• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابو داود

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
30- بَاب فِي أَخْذِ الْجِزْيَةِ
۳۰-باب: جز یہ لینے کا بیان​


3037- حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِالْعَظِيمِ، حَدَّثَنَا سَهْلُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي زَائِدَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، وَعَنْ عُثْمَانَ بْنِ أَبِي سُلَيْمَانَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ بَعَثَ خَالِدَ بْنَ الْوَلِيدِ إِلَى أُكَيْدِرِ دُومَةَ فَأُخِذَ فَأَتَوْهُ بِهِ فَحَقَنَ لَهُ دَمَهُ، وَصَالَحَهُ عَلَى الْجِزْيَةِ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۹۳۷، ۱۹۰۰۲) (حسن)
۳۰۳۷- انس رضی اللہ عنہ سے (مرفوعا) اور عثمان بن ابو سلیمان سے(مرسلاً) روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے خالد بن ولید کو اکیدر ۱؎دومہ کی طرف بھیجا، تو خالد اور ان کے ساتھیوں نے اسے گر فتا ر کر لیا اور آپ ﷺ کے پاس لے آئے، آپ نے اس کا خون معا ف کر دیا اور جز یہ پراس سے صلح کر لی ۔
وضاحت ۱؎ : اکیدر شہر دو مہ کا نصرا نی با د شاہ تھا اور رسول اللہ ﷺ نے اسے زندہ پکڑ لانے کا حکم دیا تھا۔


3038- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ مُعَاذٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ لَمَّا وَجَّهَهُ إِلَى الْيَمَنِ أَمَرَهُ أَنْ يَأْخُذَ مِنْ كُلِّ حَالِمٍ -يَعْنِي مُحْتَلِمًا- دِينَارًا، أَوْ عَدْلَهُ مِنَ الْمُعَافِرِيِّ، ثِيَابٌ تَكُونُ بِالْيَمَنِ۔
* تخريج: ن/الزکاۃ ۸ (۲۴۵۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۳۱۲)، وقد أخرجہ: ت/الزکاۃ ۵ (۶۲۳)، ق/الزکاۃ ۱۲ (۱۸۰۳)، حم (۵/۲۳۰، ۲۳۳، ۲۴۷) (صحیح)
۳۰۳۸- معا ذ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب نبی اکرم ﷺ نے انہیں یمن کی طرف ( حاکم بنا کر ) بھیجا، تو انہیں حکم دیا کہ ہر بالغ سے ایک دیناریا اس کے برا بر قیمت کا معا فری کپڑا جو یمن میں تیارہوتا ہے جزیہ لیں۔


3039- حَدَّثَنَا النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ مُعَاذٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ مِثْلَهُ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۳۶۳) (صحیح)
۳۰۳۹- اس سند سے بھی معاذ رضی اللہ عنہ سے اسی کے مثل مرفوعاً مروی ہے۔


3040- حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِالْعَظِيمِ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ هَانِئٍ -أَبُو نُعَيمٍ النَّخَعِيُّ- أَخْبَرَنَا شَرِيكٌ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُهَاجِرٍ، عَنْ زِيَادِ بْنِ حُدَيْرٍ قَالَ: قَالَ عَلِيٌّ: لَئِنْ بَقِيتُ لِنَصَارَى بَنِي تَغْلِبَ لأَقْتُلَنَّ الْمُقَاتِلَةَ وَلأَسْبِيَنَّ الذُّرِّيَّةَ، فَإِنِّي كَتَبْتُ الْكِتَابَ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ النَّبِيِّ ﷺ عَلَى أَنْ لايُنَصِّرُوا أَبْنَائَهُمْ.
قَالَ أَبو دَاود: هَذَا حَدِيثٌ مُنْكَرٌ، بَلَغَنِي عَنْ أَحْمَدَ أَنَّه كَانَ يُنْكِرُ هَذَا الْحَدِيثَ إِنْكَارًا شَدِيدًا.
قَالَ أَبُو عَلِيٍّ: وَلَمْ يَقْرَأْهُ أَبُو دَاوُدَ فِي الْعَرْضَةِ الثَّانِيَةِ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۰۹۷) (ضعیف الإسناد)
(اس کے راوۃ ’’عبد الرحمن‘‘ ’’شریک‘‘ اور ’’ابراہیم‘‘ حافظے کے کمزورراوی ہیں)
۳۰۴۰- زیاد بن حدیر کہتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ نے کہا: اگر میں زندہ رہا تو بنی تغلب کے نصاری کے لڑ نے کے قابل لوگوں کو قتل کر دوں گا اور ان کی اولاد کو قیدی بنا لوں گا کیونکہ ان کے اور نبی اکرم ﷺ کے درمیان جو معاہدہ ہوا تھا وہ عہد نامہ میں نے ہی لکھا تھا اس میں تھا کہ وہ اپنی اولاد کو نصرانی نہ بنائیں گے ۔
ابوداود کہتے ہیں: یہ حدیث منکر ہے اور مجھے معلوم ہوا ہے کہ امام احمد بھی اس حدیث کا نہایت سختی سے انکار کرتے تھے۔
ابوعلی کہتے ہیں : ابوداود نے دوسری با ر جب اس کتاب کو سنا یا تو اس میں اس حدیث کو نہیں پڑھا۔


3041- حَدَّثَنَا مُصَرِّفُ بْنُ عَمْرٍو الْيَامِيُّ، حَدَّثَنَا يُونُسُ -يَعْنِي ابْنَ بُكَيْرٍ- حَدَّثَنَا أَسْبَاطُ بْنُ نَصْرٍ الْهَمْدَانِيُّ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ الْقُرَشِيِّ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: صَالَحَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَهْلَ نَجْرَانَ عَلَى أَلْفَيْ حُلَّةٍ، النِّصْفُ فِي صَفَرٍ وَالْبَقِيَّةُ فِي رَجَبٍ، يُؤَدُّونَهَا إِلَى الْمُسْلِمِينَ، وَعَارِية ثَلاثِينَ دِرْعًا وَثَلاثِينَ فَرَسًا وَثَلاثِينَ بَعِيرًا وَثَلاثِينَ مِنْ كُلِّ صِنْفٍ مِنْ أَصْنَافِ السِّلاحِ يَغْزُونَ بِهَا، وَالْمُسْلِمُونَ ضَامِنُونَ لَهَا حَتَّى يَرُدُّوهَا عَلَيْهِمْ إِنْ كَانَ بِالْيَمَنِ كَيْدٌ أَوْ غَدْرَةٌ: عَلَى أَنْ لا تُهْدَمَ لَهُمْ بِيْعَةٌ، وَلا يُخْرَجَ لَهُمْ قَسٌّ، وَلا يُفْتَنُوا عَنْ دِينِهِمْ، مَا لَمْ يُحْدِثُوا حَدَثًا أَوْ يَأْكُلُوا الرِّبَا، قَالَ إِسْمَاعِيلُ: فَقَدْ أَكَلُوا الرِّبَا.
[قَالَ أَبو دَاود: إِذَا نَقَضُوا بَعْضَ مَا اشْتُرِطَ عَلَيْهِمْ فَقَدْ أَحْدَثُوا]۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۵۳۶۱) (ضعیف الإسناد)
(اس کے راوی ’’اسماعیل سدی ‘‘ کا ’’ابن عباس ‘‘ سے سماع ثابت نہیں)
۳۰۴۱- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اہل نجران سے اس شرط پر صلح کی کہ وہ کپڑوں کے دو ہز ار جوڑے مسلمانوں کو دیا کر یں گے،آدھا صفرمیں دیں، اور با قی ماہ رجب میں، اور تیس زر ہیں، تیس گھوڑے اورتیس اونٹ اور ہر قسم کے ہتھیا روں میں سے تیس تیس ہتھیا ر جس سے مسلمان جہا د کریں گے بطور عاریت دیں گے، اور مسلمان ان کے ضامن ہوں گے اور ( ضرورت پوری ہو جانے پر ) انہیں لوٹا دیں گے اور یہ عا ریۃً دینا اس وقت ہو گا جب یمن میں کوئی فریب کرے (یعنی سا زش کر کے نقصان پہنچانا چاہے ) یا مسلمانوں سے غداری کرے اور عہد تو ڑے ( اور وہاں جنگ در پیش ہو )اس شرط پر کہ ان کا کوئی گر جا نہ گرا یا جائے گا، اور کوئی پا دری نہ نکا لا جائے گا، اور ان کے دین میں مدا خلت نہ کی جائے گی، جب تک کہ وہ کوئی نئی با ت نہ پیدا کریں یا سود نہ کھانے لگیں ۔
اسماعیل سدی کہتے ہیں: پھر وہ سود کھانے لگے ۔
ابو داود کہتے ہیں: جب انہوں نے اپنے اوپر لا گو بعض شرائط تو ڑدیں تو نئی بات پیداکرلی (اوروہ ملک عرب سے نکال دئے گئے)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
31- بَاب فِي أَخْذِ الْجِزْيَةِ مِنَ الْمَجُوسِ
۳۱-باب: مجوس سے جز یہ لینے کا بیان​


3042- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سِنَانٍ الْوَاسِطِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِلالٍ، عَنْ عِمْرَانَ الْقَطَّانِ، عَنْ أَبِي جَمْرَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: إِنَّ أَهْلَ فَارِسَ لَمَّا مَاتَ نَبِيُّهُمْ كَتَبَ لَهُمْ إِبْلِيسُ الْمَجُوسِيَّةَ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود (حسن الإسناد)
۳۰۴۲- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جب اہل فارس کے نبی مر گئے تو ابلیس نے انہیں مجوسیت ( یعنی آگ پوجنے ) پر لگا دیا ۔


3043- حَدَّثَنَا مُسَدَّدُ [بْنُ مُسَرْهَدٍ]، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، سَمِعَ بَجَالَةَ يُحَدِّثُ عَمْرَو بْنَ أَوْسٍ وَأَبَا الشَّعْثَاءِ قَالَ: كُنْتُ كَاتِبًا لِجَزْءِ بْنِ مُعَاوِيَةَ عَمِّ الأَحْنَفِ بْنِ قَيْسٍ إِذْ جَائَنَا كِتَابُ عُمَرَ قَبْلَ مَوْتِهِ بِسَنَةٍ: اقْتُلُوا كُلَّ سَاحِرٍ، وَفَرِّقُوا بَيْنَ كُلِّ ذِي مَحْرَمٍ مِنَ الْمَجُوسِ، وَانْهَوْهُمْ عَنِ الزَّمْزَمَةِ، فَقَتَلْنَا فِي يَوْمٍ ثَلاثَةَ سَوَاحِرَ، وَفَرَّقْنَا بَيْنَ كُلِّ رَجُلٍ مِنَ الْمَجُوسِ وَحَرِيمِهِ فِي كِتَابِ اللَّهِ، وَصَنَعَ طَعَامًا كَثِيرًا فَدَعَاهُمْ فَعَرَضَ السَّيْفَ عَلَى فَخْذِهِ فَأَكَلُوا وَلَمْ يُزَمْزِمُوا، وَأَلْقَوْا وِقْرَ بَغْلٍ أَوْ بَغْلَيْنِ مِنَ الْوَرِقِ، وَلَمْ يَكُنْ عُمَرُ أَخَذَ الْجِزْيَةَ مِنَ الْمَجُوسِ حَتَّى شَهِدَ عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ أَخَذَهَا مِنْ مَجُوسِ هَجَرَ۔
* تخريج: خ/الجزیۃ ۱ (۳۱۵۶)، ت/السیر ۳۱ (۱۵۸۶)، (تحفۃ الأشراف: ۹۷۱۷)، وقد أخرجہ: ط/الزکاۃ ۲۴ (۴۱)، حم (۱/۱۹۰، ۱۹۴) (صحیح)
۳۰۴۳- عمرو بن دینار سے روایت ہے، انہوں نے بجالہ کو عمر وبن اوس او رابو شعثاء سے بیان کرتے سنا کہ: میں احنف بن قیس کے چچا جز ء بن معاویہ کا منشی (کاتب) تھا، کہ ہمارے پاس عمر رضی اللہ عنہ کا خط ان کی وفات سے ایک سال پہلے آیا ( اس میں لکھا تھاکہ): '' ہر جادوگر کو قتل کر ڈا لو، اور مجو س کے ہر ذی محرم کو دوسرے محرم سے جدا کر دو، ۱؎ اورانہیں زمز مہ ( گنگنانے اور سُرسے آواز نکالنے) سے روک دو''، تو ہم نے ایک دن میں تین جا دو گر مار ڈالے، اور جس مجوسی کے بھی نکاح میں اس کی کوئی محرم عورت تھی تو اللہ کی کتاب کے مطابق ہم نے اس کو جداکر دیا، احنف بن قیس نے بہت سا را کھانا پکوا یا، اور انہیں ( کھانے کے لئے) بلوا بھیجا، اور تلوار اپنی ران پر رکھ کر بیٹھ گیا توانہوں نے کھانا کھا یا اور وہ گنگنائے نہیں، اور انہوں نے ایک خچر یا دو خچروں کے بو جھ کے برا بر چاندی (بطورجز یہ) لا کر ڈال دی تو عمر رضی اللہ عنہ نے مجوسیوں سے جزیہ نہیں لیا جب تک کہ عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے گوا ہی نہ دے دی کہ رسول اللہ ﷺ نے ہجر ۲؎ کے مجوسیوں سے جز یہ لیا تھا ۔
وضاحت ۱؎ : غالباً مجوسی اپنی بہن،خالہ وغیرہ سے شادی کرتے رہے ہوں گے۔
وضاحت ۲؎ : بحرین کے ایک گاؤں کانام ہے۔


