• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابو داود

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
8- بَاب فِي التَّفْضِيلِ
۸-باب: صحابہء کرام رضی اللہ عنہم میں سب افضل کون ہے پھراس کے بعد کون ہے؟​


4627- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: كُنَّا نَقُولُ فِي زَمَنِ النَّبِيِّ ﷺ : لا نَعْدِلُ بِأَبِي بَكْرٍ أَحَدًا، ثُمَّ عُمَرَ، ثُمَّ عُثْمَانَ، ثُمَّ نَتْرُكُ أَصْحَابَ النَّبِيِّ ﷺ لانُفَاضِلُ بَيْنَهُمْ۔
* تخريج: خ/فضائل الصحابۃ ۴ (۳۶۵۵)، ۷ (۳۶۹۸)، (تحفۃ الأشراف: ۸۰۲۸) (صحیح)
۴۶۲۷- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم نبی اکرمﷺ کے زمانے میں کہا کرتے تھے: ہم ابو بکر کے برابر کسی کو نہیں جانتے، پھر عمر کے، پھر عثمان رضی اللہ عنہ کے، پھر نبی اکرم ﷺ کے صحابہ کو چھوڑ دیتے، ان میں کسی کو کسی پر فضیلت نہیں دیتے۔


4628- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَنْبَسَةُ، حَدَّثَنَا يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: قَالَ سَالِمُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ: إِنَّ ابْنَ عُمَرَ قَالَ: كُنَّا نَقُولُ وَرَسُولُ اللَّهِ ﷺ حَيٌّ: أَفْضَلُ أُمَّةِ النَّبِيِّ ﷺ بَعْدَهُ أَبُو بَكْرٍ، ثُمَّ عُمَرُ، ثُمَّ عُثْمَانُ ، رَضِي اللَّه عَنْهمْ أَجْمَعِينَ!.
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۷۰۱۶) (صحیح)
۴۶۲۸- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں ہم لوگ کہا کرتے تھے کہ نبی اکرم ﷺ کی امت میں آپ ﷺ کے بعد سب سے افضل ابوبکر ہیں، پھر عمر، پھر عثمان ہیں، رضی اللہ عنہم اجمعین ۔


4629- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا جَامِعُ بْنُ أَبِي رَاشِدٍ، حَدَّثَنَا أَبُويَعْلَى، عَنْ مُحَمَّدِ ابْنِ الْحَنَفِيَّةِ، قَالَ: قُلْتُ لأَبِي: أَيُّ النَّاسِ خَيْرٌ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ ؟ قَالَ: أَبُوبَكْرٍ، قَالَ: قُلْتُ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ: ثُمَّ عُمَرُ، قَالَ: ثُمَّ خَشِيتُ أَنْ أَقُولَ ثُمَّ مَنْ؟ فَيَقُولَ عُثْمَانُ، فَقُلْتُ: ثُمَّ أَنْتَ يَا أَبَت؟ قَالَ: مَا أَنَا إِلا رَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ۔
* تخريج: خ/فضائل الصحابۃ ۵ (۶۳۷۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۲۶۶)، وقد أخرجہ: ق/المقدمۃ ۱۱ (۱۰۶) (صحیح)
۴۶۲۹- محمد بن حنفیہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والدعلی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے پوچھا: رسول اللہ ﷺ کے بعد لوگوں میں سب سے بہتر کون تھا؟ انہوں نے کہا: ابوبکر رضی اللہ عنہ ، میں نے کہا: پھر کون؟ پھر عمر رضی اللہ عنہ ، پھر مجھے اس بات سے ڈر ہوا کہ میں کہوں پھر کون؟ اور وہ کہیں عثمان رضی اللہ عنہ ، چنانچہ میں نے کہا: پھر آپ؟ اے ابا جان ! وہ بولے: میں تو مسلمانوں میں کا صرف ایک فرد ہوں ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یہ علی رضی اللہ عنہ کی غایت درجہ تواضع وانکساری ہے ورنہ باجماع امت آپ عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے بعد سب سے افضل ہیں۔


4630- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مِسْكِينٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ -يَعْنِي الْفِرْيَابِيَّ- قَالَ: سَمِعْتُ سُفْيَانَ يَقُولُ: مَنْ زَعَمَ أَنَّ عَلِيًّا عَلَيْهِ السَّلام كَانَ أَحَقَّ بِالْوِلايَةِ مِنْهُمَا فَقَدْ خَطَّأَ أَبَابَكْرٍ وَعُمَرَ وَالْمُهَاجِرِينَ وَالأَنْصَارَ، وَمَا أُرَاهُ يَرْتَفِعُ لَهُ مَعَ هَذَا عَمَلٌ إِلَى السَّمَاءِ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۷۶۶) (صحیح الإسناد)
ٍ ۴۶۳۰- سفیان کہتے تھے: جو یہ کہے کہ علی رضی اللہ عنہ ان دونوں (ابوبکر اور عمر) سے خلافت کے زیادہ حق دار تھے تو اس نے ابوبکر ، عمر ، مہا جرین اور انصار کوخطا کار ٹہرایا، اور میں نہیں سمجھتا کہ اُس کے اِس عقیدے کے ہوتے ہوئے اس کا کوئی عمل آسمان کواٹھ کر جائے گا۔


4631- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ فَارِسٍ، حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ، حَدَّثَنَا عَبَّادٌ السَّمَّاكُ، قَالَ سَمِعْتُ سُفْيَانَ [الثَّوْرِيَّ] يَقُولُ: الْخُلَفَاءُ خَمْسَةٌ: أَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ، وَعُثْمَانُ، وَعَلِيٌّ، وَعُمَرُ بْنُ عَبْدِالْعَزِيزِ رَضِي اللَّه عَنْهمْ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۷۶۷) (عیف الإسناد)
( اس کے راوی ’’ عباد السَّماک‘‘ مجہول ہیں)
۴۶۳۱- سفیان ثوری کہا کرتے تھے: خلفاء پانچ ہیں : ابو بکر، عمر، عثمان ، علی اور عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہم ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
9- بَاب فِي الْخُلَفَاءِ
۹-باب: خلفاء کا بیان​


4632- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ فَارِسٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، قَالَ مُحَمَّدٌ: كَتَبْتُهُ مِنْ كِتَابِهِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: كَانَ أَبُو هُرَيْرَةَ يُحَدِّثُ أَنَّ رَجُلا أَتَى [إِلَى] رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَقَالَ: إِنِّي أَرَى اللَّيْلَةَ ظُلَّةً يَنْطِفُ مِنْهَا السَّمْنُ وَالْعَسَلُ، فَأَرَى النَّاسَ يَتَكَفَّفُونَ بِأَيْدِيهِمْ، فَالْمُسْتَكْثِرُ وَالْمُسْتَقِلُّ، وَأَرَى سَبَبًا وَاصِلا مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الأَرْضِ، فَأَرَاكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَخَذْتَ بِهِ فَعَلَوْتَ بِهِ، ثُمَّ أَخَذَ بِهِ رَجُلٌ آخَرُ فَعَلا بِهِ، ثُمَّ أَخَذَ بِهِ رَجُلٌ آخَرُ فَعَلا بِهِ، ثُمَّ أَخَذَ بِهِ رَجُلٌ آخَرُ فَانْقَطَعَ، ثُمَّ وُصِلَ فَعَلا بِهِ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: بِأَبِي وَأُمِّي لَتَدَعَنِّي فَلأُعَبِّرَنَّهَا، فَقَالَ: <اعْبُرْهَا> قَالَ: أَمَّا الظُّلَّةُ فَظُلَّةُ الإِسْلامِ، وَأَمَّا مَا يَنْطِفُ مِنَ السَّمْنِ وَالْعَسَلِ فَهُوَ الْقُرْآنُ لِينُهُ وَحَلاوَتُهُ، وَأَمَّا الْمُسْتَكْثِرُ وَالْمُسْتَقِلُّ فَهُوَ الْمُسْتَكْثِرُ [مِنَ الْقُرْآنِ] وَالْمُسْتَقِلُّ مِنْهُ، وَأَمَّا السَّبَبُ الْوَاصِلُ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الأَرْضِ فَهُوَ الْحَقُّ الَّذِي أَنْتَ عَلَيْهِ: تَأْخُذُ بِهِ فَيُعْلِيكَ اللَّهُ، ثُمَّ يَأْخُذُ بِهِ بَعْدَكَ رَجُلٌ فَيَعْلُو بِهِ، ثُمَّ يَأْخُذُ بِهِ رَجُلٌ آخَرُ فَيَعْلُو بِهِ، ثُمَّ يَأْخُذُ بِهِ رَجُلٌ آخَرُ فَيَنْقَطِعُ، ثُمَّ يُوصَلُ لَهُ فَيَعْلُو بِهِ، أَيْ رَسُولَ اللَّهِ! لَتُحَدِّثَنِّي أَصَبْتُ أَمْ أَخْطَأْتُ، فَقَالَ: < أَصَبْتَ بَعْضًا وَأَخْطَأْتَ بَعْضًا > فَقَالَ: أَقْسَمْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ! لَتُحَدِّثَنِّي مَا الَّذِي أَخْطَأْتُ، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ : <لا تُقْسِمْ > ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم : (۳۲۶۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۵۷۵) (صحیح)
۴۶۳۲- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے تھے کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور کہنے لگا: میں نے رات کو بادل کا ایک ٹکڑا دیکھا ، جس سے گھی اور شہد ٹپک رہاتھا ، پھر میں نے لوگوں کو دیکھا وہ اپنے ہاتھوں کو پھیلائے اسے لے رہے ہیں ، کسی نے زیادہ لیا کسی نے کم ، اور میں نے دیکھا کہ ایک رسی آسمان سے زمین تک لٹکی ہوئی ہے ، پھر میں نے آپ کو دیکھا اللہ کے رسول! کہ آپ نے اسے پکڑ ا اور اس سے اوپر چلے گئے، پھر ایک اور شخص نے اسے پکڑ ا اور وہ بھی اوپر چلا گیا، پھر ایک اورشخص نے اسے پکڑا اور وہ بھی اوپر چلا گیا، پھر اسے ایک اور شخص نے پکڑا تو وہ ٹو ٹ گئی پھر اسے جوڑا گیا ، تو وہ بھی اوپر چلا گیا۔
ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا: میرے ماںباپ آپ پرقربان جائیں مجھے اس کی تعبیر بیان کر نے دیجئے آپ ﷺ نے فرمایا : ’’اس کی تعبیر بیان کرو‘‘،وہ بولے:بادل کے ٹکڑے سے مراد اسلام ہے، اور ٹپکنے والے گھی اور شہد سے قرآن کی حلاوت (شیرینی )اور نرمی مراد ہے،کم اور زیادہ لینے والوں سے مراد قرآن کوکم یازیادہ حاصل کرنے والے لوگ ہیں،آسمان سے زمین تک پہنچی ہوئی رسی سے مراد حق ہے جس پر آپ ہیں ، آپ اسے پکڑے ہوئے ہیں ، اللہ آپ کو اٹھا لے گا، پھر آپ ﷺ کے بعد ایک اورشخص اسے پکڑے گا تو وہ بھی اٹھ جائے گا، پھرایک اورشخص پکڑے گا تو وہ بھی اٹھ جائے گا، پھرا سے ایک اورشخص پکڑے گا، تو وہ ٹو ٹ جائے گی تو اسے جوڑا جائے گا، پھر وہ بھی اٹھ جائے گا، اللہ کے رسول!آپ مجھے بتائیے کہ میں نے صحیح کہا یا غلط، آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ کچھ صحیح کہا اور کچھ غلط‘‘، کہا : اللہ کے رسول!میں آپ کو قسم دلاتا ہوں کہ آپ مجھے بتائیے کہ میں نے کیا غلطی کی، تو نبی اکرمﷺ نے فرمایا :’’قسم نہ دلاؤ‘‘۔


4633- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ فَارِسٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ كَثِيرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ ، بِهَذِهِ الْقِصَّةِ، قَالَ: فَأَبَى أَنْ يُخْبِرَهُ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم : (۳۲۶۹)، (تحفۃ الأشراف: ۵۸۳۸) (ضعیف الإسناد)
(سلیمان بن کثیر زہری سے روایت میں ضعیف ہیں، لیکن پچھلی سند سے یہ روایت صحیح ہے)
۴۶۳۳- اس سند سے بھی ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یہی قصہ مرفوعاً مروی ہے، لیکن اس میں یہ ہے کہ آپ نے ان کو بتانے سے انکار کر دیا ،(کہ انہوں نے کیا غلطی کی ہے)۔


4634- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ الأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا الأَشْعَثُ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ أَبِي بَكْرَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ ذَاتَ يَوْمٍ: < مَنْ رَأَى مِنْكُمْ رُؤْيَا> فَقَالَ رَجُلٌ: أَنَا، رَأَيْتُ كَأَنَّ مِيزَانًا نَزَلَ مِنَ السَّمَاءِ فَوُزِنْتَ أَنْتَ وَأَبُو بَكْرٍ فَرَجَحْتَ أَنْتَ بِأَبِي بَكْرٍ، وَوُزِنَ عُمَرُ وَأَبُو بَكْرٍ فَرَجَحَ أَبُو بَكْرٍ، وَوُزِنَ عُمَرُ وَعُثْمَانُ فَرَجَحَ عُمَرُ، ثُمَّ رُفِعَ الْمِيزَانُ، فَرَأَيْنَا الْكَرَاهِيَةَ فِي وَجْهِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ ۔
* تخريج: ت/الرؤیا۱۰ (۲۲۸۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۶۶۲)، وقد أخرجہ: حم (۵/۴۴، ۵۰) (صحیح)
۴۶۳۴- ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک دن فرمایا: ’’تم میں سے کسی نے خواب دیکھا ہے؟‘‘، ایک شخص بولا: میں نے دیکھا : گویا ایک ترازو آسمان سے اترا ، آپ ﷺ کو اور ابو بکرکو تولا گیا، تو آپ ابو بکر سے بھاری نکلے، پھر عمر اور ابوبکرکو تو لا گیا تو ابو بکربھاری نکلے، پھر عمر اور عثمان کو تولا گیا تو عمر بھاری نکلے، پھر ترازو اٹھالیا گیا، تو ہم نے رسول اللہ ﷺ کے چہرے میں نا پسندیدگی دیکھی۔


4635- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ ذَاتَ يَوْمٍ: < أَيُّكُمْ رَأَى رُؤْيَا؟> فَذَكَرَ مَعْنَاهُ، وَلَمْ يَذْكُرِ الْكَرَاهِيَةَ، قَالَ: فَاسْتَاءَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ ، يَعْنِي فَسَائَهُ ذَلِكَ، فَقَالَ: < خِلافَةُ نُبُوَّةٍ، ثُمَّ يُؤْتِي اللَّهُ الْمُلْكَ مَنْ يَشَاءُ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۶۸۷) (صحیح)
(یہ روایت پچھلی روایت سے تقویت پاکر صحیح ہے، ورنہ اس کے اندر ’’علی بن زیدبن جدعان ‘‘ ضعیف راوی ہیں)
۴۶۳۵- ابو بکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے ایک دن فرمایا:’’ تم میں سے کس نے خواب دیکھاہے؟‘‘، پھر راوی نے اسی مفہوم کی حدیث بیان کی اور چہرے پر ناگواری دیکھنے کا ذکر نہیں کیا بلکہ یوں کہا: رسول اللہ ﷺ کو وہ (خواب) برا لگا، اور فرمایا : ’’وہ نبوت کی خلافت ہے، پھر اس کے بعد اللہ جسے چاہے گا سلطنت عطا کرے گا‘‘۔


