28- بَاب فِي النَّذْرِ فِيمَا لا يَمْلِكُ
۲۸- باب: جس بات کا آدمی کو اختیار نہیں اس کی نذر کا بیان
3316- حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى قَالا: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلابَةَ، عَنْ أَبِي الْمُهَلَّبِ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ قَالَ: كَانَتِ الْعَضْبَائُ لِرَجُلٍ مِنْ بَنِي عُقَيْلٍ، وَكَانَتْ مِنْ سَوَابِقِ الْحَاجِّ، قَالَ: فَأُسِرَ فَأَتَى النَّبِيَّ ﷺ وَهُوَ فِي وَثَاقٍ، وَالنَّبِيُّ ﷺ عَلَى حِمَارٍ عَلَيْهِ قَطِيفَةٌ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ! عَلامَ تَأْخُذُنِي وَتَأْخُذُ سَابِقَةَ الْحَاجِّ؟ قَالَ: < نَأْخُذُكَ بِجَرِيرَةِ حُلَفَائِكَ ثَقِيفَ > قَالَ: وَكَانَ ثَقِيفُ قَدْ أَسَرُوا رَجُلَيْنِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ ، قَالَ: وَقَدْ قَالَ فِيمَا قَالَ: وَأَنَا مُسْلِمٌ، أَوْ قَالَ: وَقَدْ أَسْلَمْتُ، فَلَمَّا مَضَى النَّبِيُّ ﷺ -قَالَ أَبو دَاود: فَهِمْتُ هَذَا مِنْ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى- نَادَاهُ يَا مُحَمَّدُ يَا مُحَمَّدُ! قَالَ: وَكَانَ النَّبِيُّ ﷺ رَحِيمًا [رَفِيقًا] فَرَجَعَ إِلَيْهِ، فَقَالَ: < مَا شَأْنُكَ؟ > قَالَ: إِنِّي مُسْلِمٌ، قَالَ: < لَوْ قُلْتَهَا وَأَنْتَ تَمْلِكُ أَمْرَكَ أَفْلَحْتَ كُلَّ الْفَلاحِ > -قَالَ أَبو دَاود: ثُمَّ رَجَعْتُ إِلَى حَدِيثِ سُلَيْمَانَ- قَالَ: يَا مُحَمَّدُ! إِنِّي جَائِعٌ فَأَطْعِمْنِي، إِنِّي ظَمْآنٌ فَاسْقِنِي، قَالَ: فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ : < هَذِهِ حَاجَتُكَ > أَوْ قَالَ: < هَذِهِ حَاجَتُهُ > فَفُودِيَ الرَّجُلُ بَعْدُ بِالرَّجُلَيْنِ، قَالَ: وَحَبَسَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ الْعَضْبَاءَ لِرَحْلِهِ، قَالَ: فَأَغَارَ الْمُشْرِكُونَ عَلَى سَرْحِ الْمَدِينَةِ فَذَهَبُوا بِالْعَضْبَاءِ، قَالَ: فَلَمَّا ذَهَبُوا بِهَا وَأَسَرُوا امْرَأَةً مِنَ الْمُسْلِمِينَ، قَالَ: فَكَانُوا إِذَا كَانَ اللَّيْلُ يُرِيحُونَ إِبِلَهُمْ فِي أَفْنِيَتِهِمْ، قَالَ: فَنُوِّمُوا لَيْلَةً وَقَامَتِ الْمَرْأَةُ فَجَعَلَتْ لاتَضَعُ يَدَهَا عَلَى بَعِيرٍ إِلا رَغَا، حَتَّى أَتَتْ عَلَى الْعَضْبَاءِ، قَالَ: فَأَتَتْ عَلَى نَاقَةٍ ذَلُولٍ مُجَرَّسَةٍ، قَالَ: فَرَكِبَتْهَا ثُمَّ جَعَلَتْ لِلَّهِ عَلَيْهَا إِنْ نَجَّاهَا اللَّهُ لَتَنْحَرَنَّهَا، قَالَ: فَلَمَّا قَدِمَتِ الْمَدِينَةَ عُرِفَتِ النَّاقَةُ نَاقَةُ النَّبِيِّ ﷺ ، فَأُخْبِرَ النَّبِيُّ ﷺ بِذَلِكَ، فَأَرْسَلَ إِلَيْهَا فَجِيئَ بِهَا، وَأُخْبِرَ بِنَذْرِهَا، فَقَالَ: < بِئْسَ مَا جَزَيْتِيهَا-أَوْ: جَزَتْهَا-إِنِ اللَّهُ أَنْجَاهَا عَلَيْهَا لَتَنْحَرَنَّهَا، لا وَفَاءَ لِنَذْرٍ فِي مَعْصِيَةِ اللَّهِ، وَلا فِيمَا لا يَمْلِكُ ابْنُ آدَمَ >.