3044- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مِسْكِينٍ الْيَمَامِيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَسَّانَ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا دَاوُدُ ابْنُ أَبِي هِنْدٍ، عَنْ قُشَيْرِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ بَجَالَةَ بْنِ عَبْدَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ مِنَ الأَسْبَذِيِّينَ مِنْ أَهْلِ الْبَحْرَيْنِ وَهُمْ مَجُوسُ أَهْلِ هَجَرَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم، فَمَكَثَ عِنْدَهُ ثُمَّ خَرَجَ فَسَأَلْتُهُ: مَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ فِيكُمْ؟ قَالَ: شَرٌّ، قُلْتُ: مَهْ؟ قَالَ: الإِسْلامُ أَوِ الْقَتْلُ، قَالَ: وَقَالَ عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ: قَبِلَ مِنْهُمُ الْجِزْيَةَ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَأَخَذَ النَّاسُ بِقَوْلِ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ وَتَرَكُوا مَا سَمِعْتُ أَنَا مِنَ الأَسْبَذِيِّ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۵۳۷۱، ۹۷۲۳، ۱۵۶۱۳) (ضعیف الإسناد)
(اس کے راوی ''قشیر'' مجہول الحال ہیں)
۳۰۴۴- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ بحرین کے رہنے والے اسبذیوں ۱؎ (ہجر کے مجوسیوں) میں کا ایک شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور آپ کے پاس تھوڑی دیر ٹھہرا رہا پھر نکلا تو میں نے اس سے پوچھا: اللہ اور اس کے رسول نے تم سب کے متعلق کیا فیصلہ کیا؟ وہ کہنے لگا: بُرا فیصلہ کیا، میں نے کہا: چپ (ایسی بات کہتا ہے) اس پر اس نے کہا: فیصلہ کیا ہے کہ یا تو اسلام لائو یا قتل ہو جائو ۔
ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں : عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ نے ان سے جزیہ لینا قبول کرلیا۔
ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: تو لوگوں نے عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کے قول پر عمل کیا اور اسبذی سے جو میں نے سنا تھا اسے چھوڑ دیا (عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کے مقابل میں کافر اسبذی کے قول کا کیا اعتبار)۔
وضاحت ۱؎ : ا سبذی منسوب ہے اسپ کی طرف، اسپ فارسی میں گھوڑے کو کہتے ہیں، ممکن ہے وہ یا اس کے باپ دادا گھوڑے کو پوجتے رہے ہوں اسی وجہ سے انہیں اسبذی کہا جاتا ہو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
32- بَاب فِي التَّشْدِيدِ فِي جِبَايَةِ الْجِزْيَةِ
۳۲-باب: جز یہ کے وصو ل کرنے میں ظلم کرنا ناجائز ہے​


3045- حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْمَهْرِيُّ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ أَنَّ هِشَامَ بْنَ حَكِيمِ [بْنِ حِزَامٍ] وَجَدَ رَجُلا وَهُوَ عَلَى حِمْصَ يُشَمِّسُ نَاسًا مِنَ الْقِبْطِ فِي أَدَاءِ الْجِزْيَةِ، فَقَالَ: مَا هَذَا؟! سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < إِنَّ اللَّهَ يُعَذِّبُ الَّذِينَ يُعَذِّبُونَ النَّاسَ فِي الدُّنْيَا >۔
* تخريج: م/البر والصلۃ ۳۳ (۲۶۱۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۷۳۰)، وقد أخرجہ: حم (۳/۴۰۴، ۴۶۸) (صحیح)
۳۰۴۵- عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ ہشام بن حکیم بن حزام رضی اللہ عنہما نے حمص کے ایک عامل (محصل) کو دیکھا کہ وہ کچھ قبطیوں (عیسائیوں) سے جزیہ وصول کرنے کے لئے انہیں دھوپ میں کھڑا کر کے تکلیف دے رہا تھا، تو انہوں نے کہا: یہ کیا ہے؟ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے کہ '' اللہ عز وجل ایسے لوگوں کو عذاب دے گا جو دنیا میں لوگوں کو عذاب دیا کرتے ہیں'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی ظلم کرتے ہیں،اور لوگوں کو جرم اور قصور سے زیادہ سزا دیتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
33- بَاب فِي تَعْشِيرِ أَهْلِ الذِّمَّةِ إِذَا اخْتَلَفُوا بِالتِّجَارَاتِ
۳۳-باب: ذمی مالِ تجارت لے کر پھریں تو ان سے عشر(دسواںحصہ) وصول کیاجائے گا​


3046- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ، حَدَّثَنَا عَطَاءُ بْنُ السَّائِبِ، عَنْ حَرْبِ بْنِ عُبَيْدِاللَّهِ، عَنْ جَدِّهِ أَبِي أُمِّهِ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم: < إِنَّمَا الْعُشُورُ عَلَى الْيَهُودِ وَالنَّصَارَى، وَلَيْسَ عَلَى الْمُسْلِمِينَ عُشُورٌ >۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۵۴۶، ۱۸۴۸۹)، وقد أخرجہ: حم (۳/۴۷۴، ۴/۳۲۲) (ضعیف)
(اس کے راوی ’’حرب بن عبیداللہ‘‘ لین الحدیث ہیں نیز ان کے شیخ کے بارے میں سخت اضطراب ہے، دیکھیں اگلی روایتوں کی سند یں)
۳۰۴۶- حرب بن عبیداللہ کے نانا (جوبنی تغلب سے ہیں) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’عشر( دسواں حصہ ) یہودو نصاریٰ سے لیا جائے گا اور مسلمانوں پردسواں حصہ( مال تجارت میں) نہیں ہے (بلکہ ان سے چالیسواں حصہ لیا جائے گا ۔ البتہ پیداوار اور زراعت میں ان سے دسواں حصہ لیا جائے گا )‘‘۔


3047- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ الْمُحَارِبِيُّ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ حَرْبِ بْنِ عُبَيْدِاللَّهِ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ بِمَعْنَاهُ، قَالَ: < خَرَاجٌ > مَكَانَ: <الْعُشُورِ>۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۵۴۶، ۱۸۴۸۹) (ضعیف)
(حرب بن عبیداللہ لین الحدیث ہیں، نیز روایت مرسل ہے)
۳۰۴۷- حرب بن عبیداللہ سے اسی مفہوم کی حدیث مرفو عاً مروی ہے لیکن ’’عشور‘‘ کی جگہ ’’ خراج‘‘ کا لفظ ہے۔


3048- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَطَاء، عَنْ رَجُلٍ مِنْ بَكْرِ بْنِ وَائِلٍ، عَنْ خَالِهِ قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! أُعَشِّرُ قَوْمِي؟ قَالَ: <إِنَّمَا الْعُشُورُ عَلَى الْيَهُودِ وَالنَّصَارَى >۔
* تخريج: انظر حدیث رقم : (۳۰۴۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۵۴۶، ۱۸۴۸۹) (ضعیف)
(اس کے سند میں ’’بکربن وائل‘‘ اور ان کے ماموں مجہول ہیں)
۳۰۴۸- عطا سے روایت ہے، انہوں نے ( قبیلہ ) بکر بن وائل کے ایک شخص سے اس نے اپنے ما موں سے روایت کیا ہے وہ کہتے ہیں: میں نے کہا : اللہ کے رسول ! کیا میں اپنی قوم سے (اموال تجا رت میں)دسواں حصہ لیا کروں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’دسواں حصہ یہودو نصاریٰ پر ہے‘‘۔


3049- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْبَزَّازُ، حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالسَّلامِ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ حَرْبِ بْنِ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ عُمَيْرٍ الثَّقَفِيِّ، عَنْ جَدِّهِ -رَجُلٍ مِنْ بَنِي تَغْلِبَ- قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ فَأَسْلَمْتُ وَعَلَّمَنِي الإِسْلامَ، وَعَلَّمَنِي كَيْفَ آخُذُ الصَّدَقَةَ مِنْ قَوْمِي مِمَّنْ أَسْلَمَ، ثُمَّ رَجَعْتُ إِلَيْهِ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! كُلُّ مَا عَلَّمْتَنِي قَدْ حَفِظْتُهُ إِلا الصَّدَقَةَ، أَفَأُعَشِّرُهُمْ؟ قَالَ: < لا، إِنَّمَا الْعُشُورُ عَلَى النَّصَارَى وَالْيَهُودِ >۔
* تخريج: انظر حدیث رقم : (۳۰۴۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۵۴۶، ۱۸۴۸۹) (ضعیف)
(حرب ضعیف ہیں)
۳۰۴۹- حرب بن عبیدا للہ کے نانا جو بنی تغلب سے تعلق رکھتے تھے کہتے ہیں:میں نبی اکرم ﷺ کے پاس مسلمان ہوکر آیا،آپ نے مجھے اسلام سکھایا، اور مجھے بتایا کہ میں اپنی قوم کے ان لوگوں سے جوا سلام لے آئیں کس طرح سے صدقہ لیا کروں، پھر میں آپ کے پاس لو ٹ کر آیا اورمیں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! جو آپ نے مجھے سکھایا تھا سب مجھے یا د ہے، سوائے صدقہ کے کیا میں اپنی قوم سے دسواں حصہ لیا کروں؟آپ ﷺ نے فرمایا: ’’نہیں، دسواں حصہ تو یہود و نصا ریٰ پر ہے ‘‘۔


3050- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا أَشْعَثُ بْنُ شُعْبَةَ، حَدَّثَنَا أَرْطَاةُ بْنُ الْمُنْذِرِ قَالَ: سَمِعْتُ حَكِيمَ بْنَ عُمَيْرٍ أَبَا الأَحْوَصِ يُحَدِّثُ، عَنِ الْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ السُّلَمِيِّ، قَالَ: نَزَلْنَا مَعَ النَّبِيِّ ﷺ خَيْبَرَ وَمَعَهُ مَنْ مَعَهُ مِنْ أَصْحَابِهِ، وَكَانَ صَاحِبُ خَيْبَرَ رَجُلا مَارِدًا مُنْكَرًا، فَأَقْبَلَ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ! أَلَكُمْ أَنْ تَذْبَحُوا حُمُرَنَا، وَتَأْكُلُوا ثَمَرَنَا، وَتَضْرِبُوا نِسَائَنَا؟! فَغَضِبَ -يَعْنِي النَّبِيَّ ﷺ - وَقَالَ: < يَا ابْنَ عَوْفٍ ارْكَبْ فَرَسَكَ >، ثُمَّ نَادِ: < أَلا إِنَّ الْجَنَّةَ لا تَحِلُّ إِلا لِمُؤْمِنٍ، وَأَنِ اجْتَمِعُوا لِلصَّلاةِ >، قَالَ: فَاجْتَمَعُوا ثُمَّ صَلَّى بِهِمُ النَّبِيُّ ﷺ ثُمَّ قَامَ فَقَالَ: < أَيَحْسَبُ أَحَدُكُمْ مُتَّكِئًا عَلَى أَرِيكَتِهِ قَدْ يَظُنُّ أَنَّ اللَّهَ لَمْ يُحَرِّمْ شَيْئًا إِلا مَا فِي هَذَا الْقُرْآنِ، أَلا وَإِنِّي وَاللَّهِ قَدْ وَعَظْتُ وَأَمَرْتُ وَنَهَيْتُ عَنْ أَشْيَاءَ، إِنَّهَا لَمِثْلُ الْقُرْآنِ أَوْ أَكْثَرُ، وَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لَمْ يُحِلَّ لَكُمْ أَنْ تَدْخُلُوا بُيُوتَ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلا بِإِذْنٍ، وَلا ضَرْبَ نِسَائِهِمْ، وَلا أَكْلَ ثِمَارِهِمْ، إِذَا أَعْطَوْكُمِ الَّذِي عَلَيْهِمْ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۹۸۸۶) (ضعیف)
(اس کے راوی ’’اشعث‘‘ لین الحدیث ہیں)
۳۰۵۰- عرباض بن ساریہ سلمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہم نے نبی اکرم ﷺ کے ساتھ خیبر میں پڑائو کیا، جو لوگ آپ کے اصحاب میں سے آپ کے ساتھ تھے وہ بھی تھے، خیبر کا رئیس سرکش وشریر شخص تھا وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور کہنے لگا: محمد!کیا تمہارے لئے روا ہے کہ ہمارے گدھوں کو ذبح کر ڈالو، ہمارے پھل کھاؤ، اور ہماری عورتوں کو مارو پیٹو؟ (یہ سن کر) رسول اللہ ﷺ غصہ ہوئے، اور عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ’’عبدالرحمن! اپنے گھوڑے پر سوار ہوکر اعلان کردو کہ جنت سوائے مومن کے کسی کے لئے حلال نہیں ہے، اور سب لوگ صلاۃ کے لئے جمع ہو جائو‘‘، تو سب لوگ اکٹھا ہوگئے، نبی اکرم ﷺ نے انہیں صلاۃ پڑھائی پھر کھڑے ہو کر فرمایا: ’’کیاتم میں سے کوئی شخص اپنی مسند پر تکیہ لگائے بیٹھ کر یہ سمجھتا ہے کہ اللہ نے اس قرآن میں جو کچھ حرام کیا اس کے سوا اور کچھ حرام نہیں ہے؟ خبر دار! سن لو میں نے تمہیں کچھ باتوں کی نصیحت کی ہے، کچھ باتوں کا حکم دیا ہے اور کچھ باتوں سے روکا ہے، وہ باتیں بھی ویسی ہی (اہم اور ضروری) ہیں جیسی وہ باتیں جن کا ذکر قرآن میں ہے یا ان سے بھی زیادہ ۱؎، اللہ نے تمہیں بغیر اجازت اہل کتاب کے گھروں میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی ہے، اور نہ ہی ان کی عورتوں کو مارنے وستانے کی، اور نہ ہی ان کے پھل کھانے کی، جب تک کہ وہ تمہیں وہ چیزیں دیتے رہیں جو تمہارا ان پر ہے (یعنی جزیہ)‘‘۔
وضاحت ۱؎ : یعنی حدیث پر بھی قرآن کی طرح عمل واجب اور ضروری ہے، یہ نہ سمجھو کہ جو قرآن میں نہیں ہے اس پر عمل کرنا ضروری نہیں، رسول اللہ ﷺ نے جس بات کا حکم دیا ہے، وہ اصل میں اللہ ہی کا حکم ہے، اسی طرح جن باتوں سے آپ ﷺ نے روکا ہے ان سے اللہ تعالی نے روکا ہے، ارشاد باری ہے :{وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا} (سورۃ الحشر: ۷)۔


