• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابو داود

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
30 - بَاب الْعَجْمَاءُ وَالْمَعْدِنُ وَالْبِئْرُ جُبَارٌ
۳۰-باب: اگر بے زبان جانور کسی کوزخمی کردے اور آدمی کان یا کنواں اپنی زمین میں کھدوائے اور اس میں کوئی مرجائے تو ان چیزوں میں تاوان لازم نہ ہوگا​


4593- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، وأَبِي سَلَمَةَ، سَمِعَا أَبَا هُرَيْرَةَ يُحَدِّثُ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < الْعَجْمَاءُ جُرْحُهَا جُبَارٌ، وَالْمَعْدِنُ جُبَارٌ، وَالْبِئْرُ جُبَارٌ، وَفِي الرِّكَازِ الْخُمْسُ >.
قَالَ أَبو دَاود: الْعَجْمَاءُ الْمُنْفَلِتَةُ الَّتِي لا يَكُونُ مَعَهَا أَحَدٌ، وَتَكُونُ بِالنَّهَارِ لاتَكُونُ بِاللَّيْلِ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم : (۳۰۸۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۱۲۸، ۱۵۱۴۷) (صحیح)
۴۵۹۳- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جا نور کسی کو زخمی کردے تو اس میں ہرجانہ نہیں ہے ، کان میں ہلاک ہونے والے کا ہرجانہ نہیں ہے اور کنواں میں ہلاک ہوجانے والے کا ہرجانہ نہیں ہے ۱؎ اور رکاز میں پانچواں حصہ دینا ہو گا''۔
ابو داود کہتے ہیں: جا نور سے مراد وہ جا نور ہے جو چھڑا کر بھاگ گیا ہو اور اس کے ساتھ کوئی نہ ہو اور دن ہو، رات نہ ہو۔
وضاحت ۱؎ : یعنی جانور کسی کوزخمی کردے یا کان اور کنویں میں گر کر کوئی ہلاک ہوجائے تو ان کے مالکوں پر اس کی دیت نہ ہوگی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
31- بَاب فِي النَّارِ تَعَدَّى
۳۱-باب: پھیل جانے والی آگ کے حکم کا بیان​


4594- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُتَوَكِّلِ الْعَسْقَلانِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ (ح) و حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ مُسَافِرٍ التِّنِّيسِيُّ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْمُبَارَكِ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْمَلِكِ الصَّنْعَانِيُّ، كِلاهُمَا عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ هَمَّامِ بْنِ مُنَبِّهٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : <النَّارُ جُبَارٌ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۷۹۶، ۱۴۶۹۹)، وقد أخرجہ: ق/الدیات ۲۷ (۲۶۷۶) (صحیح)
۴۵۹۴- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہـ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' آگ باطل ہے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی کسی نے اپنی زمین پر آگ جلائی اور وہ وہاں سے اڑ کر کسی کے گھر یا سامان میں لگ گئی تو جلا نے والے پر کوئی تاوان نہ ہو گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207

32 - بَاب الْقِصَاصِ مِنَ السِّنِّ​
۳۲-باب: دانت کے قصاص کا بیان​


4595- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ، عَنْ حُمَيْدٍ الطَّوِيلِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: كَسَرَتِ الرُّبَيِّعُ أُخْتُ أَنَسِ بْنِ النَّضْرِ ثَنِيَّةَ امْرَأَةٍ، فَأَتَوُا النَّبِيَّ ﷺ ، فَقَضَى بِكِتَابِ اللَّهِ الْقِصَاصَ، فَقَالَ أَنَسُ بْنُ النَّضْرِ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ لا تُكْسَرُ ثَنِيَّتُهَا الْيَوْمَ، قَالَ: < يَا أَنَسُ كِتَابُ اللَّهِ الْقِصَاصُ > فَرَضُوا بِأَرْشٍ أَخَذُوهُ، فَعَجِبَ نَبِيُّ اللَّهِ ﷺ ، وَقَالَ: < إِنَّ مِنْ عِبَادِاللَّهِ مَنْ لَوْ أَقْسَمَ عَلَى اللَّهِ لأَبَرَّهُ >.
قَالَ أَبو دَاود: سَمِعْتُ أَحْمَدَ بْنَ حَنْبَلٍ قِيلَ لَهُ: كَيْفَ يُقْتَصُّ مِنَ السِّنِّ؟ قَالَ: تُبْرَدُ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۷۷۷)، وقد أخرجہ: خ/الصلح ۸ (۲۷۰۳)، تفسیر سورۃ البقرۃ ۲۳ (۴۴۹۹)، المائدۃ ۶ (۴۶۱۱)، الدیات ۱۹ (۶۸۹۴)، م/القسامۃ ۵ (۱۶۷۵)، ن/القسامۃ ۱۲ (۴۷۵۹)، ق/الدیات ۱۶ (۲۶۴۹)، حم ( ۳/۱۲۸ ، ۱۶۷، ۲۸۴) (صحیح)
۴۵۹۵- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انس بن نضر رضی اللہ عنہ کی بہن ربیع نے ایک عورت کا سامنے کا دانت توڑ دیا، تو وہ لوگ نبی اکرمﷺ کے پاس آئے ، آپ نے اللہ کی کتاب کے مطا بق قصاص کا فیصلہ کیا ، تو انس بن نضرنے کہا، اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے! اس کا دانت تو آج نہیں تو ڑا جائے گا، آپ ﷺ نے فرمایا:'' اے انس! کتاب اللہ میں قصاص کا حکم ہے''، پھر وہ لوگ دیت پر راضی ہو گئے جسے انہوں نے لے لیا، اس پر اللہ کے نبی اکرمﷺ کو تعجب ہوا اور آپ نے فرمایا:'' اللہ کے بعض بندے ایسے ہیں کہ اگر وہ اللہ کی قسم کھا لیں تو وہ ان کی قسم پوری کر دیتا ہے'' ۱؎ ۔
ابو داود کہتے ہیں: میں نے احمد بن حنبل کو کہتے سنا ان سے پوچھا گیا تھا کہ دانت کا قصاص کیسے لیا جائے؟ تو انہوں نے کہا: وہ ریتی سے رگڑا جائے۔
وضاحت ۱؎ : انس بن نضر رضی اللہ عنہ نے غصے میں اللہ کے بھروسے پر قسم کھالی تھی کہ میری بہن کا دانت نہیں توڑا جائے گا، چنانچہ اللہ نے ان کے لئے ایسا ہی سامان قانونی طورپر کردیا۔



* * * * *​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207

{ 34- أوَّل كِتَاب السُّنَّةِ }
۳۴-کتاب: سنت وعقائدکے احکام ومسائل


1- بَاب شَرْحِ السُّنَّةِ
۱-باب: سنت وعقائد کی شرح وتفسیر​


4596- حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ بَقِيَّةَ، عَنْ خَالِدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < افْتَرَقَتِ الْيَهُودُ عَلَى إِحْدَى أَوْ ثِنْتَيْنِ وَسَبْعِينَ فِرْقَةً، وَتَفَرَّقَتِ النَّصَارَى عَلَى إِحْدَى أَوْ ثِنْتَيْنِ وَسَبْعِينَ فِرْقَةً، وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِي عَلَى ثَلاثٍ وَسَبْعِينَ فِرْقَةً >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۰۲۳)، وقد أخرجہ: ت/الإیمان ۱۸ (۲۶۴۰)، ق/الفتن ۱۷ (۳۹۹۱)، حم (۲/۳۳۲) (حسن صحیح)
۴۵۹۶- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’یہود اکہتر یا بہتر فرقوں میں بٹ گئے، نصاریٰ اکہتر یا بہتر فرقوں میں بٹ گئے اور میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی‘‘ ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث میں مذموم فرقوں سے فروعی مسائل میں اختلاف کرنے والے فرقے مراد نہیں ہیں، بلکہ اس سے مراد وہ فرقے ہیں جن کا اختلاف اہل حق سے اصول دین وعقائد اسلام میں ہے، مثلا مسائل توحید،تقدیر،نبوت، اورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے محبت وموالات وغیرہ میں، کیونکہ اِنہی مسائل میں اختلاف رکھنے والوں نے باہم اکفار وتکفیر کی ہے، فروعی مسائل میں اختلاف رکھنے والے باہم اکفار وتکفیر نہیں کرتے، (۷۳) واں فرقہ جوناجی ہے یہ وہ فرقہ ہے جو سنت پر گامزن ہے، بدعت سے مجتنب اور صحابہ کرام سے محبت کے ساتھ ان کے نقش قدم پر چلتا ہے، حدیث سے یہ بھی پتا چلا کہ ان تمام گمراہ فرقوں کا شمار بھی نبی اکرم ﷺ نے امت میں کیا ہے وہ جہنم میں تو جائیں گے، مگر ہمیشہ کے لئے نہیں، سزا کاٹ کر اس سے نجات پاجائیں گے (۷۳) واں فرقہ ہی اول وہلہ میں ناجی ہوگا کیونکہ یہی سنت پر ہے، یہی باب سے مناسبت ہے۔