[قَالَ أَبو دَاود: وَالْمَرْأَةُ هَذِهِ امْرَأَةُ أَبِي ذَرٍّ]۔
* تخريج: م/النذر ۳ (۱۶۴۱)، ن/الأیمان ۳۱ (۳۸۲۱)، ۴۱ (۳۸۶۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۸۸۴)، وقد أخرجہ: ت/ السیر (۱۵۶۸)، ق/الکفارات ۱۶ (۲۱۲۴)، حم (۴/۴۲۶، ۴۳۰، ۴۳۲، ۴۳۳)، دی/ النذور ۳ (۲۳۸۲) (صحیح)
۳۳۱۶- عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ عضباء ۱؎ بنو عقیل کے ایک شخص کی تھی، حاجیوں کی سواریوں میں آگے چلنے والی تھی، وہ شخص گرفتا ر کر کے نبی اکرم ﷺ کے پاس بندھا ہوا لایا گیا، اس وقت آپ ایک گدھے پر سوار تھے اور آپ ایک چادر اوڑھے ہو ئے تھے، اس نے کہا: محمد!آپ نے مجھے اور حاجیوں کی سواریوں میں آگے جا نے والی میری اونٹنی (عضباء) کو کس بنا پر پکڑ رکھاہے، آپ ﷺ نے فرمایا:''ہم نے تمہارے حلیف ثقیف کے گناہ کے جرم میں پکڑرکھا ہے''۔
راوی کہتے ہیں : ثقیف نے نبی اکرم ﷺ کے اصحاب میں سے دو شخصوں کو قید کر لیا تھا ۔
اس نے جو بات کہی اس میں یہ بات بھی کہی کہ میں مسلمان ہوں، یا یہ کہا کہ میں اسلام لے آیا ہوں، توجب نبی اکرم ﷺ آگے بڑھ گئے ( آپ نے کوئی جواب نہیں دیا)تو اس نے پکارا: اے محمد! اے محمد!، عمران کہتے ہیں:نبی اکرم ﷺ رحم (دل اور نرم مزاج تھے، اس کے پاس لو ٹ آئے، اور پوچھا:''کیابات ہے؟''، اس نے کہا: میں مسلمان ہوں، آپ ﷺ نے فرمایا:'' اگر تم یہ پہلے کہتے جب تم اپنے معاملے کے مختار تھے تو تم بالکل بچ جا تے ''، اس نے کہا: اے محمد! میں بھوکا ہوں، مجھے کھانا کھلا ئو، میں پیا سا ہوں مجھے پا نی پلا ئو۔
عمران رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی اکرم ﷺ نے یہ سن کر فرمایا:'' یہی تمہارا مقصد ہے''، یا: '' یہی اس کا مقصد ہے''۔
راوی کہتے ہیں: پھر وہ دو آدمیوں کے بدلے فدیہ میں دے دیا گیا ۲؎ اور عضبا ء کو رسول اللہ ﷺ نے اپنی سواری کے لئے روک لیا( یعنی واپس نہیں کیا)۔
پھر مشرکین نے مدینہ کے جا نوروں پر حملہ کیا اورعضباء کو پکڑ لے گئے،تو جب اسے لے گئے اور ایک مسلمان عورت کو بھی پکڑ لے گئے، جب رات ہوتی تووہ لوگ اپنے اونٹوں کو اپنے کھلے میدانوں میں سستا نے کے لئے چھوڑ دیتے، ایک رات وہ سب سو گئے، تو عورت (نکل بھاگنے کے ارادہ) سے اٹھی تو وہ جس اونٹ پر بھی ہاتھ رکھتی وہ بلبلا نے لگتا یہاں تک کہ وہ عضبا ء کے پاس آئی، وہ ایک سیدھی سادی سواری میں مشاق اونٹنی کے پاس آئی اور اس پر سوار ہو گئی اس نے نذر مان لی کہ اگر اللہ نے اسے بچا دیا تو وہ اسے ضرور قربان کر دے گی۔
جب وہ مدینہ پہنچی تو اونٹنی نبی اکرم ﷺ کی اونٹنی کی حیثیت سے پہچان لی گئی، نبی اکرم ﷺ کو اس کی اطلاع دی گئی، آپ نے اسے بلوایا،چنانچہ اسے بلاکر لایا گیا، اس نے اپنی نذر کے متعلق بتایا، آپ ﷺ نے فرمایا:''کتنا بُرا ہے جو تم نے اسے بدلہ دینا چاہا، اللہ نے اُسے اُس کی وجہ سے نجات دی ہے تووہ اسے نحر کر دے، اللہ کی معصیت میں نذر کا پورا کرنا نہیں اور نہ ہی نذر اس مال میں ہے جس کا آدمی مالک نہ ہو'' ۔
ابو داود کہتے ہیں: یہ عورت ابو ذر کی بیوی تھیں۔
وضاحت ۱؎ : ایک اونٹنی کانام ہے۔
