7- بَاب [مَنْ دَعَا إلى] لُزُومِ السُّنَّةِ
۷-باب: سنت پرعمل کرنے کی دعوت دینے والوں کے اجر و ثواب کا بیان
4609- حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ -يَعْنِي ابْنَ جَعْفَرٍ- قَالَ: أَخْبَرَنِي الْعَلاءُ -يَعْنِي ابْنَ عَبْدِالرَّحْمَنِ- عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: <مَنْ دَعَا إِلَى هُدًى كَانَ لَهُ مِنَ الأَجْرِ مِثْلُ أُجُورِ مَنْ تَبِعَهُ لا يَنْقُصُ ذَلِكَ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْئًا، وَمَنْ دَعَا إِلَى ضَلالَةٍ كَانَ عَلَيْهِ مِنَ الإِثْمِ مِثْلُ آثَامِ مَنْ تَبِعَهُ لا يَنْقُصُ ذَلِكَ مِنْ آثَامِهِمْ شَيْئًا >۔
* تخريج: م/العلم ۶ (۲۶۷۴)، ت/العلم ۱۵ (۲۶۷۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۹۷۶)، وقد أخرجہ: حم (۲/۳۹۷)، دي/المقدمۃ ۴۴ (۵۳۰) (صحیح)
۴۶۰۹- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' جو شخص دوسروں کو نیک عمل کی دعوت دیتا ہے تو اس کی دعوت سے جتنے لوگ ان نیک باتوں پر عمل کرتے ہیں ان سب کے برابر اس دعوت دینے والے کو بھی ثواب ملتا ہے، اور عمل کرنے والوں کے ثواب میں سے کوئی کمی نہیں کی جاتی، اور جو کسی گمراہی و ضلالت کی طرف بلاتا ہے تو جتنے لوگ اس کے بلانے سے اس پر عمل کرتے ہیں ان سب کے برابر اس کو گناہ ہوتا ہے اور ان کے گناہوں میں (بھی) کوئی کمی نہیں ہوتی''۔
4610- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < إِنَّ أَعْظَمَ الْمُسْلِمِينَ فِي الْمُسْلِمِينَ جُرْمًا مَنْ سَأَلَ عَنْ أَمْرٍ لَمْ يُحَرَّمْ فَحُرِّمَ عَلَى النَّاسِ مِنْ أَجْلِ مَسْأَلَتِهِ >۔
* تخريج: خ/الاعتصام ۳ (۷۲۸۹)، م/الفضائل ۳۷ (۲۳۵۸)، (تحفۃ الأشراف: ۳۸۹۲)، وقد أخرجہ: حم (۱/۱۷۶، ۱۷۹) (صحیح)
۴۶۱۰- سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' مسلمانوں کے حق میں سب سے بڑا مجرم وہ مسلمان ہے جو ایسی چیز کے با رے میں سوال کرے جو حرام نہیں کی گئی تھی لیکن اس کے سوال کرنے کی وجہ سے مسلمانوں پر حرام کر دی گئی'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : سوال دو طرح کا ہوتا ہے : ایک تو وہ جس کی ضرورت ہے اور معلوم نہیں تو آدمی کے جاننے کے لئے پوچھنا درست ہے، دوسرا وہ جس کی نہ حاجت ہے نہ ضرورت، آدمی بلا ضرورت یونہی خیالی و فرضی سوال کرے اور ناحق پریشان کرے، اور اس کے سوال کے سبب وہ حرام کردی جائے، اس حدیث میں اسی قسم کے سوال کو سب سے بڑا جرم قرار دیا گیا ہے،آج کل بعض لوگ علماء سے یونہی بلا ضرورت یا بطور امتحان سوال کیا کرتے ہیں ان کو ڈرنا چاہئے۔
4611- حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ خَالِدِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ مَوْهَبٍ الْهَمْدَانِيُّ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ أَنَّ أَبَا إِدْرِيسَ الْخَوْلانِيَّ عَائِذَ اللَّهِ أَخْبَرَهُ أَنَّ يَزِيدَ بْنَ عُمَيْرَةَ -وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ- أَخْبَرَهُ، قَالَ: كَانَ لا يَجْلِسُ مَجْلِسًا لِلذِّكْرِ حِينَ يَجْلِسُ إِلا قَالَ: اللَّهُ حَكَمٌ قِسْطٌ، هَلَكَ الْمُرْتَابُونَ، فَقَالَ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ يَوْمًا: إِنَّ مِنْ وَرَائِكُمْ فِتَنًا يَكْثُرُ فِيهَا الْمَالُ، وَيُفْتَحُ فِيهَا الْقُرْآنُ حَتَّى يَأْخُذَهُ الْمُؤْمِنُ وَالْمُنَافِقُ وَالرَّجُلُ وَالْمَرْأَةُ وَالصَّغِيرُ وَالْكَبِيرُ وَالْعَبْدُ وَالْحُرُّ، فَيُوشِكُ قَائِلٌ أَنْ يَقُولَ: مَا لِلنَّاسِ لا يَتَّبِعُونِي وَقَدْ قَرَأْتُ الْقُرْآنَ؟ مَا هُمْ بِمُتَّبِعِيَّ حَتَّى أَبْتَدِعَ لَهُمْ غَيْرَهُ، فَإِيَّاكُمْ وَمَا ابْتُدِعَ؛ فَإِنَّ مَا ابْتُدِعَ ضَلالَةٌ، وَأُحَذِّرُكُمْ زَيْغَةَ الْحَكِيمِ؛ فَإِنَّ الشَّيْطَانَ قَدْ يَقُولُ كَلِمَةَ الضَّلالَةِ عَلَى لِسَانِ الْحَكِيمِ، وَقَدْ يَقُولُ الْمُنَافِقُ كَلِمَةَ الْحَقِّ، قَالَ: قُلْتُ لِمُعَاذٍ: مَا يُدْرِينِي [رَحِمَكَ اللَّهُ] أَنَّ الْحَكِيمَ قَدْ يَقُولُ كَلِمَةَ الضَّلالَةِ، وَأَنَّ الْمُنَافِقَ قَدْ يَقُولُ كَلِمَةَ الْحَقِّ؟ قَالَ: بَلَى، اجْتَنِبْ مِنْ كَلامِ الْحَكِيمِ الْمُشْتَهِرَاتِ الَّتِي يُقَالُ [لَهَا] مَا هَذِهِ، وَلا يُثْنِيَنَّكَ ذاَلِكَ عَنْهُ؛ فَإِنَّهُ لَعَلَّهُ أَنْ يُرَاجِعَ، وَتَلَقَّ الْحَقَّ إِذَا سَمِعْتَهُ، فَإِنَّ عَلَى الْحَقِّ نُورًا.