4597- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، قَالا: حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ، حَدَّثَنَا صَفْوَانُ (ح) و حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ، قَالَ: حَدَّثَنِي صَفْوَانُ، نَحْوَهُ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَزْهَرُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ الْحَرَازِيُّ، عَنْ أَبِي عَامِرٍ الْهَوْزَنِيِّ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ أَنَّهُ قَامَ [فِينَا] فَقَالَ: أَلا إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَامَ فِينَا فَقَالَ: < أَلا إِنَّ مَنْ قَبْلَكُمْ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ افْتَرَقُوا عَلَى ثِنْتَيْنِ وَسَبْعِينَ مِلَّةً، وَإِنَّ هَذِهِ الْمِلَّةَ سَتَفْتَرِقُ عَلَى ثَلاثٍ وَسَبْعِينَ: ثِنْتَانِ وَسَبْعُونَ فِي النَّارِ، وَوَاحِدَةٌ فِي الْجَنَّةِ، وَهِيَ الْجَمَاعَةُ >.
زَادَ ابْنُ يَحْيَى وَعَمْرٌو فِي حَدِيثَيْهِمَا: < وَإِنَّهُ سَيَخْرُجُ مِنْ أُمَّتِي أَقْوَامٌ تَجَارَى بِهِمْ تِلْكَ الأَهْوَاءُ كَمَا يَتَجَارَى الْكَلْبُ لِصَاحِبِهِ > وَقَالَ عَمْرٌو: < الْكَلْبُ بِصَاحِبِهِ، لايَبْقَى مِنْهُ عِرْقٌ وَلا مَفْصِلٌ إِلادَخَلَهُ >۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۴۲۵)، وقد أخرجہ: حم (۴/۱۰۲)، دي/السیر ۷۵ (۲۵۶۰) (حسن)
۴۵۹۷- ابوعامرعبداللہ بن لحی حمصی ہوزنی کہتے ہیں کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے ہمارے درمیان کھڑے ہوکرکہا: سنو ! رسول اللہ ﷺ ہمارے درمیان کھڑے ہوئے اور فرمایا: ’’سنو! تم سے پہلے جو اہل کتاب تھے ، بہتر (۷۲) فرقوں میں بٹ گئے ، اور یہ امت تہتر (۷۳) فرقوں میں بٹ جائے گی ، بہتّر فرقے جہنم میں ہوں گے اور ایک جنت میں اوریہی ’’الجماعة‘‘ہے‘‘ ۔
ابن یحییٰ اور عمرونے اپنی روایت میں اتنا مزید بیان کیا : ’’اورعنقریب میری امت میں ایسے لوگ نکلیں گے جن میں گمراہیاں اسی طرح سمائی ہوں گی، جس طرح کتے کا اثر اس شخص پر چھا جاتا ہے جسے اس نے کاٹ لیا ہو ‘‘ ۱؎ ۔
اورعمرو کی روایت میں ’’لصاحبه‘‘ کے بجائے ’’بصاحبه‘‘ ہے اس میں یہ بھی ہے: کوئی رگ اور کوئی جوڑ ایسا باقی نہیں رہتا جس میں اس کا اثر داخل نہ ہوا ہو۔
وضاحت ۱؎ : جس طرح کتے کا زہر رگ وریشہ میں سرایت کرجاتا ہے، اسی طرح بدعتیں ان کے رگ وریشہ میں سماجاتی ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
2- بَاب النَّهْيِ عَنِ الْجِدَالِ وَاتِّبَاعِ الْمُتَشَابِهِ مِنَ الْقُرْآنِ
۲-باب: قرآن میں جھگڑنا اور متشابہ آیات کے چکر میں پڑنا منع ہے​


4598- حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ [التَّسْتُرِيُّ]، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِي اللَّه عَنْهَا قَالَتْ: قَرَأَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ هَذِهِ الآيَةَ: {هُوَ الَّذِي أَنْزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ آيَاتٌ مُحْكَمَاتٌ}إِلَى {أُولُو الأَلْبَابِ} قَالَتْ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < فَإِذَا رَأَيْتُمُ الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ فَأُولَئِكَ الَّذِينَ سَمَّى اللَّهُ فَاحْذَرُوهُمْ >۔
* تخريج: خ/تفسیر آل عمران ۱ (۴۵۴۷)، م/العلم ۱ (۲۶۶۵)، ت/تفسیر آل عمران ۴ (۲۹۹۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۴۶۰)، وقد أخرجہ: ق/المقدمۃ ۷ (۴۷)، حم (۶/۴۸)، دي/المقدمۃ ۱۹ (۱۴۷) (صحیح)
۴۵۹۸- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے آیت کریمہ {هُوَ الَّذِي أَنْزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ آيَاتٌ مُحْكَمَاتٌ} سے لے کر {أُولُو الأَلْبَابِ} ۱؎ تک تلاوت کی اور فرمایا: ''جب تم ایسے لوگوں کو دیکھو جو متشابہ آیات کے پیچھے پڑتے ہوں تو جان لو کہ یہی لوگ ہیں جن کا اللہ نے نام لیا ہے تو ان سے بچو'' ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : پوری آیت کا ترجمہ یہ ہے:اللہ ہی ہے جس نے تجھ پر وہ کتاب اتاری جس میں واضح ومضبوط آیتیں ہیں جو اصلِ کتاب ہیں، اور بعض متشابہ آیتیں ہیں، پس جن کے دلوں میں کجی ہے وہ محکم کو چھوڑ کر متشابہ کے پیچھے لگ جاتے ہیں فتنہ پروری کی طلب میں اور اس کی حقیقی مراد معلوم کرنے کے لئے، حالانکہ اس کی حقیقی مراد سوائے اللہ کے کوئی نہیں جانتا، پختہ علم والے تو یہی کہتے ہیں کہ ہم تو ان پر ایمان لاچکے یہ سب ہمارے رب کی طرف سے ہیں اور نصیحت تو صرف عقل والے ہی حاصل کرتے ہیں (سورۃآل عمران:۷)
وضاحت ۲؎ : محکم آیات کوچھوڑ کر متشابہ کے پیچھے لگنا تمام بدعتیوں کی عادت ہے، وہ قدیم ہوں یا جدید ان سے دور رہنے کا حکم ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
3- بَاب مُجَانَبَةِ أَهْلِ الأَهْوَاءِ وَبُغْضِهِمْ
۳-باب: بدعتیوں اور ہوا پرستوں کی صحبت سے بچنے اور ان سے بغض ونفرت رکھنے کا بیان​


4599- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ أَبِي زِيَادٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ رَجُلٍ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < أَفْضَلُ الأَعْمَالِ: الْحُبُّ فِي اللَّهِ وَالْبُغْضُ فِي اللَّهِ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۰۰۹)، وقد أخرجہ: حم (۵/۱۴۶) (ضعیف)
( اس کی سند میں ایک راوی مبہم ہے)
۴۵۹۹- ابو ذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''سب سے افضل عمل اللہ کے واسطے محبت کرنا اور اللہ ہی کے واسطے دشمنی رکھنا ہے ''۔


4600- حَدَّثَنَا ابْنُ السَّرْحِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ عَبْدَاللَّهِ بْنَ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ- وَكَانَ قَائِدَ كَعْبٍ مِنْ بَنِيهِ حِينَ عَمِيَ- قَالَ: سَمِعْتُ كَعْبَ بْنَ مَالِكٍ، وَذَكَرَ ابْنُ السَّرْحِ قِصَّةَ تَخَلُّفِهِ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ، قَالَ: وَنَهَى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ الْمُسْلِمِينَ عَنْ كَلامِنَا أَيُّهَا الثَّلاثَةَ، حَتَّى إِذَا طَالَ عَلَيَّ تَسَوَّرْتُ جِدَارَ حَائِطِ أَبِي قَتَادَةَ، وَهُوَ ابْنُ عَمِّي، فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، فَوَاللَّهِ مَا رَدَّ عَلَيَّ السَّلامَ، ثُمَّ سَاقَ خَبَرَ تَنْزِيلِ تَوْبَتِهِ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم : (۲۲۰۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۱۳۱) (صحیح)
۴۶۰۰- عبداللہ بن کعب سے روایت ہے (جب کعب رضی اللہ عنہ نابینا ہوگئے تو ان کے بیٹوں میں عبداللہ آپ کے قائد تھے) وہ کہتے ہیں: میں نے کعب بن مالک سے سنا (ابن السرح ان کے غزوہ تبوک میں نبی اکرمﷺ سے پیچھے رہ جا نے کا واقعہ ذکر کر کے کہتے ہیں کہ کعب نے کہا) رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کو ہم تینوں سے گفتگو کرنے سے منع فرما دیا یہاں تک کہ جب لمبا عرصہ ہو گیا تو میں ابو قتادہ رضی اللہ عنہ کے باغ کی دیوار کود کر ان کے پاس گیا، وہ میرے چچا زاد بھائی تھے ، میں نے انہیں سلام کیا تو قسم اللہ کی! انہوں نے میرے سلام کا جواب نہیں دیا ، پھر راوی نے ان کی توبہ کے نازل ہو نے کا قصہ بیان کیا ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے پتا چلا کہ صحابہ کرام رضو ا ن اللہ علیہم اجمعین کو رسول اللہ ﷺ جس سے بات چیت کرنے سے منع فرما دیتے اس سے وہ ہرگز بات چیت نہیں کرتے تھے چاہے وہ عزیز وقریب دوست ورفیق ہی کیوں نہ ہو، اہل بدعت و اہل ہوس سے دور رہنے اور ان سے بغض رکھنے کا حکم ہے، تمام مسلمانوں کو اس کا خیال کرنا چاہئے تاکہ ان کے فتنوں سے خود محفوظ رہیں، اور اپنے معاشرے کو محفوظ رکہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
4- بَاب تَرْكِ السَّلامِ عَلَى أَهْلِ الأَهْوَاءِ
۴-باب: اہل بدعت کو سلام نہ کرنے کا بیان​


4601- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، أَخْبَرَنَا عَطَائٌ الْخُرَاسَانِيُّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ يَعْمَرَ، عَنْ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ، قَالَ: قَدِمْتُ عَلَى أَهْلِي وَقَدْ تَشَقَّقَتْ يَدَايَ، فَخَلَّقُونِي بِزَعْفَرَانٍ، فَغَدَوْتُ عَلَى النَّبِيِّ ﷺ ، فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيَّ، وَقَالَ: <اذْهَبْ فَاغْسِلْ هَذَا عَنْكَ >۔
* تخريج: انظر حدیث رقم : (۴۱۷۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۳۷۲) (حسن)
(متابعات اور شواہد سے تقویت پا کر یہ روایت حسن ہے، ورنہ اس کی سند میں عطاء خراسانی حافظہ کے کمزور راوی ہیں)
۴۶۰۱- عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں اپنے گھر والوں کے پاس آیا ، میرے دونوں ہاتھ پھٹ گئے تھے ، تو انہوں نے میرے( ہاتھوں پر) زعفران مل دیا، صبح کو میں نبی اکرمﷺ کے پاس گیا اور سلام کیا تو آپ نے مجھے جواب نہیں دیا اور فرمایا: ''جائو اسے دھو ڈالو''۔