4636- حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَرْبٍ، عَنِ الزُّبَيْدِيِّ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبَانَ بْنِ عُثْمَانَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ أَنَّهُ كَانَ يُحَدِّثُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < أُرِيَ اللَّيْلَةَ رَجُلٌ صَالِحٌ أَنَّ أَبَا بَكْرٍ نِيطَ بِرَسُولِ اللَّهِ ﷺ ، وَنِيطَ عُمَرُ بِأَبِي بَكْرٍ، وَنِيطَ عُثْمَانُ بِعُمَرَ > قَالَ جَابِرٌ: فَلَمَّا قُمْنَا مِنْ عِنْدِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ قُلْنَا: أَمَّا الرَّجُلُ الصَّالِحُ فَرَسُولُ اللَّهِ ﷺ ، وَأَمَّا تَنَوُّطُ بَعْضِهِمْ بِبَعْضٍ فَهُمْ وُلاةُ هَذَا الأَمْرِ الَّذِي بَعَثَ اللَّهُ بِهِ نَبِيَّهُ ﷺ .
قَالَ أَبو دَاود: وَرَوَاهُ يُونُسُ وَشُعَيْبٌ لَمْ يَذْكُرَا عَمْرَو [بْنَ أَبَانَ]۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۲۵۰۲)، وقد أخرجہ: حم (۳/۳۵۵) (ضعیف)
(اس کے راوی ’’عمروبن ابان‘‘ لین الحدیث ہیں، نیز جابر رضی اللہ عنہ سے ان کے سماع میں اختلاف ہے)
۴۶۳۶- جابر بن عبداللہرضی اللہ عنہما بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’آج کی رات ایک صالح شخص کو خواب میں دکھایا گیا کہ ابو بکر کو رسول اللہ ﷺ سے جوڑ دیاگیا ہے، اور عمر کو ابو بکر سے اور عثمان کو عمر سے ‘‘۔
جابر کہتے ہیں: جب ہم رسو ل اللہﷺ کے پاس سے اٹھ کر آئے تو ہم نے کہا: مرد صالح سے مراد تو رسول اللہ ﷺ ہیں، اور بعض کا بعض سے جوڑے جانے کا مطلب یہ ہے کہ یہی لوگ اس امر( دین) کے والی ہوں گے جس کے ساتھ اللہ نے اپنے نبی اکرمﷺ کو مبعوث فر مایا ہے۔
ابو داود کہتے ہیں: اسے یونس اور شعیب نے بھی روایت کیا ہے ،لیکن ان دونوں نے عمرو بن ابان کا ذکرنہیں کیا ہے ۔


4637- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَ: حَدَّثَنِي عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ أَشْعَثَ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ أَنَّ رَجُلا قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! [إِنِّي] رَأَيْتُ كَأَنَّ دَلْوًا دُلِّيَ مِنَ السَّمَاءِ، فَجَاءَ أَبُو بَكْرٍ فَأَخَذَ بِعَرَاقِيهَا فَشَرِبَ شُرْبًا ضَعِيفًا، ثُمَّ جَاءَ عُمَرُ فَأَخَذَ بِعَرَاقِيهَا فَشَرِبَ حَتَّى تَضَلَّعَ ،ثُمَّ جَاءَ عُثْمَانُ فَأَخَذَ بِعَرَاقِيهَا فَشَرِبَ حَتَّى تَضَلَّعَ، ثُمَّ جَاءَ عَلِيٌّ فَأَخَذَ بِعَرَاقِيهَا فَانْتَشَطَتْ وَانْتَضَحَ عَلَيْهِ مِنْهَا شَيْئٌ۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۴۶۲۸)، وقد أخرجہ: حم (۵/۲۱) (ضعیف)
(اس کے راوی ’’عبدالرحمن‘‘ لین الحدیث ہیں)
۴۶۳۷- سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے کہا: اللہ کے رسول!میں نے دیکھا گویا کہ آسمان سے ایک ڈول لٹکا یا گیا پہلے ابو بکرآئے تو اس کی دونوں لکڑیاں پکڑ کر اس میں سے تھوڑا سا پیا، پھر عمرآئے تو اس کی دونوں لکڑیاں پکڑیں اور انہوں نے خوب سیر ہو کر پیا، پھر عثمان آئے اور اس کی دونوں لکڑیاں پکڑیں اور خوب سیر ہو کر پیا، پھر علی آئے اور اس کی دونوں لکڑیاں پکڑیں، تووہ چھلک گیا اور اس میں سے کچھ ان کے اوپر بھی پڑ گیا ۔


4638- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ سَهْلٍ الرَّمْلِيُّ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِالْعَزِيزِ، عَنْ مَكْحُولٍ، قَالَ: لَتَمْخُرَنَّ الرُّومُ الشَّامَ أَرْبَعِينَ صَبَاحًا لا يَمْتَنِعُ مِنْهَا إِلا دِمَشْقَ وَعَمَّانَ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۹۴۶۴) (صحیح الإسناد)
۴۶۳۸- مکحول نے کہا: رومی شام میں چالیس دن تک لوٹ کھسوٹ کرتے رہیں گے اور سوائے دمشق اور عمان کے کوئی شہر بھی ان سے نہ بچے گا۔


4639- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عَامِرٍ الْمُرِّيُّ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ الْعَلاءِ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا الأَعْيَسِ عَبْدَالرَّحْمَنِ بْنَ سَلْمَانَ يَقُولُ: سَيَأْتِي مَلِكٌ مِنْ مُلُوكِ الْعَجَمِ يَظْهَرُ عَلَى الْمَدَائِنِ كُلِّهَا إِلادِمَشْقَ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۹۶۲) (صحیح الإسناد)
۴۶۳۹- عبدالعزیز بن علاء کہتے ہیں کہ انہوں نے ابو الأ عیس عبدالرحمن بن سلمان کو کہتے سنا کہ عجم کے بادشاہوں میں سے ایک بادشاہ تمام شہروں پرغالب آجائے گا سوائے دمشق کے۔


4640- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، حَدَّثَنَا بُرْدٌ أَبُو الْعَلاءِ، عَنْ مَكْحُولٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < مَوْضِعُ فُسْطَاطِ الْمُسْلِمِينَ فِي الْمَلاحِمِ أَرْضٌ يُقَالُ لَهَا الْغُوطَةُ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۹۴۵۹) (صحیح)
۴۶۴۰- مکحول کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’مسلمانوں کاخیمہ لڑائیوں کے وقت ایک ایسی سرزمین میں ہو گا جسے غوطہ ۱؎ کہا جاتا ہے‘‘۔
وضاحت ۱؎ : دمشق کے پاس ملک شام میں ایک جگہ ہے۔


4641- حَدَّثَنَا أَبُو ظَفَرٍ عَبْدُالسَّلامِ، حَدَّثَنَا جَعْفَرٌ، عَنْ عَوْفٍ، قَالَ: سَمِعْتُ الْحَجَّاجَ يَخْطُبُ وَهُوَ يَقُولُ: إِنَّ مَثَلَ عُثْمَانَ عِنْدَاللَّهِ كَمَثَلِ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ، ثُمَّ قَرَأَ هَذِهِ الآيَةَ يَقْرَؤُهَا وَيُفَسِّرُهَا:{إِذْ قَالَ اللَّهُ يَا عِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ وَمُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا} يُشِيرُ إِلَيْنَا بِيَدِهِ وَإِلَى أَهْلِ الشَّامِ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۹۱۸۳) (ضعیف)
(عوف بن ابی جمیلۃ اعرابی اور حجاج کے درمیان انقطاع ہے)
۴۶۴۱- عوف الا عرابی کہتے ہیں کہ میں نے حجاج کو خطبہ میں یہ کہتے سنا : عثمان کی مثال اللہ کے نزدیک عیسی بن مریم کی طرح ہے ، پھر انہوں نے آیت کریمہ {إِذْ قَالَ اللَّهُ يَا عِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ وَمُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا } ۱؎ پڑھی اور اپنے ہاتھ سے ہماری اور اہل شام کی طرف اشارہ کر رہے تھے ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ’’ جب اللہ نے کہا کہ:اے عیسی !میں تجھے پورا لینے والا ہوں، اور تجھے اپنی جانب اٹھانے والا ہوں، اور تجھے کافروں سے پاک کرنے والا ہوں‘‘ (سورہ آل عمران : ۵۵)
وضاحت ۲؎ : یہ تفسیر بالرائے کی بدترین قسم ہے حجاج نے اس آیت کریمہ کواپنے اور اپنے مخالفوں پر منطبق کرڈالا جب کہ حقیقت سے اس کاکوئی واسطہ نہیں، آج بھی بعض اہل بدعت آیات قرآنیہ کی من مانی تفسیر کرتے رہتے ہیں، اور اہل حق کواہل باطل اور باطل پرستوں کواہل حق باور کراتے ہیں۔


4642- حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ الطَّالَقَانِيُّ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ(ح) وحَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنِ الْمُغِيرَةِ، عَنِ الرَّبِيعِ بْنِ خَالِدٍ الضَّبِّيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ الْحَجَّاجَ يَخْطُبُ، فَقَالَ فِي خُطْبَتِهِ: رَسُولُ أَحَدِكُمْ فِي حَاجَتِهِ أَكْرَمُ عَلَيْهِ أَمْ خَلِيفَتُهُ فِي أَهْلِهِ؟ فَقُلْتُ فِي نَفْسِي: لِلَّهِ عَلَيَّ أَلا أُصَلِّيَ خَلْفَكَ صَلاةً أَبَدًا، وَإِنْ وَجَدْتُ قَوْمًا يُجَاهِدُونَكَ لأُجَاهِدَنَّكَ مَعَهُمْ، زَادَ إِسْحَاقُ فِي حَدِيثِهِ: قَالَ: فَقَاتَلَ فِي الْجَمَاجِمِ حَتَّى قُتِلَ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۶۳۲) (صحیح الإسناد)
۴۶۴۲- ربیع بن خالد ضبی کہتے ہیں کہ میں نے حجاج کو خطبہ دیتے سنا،اس نے اپنے خطبے میں کہا: تم میں سے کسی کا پیغام بر جو اس کی ضرورت سے (پیغام لے جارہا) ہو زیادہ درجے والا ہے، یاوہ جو اس کے گھربار میں اس کا قائم مقام اور خلیفہ ہو؟ ۱؎ تو میں نے اپنے دل میں کہا: اللہ کا میرے اوپر حق ہے کہ میں تیرے پیچھے کبھی صلاۃ نہ پڑھوں، اور اگر مجھے ایسے لوگ ملے جو تجھ سے جہاد کریں تو میں ضرور ان کے ساتھ تجھ سے جہاد کروں گا۔
اسحاق نے اپنی روایت میں اتنا اضافہ کیا ہے : چنانچہ انہوں نے جماجم میں جنگ کی یہاں تک کہ مارے گئے۔
وضاحت ۱؎ : حجاج کا مطلب یہ تھا کہ بنو امیہ کے خلفاء خصوصا مروان اور اس کی اولاد انبیاء ورسل سے بہتر ہیں، نعوذ باللہ من ہذہ الہقوہ۔


4643- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاءِ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، عَنْ عَاصِمٍ، قَالَ: سَمِعْتُ الْحَجَّاجَ وَهُوَ عَلَى الْمِنْبَرِ يَقُولُ: اتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ لَيْسَ فِيهَا مَثْنَوِيَّةٌ، وَاسْمَعُوا وَأَطِيعُوا لَيْسَ فِيهَا مَثْنَوِيَّةٌ، لأَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ عَبْدِ الْمَلِكِ، وَاللَّهِ لَوْ أَمَرْتُ النَّاسَ أَنْ يَخْرُجُوا مِنْ بَابٍ مِنْ [أَبْوَابِ] الْمَسْجِدِ فَخَرَجُوا مِنْ بَابٍ آخَرَ لَحَلَّتْ لِي دِمَاؤُهُمْ وَأَمْوَالُهُمْ، وَاللَّهِ لَوْ أَخَذْتُ رَبِيعَةَ بِمُضَرَ، لَكَانَ ذَلِكَ لِي مِنَ اللَّهِ حَلالا، وَيَا عَذِيرِي مِنْ عَبْدِ هُذَيْلٍ يَزْعُمُ أَنَّ قِرَائَتَهُ مِنْ عِنْدِاللَّهِ، وَاللَّهِ مَا هِيَ إِلا رَجَزٌ مِنْ رَجَزِ الأَعْرَابِ مَاأَنْزَلَهَا اللَّهُ عَلَى نَبِيِّهِ عَلَيْهِ السَّلام، وَعَذِيرِي مِنْ هَذِهِ الْحَمْرَاءِ يَزْعُمُ أَحَدُهُمْ أَنَّهُ يَرْمِي بِالْحَجَرِ فَيَقُولُ: إِلَى أَنْ يَقَعَ الْحَجَرُ قَدْ حَدَثَ أَمْرٌ، فَوَاللَّهِ لأَدَعَنَّهُمْ كَالأَمْسِ الدَّابِرِ.
قَالَ: فَذَكَرْتُهُ لِلأَعْمَشِ، فَقَالَ: أَنَا وَاللَّهِ سَمِعْتُهُ مِنْهُ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۸۵۱) (صحیح)
(یہ حجاج بن یوسف کا کلام ہے)
۴۶۴۳- عاصم کہتے ہیں کہ میں نے حجاج کو منبر پر کہتے سنا : جہاں تک تم سے ہو سکے اللہ سے ڈرو ، اس میں کوئی شرط یااستثناء نہیں ہے، امیر المو منین عبدالملک کی بات سنو اور مانو، اس میں بھی کوئی شرط اور استثناء نہیں ہے ، اللہ کی قسم ، اگر میں نے لوگوں کو مسجد کے ایک دروازے سے نکلنے کا حکم دیا پھر وہ لوگ کسی دوسرے دروازے سے نکلے تو ان کے خون اور ان کے مال میرے لئے حلال ہو جائیں گے،اللہ کی قسم! اگر مضر کے قصور پر میں ربیعہ کو پکڑ لوں ، تو یہ میرے لئے اللہ کی جانب سے حلال ہے، اور کون مجھے عبدہذیل (عبداللہ بن مسعود ہذلی ) کے سلسلہ میں معذورسمجھے گاجوکہتے ہیں کہ ان کی قرأت اللہ کی طرف سے ہے قسم اللہ کی ، وہ سوائے اعرابیوں کے رجز کے کچھ نہیں ، اللہ نے اس قرأت کو اپنے نبی علیہ السلام پر نہیں نازل فرمایا، اور کون ان عجمیوں کے سلسلہ میں مجھے معذور سمجھے گاجن میں سے کوئی کہتا ہے کہ وہ پتھر پھینک رہا ہے ، پھر کہتا ہے ، دیکھو پتھر کہاں گرتا ہے ؟ ( فساد کی بات کہہ کر دیکھتا ہے کہ دیکھوں اس کا کہاں اثر ہو تا ہے ) اور کچھ نئی بات پیش آئی ہے، اللہ کی قسم ، میں انہیں اسی طرح نیست و نابود کردوں گا، جیسے گز شتہ کل ختم ہو گیا (جواب کبھی نہیں آنے والا)۔
عاصم کہتے ہیں: میں نے اس کا تذکرہ اعمش سے کیا تو وہ بولے: اللہ کی قسم میں نے بھی اسے ، اس سے سنا ہے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ان تمام باتوں میں حجاج محض ایک مغرور اور خود فریبی میں مبتلا حاکم ہے اس کی یہ تمام باتیںخصوصاً عبداللہ بن مسعو د رضی اللہ عنہ اور ان کی قرأت کے تعلق سے غلط محض ہیں، ان کی قرأت بے شک منزل من اللہ اور مؤید من الرسول تھی ۔