قَالَ أَبو دَاود: قَالَ مَعْمَرٌ عَنِ الزُّهْرِيِّ فِي هَذَا [الْحَدِيثِ]: وَلا يُنْئِيَنَّكَ ذَلِكَ عَنْهُ، مَكَانَ < يُثْنِيَنَّكَ > و قَالَ صَالِحُ بْنُ كَيْسَانَ عَنِ الزُّهْرِيِّ فِي هَذَا: الْمُشَبِّهَاتِ، مَكَانَ < الْمُشْتَهِرَاتِ > وَقَالَ: لايُثْنِيَنَّكَ، كَمَا قَالَ عُقَيْلٌ، و قَالَ ابْنُ إِسْحَاقَ عَنِ الزُّهْرِيِّ قَالَ: بَلَى مَا تَشَابَهَ عَلَيْكَ مِنْ قَوْلِ الْحَكِيمِ حَتَّى تَقُولَ مَا أَرَادَ بِهَذِهِ الْكَلِمَةِ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۳۶۹) (صحیح الإسناد)
۴۶۱۱- ابوادریس خولانی کہتے ہیں کہ یزید بن عمیرہ (جو معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کے شاگردوں میں سے تھے) نے انہیں خبر دی ہے کہ وہ جب بھی کسی مجلس میں وعظ کہنے کو بیٹھتے تو کہتے : اللہ بڑا حاکم اور عادل ہے ، شک کر نے والے تباہ ہو گئے تو ایک روز معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہنے لگے: تمہارے بعد بڑے بڑے فتنے ہوں گے ، ان (دنوں) میں مال کثرت سے ہو گا، قرآن آسان ہو جائے گا ، یہاں تک کہ اسے مومن و منافق ، مرد و عورت ، چھوٹے بڑے، غلام اور آزاد سبھی حاصل کر لیں گے، تو قریب ہے کہ کہنے والا کہے : لوگوں کو کیا ہو گیا ہے؟ میری پیروی نہیں کرتے ، حالاں کہ میں نے قرآن پڑھا ہے، وہ میری پیروی اس وقت تک نہیں کریں گے جب تک کہ میں ان کے لئے اس کے علاوہ کوئی نئی چیز نہ نکالوں ، لہٰذا جو نئی چیز نکالی جائے تم اس سے بچو ۱؎ اس لئے کہ ہر وہ نئی چیز جو نکالی جائے گمراہی ہے، اور میں تمہیں حکیم ودانا کی گمراہی سے ڈراتا ہوں ، اس لئے کہ بسا اوقات شیطان ، حکیم و دانا شخص کی زبانی گمراہی کی بات کہتا ہے اور کبھی کبھی منافق بھی حق بات کہتا ہے ۔
میں نے معاذ سے کہا: (اللہ آپ پر رحم کرے) مجھے کیسے معلوم ہو گا کہ حکیم ودا نا گمراہی کی بات کہتا ہے، اور منافق حق بات ؟ وہ بولے : کیوں نہیں ،حکیم و عالم کی ان مشہور باتوں سے بچو ، جن کے متعلق یہ کہا جاتا ہو کہ وہ یوں نہیں ہے، لیکن یہ چیز تمہیں خود اس حکیم سے نہ پھیر دے ، اس لئے کہ امکان ہے کہ وہ (اپنی پہلی بات سے) پھر جائے اور حق پر آجائے، اور جب تم حق بات سنو تو اسے لے لو ، اس لئے کہ حق میں ایک نور ہوتا ہے۔
ابو داود کہتے ہیں: اس قصے میں معمرنے زہری سے
''وَلا يُثْنِيَنَّكَ ذَلِكَ عَنْهُ'' کے بجائے
''وَلا يُنْئِيَنَّكَ ذَلِكَ عَنْهُ'' روایت کی ہے اور صالح بن کیسان نے زہری سے اس میں
''الْمُشْتَهِرَاتِ'' کے بجائے
''الْمُشَبِّهَاتِ'' روایت کی ہے اور
''وَلا يُثْنِيَنَّكَ '' ہی روایت کی ہے جیسا کہ عقیل کی روایت میں ہے۔
ابن اسحاق نے زہری سے روایت کی ہے: کیوں نہیں ، جب کسی حکیم و عالم کا قول تم پر مشتبہ ہوجائے یہاں تک کہ تم کہنے لگو کہ اس بات سے اس کا کیا مقصد ہے؟ ( تو سمجھ لو کہ یہ حکیم و عالم کی زبانی گمراہی کی بات ہے) ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : جب وہ دیکھے گا کہ لوگ قرآن وسنت کوچھوڑ بیٹھے ہیں اور شیطان اور بدعت کے پیرو ہورہے ہیں تو میں کیوں نہ کوئی بدعت ایجاد کروں، تو خبردار اس کی نکالی ہوئی بدعت سے بچتے رہو کیونکہ وہ گمراہی ہے۔
وضاحت ۲؎ : آدمی اگر منصف اور حق پرست ہو تو اس پر باطل کی تاریکی وظلمت کبھی نہیں چھپتی، معاذ رضی اللہ عنہ نے باطل کی نشانی یہ بیان کی کہ وہ قرآن وسنت میں نہ ہو، اورعقل سلیم بھی اس کو قبول نہ کرے، آپ نے عالم کے فتنے سے بھی ڈرایا کیونکہ عالم کا فتنہ بڑاسخت ہوتا ہے وہ جھوٹی باتوں، غلط استدلال اور چرب زبانی سے عوام کو فریفتہ کرلیتا ہے، آج یہی حال ہے، باطل پرست قرآن وسنت سے الگ ہٹ کر نئی نئی بدعتوں میں عوام کو پھنسائے ہوئے ہیں، اتفاق واتحاد کو پارہ پارہ کردیا ہے، اور لوگوں نے اپنے اپنے مولویوں کے ایجاد کئے ہوئے امور کواسلام کا نام دے رکھا ہے، فتنے کے وقت میں طالب حق کو چاہئے کہ قرآن کو دیکھے اور صحیح احادیث میں تلاش کرے اور فرقہ بندی سے دور رہے۔