4602- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، عَنْ سُمَيَّةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِي اللَّه عَنْهَا، أَنَّهُ اعْتَلَّ بَعِيرٌ لِصَفِيَّةَ بِنْتِ حُيَيٍّ، وَعِنْدَ زَيْنَبَ فَضْلُ ظَهْرٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ لِزَيْنَبَ: < أَعْطِيهَا بَعِيرًا > فَقَالَتْ: أَنَا أُعْطِي تِلْكَ الْيَهُودِيَّةَ؟! فَغَضِبَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ ، فَهَجَرَهَا ذَا الْحِجَّةِ وَالْمُحَرَّمَ وَبَعْضَ صَفَرٍ۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۸۴۵)، وقد أخرجہ: حم (۶/۱۳۲، ۲۶۱، ۳۳۸) (ضعیف)
(اس کی راویہ ''سمیہ'' لین الحدیث ہیں)
۴۶۰۲- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ام المومنین صفیہ بنت حیی رضی اللہ عنہا کا ایک اونٹ بیمار ہو گیا اور ام المومنین زینب رضی اللہ عنہا کے پاس ایک فاضل سواری تھی تو رسول اللہ ﷺ نے زینب سے فرمایا: ''تم اسے ایک اونٹ دے دو''، وہ بولیں:میں اس یہودن کو دے دوں؟ اس پر رسول اللہ ﷺ ناراض ہو گئے اور ذی الحجہ، محرم اور صفر کے چند دنوں تک ان سے بات چیت ترک رکھی ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
5- بَاب النَّهْيِ عَنِ الْجِدَالِ فِي الْقُرْآنِ
۵-باب: قرآن کے بارے میں جھگڑنے کی ممانعت کا بیان​


4603- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ -يَعْنِي ابْنَ هَارُونَ- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ ، قَالَ: <الْمِرَاءُ فِي الْقُرْآنِ كُفْرٌ >۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۱۱۵)، وقد أخرجہ: حم (۲/۴۲۴، ۵۰۳) (حسن صحیح)
۴۶۰۳- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ''قرآن کے بارے میں جھگڑنا کفر ہے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس سے مراد کیا ہے؟ اس بارے میں متعدد اقوال ہیں: ( ۱ ) قرآن کے قدیم یا محدث ہونے میں بحث کرنا مراد ہے، (۲) متشابہ آیات کے بارے میں حقیقت تک پہنچنے میں بحث ومناظرہ کرنا مراد ہے، (۳) قرآن کی مختلف قراءتوں کے بارے میں اختلاف کرنا، کسی حرف کو ثابت کرنا اور کسی کا انکار کرنا وغیرہ مراد ہے، (۴) تقدیر وغیرہ کے سلسلہ میں جو آیات وارد ہیں اس میں بحث کرنا مراد ہے، ان تمام صورتوں میں بحث اکثر اس حد تک پہنچتی ہے کہ اس سے قرآن کے الفاظ ومعانی کا انکار لازم آتا ہے جو کفر ہے، أعاذنا اللہ منہ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
6- بَاب فِي لُزُومِ السُّنَّةِ
۶-باب: سنت کی پیروی ضروری ہے​


4604- حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَهَّابِ بْنُ نَجْدَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو عَمْرِو بْنُ كَثِيرِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ حَرِيزِ بْنِ عُثْمَانَ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي عَوْفٍ، عَنِ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِي كَرِبَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ أَنَّهُ قَالَ: < أَلا إِنِّي أُوتِيتُ الْكِتَابَ وَمِثْلَهُ مَعَهُ، أَلا يُوشِكُ رَجُلٌ شَبْعَانُ عَلَى أَرِيكَتِهِ يَقُولُ: عَلَيْكُمْ بِهَذَا الْقُرْآنِ؛ فَمَا وَجَدْتُمْ فِيهِ مِنْ حَلالٍ فَأَحِلُّوهُ، وَمَا وَجَدْتُمْ فِيهِ مِنْ حَرَامٍ فَحَرِّمُوهُ، أَلا لا يَحِلُّ لَكُمْ [لَحْمُ] الْحِمَارِ الأَهْلِيِّ، وَلا كُلُّ ذِي نَابٍ مِنَ السَّبُعِ، وَلا لُقَطَةُ مُعَاهِدٍ إِلَّا أَنْ يَسْتَغْنِيَ عَنْهَا صَاحِبُهَا، وَمَنْ نَزَلَ بِقَوْمٍ فَعَلَيْهِمْ أَنْ يَقْرُوهُ، فَإِنْ لَمْ يَقْرُوهُ فَلَهُ أَنْ يُعْقِبَهُمْ بِمِثْلِ قِرَاهُ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۵۷۰)، وقد أخرجہ: ت/العلم ۱۰ (۲۶۶۴)، ق/المقدمۃ ۲ (۱۲)، حم (۴/۱۳۰) (صحیح)
۴۶۰۴- مقدام بن معد یکرب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''سنو، مجھے کتاب (قرآن) دی گئی ہے اور اس کے ساتھ اسی کے مثل ایک اور چیز بھی (یعنی سنت)، قریب ہے کہ ایک آسودہ آدمی اپنے تخت پر ٹیک لگائے ہوئے کہے ۱؎ : اس قرآن کو لازم پکڑو، جو کچھ تم اس میں حلال پا ئو اسی کو حلال سمجھو، اور جو اس میں حرام پائو، اسی کو حرام سمجھو ، سنو! تمہارے لئے پالتو گدھے کا گوشت حلال نہیں، اور نہ کسی نوکیلے دانت والے درندے کا، اور نہ تمہارے لئے کسی ذمی کی پڑی ہوئی چیز حلال ہے سوائے اس کے کہ اس کا مالک اس سے دستبردار ہو جائے ،اور اگر کوئی کسی قوم میں قیام کرے تو ان پر اس کی ضیافت لازم ہے، اور اگر وہ اس کی ضیافت نہ کریں تو اسے حق ہے کہ وہ ان سے مہمانی کے بقدر لے لے'' ۲؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : یہ پیش گوئی منکرین حدیث کے سرغنہ عبداللہ چکڑالوی پر صادق آتی ہے، مولانا نورالدین کشمیری (صدر جمعیت اہل حدیث کشمیر) جب اس سے مناظرہ کرنے لاہور میں اس کے گھر پہنچے تو وہ مولانا سے انکار حدیث پر اس حال میں بحث کر رہا تھا کہ وہ اپنی چارپائی پر ٹیک لگائے ہوئے لیٹا تھا (مولانا مرحوم کا خود نوشت بیان، شائع شدہ اخبار تنظیم اہل حدیث کراچی)۔
وضاحت ۲ ؎ : ضیافت اسلامی معاشرہ میں ایک نہایت ہی نیک عمل ہے اگر میزبان مہمان کی مہمانی نہ کرے تو اس کو مہمانی کے بقدر وصول کرنا ابتداء اسلام میں تھا بعد میں اس پر عمل نہ رہا، گری پڑی چیز ذمی کی ہو یا مسلمان کی اگر اس کا مالک اس کو چھوڑ دے اور اس سے مستغنی ہوجائے تو دوسرے کو لے لینا جائز ہے، ورنہ نہیں، اس حدیث میں صاف طور پر موجود ہے کہ حدیث کو قرآن پر پیش کرنا ضروری نہیں بلکہ قرآن کی طرح حدیث بھی مستقل حجت ہے، حدیث کو قرآن پر پیش کرنے سے متعلق جو حدیث بیان کی جاتی ہے کذب محض ہے، زنادقہ نے اس کو گھڑا ہے۔


4605- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ حَنْبَلٍ وَعَبْدُاللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ، قَالا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي النَّضْرِ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: <لاأُلْفِيَنَّ أَحَدَكُمْ مُتَّكِئًا عَلَى أَرِيكَتِهِ يَأْتِيهِ الأَمْرُ مِنْ أَمْرِي مِمَّا أَمَرْتُ بِهِ أَوْ نَهَيْتُ عَنْهُ، فَيَقُولُ: لا نَدْرِي، مَاوَجَدْنَا فِي كِتَابِ اللَّهِ اتَّبَعْنَاهُ >۔
* تخريج: ت/العلم ۱۰ (۲۶۶۱)، ق/المقدمۃ ۲ (۱۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۰۱۹)، وقد أخرجہ: حم (۶/۸) (صحیح)
۴۶۰۵- ابو رافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ''میں تم میں سے کسی کو اپنے تخت پر ٹیک لگائے ہر گز اس حال میں نہ پائوں کہ اس کے پاس میرے احکام اور فیصلوں میں سے کوئی حکم آئے جن کا میں نے حکم دیا ہے یا جن سے روکا ہے اور وہ یہ کہے :یہ ہم نہیں جانتے ، ہم نے تو اللہ کی کتاب میں جو کچھ پایا بس اسی کی پیروی کی ہے '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یہ حدیث رسول اللہ ﷺ کے معجزات میں سے ایک زندہ معجزہ ہے، اور حدیث کی صداقت کا زندہ ثبوت ہے آج بعض منکرین حدیث '' اہل قرآن'' کے نام سے وہی کچھ کررہے ہیں جن کی خبر رسول اکرمﷺ نے دی تھی (دیکھئے حاشیہ حدیث نمبر: ۴۶۰۴)


4606- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ الْبَزَّازُ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ(ح) وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ الْمَخْرَمِيُّ وَإِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ الْقَاسِمِ ابْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِي اللَّه عَنْهَا قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا [ ھٰذَا] مَا لَيْسَ فِيهِ فَهُوَ رَدٌّ >.
قَالَ ابْنُ عِيسَى: قَالَ النَّبِيُّ ﷺ : < مَنْ صَنَعَ أَمْرًا عَلَى غَيْرِ أَمْرِنَا فَهُوَ رَدٌّ >۔
* تخريج: خ/الصلح ۵ (۲۶۹۷)، م/الأقضیۃ ۸ (۱۷۱۸)، ق/المقدمۃ ۲ (۱۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۴۵۵)، وقد أخرجہ: حم (۶/۷۳، ۱۴۶، ۱۸۰، ۲۴۰، ۲۵۶، ۲۷۰) (صحیح)
۴۶۰۶- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جو ہمارے اس دین میں کوئی ایسی نئی بات پیدا کرے جو اس میں نہیں ہے تو وہ مردود ہے''۔
ابن عیسیٰ کی روایت میں ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:''جو کوئی ایسا کام کرے جو ہمارے طریقے کے خلاف ہو تو وہ مردود ہے''۔