4644- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ، عَنِ الأَعْمَشِ، قَالَ: سَمِعْتُ الْحَجَّاجَ يَقُولُ عَلَى الْمِنْبَرِ: هَذِهِ الْحَمْرَاءُ هَبْرٌ هَبْرٌ، أَمَا وَاللَّهِ لَوْ قَدْ قَرَعْتُ عَصًا بِعَصًا، لأَذَرَنَّهُمْ كَالأَمْسِ الذَّاهِبِ، يَعْنِي الْمَوَالِيَ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۷۸۴) (صحیح)
۴۶۴۴- اعمش کہتے ہیں کہ میں نے حجا ج کو منبر پر کہتے سنا: یہ گورے(عجمی) قیمہ بنائے جانے کے قابل ہیں قیمہ، موالی (غلامو) سنو، اللہ کی قسم، اگر میں لکڑی پر لکڑی ماروں تو انہیں اسی طرح برباد کر کے رکھ دوں جس طرح گزرا ہوا کل ختم ہوگیا،یعنی عجمیوں کو۔


4645- حَدَّثَنَا قَطَنُ بْنُ نُسَيْرٍ، حَدَّثَنَا جَعْفَرٌ -يَعْنِي ابْنَ سُلَيْمَانَ- حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ شَرِيكٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ الأَعْمَشِ، قَالَ: جَمَّعْتُ مَعَ الْحَجَّاجِ فَخَطَبَ، فَذَكَرَ حَدِيثَ أَبِي بَكْرِ ابْنِ عَيَّاشٍ، قَالَ فِيهَا: فَاسْمَعُوا وَأَطِيعُوا لِخَلِيفَةِ اللَّهِ وَصَفِيِّهِ عَبْدِالْمَلِكِ بْنِ مَرْوَانَ، وَسَاقَ الْحَدِيثَ، قَالَ: وَلَوْ أَخَذْتُ رَبِيعَةَ بِمُضَرَ، وَلَمْ يَذْكُرْ قِصَّةَ الْحَمْرَاءِ۔
* تخريج: انظر رقم : (۴۶۴۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۸۵۱) (صحیح إلی الحجاج)
۴۶۴۵- سلیمان الاعمش کہتے ہیں: میں نے حجاج کے ساتھ جمعہ کی صلاۃ پڑھی ، اس نے خطبہ دیا ،پھر راوی ابوبکر بن عیاش والی روایت(۴۶۴۳) ذکر کی، اس میں ہے کہ اس نے کہا: سنو اور اللہ کے خلیفہ اور اس کے منتخب عبدالملک بن مروان کی اطاعت کرو، اس کے بعد آگے کی حدیث بیان کی اور کہا: اگر میں مضر کے جرم میں ربیعہ کو پکڑوں ( تو یہ غلط نہ ہوگا) اور عجمیوں والی بات کا ذکر نہیں کیا۔


4646- حَدَّثَنَا سَوَّارُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَارِثِ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُمْهَانَ، عَنْ سَفِينَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < خِلافَةُ النُّبُوَّةِ ثَلاثُونَ سَنَةً، ثُمَّ يُؤْتِي اللَّهُ الْمُلْكَ، أَوْ مُلْكَهُ، مَنْ يَشَاءُ >.
قَالَ سَعِيدٌ: قَالَ لِي سَفِينَةُ: أَمْسِكْ عَلَيْكَ: أَبَا بَكْرٍ سَنَتَيْنِ، وَعُمَرُ عَشْرًا، وَعُثْمَانُ اثْنَتَيْ عَشْرَةَ، وَعَلِيٌّ كَذَا، قَالَ سَعِيدٌ: قُلْتُ لِسَفِينَةَ: إِنَّ هَؤُلاءِ يَزْعُمُونَ أَنَّ عَلِيًّا عَلَيْهِ السَّلام لَمْ يَكُنْ بِخَلِيفَةٍ، قَالَ: كَذَبَتْ أَسْتَاهُ بَنِي الزَّرْقَاءِ، يَعْنِي بَنِي مَرْوَانَ۔
* تخريج: ت/الفتن ۴۸ (۲۲۲۶)، (تحفۃ الأشراف: ۴۴۸۰)، وقد أخرجہ: حم (۵/۲۲۱) (حسن صحیح)
۴۶۴۶- سفینہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ خلافت علی منہاج النبوۃ (نبوت کی خلافت) تیس سال رہے گی ۱؎ ، پھر اللہ تعالی سلطنت یا اپنی سلطنت جسے چاہے گا دے گا‘‘، سعید کہتے ہیں: سفینہ نے مجھ سے کہا: اب تم شمار کرلو: ابوبکر رضی اللہ عنہ دو سال ، عمر رضی اللہ عنہ دس سال ، عثمان رضی اللہ عنہ بارہ سال ، اور علی رضی اللہ عنہ اتنے سال ۔
سعید کہتے ہیں: میں نے سفینہ رضی اللہ عنہ سے کہا: یہ لوگ ( مروانی ) کہتے ہیں کہ علیؓ خلیفہ نہیں تھے ، انہوں نے کہا:بنی زرقاء یعنی بنی مروان کے ۲؎ چوتڑ جھوٹ بولتے ہیں۔
وضاحت ۱؎ : ابوبکر کی مدت خلافت: دوسال، تین ماہ، دس دن، عمر کی: دس سال ، چھ ماہ، آٹھ دن، عثمان ؓکی: گیارہ سال، گیارہ ماہ، نودن، علی کی: چار سال، نوماہ ، سات دن، حسن ؓ کی: سات ماہ، کل مجموعہ: تیس سال ایک ، ماہ ۔
وضاحت ۲؎ : زرقاء بنی امیّہ کی امّہات میں سے ایک خاتون کا نام ہے۔


4647- حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، عَنِ الْعَوَّامِ بْنِ حَوْشَبٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُمْهَانَ، عَنْ سَفِينَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < خِلافَةُ النُّبُوَّةِ ثَلاثُونَ سَنَةً، ثُمَّ يُؤْتِي اللَّهُ الْمُلْكَ مَنْ يَشَاءُ، أَوْ مُلْكَهُ مَنْ يَشَاءُ >۔
* تخريج: انظر ما قبلہ (تحفۃ الأشراف: ۴۴۸۰) (حسن صحیح)
۴۶۴۷- سفینہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’خلافت علی منہاج النبوۃ (نبو ت کی خلافت ) تیس سال ہے ، پھر اللہ تعالی سلطنت جسے چا ہے گا یا اپنی سلطنت جسے چا ہے گا، دے گا‘‘۔


4648- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاءِ، عَنِ ابْنِ إِدْرِيسَ، أَخْبَرَنَا حُصَيْنٌ، عَنْ هِلالِ بْنِ يَسَافٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ ظَالِمٍ، وَسُفْيَانُ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ هِلالِ بْنِ يَسَافٍ عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ ظَالِمٍ الْمَازِنِيِّ، ذَكَرَ سُفْيَانُ رَجُلا فِيمَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ عَبْدِاللَّهِ بْنِ ظَالِمٍ الْمَازِنِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ زَيْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ نُفَيْلٍ قَالَ: لَمَّا قَدِمَ فُلانٌ إِلَى الْكُوفَةِ أَقَامَ فُلانٌ خَطِيبًا، فَأَخَذَ بِيَدِي سَعِيدُ بْنُ زَيْدٍ، فَقَالَ: أَلا تَرَى إِلَى هَذَا الظَّالِمِ، فَأَشْهَدُ عَلَى التِّسْعَةِ إِنَّهُمْ فِي الْجَنَّةِ، وَلَوْ شَهِدْتُ عَلَى الْعَاشِرِ لَمْ إِيثَمْ- قَالَ ابْنُ إِدْرِيسَ: وَالْعَرَبُ تَقُولُ: آثَمُ- قُلْتُ: وَمَنِ التِّسْعَةُ؟ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ وَهُوَ عَلَى حِرَائٍ: < اثْبُتْ حِرَاءُ؛ إِنَّهُ لَيْسَ عَلَيْكَ إِلا نَبِيٌّ أَوْ صِدِّيقٌ أَوْ شَهِيدٌ > قُلْتُ: وَمَنِ التِّسْعَةُ؟ قَالَ: رَسُولُ اللَّهِ ﷺ ، وَأَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ، وَعُثْمَانُ، وَعَلِيٌّ، وَطَلْحَةُ، وَالزُّبَيْرُ، وَسَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ وَعَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ، قُلْتُ: وَمَنِ الْعَاشِرُ، فَتَلَكَّأَ هُنَيَّةً ثُمَّ قَالَ: أَنَا.
قَالَ أَبو دَاود: رَوَاهُ الأَشْجَعِيُّ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ هِلالِ بْنِ يَسَافٍ عَنِ ابْنِ حَيَّانَ عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ ظَالِمٍ، بِإِسْنَادِهِ [نَحْوَهُ]۔
* تخريج: ت/المناقب ۲۸ (۳۷۵۷)، ق/المقدمۃ ۱۱ (۱۳۴)، (تحفۃ الأشراف: ۴۴۵۸)، وقد أخرجہ: حم (۱/۱۸۸، ۱۸۹) (صحیح)
۴۶۴۸- عبداللہ بن ظالم مازنی کہتے ہیں کہ میں نے سعید بن زید بن عمرو بن نفیل رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا : جب فلاں شخص کوفہ میں آیا تو فلاں شخص خطبہ کے لئے کھڑا ہوا ۱؎ ، سعید بن زید نے میرا ہاتھ پکڑکرکہا : ۲؎ کیا تم اس ظالم ۳؎ کو نہیں دیکھتے ۴؎پھر انہوں نے نو آدمیوں کے بارے میں گواہی دی کہ وہ جنت میں ہیں ،اورکہا: اگر میں دسویں شخص (کے جنت میں داخل ہونے) کی گواہی دوں تو گنہگار نہ ہوں گا،(ابن ادریس کہتے ہیں: عرب لوگ( إیثم کے بجائے) آثم کہتے ہیں)، میں نے پوچھا: اور وہ نو کون ہیں ؟ کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، اس وقت آپ حراء(پہاڑی) پر تھے :’’ حراء ٹھہر جا ( مت ہل) اس لئے کہ تیرے اوپر نبی ہے یا صدیق ہے یا پھر شہید‘‘ ، میں نے عرض کیا : اور نو کون ہیں؟ انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ، ابو بکر، عمر ، عثمان، علی ، طلحہ ، زبیر ، سعد بن ابی وقاص اور عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہم ، میں نے عرض کیا: اور دسواں آدمی کون ہے؟ تو تھوڑا ہچکچائے پھرکہا: میں۔
ابو داود کہتے ہیں: اسے اشجعی نے سفیان سے ، سفیان نے منصور سے ، منصور نے ہلال بن یساف سے ، ہلال نے ابن حیان سے اور ابن حیان نے عبداللہ بن ظالم سے اسی سند سے روایت کیا ہے۔
وضاحت ۱؎ : ’’فلاں شخص کوفہ میں آیا‘‘ اس سے کنایہ معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف ہے، اور’’فلاں شخص خطبہ کے لئے کھڑا ہوا‘‘ اس سے کنایہ مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کی طرف ہے،اس جیسے مقام کے لئے کنایہ ہی بہتر تھا تاکہ شرف صحابیت مجروح نہ ہو۔
وضاحت ۲؎ : یہ عبداللہ بن ظالم مازنی کاقول ہے۔
وضاحت ۳؎ : اس سے مراد خطیب ہے۔
وضاحت۴؎ : جوعلی رضی اللہ عنہ کوبرابھلاکہہ رہا ہے۔


4649- حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ النَّمَرِيُّ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنِ الْحُرِّ بْنِ الصَّيَّاحِ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ ابْنِ الأَخْنَسِ، أَنَّهُ كَانَ فِي الْمَسْجِدِ فَذَكَرَ رَجُلٌ عَلِيًّا عَلَيْهِ السَّلام، فَقَامَ سَعِيدُ ابْنُ زَيْدٍ فَقَالَ: أَشْهَدُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ أَنِّي سَمِعْتُهُ وَهُوَ يَقُولُ: < عَشْرَةٌ فِي الْجَنَّةِ: النَّبِيُّ فِي الْجَنَّةِ، وَأَبُو بَكْرٍ فِي الْجَنَّةِ، وَعُمَرُ فِي الْجَنَّةِ، وَعُثْمَانُ فِي الْجَنَّةِ، وَعَلِيٌّ فِي الْجَنَّةِ، وَطَلْحَةُ فِي الْجَنَّةِ، وَالزُّبَيْرُ بْنُ الْعَوَّامِ فِي الْجَنَّةِ، وَسَعْدُ بْنُ مَالِكٍ فِي الْجَنَّةِ، وَعَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ فِي الْجَنَّةِ > وَلَوْ شِئْتُ لَسَمَّيْتُ الْعَاشِرَ؛ قَالَ: فَقَالُوا: مَنْ هُوَ؟ فَسَكَتَ، قَالَ: فَقَالُوا: مَنْ هُوَ؟ فَقَالَ: هُوَ سَعِيدُ بْنُ زَيْدٍ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۴۴۵۹) (صحیح)
۴۶۴۹- عبدالرحمن بن اخنس سے روایت ہے کہ وہ مسجد میں تھے ، ایک شخص نے علی رضی اللہ عنہ کا (برائی کے ساتھ) تذکرہ کیا ، تو سعید بن زید رضی اللہ عنہ کھڑے ہو گئے اور فرمایا: میں گواہی دیتا ہوں رسول اللہ ﷺ پر کہ میں نے آپ کو فرماتے سنا: ’’دس لوگ جنتی ہیں: ابو بکر جنتی ہیں، عمر جنتی ہیں، عثمان جنتی ہیں ، علی جنتی ہیں ، طلحہ جنتی ہیں ، زبیر بن عوام جنتی ہیں ، سعد بن مالک جنتی ہیں اور عبدالرحمن بن عوف جنتی ہیں‘‘ ، اور اگر میں چاہتا تو دسویں کا نام لیتا، وہ کہتے ہیں: لوگوں نے عرض کیا : وہ کون ہیں؟ تو وہ خاموش رہے، لوگوں نے پھر پوچھا : وہ کون ہیں ؟ تو کہا : وہ سعید بن زید ہیں۔