4612- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: كَتَبَ رَجُلٌ إِلَى عُمَرَ بْنِ عَبْدِالْعَزِيزِ يَسْأَلُهُ عَنِ الْقَدَرِ(ح) وحَدَّثَنَا الرَّبِيعُ بْنُ سُلَيْمَانَ الْمُؤَذِّنُ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَسَدُ بْنُ مُوسَى، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ دُلَيْلٍ، قَالَ: سَمِعْتُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيَّ يُحَدِّثُنَا عَنِ النَّضْرِ، (ح) وحَدَّثَنَا هَنَّادُ ابْنُ السَّرِيِّ، عَنْ قَبِيصَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو رَجَائٍ، عَنْ أَبِي الصَّلْتِ وَهَذَا لَفْظُ حَدِيثِ ابْنِ كَثِيرٍ وَمَعْنَاهُمْ، قَالَ: كَتَبَ رَجُلٌ إِلَى عُمَرَ بْنِ عَبْدِالْعَزِيزِ يَسْأَلُهُ عَنِ الْقَدَرِ، فَكَتَبَ: أَمَّا بَعْدُ، أُوصِيكَ بِتَقْوَى اللَّهِ، وَالاقْتِصَادِ فِي أَمْرِهِ، وَاتِّبَاعِ سُنَّةِ نَبِيِّهِ ﷺ ، وَتَرْكِ مَا أَحْدَثَ الْمُحْدِثُونَ بَعْدَ مَا جَرَتْ بِهِ سُنَّتُهُ، وَكُفُوا مُؤْنَتَهُ، فَعَلَيْكَ بِلُزُومِ السُّنَّةِ فَإِنَّهَا لَكَ -بِإِذْنِ اللَّهِ- عِصْمَةٌ، ثُمَّ اعْلَمْ أَنَّهُ لَمْ يَبْتَدِعِ النَّاسُ بِدْعَةً إِلا قَدْ مَضَى قَبْلَهَا مَا هُوَ دَلِيلٌ عَلَيْهَا أَوْ عِبْرَةٌ فِيهَا؛ فَإِنَّ السُّنَّةَ إِنَّمَا سَنَّهَا مَنْ قَدْ عَلِمَ مَا فِي خِلافِهَا - وَلَمْ يَقُلِ ابْنُ كَثِيرٍ < مَنْ قَدْ عَلِمَ >- مِنَ الْخَطَإِ وَالزَّلَلِ وَالْحُمْقِ وَالتَّعَمُّقِ، فَارْضَ لِنَفْسِكَ مَا رَضِيَ بِهِ الْقَوْمُ لأَنْفُسِهِمْ؛ فَإِنَّهُمْ عَلَى عِلْمٍ وَقَفُوا، وَبِبَصَرٍ نَافِذٍ كَفُّوا، وَهُمْ عَلَى كَشْفِ الأُمُورِ كَانُوا أَقْوَى؛ وَبِفَضْلِ مَا كَانُوا فِيهِ أَوْلَى، فَإِنْ كَانَ الْهُدَى مَا أَنْتُمْ عَلَيْهِ لَقَدْ سَبَقْتُمُوهُمْ إِلَيْهِ، وَلَئِنْ قُلْتُمْ إِنَّمَا حَدَثَ بَعْدَهُمْ، مَا أَحْدَثَهُ إِلا مَنِ اتَّبَعَ غَيْرَ سَبِيلِهِمْ وَرَغِبَ بِنَفْسِهِ عَنْهُمْ، فَإِنَّهُمْ هُمُ السَّابِقُونَ، فَقَدْ تَكَلَّمُوا فِيهِ بِمَا يَكْفِي، وَوَصَفُوا مِنْهُ مَا يَشْفِي، فَمَا دُونَهُمْ مِنْ مَقْصَرٍ، وَمَا فَوْقَهُمْ مِنْ مَحْسَرٍ، وَقَدْ قَصَّرَ قَوْمٌ دُونَهُمْ فَجَفَوْا، وَطَمَحَ عَنْهُمْ أَقْوَامٌ فَغَلَوْا، وَإِنَّهُمْ بَيْنَ ذَلِكَ لَعَلَى هُدًى مُسْتَقِيمٍ، كَتَبْتَ تَسْأَلُ عَنِ الإِقْرَارِ بِالْقَدَرِ فَعَلَى الْخَبِيرِ -بِإِذْنِ اللَّهِ- وَقَعْتَ، مَا أَعْلَمُ مَا أَحْدَثَ النَّاسُ مِنْ مُحْدَثَةٍ، وَلا ابْتَدَعُوا مِنْ بِدْعَةٍ هِيَ أَبْيَنُ أَثَرًا وَلاأَثْبَتُ أَمْرًا مِنَ الإِقْرَارِ بِالْقَدَرِ، لَقَدْ كَانَ ذَكَرَهُ فِي الْجَاهِلِيَّةِ الْجُهَلاءُ، يَتَكَلَّمُونَ بِهِ فِي كَلامِهِمْ وَفِي شِعْرِهِمْ، يُعَزُّونَ بِهِ أَنْفُسَهُمْ عَلَى مَا فَاتَهُمْ، ثُمَّ لَمْ يَزِدْهُ الإِسْلامُ بَعْدُ إِلا شِدَّةً، وَلَقَدْ ذَكَرَهُ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فِي غَيْرِ حَدِيثٍ وَلا حَدِيثَيْنِ، وَقَدْ سَمِعَهُ مِنْهُ الْمُسْلِمُونَ فَتَكَلَّمُوا بِهِ فِي حَيَاتِهِ وَبَعْدَ وَفَاتِهِ، يَقِينًا وَتَسْلِيمًا لِرَبِّهِمْ، وَتَضْعِيفًا لأَنْفُسِهِمْ، أَنْ يَكُونَ شَيْئٌ لَمْ يُحِطْ بِهِ عِلْمُهُ، وَلَمْ يُحْصِهِ كِتَابُهُ، وَلَمْ يَمْضِ فِيهِ قَدَرُهُ، وَإِنَّهُ مَعَ ذاَلِكَ لَفِي مُحْكَمِ كِتَابِهِ: مِنْهُ اقْتَبَسُوهُ، وَمِنْهُ تَعَلَّمُوهُ، وَلَئِنْ قُلْتُمْ: لِمَ أَنْزَلَ اللَّهُ آيَةَ كَذَا؟ لِمَ قَالَ كَذَا؟ لَقَدْ قَرَئُوا مِنْهُ مَا قَرَأْتُمْ، وَعَلِمُوا مِنْ تَأْوِيلِهِ مَا جَهِلْتُمْ، وَقَالُوا بَعْدَ ذَلِكَ: كُلِّهِ بِكِتَابٍ وَقَدَرٍ، [وَكُتِبَتِ الشَّقَاوَةُ]، وَمَا يُقْدَرْ يَكُنْ، وَمَا شَاءَ اللَّهُ كَانَ، وَمَا لَمْ يَشَأْ لَمْ يَكُنْ، وَلا نَمْلِكُ لأَنْفُسِنَا ضَرًّا وَلا نَفْعًا، ثُمَّ رَغِبُوا بَعْدَ ذَلِكَ وَرَهِبُوا۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۹۱۴۵) (صحیح)