4607- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا ثَوْرُ بْنُ يَزِيدَ، قَالَ: حَدَّثَنِي خَالِدُ بْنُ مَعْدَانَ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ عَمْرٍو السُّلَمِيُّ وَحُجْرُ بْنُ حُجْرٍ، قَالا: أَتَيْنَا الْعِرْبَاضَ بْنَ سَارِيَةَ، وَهُوَ مِمَّنْ نَزَلَ فِيهِ: {وَلا عَلَى الَّذِينَ إِذَا مَا أَتَوْكَ لِتَحْمِلَهُمْ قُلْتَ لا أَجِدُ مَا أَحْمِلُكُمْ عَلَيْهِ} فَسَلَّمْنَا، وَقُلْنَا: أَتَيْنَاكَ زَائِرِينَ وَعَائِدِينَ وَمُقْتَبِسِينَ، فَقَالَ الْعِرْبَاضُ: صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ ذَاتَ يَوْمٍ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيْنَا، فَوَعَظَنَا مَوْعِظَةً بَلِيغَةً ذَرَفَتْ مِنْهَا الْعُيُونُ وَوَجِلَتْ مِنْهَا الْقُلُوبُ، فَقَالَ قَائِلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! كَأَنَّ هَذِهِ مَوْعِظَةُ مُوَدِّعٍ، فَمَاذَا تَعْهَدُ إِلَيْنَا؟ فَقَالَ: < أُوصِيكُمْ بِتَقْوَى اللَّهِ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَةِ وَإِنْ عَبْدًا حَبَشِيًّا، فَإِنَّهُ مَنْ يَعِشْ مِنْكُمْ بَعْدِي فَسَيَرَى اخْتِلافًا كَثِيرًا، فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الْمَهْدِيِّينَ الرَّاشِدِينَ ، تَمَسَّكُوا بِهَا وَعَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ، وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الأُمُورِ فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ، وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلالَةٌ >۔
* تخريج: ت/العلم ۱۶ (۲۶۷۶)، ق/المقدمۃ ۶ (۴۳، ۴۴)، (تحفۃ الأشراف: ۹۸۹۰)، وقد أخرجہ: حم (۴/۱۲۶)، دي/المقدمۃ ۱۶ (۹۶) (صحیح)
۴۶۰۷- عبدالرحمن بن عمر و سلمی اور حجر بن حجر کہتے ہیں کہ ہم عربا ض بن ساریہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے ، (یہ ان لوگوں میں سے ہیں جن کے بارے میں آیت کریمہ {وَلا عَلَى الَّذِينَ إِذَا مَا أَتَوْكَ لِتَحْمِلَهُمْ قُلْتَ لاأَجِدُ مَا أَحْمِلُكُمْ عَلَيْهِ} ۱؎ نازل ہوئی) تو ہم نے سلام کیا اور عرض کیا: ہم آپ کے پاس آپ سے ملنے، آپ کی عیادت کرنے، اور آپ سے علم حاصل کرنے کے لئے آئے ہیں، اس پر عرباضؓ نے کہا: ایک دن ہمیں رسول اللہ ﷺ نے صلاۃ پڑھائی، پھر ہماری طرف متو جہ ہوئے اور ہمیں دل موہ لینے والی نصیحت کی جس سے آنکھیں اشک بار ہو گئیں، اور دل کانپ گئے ، پھرایک شخص نے عرض کیا : اللہ کے رسول! یہ تو کسی رخصت کر نے والے کی سی نصیحت ہے ، تو آپ ہمیں کیا وصیت فرما رہے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ''میں تمہیں اللہ سے ڈرنے، امیر کی بات سننے اور اس کی اطاعت کرنے کی وصیت کر تا ہوں، خواہ وہ کوئی حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو، اس لئے کہ جو میرے بعد تم میں سے زندہ رہے گا عنقریب وہ بہت سے اختلافات دیکھے گا، تو تم میری سنت اور ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کے طریقہ کار کو لازم پکڑنا ، تم اس سے چمٹ جانا، اور اسے دانتوں سے مضبوط پکڑ لینا، اور دین میں نکالی گئی نئی باتوں سے بچتے رہنا، اس لئے کہ ہر نئی بات بدعت ہے، اور ہر بدعت گمراہی ہے'' ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ''اور نہ ان پر کوئی حرج ہے کہ جب وہ آپ کے پاس آتے ہیں کہ آپ انہیں سوار کرائیں یعنی جہاد کے لئے سواری فراہم کریں تو آپ ان سے کہتے ہیں: میرے پاس تمہارے لئے سواری نہیں'' (سورۃ التوبۃ: ۹۲) ۔
وضاحت ۲؎ : اس حدیث میں ہر اس نئی بات سے جس کی شرع سے کوئی اصل نہ ملے منع کیا گیا ہے، اصول شریعت چار ہیں: قرآن، حدیث، اجماع صحیح اور قیاس شرعی ، جو بات ان چار اصول میں نہ ہو وہ بدعت ہے، بدعت دو قسم کی ہوتی ہے : ایک بدعت شرعی دوسری بدعت لغوی، اس حدیث میں بدعت شرعی کا ہی بیان ہے، اس لئے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ہر بدعت گمراہی ہے، بعض سلف سے جو بعض بدعات کے سلسہ میں تحسین منقول ہے وہ بدعت لغوی کے سلسلہ میں ہے ناکہ بدعت شرعی کے بارے میں؛ چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ نے تراویح با جماعت کے لئے فرمایا: ''إن كانت هذه بدعة فنعمت البدعة'' یعنی اگر یہ نئی چیز ہے تو کتنی اچھی ہے، بدعت شرعیہ کی کوئی قسم بدعت حسنہ نہیں، البتہ سنت حسنہ ہی ہوتی ہے، ''سنة الخلفاء الراشدين'':سے درحقیقت رسول اللہ ﷺ ہی کی سنت مراد ہے جسے رسول اکرمﷺ کے زمانہ میں کسی وجہ سے شہرت حاصل نہ ہوسکی ، اور خلفاء راشدین کے زمانہ میں رواج پذیر اور مشہور ہوئی اس بنا پر ان کی طرف منسوب ہوئی (أشعة اللمعات، للدهلوي) نیز اگر خلفاء راشدین کسی بات پر متفق ہوں تو اس حدیث کے بموجب ان کی سنت ہمارے لئے سنت ہے۔


4608- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ -يَعْنِي ابْنَ عَتِيقٍ- عَنْ طَلْقِ بْنِ حَبِيبٍ، عَنِ الأَحْنَفِ بْنِ قَيْسٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ ، قَالَ: < أَلا هَلَكَ الْمُتَنَطِّعُونَ > ثَلاثَ مَرَّاتٍ۔
* تخريج: م/العلم ۴ (۲۶۷۰)، (تحفۃ الأشراف: ۹۳۱۷)، وقد أخرجہ: حم (۱/۳۸۶) (صحیح)
۴۶۰۸- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے تین بار فرمایا: ''سنو ، بہت زیادہ بحث وتکرار کرنے اور جھگڑنے والے ہلا ک ہو گئے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : '' متنطعون'' سے مراد ایسے اشخاص ہیں جو حد سے تجاوز کرکے اہل کلام وفلسفہ کے طریقہ پر بے کار کی بحثوں میں پڑے رہتے ہیں اور ان مسائل میں بھی جو ماوراء عقل ہیں اپنی عقلیں دوڑاتے ہیں جس کی وجہ سے سلف کے طریقہ سے دور جا پڑتے ہیں، ان کے لئے اس میں سخت وعید ہے اور اس بات کی دلیل ہے کہ نصوص پر حکم ان کے ظاہر کے اعتبار ہی سے لگایا جائے گا اور جب تک ظاہری معنی مراد لینا ممکن ہو اس سے عدول نہیں کیا جائے گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
7- بَاب [مَنْ دَعَا إلى] لُزُومِ السُّنَّةِ
۷-باب: سنت پرعمل کرنے کی دعوت دینے والوں کے اجر و ثواب کا بیان​


4609- حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ -يَعْنِي ابْنَ جَعْفَرٍ- قَالَ: أَخْبَرَنِي الْعَلاءُ -يَعْنِي ابْنَ عَبْدِالرَّحْمَنِ- عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: <مَنْ دَعَا إِلَى هُدًى كَانَ لَهُ مِنَ الأَجْرِ مِثْلُ أُجُورِ مَنْ تَبِعَهُ لا يَنْقُصُ ذَلِكَ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْئًا، وَمَنْ دَعَا إِلَى ضَلالَةٍ كَانَ عَلَيْهِ مِنَ الإِثْمِ مِثْلُ آثَامِ مَنْ تَبِعَهُ لا يَنْقُصُ ذَلِكَ مِنْ آثَامِهِمْ شَيْئًا >۔
* تخريج: م/العلم ۶ (۲۶۷۴)، ت/العلم ۱۵ (۲۶۷۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۹۷۶)، وقد أخرجہ: حم (۲/۳۹۷)، دي/المقدمۃ ۴۴ (۵۳۰) (صحیح)
۴۶۰۹- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' جو شخص دوسروں کو نیک عمل کی دعوت دیتا ہے تو اس کی دعوت سے جتنے لوگ ان نیک باتوں پر عمل کرتے ہیں ان سب کے برابر اس دعوت دینے والے کو بھی ثواب ملتا ہے، اور عمل کرنے والوں کے ثواب میں سے کوئی کمی نہیں کی جاتی، اور جو کسی گمراہی و ضلالت کی طرف بلاتا ہے تو جتنے لوگ اس کے بلانے سے اس پر عمل کرتے ہیں ان سب کے برابر اس کو گناہ ہوتا ہے اور ان کے گناہوں میں (بھی) کوئی کمی نہیں ہوتی''۔


4610- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < إِنَّ أَعْظَمَ الْمُسْلِمِينَ فِي الْمُسْلِمِينَ جُرْمًا مَنْ سَأَلَ عَنْ أَمْرٍ لَمْ يُحَرَّمْ فَحُرِّمَ عَلَى النَّاسِ مِنْ أَجْلِ مَسْأَلَتِهِ >۔
* تخريج: خ/الاعتصام ۳ (۷۲۸۹)، م/الفضائل ۳۷ (۲۳۵۸)، (تحفۃ الأشراف: ۳۸۹۲)، وقد أخرجہ: حم (۱/۱۷۶، ۱۷۹) (صحیح)
۴۶۱۰- سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' مسلمانوں کے حق میں سب سے بڑا مجرم وہ مسلمان ہے جو ایسی چیز کے با رے میں سوال کرے جو حرام نہیں کی گئی تھی لیکن اس کے سوال کرنے کی وجہ سے مسلمانوں پر حرام کر دی گئی'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : سوال دو طرح کا ہوتا ہے : ایک تو وہ جس کی ضرورت ہے اور معلوم نہیں تو آدمی کے جاننے کے لئے پوچھنا درست ہے، دوسرا وہ جس کی نہ حاجت ہے نہ ضرورت، آدمی بلا ضرورت یونہی خیالی و فرضی سوال کرے اور ناحق پریشان کرے، اور اس کے سوال کے سبب وہ حرام کردی جائے، اس حدیث میں اسی قسم کے سوال کو سب سے بڑا جرم قرار دیا گیا ہے،آج کل بعض لوگ علماء سے یونہی بلا ضرورت یا بطور امتحان سوال کیا کرتے ہیں ان کو ڈرنا چاہئے۔