4650- حَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ، حَدَّثَنَا صَدَقَةُ بْنُ الْمُثَنَّى النَّخَعِيُّ، حَدَّثَنِي جَدِّي رِيَاحُ بْنُ الْحَارِثِ، قَالَ: كُنْتُ قَاعِدًا عِنْدَ فُلانٍ فِي مَسْجِدِ الْكُوفَةِ وَعِنْدَهُ أَهْلُ الْكُوفَةِ، فَجَاءَ سَعِيدُ بْنُ زَيْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ نُفَيْلٍ، فَرَحَّبَ بِهِ وَحَيَّاهُ وَأَقْعَدَهُ عِنْدَ رِجْلِهِ عَلَى السَّرِيرِ، فَجَاءَ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْكُوفَةِ يُقَالُ لَهُ قَيْسُ بْنُ عَلْقَمَةَ فَاسْتَقْبَلَهُ فَسَبَّ وَسَبَّ، فَقَالَ سَعِيدٌ: مَنْ يَسُبُّ هَذَا الرَّجُلُ؟ قَالَ: يَسُبُّ عَلِيًّا، قَالَ: أَلا أَرَى أَصْحَابَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ يُسَبُّونَ عِنْدَكَ ثُمَّ لا تُنْكِرُ وَلاتُغَيِّرُ، أَنَا سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ وَإِنِّي لَغَنِيٌّ أَنْ أَقُولَ عَلَيْهِ مَا لَمْ يَقُلْ فَيَسْأَلَنِي عَنْهُ غَدًا إِذَا لَقِيتُهُ: <أَبُو بَكْرٍ فِي الْجَنَّةِ، وَعُمَرُ فِي الْجَنَّةِ #، وَسَاقَ مَعْنَاهُ، ثُمَّ قَالَ: لَمَشْهَدُ رَجُلٍ مِنْهُمْ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ يَغْبَرُّ فِيهِ وَجْهُهُ خَيْرٌ مِنْ عَمَلِ أَحَدِكُمْ عُمُرَهُ وَلَوْ عُمِّرَ عُمُرَ نُوحٍ۔
* تخريج: ق/ المقدمۃ ۱۱ (۱۳۳)، (تحفۃ الأشراف: ۴۴۵۵)، وقد أخرجہ: حم (۱/۱۸۷) (صحیح)
۴۶۵۰- ریاح بن حارث کہتے ہیں: میں کوفہ کی مسجد میں فلاں شخص ۱؎ کے پاس بیٹھا تھا ، ان کے پاس کوفہ کے لوگ جمع تھے ، اتنے میں سعید بن زید بن عمرو بن نفیل رضی اللہ عنہ آئے ، تو انہوں نے انہیں خوش آمدید کہا،اور دعا دی، اور اپنے پائوں کے پاس انہیں تخت پر بٹھایا ، پھر اہل کوفہ میں سے قیس بن علقمہ نامی ایک شخص آیا ، تو انہوں نے اس کا استقبال کیا ، لیکن اس نے برا بھلا کہا اور سب وشتم کیا،سعید بولے : یہ شخص کسے برا بھلا کہہ رہاہے؟ انہوں نے کہا: علی رضی اللہ عنہ کو کہہ رہا ہے ، وہ بولے:کیا میں دیکھ نہیں رہا ہوں کہ رسول اللہ ﷺکے اصحاب کو تمہارے پاس برا بھلا کہا جا رہا ہے لیکن تم نہ منع کرتے ہو نہ اس سے روکتے ہو، میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے اور مجھے کیا پڑی ہے کہ میں رسول اللہ ﷺ کی طرف سے ایسی بات کہوں جو آپ نے نہ فرمائی ہو کہ کل جب میں آپ سے ملوں تو آپ مجھ سے اس کے با رے میں سوال کریں : ’’ابو بکر جنتی ہیں ، عمر جنتی ہیں‘‘، پھر اوپر جیسی حدیث بیان فرمایا ، پھر ان( صحا بہ) میں سے کسی کا رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کسی جنگ میں شرکت جس میں اس چہرہ غبارآلودہوجائے یہ زیادہ بہتر ہے اس سے کہ تم میں کاکوئی شخص اپنی عمر بھر عمل کرے اگرچہ اس کی عمر نوح کی عمر ہو ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس سے مراد مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ ہیں۔
وضاحت۲؎ : ایک شخص کاایمان کی حالت میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جنگ میں شریک ہونا اور اس کاگردوغبار برداشت کرنا غیرصحابی کی ساری زندگی کے عمل سے بہتر ہے چاہے اس کی زندگی کتنی ہی طویل اور نوح علیہ السلام کی زندگی کے برابر ہوجن کی صرف دعوتی زندگی ساڑھے نوسوسال تھی،اس سے صحابہ کرام کااحترام اور ان کی فضیلت واضح ہوتی ہے اسی لئے امت کا عقیدہ ہے کہ کوئی بڑے سے بڑا ولی کسی ادنیٰ صحابی کے درجہ کونہیں پہنچ سکتا، رضی اللہ عنہم اجمعین۔
ٍ

4651- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ (ح) وحَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، الْمَعْنَى، قَالا: حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، أَنَّ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ حَدَّثَهُمْ، أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ ﷺ صَعِدَ أُحُدًا، فَتَبِعَهُ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ وَعُثْمَانُ، فَرَجَفَ بِهِمْ، فَضَرَبَهُ نَبِيُّ اللَّهِ ﷺ بِرِجْلِهِ وَقَالَ: < اثْبُتْ أُحُدُ نَبِيٌّ وَصِدِّيقٌ وَشَهِيدَانِ >۔
* تخريج: خ/المناقب ۵ (۳۶۷۵)، ۶ (۳۶۸۶)، ۷ (۳۶۹۷)، ت/المناقب ۱۹ (۳۶۹۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۷۲) وقد أخرجہ: حم (۳/۱۱۲) (صحیح)
۴۶۵۱- انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی اکرمﷺ احد پہاڑ پر چڑھے پھر آپ کے پیچھے ابوبکر، عمر ، عثمان بھی چڑھے ، تو وہ ان کے ساتھ ہلنے لگا ، نبی اکرمﷺ نے اسے اپنے پائوں سے مارا اور فرمایا: ’’ٹھہرجا اے احد!(تیرے اوپر) ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہید ہیں‘‘ ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : تیرے اوپر ایک نبی یعنی خود نبی اکرم ﷺ، ایک صدیق یعنی ابو بکر، اوردوشہید یعنی عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم ہیں، یہ تیرے لئے باعث فخر ہے۔


4652- حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ مُحَمَّدٍ الْمُحَارِبِيِّ، عَنْ عَبْدِالسَّلامِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ أَبِي خَالِدٍ الدَّالانِيِّ، عَنْ أَبِي خَالِدٍ مَوْلَى آلِ جَعْدَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < أَتَانِي جِبْرِيلُ فَأَخَذَ بِيَدِي، فَأَرَانِي بَابَ الْجَنَّةِ الَّذِي تَدْخُلُ مِنْهُ أُمَّتِي >، فَقَالَ أَبُوبَكْرٍ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَدِدْتُ أَنِّي كُنْتُ مَعَكَ حَتَّى أَنْظُرَ إِلَيْهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < أَمَا إِنَّكَ يَا أَبَا بَكْرٍ أَوَّلُ مَنْ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مِنْ أُمَّتِي >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۸۸۰) (ضعیف)
(اس کے راوی ’’ ابوخالد مولی آل جعدہ‘‘ مجہول ہیں)
۴۶۵۲- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ میرے پاس جبریل آئے،انہوں نے میرا ہاتھ پکڑا، اور مجھے جنت کا وہ دروازہ دکھایا جس سے میری امت داخل ہو گی‘‘، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول!میری خواہش ہے کہ آپ کے ساتھ میں بھی ہوتاتا کہ میں اسے دیکھتا، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’سنو اے ابوبکر!میری امت میں سے تم ہی سب سے پہلے جنت میں داخل ہو گے‘‘۔


4653- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ وَيَزِيدُ بْنُ خَالِدٍ الرَّمْلِيُّ، أَنَّ اللَّيْثَ حَدَّثَهُمْ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ أَنَّهُ قَالَ: < لا يَدْخُلُ النَّارَ أَحَدٌ مِمَّنْ بَايَعَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ >۔
* تخريج: ت/المناقب ۵۸ (۳۸۶۰)، (تحفۃ الأشراف: ۲۹۱۸)، وقد أخرجہ: حم (۳/۳۵۰) (صحیح)
۴۶۵۳- جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جہنم میں ان لوگوں میں سے کوئی بھی داخل نہیں ہوگا، جنہوں نے درخت کے نیچے بیعت کی (یعنی صلح حدیبیہ کے وقت بیعت رضوان میں شریک رہے)‘‘۔


4654- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ(ح) و حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سِنَانٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < قَالَ مُوسَى: < فَلَعَلَّ اللَّهَ > وَقَالَ ابْنُ سِنَانٍ: < اطَّلَعَ اللَّهُ عَلَى أَهْلِ بَدْرٍ فَقَالَ: اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ فَقَدْ غَفَرْتُ لَكُمْ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، انظر حدیث رقم : ۲۶۵۰، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۸۰۹)، وقد أخرجہ: حم (۲/۲۹۵) (حسن صحیح)
۴۶۵۴- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (موسی کی روایت میں’’فلعل الله‘‘ کا لفظ ہے، اور ابن سنان کی روایت میں ’’اطلع الله‘‘ ہے) ’’ اللہ تعالی بدر والوں کی طرف متوجہ ہوا اور انہیں نظررحمت ومغفرت سے دیکھا تو فرمایا : جوعمل چاہو کرو میں نے تمہیں معاف کر دیا ہے‘‘ ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس کامطلب یہ ہے کہ اگر ان اصحاب بدر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اس کے بعد کوئی عمل اللہ کی منشاء کے خلاف بھی ہوجائے تووہ ان سے بازپرس نہ فرمائے گا کیونکہ ان کومعاف کرچکاہے، اس کایہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ان کوبداعمالیوں کی اجازت دی جارہی ہے یایہ کہ ان سے دنیامیں بھی بازپرس نہ ہوگی بلکہ اگر خدا نخواستہ وہ دنیا میں کوئی عمل قابل حد کربیٹھے توحد جاری کی جائے گی۔


4655- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ ثَوْرٍ حَدَّثَهُمْ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ ابْنِ الزُّبَيْرِ، عَنِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ قَالَ: خَرَجَ النَّبِيُّ ﷺ زَمَنَ الْحُدَيْبِيَةِ، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ، قَالَ: فَأَتَاهُ -يَعْنِي عُرْوَةَ بْنَ مَسْعُودٍ- فَجَعَلَ يُكَلِّمُ النَّبِيَّ ﷺ ، فَكُلَّمَا كَلَّمَهُ أَخَذَ بِلِحْيَتِهِ، وَالْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ قَائِمٌ عَلَى رَأْسِ النَّبِيِّ ﷺ وَمَعَهُ السَّيْفُ وَعَلَيْهِ الْمِغْفَرُ، فَضَرَبَ يَدَهُ بِنَعْلِ السَّيْفِ، وَقَالَ: أَخِّرْ يَدَكَ عَنْ لِحْيَتِهِ، فَرَفَعَ عُرْوَةُ رَأْسَهُ، فَقَالَ: مَنْ هَذَا؟ قَالُوا: الْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم : (۲۷۶۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۲۷۰) (صحیح)
۴۶۵۵- مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ حدیبیہ کے زمانے میں نکلے ، پھر راوی نے حدیث بیان کی، وہ کہتے ہیں کہ آپ کے پاس وہ یعنی عروہ بن مسعود آیا اور نبی اکرمﷺ سے گفتگو کرنے لگا، جب وہ آپ سے بات کرتا،تو آپ کی ڈاڑھی پر ہاتھ لگاتا، مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نبی اکرمﷺ کے پاس کھڑے تھے ، ان کے پاس تلوار تھی اور سر پرخود ، انہوں نے تلوار کے پرتلے کے نچلے حصہ سے اس کے ہاتھ پر مارا اور کہا: اپنا ہاتھ ان کی ڈاڑھی سے دور رکھ ، عروہ نے اپنا سر اٹھایا اور بولا: یہ کون ہے؟ لوگوں نے کہا: مغیرہ بن شعبہ ہیں۔


4656- حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ -أَبُو عُمَرَ الضَّرِيرُ- حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، أَنَّ سَعِيدَ بْنَ إِيَاسٍ الْجُرَيْرِيَّ أَخْبَرَهُمْ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ الْعُقَيْلِيِّ، عَنِ الأَقْرَعِ مُؤَذِّنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، قَالَ: بَعَثَنِي عُمَرُ إِلَى الأُسْقُفِّ، فَدَعَوْتُهُ، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: وَهَلْ تَجِدُنِي فِي الْكِتَابِ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: كَيْفَ تَجِدُنِي؟ قَالَ: أَجِدُكَ قَرْنًا، فَرَفَعَ عَلَيْهِ الدِّرَّةَ، فَقَالَ: قَرْنٌ مَهْ؟ فَقَالَ: قَرْنٌ حَدِيدٌ، أَمِينٌ شَدِيدٌ، قَالَ: كَيْفَ تَجِدُ الَّذِي يَجِيئُ مِنْ بَعْدِي؟ فَقَالَ: أَجِدُهُ خَلِيفَةً صَالِحًا غَيْرَ أَنَّهُ يُؤْثِرُ قَرَابَتَهُ، قَالَ عُمَرُ: يَرْحَمُ اللَّهُ عُثْمَانَ! ثَلاثًا، فَقَالَ كَيْفَ تَجِدُ الَّذِي بَعْدَهُ؟ قَالَ: أَجِدُهُ صَدَأَ حَدِيدٍ، فَوَضَعَ عُمَرُ يَدَهُ عَلَى رَأْسِهِ فَقَالَ: يَا دَفْرَاهُ يَا دَفْرَاهُ، فَقَالَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ! إِنَّهُ خَلِيفَةٌ صَالِحٌ، وَلَكِنَّهُ يُسْتَخْلَفُ حِينَ يُسْتَخْلَفُ وَالسَّيْفُ مَسْلُولٌ وَالدَّمُ مُهْرَاقٌ.
قَالَ ابو داود: الدَّفْرُ النَّتْنُ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۴۰۸) (ضعیف الإسناد)
(عیسائی پادری کے قول کا کیا اعتبار؟)
۴۶۵۶- عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے مؤذن اقرع کہتے ہیں: مجھے عمر نے ایک پادری کے پاس بلا نے کے لئے بھیجا، میں اسے بلا لایا ، تو عمرنے اس سے کہا: کیا تم کتاب میں مجھے ( میرا حال) پاتے ہو ؟ وہ بولا: ہاں ، انہوں نے کہا: کیسا پاتے ہو ؟ وہ بولا : میں آپ کو قرن پاتا ہوں، تو انہوں نے اس پر درہ اٹھایا اور کہا: قرن کیا ہے؟ وہ بولا: لوہے کی طرح مضبوط اور سخت امانت دار، انہوں نے کہا: جو میرے بعد آئے گاتم اسے کیسے پاتے ہو؟ وہ بولا: میں اسے نیک خلیفہ پاتا ہوں،سوائے اس کے کہ وہ اپنے رشتہ داروں کو ترجیح دے گا، عمر نے کہا: اللہ عثمان پر رحم کرے ، (تین مر تبہ) پھر کہا: ان کے بعد والے کو تم کیسے پاتے ہو ؟ وہ بولا: وہ تو لوہے کا میل ہے (یعنی برابر تلوار سے کام رہنے کی وجہ سے ان کابدن اور ہاتھ گویادونوں ہی زنگ آلود ہوجائیں گے) عمرنے اپنا ہاتھ اس کے سر پر رکھا، اور فرمایا :اے گندے ! بدبو دار(تو یہ کیا کہتا ہے) اس نے کہا: اے امیرالمو منین ! وہ ایک نیک خلیفہ ہو گا لیکن جب وہ خلیفہ بنایا جائے گا تو حال یہ ہو گا کہ تلوار بے نیام ہوگی ، خون بہہ رہا ہو گا، (یعنی اس کی خلافت فتنہ کے وقت ہوگی)۔
ابو داود کہتے ہیں: ’’الدفر‘‘ کے معنی نتن یعنی بدبو کے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
10- بَاب فِي فَضْلِ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ
۱۰-باب: صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی فضیلت کا بیان​