3051- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ وَسَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ قَالا: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ هِلالٍ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ ثَقِيفٍ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ جُهَيْنَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم: < لَعَلَّكُمْ تُقَاتِلُونَ قَوْمًا فَتَظْهَرُونَ عَلَيْهِمْ فَيَتَّقُونَكُمْ بِأَمْوَالِهِمْ دُونَ أَنْفُسِهِمْ وَأَبْنَائِهِمْ >، قَالَ سَعِيدٌ فِي حَدِيثِهِ: < فَيُصَالِحُونَكُمْ عَلَى صُلْحٍ >، ثُمَّ اتَّفَقَا: < فَلا تُصِيبُوا مِنْهُمْ [شَيْئًا] فَوْقَ ذَلِكَ؛ فَإِنَّهُ لا يَصْلُحُ لَكُمْ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۷۰۷) (ضعیف) (’’رجل من ثقیف‘‘
مبہم مجہول راوی ہے)
۳۰۵۱- جہینہ کے ایک شخص کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ایسا ہو سکتا ہے کہ تم ایک قوم سے لڑو اور اس پر غالب آجائو تو وہ تمہیں مال (جزیہ) دے کر اپنی جانوں اور اپنی اولاد کو تم سے بچالیں ‘‘۔
سعید کی روایت میں ہے: ’’فَيُصَالِحُونَكُمْ عَلَى صُلْحٍ‘‘ پھر وہ تم سے صلح پر مصالحت کر لیں پھر ( مسدد اور سعید بن منصور دونوں راوی آگے کی بات پر ) متفق ہو گئے کہ: جتنے پر مصالحت ہو گئی ہو اس سے زیادہ کچھ بھی نہ لینا کیونکہ یہ تمہارے واسطے درست نہیں ہے۔


3052- حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْمَهْرِيُّ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنِي أَبُو صَخْرٍ الْمَدِينِيُّ أَنَّ صَفْوَانَ بْنَ سُلَيْمٍ أَخْبَرَهُ عَنْ عِدَّةٍ مِنْ أَبْنَاءِ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم، عَنْ آبَائِهِمْ دِنْيَةً، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < أَلا! مَنْ ظَلَمَ مُعَاهِدًا أَوِ انْتَقَصَهُ أَوْ كَلَّفَهُ فَوْقَ طَاقَتِهِ أَوْ أَخَذَ مِنْهُ شَيْئًا بِغَيْرِ طِيبِ نَفْسٍ فَأَنَا حَجِيجُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۷۰۵) (صحیح)
۳۰۵۲- ابوصخرمدینی کا بیان ہے کہ صفوان بن سلیم نے رسول اللہﷺ کے اصحا ب کے کچھ بیٹوں سے اور انہوں نے اپنے آبائسے(جو ایک دوسرے کے عزیز تھے) اور انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’سنو!جس نے کسی ذمی پر ظلم کیا یا اس کا کوئی حق چھینا یا اس کی طاقت سے زیادہ اس پر بو جھ ڈا لا یا اس کی کوئی چیز بغیر اس کی مرضی کے لے لی تو قیامت کے دن میں اس کی طرف سے ’’وکیل‘‘ ۱؎ہو ں گا‘‘۔
وضاحت ۱؎ : حدیث میں حجیج کا لفظ ہے یعنی میں اس کے دعوے کی و کالت کروں گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
34- بَاب فِي الذِّمِّيِّ يُسْلِمُ فِي بَعْضِ السَّنَةِ هَلْ عَلَيْهِ جِزْيَةٌ
۳۴-باب: ذمی اگر دورانِ سال مسلمان ہوجائے تو کیا اس سے گزری مدت کاجزیہ لیاجائے گا ؟​


3053- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ الْجَرَّاحِ، عَنْ جَرِيرٍ، عَنْ قَابُوسَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم: < لَيْسَ عَلَى الْمُسْلِمِ جِزْيَةٌ >۔
* تخريج: ت/الزکاۃ ۱۱ (۶۳۴)، (تحفۃ الأشراف: ۵۴۰۰)، وقد أخرجہ: حم (۱/۲۸۵) (ضعیف)
(اس کے راوی ''قابوس'' لین الحدیث ہیں)
۳۰۵۳- عبداللہ بن عبا س رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:''مسلمان پر جز یہ نہیں ہے''۔


3054- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ قَالَ: سُئِلَ سُفْيَانُ عَنْ تَفْسِيرِ هَذَا، فَقَالَ: إِذَا أَسْلَمَ فَلاجِزْيَةَ عَلَيْهِ۔
* تخريج: (صحیح)
۳۰۵۴- محمد بن کثیرکہتے ہیں: سفیان سے اس حدیث کا مطلب ۱؎ پوچھاگیا تو انہوں نے کہا کہ جب ذمی اسلام قبول کرلے تو اس پر (اسلام لاتے وقت سال میں سے گزرے ہوئے دنوں کا)جز یہ نہ ہو گا۔
وضاحت ۱؎ : یعنی ابن عباس رضی اللہ عنہما کی مذکورہ حدیث (نمبر ۳۰۵۳) کے متعلق سوال کیا ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
35- بَاب فِي الإِمَامِ يَقْبَلُ هَدَايَا الْمُشْرِكِينَ
۳۵-باب: امام کا کفارو مشر کین سے ہد یہ قبول کرنا​


3055- حَدَّثَنَا أَبُو تَوْبَةَ الرَّبِيعُ بْنُ نَافِعٍ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ -يَعْنِي ابْنَ سَلامٍ- عَنْ زَيْدٍ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَلاَّمٍ قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُاللَّهِ الْهَوْزَنِيُّ قَالَ: لَقِيتُ بِلالاً مُؤَذِّنَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بِحَلَبَ، فَقُلْتُ: يَا بِلالُ! حَدِّثْنِي كَيْفَ كَانَتْ نَفَقَةُ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم؟ قَالَ: مَا كَانَ لَهُ شَيْئٌ، كُنْتُ أَنَا الَّذِي أَلِي ذَلِكَ مِنْهُ مُنْذُ بَعَثَهُ اللَّهُ إِلَى أَنْ تُوُفِّيَ، وَكَانَ إِذَا أَتَاهُ الإِنْسَانُ مُسْلِمًا فَرَآهُ عَارِيًا يَأْمُرُنِي فَأَنْطَلِقُ فَأَسْتَقْرِضُ فَأَشْتَرِي لَهُ الْبُرْدَةَ فَأَكْسُوهُ وَأُطْعِمُهُ، حَتَّى اعْتَرَضَنِي رَجُلٌ مِنَ الْمُشْرِكِينَ فَقَالَ: يَا بِلالُ! إِنَّ عِنْدِي سَعَةً فَلا تَسْتَقْرِضْ مِنْ أَحَدٍ إِلا مِنِّي فَفَعَلْتُ، فَلَمَّا أَنْ كَانَ ذَاتَ يَوْمٍ تَوَضَّأْتُ ثُمَّ قُمْتُ لأُؤَذِّنَ بِالصَّلاةِ، فَإِذَا الْمُشْرِكُ قَدْ أَقْبَلَ فِي عِصَابَةٍ مِنَ التُّجَّارِ، فَلَمَّا [أَنْ] رَآنِي قَالَ: يَا حَبَشِيُّ! قُلْتُ: يَا لَبَّاهُ، فَتَجَهَّمَنِي وَقَالَ لِي قَوْلا غَلِيظًا، وَقَالَ لِي: أَتَدْرِي كَمْ بَيْنَكَ وَبَيْنَ الشَّهْرِ؟ قَالَ: قُلْتُ: قَرِيبٌ، قَالَ: إِنَّمَا بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ أَرْبَعٌ، فَآخُذُكَ بِالَّذِي عَلَيْكَ فَأَرُدُّكَ تَرْعَى الْغَنَمَ كَمَا كُنْتَ قَبْلَ ذَلِكَ، فَأَخَذَ فِي نَفْسِي مَا يَأْخُذُ فِي أَنْفُسِ النَّاسِ حَتَّى إِذَا صَلَّيْتُ الْعَتَمَةَ رَجَعَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ إِلَى أَهْلِهِ فَاسْتَأْذَنْتُ عَلَيْهِ فَأَذِنَ لِي فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! بِأَبِي أَنْتَ [وَأُمِّي] إِنَّ الْمُشْرِكَ الَّذِي كُنْتُ أَتَدَيَّنُ مِنْهُ قَالَ لِي كَذَا وَكَذَا، وَلَيْسَ عِنْدَكَ مَا تَقْضِي عَنِّي وَلا عِنْدِي وَهُوَ فَاضِحِي، فَأْذَنْ لِي أَنْ آبَقَ إِلَى بَعْضِ هَؤُلاءِ الأَحْيَاءِ الَّذِينَ قَدْ أَسْلَمُوا حَتَّى يَرْزُقَ اللَّهُ رَسُولَهُ ﷺ مَا يَقْضِي عَنِّي، فَخَرَجْتُ حَتَّى إِذَا أَتَيْتُ مَنْزِلِي فَجَعَلْتُ سَيْفِي وَجِرَابِي وَنَعْلِي وَمِجَنِّي عِنْدَ رَأْسِي حَتَّى إِذَا انْشَقَّ عَمُودُ الصُّبْحِ الأَوَّلِ أَرَدْتُ أَنْ أَنْطَلِقَ فَإِذَا إِنْسَانٌ يَسْعَى يَدْعُو: يَا بِلالُ! أَجِبْ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ فَانْطَلَقْتُ حَتَّى أَتَيْتُهُ، فَإِذَا أَرْبَعُ رَكَائِبَ مُنَاخَاتٌ عَلَيْهِنَّ أَحْمَالُهُنَّ، فَاسْتَأْذَنْتُ فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم: < أَبْشِرْ، فَقَدْ جَائَكَ اللَّهُ بِقَضَائِكَ >، ثُمَّ قَالَ: <أَلَمْ تَرَ الرَّكَائِبَ الْمُنَاخَاتِ الأَرْبَعَ؟ > فَقُلْتُ: بَلَى، فَقَالَ: < إِنَّ لَكَ رِقَابَهُنَّ وَمَاعَلَيْهِنَّ فَإِنَّ عَلَيْهِنَّ كِسْوَةً وَطَعَامًا أَهْدَاهُنَّ إِلَيَّ عَظِيمُ فَدَكَ، فَاقْبِضْهُنَّ وَاقْضِ دَيْنَكَ > فَفَعَلْتُ، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ، ثُمَّ انْطَلَقْتُ إِلَى الْمَسْجِدِ، فَإِذَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ قَاعِدٌ فِي الْمَسْجِدِ، فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، فَقَالَ: < مَا فَعَلَ مَا قِبَلَكَ؟ > قُلْتُ: قَدْ قَضَى اللَّهُ كُلَّ شَيْئٍ كَانَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم، فَلَمْ يَبْقَ شَيْئٌ، قَالَ: < أَفَضَلَ شَيْئٍ؟ > قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: <انْظُرْ أَنْ تُرِيحَنِي مِنْهُ، فَإِنِّي لَسْتُ بِدَاخِلٍ عَلَى أَحَدٍ مِنْ أَهْلِي حَتَّى تُرِيحَنِي مِنْهُ > فَلَمَّا صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ الْعَتَمَةَ دَعَانِي فَقَالَ: < مَا فَعَلَ الَّذِي قِبَلَكَ > قَالَ: قُلْتُ: هُوَ مَعِي لَمْ يَأْتِنَا أَحَدٌ، فَبَاتَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فِي الْمَسْجِدِ، وَقَصَّ الْحَدِيثَ، حَتَّى إِذَا صَلَّى الْعَتَمَةَ -يَعْنِي مِنَ الْغَدِ- دَعَانِي قَالَ: < مَا فَعَلَ الَّذِي قِبَلَكَ؟ > قَالَ: قُلْتُ: قَدْ أَرَاحَكَ اللَّهُ مِنْهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَكَبَّرَ وَحَمِدَ اللَّهَ شَفَقًا مِنْ أَنْ يُدْرِكَهُ الْمَوْتُ وَعِنْدَهُ ذَلِكَ، ثُمَّ اتَّبَعْتُهُ حَتَّى [إِذَا] جَاءَ أَزْوَاجَهُ فَسَلَّمَ عَلَى امْرَأَةٍ امْرَأَةٍ، حَتَّى أَتَى مَبِيتَهُ، فَهَذَا الَّذِي سَأَلْتَنِي عَنْهُ ۔
* تخريج: تفرد بہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۲۰۴۰) (صحیح الإسناد)
۳۰۵۵- عبداللہ ہو زنی کہتے ہیں کہ میں نے مؤذن رسول بلال رضی اللہ عنہ سے حلب ۱؎ میں ملا قات کی، اور کہا: بلال! مجھے بتائیے کہ رسول اللہ ﷺ کا خرچ کیسے چلتا تھا؟ تو انہوں نے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس کچھ نہ ہوتا، بعثت سے لے کر موت تک جب بھی آپ کو کوئی ضرورت پیش آتی میں ہی اس کا انتظام کرتا تھا جب رسول اللہ ﷺ کے پاس کوئی مسلمان آتا اور آپ اس کو ننگا دیکھتے تو مجھے حکم کرتے، میں جا تا اور قرض لے کر اس کے لئے چا در خرید تا، اسے پہننے کے لئے دے دیتا اور اسے کھانا کھلاتا،یہاں تک کہ مشرکین میں سے ایک شخص مجھے ملا اور کہنے لگا: بلال!میرے پاس وسعت ہے (تنگی نہیں ہے) آپ کسی اور سے قرض نہ لیں، مجھ سے لے لیا کریں، میں ایسا ہی کرنے لگا یعنی ( اس سے لینے لگا) پھر ایک دن ایسا ہوا کہ میں نے وضو کیا اوراذان دینے کے لئے کھڑا ہوا کہ اچانک وہی مشرک سو داگروں کی ایک جما عت لئے ہوئے آ پہنچا جب اس نے مجھے دیکھا تو بولا : اے حبشی! میں نے کہا: '' يَالَبَّاهُ ''۲؎ حاضر ہوں، تو وہ ترش روئی سے پیش آیا اور سخت سست کہنے لگا اور بولا : تو جانتا ہے مہینہ پورا ہونے میں کتنے دن با قی رہ گئے ہیں ؟ میں نے کہا: قریب ہے، اس نے کہا: مہینہ پورا ہونے میں صرف چار دن باقی ہیں ۳؎ میں اپنا قرض تجھ سے لے کر چھوڑوں گا اور تجھے ایسا ہی کر دوں گا جیسے تو پہلے بکریاں چرا یا کرتا تھا، مجھے اس کی باتوں کا ایسے ہی سخت رنج و ملال ہوا جیسے ایسے موقع پر لوگوں کو ہوا کرتا ہے، جب میں عشا ء پڑھ چکا تو رسول اللہ ﷺ اپنے گھر والوں کے پاس تشریف لے جا چکے تھے ( میں بھی وہا ں گیا) اور شرفیابی کی اجازت چا ہی تو آپ ﷺ نے مجھے اجازت دے دی، میں نے ( حا ضر ہو کر ) عرض کیا: اللہ کے رسول!آپ پر میرے ماں با پ فدا ہوں، وہ مشرک جس سے میں قرض لیا کرتا تھا اس نے مجھے ایسا ایسا کہا ہے اور نہ آپ کے پاس مال ہے جس سے میرے قرض کی ادائیگی ہو جائے اور نہ ہی میرے پاس ہے (اگر ادا نہ کیا ) توو ہ مجھے اور بھی ذلیل و رسوا کرے گا، تو آپ مجھے اجازت دے دیجئے کہ میں بھا گ کر ان قوموں میں سے کسی قوم کے پاس جو مسلمان ہو چکے ہیں اس وقت تک کے لئے چلا جائوں جب تک کہ اللہ اپنے رسول کو اتنا مال عطا نہ کر دے جس سے میرا قرض ادا ہو جائے، یہ کہہ کر میں نکل آیا اور اپنے گھر چلاآیا، اور اپنی تلوار، مو زہ جو تا اور ڈھال سر ہانے رکھ کر سو گیا،صبح ہی صبح پو پھٹتے ہی یہاں سے چلے جانے کا ارا دہ کیا ہی تھا کہ ایک شخص بھا گا بھا گا پکا رتا ہواآیا کہ اے بلال ( تمہیں رسول اللہ ﷺ یا د کر رہے ہیں ) چل کر آپ کی با ت سن لو، تو میں چل پڑا، آپ ﷺ کے پاس پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ چار لدے ہوئے جانوربیٹھے ہیں، آپ سے اجازت طلب کی تو رسول ﷺ نے مجھ سے فرمایا :'' بلال!خوش ہوجاؤ، اللہ تعالی نے تمہاری ضرورت پوری کردی، کیا تم نے چاروں بیٹھی ہوئی سوا ریاں نہیں دیکھیں؟''، میں نے کہا: ہاں دیکھ لی ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : ''جائو وہ جانوربھی لے لو اور جو ان پر لدا ہوا ہے وہ بھی ان پر کپڑا اور کھانے کا سامان ہے، فدک کے رئیس نے مجھے ہد یہ میں بھیجا ہے، ان سب کو اپنی تحویل میں لے لو، اور ان سے اپنا قرض ادا کر دو''، تو میں نے ایسا ہی کیا ۔
پھر راوی نے پوری حدیث ذکرکی ۔
بلا ل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: پھر میں مسجد میں آیا تو دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ مسجد میں تشریف فرما ہیں، میں نے آپ کو سلام کیا،آپ ﷺ نے پوچھا:''جومال تمہیں ملا اس کاکیا ہوا؟''، میں نے عرض کیا :اللہ تعا لی نے اپنے رسول کے سارے قرضے ادا کردیئے اب کوئی قرضہ با قی نہ رہا، آپ ﷺ نے فرمایا : '' کچھ مال بچا بھی ہے؟''، میں نے کہا:ہاں، آپ ﷺ نے فرمایا : '' جائو جو بچا ہے اسے اللہ کی راہ میں صرف کر کے مجھے آرام دو کیونکہ جب تک یہ مال صر ف نہ ہو جائے گا میں اپنی ازوا ج (مطہرات) میں سے کسی کے پاس نہ جائوں گا''، پھر جب رسول اللہ ﷺ عشا ء سے فا رغ ہوئے تو مجھے بلایا اور فرمایا:'' کیا ہوا وہ مال جو تمہارے پاس بچ رہا تھا ؟'' میں نے کہا:وہ میرے پاس موجود ہے، کوئی ہمارے پاس آیا ہی نہیں کہ میں اسے دیدوں تو رسول ﷺ نے رات مسجد ہی میں گزاری۔
راوی نے پوری حدیث بیان کی (اس میں ہے )یہا ں تک کہ جب آپ ﷺ عشاء کی ںصلاۃ پڑھ چکے یعنی دوسرے دن تو آپ نے مجھے بلا یا اورپوچھا :''وہ مال کیاہوا جو تمہا ر ے پاس بچ رہا تھا؟''، میں نے کہا:اللہ کے رسول ! اللہ نے آپ کو اس سے بے نیاز و بے فکرکر دیا ( یعنی وہ میں نے ایک ضرورت مند کو دے دیا ) یہ سن کرا ٓپ ﷺ نے اللہ اکبر کہا، اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اوراس کی حمد وثنابیان کی اس ڈر سے کہ کہیں آپ کو موت نہ آجا تی اور یہ مال آپ کے پاس با قی رہتا، پھر میں آپ ﷺ کے پیچھے پیچھے چلا، آپ اپنی بیو یوں کے پاس آئے اور ایک ایک کو سلام کیا، پھر آپ ﷺ وہاں تشریف لے گئے جہاں رات گزا رنی تھی، ( اے عبداللہ ہوزنی! ) یہ ہے تمہارے سوال کا جواب ۔
وضاحت ۱؎ : شام کے ایک شہر کانام ہے۔
وضاحت ۲؎ : یہ کلمہ عربی میں جی،یاحاضر ہوں کی جگہ بولا جاتاہے۔
وضاحت ۳؎ : قرض واپسی کی مد ت میں ابھی چار دن با قی تھے اس لئے اسے لڑ نے جھگڑ نے اور بولنے کا حق نہیں تھا، ادائیگی کا وقت گزر جانے کے بعد اسے بو لنے اور جھگڑ نے کا حق تھا۔ مگر تھا تو کافر مسلمانوں کا دشمن، قرض کا بہانہ کر کے لڑ پڑا ۔