4611- حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ خَالِدِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ مَوْهَبٍ الْهَمْدَانِيُّ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ أَنَّ أَبَا إِدْرِيسَ الْخَوْلانِيَّ عَائِذَ اللَّهِ أَخْبَرَهُ أَنَّ يَزِيدَ بْنَ عُمَيْرَةَ -وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ- أَخْبَرَهُ، قَالَ: كَانَ لا يَجْلِسُ مَجْلِسًا لِلذِّكْرِ حِينَ يَجْلِسُ إِلا قَالَ: اللَّهُ حَكَمٌ قِسْطٌ، هَلَكَ الْمُرْتَابُونَ، فَقَالَ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ يَوْمًا: إِنَّ مِنْ وَرَائِكُمْ فِتَنًا يَكْثُرُ فِيهَا الْمَالُ، وَيُفْتَحُ فِيهَا الْقُرْآنُ حَتَّى يَأْخُذَهُ الْمُؤْمِنُ وَالْمُنَافِقُ وَالرَّجُلُ وَالْمَرْأَةُ وَالصَّغِيرُ وَالْكَبِيرُ وَالْعَبْدُ وَالْحُرُّ، فَيُوشِكُ قَائِلٌ أَنْ يَقُولَ: مَا لِلنَّاسِ لا يَتَّبِعُونِي وَقَدْ قَرَأْتُ الْقُرْآنَ؟ مَا هُمْ بِمُتَّبِعِيَّ حَتَّى أَبْتَدِعَ لَهُمْ غَيْرَهُ، فَإِيَّاكُمْ وَمَا ابْتُدِعَ؛ فَإِنَّ مَا ابْتُدِعَ ضَلالَةٌ، وَأُحَذِّرُكُمْ زَيْغَةَ الْحَكِيمِ؛ فَإِنَّ الشَّيْطَانَ قَدْ يَقُولُ كَلِمَةَ الضَّلالَةِ عَلَى لِسَانِ الْحَكِيمِ، وَقَدْ يَقُولُ الْمُنَافِقُ كَلِمَةَ الْحَقِّ، قَالَ: قُلْتُ لِمُعَاذٍ: مَا يُدْرِينِي [رَحِمَكَ اللَّهُ] أَنَّ الْحَكِيمَ قَدْ يَقُولُ كَلِمَةَ الضَّلالَةِ، وَأَنَّ الْمُنَافِقَ قَدْ يَقُولُ كَلِمَةَ الْحَقِّ؟ قَالَ: بَلَى، اجْتَنِبْ مِنْ كَلامِ الْحَكِيمِ الْمُشْتَهِرَاتِ الَّتِي يُقَالُ [لَهَا] مَا هَذِهِ، وَلا يُثْنِيَنَّكَ ذاَلِكَ عَنْهُ؛ فَإِنَّهُ لَعَلَّهُ أَنْ يُرَاجِعَ، وَتَلَقَّ الْحَقَّ إِذَا سَمِعْتَهُ، فَإِنَّ عَلَى الْحَقِّ نُورًا.
قَالَ أَبو دَاود: قَالَ مَعْمَرٌ عَنِ الزُّهْرِيِّ فِي هَذَا [الْحَدِيثِ]: وَلا يُنْئِيَنَّكَ ذَلِكَ عَنْهُ، مَكَانَ < يُثْنِيَنَّكَ > و قَالَ صَالِحُ بْنُ كَيْسَانَ عَنِ الزُّهْرِيِّ فِي هَذَا: الْمُشَبِّهَاتِ، مَكَانَ < الْمُشْتَهِرَاتِ > وَقَالَ: لايُثْنِيَنَّكَ، كَمَا قَالَ عُقَيْلٌ، و قَالَ ابْنُ إِسْحَاقَ عَنِ الزُّهْرِيِّ قَالَ: بَلَى مَا تَشَابَهَ عَلَيْكَ مِنْ قَوْلِ الْحَكِيمِ حَتَّى تَقُولَ مَا أَرَادَ بِهَذِهِ الْكَلِمَةِ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۳۶۹) (صحیح الإسناد)
۴۶۱۱- ابوادریس خولانی کہتے ہیں کہ یزید بن عمیرہ (جو معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کے شاگردوں میں سے تھے) نے انہیں خبر دی ہے کہ وہ جب بھی کسی مجلس میں وعظ کہنے کو بیٹھتے تو کہتے : اللہ بڑا حاکم اور عادل ہے ، شک کر نے والے تباہ ہو گئے تو ایک روز معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہنے لگے: تمہارے بعد بڑے بڑے فتنے ہوں گے ، ان (دنوں) میں مال کثرت سے ہو گا، قرآن آسان ہو جائے گا ، یہاں تک کہ اسے مومن و منافق ، مرد و عورت ، چھوٹے بڑے، غلام اور آزاد سبھی حاصل کر لیں گے، تو قریب ہے کہ کہنے والا کہے : لوگوں کو کیا ہو گیا ہے؟ میری پیروی نہیں کرتے ، حالاں کہ میں نے قرآن پڑھا ہے، وہ میری پیروی اس وقت تک نہیں کریں گے جب تک کہ میں ان کے لئے اس کے علاوہ کوئی نئی چیز نہ نکالوں ، لہٰذا جو نئی چیز نکالی جائے تم اس سے بچو ۱؎ اس لئے کہ ہر وہ نئی چیز جو نکالی جائے گمراہی ہے، اور میں تمہیں حکیم ودانا کی گمراہی سے ڈراتا ہوں ، اس لئے کہ بسا اوقات شیطان ، حکیم و دانا شخص کی زبانی گمراہی کی بات کہتا ہے اور کبھی کبھی منافق بھی حق بات کہتا ہے ۔
میں نے معاذ سے کہا: (اللہ آپ پر رحم کرے) مجھے کیسے معلوم ہو گا کہ حکیم ودا نا گمراہی کی بات کہتا ہے، اور منافق حق بات ؟ وہ بولے : کیوں نہیں ،حکیم و عالم کی ان مشہور باتوں سے بچو ، جن کے متعلق یہ کہا جاتا ہو کہ وہ یوں نہیں ہے، لیکن یہ چیز تمہیں خود اس حکیم سے نہ پھیر دے ، اس لئے کہ امکان ہے کہ وہ (اپنی پہلی بات سے) پھر جائے اور حق پر آجائے، اور جب تم حق بات سنو تو اسے لے لو ، اس لئے کہ حق میں ایک نور ہوتا ہے۔
ابو داود کہتے ہیں: اس قصے میں معمرنے زہری سے ''وَلا يُثْنِيَنَّكَ ذَلِكَ عَنْهُ'' کے بجائے ''وَلا يُنْئِيَنَّكَ ذَلِكَ عَنْهُ'' روایت کی ہے اور صالح بن کیسان نے زہری سے اس میں ''الْمُشْتَهِرَاتِ'' کے بجائے ''الْمُشَبِّهَاتِ'' روایت کی ہے اور ''وَلا يُثْنِيَنَّكَ '' ہی روایت کی ہے جیسا کہ عقیل کی روایت میں ہے۔
ابن اسحاق نے زہری سے روایت کی ہے: کیوں نہیں ، جب کسی حکیم و عالم کا قول تم پر مشتبہ ہوجائے یہاں تک کہ تم کہنے لگو کہ اس بات سے اس کا کیا مقصد ہے؟ ( تو سمجھ لو کہ یہ حکیم و عالم کی زبانی گمراہی کی بات ہے) ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : جب وہ دیکھے گا کہ لوگ قرآن وسنت کوچھوڑ بیٹھے ہیں اور شیطان اور بدعت کے پیرو ہورہے ہیں تو میں کیوں نہ کوئی بدعت ایجاد کروں، تو خبردار اس کی نکالی ہوئی بدعت سے بچتے رہو کیونکہ وہ گمراہی ہے۔
وضاحت ۲؎ : آدمی اگر منصف اور حق پرست ہو تو اس پر باطل کی تاریکی وظلمت کبھی نہیں چھپتی، معاذ رضی اللہ عنہ نے باطل کی نشانی یہ بیان کی کہ وہ قرآن وسنت میں نہ ہو، اورعقل سلیم بھی اس کو قبول نہ کرے، آپ نے عالم کے فتنے سے بھی ڈرایا کیونکہ عالم کا فتنہ بڑاسخت ہوتا ہے وہ جھوٹی باتوں، غلط استدلال اور چرب زبانی سے عوام کو فریفتہ کرلیتا ہے، آج یہی حال ہے، باطل پرست قرآن وسنت سے الگ ہٹ کر نئی نئی بدعتوں میں عوام کو پھنسائے ہوئے ہیں، اتفاق واتحاد کو پارہ پارہ کردیا ہے، اور لوگوں نے اپنے اپنے مولویوں کے ایجاد کئے ہوئے امور کواسلام کا نام دے رکھا ہے، فتنے کے وقت میں طالب حق کو چاہئے کہ قرآن کو دیکھے اور صحیح احادیث میں تلاش کرے اور فرقہ بندی سے دور رہے۔