4657- حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا (ح) وحَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < خَيْرُ أُمَّتِي الْقَرْنُ الَّذِينَ بُعِثْتُ فِيهِمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ > وَاللَّهُ أَعْلَمُ أَذَكَرَ الثَّالِثَ أَمْ لا < ثُمَّ يَظْهَرُ قَوْمٌ يَشْهَدُونَ وَلايُسْتَشْهَدُونَ، وَيَنْذِرُونَ وَلايُوفُونَ، وَيَخُونُونَ وَلا يُؤْتَمَنُونَ، وَيَفْشُو فِيهِمُ السِّمَنُ >۔
* تخريج: م/فضائل الصحابۃ ۵۲ (۲۵۳۵)، ت/الفتن ۴۵ (۲۲۲۲)، الشھادات ۴، (۲۳۰۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۸۲۴)، وقد أخرجہ: خ/الشہادات ۹ (۲۶۵۱)، فضائل الصحابۃ ۱ (۳۶۵۰)، الرقاق ۷ (۶۴۲۸)، الأیمان ۷ (۶۶۹۵)، ن/الأیمان والنذور ۲۸ (۳۸۴۰)، حم (۴/۴۲۶، ۴۲۷، ۴۳۶، ۴۴۰) (صحیح)
۴۶۵۷- عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''میری امت کے سب سے بہتر لوگ وہ ہیں جن میں مجھے مبعوث کیا گیا ، پھر وہ جو اُن سے قریب ہیں ، پھر وہ جو اُن سے قریب ہیں'' ،اللہ ہی زیادہ جانتا ہے کہ آپ ﷺ نے تیسرے کا ذکر کیا یا نہیں ،'' پھر کچھ لوگ رونما ہوں گے جو بلا گواہی طلب کئے گواہی دیتے پھریں گے، نذر مانیں گے لیکن پوری نہ کریں گے، خیانت کرنے لگیں گے جس سے ان پر سے بھروسہ اٹھ جائے گا، اور ان میں موٹاپا عام ہوگا'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : کیونکہ جواب دہی کا خوف ان کے دلوں سے جاتا رہے گا، عیش وآرام کے عادی ہو جائیں گے اور دین و ایمان کی فکر جاتی رہے گی جو ان کے مٹاپے کا سبب ہوگی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
11- بَاب فِي النَّهْيِ عَنْ سَبِّ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ
۱۱-باب: صحا بہء کرام رضی اللہ عنہم کو برا بھلا کہنا منع ہے​


4658- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < لا تَسُبُّوا أَصْحَابِي، فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوْ أَنْفَقَ أَحَدُكُمْ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا مَا بَلَغَ مُدَّ أَحَدِهِمْ وَلا نَصِيفَهُ >۔
* تخريج: خ/فضائل الصحابۃ ۵ (۳۶۷۳)، م/فضائل الصحابۃ ۵۴ (۲۵۴۱)، ت/المناقب ۵۹ (۳۸۶۱)، ق/المقدمۃ ۲۰ (۱۶۱)، (تحفۃ الأشراف: ۴۰۰۱، ۱۲۵۳۶)، وقد أخرجہ: حم (۳/۱۱، ۵۴، ۵۵، ۶۳) (صحیح)
۴۶۵۸- ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’میرے صحابہ کو برا بھلا نہ کہو، اس ذات کی قسم!جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، اگر تم میں سے کوئی احد(پہاڑ) کے برابر سونا خر چ کر دے تو وہ ان کے ایک مد یا نصف مد کے برابر بھی نہ ہوگا‘‘ ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث کاشان ورود یہ ہے کہ ایک بارعبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ اورخالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے درمیان کچھ کہا سنی ہوگئی جس پر خالد نے عبدالرحمن کوکچھ نا مناسب الفاظ کہہ دیئے، جس پر رسول اکرمﷺ نے یہ فرمایا،اس سے پتہ چلاکہ مخصوص اصحاب کے مقابلہ میں دیگر صحابہ کرام کایہ حال ہے تو غیر صحابی کا کیا ذکر، غیرصحابی کا احد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کرناصحابی کے ایک مُد غلہ کے برابر بھی نہیں ہوسکتا،اس سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مقام عالی کاپتہ چلتا ہے، اوریہیں سے ان بدبختوں کی بدبختی اور بدنصیبی کا اندازہ کیاجاسکتا ہے جن کے مذہب کی بنیاد صحابہ کرام کو سب وشتم کا نشانہ بنانا اور تبرا بازی کو دین سمجھناہے۔


4659- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا زَائِدَةُ بْنُ قُدَامَةَ الثَّقَفِيُّ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ قَيْسٍ الْمَاصِرُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي قُرَّةَ، قَالَ: كَانَ حُذَيْفَةُ بِالْمَدَائِنِ، فَكَانَ يَذْكُرُ أَشْيَاءَ قَالَهَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ لأُنَاسٍ مِنْ أَصْحَابِهِ فِي الْغَضَبِ، فَيَنْطَلِقُ نَاسٌ مِمَّنْ سَمِعَ ذَلِكَ مِنْ حُذَيْفَةَ فَيَأْتُونَ سَلْمَانَ فَيَذْكُرُونَ لَهُ قَوْلَ حُذَيْفَةَ، فَيَقُولُ سَلْمَانُ: حُذَيْفَةُ أَعْلَمُ بِمَا يَقُولُ، فَيَرْجِعُونَ إِلَى حُذَيْفَةَ، فَيَقُولُونَ لَهُ: قَدْذَكَرْنَا قَوْلَكَ لِسَلْمَانَ فَمَا صَدَّقَكَ وَلا كَذَّبَكَ، فَأَتَى حُذَيْفَةُ سَلْمَانَ وَهُوَ فِي مَبْقَلَةٍ فَقَالَ: يَا سَلْمَانُ، مَا يَمْنَعُكَ أَنْ تُصَدِّقَنِي بِمَا سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ ؟ فَقَالَ سَلْمَانُ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ كَانَ يَغْضَبُ فَيَقُولُ فِي الْغَضَبِ لِنَاسٍ مِنْ أَصْحَابِهِ، وَيَرْضَى فَيَقُولُ فِي الرِّضَا لِنَاسٍ مِنْ أَصْحَابِهِ، أَمَا تَنْتَهِي حَتَّى تُوَرِّثَ رِجَالا حُبَّ رِجَالٍ وَرِجَالا بُغْضَ رِجَالٍ، وَحَتَّى تُوقِعَ اخْتِلافًا وَفُرْقَةً؟ وَلَقَدْ عَلِمْتَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ خَطَبَ فَقَالَ: < أَيُّمَا رَجُلٍ مِنْ أُمَّتِي سَبَبْتُهُ سَبَّةً أَوْ لَعَنْتُهُ لَعْنَةً فِي غَضَبِي فَإِنَّمَا أَنَا مِنْ وَلَدِ آدَمَ أَغْضَبُ كَمَا يَغْضَبُونَ، وَإِنَّمَا بَعَثَنِي رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ فَاجْعَلْهَا عَلَيْهِمْ صَلاةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ > وَاللَّهِ لَتَنْتَهِيَنَّ أَوْ لأَكْتُبَنَّ إِلَى عُمَرَ۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۴۵۰۷)، وقد أخرجہ: حم (۵/۴۳۷، ۴۳۹) (صحیح)
۴۶۵۹- عمرو بن ابی قرہ کہتے ہیں کہ حذیفہ رضی اللہ عنہ مدائن میں تھے اور وہ ان باتوں کا ذکر کیا کرتے تھے ، جو رسول اللہ ﷺ نے اپنے اصحاب میں سے بعض لوگوں سے غصہ کی حالت میں فر مائی تھیں ، پھر ان میں سے کچھ لوگ جو حذیفہ سے باتیں سنتے چل کر سلمان رضی اللہ عنہ کے پاس آ تے اور ان سے حذیفہ رضی اللہ عنہ کی باتوں کا تذکرہ کرتے توسلمان رضی اللہ عنہ کہتے : حذیفہ ہی اپنی کہی باتوں کو بہتر جانتے ہیں، تو وہ لوگ حذیفہ کے پاس لوٹ کر آتے اور ان سے کہتے :ہم نے آپ کی باتوں کا تذکرہ سلمان سے کیا تو انہوں نے نہ آپ کی تصدیق کی اور نہ تکذیب ،یہ سن کر حذیفہ سلمان کے پاس آئے ، وہ اپنی ترکاری کے کھیت میں تھے کہنے لگے:اے سلمان! ان باتوں میں میری تصدیق کرنے سے آپ کو کون سی چیز روک رہی ہے جو میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنی ہیں؟تو سلمان نے کہا: رسول اللہ ﷺ بلاشبہ کبھی غصے میں اپنے بعض اصحاب سے کچھ باتیں کہہ دیتے اور کبھی خوش ہو تے تو خوشی میں اپنے بعض اصحاب سے کچھ باتیں کہہ دیتے،تو کیا آپ اس وقت تک باز نہ آئیں گے جب تک کہ بعض لوگوں کے دلوں میں بعض لوگوں کی محبت اور بعض دوسروں کے دلوں میں بعض کی دشمنی نہ ڈال دیں اور ان کواختلاف میں مبتلا نہ کردیں،حالانکہ آپ جانتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے ایک خطبہ میں فرمایا: ’’میں نے اپنی امت کے کسی فرد کو غصے کی حالت میں اگر برا بھلا کہا یا اسے لعن طعن کی تو میں بھی تو آدم کی اولاد میں سے ہوں ، مجھے بھی غصہ آتا ہے جیسے انہیں آتا ہے ،لیکن اللہ نے مجھے رحمۃ للعالمین بنا کر بھیجاہے تو ( اے اللہ) میرے برابھلا کہنے اورلعن طعن کو ان لوگوں کے لئے قیامت کے روز رحمت بنادے‘‘،اللہ کی قسم یاتو آپ اپنی اس حرکت سے باز آجائیں ورنہ میں عمربن الخطاب (امیر المومنین) کولکھ بھیجوں گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
12- بَاب فِي اسْتِخْلافِ أَبِي بَكْرٍ رَضِي اللَّه عَنْه
۱۲-باب: ابو بکر رضی اللہ عنہ کی خلا فت کا بیان​


4660- حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، قَالَ: حَدَّثَنِي الزُّهْرِيُّ، حَدَّثَنِي عَبْدُالْمَلِكِ بْنُ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ زَمْعَةَ، قَالَ: لَمَّا اسْتُعِزَّ بِرَسُولِ اللَّهِ ﷺ وَأَنَا عِنْدَهُ فِي نَفَرٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ دَعَاهُ بِلالٌ إِلَى الصَّلاةِ، فَقَالَ: مُرُوا مَنْ يُصَلِّي لِلنَّاسِ، فَخَرَجَ عَبْدُاللَّهِ بْنُ زَمْعَةَ، فَإِذَا عُمَرُ فِي النَّاسِ، وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ غَائِبًا، فَقُلْتُ: يَا عُمَرُ! قُمْ فَصَلِّ بِالنَّاسِ، فَتَقَدَّمَ فَكَبَّرَ، فَلَمَّا سَمِعَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ صَوْتَهُ وَكَانَ عُمَرُ رَجُلا مُجْهِرًا؛ قَالَ: < فَأَيْنَ أَبُو بَكْرٍ؟ يَأْبَى اللَّهُ ذَلِكَ وَالْمُسْلِمُونَ، يَأْبَى اللَّهُ ذَلِكَ وَالْمُسْلِمُونَ > فَبَعَثَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ فَجَاءَ بَعْدَ أَنْ صَلَّى عُمَرُ تِلْكَ الصَّلاةَ، فَصَلَّى بِالنَّاسِ۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۵۲۹۵)، وقد أخرجہ: حم (۴/۳۲۲) (حسن صحیح)
۴۶۶۰- حارث بن ہشام عبداللہ بن زمعہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ کی بیماری سخت ہوئی اور میں آپ ہی کے پاس مسلمانوں کی ایک جماعت کے ساتھ تھا تو بلال رضی اللہ عنہ نے آپ کو صلاۃ کے لئے بلا یا ، آپ ﷺ نے فرمایا :'' کسی سے کہو جو لوگوں کو صلاۃ پڑھائے'' ، عبداللہ بن زمعہ نکلے تو دیکھا کہ لوگوں میں عمر رضی اللہ عنہ موجود ہیں، ابوبکر رضی اللہ عنہ موقع پر موجود نہ تھے ، میں نے کہا: اے عمر! اٹھیے صلاۃ پڑھائیے، تو وہ بڑھے اور انہوں نے اللہ اکبر کہا ، وہ بلند آواز شخص تھے، رسول اللہ ﷺ نے جب ان کی آواز سنی تو فرمایا: ''ابو بکر کہاں ہیں؟ اللہ کو یہ پسند نہیں اور مسلمانوں کو بھی ،اللہ کو یہ پسند نہیں اور مسلمانوں کو بھی''، تو ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بلا بھیجا ، وہ عمر کے صلاۃ پڑھا چکنے کے بعد آئے تو انہوں نے لوگوں کو (پھر سے ) صلاۃ پڑھائی ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے خلافت صدیقی کا صاف اشارہ ملتا ہے کیونکہ امامت صغریٰ امامت کبریٰ کا پیش خیمہ ہے۔