۴۶۱۲- سفیان ثوری کہتے ہیں کہ ایک شخص نے خط لکھ کر عمربن عبدالعزیزسے تقدیر کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے (جواب میں) لکھا :'' اما بعد ! میں تمہیں اللہ سے ڈرنے اور اس کے دین کے سلسلہ میں میانہ روی اختیار کرنے ، اس کے نبی کی سنت کی پیروی کر نے کی اور بدعتیوں نے جو بدعتیں سنت کے جاری اور ضروریات کے لئے کافی ہوجانے کے بعد ایجاد کی ہیں ان کے چھوڑ دینے کی وصیت کر تا ہوں ، لہٰذا تم پر سنت کا دامن تھامے رہنا لازم ہے،اللہ کے حکم سے یہی چیز تمہارے لئے گمراہی سے بچنے کا ذریعہ ہوگی۔
پھر یہ بھی جان لو کہ لوگوں نے کوئی بدعت ایسی نہیں نکالی ہے جس کے خلاف پہلے سے کوئی دلیل موجود نہ رہی ہو یا اس کے بدعت ہونے کے سلسلہ میں کوئی نصیحت آمیز بات نہ ہو، اس لئے کہ سنت کو جس نے جاری کیا ہے ، (اللہ تعالیٰ یا نبی اکرم ﷺ ) وہ جانتا تھا کہ اس کی مخالفت میں کیا وبال ہے، کیا کیا غلطیاں ، لغزشیں، حماقتیں اور انتہا پسندیاں ہیں (ابن کثیر کی روایت میں ''من قد علم'' کا لفظ نہیں ہے) لہٰذا تم اپنے آپ کواسی چیز سے خوش رکھو جس سے قوم (سلف) نے اپنے آپ کو خوش رکھا ہے، اس لئے کہ وہ دین کے بڑے واقف کار تھے ، جس بات سے انہوں نے روکا ہے گہری بصیرت سے روکا ہے، انہیں معاملات کے سمجھنے پر ہم سے زیادہ دسترس تھی ، اور تمام خوبیوں میں وہ ہم سے فائق تھے، لہٰذا اگر ہدایت وہ ہوتی جس پر تم ہو تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ تم ان سے آگے بڑھ گئے، اور اگر تم یہ کہتے ہو کہ جن لوگوں نے بدعتیں نکالی ہیں وہ اگلے لوگوں کی راہ پر نہیں چلے اور ان سے اعراض کیا تو واقعہ بھی یہی ہے کہ اگلے لوگ ہی فائق وبرتر تھے انہوں نے جتنا کچھ بیان کردیا ہے اور جو کچھ کہہ دیا ہے شافی وکافی ہے، لہٰذا اب دین میں نہ اس سے کم کی گنجائش ہے نہ زیادہ کی، اور حال یہ ہے کہ کچھ لوگوں نے اس میں کمی کر ڈالی تو وہ جفا کار ٹھہرے اور کچھ لوگوں نے زیادتی کی تو وہ غلو کا شکار ہو گئے ،اور اگلے لوگ ان دونوں انتہاؤں کے بیچ سیدھی راہ پر رہے، اور تم نے ایمان بالقدر کے اقرارکے بارے میں بھی پوچھا ہے تو باذن اللہ تم نے یہ سوال ایک ایسے شخص سے کیا ہے جو اس کو خوب جانتا ہے، ان لوگوں نے جتنی بھی بدعتیں ایجاد کی ہیں ان میں اثر کے اعتبار سے ایمان بالقدر کے اقرار سے زیادہ واضح اور ٹھوس کوئی نہیں ہے، اس کا تذکرہ تو جاہلیت میں جہلاء نے بھی کیا ہے، وہ اپنی گفتگو اور اپنے شعر میں اس کا تذکرہ کرتے تھے، اس کے ذریعے وہ اپنے آپ کو کسی فوت ہو جانے والے کے غم میں تسلی دیتے ہیں ۔
پھر اسلام نے اس خیال کو مزید پختگی بخشی ، رسول اللہ ﷺ نے اس کا ذکر ایک یا دو حدیثوں میں نہیں بلکہ کئی حدیثوں میں کیا، اور اس کو مسلمانوں نے آپ ﷺ سے سنا، پھر آپ کی زندگی میں بھی اسے بیان کیا اور آپ ﷺ کی وفات کے بعد بھی، اس پر یقین کر کے ، اس کو تسلیم کر کے اور اپنے کو اس سے کمزور سمجھ کے، کوئی چیز ایسی نہیں جس کو اللہ کا علم محیط نہ ہو، اور جو اس کے نوشتہ میں نہ آچکی ہو ، اور اس میں اس کی تقدیر جاری نہ ہو چکی ہو، اس کے باوجود اس کا ذکر اس کی کتاب محکم میں ہے ، اسی سے لوگوں نے اسے حاصل کیا ، اسی سے اسے سیکھا ۔