وضاحت ۲؎ : یعنی ثقیف نے اسے لے لیا اور اس کے بدلہ میں ان دونوں مسلمانوں کوچھوڑ دیا جنہیں انہوں نے پکڑ رکھا تھا۔
29- بَاب فِيمَنْ نَذَرَ أَنْ يَتَصَدَّقَ بِمَالِهِ
۲۹- باب: جواپنا سا را مال صدقہ میں دے دینے کی نذرمانے اس کے حکم کا بیان
3317- حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ وَابْنُ السَّرْحِ قَالا: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ قَالَ: قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: فَأَخْبَرَنِي عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ عَبْدَاللَّهِ بْنَ كَعْبٍ، وَكَانَ قَائِدَ كَعْبٍ مِنْ بَنِيهِ [حِينَ عَمِيَ]، عَنْ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنَّ مِنْ تَوْبَتِي أَنْ أَنْخَلِعَ مِنْ مَالِي صَدَقَةً إِلَى اللَّهِ وَإِلَى رَسُولِهِ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < أَمْسِكْ عَلَيْكَ بَعْضَ مَالِكَ، فَهُوَ خَيْرٌ لَكَ >، قَالَ: فَقُلْتُ: إِنِّي أُمْسِكُ سَهْمِيَ الَّذِي بِخَيْبَرَ ۔
* تخريج: ن/ الأیمان ۳۵ (۳۸۵۴)، انظر حدیث رقم : (۲۲۰۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۱۳۵) (صحیح)
۳۳۱۷- کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا :اللہ کے رسول! میری تو بہ یہ ہے کہ میں اپنے سا رے مال سے دستبردار ہو کر اسے اللہ اور اس کے رسول کے لئے صدقہ کردوں، آپ ﷺ نے فرمایا:'' اپنا کچھ مال اپنے لئے روک لو، یہ تمہارے لئے بہتر ہے''، تو میں نے عرض کیا :میں اپنا خیبر کا حصہ اپنے لئے روک لیتاہوں۔
3318- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، أَخْبَرَنِي عَبْدُاللَّهِ بْنُ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ قَالَ لِرَسُولِ اللَّهِ ﷺ حِينَ تِيبَ عَلَيْهِ: إِنِّي أَنْخَلِعُ مِنْ مَالِي، فَذَكَرَ نَحْوَهُ، إِلَى: < خَيْرٌ لَكَ > ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، وانظر حدیث رقم : (۲۲۰۲)،(تحفۃ الأشراف: ۱۱۱۳۵) (صحیح)
۳۳۱۸- کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: جب ان کی تو بہ قبول ہو گئی تو انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا: میں اپنے مال سے دستبر دار ہو جاتا ہوں،پھرا ٓگے راوی نے اسی طرح حدیث بیان کی: ''خَيْرٌ لَكَ '' تک۔
3319- حَدَّثَنِي عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنِ ابْنِ كَعْبِ ابْنِ مَالِكٍ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ قَالَ لِلنَّبِيِّ ﷺ ، أَوْ أَبُو لُبَابَةَ أَوْ مَنْ شَاءَ اللَّهُ: إِنَّ مِنْ تَوْبَتِي أَنْ أَهْجُرَ دَارَ قَوْمِي الَّتِي أَصَبْتُ فِيهَا الذَّنْبَ وَأَنْ أَنْخَلِعَ مِنْ مَالِي كُلِّهِ صَدَقَةً، قَالَ: < يُجْزِئُ عَنْكَ الثُّلُثُ >۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، وانظر حدیث رقم : (۲۲۰۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۱۳۵، ۱۲۴۹) (صحیح الإسناد)