3056- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ، بِمَعْنَى إِسْنَادِ أَبِي تَوْبَةَ وَحَدِيثِهِ، قَالَ عِنْدَ قَوْلِهِ: < مَا يَقْضِي عَنِّي > فَسَكَتَ عَنِّي رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فَاغْتَمَزْتُهَا۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۲۰۴۰) (صحیح الإسناد)
۳۰۵۶- اس سند سے بھی ابو توبہ کی حدیث کے ہم معنی حدیث مروی ہے، اس میں ہے کہ: جب میں نے کہا کہ نہ آپ کے پاس اتنا مال ہے اور نہ میرے پاس کہ قرضہ ادا ہو جائے تو رسول اللہ ﷺ خا مو ش رہے مجھے کوئی جوا ب نہیں دیاتو مجھے ناگوار سا لگا (کہ شا ید رسول اللہ ﷺ نے میری با ت پر تو جہ نہیں دی)۔


3057- حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، حَدَّثَنَا عِمْرَانُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ الشِّخِّيرِ، عَنْ عِيَاضِ بْنِ حِمَارٍ قَالَ: أَهْدَيْتُ لِلنَّبِيِّ ﷺ نَاقَةً فَقَالَ: < أَسْلَمْتَ؟ > فَقُلْتُ: لا، فَقَالَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم: < إِنِّي نُهِيتُ عَنْ زَبْدِ الْمُشْرِكِينَ >۔
* تخريج: ت/السیر ۲۴ (۱۵۷۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۰۱۵)، وقد أخرجہ: حم (۴/۱۶۲) (حسن صحیح)
۳۰۵۷- عیا ض بن حمار رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے نبی اکرم ﷺ کو ایک اونٹنی ہد یہ میں دی، تو رسول اللہ ﷺ نے پوچھا: ''کیا تم مسلمان ہو گئے ہو ؟''،میں نے کہا :نہیں، آپ ﷺ نے فرمایا: ''مجھے مشرکوں سے تحفہ لینے کی ممانعت کر دی گئی ہے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : بعض روایات میں آتا ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے نجاشی، مقوقس، اکیدردومہ اور رئیس فدک کے ہدایا قبول کئے تو یہ ''إِنِّي نُهِيتُ عَنْ زَبْدِ الْمُشْرِكِينَ'' کے خلاف نہیں ہے کیونکہ مذکورہ سب کے سب ہدایا اہل کتاب کے تھے نہ کہ مشرکین کے، گویا اہل کتاب کے ہدایا لینے درست ہیں نہ کہ مشرکین کے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
36- بَاب فِي إِقْطَاعِ الأَرَضِينَ
۳۶-باب: زمین جا گیر میں دینے کا بیان​


3058- حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مَرْزُوقٍ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَائِلٍ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ أَقْطَعَهُ أَرْضًا بِحَضْرَمُوتَ۔
* تخريج: ت/الأحکام ۳۹ (۱۳۸۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۷۷۳)، وقد أخرجہ: حم (۶/۳۹۹)، دي/البیوع ۶۶ (۲۶۵۱) (صحیح)
۳۰۵۸- وائل رضی اللہ عنہ ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے انہیں حضرموت ۱؎ میں زمین کا ٹکڑا جاگیر میں دیا ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یمن کاایک شہر ہے۔
وضاحت ۲؎ : حاکم یا حکومت کی طرف سے رعایا کو دی گئی زمین کو جاگیرکہتے ہیں۔


3059- حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا جَامِعُ ابْنُ مَطَرٍ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَائِلٍ بِإِسْنَادِهِ مِثْلَهُ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۷۷۳) (صحیح)
۳۰۵۹- اس سند سے بھی علقمہ بن وائل سے اسی کے مثل روایت مروی ہے۔


3060- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ دَاوُدَ، عَنْ فِطْرٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ عَمْرِو بْنِ حُرَيْثٍ قَالَ: خَطَّ لِي رَسُولُ اللَّهِ ﷺ دَارًا بِالْمَدِينَةِ بِقَوْسٍ وَقَالَ: < أَزِيدُكَ، أَزِيدُكَ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۷۱۸) (ضعیف الإسناد)
(اس کے راوی ''خلفیہ مخزومی'' لین الحدیث ہیں)
۳۰۶۰- عمرو بن حر یث رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مد ینہ میں مجھے گھر بنانے کے لئے کمان سے نشان لگا کر ایک زمین دی اور فرمایا :'' میں تمہیں مزید دوں گا مزید دوں گا''(فی الحال یہ لے لو)۔


3061- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ أَبِي عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ غَيْرِ وَاحِدٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ أَقْطَعَ بِلالَ بْنَ الْحَارِثِ الْمُزَنِيَّ مَعَادِنَ الْقَبَلِيَّةِ، وَهِيَ مِنْ نَاحِيَةِ الْفُرْعِ، فَتِلْكَ الْمَعَادِنُ لا يُؤْخَذُ مِنْهَا إِلا الزَّكَاةُ إِلَى الْيَوْمِ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۷۷۷)، وقد أخرجہ: ط/الزکاۃ ۳ (۸)، حم (۱/۳۰۶) (ضعیف)
(یہ روایت مرسل ہے، اس میں مذکورجاگیر دینے والے واقعہ کی متابعت اورشواہد تو موجودہیں مگر زکاۃ والے معاملہ کے متابعات وشواہد نہیں ہیں)
۳۰۶۱- ربیعہ بن ابی عبدالرحمن نے کئی لوگوں سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بلال بن حا رث مز نی کو فرع ۱؎ کی طرف کے قبلیہ ۲؎ کے کان دیئے، تو ان کانوں سے آج تک زکاۃ کے سوا کچھ نہیں لیا جا تارہا۔
وضاحت ۱؎ : مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک جگہ ہے۔
وضاحت۲؎ : قبلیہ ایک گاؤں ہے جوفرع کے متعلقات میں سے ہے۔