اور اگر تم یہ کہو:اللہ نے ایسی آیت کیوں نازل فرمائی؟ اور ایسا کیوں کہا ( جو آیات تقدیر کے خلاف ہیں)؟ تو ( جان لو) ان لوگوں نے بھی اس میں سے وہ سب پڑھا تھا جو تم نے پڑھا ہے لیکن انہیں اس کی تاویل وتفسیر کا علم تھا جس سے تم ناواقف ہو، اس کے بعد بھی وہ اسی بات کے قائل تھے : ہر بات اللہ کی تقدیر اور اس کے لکھے ہوئے کے مطابق ہے جو مقدر میں لکھا ہے وہ ہو گا ، جو اللہ نے چاہا ، وہی ہوا ، جو نہیں چاہا ، نہیں ہوا۔
اور ہم تو اپنے لئے نہ کسی ضرر کے مالک ہیں اور نہ ہی کسی نفع کے پھر اس اعتقاد کے بعد بھی اگلے لوگ اچھے کام کرتے رہے اور بر ے کاموں سے ڈرتے رہے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے اس جواب سے بدعت اور سنت کی راہ بالکل واضح ہوگئی اور یہ بات بھی صاف ہوگئی کہ کسی بھی عمل سے پہلے قرآن وسنت کودیکھنا چاہئے، اگر ان میں نہ ملے تو صحابہ کرام اور تابعین عظام کودیکھنا چاہئے کہ ان کا عمل اس پر تھا یا نہیں، اگر ہم اس معیار کو اختیار کرلیں تو اللہ کے فضل سے سارے اختلافات دور ہوجائیں اور بے شمار بدعات ہمیشہ کے لئے دم توڑ جائیں، لیکن ہم نے بعد کے لوگوں کی روش کواپنا رکھا ہے اور بدعات کی گرم بازاری میں مگن ہیں۔
4613- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ يَزِيدَ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَعِيدٌ -يَعْنِي ابْنَ أَبِي أَيُّوبَ- قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو صَخْرٍ، عَنْ نَافِعٍ، قَالَ: كَانَ لابْنِ عُمَرَ صَدِيقٌ مِنْ أَهْلِ الشَّامِ يُكَاتِبُهُ، فَكَتَبَ إِلَيْهِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ: إِنَّهُ بَلَغَنِي أَنَّكَ تَكَلَّمْتَ فِي شَيْئٍ مِنَ الْقَدَرِ، فَإِيَّاكَ أَنْ تَكْتُبَ إِلَيَّ، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < إِنَّهُ سَيَكُونُ فِي أُمَّتِي أَقْوَامٌ يُكَذِّبُونَ بِالْقَدَرِ >۔
* تخريج: تفرد بہذا المتن أبوداود، وقد أخرجہ: ت/القدر ۱۶ ( ۲۱۵۲)، ق/الفتن ۲۹ (۴۰۶۱)، بسیاق نحوہ ولفظہ: ''في ہذہ الأمۃ خسف ومسخ أو قذف في أہل القدر'' (تحفۃ الأشراف: ۷۶۵۱)، و حم (۲/۱۰۸، ۱۳۶) (حسن)
۴۶۱۳- نافع کہتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کا ایک شامی دوست تھا جو ان سے خط وکتابت رکھتا تھا ، تو عبداللہ بن عمر نے اسے لکھا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم نے تقدیر کے سلسلے میں ( سلف کے قول کے خلاف) کوئی بات کہی ہے ، لہٰذا اب تم مجھ سے خط وکتابت نہ رکھنا ، اس لئے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے :'' میری امت میں کچھ ایسے لوگ ہوں گے جو تقدیر کو جھٹلائیں گے''۔
4614- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ الْجَرَّاحِ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ، قَالَ: قُلْتُ لِلْحَسَنِ: يَا أَبَا سَعِيدٍ، أَخْبِرْنِي عَنْ آدَمَ، أَلِلسَّمَاءِ خُلِقَ أَمْ لِلأَرْضِ؟ قَالَ: لا، بَلْ لِلأَرْضِ، قُلْتُ: أَرَأَيْتَ لَوِاعْتَصَمَ فَلَمْ يَأْكُلْ مِنَ الشَّجَرَةِ؟ قَالَ: لَمْ يَكُنْ لَهُ مِنْهُ بُدٌّ، قُلْتُ: أَخْبِرْنِي عَنْ قَوْلِهِ تَعَالَى: {مَا أَنْتُمْ عَلَيْهِ بِفَاتِنِينَ إِلا مَنْ هُوَ صَالِ الْجَحِيمِ} قَالَ: إِنَّ الشَّيَاطِينَ لا يَفْتِنُونَ بِضَلالَتِهِمْ إِلا مَنْ أَوْجَبَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَحِيمَ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۵۱۷، ۱۸۵۱۸) (حسن الإسناد)
۴۶۱۴- خالد الحذاء کہتے ہیں کہ میں نے حسن (بصری) سے کہا: اے ابو سعید! آدم کے سلسلہ میں مجھے بتائیے کہ وہ آسمان کے لئے پیدا کئے گئے، یا زمین کے لئے؟ آپ نے کہا: نہیں، بلکہ زمین کے لئے، میں نے عرض کیا : آپ کا کیا خیال ہے؟ اگر وہ نافرمانی سے بچ جاتے اور درخت کا پھل نہ کھاتے ، انہوں نے کہا:یہ ان کے بس میں نہ تھا ، میں نے کہا: مجھے اللہ کے فرمان