4661- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي مُوسَى بْنُ يَعْقُوبَ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، أَنَّ عَبْدَاللَّهِ بْنَ زَمْعَةَ أَخْبَرَهُ بِهَذَا الْخَبَرِ، قَالَ: لَمَّا سَمِعَ النَّبِيُّ ﷺ صَوْتَ عُمَرَ، قَالَ ابْنُ زَمْعَةَ: خَرَجَ النَّبِيُّ ﷺ حَتَّى أَطْلَعَ رَأْسَهُ مِنْ حُجْرَتِهِ ثُمَّ قَالَ: < لا، لا، لا، لِيُصَلِّ لِلنَّاسِ ابْنُ أَبِي قُحَافَةَ > يَقُولُ ذَلِكَ مُغْضَبًا۔
* تخريج: انظر ماقبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۵۲۹۵) (صحیح)
۴۶۶۱- عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ سے روایت ہے کہ عبداللہ بن زمعہ رضی اللہ عنہ نے انہیں یہی بات بتائی اور کہا: جب نبی اکرم ﷺ نے عمر رضی اللہ عنہ کی آواز سنی تو آپ نکلے یہاں تک کہ حجرے سے اپنا سر نکالا، پھر فرمایا:'' نہیں ، نہیں ، نہیں، ابن ابی قحافہ(یعنی ابوبکر) کو چاہئے کہ لوگوں کو صلاۃ پڑھائیں ''،آپ ﷺ یہ غصے میں فرما رہے تھے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
13- بَاب مَا يَدُلُّ عَلَى تَرْكِ الْكَلامِ فِي الْفِتْنَةِ
۱۳-باب: فتنہ و فسادکے وقت خاموش رہنے کا بیان​


4662- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ وَمُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ أَبِي بَكْرَةَ(ح) و حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ الأَنْصَارِيِّ، قَالَ: حَدَّثَنِي الأَشْعَثُ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ أَبِي بَكْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ لِلْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ: < إِنَّ ابْنِي هَذَا سَيِّدٌ، وَإِنِّي أَرْجُو أَنْ يُصْلِحَ اللَّهُ بِهِ بَيْنَ فِئَتَيْنِ مِنْ أُمَّتِي، وَقَالَ فِي حَدِيثِ حَمَّادٍ: < وَلَعَلَّ اللَّهَ أَنْ يُصْلِحَ بِهِ بَيْنَ فِئَتَيْنِ مِنَ الْمُسْلِمِينَ عَظِيمَتَيْنِ >۔
* تخريج: خ/الصلح ۹ (۲۷۰۰۴)، المناقب ۲۵ (۳۶۲۹)، فضائل الصحابۃ ۲۲ (۳۷۴۶)، الفتن ۲۰ (۷۱۰۹)، ت/المناقب ۳۱ (۳۷۷۳)، ن/الجمعۃ ۲۷ (۱۴۱۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۶۵۸)، وقد أخرجہ: حم (۵ /۳۷، ۴۴، ۴۹، ۵۱) (صحیح)
۴۶۶۲- ابو بکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حسن بن علی رضی اللہ عنہما کو فرمایا: ’’میرا یہ بیٹا سردار ہے اور مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے میری امت کے دو گروہوں میں صلح کرائے گا‘‘۔
حماد کی روایت میں ہے: ’’شاید اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے مسلمانوں کے دو بڑے گروہوں میں صلح کرائے گا‘‘ ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یہ پیشین گو ئی رسول اللہ ﷺکی اس طرح سچ ثابت ہوئی کہ حسن رضی اللہ عنہ نے معاویہ رضی اللہ عنہ سے صلح کرلی اور ایک عظیم فتنہ کوختم کردیایہ سال اتحادملت کا سال تھا (رضی اللہ عنہم )۔


4663- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ، أَخْبَرَنَا هِشَامٌ، عَنْ مُحَمَّدٍ، قَالَ: قَالَ حُذَيْفَةُ: مَا أَحَدٌ مِنَ النَّاسِ تُدْرِكُهُ الْفِتْنَةُ إِلا أَنَا أَخَافُهَا عَلَيْهِ إِلا مُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَةَ فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < لا تَضُرُّكَ الْفِتْنَةُ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۳۳۸۱) (صحیح)
۴۶۶۳- محمدبن سیرین کہتے ہیں کہ حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا:لوگوں میں کوئی ایسا نہیں جس کوفتنہ پہنچے اور مجھے اس کے فتنے میں پڑنے کاخوف نہ ہو، سوائے محمد بن مسلمہ کے کیونکہ ان کے بارے میں رسول اللہ ﷺنے فرمایا:’’تمہیں کوئی فتنہ ضرر نہ پہنچائے گا‘‘۔


4664- حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مَرْزُوقٍ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنِ الأَشْعَثِ بْنِ سُلَيْمٍ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ ثَعْلَبَةَ ابْنِ ضُبَيْعَةَ، قَالَ: دَخَلْنَا عَلَى حُذَيْفَةَ، فَقَالَ: إِنِّي لأَعْرِفُ رَجُلا لا تَضُرُّهُ الْفِتَنُ شَيْئًا، قَالَ: فَخَرَجْنَا فَإِذَا فُسْطَاطٌ مَضْرُوبٌ، فَدَخَلْنَا، فَإِذَا فِيهِ مُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَةَ، فَسَأَلْنَاهُ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ: مَا أُرِيدُ أَنْ يَشْتَمِلَ عَلَيَّ شَيْئٌ مِنْ أَمْصَارِكُمْ حَتَّى تَنْجَلِيَ عَمَّا انْجَلَتْ ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۳۳۸۱) (صحیح)
(اس کے راوی ’’ ثعلبہ ‘‘ یا ’’ ضبیعہ‘‘ مجہول ہیں لیکن سابقہ حدیث کی تقویت سے صحیح ہے)
۴۶۶۴- ثعلبہ بن ضبیعہ کہتے ہیں کہ ہم حذیفہ رضی اللہ عنہ کے پاس گئے تو آپ نے کہا : میں ایک ایسے شخص کو جانتا ہوں جسے فتنے کچھ بھی ضرر نہ پہنچا سکیں گے، ہم نکلے تو دیکھا کہ ایک خیمہ نصب ہے ، ہم اندر گئے تو اس میں محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ ملے ، ہم نے ان سے پوچھا (کہ آبادی چھوڑ کر خیمہ میں کیوں ہیں؟) تو فرمایا : میں نہیں چاہتا کہ تمہارے شہروں کی کوئی برائی مجھ سے چمٹے، اس لئے جب تک فتنہ فرو نہ ہوجائے اور معاملہ واضح اورصاف نہ ہوجائے شہر کونہیں جاؤں گا۔


4665- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ أَشْعَثَ بْنِ سُلَيْمٍ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ ضُبَيْعَةَ ابْنِ حُصَيْنٍ الثَّعْلَبِيِّ، بِمَعْنَاهُ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۳۳۸۱) (صحیح)
(’’ثعلبہ بن ضبیعہ‘‘ اور’’ ضبیعہ‘‘ بن حصین‘‘ ایک ہی ہیں جو مجہول ہیں اورسابقہ حدیث سے تقویت پاکریہ حدیث صحیح ہے)
۴۶۶۵- ضبیعہ بن حصین ثعلبی سے بھی اسی مفہوم کی حدیث مروی ہے۔


4666- حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْهُذَلِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ، عَنْ يُونُسَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ قَيْسِ بْنِ عَبَّادٍ، قَالَ: قُلْتُ لِعَلِيٍّ رَضِي اللَّه عَنْه: أَخْبِرْنَا عَنْ مَسِيرِكَ هَذَا، أَعَهْدٌ عَهِدَهُ إِلَيْكَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَمْ رَأْيٌ رَأَيْتَهُ؟ فَقَالَ: مَا عَهِدَ إِلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بِشَيْئٍ، وَلَكِنَّهُ رَأْيٌ رَأَيْتُهُ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۲۵۸)، وقد أخرجہ: حم (۱/۱۴۲، ۱۴۸) (صحیح الإسناد)
۴۶۶۶- قیس بن عباد کہتے ہیں کہ میں نے علی رضی اللہ عنہ سے کہا: ہمیں آپ (معاویہ رضی اللہ عنہ سے جنگ کے لئے ) اپنی اس روانگی کے متعلق بتائیے کہ آیا رسول اللہ ﷺ کا کوئی حکم ہے جو انہوں نے آپ کو دیا ہے یا آپ کا اپنا خیال ہے جسے آپ درست سمجھتے ہیں، وہ بو لے : مجھے رسول اللہ ﷺ نے کوئی حکم نہیں دیا بلکہ یہ میری رائے ہے۔


4667- حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ الْفَضْلِ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < تَمْرُقُ مَارِقَةٌ عِنْدَ فُرْقَةٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ يَقْتُلُهَا أَوْلَى الطَّائِفَتَيْنِ بِالْحَقِّ >۔
* تخريج: م/الزکاۃ ۴۷ (۱۰۶۴)، (تحفۃ الأشراف: ۴۴۳۷۰)، وقد أخرجہ: حم (۳/۳۲، ۹۷) (صحیح)
۴۶۶۷- ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’مسلمانوں میں اختلاف کے وقت ایک فرقہ نکلے گا جسے دونوں گروہوں میں سے جو حق سے قریب تر ہوگا قتل کرے گا ‘‘ ۱؎ ۔
وضاحت۱؎ : اس سے مراد فرقہ خوارج ہے جوعلی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے پھر ان سے جداہوکر گمراہی کاشکار ہوئے، علی نے ان سے قتال کیا جس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ معاویہ کے مقابلہ میں علی ؓ حق سے زیادہ قریب تھے،
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
14- بَاب فِي التَّخْيِيرِ بَيْنَ الأَنْبِيَاءِ عَلَيْهِمُ الصَّلاةُ وَالسَّلامُ
۱۴-باب: انبیاء و رسل علیہم السلام کو ایک دوسرے پر فضیلت دینا کیسا ہے؟​


4668- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، حَدَّثَنَا عَمْرٌو -يَعْنِي ابْنَ يَحْيَى- عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ ﷺ : < لا تُخَيِّرُوا بَيْنَ الأَنْبِيَاءِ >۔
* تخريج: خ/الخصومات ۴ (۲۴۱۲)، الأنبیاء ۲۵ (۳۳۹۸)، الدیات ۳۲ (۶۹۱۷)، م/الفضائل (۲۳۷۴)، (تحفۃ الأشراف: ۴۴۰۵)، وقد أخرجہ: حم (۳/۳۱، ۳۳، ۴۰) (صحیح)
۴۶۶۸- ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکر مﷺ نے فرمایا:''نبیوں کو ایک دوسرے پر فضیلت نہ دو'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس کے یہ معنی نہیں کہ انبیاء فضیلت میں برابر ہیں، بلکہ مطلب یہ ہے کہ اپنی طرف سے ایسا مت کرو ، یا مطلب یہ ہے کہ ایک کو دوسرے پر ایسی فضیلت نہ دو کہ دوسرے کی تنقیص لازم آئے، یا یہ ہے کہ نفس نبوت میں سب برابر ہیں، خصائص اور فضائل میں ایک دوسرے پر فوقیت رکھتے ہیں ،جیسا کہ اللہ نے فرمایا:{تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَىْ بَعْضٍ}۔


4669- حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ ، قَالَ: < مَا يَنْبَغِي لِعَبْدٍ أَنْ يَقُولَ إِنِّي خَيْرٌ مِنْ يُونُسَ بْنِ مَتَّى >۔
* تخريج: خ/الأنبیاء ۲۴ (۳۳۹۵)، وتفسیر القرآن ۴ (۴۶۳۰)، م/الفضائل ۴۳ (۲۳۷۷)، (تحفۃ الأشراف: ۵۴۲۱)، وقد أخرجہ: حم (۱/۲۴۲، ۲۵۴، ۳۴۲، ۳۴۸) (صحیح)
۴۶۶۹- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: '' کسی بندے کے لئے درست نہیں کہ وہ کہے کہ میں یونس بن متی سے بہتر ہوں'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس میں اس بات سے منع کیا گیا ہے کہ کوئی شخص اپنے کو یونس علیہ السلام سے افضل کہے، کیونکہ غیر نبی کبھی کسی بھی نبی سے افضل نہیں ہوسکتا، یا یہ کہ یونس علیہ السلام پر نبی اکرمﷺ کو فضیلت دے اس صورت میں آپ کا یہ فرمانا بطور تواضع ہوگا۔


4670- حَدَّثَنَا عَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ يَحْيَى الْحَرَّانِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي حَكِيمٍ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < مَا يَنْبَغِي لِنَبِيٍّ أَنْ يَقُولَ إِنِّي خَيْرٌ مِنْ يُونُسَ ابْنِ مَتَّى >۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۵۲۲۶)، وقد أخرجہ: حم (۱/۲۰۵) (صحیح لغیرہ)
(اس میں محمد بن اسحاق صدوق ہیں ، لیکن سابقہ شاہد کی بناء پر حدیث صحیح ہے)
۴۶۷۰- عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ فرماتے تھے :'' کسی نبی کے لئے یہ کہنا مناسب نہیں کہ میں یونس بن متی سے بہتر ہوں''۔