3062- حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ حَاتِمٍ وَغَيْرُهُ قَالَ الْعَبَّاسُ: حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ، أَخْبَرَنَا أَبُو أُوَيْسٍ، حَدَّثَنَا كَثِيرُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ [عَمْرِو بْنِ] عَوْفٍ الْمُزَنِيُّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ أَقْطَعَ بِلالَ بْنَ الْحَارِثِ الْمُزَنِيَّ مَعَادِنَ الْقَبَلِيَّةِ جَلْسِيَّهَا وَغَوْرِيَّهَا -وَقَالَ غَيْرُهُ: جَلْسَهَا وَغَوْرَهَا- وَحَيْثُ يَصْلُحُ الزَّرْعُ مِنْ قُدْسٍ، وَلَمْ يُعْطِهِ حَقَّ مُسْلِمٍ، وَكَتَبَ لَهُ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم: < بِسْم اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ، هَذَا مَا أَعْطَى مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ بِلالَ بْنَ الْحَارِثِ الْمُزَنِيَّ، أَعْطَاهُ مَعَادِنَ الْقَبَلِيَّةِ جَلْسِيَّهَا وَغَوْرِيَّهَا -وَقَالَ غَيْرُهُ: جَلْسَهَا وَغَوْرَهَا- وَحَيْثُ يَصْلُحُ الزَّرْعُ مِنْ قُدْسٍ، وَلَمْ يُعْطِهِ حَقَّ مُسْلِمٍ >.
قَالَ أَبُو أُوَيْسٍ: وَحَدَّثَنِي ثَوْرُ بْنُ زَيْدٍ مَوْلَى بَنِي الدِّيْلِ بْنِ بَكْرِ بْنِ كِنَانَةَ عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ مِثْلَهُ ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۶۰۱۵، ۱۰۷۷۷) (حسن)
(''کثیر''کی روایت متابعات وشواہد سے تقویت پا کر حسن ہے، ورنہ ''کثیر'' خود ضعیف راوی ہیں، ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت حسن ہے)
۳۰۶۲- عمرو بن عوف مزنی رضی اللہ عنہ ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے بلال بن حا رث مز نی کو قبلیہ کی نشیب وفراز کی کانیں ٹھیکہ میںدیں ۱؎ ۔
( ابو داود کہتے ہیں) اور دیگر لوگوں نے ''جَلْسَهَا وَغَوْرَهَا'' کہا ہے) اور قدس (ایک پہا ڑ کا نام ہے)کی وہ زمین بھی دی جو قابل کاشت تھی اور وہ زمین انہیں نہیں دی جس پرکسی مسلمان کا حق اور قبضہ تھا، اورنبی اکرم ﷺ نے انہیں اس کے لئے ایک دستاویز لکھ کر دی، وہ اس طرح تھی : ''بسم الله الرحمن الرحيم'' یہ دستاویز ہے اس بات کا کہ رسول اللہ ﷺ نے بلا ل بن حا رث مز نی کو قبلیہ کے کانوں کا جو بلندی میں ہیں اور پستی میں ہیں'' ٹھیکہ دیا اور قدس کی وہ زمین بھی دی جس میں کھیتی ہو سکتی ہے، اور انہیں کسی مسلمان کا حق نہیں دیا ''۔
ابو اویس راوی کہتے ہیں:مجھ سے بنو دیل بن بکر بن کنانہ کے غلام ثور بن زید نے بیان کیا، انہوں نے عکرمہ سے اورعکرمہ نے ابن عباس سے اسی کے ہم مثل روایت کی ہے۔
وضاحت ۱؎ : یعنی ان کے نام سے الاٹ کردیا ۔


3063- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ النَّضْرِ، قَالَ: سَمِعْتُ الْحُنَيْنِيَّ قَالَ: قَرَأْتُهُ غَيْرَ مَرَّةٍ -يَعْنِي كِتَابَ قَطِيعَةِ النَّبِيِّ ﷺ - قَالَ أَبو دَاود: وَحَدَّثَنَا غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ حُسَيْنِ بْنِ مُحَمَّدٍ، أَخْبَرَنَا أَبُو أُوَيْسٍ، حَدَّثَنِي كَثِيرُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ أَقْطَعَ بِلالَ بْنَ الْحَارِثِ الْمُزَنِيَّ مَعَادِنَ الْقَبَلِيَّةِ جَلْسِيَّهَا وَغَوْرِيَّهَا، قَالَ ابْنُ النَّضْرِ: وَجَرْسَهَا وَذَاتَ النُّصُبِ، ثُمَّ اتَّفَقَا: وَحَيْثُ يَصْلُحُ الزَّرْعُ مِنْ قُدْسٍ، وَلَمْ يُعْطِ بِلالَ بْنَ الْحَارِثِ حَقَّ مُسْلِمٍ، وَكَتَبَ لَهُ النَّبِيُّ ﷺ : < هَذَا مَا أَعْطَى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بِلالَ بْنَ الْحَارِثِ الْمُزَنِيَّ، أَعْطَاهُ مَعَادِنَ الْقَبَلِيَّةِ جَلْسَهَا وَغَوْرَهَا وَحَيْثُ يَصْلُحُ الزَّرْعُ مِنْ قُدْسٍ، وَلَمْ يُعْطِهِ حَقَّ مُسْلِمٍ >.
قَالَ أَبُو أُوَيْسٍ: وَحَدَّثَنِي ثَوْرُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ مِثْلَهُ، زَادَ ابْنُ النَّضْرِ: وَكَتَبَ أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۷۷۷) (حسن)
۳۰۶۳- محمد بن نضر کہتے ہیں کہ میں نے حنینی کو کہتے ہوئے سنا کہ میں نے اسے یعنی نبی اکرم ﷺ کے جا گیر نامہ کو کئی با ر پڑھا ۔
ابوداود کہتے ہیں : مجھ سے کئی ایک نے حسین بن محمدکے واسطہ سے بیان کیا ہے، وہ کہتے ہیں: مجھے ابو اویس نے خبر دی ہے وہ کہتے ہیں:مجھ سے کثیر بن عبداللہ نے بیان کیا ہے وہ اپنے والد سے اور وہ ان کے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے بلا ل بن حا رث مز نی رضی اللہ عنہ کو قبلیہ کے نشیب و فراز کی کانیں بطور جاگیر دیں۔
ابن نضر کی روایت میں ہے: اوراس کے جر س اور ذات النّصب ۱؎ کو دیا، پھر دونوں راوی متفق ہیں: اور قدس کی قابل کاشت زمین دی، اور بلال بن حارثکو کسی اور مسلمان کا حق نہیں دیا، اور نبی اکرم ﷺ نے انہیں لکھ کر دیا کہ یہ وہ تحریر ہے جسے رسول اللہ ﷺ نے بلال بن حا رث مز نی کو لکھ کر دی، انہیںقبلیہ کے نشیب و فراز کی کانیں اور قدس کی قابل کاشت زمینیں دیں، اور انہیں کسی اور مسلمان کا حق نہیں دیا ۔
ابو اویس کہتے ہیں کہ ثور بن زید نے مجھ سے بیان کیا انہوں نے عکر مہ سے، عکرمہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ابن عباس نے نبی اکرم ﷺ سے اسی کے ہم مثل روایت کیا اور ابن نضر نے اتنا اضافہ کیا کہ( یہ دستاویز) ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے لکھی۔
وضاحت ۱؎ : کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ دو جگہوں کے نام ہیں اور کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ زمین کی قسموں کے نام ہیں ۔


3064- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ الثَّقَفِيُّ وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُتَوَكِّلِ الْعَسْقَلانِيُّ -الْمَعْنَى وَاحِدٌ- أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ يَحْيَى بْنِ قَيْسٍ الْمَأْرِبِيَّ حَدَّثَهُمْ، أَخْبَرَنِي أَبِي، عَنْ ثُمَامَةَ بْنِ شَرَاحِيلَ، عَنْ سُمَيِّ بْنِ قَيْسٍ، عَنْ شُمَيْرٍ - قَالَ ابْنُ الْمُتَوَكِّلِ: ابْنِ عَبْدِ الْمَدَانِ- عَنْ أَبْيَضَ بْنِ حَمَّالٍ: أَنَّهُ وَفَدَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَاسْتَقْطَعَهُ الْمِلْحَ -قَالَ ابْنُ الْمُتَوَكِّلِ: الَّذِي بِمَأْرِبَ- فَقَطَعَهُ لَهُ، فَلَمَّا أَنْ وَلَّى قَالَ رَجُلٌ مِنَ الْمَجْلِسِ: أَتَدْرِي مَا قَطَعْتَ لَهُ، إِنَّمَا قَطَعْتَ لَهُ الْمَاءَ الْعِدَّ، قَالَ: فَانْتَزَعَ مِنْهُ، قَالَ: وَسَأَلَهُ عَمَّا يُحْمَى مِنَ الأَرَاكِ، قَالَ: < مَا لَمْ تَنَلْهُ خِفَافٌ >، وَقَالَ ابْنُ الْمُتَوَكِّلِ: < أَخْفَافُ الإِبِلِ >۔
* تخريج: ت/الأحکام ۳۹ (۱۳۸۰)، ق/الرھون ۱۷ (۲۴۷۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱)، وقد أخرجہ: دي/البیوع ۶۶ (۲۶۵۰) (حسن لغیرہ)
(یہ سند مسلسل بالضعفاء ہے: ثمامہ لیّن، سمی مجہول اور''شمیر'' لین ہیں، لیکن آنے والی حدیث (۳۰۶۶) سے تقویت پا کر یہ حسن ہوئی، اس کی تصحیح ابن حبان نے کی ہے، البانی نے دوسرے طریق کی وجہ سے اس کی تحسین کی ہے، ''ما لَمْ تَنَلْهُ خِفَافٌ '' کے استثناء کے ساتھ، ملاحظہ ہو: صحیح ابی داود ۸؍ ۳۸۸)
۳۰۶۴- ابیض بن حمال مأربی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اورآپ سے نمک کی کان کی جاگیر مانگی (ابن متوکل کی روایت میں ہے:جو مآرب ۱؎ میں تھی) تو آپ ﷺ نے انہیں دے دی، لیکن جب وہ وا پس مڑے تو مجلس میں مو جو د ایک شخص نے عرض کیا : جانتے ہیں کہ آپ نے ان کو کیا دے دیا ہے ؟ آپ نے ان کو ایسا پانی دے دیا ہے جو ختم نہیں ہوتا، بلا محنت ومشقت کے حا صل ہوتا ہے ۲؎ وہ کہتے ہیں: توآپ ﷺ نے اسے واپس لے لیا،تب انہوں نے آپ سے پوچھا : پیلو کے درختوں کی کونسی جگہ گھیر ی جائے ؟ ۳؎ ، آپ نے فرمایا: ''جہا ں جانوروں کے پائوں نہ پہنچ سکیں'' ۴؎ ۔
ابن متوکل کہتے ہیں: خفاف سے مراد ''أَخْفَافُ الإِبِلِ'' ( یعنی اونٹوں کے پیر)ہیں۔
وضاحت ۱؎ : یمن کے ایک گاؤں کانام ہے۔
وضاحت ۲؎ : یعنی یہ چیز توسب کے استعمال واستفادہ کی ہے اسے کسی خاص شخص کی جاگیر میں دے دینا مناسب نہیں۔
وضاحت۳؎ : کہ جس میں اور لوگ نہ آسکیں اور اپنے جانوروہاں نہ چراسکیں۔
وضاحت۴؎ : یعنی جوآبادی اور چراگاہ سے دورہو۔


3065- حَدَّثَنِي هَارُونُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ قَالَ: قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ الْمَخْزُومِيُّ: < مَا لَمْ تَنَلْهُ أَخْفَافُ الإِبِلِ > يَعْنِي أَنَّ الإِبِلَ تَأْكُلُ مُنْتَهَى رُئُوسِهَا وَيُحْمَى مَا فَوْقَهُ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود (ضعیف جداً)
(محمد بن حسن مخزومی کذّاب راوی ہے)
۳۰۶۵- ہا رون بن عبداللہ کہتے ہیں کہ محمد بن حسن مخزومی نے کہا: ''مَا لَمْ تَنَلْهُ أَخْفَافُ الإِبِلِ'' کا مطلب یہ ہے کہ اونٹ کا سر جہاں تک پہنچے گا وہاں تک وہ کھائے ہی کھائے گا اس سے اوپر کا حصہ بچا یا جا سکتا ہے ( اس لئے ایسی جگہ گھیرو جہاں اونٹ جاتے ہی نہ ہوں)۔


3066- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ الْقُرَشِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ الزُّبَيْرِ، حَدَّثَنَا فَرَجُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنِي عَمِّي ثَابِتُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ أَبْيَضَ بْنِ حَمَّالٍ أَنَّهُ سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ عَنْ حِمَى الأَرَاكِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم: < لا حِمَى فِي الأَرَاكِ > فَقَالَ: أَرَاكَةٌ فِي حِظَارِي، فَقَالَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم: <لا حِمَى فِي الأَرَاكِ> قَالَ فَرَجٌ: يَعْنِي بِحِظَارِي: الأَرْضَ الَّتِي فِيهَا الزَّرْعُ الْمُحَاطُ عَلَيْهَا۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۳)، وقد أخرجہ: دی/ البیوع ۶۶ (۲۶۵۰) (حسن لغیرہ)
(ملاحظہ ہو: صحیح ابی داود ۸؍ ۳۹۰)
ٍ ۳۰۶۶- ابیض بن حمال مأربی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے پیلو کی ایک چرا گا ہ مانگی ۱؎ تورسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''پیلو میں روک نہیں ہے''، انہوں نے کہا : پیلو میرے با ڑھ اور احا طے کے اندر ہیں، اس پر نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ''پیلو میں روک نہیں ہے''، ( اس لئے کہ اس کی حاجت سبھی آدمیوں کو ہے)۔
فرج کہتے ہیں:حظاری سے ایسی سرزمین مراد ہے جس میں کھیتی ہو تی ہو اور وہ گھری ہوئی ہو۔
وضاحت ۱؎ : یعنی ایک احا طہ جس میں دوسرے لو گ آکر نہ درخت کا ٹیں نہ اس میں اپنے جانور چرائیں۔