{مَا أَنْتُمْ عَلَيْهِ بِفَاتِنِينَ إِلا مَنْ هُوَ صَالِ الْجَحِيمِ} ۱؎ کے بارے میں بتائیے ، انہوں نے کہا: ''شیاطین اپنی گمراہی کا شکار صرف اسی کو بنا سکتے ہیں جس پر اللہ نے جہنم واجب کر دی ہے''۔
وضاحت ۱؎ : ''شیاطین تم میں سے کسی کو اس کے راستے سے گمراہ نہیں کر سکتے سوائے اس کے جو جہنم میں جانے والا ہو'' (الصافات:۱۶۳)
4615- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ الْحَذَّاءُ، عَنِ الْحَسَنِ فِي قَوْلِهِ تَعَالَى: {وَلِذَلِكَ خَلَقَهُمْ} قَالَ: خَلَقَ هَؤُلاءِ لِهَذِهِ، وَهَؤُلاءِ لِهَذِهِ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۵۱۶) (صحیح الإسناد)
۴۶۱۵- حسن بصری سے اللہ تعالی کے قول
{وَلِذَلِكَ خَلَقَهُمْ} ۱؎ کے با رے میں روایت ہے، انہوں نے کہا: انہیں پیدا کیا اس ( جنت ) کے لئے اور انہیں پیدا کیا اس (جہنم ) کے لئے ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ''اور اسی کے لئے انہیں پیدا کیا'' (سورہ ھود : ۱۱۹)
وضاحت ۲؎ : انہیں جنت کے لئے اور اُنہیں جہنم کے لئے پیدا کیا، اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ: اگر اللہ نہ لکھتا تو جن کو جہنم کے لئے لکھا وہ اچھے اعمال کر کے جنت میں چلے جاتے وبالعکس، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جن لوگوں کو اس نے جہنم کے لئے پیدا کیا اگر ان کی تقدیر میں کچھ نہ لکھتا تو یہ ممکن نہ تھا کہ وہ جنت میں چلے جاتے، یہ لوگ چونکہ برے اعمال ہی کرنے والے تھے جواللہ کو معلوم تھا (کیونکہ اس کا علم ماضی مستقبل حال کے لئے یکساں ہے) اس لئے اس نے اپنے علم کی بنیاد پر لکھا ایسا نہیں کہ لکھنے سے یہ لوگ مجبور ہوگئے۔
4616- حَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ الْحَذَّاءُ، قَالَ: قُلْتُ لِلْحَسَنِ: {مَا أَنْتُمْ عَلَيْهِ بِفَاتِنِينَ إِلا مَنْ هُوَ صَالِ الْجَحِيمِ} قَالَ: إِلا مَنْ أَوْجَبَ اللَّهُ تَعَالَى عَلَيْهِ أَنَّهُ يَصْلَى الْجَحِيمَ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۵۱۸) (صحیح الإسناد)
۴۶۱۶- خالدالخداء کہتے ہیں کہ میں نے حسن بصری سے کہا
{مَا أَنْتُمْ عَلَيْهِ بِفَاتِنِينَ إِلا مَنْ هُوَ صَالِ الْجَحِيمِ} تو انہوں نے کہا:
{إِلا مَنْ هُوَ صَالِ الْجَحِيم} کا مطلب ہے: سوائے اس کے جس کے لئے اللہ نے واجب کر دیا ہے کہ وہ جہنم میں جائے۔
4617- حَدَّثَنَا هِلالُ بْنُ بِشْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، قَالَ: أَخْبَرَنِي حُمَيْدٌ: كَانَ الْحَسَنُ يَقُولُ: لأَنْ يُسْقَطَ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الأَرْضِ أَحَبُّ إِلَيْهِ مِنْ أَنْ يَقُولَ: الأَمْرُ بِيَدِي۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۵۱۰) (صحیح الإسناد)
۴۶۱۷- حمید کہتے ہیں کہ حسن بصری کہتے تھے : آسمان سے زمین پر گر پڑنا اس بات سے مجھے زیادہ عزیز ہے کہ میں کہوں: معاملہ تو میرے ہاتھ میں ہے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : حسن بصری رحمہ اللہ نے یہ بات صاف کردی کہ تمام امور اللہ کے ہاتھ میں ہیں خیروشر سب کا مالک وخالق وہی ہے۔
4618- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ، قَالَ: قَدِمَ عَلَيْنَا الْحَسَنُ مَكَّةَ، فَكَلَّمَنِي فُقَهَاءُ أَهْلِ مَكَّةَ أَنْ أُكَلِّمَهُ فِي أَنْ يَجْلِسَ لَهُمْ يَوْمًا يَعِظُهُمْ فِيهِ، فَقَالَ: نَعَمْ، فَاجْتَمَعُوا فَخَطَبَهُمْ، فَمَا رَأَيْتُ أَخْطَبَ مِنْهُ، فَقَالَ رَجُلٌ: يَا أَبَا سَعِيدٍ! مَنْ خَلَقَ الشَّيْطَانَ؟ فَقَالَ: سُبْحَانَ اللَّهِ!! هَلْ مِنْ خَالِقٍ غَيْرُ اللَّهِ؟ خَلَقَ اللَّهُ الشَّيْطَانَ، وَخَلَقَ الْخَيْرَ، وَخَلَقَ الشَّرَّ، قَالَ الرَّجُلُ: قَاتَلَهُمُ اللَّهُ! كَيْفَ يَكْذِبُونَ عَلَى هَذَا الشَّيْخِ؟.