4612- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: كَتَبَ رَجُلٌ إِلَى عُمَرَ بْنِ عَبْدِالْعَزِيزِ يَسْأَلُهُ عَنِ الْقَدَرِ(ح) وحَدَّثَنَا الرَّبِيعُ بْنُ سُلَيْمَانَ الْمُؤَذِّنُ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَسَدُ بْنُ مُوسَى، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ دُلَيْلٍ، قَالَ: سَمِعْتُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيَّ يُحَدِّثُنَا عَنِ النَّضْرِ، (ح) وحَدَّثَنَا هَنَّادُ ابْنُ السَّرِيِّ، عَنْ قَبِيصَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو رَجَائٍ، عَنْ أَبِي الصَّلْتِ وَهَذَا لَفْظُ حَدِيثِ ابْنِ كَثِيرٍ وَمَعْنَاهُمْ، قَالَ: كَتَبَ رَجُلٌ إِلَى عُمَرَ بْنِ عَبْدِالْعَزِيزِ يَسْأَلُهُ عَنِ الْقَدَرِ، فَكَتَبَ: أَمَّا بَعْدُ، أُوصِيكَ بِتَقْوَى اللَّهِ، وَالاقْتِصَادِ فِي أَمْرِهِ، وَاتِّبَاعِ سُنَّةِ نَبِيِّهِ ﷺ ، وَتَرْكِ مَا أَحْدَثَ الْمُحْدِثُونَ بَعْدَ مَا جَرَتْ بِهِ سُنَّتُهُ، وَكُفُوا مُؤْنَتَهُ، فَعَلَيْكَ بِلُزُومِ السُّنَّةِ فَإِنَّهَا لَكَ -بِإِذْنِ اللَّهِ- عِصْمَةٌ، ثُمَّ اعْلَمْ أَنَّهُ لَمْ يَبْتَدِعِ النَّاسُ بِدْعَةً إِلا قَدْ مَضَى قَبْلَهَا مَا هُوَ دَلِيلٌ عَلَيْهَا أَوْ عِبْرَةٌ فِيهَا؛ فَإِنَّ السُّنَّةَ إِنَّمَا سَنَّهَا مَنْ قَدْ عَلِمَ مَا فِي خِلافِهَا - وَلَمْ يَقُلِ ابْنُ كَثِيرٍ < مَنْ قَدْ عَلِمَ >- مِنَ الْخَطَإِ وَالزَّلَلِ وَالْحُمْقِ وَالتَّعَمُّقِ، فَارْضَ لِنَفْسِكَ مَا رَضِيَ بِهِ الْقَوْمُ لأَنْفُسِهِمْ؛ فَإِنَّهُمْ عَلَى عِلْمٍ وَقَفُوا، وَبِبَصَرٍ نَافِذٍ كَفُّوا، وَهُمْ عَلَى كَشْفِ الأُمُورِ كَانُوا أَقْوَى؛ وَبِفَضْلِ مَا كَانُوا فِيهِ أَوْلَى، فَإِنْ كَانَ الْهُدَى مَا أَنْتُمْ عَلَيْهِ لَقَدْ سَبَقْتُمُوهُمْ إِلَيْهِ، وَلَئِنْ قُلْتُمْ إِنَّمَا حَدَثَ بَعْدَهُمْ، مَا أَحْدَثَهُ إِلا مَنِ اتَّبَعَ غَيْرَ سَبِيلِهِمْ وَرَغِبَ بِنَفْسِهِ عَنْهُمْ، فَإِنَّهُمْ هُمُ السَّابِقُونَ، فَقَدْ تَكَلَّمُوا فِيهِ بِمَا يَكْفِي، وَوَصَفُوا مِنْهُ مَا يَشْفِي، فَمَا دُونَهُمْ مِنْ مَقْصَرٍ، وَمَا فَوْقَهُمْ مِنْ مَحْسَرٍ، وَقَدْ قَصَّرَ قَوْمٌ دُونَهُمْ فَجَفَوْا، وَطَمَحَ عَنْهُمْ أَقْوَامٌ فَغَلَوْا، وَإِنَّهُمْ بَيْنَ ذَلِكَ لَعَلَى هُدًى مُسْتَقِيمٍ، كَتَبْتَ تَسْأَلُ عَنِ الإِقْرَارِ بِالْقَدَرِ فَعَلَى الْخَبِيرِ -بِإِذْنِ اللَّهِ- وَقَعْتَ، مَا أَعْلَمُ مَا أَحْدَثَ النَّاسُ مِنْ مُحْدَثَةٍ، وَلا ابْتَدَعُوا مِنْ بِدْعَةٍ هِيَ أَبْيَنُ أَثَرًا وَلاأَثْبَتُ أَمْرًا مِنَ الإِقْرَارِ بِالْقَدَرِ، لَقَدْ كَانَ ذَكَرَهُ فِي الْجَاهِلِيَّةِ الْجُهَلاءُ، يَتَكَلَّمُونَ بِهِ فِي كَلامِهِمْ وَفِي شِعْرِهِمْ، يُعَزُّونَ بِهِ أَنْفُسَهُمْ عَلَى مَا فَاتَهُمْ، ثُمَّ لَمْ يَزِدْهُ الإِسْلامُ بَعْدُ إِلا شِدَّةً، وَلَقَدْ ذَكَرَهُ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فِي غَيْرِ حَدِيثٍ وَلا حَدِيثَيْنِ، وَقَدْ سَمِعَهُ مِنْهُ الْمُسْلِمُونَ فَتَكَلَّمُوا بِهِ فِي حَيَاتِهِ وَبَعْدَ وَفَاتِهِ، يَقِينًا وَتَسْلِيمًا لِرَبِّهِمْ، وَتَضْعِيفًا لأَنْفُسِهِمْ، أَنْ يَكُونَ شَيْئٌ لَمْ يُحِطْ بِهِ عِلْمُهُ، وَلَمْ يُحْصِهِ كِتَابُهُ، وَلَمْ يَمْضِ فِيهِ قَدَرُهُ، وَإِنَّهُ مَعَ ذاَلِكَ لَفِي مُحْكَمِ كِتَابِهِ: مِنْهُ اقْتَبَسُوهُ، وَمِنْهُ تَعَلَّمُوهُ، وَلَئِنْ قُلْتُمْ: لِمَ أَنْزَلَ اللَّهُ آيَةَ كَذَا؟ لِمَ قَالَ كَذَا؟ لَقَدْ قَرَئُوا مِنْهُ مَا قَرَأْتُمْ، وَعَلِمُوا مِنْ تَأْوِيلِهِ مَا جَهِلْتُمْ، وَقَالُوا بَعْدَ ذَلِكَ: كُلِّهِ بِكِتَابٍ وَقَدَرٍ، [وَكُتِبَتِ الشَّقَاوَةُ]، وَمَا يُقْدَرْ يَكُنْ، وَمَا شَاءَ اللَّهُ كَانَ، وَمَا لَمْ يَشَأْ لَمْ يَكُنْ، وَلا نَمْلِكُ لأَنْفُسِنَا ضَرًّا وَلا نَفْعًا، ثُمَّ رَغِبُوا بَعْدَ ذَلِكَ وَرَهِبُوا۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۹۱۴۵) (صحیح)
۴۶۱۲- سفیان ثوری کہتے ہیں کہ ایک شخص نے خط لکھ کر عمربن عبدالعزیزسے تقدیر کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے (جواب میں) لکھا :'' اما بعد ! میں تمہیں اللہ سے ڈرنے اور اس کے دین کے سلسلہ میں میانہ روی اختیار کرنے ، اس کے نبی کی سنت کی پیروی کر نے کی اور بدعتیوں نے جو بدعتیں سنت کے جاری اور ضروریات کے لئے کافی ہوجانے کے بعد ایجاد کی ہیں ان کے چھوڑ دینے کی وصیت کر تا ہوں ، لہٰذا تم پر سنت کا دامن تھامے رہنا لازم ہے،اللہ کے حکم سے یہی چیز تمہارے لئے گمراہی سے بچنے کا ذریعہ ہوگی۔
پھر یہ بھی جان لو کہ لوگوں نے کوئی بدعت ایسی نہیں نکالی ہے جس کے خلاف پہلے سے کوئی دلیل موجود نہ رہی ہو یا اس کے بدعت ہونے کے سلسلہ میں کوئی نصیحت آمیز بات نہ ہو، اس لئے کہ سنت کو جس نے جاری کیا ہے ، (اللہ تعالیٰ یا نبی اکرم ﷺ ) وہ جانتا تھا کہ اس کی مخالفت میں کیا وبال ہے، کیا کیا غلطیاں ، لغزشیں، حماقتیں اور انتہا پسندیاں ہیں (ابن کثیر کی روایت میں ''من قد علم'' کا لفظ نہیں ہے) لہٰذا تم اپنے آپ کواسی چیز سے خوش رکھو جس سے قوم (سلف) نے اپنے آپ کو خوش رکھا ہے، اس لئے کہ وہ دین کے بڑے واقف کار تھے ، جس بات سے انہوں نے روکا ہے گہری بصیرت سے روکا ہے، انہیں معاملات کے سمجھنے پر ہم سے زیادہ دسترس تھی ، اور تمام خوبیوں میں وہ ہم سے فائق تھے، لہٰذا اگر ہدایت وہ ہوتی جس پر تم ہو تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ تم ان سے آگے بڑھ گئے، اور اگر تم یہ کہتے ہو کہ جن لوگوں نے بدعتیں نکالی ہیں وہ اگلے لوگوں کی راہ پر نہیں چلے اور ان سے اعراض کیا تو واقعہ بھی یہی ہے کہ اگلے لوگ ہی فائق وبرتر تھے انہوں نے جتنا کچھ بیان کردیا ہے اور جو کچھ کہہ دیا ہے شافی وکافی ہے، لہٰذا اب دین میں نہ اس سے کم کی گنجائش ہے نہ زیادہ کی، اور حال یہ ہے کہ کچھ لوگوں نے اس میں کمی کر ڈالی تو وہ جفا کار ٹھہرے اور کچھ لوگوں نے زیادتی کی تو وہ غلو کا شکار ہو گئے ،اور اگلے لوگ ان دونوں انتہاؤں کے بیچ سیدھی راہ پر رہے، اور تم نے ایمان بالقدر کے اقرارکے بارے میں بھی پوچھا ہے تو باذن اللہ تم نے یہ سوال ایک ایسے شخص سے کیا ہے جو اس کو خوب جانتا ہے، ان لوگوں نے جتنی بھی بدعتیں ایجاد کی ہیں ان میں اثر کے اعتبار سے ایمان بالقدر کے اقرار سے زیادہ واضح اور ٹھوس کوئی نہیں ہے، اس کا تذکرہ تو جاہلیت میں جہلاء نے بھی کیا ہے، وہ اپنی گفتگو اور اپنے شعر میں اس کا تذکرہ کرتے تھے، اس کے ذریعے وہ اپنے آپ کو کسی فوت ہو جانے والے کے غم میں تسلی دیتے ہیں ۔
پھر اسلام نے اس خیال کو مزید پختگی بخشی ، رسول اللہ ﷺ نے اس کا ذکر ایک یا دو حدیثوں میں نہیں بلکہ کئی حدیثوں میں کیا، اور اس کو مسلمانوں نے آپ ﷺ سے سنا، پھر آپ کی زندگی میں بھی اسے بیان کیا اور آپ ﷺ کی وفات کے بعد بھی، اس پر یقین کر کے ، اس کو تسلیم کر کے اور اپنے کو اس سے کمزور سمجھ کے، کوئی چیز ایسی نہیں جس کو اللہ کا علم محیط نہ ہو، اور جو اس کے نوشتہ میں نہ آچکی ہو ، اور اس میں اس کی تقدیر جاری نہ ہو چکی ہو، اس کے باوجود اس کا ذکر اس کی کتاب محکم میں ہے ، اسی سے لوگوں نے اسے حاصل کیا ، اسی سے اسے سیکھا ۔
اور اگر تم یہ کہو:اللہ نے ایسی آیت کیوں نازل فرمائی؟ اور ایسا کیوں کہا ( جو آیات تقدیر کے خلاف ہیں)؟ تو ( جان لو) ان لوگوں نے بھی اس میں سے وہ سب پڑھا تھا جو تم نے پڑھا ہے لیکن انہیں اس کی تاویل وتفسیر کا علم تھا جس سے تم ناواقف ہو، اس کے بعد بھی وہ اسی بات کے قائل تھے : ہر بات اللہ کی تقدیر اور اس کے لکھے ہوئے کے مطابق ہے جو مقدر میں لکھا ہے وہ ہو گا ، جو اللہ نے چاہا ، وہی ہوا ، جو نہیں چاہا ، نہیں ہوا۔
اور ہم تو اپنے لئے نہ کسی ضرر کے مالک ہیں اور نہ ہی کسی نفع کے پھر اس اعتقاد کے بعد بھی اگلے لوگ اچھے کام کرتے رہے اور بر ے کاموں سے ڈرتے رہے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے اس جواب سے بدعت اور سنت کی راہ بالکل واضح ہوگئی اور یہ بات بھی صاف ہوگئی کہ کسی بھی عمل سے پہلے قرآن وسنت کودیکھنا چاہئے، اگر ان میں نہ ملے تو صحابہ کرام اور تابعین عظام کودیکھنا چاہئے کہ ان کا عمل اس پر تھا یا نہیں، اگر ہم اس معیار کو اختیار کرلیں تو اللہ کے فضل سے سارے اختلافات دور ہوجائیں اور بے شمار بدعات ہمیشہ کے لئے دم توڑ جائیں، لیکن ہم نے بعد کے لوگوں کی روش کواپنا رکھا ہے اور بدعات کی گرم بازاری میں مگن ہیں۔