3067- حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ أَبُو حَفْصٍ، حَدَّثَنَا الْفِرْيَابِيُّ، حَدَّثَنَا أَبَانُ قَالَ عُمَرُ: وَهُوَ ابْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ قَالَ: حَدَّثَنِي عُثْمَانُ بْنُ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ صَخْرٍ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ غَزَا ثَقِيفًا، فَلَمَّا أَنْ سَمِعَ ذَلِكَ صَخْرٌ رَكِبَ فِي خَيْلٍ يُمِدُّ النَّبِيَّ ﷺ فَوَجَدَ نَبِيَّ اللَّهِ ﷺ قَدِ انْصَرَفَ وَلَمْ يَفْتَحْ، فَجَعَلَ صَخْرٌ يَوْمَئِذٍ عَهْدَ اللَّهِ وَذِمَّتَهُ أَنْ لا يُفَارِقَ هَذَا الْقَصْرَ حَتَّى يَنْزِلُوا عَلَى حُكْمِ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم، فَلَمْ يُفَارِقْهُمْ حَتَّى نَزَلُوا عَلَى حُكْمِ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم، فَكَتَبَ إِلَيْهِ صَخْرٌ: أَمَّا بَعْدُ، فَإِنَّ ثَقِيفًا قَدْ نَزَلَتْ عَلَى حُكْمِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَأَنَا مُقْبِلٌ إِلَيْهِمْ وَهُمْ فِي خَيْلٍ، فَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بِالصَّلاةِ جَامِعَةً، فَدَعَا لأَحْمَسَ عَشْرَ دَعَوَاتٍ: < اللَّهُمَّ بَارِكْ لأَحْمَسَ فِي خَيْلِهَا وَرِجَالِهَا > وَأَتَاهُ الْقَوْمُ فَتَكَلَّمَ الْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ، فَقَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، إِنَّ صَخْرًا أَخَذَ عَمَّتِي وَدَخَلَتْ فِيمَا دَخَلَ فِيهِ الْمُسْلِمُونَ، فَدَعَاهُ فَقَالَ: < يَا صَخْرُ، إِنَّ الْقَوْمَ إِذَا أَسْلَمُوا أَحْرَزُوا دِمَائَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ، فَادْفَعْ إِلَى الْمُغِيرَةِ عَمَّتَهُ>، فَدَفَعَهَا إِلَيْهِ: وَسَأَلَ نَبِيُّ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم: < مَا لِبَنِي سُلَيْمٍ قَدْ هَرَبُوا عَنِ الإِسْلامِ، وَتَرَكُوا ذَلِكَ الْمَاءَ؟ > فَقَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ أَنْزِلْنِيهِ أَنَا وَقَوْمِي، قَالَ: < نَعَمْ >، فَأَنْزَلَهُ وَأَسْلَمَ -يَعْنِي السُّلَمِيِّينَ- فَأَتَوْا صَخْرًا، فَسَأَلُوهُ أَنْ يَدْفَعَ إِلَيْهِمُ الْمَاءَ، فَأَبَى، فَأَتَوُا النَّبِيَّ ﷺ فَقَالُوا: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، أَسْلَمْنَا وَأَتَيْنَا صَخْرًا لِيَدْفَعَ إِلَيْنَا مَائَنَا فَأَبَى عَلَيْنَا فَأَتَاهُ فَقَالَ: < يَا صَخْرُ إِنَّ الْقَوْمَ إِذَا أَسْلَمُوا أَحْرَزُوا أَمْوَالَهُمْ وَدِمَائَهُمْ، فَادْفَعْ إِلَى الْقَوْمِ مَائَهُمْ > قَالَ: نَعَمْ، يَا نَبِيَّ اللَّهِ، فَرَأَيْتُ وَجْهَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ يَتَغَيَّرُ عِنْدَ ذَلِكَ حُمْرَةً حَيَائً مِنْ أَخْذِهِ الْجَارِيَةَ وَأَخْذِهِ الْمَاءَ۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۴۸۵۱)، وقد أخرجہ: حم (۴/۳۱۰)، دي/الزکاۃ ۳۴ (۱۷۱۵) (ضعیف الإسناد)
(اس کے راوی ابان ضعیف الحفظ اور''عثمان'' لین الحدیث ہیں)
۳۰۶۷- صخر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ثقیف سے جہاد کیا (یعنی قلعہ طائف پر حملہ آور ہوئے) چنانچہ جب صخر رضی اللہ عنہ نے اسے سنا تو وہ چند سوار لے کر نبی اکرم ﷺ کی مدد کے لئے نکلے تو دیکھا کہ نبی اکرم ﷺ واپس ہوچکے ہیں اور قلعہ فتح نہیں ہوا ہے، تو صخر رضی اللہ عنہ نے اس وقت اللہ سے عہد کیا کہ وہ قلعہ کو چھوڑ کر نہ جائیں گے جب تک کہ مشرکین رسول اللہ ﷺ کے حکم کے آگے جھک نہ جائیں اور قلعہ خالی نہ کردیں (پھر ایسا ہی ہوا) انہوں نے قلعہ کا محاصرہ اس وقت تک ختم نہیں کیا جب تک کہ مشرکین رسول اللہ ﷺ کے حکم کے آگے جھک نہ گئے ۔
صخر رضی اللہ عنہ نے آپ ﷺ کو لکھا: ''امّا بعد، اللہ کے رسول! ثقیف آپ کا حکم مان گئے ہیں اور وہ اپنے گھوڑ سواروں کے ساتھ ہیں میں ان کے پاس جا رہا ہوں (تاکہ آگے کی بات چیت کروں)''، جب آپ ﷺ کو یہ اطلاع ملی تو آپ نے با جماعت صلاۃ قائم کرنے کا حکم دیا اور صلاۃ میں احمس ۱؎ کے لئے دس (باتوں کی) دعائیں مانگیں اور (ان دعائوں میں سے ایک دعا یہ بھی تھی): ''اللَّهُمَّ بَارِكْ لأَحْمَسَ فِي خَيْلِهَا وَرِجَالِهَا'' (اے اللہ! احمس کے سواروں اور پیادوں میں برکت دے)، پھر سب لوگ (یعنی ضحر رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی) رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے، اس وقت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے بات کی اور کہا: اللہ کے نبی! صخر نے میری پھوپھی کو گرفتار کر لیا ہے جب کہ وہ اس (دین) میں داخل ہو چکی ہیں جس میں سبھی مسلمان داخل ہوچکے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے صخر رضی اللہ عنہ کو بلایا، اور فرمایا:''صخر! جب کوئی قوم اسلام قبول کر لیتی ہے تو وہ اپنی جانوں اور مالوں کو بچا اور محفوظ کر لیتی ہے، اس لئے مغیرہ کی پھوپھی کو انہیں لوٹا دو''، تو صخر رضی اللہ عنہ نے مغیرہ رضی اللہ عنہ کو ان کی پھوپھی واپس کردی، پھر صخر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے سُلیمیوں کے پانی کے چشمے کو مانگا جسے وہ لوگ اسلام کے خوف سے چھوڑ کر بھاگ لئے تھے، صخر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے نبی! آپ مجھے اور میری قوم کو اس پانی کے چشمے پہ رہنے اور اس میں تصرف کرنے کا حق واختیار دے دیجئے، آپ ﷺ نے کہا: ''ہاں ہاں (لے لو اور) رہو''، تو وہ لوگ رہنے لگے (اور کچھ دنوں بعد) بنو سلیم مسلمان ہوگئے اور صخر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، اور صخر رضی اللہ عنہ سے درخواست کی کہ وہ انہیں پانی (کا چشمہ) واپس دے دیں، صخر رضی اللہ عنہ (اور ان کی قوم) نے دینے سے انکار کیا (اس خیال سے کہ رسول اللہ ﷺ نے وہ چشمہ انہیں اور ان کی قوم کو دے دیا ہے) تو وہ لوگ نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے اور آپ سے عرض کیا: اللہ کے نبی! ہم مسلمان ہوچکے ہیں، ہم صخر کے پاس پہنچے (اور ان سے درخواست کی) کہ ہمارا پانی کا چشمہ ہمیں واپس دے دیں تو انہوں نے ہمیں لوٹانے سے انکار کر دیا ہے، رسول اللہ ﷺ نے صخر رضی اللہ عنہ کو بلوایا اور فرمایا: ''صخر!جب کوئی قوم اسلام قبول کر لیتی ہے تو اپنی جانوں اور مالوں کو محفوظ کرلیتی ہے (نہ اسے ناحق قتل کیا جا سکتا ہے اور نہ اس کا مال لیا جا سکتا ہے) تو تم ان کو ان کا چشمہ دے دو، صخر رضی اللہ عنہ نے کہا: بہت اچھا اللہ کے نبی! (صخر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں) میں نے اس وقت رسول اللہ ﷺ کے روئے مبارک کو دیکھا کہ وہ شرم وندامت سے بدل گیا اور سرخ ہوگیا (یہ سوچ کر) کہ میں نے اس سے لونڈی بھی لے لی اور پانی بھی ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : احمس ایک قبیلہ ہے، صخراسی قبیلہ کے ایک فرد تھے۔
وضاحت ۲؎ : لونڈی وہی مغیرہ کی پھوپھی اور پانی وہی ''بنی سلیم'' کے پانی کا چشمہ ۔


3068- حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْمَهْرِيُّ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنِي سَبْرَةُ بْنُ عَبْدِالْعَزِيزِ بْنِ الرَّبِيعِ الْجُهَنِيُّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ نَزَلَ فِي مَوْضِعِ الْمَسْجِدِ تَحْتَ دَوْمَةٍ، فَأَقَامَ ثَلاثًا، ثُمَّ خَرَجَ إِلَى تَبُوكَ، وَإِنَّ جُهَيْنَةَ لَحِقُوهُ بِالرَّحْبَةِ فَقَالَ لَهُمْ: < مَنْ أَهْلُ ذِي الْمَرْوَةِ > فَقَالُوا: بَنُو رِفَاعَةَ مِنْ جُهَيْنَةَ، فَقَالَ: < قَدْ أَقْطَعْتُهَا لِبَنِي رِفَاعَةَ > فَاقْتَسَمُوهَا: فَمِنْهُمْ مَنْ بَاعَ، وَمِنْهُمْ مَنْ أَمْسَكَ فَعَمِلَ، ثُمَّ سَأَلْتُ أَبَاهُ عَبْدَالْعَزِيزِ عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ فَحَدَّثَنِي بِبَعْضِهِ وَلَمْ يُحَدِّثْنِي بِهِ كُلِّهِ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۳۸۱۲) (ضعیف)
(ربیع جہنی تابعی ضعیف ہیں، اور حدیث مرسل ہے، ملاحظہ ہو: ضعیف ابی داود ۲/۴۵۷)
۳۰۶۸- ربیع جہنی کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے اس جگہ جہاں اب مسجد ہے ایک بڑے درخت کے نیچے پڑائو کیا، وہاں تین دن قیام کیا، پھر تبوک ۱؎ کے لئے نکلے، اور جہینہ کے لوگ آپ ﷺ سے ایک وسیع میدان میں جا کر ملے (یعنی آپ ﷺ کے ساتھ ہوئے) آپ ﷺ نے دریافت فرمایا: ''مروہ والوں میں سے یہاں کون رہتا ہے؟''، لوگوں نے کہا: بنو رفاعہ کے لوگ رہتے ہیں جو قبیلہ جہینہ کی ایک شاخ ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : ''میں یہ زمین (علاقہ) بنو رفاعہ کو بطور جاگیر دیتا ہوں تو انہوں نے اس زمین کو آپس میں بانٹ لیا، پھر کسی نے اپنا حصہ بیچ ڈالا اور کسی نے اپنے لئے روک لیا، اور اس میں محنت ومشقت (یعنی زراعت) کی۔
ابن وہب کہتے ہیں: میں نے پھر اس حدیث کے متعلق سبرہ کے والد عبدالعزیز سے پوچھا تو انہوں نے مجھ سے اس کا کچھ حصہ بیان کیا پورا بیان نہیں کیا۔
وضاحت ۱؎ : تبوک مدینہ سے شمال شام کی طرف ایک جگہ کا نام ہے، جہاں نو ہجری میں لشکر اسلام گیا تھا۔


3069- حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى -يَعْنِي ابْنَ آدَمَ- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ أَقْطَعَ الزُّبَيْرَ نَخْلاً۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۷۳۲)، وقد أخرجہ: خ/فرض الخمس ۱۹ (۲۸۱۵)، حم (۶/۳۴۷) (حسن صحیح)
۳۰۶۹- اسما ء بنت ابو بکر رضی اللہ عنہما کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے زبیر رضی اللہ عنہ (اسماء رضی اللہ عنہا کے خاوندہیں) کو کھجو ر کے کچھ درخت بطور جاگیر عنایت فرمائی ۔