4671- حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ أَبِي يَعْقُوبَ وَمُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ فَارِسٍ، قَالا: حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ وَعَبْدِالرَّحْمَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَجُلٌ مِنَ الْيَهُودِ: وَالَّذِي اصْطَفَى مُوسَى، فَرَفَعَ الْمُسْلِمُ يَدَهُ فَلَطَمَ وَجْهَ الْيَهُودِيِّ، فَذَهَبَ الْيَهُودِيُّ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَأَخْبَرَهُ، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ : < لا تُخَيِّرُونِي عَلَى مُوسَى؛ فَإِنَّ النَّاسَ يُصْعَقُونَ فَأَكُونُ أَوَّلَ مَنْ يُفِيقُ فَإِذَا مُوسَى بَاطِشٌ فِي جَانِبِ الْعَرْشِ؛ فَلا أَدْرِي أَكَانَ مِمَّنْ صَعِقَ فَأَفَاقَ قَبْلِي، أَوْ كَانَ مِمَّنِ اسْتَثْنَى اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ>.
قَالَ أَبو دَاود: وَحَدِيثُ بْنِ يَحْيَى أَتَمّ۔
* تخريج: خ/الخصومات ۱ (۲۴۱۲)، الأنبیاء ۳۲ (۲۳۹۸)، التفسیر ۴ (۴۶۳۸)، والرقاق ۴۳ (۶۵۱۷)، التوحید ۳۱ (۷۴۷۲)، م/الفضائل ۴۲ (۲۳۷۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۹۵۶)، وقد أخرجہ: ت/تفسیر القرآن ۴۰ (۳۲۴۵)، حم (۲/۲۶۴) (صحیح)
۴۶۷۱- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ یہود کے ایک شخص نے کہا: قسم اس ذات کی جس نے موسی علیہ السلام کو چن لیا، یہ سن کرمسلمان نے یہودی کے چہرہ پر طمانچہ رسید کر دیا، یہودی رسول اللہ ﷺ کے پاس گیا اور اس کی شکایت کی تو آپ نے فرمایا: '' مجھے موسیٰ علیہ السلام پر فضیلت نہ دو،(پہلا صور پھونکنے سے) سب لوگ بے ہوش ہوجائیں گے تو سب سے پہلے میں ہوش میں آؤں گا، اس وقت موسیٰ علیہ السلام عرش کا ایک کنارا مضبوطی سے پکڑے ہوئے ہوں گے، تو مجھے نہیں معلوم کہ آیا وہ ان لوگوں میں سے تھے جو بے ہوش ہو گئے تھے اور مجھ سے پہلے ہوش میں آگئے، یا ان لوگوں میں سے تھے جنہیں اللہ نے بے ہوش ہونے سے محفوظ رکھا '' ۱؎ ۔
ابو داود کہتے ہیں: ابن یحییٰ کی حدیث زیادہ کامل ہے۔
وضاحت ۱؎ : چونکہ اس یہودی نے موسیٰ علیہ السلام کو تمام عالم سے افضل قرار دیا تھا اس لئے مسلمان نے اُسے طمانچہ رسید کر دیا، رسول اکرم ﷺ نے جس چیز سے منع کیا وہ انبیاء کرام علیہم السلام کو ایک دوسرے پر حمیت وعصبیت کی بنا پر فضیلت دینا ہے، ورنہ اس میں شک نہیں کہ نبی اکرمﷺ موسیٰ علیہ السلام سے افضل ہیں، آپ نے موسیٰ علیہ السلام کے بے ہوش نہ ہونے وغیرہ کی بات صرف اس لئے فرمائی کہ ہر نبی کواللہ نے کچھ خصوصیات عنایت فرمائی ہیں، لیکن ان کی بنیاد پر دوسرے انبیاء کی کسر شان درست نہیں، ہمارے لئے سارے انبیاء علیہ السلام قابل احترام ہیں۔


4672- حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ مُخْتَارِ بْنِ فُلْفُلٍ، يَذْكُرُ عَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَجُلٌ لِرَسُولِ اللَّهِ ﷺ : يَا خَيْرَ الْبَرِيَّةِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < ذَاكَ إِبْرَاهِيمُ >۔
* تخريج: م/الفضائل ۴۱ (۲۳۶۹)، ت/تفسیر البینۃ ۸۶ (۳۳۵۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۷۴)، وقد أخرجہ: حم (۳/۱۷۸، ۱۸۴) (صحیح)
۴۶۷۲- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ کو کہا: اے مخلوق میں سے سب سے بہتر! تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''یہ شان تو ابراہیم علیہ السلام کی ہے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ممکن ہے خیرالبریۃ ابراہیم علیہ السلام کالقب ہو،یا وہ اپنے زمانہ کے سب سے بہتر تھے،آپ نے ازراہ انکسار ایسا فرمایا ورنہ آپ یقینا خیرالبریۃ ہیں۔


4673- حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ، عَنِ الأَوْزَاعِيِّ، عَنْ أَبِي عَمَّارٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ ابْنِ فَرُّوخَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < أَنَا سَيِّدُ وَلَدِ آدَمَ، وَأَوَّلُ مَنْ تَنْشَقُّ عَنْهُ الأَرْضُ، وَأَوَّلُ شَافِعٍ، وَأَوَّلُ مُشَفَّعٍ >۔
* تخريج: م/ الفضائل ۲ (۲۲۷۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۵۸۶)، وقد أخرجہ: حم (۱/۱۹۵، ۲۸۱) (صحیح)
۴۶۷۳- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''میں اولاد آدم کا سردار ہوں، اور میں سب سے پہلا شخص ہوں جو اپنی قبر سے باہر آئے گا، سب سے پہلے سفارش کر نے والا ہوں اورمیری ہی سفارش سب سے پہلے قبول ہوگی''۔


4674- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُتَوَكِّلِ الْعَسْقَلانِيُّ وَمَخْلَدُ بْنُ خَالِدٍ الشَّعِيرِيُّ، الْمَعْنَى، قَالا: حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < مَا أَدْرِي أَتُبَّعٌ لَعِينٌ هُوَ أَمْ لا، وَمَا أَدْرِي أَعُزَيْرٌ نَبِيٌّ هُوَ أَمْ لا >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۰۳۳) (صحیح)
۴۶۷۴- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''مجھے نہیں معلوم کہ تبع قابل ملامت ہے یا نہیں، اور نہ مجھے یہ معلوم ہے کہ عزیر نبی ہیں یا نہیں '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : تبع کے بارے میں یہ فرمان آپ ﷺ کا اس وقت کا ہے جب آپ کو اس کے بارے میں نہیں بتایا گیا تھا، بعد میں آپ کو بتا دیا گیا کہ وہ ایک مرد صالح تھے۔


4675- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ [قَالَ: أَخْبَرَنِي يُونُسُ]، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، أَنَّ أَبَا سَلَمَةَ بْنَ عَبْدِالرَّحْمَنِ أَخْبَرَهُ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < أَنَا أَوْلَى النَّاسِ بِابْنِ مَرْيَمَ، الأَنْبِيَاءُ أَوْلادُ عَلَّاتٍ، وَلَيْسَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ نَبِيٌّ >۔
* تخريج: م/الفضائل ۴۰ (۲۳۶۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۳۲۴)، وقد أخرجہ: خ/أحادیث الأنبیاء ۴۸ (۳۴۴۲)، حم (۲/۴۸۲، ۵۴۱) (صحیح)
۴۶۷۵- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : ''میں ابن مریم سے لوگوں میں سب سے زیادہ قریب ہوں، انبیاء علیہم السلام علاتی بھائی ہیں، میرے اور ان کے درمیان کوئی نبی نہیں'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : انبیاء علیہم السلام علاتی بھائی ہیں، علاتی بھائی وہ ہوتے ہیں جن کی مائیں مختلف ہوں اور باپ ایک ہو، انبیاء کی شریعتیں مختلف اور دین ایک تھا ،یا یہ مراد ہے کہ زمانے مختلف ہیں اور دین ایک ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
15- بَاب فِي رَدِّ الإِرْجَاءِ
۱۵-باب: إرجاء کی تردیدکا بیان ۱؎​


4676- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، أَخْبَرَنَا سُهَيْلُ بْنُ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ ابْنِ دِينَارٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: <الإِيمَانُ بِضْعٌ وَسَبْعُونَ، أَفْضَلُهَا قَوْلُ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، وَأَدْنَاهَا إِمَاطَةُ الْعَظْمِ عَنِ الطَّرِيقِ، وَالْحَيَاءُ شُعْبَةٌ مِنَ الإِيمَانِ >۔
* تخريج: خ/الإیمان ۳ (۹)، م/الإیمان ۱۲ (۳۵)، ت/الإیمان ۶ (۲۶۱۴)، ن/الإیمان ۱۶ (۵۰۰۷، ۵۰۰۸، ۵۰۰۹)، ق/المقدمۃ ۹ (۵۷) ، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۸۱۶)، وقد أخرجہ: حم (۲/۴۱۴، ۴۴۲، ۴۴۵) (صحیح)
۴۶۷۶- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ایمان کی ستر سے کچھ زیادہ شاخیں ہیں، ان میں سب سے افضل ’’لا إله إلا الله‘‘ کہنا، اور سب سے کم تر راستے سے ہڈی ہٹانا ۲؎ہے، اور حیا ایمان کی ایک شاخ ہے‘‘ ۳؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ارجاء کے معنی تاخیر کے ہیں اسی سے فرقہ مرجئہ ہے جس کاعقیدہ ہے کہ ایمان کے ساتھ کوئی معصیت نقصان دہ نہیں، اور کفر کے ساتھ کوئی نیکی نفع بخش نہیں، یہ قدیم گمراہ فرقوں میں سے ایک ہے، اس کی تردیدمیں محدثین کرام نے مستقل کتابیں لکھی ہیں، اس کتاب میں بھی ان کاردوابطال مقصود ہے، ان کے نزدیک اعمال ایمان کاجزء نہیں، بلکہ ایمان محض تصدیق اوراقرار کا نام ہے، جب کہ اہل سنت واہل حدیث کے یہاں ایمان کے ارکان تین ہیں ، دل سے تصدیق، زبان سے اقرار، اور اعضاء و جوارح سے عملی ثبوت فراہم کرنا۔
وضاحت ۲؎ : بعض نسخوں میں عظم کے بجائے اذی کالفظ ہے گویا کوئی بھی تکلیف دہ چیز ۔
وضاحت۳؎ : حدیث سے ظاہر ہے کہ اعمال صالحہ سے مومن کوفائدہ اور اعمال بد سے نقصان اور ضرر ہوتا ہے، جب کہ مرجئہ کہتے ہیں کہ اعمال ایمان میں داخل نہیں۔


4677- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ شُعْبَةَ، حَدَّثَنِي أَبُوجَمْرَةَ قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ قَالَ: إِنَّ وَفْدَ عَبْدِالْقَيْسِ لَمَّا قَدِمُوا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ أَمَرَهُمْ بِالإِيمَانِ بِاللَّهِ، قَالَ: < أَتَدْرُونَ مَا الإِيمَانُ بِاللَّهِ؟ > قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: < شَهَادَةُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، وَإِقَامُ الصَّلاةِ وَإِيتَاءُ الزَّكَاةِ، وَصَوْمُ رَمَضَانَ، وَأَنْ تُعْطُوا الْخُمْسَ مِنَ الْمَغْنَمِ >۔
* تخريج: خ/الإیمان ۴۰ (۵۳)، العلم ۲۵ (۸۷)، المواقیت ۲ (۵۲۳)، الزکاۃ ۱ (۱۳۹۸)، فرض الخمس ۲ (۳۰۹۵)، المناقب ۵ (۳۵۱۰)، المغازي ۶۹ (۴۳۶۸)، الأدب ۹۸ (۶۱۷۶)، خبر الواحد ۵ (۷۲۶۶)، التوحید ۵۶ (۷۵۵۶)، م/الإیمان ۶ (۱۷)، الأشربۃ ۶ (۱۹۹۵)، ت/السیر ۳۹ (۱۵۹۹)، الإیمان ۵ (۲۶۱۱)، ن/الإیمان ۲۵ (۵۰۳۶)، (تحفۃ الأشراف: ۶۵۲۴)، وقد أخرجہ: حم (۱ /۱۲۸، ۲۷۴، ۲۹۱، ۳۰۴، ۳۳۴، ۳۴۰، ۳۵۲، ۳۶۱)، وقد مضی ہذا الحدیث برقم : (۳۶۹۲) (صحیح)
۴۶۷۷- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ عبدالقیس کا وفد جب رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا تو آپ نے انہیں ایمان باللہ کا حکم دیا اور پوچھا:’’ کیا تم جانتے ہو:ایمان باللہ کیا ہے؟‘‘، وہ بولے: اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اس بات کی شہادت دینی کہ اللہ کے سواکوئی معبود برحق نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں ، صلاۃ کی اقامت، زکاۃ کی ادائیگی، رمضان کے صیام رکھنا،اور مال غنیمت میں سے پانچواں حصہ اداکرو‘‘۔


4678- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < بَيْنَ الْعَبْدِ وَبَيْنَ الْكُفْرِ تَرْكُ الصَّلاةِ >۔
* تخريج: ت/الإیمان ۹ (۲۶۲۰)، ق/إقامۃ الصلاۃ ۷۷ (۱۰۷۸)، حم (۳/۳۷۰، ۳۸۹)، (تحفۃ الأشراف: ۲۷۴۶)، وقد أخرجہ: م/الإیمان ۳۵ (۸۲) (صحیح)
۴۶۷۸- جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’بندے اور کفر کے درمیان حدفاصل صلاۃ کا تر ک کرناہے ‘‘ ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی کفر اور بندے میں صلاۃ حد فاصل ہے، اگر صلاۃ اداکرتا ہے تو صاحب ایمان ہے، نہیں ادا کرتا ہے توکافر ہے،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کسی عمل کے ترک کوکفر نہیں خیال کرتے تھے سوائے صلاۃ کے،عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:’’صلاۃ کاترک کرناکفر ہے‘‘،عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اس کااسلام سے کوئی تعلق نہیں جوصلاۃ چھوڑدے،امام شا فعی رحمہ اللہ کہتے ہیں: تارک صلاۃ مرتد ہے اگرچہ دین سے خارج نہیں ہوتا،اصحاب الرای کامذہب ہے کہ اس کو قیدکیاجائے تاوقتیکہ صلاۃ پڑھنے لگے، امام احمد بن حنبل، اور امام اسحاق بن راہویہ، اور ائمہ کی ایک بڑی جماعت تارک صلاۃ کو کافرکہتی ہے، اس لئے ہرمسلمان کو اپنے ایمان کی حفاظت کے لئے صلاۃ کا سخت اہتمام کرنا چاہئے، اور عام لوگوں میں اس عظیم عبادت ،اور اسلامی رکن کی اہمیت کی تبلیغ کرنی چاہئے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
16- بَاب الدَّلِيلِ عَلَى زِيَادَةِ الإِيمَانِ وَنُقْصَانِهِ
۱۶-باب: ایمان کی کمی اور زیادتی کے دلائل کا بیان​


4679- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ بَكْرِ بْنِ مُضَرَ، عَنِ ابْنِ الْهَادِ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ قَالَ: < مَا رَأَيْتُ مِنْ نَاقِصَاتِ عَقْلٍ وَلادِينٍ أَغْلَبَ لِذِي لُبٍّ مِنْكُنَّ > قَالَتْ: وَمَا نُقْصَانُ الْعَقْلِ وَالدِّينِ؟ قَالَ: < أَمَّا نُقْصَانُ الْعَقْلِ فَشَهَادَةُ امْرَأَتَيْنِ شَهَادَةُ رَجُلٍ، وَأَمَّا نُقْصَانُ الدِّينِ فَإِنَّ إِحْدَاكُنَّ تُفْطِرُ رَمَضَانَ وَتُقِيمُ أَيَّامًا لا تُصَلِّي >۔
* تخريج: م/الإیمان ۳۴ (۷۹)، ق/الفتن ۱۹ (۴۰۰۳)، (تحفۃ الأشراف: ۷۲۶۱)، وقد أخرجہ: حم (۲/۶۶) (صحیح)
۴۶۷۹- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''عقل اور دین میں ناقص ہوتے ہوئے عقل والے پر غلبہ پانے والا میں نے تم عورتوں سے زیادہ کسی کو نہیں دیکھا''، ( ایک عورت) نے کہا: عقل اور دین میں کیا نقص ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ''عقل کا نقص تو یہ ہے کہ دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کی گواہی کے برابر ہوتی ہے، اور دین کا نقص یہ ہے کہ (حیض ونفاس میں) تم میں کوئی نہ صیام رکھتی ہے اور نہ صلاۃ پڑھتی ہے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : چونکہ اعمال ایمان میں داخل ہیں اس مدت میں صلاۃ و صیام کے ترک سے ایمان میں نقص ثابت ہوا۔