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۵۰۹) (صحیح)
۴۶۱۸- حمید کہتے ہیں کہ حسن ہمارے پاس مکہ تشریف لائے تو اہل مکہ کے فقہاء نے مجھ سے کہا کہ میں ان سے درخواست کروں کہ وہ ان کے لئے ایک دن نشست رکھیں، اور وعظ فرمائیں، وہ اس کے لئے راضی ہوگئے تو لوگ اکٹھا ہوئے اور آپ نے انہیں خطاب کیا، میں نے ان سے بڑا خطیب کسی کو نہیں دیکھا ، ایک شخص نے سوال کیا: اے ابو سعید! شیطان کو کس نے پیدا کیا ؟ انہوں نے کہا: سبحان اللہ! کیا اللہ کے سوا کوئی اور خالق ہے؟ اللہ نے شیطان کو پید ا کیا اور اسی نے خیر پیدا کیا ، اور شر پیدا کیا، وہ شخص بولا : اللہ انہیں غارت کرے ، کس طرح یہ لوگ اس بزرگ پر جھوٹ باندھتے ہیں ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ہمیشہ اہل بدعت کا یہ طریقہ رہا ہے کہ وہ موحدین اور صحیح عقیدہ والوں پر افتراءات باندھتے رہتے ہیں، کچھ لوگوں نے حسن بصری کے متعلق بھی اسی طرح کے بہتان لگائے تھے اسی کی طرف اشارہ ہے۔
4619- حَدَّثَنَا ابْنُ كَثِيرٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ حُمَيْدٍ الطَّوِيلِ، عَنِ الْحَسَنِ: {كَذَلِكَ نَسْلُكُهُ فِي قُلُوبِ الْمُجْرِمِينَ} قَالَ: الشِّرْكُ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۵۱۱) (صحیح)
۴۶۱۹- حسن بصری آیت کریمہ:
{كَذَلِكَ نَسْلُكُهُ فِي قُلُوبِ الْمُجْرِمِينَ} ۱؎ کے سلسلہ میں کہتے ہیں: اس سے مراد شرک ہے۔
وضاحت ۱؎ : '' اسی طرح سے ہم اسے مجرموں کے دل میں ڈالتے ہیں'' (سورۃ الحجر : ۱۱۲)
4620- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ رَجُلٍ قَدْ سَمَّاهُ غَيْرُ ابْنِ كَثِيرٍ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عُبَيْدٍالصِّيدِ، عَنِ الْحَسَنِ فِي قَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ: {وَحِيلَ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ مَا يَشْتَهُونَ} قَالَ: بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ الإِيمَانِ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۵۲۴) (ضعیف الإسناد)
(اس کی سند میں ایک مبہم راوی ہے)
۴۶۲۰- حسن بصری آیت کریمہ:
{وَحِيلَ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ مَا يَشْتَهُونَ} ۱؎ کی تفسیر میں کہتے ہیں: اس کا مطلب ہے ان کے اور ان کے ایمان کے درمیان حائل ہو گئی۔
وضاحت ۱؎ : ''ان کے اور ان کی خواہشات کے درمیان حائل ہوگئی'' (سورۃ سبا : ۵۴)
4621- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، حَدَّثَنَا سُلَيْمٌ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ، قَالَ: كُنْتُ أَسِيرُ بِالشَّامِ، فَنَادَانِي رَجُلٌ مِنْ خَلْفِي، فَالْتَفَتُّ فَإِذَا رَجَاءُ بْنُ حَيْوَةَ، فَقَالَ: يَا أَبَا عَوْنٍ! مَا هَذَا الَّذِي يَذْكُرُونَ عَنِ الْحَسَنِ؟ قَالَ: قُلْتُ: إِنَّهُمْ يَكْذِبُونَ عَلَى الْحَسَنِ كَثِيرًا۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۵۲۳، ۱۸۶۳۹) (صحیح الإسناد)
۴۶۲۱- ابن عون کہتے ہیں کہ میں ملک شام میں چل رہاتھا تو ایک شخص نے پیچھے سے مجھے پکارا جب میں مڑا تو دیکھا رجاء بن حیوہ ہیں، انہوں نے کہا: اے ابوعون! یہ کیا ہے جو لوگ حسن کے با رے میں ذکر کرتے ہیں؟ میں نے کہا: لوگ حسن پر بہت زیادہ جھوٹ باندھتے ہیں ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : حسن بصری رحمہ اللہ سے متعلق خصوصا جھوٹے صوفیوں نے بہت سا کفر وشرک گھڑ رکھا ہے، اعاذنااللہ۔
4622- حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، قَالَ: سَمِعْتُ أَيُّوبَ يَقُولُ: كَذَبَ عَلَى الْحَسَنِ ضَرْبَانِ مِنَ النَّاسِ: قَوْمٌ، الْقَدَرُ رَأْيُهُمْ وَهُمْ يُرِيدُونَ أَنْ يُنَفِّقُوا بِذَلِكَ رَأْيَهُمْ، وَقَوْمٌ لَهُ فِي قُلُوبِهِمْ شَنَآنٌ وَبُغْضٌ يَقُولُونَ: أَلَيْسَ مِنْ قَوْلِهِ كَذَا؟ أَلَيْسَ مِنْ قَوْلِهِ كَذَا؟.