3070- حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ وَمُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، الْمَعْنَى وَاحِدٌ، قَالا: حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ حَسَّانَ الْعَنْبَرِيُّ، حَدَّثَتْنِي جَدَّتَايَ صَفِيَّةُ وَدُحَيْبَةُ ابْنَتَا عُلَيْبَةَ -وَكَانَتَا رَبِيبَتَيْ قَيْلَةَ بِنْتِ مَخْرَمَةَ- وَكَانَتْ جَدَّةَ أَبِيهِمَا أَنَّهَا أَخْبَرَتْهُمَا، قَالَتْ: قَدِمْنَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم، قَالَتْ: تَقَدَّمَ صَاحِبِي -تَعْنِي حُرَيْثَ بْنَ حَسَّانَ، وَافِدَ بَكْرِ بْنِ وَائِلٍ- فَبَايَعَهُ عَلَى الإِسْلامِ عَلَيْهِ وَعَلَى قَوْمِهِ، ثُمَّ قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! اكْتُبْ بَيْنَنَا وَبَيْنَ بَنِي تَمِيمٍ بِالدَّهْنَاءِ [ أَنْ ] لا يُجَاوِزَهَا إِلَيْنَا مِنْهُمْ أَحَدٌ إِلا مُسَافِرٌ أَوْ مُجَاوِرٌ، فَقَالَ: < اكْتُبْ لَهُ يَا غُلامُ بِالدَّهْنَاءِ > فَلَمَّا رَأَيْتُهُ قَدْ أَمَرَ لَهُ بِهَا شُخِصَ بِي وَهِيَ وَطَنِي وَدَارِي: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنَّهُ لَمْ يَسْأَلْكَ السَّوِيَّةَ مِنَ الأَرْضِ إِذْ سَأَلَكَ، إِنَّمَا هِيَ [هَذِهِ] الدَّهْنَاءُ عِنْدَكَ مُقَيَّدُ الْجَمَلِ، وَمَرْعَى الْغَنَمِ، وَنِسَاءُ [بَنِي] تَمِيمٍ وَأَبْنَاؤُهَا وَرَاءَ ذَلِكَ، فَقَالَ: <أَمْسِكْ يَا غُلامُ، صَدَقَتِ الْمِسْكِينَةُ، الْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ يَسَعُهُمَا الْمَاءُ وَالشَّجَرُ، وَيَتَعَاوَنَانِ عَلَى الْفَتَّانِ >۔
* تخريج: ت/الأدب ۵۰ (۲۸۱۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۰۴۷) (حسن)
(ملاحظہ ہو: صحیح ابی داود ۷/۳۹۲)
۳۰۷۰- عبداللہ بن حسان عنبری کا بیان ہے کہ مجھ سے میری دا دی اورنانی صفیہ اور دحیبہ نے حدیث بیان کی یہ دونوں علیبہ کی بیٹیاں تھیں اورقیلہ بنت مخر مہ رضی اللہ عنہا کی پر ور دہ تھیں اور قیلہ ان دونوں کے والد کی دادی تھیں، قیلہ نے ان سے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور ہمارا سا تھی حریث بن حسان جو بکر بن وائل کی طرف پیامبر بن کرا ٓیا تھا ہم سے آگے بڑھ کر رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچ گیا، اور آپ سے اسلام پر اپنی اور اپنی قوم کی طرف سے بیعت کی پھرعرض کیا : اللہ کے رسول ! ہمارے اور بنو تمیم کے درمیان دہنا ء ۱؎ کو سر حدبنا دیجئے، مسا فر اور پڑوسی کے سوا اور کوئی ان میں سے آگے بڑھ کر ہماری طرف نہ آئے، تو آپ ﷺ نے فرمایا : '' اے غلام! دہنا ء کوانہیں لکھ کر دے دو''، قیلہ کہتی ہیں: جب میں نے دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ نے دہنا ء انہیں دے دیا تو مجھے اس کا ملال ہو ا کیونکہ وہ میرا وطن تھا اور وہیں میرا گھر تھا، میں نے کہا: اللہ کے رسول ! انہوں نے اس زمین کا آپ سے مطالبہ کر کے مبنی پر انصاف مطالبہ نہیں کیا ہے، دہنا ء اونٹوں کے باندھنے کی جگہ اور بکریوں کی چرا گاہ ہے اور بنی تمیم کی عورتیں اور بچے اس کے پیچھے رہتے ہیں تو آپ ﷺ نے فرمایا:'' اے غلام رک جاؤ! (مت لکھو) بڑی بی صحیح کہہ رہی ہیں،مسلمان مسلمان کا بھائی ہے ایک دوسرے کے درختوں اور پانی سے فائدہ اٹھا سکتا ہے اور مصیبتوں وفتنوں میں ایک دوسرے کی مدد کر سکتے اور کام آسکتے ہیں''۔
وضاحت ۱؎ : دہناء : ایک جگہ کانام ہے۔


3071- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنِي عَبْدُالْحَمِيدِ بْنُ عَبْدِالْوَاحِدِ، حَدَّثَتْنِي أُمُّ جَنُوبٍ بِنْتُ نُمَيْلَةَ، عَنْ أُمِّهَا سُوَيْدَةَ بِنْتِ جَابِرٍ، عَنْ أُمِّهَا عَقِيلَةَ بِنْتِ أَسْمَرَ بْنِ مُضَرِّسٍ، عَنْ أَبِيهَا أَسْمَرَ بْنِ مُضَرِّسٍ قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ فَبَايَعْتُهُ، فَقَالَ: < مَنْ سَبَقَ إِلَى مَا[ء] لَمْ يَسْبِقْهُ إِلَيْهِ مُسْلِمٌ فَهُوَ لَهُ > قَالَ: فَخَرَجَ النَّاسُ يَتَعَادَوْنَ [وَ] يَتَخَاطُّونَ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۵) (ضعیف)
(یہ سند مسلسل بالمجاہیل ہے: ام الجنوب سویدۃ اورعقیلہ سب مجہول ہیں اور عبد الحمید لین الحدیث ہیں)
۳۰۷۱- اسمر بن مضر س رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا اور میں نے آپ سے بیعت کی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : '' جو شخص کسی ایسے پانی( چشمے یا تالاب ) پر پہنچ جائے ( یعنی اس کا کھو ج لگا لے) جہا ں اس سے پہلے کوئی اور مسلمان نہ پہنچا ہو تو وہ اس کا ہے''، ( یعنی وہ اس کا مالک و مختا ر ہو گا ) ( یہ سن کر ) لو گ دو ڑتے اور نشان لگاتے ہوئے چلے ( تا کہ نشانی رہے کہ ہم یہاں تک آئے تھے)۔


3072- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ خَالِدٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ أَقْطَعَ الزُّبَيْرَ حُضْرَ فَرَسِهِ، فَأَجْرَى فَرَسَهُ حَتَّى قَامَ، ثُمَّ رَمَى بِسَوْطِهِ، فَقَالَ: < أَعْطُوهُ مِنْ حَيْثُ بَلَغَ السَّوْطُ >۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۷۷۲۹)، وقد أخرجہ: حم (۲/۱۵۶) (ضعیف الإسناد)
(اس کے راوی ''عبد اللہ بن عمر'' ضعیف ہیں)
۳۰۷۲- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے زبیر رضی اللہ عنہ کو اتنی زمین جا گیر میں دی جہاں تک ان کا گھوڑا دو ڑ سکے، تو زبیر رضی اللہ عنہ نے اپنا گھوڑا دو ڑایا اور جہاں گھوڑار کا اس سے آگے انہوں نے اپنا کو ڑا پھینک دیا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''دے دو زبیر کو جہاں تک ان کا کو ڑا پہنچا ہے''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
37- بَاب فِي إِحْيَاءِ الْمَوَاتِ
۳۷-باب: بنجر زمینوں کو آباد کرنے کا بیان​


3073- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَهَّابِ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: < مَنْ أَحْيَا أَرْضًا مَيْتَةً فَهِيَ لَهُ، وَلَيْسَ لِعِرْقٍ ظَالِمٍ حَقٌّ > ۔
* تخريج: ت/الأحکام ۳۸ (۱۳۷۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۹۰۴۳، ۴۴۶۳)، وقد أخرجہ: ط/الأقضیۃ ۲۴ (۲۶) (صحیح)
۳۰۷۳- سعید بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:’’جو شخص بنجر زمین کو آباد کرے تو وہ اسی کا ہے (وہی اس کا مالک ہو گا) کسی اور ظالم شخص کی رگ کا حق نہیں ہے‘‘ ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی کوئی ظالم اس کی آباد اور قابل کاشت بنائی ہوئی زمین کو چھین نہیں سکتا ۔


3074- حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ، عَنْ مُحَمَّدٍ -يَعْنِي ابْنَ إِسْحَاقَ- عَنْ يَحْيَى بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < مَنْ أَحْيَا أَرْضًا مَيْتَةً فَهِيَ لَهُ > وَذَكَرَ مِثْلَهُ.
قَالَ: فَلَقَدْ خَبَّرَنِي الَّذِي حَدَّثَنِي هَذَا الْحَدِيثَ أَنَّ رَجُلَيْنِ اخْتَصَمَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ غَرَسَ أَحَدُهُمَا نَخْلا فِي أَرْضِ الآخَرِ، فَقَضَى لِصَاحِبِ الأَرْضِ بِأَرْضِهِ، وَأَمَرَ صَاحِبَ النَّخْلِ أَنْ يُخْرِجَ نَخْلَهُ مِنْهَا، قَالَ: فَلَقَدْ رَأَيْتُهَا وَإِنَّهَا لَتُضْرَبُ أُصُولُهَا بِالْفُؤُوسِ، وَإِنَّهَا لَنَخْلٌ عُمٌّ حَتَّى أُخْرِجَتْ مِنْهَا۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۴۴۶۳) (حسن )
(پچھلی روایت سے تقویت پا کر یہ روایت بھی صحیح ہے ورنہ یہ روایت مرسل ہے)
۳۰۷۴- عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص بنجر زمین کو آباد کرے تو وہ زمین اسی کی ہے‘‘۔
پھر راوی نے اس کے مثل ذکر کیا، راوی کہتے ہیں :جس نے مجھ سے یہ حدیث بیان کی اسی نے یہ بھی ذکر کیا کہ دوشخص اپنا جھگڑا رسول اللہﷺ کے پاس لے کر گئے ایک نے دوسرے کی زمین میں کھجور کے درخت لگارکھے تھے، تورسول اللہ ﷺ نے زمین کو اس کی زمین دلا دی، اور درخت والے کو حکم دیا کہ تم اپنے درخت اکھاڑ لے جاؤ میں نے دیکھا کہ ان درختوں کی جڑیں کلہاڑیوں سے کا ٹی گئیں اور وہ زمین سے نکالی گئیں، حا لانکہ وہ لمبے اورگنجان پو رے پورے درخت ہو گئے تھے ۔


3075- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ الدَّارِمِيُّ، حَدَّثَنَا وَهْبٌ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ -بِإِسْنَادِهِ وَمَعْنَاهُ- إِلا أَنَّهُ قَالَ عِنْدَ قَوْلِهِ مَكَانَ الَّذِي حَدَّثَنِي هَذَا فَقَالَ: رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم، وَأَكْثَرُ ظَنِّي أَنَّهُ أَبُو سَعِيدٍ الْخُدْرِيُّ: فَأَنَا رَأَيْتُ الرَّجُلَ يَضْرِبُ فِي أُصُولِ النَّخْلِ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم : (۳۰۷۳)، (تحفۃ الأشراف: ۴۴۶۳) (حسن)
(حدیث نمبر:۳۰۷۳سے تقویت پا کر یہ حدیث بھی صحیح ہے ورنہ یہ حدیث مرسل ہے)
۳۰۷۵- ابن اسحاق اسی سند سے اسی مفہوم کی حدیث روایت کرتے ہیں،مگراس میں’’الَّذِي حَدَّثَنِي هَذَا‘‘کی جگہ یوں ہے، رسول اللہﷺ کے صحابہ میں سے ایک شخص نے کہا : میرا گمان غالب یہ ہے کہ وہ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ رہے ہوں گے کہ میں نے اس آدمی کو دیکھا کہ وہ اپنے درختوں کی جڑیں کا ٹ رہا ہے۔


3076- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الآمُلِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ عُثْمَانَ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا نَافِعُ بْنُ عُمَرَ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ عُرْوَةَ قَالَ: أَشْهَدُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَضَى أَنَّ الأَرْضَ أَرْضُ اللَّهِ، وَالْعِبَادَ عِبَادُ اللَّهِ، وَمَنْ أَحْيَا مَوَاتًا فَهُوَ أَحَقُّ بِهِ، جَائَنَا بِهَذَا عَنِ النَّبِيِّ ﷺ الَّذِينَ جَائُوا بِالصَّلَوَاتِ عَنْهُ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۶۳۷) (صحیح الإسناد)
۳۰۷۶- عروہ کہتے ہیں کہ میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ رسول اللہ ﷺ نے ( فیصلہ ) فرمایا ہے کہ زمین اللہ کی ہے اور بندے بھی سب اللہ کے بندے ہیں اور جو شخص کسی بنجر زمین کو آباد کرے تو وہ اس زمین کا زیادہ حق دار ہے، یہ حدیث ہم سے نبی اکرم ﷺ کے واسطہ سے ان لوگوں نے بیان کی ہے جنہوں نے آپ سے صلاۃ کی روایت کی ہے۔


3077- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ سَمُرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: < مَنْ أَحَاطَ حَائِطًا عَلَى أَرْضٍ فَهِيَ لَهُ >۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۴۵۹۶)، وقد أخرجہ: حم (۵/۱۲، ۲۱) (ضعیف)
(حسن بصری اور قتادہ مدلس ہیں، اور عنعنہ سے روایت کئے ہوئے ہیں )
۳۰۷۷- سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص کسی بنجر زمین پر دیوار کھڑی کرے تو وہی اس زمین کا حق دار ہے‘‘۔


3078- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي مَالِكٌ، قَالَ هِشَامٌ: الْعِرْقُ الظَّالِمُ أَنْ يَغْرِسَ الرَّجُلُ فِي أَرْضِ غَيْرِهِ فَيَسْتَحِقَّهَا بِذَلِكَ، قَالَ مَالِكٌ: وَالْعِرْقُ الظَّالِمُ كُلُّ مَا أُخِذَ وَاحْتُفِرَ وَغُرِسَ بِغَيْرِ حَقٍّ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم (۳۰۷۳)، (تحفۃ الأشراف: ۴۴۶۳) (صحیح)
۳۰۷۸- مالک نے خبردی کہ ہشام بن عروہ کہتے ہیں کہ ظالم رگ سے مرا د یہ ہے کہ ایک شخص کسی غیر کی زمین میں درخت لگائے اور پھر اس زمین پر اپنا حق جتائے۔
امام مالک کہتے ہیں :ظالم رگ ہر وہ زمین ہے جو ناحق لے لی جائے یا اس میںگڈھا کھود لیا جائے یا درخت لگا لیا جائے۔