۳۳۱۹- کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: انہوں نے یا ابو لبا بہ رضی اللہ عنہ نے یا کسی اور نے جسے اللہ نے چا ہا نبی اکرم ﷺ سے کہا: میری تو بہ میں شامل ہے کہ میں اپنے اس گھر سے جہاں مجھ سے گناہ سر زد ہوا ہے ہجرت کر جائوں اور اپنے سارے مال کو صدقہ کر کے اس سے دستبردار ہو جاؤں، تو آپ ﷺ نے فرمایا:'' بس ایک ثلث کا صدقہ کر دیناتمہیں کا فی ہوگا''۔
3320- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُتَوَكِّلِ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، قَالَ: أَخْبَرَنِي مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ قَالَ: أَخْبَرَنِي ابْنُ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: كَانَ أَبُو لُبَابَةَ، فَذَكَرَ مَعْنَاهُ، وَالْقِصَّةُ لأَبِي لُبَابَةَ.
قَالَ أَبو دَاود: رَوَاهُ يُونُسُ عَنِ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ بَعْضِ بَنِي السَّائِبِ ابْنِ أَبِي لُبَابَةَ، وَرَوَاهُ الزُّبَيْدِيُّ عَنِ الزُّهْرِيِّ عَنْ حُسَيْنِ بْنِ السَّائِبِ بْنِ أَبِي لُبَابَةَ، مِثْلَهُ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۱۴۹) (ضعیف الإسناد)
(اس کے راوی ''محمد بن متوکل'' حافظہ کے سخت کمزور ہیں اور حسین بن ابی السائب یا بعض بنی السائب مجہول ہیں )
۳۳۲۰- زہری کہتے ہیں:مجھے ابن کعب بن مالک نے خبر دی ہے،وہ کہتے ہیں کہ یہ ابولبا بہ رضی اللہ عنہ تھے پھر انہوں نے اسی مفہوم کی حدیث ذکر کی اور واقعہ ابو لبابہ کا ہے ۔
ابو داود کہتے ہیں : ا سے یونس نے ابن شہاب سے اورابن شہاب نے سائب بن ابو لبا بہ کے بیٹوں میں سے کسی سے روایت کیا ہے نیزاسے زبیدی نے زہری سے،زہری نے حسین بن سائب بن ابی لبابہ سے اسی کے مثل روایت کیا ہے۔
3321- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ الرَّبِيعِ، حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ قَالَ: قَالَ ابْنُ إِسْحاَقَ: حَدَّثَنِي الزُّهْرِيُّ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ كَعْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ فِي قِصَّتِهِ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنَّ مِنْ تَوْبَتِي إِلَى اللَّهِ أَنْ أَخْرُجَ مِنْ مَالِي كُلِّهِ إِلَى اللَّهِ وَإِلَى رَسُولِهِ صَدَقَةً، قَالَ: < لا > قُلْتُ: فَنِصْفُهُ، قَالَ: < لا > قُلْتُ: فَثُلُثُهُ، قَالَ: < نَعَمْ > قُلْتُ: فَإِنِّي سَأُمْسِكُ سَهْمِي مِنْ خَيْبَرَ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، انظر رقم (۲۲۰۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۱۳۵) (حسن صحیح)
۳۳۲۱- کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے اسی قصہ میں روایت ہے، وہ کہتے ہیں : میں نے عرض کیا:اللہ کے رسول! میری توبہ میں یہ شامل ہے کہ میں اللہ اور اس کے رسول کی راہ میں اپنا سارا مال صدقہ کردوں، آپ ﷺ نے فرمایا:'' نہیں''، میں نے کہا: نصف صدقہ کردوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا :''نہیں''، میں نے کہا: ثلث صدقہ کر دوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا:'' ہاں''، میں نے کہا: تو میں اپنا خیبر کا حصہ روک لیتا ہوں۔