4613- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ يَزِيدَ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَعِيدٌ -يَعْنِي ابْنَ أَبِي أَيُّوبَ- قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو صَخْرٍ، عَنْ نَافِعٍ، قَالَ: كَانَ لابْنِ عُمَرَ صَدِيقٌ مِنْ أَهْلِ الشَّامِ يُكَاتِبُهُ، فَكَتَبَ إِلَيْهِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ: إِنَّهُ بَلَغَنِي أَنَّكَ تَكَلَّمْتَ فِي شَيْئٍ مِنَ الْقَدَرِ، فَإِيَّاكَ أَنْ تَكْتُبَ إِلَيَّ، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < إِنَّهُ سَيَكُونُ فِي أُمَّتِي أَقْوَامٌ يُكَذِّبُونَ بِالْقَدَرِ >۔
* تخريج: تفرد بہذا المتن أبوداود، وقد أخرجہ: ت/القدر ۱۶ ( ۲۱۵۲)، ق/الفتن ۲۹ (۴۰۶۱)، بسیاق نحوہ ولفظہ: ''في ہذہ الأمۃ خسف ومسخ أو قذف في أہل القدر'' (تحفۃ الأشراف: ۷۶۵۱)، و حم (۲/۱۰۸، ۱۳۶) (حسن)
۴۶۱۳- نافع کہتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کا ایک شامی دوست تھا جو ان سے خط وکتابت رکھتا تھا ، تو عبداللہ بن عمر نے اسے لکھا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم نے تقدیر کے سلسلے میں ( سلف کے قول کے خلاف) کوئی بات کہی ہے ، لہٰذا اب تم مجھ سے خط وکتابت نہ رکھنا ، اس لئے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے :'' میری امت میں کچھ ایسے لوگ ہوں گے جو تقدیر کو جھٹلائیں گے''۔


4614- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ الْجَرَّاحِ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ، قَالَ: قُلْتُ لِلْحَسَنِ: يَا أَبَا سَعِيدٍ، أَخْبِرْنِي عَنْ آدَمَ، أَلِلسَّمَاءِ خُلِقَ أَمْ لِلأَرْضِ؟ قَالَ: لا، بَلْ لِلأَرْضِ، قُلْتُ: أَرَأَيْتَ لَوِاعْتَصَمَ فَلَمْ يَأْكُلْ مِنَ الشَّجَرَةِ؟ قَالَ: لَمْ يَكُنْ لَهُ مِنْهُ بُدٌّ، قُلْتُ: أَخْبِرْنِي عَنْ قَوْلِهِ تَعَالَى: {مَا أَنْتُمْ عَلَيْهِ بِفَاتِنِينَ إِلا مَنْ هُوَ صَالِ الْجَحِيمِ} قَالَ: إِنَّ الشَّيَاطِينَ لا يَفْتِنُونَ بِضَلالَتِهِمْ إِلا مَنْ أَوْجَبَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَحِيمَ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۵۱۷، ۱۸۵۱۸) (حسن الإسناد)
۴۶۱۴- خالد الحذاء کہتے ہیں کہ میں نے حسن (بصری) سے کہا: اے ابو سعید! آدم کے سلسلہ میں مجھے بتائیے کہ وہ آسمان کے لئے پیدا کئے گئے، یا زمین کے لئے؟ آپ نے کہا: نہیں، بلکہ زمین کے لئے، میں نے عرض کیا : آپ کا کیا خیال ہے؟ اگر وہ نافرمانی سے بچ جاتے اور درخت کا پھل نہ کھاتے ، انہوں نے کہا:یہ ان کے بس میں نہ تھا ، میں نے کہا: مجھے اللہ کے فرمان {مَا أَنْتُمْ عَلَيْهِ بِفَاتِنِينَ إِلا مَنْ هُوَ صَالِ الْجَحِيمِ} ۱؎ کے بارے میں بتائیے ، انہوں نے کہا: ''شیاطین اپنی گمراہی کا شکار صرف اسی کو بنا سکتے ہیں جس پر اللہ نے جہنم واجب کر دی ہے''۔
وضاحت ۱؎ : ''شیاطین تم میں سے کسی کو اس کے راستے سے گمراہ نہیں کر سکتے سوائے اس کے جو جہنم میں جانے والا ہو'' (الصافات:۱۶۳)


4615- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ الْحَذَّاءُ، عَنِ الْحَسَنِ فِي قَوْلِهِ تَعَالَى: {وَلِذَلِكَ خَلَقَهُمْ} قَالَ: خَلَقَ هَؤُلاءِ لِهَذِهِ، وَهَؤُلاءِ لِهَذِهِ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۵۱۶) (صحیح الإسناد)
۴۶۱۵- حسن بصری سے اللہ تعالی کے قول {وَلِذَلِكَ خَلَقَهُمْ} ۱؎ کے با رے میں روایت ہے، انہوں نے کہا: انہیں پیدا کیا اس ( جنت ) کے لئے اور انہیں پیدا کیا اس (جہنم ) کے لئے ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ''اور اسی کے لئے انہیں پیدا کیا'' (سورہ ھود : ۱۱۹)
وضاحت ۲؎ : انہیں جنت کے لئے اور اُنہیں جہنم کے لئے پیدا کیا، اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ: اگر اللہ نہ لکھتا تو جن کو جہنم کے لئے لکھا وہ اچھے اعمال کر کے جنت میں چلے جاتے وبالعکس، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جن لوگوں کو اس نے جہنم کے لئے پیدا کیا اگر ان کی تقدیر میں کچھ نہ لکھتا تو یہ ممکن نہ تھا کہ وہ جنت میں چلے جاتے، یہ لوگ چونکہ برے اعمال ہی کرنے والے تھے جواللہ کو معلوم تھا (کیونکہ اس کا علم ماضی مستقبل حال کے لئے یکساں ہے) اس لئے اس نے اپنے علم کی بنیاد پر لکھا ایسا نہیں کہ لکھنے سے یہ لوگ مجبور ہوگئے۔


4616- حَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ الْحَذَّاءُ، قَالَ: قُلْتُ لِلْحَسَنِ: {مَا أَنْتُمْ عَلَيْهِ بِفَاتِنِينَ إِلا مَنْ هُوَ صَالِ الْجَحِيمِ} قَالَ: إِلا مَنْ أَوْجَبَ اللَّهُ تَعَالَى عَلَيْهِ أَنَّهُ يَصْلَى الْجَحِيمَ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۵۱۸) (صحیح الإسناد)
۴۶۱۶- خالدالخداء کہتے ہیں کہ میں نے حسن بصری سے کہا {مَا أَنْتُمْ عَلَيْهِ بِفَاتِنِينَ إِلا مَنْ هُوَ صَالِ الْجَحِيمِ} تو انہوں نے کہا:{إِلا مَنْ هُوَ صَالِ الْجَحِيم} کا مطلب ہے: سوائے اس کے جس کے لئے اللہ نے واجب کر دیا ہے کہ وہ جہنم میں جائے۔


4617- حَدَّثَنَا هِلالُ بْنُ بِشْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، قَالَ: أَخْبَرَنِي حُمَيْدٌ: كَانَ الْحَسَنُ يَقُولُ: لأَنْ يُسْقَطَ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الأَرْضِ أَحَبُّ إِلَيْهِ مِنْ أَنْ يَقُولَ: الأَمْرُ بِيَدِي۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۵۱۰) (صحیح الإسناد)
۴۶۱۷- حمید کہتے ہیں کہ حسن بصری کہتے تھے : آسمان سے زمین پر گر پڑنا اس بات سے مجھے زیادہ عزیز ہے کہ میں کہوں: معاملہ تو میرے ہاتھ میں ہے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : حسن بصری رحمہ اللہ نے یہ بات صاف کردی کہ تمام امور اللہ کے ہاتھ میں ہیں خیروشر سب کا مالک وخالق وہی ہے۔