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۴۵۰) (صحیح)
۴۶۲۲- ایوب کہتے ہیں: حسن پر جھوٹ دو قسم کے لوگ باندھتے ہیں: ایک تو قدریہ ، جو چاہتے ہیں کہ اس طرح سے ان کے خیال و نظریہ کا لوگ اعتبار کریں گے، اور دوسرے وہ لوگ جن کے دلوں میں ان کے خلاف عداوت اور بغض ہے ، وہ کہتے ہیں : کیا یہ ان کا قول نہیں؟ کیا یہ ان کا قول نہیں؟۔
4623- حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُثَنَّى، أَنَّ يَحْيَى بْنَ كَثِيرٍ الْعَنْبَرِيَّ حَدَّثَهُمْ، قَالَ: كَانَ قُرَّةُ بْنُ خَالِدٍ يَقُولُ لَنَا: يَا فِتْيَانُ، لا تُغْلَبُوا عَلَى الْحَسَنِ، فَإِنَّهُ كَانَ رَأْيُهُ السُّنَّةَ وَالصَّوَابَ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۹۲۳۲) (صحیح)
۴۶۲۳- یحییٰ بن کثیر بن عنبر ی کہتے ہیں کہ قرہ بن خالد ہم سے کہا کرتے تھے : اے نوجوانو! حسن کو قدریہ مت سمجھو، ان کی رائے سنت اور صواب تھی ۔
4624- حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُثَنَّى وَابْنُ بَشَّارٍ، قَالا: حَدَّثَنَا مُؤَمَّلُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ، قَالَ: لَوْ عَلِمْنَا أَنَّ كَلِمَةَ الْحَسَنِ تَبْلُغُ مَا بَلَغَتْ لَكَتَبْنَا بِرُجُوعِهِ كِتَابًا وَأَشْهَدْنَا عَلَيْهِ شُهُودًا، وَلَكِنَّا قُلْنَا: كَلِمَةٌ خَرَجَتْ لا تُحْمَلُ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داودع (تحفۃ الأشراف: ۱۸۹۲۲) (صحیح مثلہ)
۴۶۲۴- ابن عون کہتے ہیں کہ اگر ہمیں یہ معلوم ہوتا کہ حسن کی بات (غلط معنی کے ساتھ شہرت کے) اس مقام کو پہنچ جائے گی جہاں وہ پہنچ گئی تو ہم لوگ ان کے اس قول کے بارے میں ان کے رجوع کی بابت ایک کتاب لکھتے اور اس پر لوگوں کو گواہ بناتے، لیکن ہم نے سوچا کہ ایک بات ہے جو نکل گئی ہے اور اس کے خلافِ معنی پر محمول نہیں کی جائے گی ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : حسن بصری رحمہ اللہ کے بہت سے اقوال کو لوگوں نے اپنی گمراہ کن بدعتوں کی موافقت میں ڈھال لیا جب کہ خود ان کا مقصد اس قول سے وہ نہیں تھا جواہل بدعت نے گھڑ لیا ،اسی کو ابن عون فرماتے ہیں کہ اگر یہ احساس ہوتا کہ آپ کی بات کو یہ لوگ غلط معنی پہنا کر لوگوں کو گمراہ کریں گے تو ہم حسن بصری سے اس کا غلط ہونا ثابت کرتے، ان سے پوچھتے ، وہ جواب دیتے، اور ہم اس پر لوگوں کی گواہیاں بھی کراتے، مگر اس وقت اس کا احساس نہ تھا ،اب ان کے بعد اہل بدعت نے سیکڑوں غلط باتیں ان سے منسوب کر رکھی ہیں جن سے وہ بری ہیں۔
4625- حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، قَالَ: قَالَ لِيَ الْحَسَنُ: مَا أَنَا بِعَائِدٍ إِلَى شَيْئٍ مِنْهُ أَبَدًا۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۵۰۲) (صحیح)
۴۶۲۵- ایوب کہتے ہیں کہ مجھ سے حسن بصری نے کہا : میں اب دو بارہ کبھی اس میں سے کوئی بات نہیں کہوں گا، (جس سے تقدیر کی نفی کا گمان ہوتا)۔
4626- حَدَّثَنَا هِلالُ بْنُ بِشْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُثْمَانَ، عَنْ عُثْمَانَ الْبَتِّيِّ، قَالَ: مَا فَسَّرَ الْحَسَنُ آيَةً قَطُّ إِلا عَنِ الإِثْبَاتِ ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۵۲۵، ۱۹۰۰۴) (صحیح)
۴۶۲۶- عثمان کہتے ہیں کہ حسن نے جب بھی کسی آیت کی تفسیر کی تو تقدیر کا اثبات کیا ۔