقِلٍ الأَسَدِيِّ قَالَ: < نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم أَنْ نَسْتَقْبِلَ الْقِبْلَتَيْنِ بِبَوْلٍ أَوْ غَائِطٍ >۔
قَالَ أَبو دَاود: وَأَبُو زَيْدٍ هُوَ مَوْلَى بَنِي ثَعْلَبَةَ۔
* تخريج: ق/الطھارۃ ۱۷ (۳۱۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۴۶۳)، وقد أخرجہ: حم (۴/۲۱۰) (منکر)
(سند میں واقع راوی ’’ابوزید‘‘ مجہول ہے،نیزاس نے
’’قبلتین‘‘ کہہ کر ثقات کی مخالفت کی ہے)
۱۰ - معقل بن ابی معقل اسدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشاب اور پاخانہ کے وقت دونوں قبلوں (بیت اللہ اور بیت المقدس) کی طرف منہ کرنے سے منع فرمایا ہے۔
ابو داود کہتے ہیں: ابو زید بنی ثعلبہ کے غلام ہیں۔
11- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ فَارِسٍ ، حَدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ عِيسَى، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ ذَكْوَانَ، عَنْ مَرْوَانَ الأَصْفَرِ، قَالَ: رَأَيْتُ ابْنَ عُمَرَ أَنَاخَ رَاحِلَتَهُ مُسْتَقْبِلَ الْقِبْلَةِ ثُمَّ جَلَسَ يَبُولُ إِلَيْهَا فَقُلْتُ: [يَا ] أَبَا عَبْدِالرَّحْمَنِ! أَلَيْسَ قَدْ نُهِيَ عَنْ هَذَا؟ قَالَ بَلَى، إِنَّمَا نُهِيَ عَنْ ذَلِكَ فِي الْفَضَاءِ، فَإِذَا كَانَ بَيْنَكَ وَبَيْنَ الْقِبْلَةِ شَيْئٌ يَسْتُرُكَ فَلا بَأْسَ۔
* تخريج: تفرد به أبو داود ، (تحفۃ الأشراف: ۷۴۵۱) (حسن)
۱۱- مروان اصفر کہتے ہیں: میں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کودیکھا،انہوں نے قبلہ کی طرف اپنی سواری بٹھائی پھر بیٹھ کر اسی کی طرف رخ کرکے پیشاب کرنے لگے، میں نے پوچھا: ابو عبدالرحمن! ( عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی کنیت ہے) کیا اس سے منع نہیں کیا گیا ہے؟ تو انہوں نے جوب دیا :کیوں نہیں،اس سے صرف میدان میں روکا گیا ہے لیکن جب تمہارے اور قبلہ کے بیچ میں کوئی ایسی چیز ہو جوتمہارے لئے آڑ ہو تو کوئی حرج نہیں ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : گویا قضائے حاجت (پیشاب وپاخانہ) کے وقت کھلی جگہ میں قبلہ کی طرف منہ یا پیٹھ کرنا منع ہے البتہ ایسی جگہ جہاں قبلہ کی طرف سے کوئی چیز آڑ کا کام دے وہاں قبلہ کی طرف منہ یا پیٹھ کرکے قضائے حاجت (پیشاب وپاخانہ) کرنے میں کوئی حرج نہیں ، لیکن احتیاط کی بات یہی ہے کہ ہر جگہ قبلہ کا احترام ملحوظ رہے۔