4618- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ، قَالَ: قَدِمَ عَلَيْنَا الْحَسَنُ مَكَّةَ، فَكَلَّمَنِي فُقَهَاءُ أَهْلِ مَكَّةَ أَنْ أُكَلِّمَهُ فِي أَنْ يَجْلِسَ لَهُمْ يَوْمًا يَعِظُهُمْ فِيهِ، فَقَالَ: نَعَمْ، فَاجْتَمَعُوا فَخَطَبَهُمْ، فَمَا رَأَيْتُ أَخْطَبَ مِنْهُ، فَقَالَ رَجُلٌ: يَا أَبَا سَعِيدٍ! مَنْ خَلَقَ الشَّيْطَانَ؟ فَقَالَ: سُبْحَانَ اللَّهِ!! هَلْ مِنْ خَالِقٍ غَيْرُ اللَّهِ؟ خَلَقَ اللَّهُ الشَّيْطَانَ، وَخَلَقَ الْخَيْرَ، وَخَلَقَ الشَّرَّ، قَالَ الرَّجُلُ: قَاتَلَهُمُ اللَّهُ! كَيْفَ يَكْذِبُونَ عَلَى هَذَا الشَّيْخِ؟.
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۵۰۹) (صحیح)
۴۶۱۸- حمید کہتے ہیں کہ حسن ہمارے پاس مکہ تشریف لائے تو اہل مکہ کے فقہاء نے مجھ سے کہا کہ میں ان سے درخواست کروں کہ وہ ان کے لئے ایک دن نشست رکھیں، اور وعظ فرمائیں، وہ اس کے لئے راضی ہوگئے تو لوگ اکٹھا ہوئے اور آپ نے انہیں خطاب کیا، میں نے ان سے بڑا خطیب کسی کو نہیں دیکھا ، ایک شخص نے سوال کیا: اے ابو سعید! شیطان کو کس نے پیدا کیا ؟ انہوں نے کہا: سبحان اللہ! کیا اللہ کے سوا کوئی اور خالق ہے؟ اللہ نے شیطان کو پید ا کیا اور اسی نے خیر پیدا کیا ، اور شر پیدا کیا، وہ شخص بولا : اللہ انہیں غارت کرے ، کس طرح یہ لوگ اس بزرگ پر جھوٹ باندھتے ہیں ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ہمیشہ اہل بدعت کا یہ طریقہ رہا ہے کہ وہ موحدین اور صحیح عقیدہ والوں پر افتراءات باندھتے رہتے ہیں، کچھ لوگوں نے حسن بصری کے متعلق بھی اسی طرح کے بہتان لگائے تھے اسی کی طرف اشارہ ہے۔


4619- حَدَّثَنَا ابْنُ كَثِيرٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ حُمَيْدٍ الطَّوِيلِ، عَنِ الْحَسَنِ: {كَذَلِكَ نَسْلُكُهُ فِي قُلُوبِ الْمُجْرِمِينَ} قَالَ: الشِّرْكُ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۵۱۱) (صحیح)
۴۶۱۹- حسن بصری آیت کریمہ: {كَذَلِكَ نَسْلُكُهُ فِي قُلُوبِ الْمُجْرِمِينَ} ۱؎ کے سلسلہ میں کہتے ہیں: اس سے مراد شرک ہے۔
وضاحت ۱؎ : '' اسی طرح سے ہم اسے مجرموں کے دل میں ڈالتے ہیں'' (سورۃ الحجر : ۱۱۲)


4620- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ رَجُلٍ قَدْ سَمَّاهُ غَيْرُ ابْنِ كَثِيرٍ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عُبَيْدٍالصِّيدِ، عَنِ الْحَسَنِ فِي قَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ: {وَحِيلَ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ مَا يَشْتَهُونَ} قَالَ: بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ الإِيمَانِ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۵۲۴) (ضعیف الإسناد)
(اس کی سند میں ایک مبہم راوی ہے)
۴۶۲۰- حسن بصری آیت کریمہ: {وَحِيلَ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ مَا يَشْتَهُونَ} ۱؎ کی تفسیر میں کہتے ہیں: اس کا مطلب ہے ان کے اور ان کے ایمان کے درمیان حائل ہو گئی۔
وضاحت ۱؎ : ''ان کے اور ان کی خواہشات کے درمیان حائل ہوگئی'' (سورۃ سبا : ۵۴)


4621- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، حَدَّثَنَا سُلَيْمٌ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ، قَالَ: كُنْتُ أَسِيرُ بِالشَّامِ، فَنَادَانِي رَجُلٌ مِنْ خَلْفِي، فَالْتَفَتُّ فَإِذَا رَجَاءُ بْنُ حَيْوَةَ، فَقَالَ: يَا أَبَا عَوْنٍ! مَا هَذَا الَّذِي يَذْكُرُونَ عَنِ الْحَسَنِ؟ قَالَ: قُلْتُ: إِنَّهُمْ يَكْذِبُونَ عَلَى الْحَسَنِ كَثِيرًا۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۵۲۳، ۱۸۶۳۹) (صحیح الإسناد)
۴۶۲۱- ابن عون کہتے ہیں کہ میں ملک شام میں چل رہاتھا تو ایک شخص نے پیچھے سے مجھے پکارا جب میں مڑا تو دیکھا رجاء بن حیوہ ہیں، انہوں نے کہا: اے ابوعون! یہ کیا ہے جو لوگ حسن کے با رے میں ذکر کرتے ہیں؟ میں نے کہا: لوگ حسن پر بہت زیادہ جھوٹ باندھتے ہیں ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : حسن بصری رحمہ اللہ سے متعلق خصوصا جھوٹے صوفیوں نے بہت سا کفر وشرک گھڑ رکھا ہے، اعاذنااللہ۔


4622- حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، قَالَ: سَمِعْتُ أَيُّوبَ يَقُولُ: كَذَبَ عَلَى الْحَسَنِ ضَرْبَانِ مِنَ النَّاسِ: قَوْمٌ، الْقَدَرُ رَأْيُهُمْ وَهُمْ يُرِيدُونَ أَنْ يُنَفِّقُوا بِذَلِكَ رَأْيَهُمْ، وَقَوْمٌ لَهُ فِي قُلُوبِهِمْ شَنَآنٌ وَبُغْضٌ يَقُولُونَ: أَلَيْسَ مِنْ قَوْلِهِ كَذَا؟ أَلَيْسَ مِنْ قَوْلِهِ كَذَا؟.
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۴۵۰) (صحیح)
۴۶۲۲- ایوب کہتے ہیں: حسن پر جھوٹ دو قسم کے لوگ باندھتے ہیں: ایک تو قدریہ ، جو چاہتے ہیں کہ اس طرح سے ان کے خیال و نظریہ کا لوگ اعتبار کریں گے، اور دوسرے وہ لوگ جن کے دلوں میں ان کے خلاف عداوت اور بغض ہے ، وہ کہتے ہیں : کیا یہ ان کا قول نہیں؟ کیا یہ ان کا قول نہیں؟۔


4623- حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُثَنَّى، أَنَّ يَحْيَى بْنَ كَثِيرٍ الْعَنْبَرِيَّ حَدَّثَهُمْ، قَالَ: كَانَ قُرَّةُ بْنُ خَالِدٍ يَقُولُ لَنَا: يَا فِتْيَانُ، لا تُغْلَبُوا عَلَى الْحَسَنِ، فَإِنَّهُ كَانَ رَأْيُهُ السُّنَّةَ وَالصَّوَابَ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۹۲۳۲) (صحیح)
۴۶۲۳- یحییٰ بن کثیر بن عنبر ی کہتے ہیں کہ قرہ بن خالد ہم سے کہا کرتے تھے : اے نوجوانو! حسن کو قدریہ مت سمجھو، ان کی رائے سنت اور صواب تھی ۔


4624- حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُثَنَّى وَابْنُ بَشَّارٍ، قَالا: حَدَّثَنَا مُؤَمَّلُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ، قَالَ: لَوْ عَلِمْنَا أَنَّ كَلِمَةَ الْحَسَنِ تَبْلُغُ مَا بَلَغَتْ لَكَتَبْنَا بِرُجُوعِهِ كِتَابًا وَأَشْهَدْنَا عَلَيْهِ شُهُودًا، وَلَكِنَّا قُلْنَا: كَلِمَةٌ خَرَجَتْ لا تُحْمَلُ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داودع (تحفۃ الأشراف: ۱۸۹۲۲) (صحیح مثلہ)
۴۶۲۴- ابن عون کہتے ہیں کہ اگر ہمیں یہ معلوم ہوتا کہ حسن کی بات (غلط معنی کے ساتھ شہرت کے) اس مقام کو پہنچ جائے گی جہاں وہ پہنچ گئی تو ہم لوگ ان کے اس قول کے بارے میں ان کے رجوع کی بابت ایک کتاب لکھتے اور اس پر لوگوں کو گواہ بناتے، لیکن ہم نے سوچا کہ ایک بات ہے جو نکل گئی ہے اور اس کے خلافِ معنی پر محمول نہیں کی جائے گی ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : حسن بصری رحمہ اللہ کے بہت سے اقوال کو لوگوں نے اپنی گمراہ کن بدعتوں کی موافقت میں ڈھال لیا جب کہ خود ان کا مقصد اس قول سے وہ نہیں تھا جواہل بدعت نے گھڑ لیا ،اسی کو ابن عون فرماتے ہیں کہ اگر یہ احساس ہوتا کہ آپ کی بات کو یہ لوگ غلط معنی پہنا کر لوگوں کو گمراہ کریں گے تو ہم حسن بصری سے اس کا غلط ہونا ثابت کرتے، ان سے پوچھتے ، وہ جواب دیتے، اور ہم اس پر لوگوں کی گواہیاں بھی کراتے، مگر اس وقت اس کا احساس نہ تھا ،اب ان کے بعد اہل بدعت نے سیکڑوں غلط باتیں ان سے منسوب کر رکھی ہیں جن سے وہ بری ہیں۔


4625- حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، قَالَ: قَالَ لِيَ الْحَسَنُ: مَا أَنَا بِعَائِدٍ إِلَى شَيْئٍ مِنْهُ أَبَدًا۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۵۰۲) (صحیح)
۴۶۲۵- ایوب کہتے ہیں کہ مجھ سے حسن بصری نے کہا : میں اب دو بارہ کبھی اس میں سے کوئی بات نہیں کہوں گا، (جس سے تقدیر کی نفی کا گمان ہوتا)۔


4626- حَدَّثَنَا هِلالُ بْنُ بِشْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُثْمَانَ، عَنْ عُثْمَانَ الْبَتِّيِّ، قَالَ: مَا فَسَّرَ الْحَسَنُ آيَةً قَطُّ إِلا عَنِ الإِثْبَاتِ ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۵۲۵، ۱۹۰۰۴) (صحیح)
۴۶۲۶- عثمان کہتے ہیں کہ حسن نے جب بھی کسی آیت کی تفسیر کی تو تقدیر کا اثبات کیا ۔
 
Top