3079- حَدَّثَنَا سَهْلُ بْنُ بَكَّارٍ، حَدَّثَنَا وُهَيْبُ بْنُ خَالِدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ يَحْيَى، عَنِ الْعَبَّاسِ السَّاعِدِيِّ -يَعْنِي ابْنَ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ- عَنْ أَبِي حُمَيْدٍ السَّاعِدِيِّ قَالَ: غَزَوْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ تَبُوكَ، فَلَمَّا أَتَى وَادِي الْقُرَى إِذَا امْرَأَةٌ فِي حَدِيقَةٍ لَهَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ لأَصْحَابِهِ: < اخْرُصُوا > فَخَرَصَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عَشْرَةَ أَوْسُقٍ، فَقَالَ لِلْمَرْأَةِ: <أَحْصِي مَا يَخْرُجُ مِنْهَا > فَأَتَيْنَا تَبُوكَ، فَأَهْدَى مَلِكُ أَيْلَةَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَغْلَةً بَيْضَاءَ، وَكَسَاهُ بُرْدَةً، وَكَتَبَ لَهُ -يَعْنِي بِبَحْرِهِ- قَالَ: فَلَمَّا أَتَيْنَا وَادِي الْقُرَى قَالَ لِلْمَرْأَةِ: < كَمْ كَانَ [فِي] حَدِيقَتِكِ؟ > قَالَتْ: عَشْرَةَ أَوْسُقٍ خَرْصَ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم: <إِنِّي مُتَعَجِّلٌ إِلَى الْمَدِينَةِ، فَمَنْ أَرَادَ مِنْكُمْ أَنْ يَتَعَجَّلَ مَعِي فَلْيَتَعَجَّلْ >۔
* تخريج: خ/الزکاۃ ۵۴ (۱۴۸۱)، والجزیۃ ۲ (۳۱۶۱)، م/الحج ۹۳ (۱۳۹۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۸۹۱)، وقد أخرجہ: حم (۵/۴۲۴) (صحیح)
۳۰۷۹- ابو حمیدسا عدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہﷺ کے ساتھ تبو ک( جہاد کے لئے) چلا، جب آپ وادی قری میں پہنچے تو وہاں ایک عورت کو اس کے باغ میں دیکھا، رسول اللہ ﷺ نے اپنے صحابہ سے کہا: ’’تخمینہ لگائو (کہ باغ میں کتنے پھل ہو ں گے)‘‘، رسول اللہ ﷺ نے دس وسق ۱؎کا تخمینہ لگایا، پھر آپ ﷺ نے عور ت سے کہا: ’’آپ اس سے جوپھل نکلے اس کو ناپ لینا‘‘، پھر ہم تبو ک آئے تو ایلہ ۲؎کے با د شا ہ نے آپ ﷺ کے پاس سفید رنگ کا ایک خچرتحفہ میں بھیجا آپ نے اسے ایک چادر تحفہ میں دی اور اسے (جز یہ کی شرط پر) اپنے ملک میں رہنے کی سند ( دستا ویز ) لکھ دی، پھر جب ہم لو ٹ کروادی قری میں آئے تو آپ ﷺ نے اس عورت سے پوچھا : ’’تیرے با غ میں کتنا پھل ہوا؟‘‘، اس نے کہا: دس وسق، رسول اللہ ﷺ نے دس وسق ہی کاتخمینہ لگایا تھا، پھر آپ ﷺ نے فرمایا:’’ میں جلد ہی مدینہ کے لئے نکلنے والا ہوں تو تم میں سے جو جلد چلنا چاہے میرے سا تھ چلے‘‘ ۳؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ایک وسق ساٹھ صاع کاہوتا ہے اور ایک صاع پانچ رطل(تقریباً ڈھائی کلو) کا۔
وضاحت۲؎ : شام کی ایک آبادی کانام ہے۔
وضاحت۳؎ : باب سے حدیث کی مطابقت اس طرح ہے کہ : آپ ﷺ نے باغ پر اس عورت کی ملکیت برقرار رکھی اس لئے کہ اس نے اس زمین کو آباد کیا تھا، اور جو کسی بنجرزمین کو آباد کر ے وہی اس کا حقدارہے۔


3080- حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَاحِدِ بْنُ غِيَاثٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ،حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، عَنْ جَامِعِ بْنِ شَدَّادٍ، عَنْ كُلْثُومٍ، عَنْ زَيْنَبَ أَنَّهَا كَانَتْ تَفْلِي رَأْسَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ وَعِنْدَهُ امْرَأَةُ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ وَنِسَائٌ مِنَ الْمُهَاجِرَاتِ، وَهُنَّ يَشْتَكِينَ مَنَازِلَهُنَّ أَنَّهَا تَضِيقُ عَلَيْهِنَّ وَيُخْرَجْنَ مِنْهَا، فَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَنْ تُوَرَّثَ دُورَ الْمُهَاجِرِينَ النِّسَاءُ، فَمَاتَ عَبْدُاللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ فَوُرِّثَتْهُ امْرَأَتُهُ دَارًا بِالْمَدِينَةِ۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۸۸۹)، وقد أخرجہ: حم (۶/۳۶۳) (صحیح الإسناد)
۳۰۸۰- زینب رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ وہ رسول اللہﷺ کے سر مبارک سے جوئیں نکال رہی تھیں، اس وقت عثمان رضی اللہ عنہ کی بیو ی اور کچھ دوسرے مہاجرین کی عورتیں آپ کے پاس بیٹھیں تھیں اور اپنے گھروں کی شکایت کر رہی تھیں کہ ان کے گھران پر تنگ ہوجاتے ہیں، وہ گھروں سے نکال دی جا تی ہیں، تو رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ مہاجرین کی عورتیں ان کے مرنے پر ان کے گھروں کی وا رث بنا دی جائیں،تو جب عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا تو ان کی عورت مدینہ میں ایک گھر کی وارث ہوئی (شاید یہ حکم مہاجرین کے ساتھ خا ص ہو) ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : مہاجرعورتیں پردیس میں تھیں اور جب ان کے شوہر کے ورثاء شوہرکے گھرسے ان کو نکال دیتے تھے تو ان کو پردیس میں سخت پریشانیوں کا سامنا ہوتا تھااس لئے گھروں کو ان کے لئے الاٹ کر دیا گیا یہ ان کے لئے خاص حکم تھا، تمام حالات میں گھروں میں بھی حسب حصص ترکہ تقسیم ہوگا، اور باب سے تعلق یہ ہے کہ ان کے شوہروں نے خالی جگہوں پر ہی یہ گھربنائے تھے اس لئے ان کے لئے یہ گھربطورمردہ زمین کو زندہ کرنے کے حق کے ہوگئے تھے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
38- بَاب مَا جَاءَ فِي الدُّخُولِ فِي أَرْضِ الْخَرَاجِ
۳۸-باب: خرا ج کی زمین میں رہنے کا بیان​


3081- حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ بَكَّارِ بْنِ بِلالٍ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ ابْنُ عِيسَى -يَعْنِي ابْنَ سُمَيْعٍ- حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ وَاقِدٍ، حَدَّثَنِي أَبُو عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ مُعَاذٍ أَنَّهُ قَالَ: مَنْ عَقَدَ الْجِزْيَةَ فِي عُنُقِهِ فَقَدْ بَرِءَ مِمَّا عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۳۷۲) (ضعیف الإسناد)
(اس کے راوی ''محمد بن عیسیٰ'' سیٔ الحفظ ہیں)
۳۰۸۱- معا ذ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: جس نے اپنی گر دن میں جز یہ کا قلا دہ ڈالا ( یعنی اپنے اوپر جزیہ مقرر کرا یا ) تو وہ رسول اللہ ﷺ کے طریقے سے بر ی ہوگیا ( یعنی اس نے اچھا نہ کیا)۔


3082- حَدَّثَنَا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ الْحَضْرَمِيُّ، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ، حَدَّثَنَا عُمَارَةُ ابْنُ أَبِي الشَّعْثَاءِ، حَدَّثَنِي سِنَانُ بْنُ قَيْسٍ، حَدَّثَنِي شَبِيبُ بْنُ نُعَيْمٍ، حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ خُمَيْرٍ، حَدَّثَنِي أَبُو الدَّرْدَاءِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم: < مَنْ أَخَذَ أَرْضًا بِجِزْيَتِهَا فَقَدِ اسْتَقَالَ هِجْرَتَهُ، وَمَنْ نَزَعَ صَغَارَ كَافِرٍ مِنْ عُنُقِهِ فَجَعَلَهُ فِي عُنُقِهِ فَقَدْ وَلَّى الإِسْلامَ ظَهْرَهُ >، قَالَ: فَسَمِعَ مِنِّي خَالِدُ بْنُ مَعْدَانَ هَذَا الْحَدِيثَ فَقَالَ لِي: أَشُبَيْبٌ حَدَّثَكَ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: فَإِذَا قَدِمْتَ فَسَلْهُ فَلْيَكْتُبْ إِلَيَّ بِالْحَدِيثِ، قَالَ: فَكَتَبَهُ لَهُ، فَلَمَّا قَدِمْتُ سَأَلَنِي خَالِدُ بْنُ مَعْدَانَ الْقِرْطَاسَ، فَأَعْطَيْتُهُ، فَلَمَّا قَرَأَهُ تَرَكَ مَا فِي يَدِهِ مِنَ الأَرْضِينَ حِينَ سَمِعَ ذَلِكَ.
قَالَ أَبو دَاود: هَذَا يَزِيدُ بْنُ خُمَيْرٍ الْيَزَنِيُّ، لَيْسَ هُوَ صَاحِبَ شُعْبَةَ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۹۶۹) (ضعیف الإسناد)
(اس کے راوی ''سنان بن قیس'' لیّن الحدیث ہیں،نیز اس میں بقیہ بھی ہیں جو متکلم فیہ ہیں)
۳۰۸۲- ابوالدردا ء رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : '' جس نے جز یہ والی زمین خر ید لی تو اس نے (گویا) اپنی ہجرت فسخ کر دی اور جس نے کسی کافر کی ذلت ( یعنی جز یہ کو) اس کے گلے سے اتا ر کر اپنے گلے میں ڈال لیا (یعنی جز یے کی زمین خرید لے کر زراعت کرنے لگا اور جز یہ دینا قبول کر لیا) تو اس نے اسلام کوپس پشت ڈل دیا''۔
( اس حدیث کے راوی سنان) کہتے ہیں: خالد بن معدان نے یہ حدیث مجھ سے سنی تو انہوں نے کہا: کیا شبیب نے تم سے یہ حدیث بیان کی ہے ؟ میں نے کہا: ہاں، انہوں نے کہا: جب تم شبیب کے پاس جائو تو ان سے کہو کہ وہ یہ حدیث مجھ کو لکھ بھیجیں ۔
سنان کہتے ہیں:( میں نے ان سے کہا) تو شبیب نے یہ حدیث خا لد کے لئے لکھ کر ( مجھ کو ) دی، پھر جب میں خالد بن معدان کے پاس آیا تو انہوں نے قرطاس (کاغذ) مانگا میں نے ان کودے دیا، جب انہوں نے اسے پڑھا، تو ان کے پاس جتنی خراج کی زمینیں تھیں سب چھوڑدیں ۔
ابو داودکہتے ہیں:یہ یزید بن خمیر یز نی ہیں، شعبہ کے شا گر د نہیں ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یہ حکم غا لبا ً ابتداء اسلام میں تھا یا پھر یہ تہدید ہے کہ کہیں ایسا نہ ہوکہ صر ف کاشتکا ر بن کر رہ جائے اور جہاد کو بھول جائے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
39- بَاب فِي الأَرْضِ يَحْمِيهَا الإِمَامُ أَوِ الرَّجُلُ
۳۹-باب: امام یا کوئی اور شخص زمین (چراگاہ اور پانی ) اپنے لیے گھیرلے توکیسا ہے؟​


3083- حَدَّثَنَا ابْنُ السَّرْحِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ الصَّعْبِ بْنِ جَثَّامَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: <لاحِمَى إِلا لِلَّهِ وَلِرَسُولِهِ >.
قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: وَبَلَغَنِي أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ حَمَى النَّقِيعَ۔
* تخريج: خ/المساقاۃ ۱۱ (۲۳۷۰)، الجہاد ۱۴۶ (۳۰۱۲)، (تحفۃ الأشراف: ۴۹۴۱)، وقد أخرجہ: حم (۴/۳۷، ۳۸، ۷۱، ۷۳) (صحیح)
۳۰۸۳- صعب بن جثا مہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''اللہ اور اس کے رسول کے سوا کسی اور کے لئے چراگا ہ نہیں ہے'' ۔
ابن شہاب زہری کہتے ہیں کہ مجھے یہ حدیث پہنچی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے نقیع(ایک جگہ کا نام ہے) کو حمی (چراگاہ) بنایا ۔


3084- حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ الصَّعْبِ بْنِ جَثَّامَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ حَمَى النَّقِيعَ، وَقَالَ: < لا حِمَى إِلا لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ >۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۴۹۴۱) (حسن)
۳۰۸۴- صعب بن جثامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے نقیع کو چرا گاہ بنایا، اور فرمایا : '' اللہ کے سوا کسی اور کے لئے چراگاہ نہیں ہے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی حکومت کے مویشی جیسے جہادسے یازکاۃ میں حاصل ہونے والے جانوروں کے لیے چراگاہ کو خاص کرنا جائز ہے ، اورعام آدمی کسی جگہ یا چشمہ وغیرہ کو اپنے ذاتی استعمال کے لیے روک لے تویہ صحیح نہیں ہے ، یہ حکم ایسی زمینوں کا ہے جوکسی خاص آدمی کی ملکیت اور قبضے میں نہیں ہے ۔
 
Top