4680- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سُلَيْمَانَ الأَنْبَارِيُّ وَعُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، الْمَعْنَى، قَالا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: لَمَّا تَوَجَّهَ النَّبِيُّ ﷺ إِلَى الْكَعْبَةِ قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ! فَكَيْفَ الَّذِينَ مَاتُوا وَهُمْ يُصَلُّونَ إِلَى بَيْتِ الْمَقْدِسِ؟ فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: {وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ}۔
* تخريج: ت/تفسیرالقرآن ۳ (۲۹۶۴)، (تحفۃ الأشراف: ۶۱۰۸)، وقد أخرجہ: حم (۱/۲۹۵، ۳۰۴، ۳۴۷) (صحیح)
(صحیح بخاری کی براء رضی اللہ عنہ کی حدیث سے تقویت پا کر یہ روایت بھی صحیح ہے، ورنہ عکرمہ سے سماک کی روایت میں اضطراب پایا جاتا ہے)
۴۶۸۰- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جب(صلاۃ میں) نبی اکرمﷺ نے کعبہ کی طرف رخ کرنا شروع کیا تو لوگ کہنے لگے: اللہ کے رسول! ان لوگوں کا کیا ہو گا جو مر گئے ، اور وہ بیت المقدس کی طرف صلاۃ پڑھتے تھے؟ تو اللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرمائی {وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ} ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ''ایسا نہیں ہے کہ اللہ تمہارے ایمان یعنی صلاۃ ضائع فرمادے'' (البقرۃ : ۱۴۳)، اس آیت میں صلاۃ کو اللہ تعالیٰ نے ایمان قرار دیا ہے، کیونکہ سوال ان صلاتوں کے بارے میں تھا جو بیت اللہ کی طرف رخ کرنے سے پہلے بیت المقدس کی طرف رخ کرکے اداکی گئی تھیں، اور بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم انتقال بھی کرچکے تھے تو اللہ نے فرمایا:بیت المقدس کی طرف رخ کرکے پڑھی گئی صلاتیں ضائع نہیں کرے گا، پس ایمان سے مراد صلاۃ ہے۔


4681- حَدَّثَنَا مُؤَمَّلُ بْنُ الْفَضْلِ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ شُعَيْبِ بْنِ شَابُورَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ الْحَارِثِ، عَنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ أَنَّهُ قَالَ: < مَنْ أَحَبَّ لِلَّهِ وَأَبْغَضَ لِلَّهِ وَأَعْطَى لِلَّهِ وَمَنَعَ لِلَّهِ فَقَدِ اسْتَكْمَلَ الإِيمَانَ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۴۹۰۳) (صحیح)
۴۶۸۱- ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جس نے اللہ ہی کے رضا کے لئے محبت کی ، اللہ ہی کے رضا کے لئے دشمنی کی ، اللہ ہی کے رضا کے لئے دیا ، اللہ ہی کے رضا کے لئے منع کر دیا تو اس نے اپنا ایمان مکمل کر لیا '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث میں اعمال کو ایمان کی تکمیل کا سبب قرار دیا گویا ان اعمال کی کمی ایمان کی کمی ٹھہری، پتہ چلا ایمان گھٹتا بڑھتا ہے۔


4682- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < أَكْمَلُ الْمُؤْمِنِينَ إِيمَانًا أَحْسَنُهُمْ خُلُقًا >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۱۰۹)، وقد أخرجہ: ت/الرضاع ۱۱ (۱۱۶۲)، حم (۲/۴۷۲، ۵۲۷) (حسن صحیح)
۴۶۸۲- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''مومنوں میں سب سے کامل ایمان والا وہ ہے جو ان میں سب سے بہتر اخلاق والا ہے''۔


4683- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ ثَوْرٍ، عَنْ مَعْمَرٍ، قَالَ: وَأَخْبَرَنِي الزُّهْرِيُّ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: أَعْطَى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ رِجَالا وَلَمْ يُعْطِ رَجُلا مِنْهُمْ شَيْئًا، فَقَالَ سَعْدٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَعْطَيْتَ فُلانًا وَفُلانًا وَلَمْ تُعْطِ فُلانًا شَيْئًا وَهُوَ مُؤْمِنٌ؟ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ : < أَوْ مُسْلِمٌ > حَتَّى أَعَادَهَا سَعْدٌ ثَلاثًا، وَالنَّبِيُّ ﷺ يَقُولُ: < أَوْ مُسْلِمٌ > ثُمَّ قَالَ النَّبِيُّ ﷺ : < إِنِّي أُعْطِي رِجَالا وَأَدَعُ مَنْ هُوَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْهُمْ لاأُعْطِيهِ شَيْئًا، مَخَافَةَ أَنْ يُكَبُّوا فِي النَّارِ عَلَى وُجُوهِهِمْ >۔
* تخريج: خ/الإیمان ۱۹(۲۷)، الزکاۃ ۵۳ (۱۴۷۸)، م/الإیمان ۶۷ (۱۵۰)، الزکاۃ ۴۵ (۱۵۰)، ن/الإیمان وشرائعہ ۷ (۴۹۹۵)، (تحفۃ الأشراف: ۳۸۹۱) (صحیح)
۴۶۸۳- سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے کچھ لوگوں کو دیا اور ان میں سے ایک شخص کو کچھ نہیں دیا تو سعد نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ نے فلاں اور فلاں کو دیا لیکن فلاں کو کچھ بھی نہیں دیا حالانکہ وہ مومن ہے، تو آپ ﷺ نے فرمایا:''یا مسلم ہے''، سعد نے تین بار یہی عرض کیا اور نبی اکرمﷺ کہتے رہے:'' یا مسلم ہے''، پھر آپ نے فرمایا: ''میں بعض لوگوں کو دیتا ہوں اور ان میں تجھے جو زیادہ محبوب ہے اسے چھوڑ دیتا ہوں ، میں اسے کچھ بھی نہیں دیتا، ایسا اس اندیشے سے کہ کہیں وہ جہنم میں اوندھے منہ نہ ڈال دیئے جائیں '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : کیونکہ یہ شخص پکا سچا مومن ہے اگر میں اس کو نہ دوں گا تو بھی اس کے ایمان میں کوئی فرق نہیں پڑے گا، لیکن یہ لوگ جن کو دیتا ہوں ناقص ایمان والے ہیں نہ دوں گا توان کے ایمان میں فرق پڑے گا کہ ان کا ایمان ابھی پختہ نہیں، لہٰذا مصلحتا میں ایسا کرتا ہوں، پتہ چلا ایمان گھٹتا بڑھتا ہے۔


4684- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ ثَوْرٍ، عَنْ مَعْمَرٍ، قَالَ: وَقَالَ الزُّهْرِيُّ: {قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلَكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنَا} قَالَ: نَرَى أَنَّ الإِسْلامَ الْكَلِمَةُ وَالإِيمَانَ الْعَمَلُ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۹۳۷۷) (صحیح الإسناد)
۴۶۸۴- ابن شہاب زہری آیت کریمہ {قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلَكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنَا} ۱؎ کی تفسیر میں کہتے ہیں: ہم سمجھتے ہیں کہ(اس آیت میں) اسلام سے مراد زبان سے کلمے کی ادائیگی اور ایمان سے مراد عمل ہے ۔
وضاحت ۱؎ : ''آپ کہہ دیجئے تم ایمان نہیں لائے بلکہ یوں کہو کہ مسلمان ہوئے'' (سورۃ الحجرات : ۱۴)


4685- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ(ح) و حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، الْمَعْنَى، قَالا: حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَسَمَ بَيْنَ الْمُسْلِمِينَ قَسْمًا، فَقُلْتُ: أَعْطِ فُلانًا فَإِنَّهُ مُؤْمِنٌ، قَالَ: <أَوْ مُسْلِمٌ، إِنِّي لأُعْطِي الرَّجُلَ الْعَطَاءَ وَغَيْرُهُ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْهُ، مَخَافَةَ أَنْ يُكَبَّ عَلَى وَجْهِهِ >۔
* تخريج: انظر حدیث رقم : (۴۶۸۳)، (تحفۃ الأشراف: ۳۸۹۱) (صحیح)
۴۶۸۵- سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے مسلمانوں میں کچھ تقسیم فرمایا تو میں نے عرض کیا: فلاں کو بھی دیجئے ، وہ بھی مومن ہے،آپ ﷺ نے فرمایا:''یا مسلم ہے، میں ایک شخص کو کچھ عطا کرتا ہوں حالانکہ اس کے علاوہ دوسرا مجھے اس سے زیادہ محبوب ہوتا ہے(جس کو نہیں دیتا) اس اندیشے سے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ میں اس کو نہ دوں تو وہ اوندھے منہ(جہنم میں) ڈال دیا جائے''۔


4686- حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: وَاقِدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ أَخْبَرَنِي، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ سَمِعَ ابْنَ عُمَرَ يُحَدِّثُ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ قَالَ: < لا تَرْجِعُوا بَعْدِي كُفَّارًا يَضْرِبُ بَعْضُكُمْ رِقَابَ بَعْضٍ >۔
* تخريج:خ/المغازي ۷۷ (۴۴۰۲)، الأدب ۹۵ (۶۱۶۶)، الحدود ۹ (۶۷۸۵)، الدیات ۲ (۶۸۶۸)، الفتن ۸ (۷۰۷۷)، م/الإیمان ۲۹ (۶۶)، ن/المحاربۃ ۲۵ (۴۱۳۰)، ق/الفتن ۵ (۲۹۴۳)، (تحفۃ الأشراف: ۷۴۱۸)، وقد أخرجہ: حم (۲/۸۵، ۸۷، ۱۰۴، ۱۳۵) (صحیح)
۴۶۸۶- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ''تم لوگ میرے بعد کافر نہ ہو جانا کہ تم میں سے بعض بعض کی گردن مارنے لگے '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث میں ایک دوسرے کی گردن مارنے کو ایمان کے منافی قرار دیا،حدیث کا معنی یہ ہے کہ: میرے بعد فرقہ بندی میں پڑ کر ایک دوسرے کی گردن مت مارنے لگ جانا کہ یہ کام کافروں کے مشابہ ہے کیونکہ کافر آپس میں دشمن اور مومن آپس میں بھائی ہیں۔


4687- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ فُضَيْلِ بْنِ غَزْوَانَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < أَيُّمَا رَجُلٍ مُسْلِمٍ أَكْفَرَ رَجُلا مُسْلِمًا: فَإِنْ كَانَ كَافِرًا، وَإِلاكَانَ هُوَ الْكَافِرُ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۸۲۵۴)، وقد أخرجہ: خ/الأدب ۷۳ (۶۱۰۴)، م/الإیمان ۲۶ (۱۱۱)، ت/الإیمان ۱۶ (۱۲۳۷)، حم (۲/۲۳، ۶۰) (صحیح)
۴۶۸۷- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جو مسلمان کسی مسلمان کو کافر قرار دے تو اگر وہ کافر ہے ( تو کوئی بات نہیں ) ورنہ وہ (قائل) خود کافر ہوجائے گا''۔


4688- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ ابْنِ مُرَّةَ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : <أَرْبَعٌ مَنْ كُنَّ فِيهِ فَهُوَ مُنَافِقٌ خَالِصٌ، وَمَنْ كَانَتْ فِيهِ خَلَّةٌ مِنْهُنَّ كَانَ فِيهِ خَلَّةٌ مِنْ نِفَاقٍ حَتَّى يَدَعَهَا: إِذَا حَدَّثَ كَذَبَ، وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ، وَإِذَا عَاهَدَ غَدَرَ، وَإِذَا خَاصَمَ فَجَرَ >۔
* تخريج: خ/الإیمان ۲۴ (۳۴)، المظالم ۱۷ (۲۴۵۹)، الجزیۃ ۱۷ (۳۱۷۸)، م/الإیمان ۲۵ (۵۸)، ت/الإیمان ۱۴ (۲۶۳۲)، ن/الإیمان وشرائعہ۲۰ (۵۰۲۳)، (تحفۃ الأشراف: ۸۹۳۱)، وقد أخرجہ: حم (۲/۱۸۹، ۱۹۸، ۲۰۰) (صحیح)
۴۶۸۸- عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''چار خصلتیں جس میں ہوں وہ خالص منافق ہے اور جس میں ان میں سے کوئی ایک خصلت ہو تو اس میں نفاق کی ایک خصلت ہے یہاں تک کہ وہ اسے چھوڑ دے: جب بات کرے تو جھوٹ بولے ، وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے ، معاہدہ کرے تو اس کو نہ نبھائے، اگر کسی سے جھگڑا کرے تو گالی گلوج دے ''۔


4689- حَدَّثَنَا أَبُو صَالِحٍ الأَنْطَاكِيُّ، أَخْبَرَنَا أَبُو إِسْحَاقَ الْفَزَارِيُّ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < لا يَزْنِي الزَّانِي حِينَ يَزْنِي وَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَلايَسْرِقُ حِينَ يَسْرِقُ وَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَلا يَشْرَبُ الْخَمْرَ حِينَ يَشْرَبُهَا وَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَالتَّوْبَةُ مَعْرُوضَةٌ بَعْدُ >۔
* تخريج: خ/المظالم ۳۰ (۲۴۷۵)، الأشربۃ ۱ (۵۵۷۸)، الحدود ۱ (۶۷۷۲)، م/الإیمان ۲۳ (۵۷)، ت/الإیمان ۱۱ (۲۶۲۵)، ن/قطع السارق ۱ (۴۸۷۴)، الأشربۃ ۴۲ (۵۶۶۲، ۵۶۶۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۸۶۳، ۱۲۴۸۹)، وقد أخرجہ: دي/الأشربۃ ۱۱ (۲۱۵۲)، الأضاحی ۲۳ (۲۰۳۷) (صحیح)
۴۶۸۹- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''زانی زنا کے وقت مومن نہیں رہتا، چور چوری کے وقت مومن نہیں رہتا، شرابی شراب پیتے وقت مومن نہیں رہتا (یعنی ایمان اس سے جدا ہو جاتا ہے پھر بعد میں واپس آجاتا ہے) توبہ کا دروازہ اس کے بعد بھی کھلا ہوا ہے''(یعنی اگر توبہ کرلے تو توبہ قبول ہو جائے گی اللہ بخشنے والا ہے) ۱؎ ۔


4690- حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ سُوَيْدٍ الرَّمْلِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ -يَعْنِي ابْنَ زَيْدٍ- قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ الْهَادِ، أَنَّ سَعِيدَ بْنَ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيَّ حَدَّثَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < إِذَا زَنَى الرَّجُلُ خَرَجَ مِنْهُ الإِيمَانُ كَانَ عَلَيْهِ كَالظُّلَّةِ، فَإِذَا انْقَطَعَ رَجَعَ إِلَيْهِ الإِيمَانُ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۰۷۹) (صحیح)
۴۶۹۰- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ : رسول اللہ ﷺ نے فر مایا: ''جب آدمی زنا کرتا ہے تو ایمان اس سے نکل جاتا ہے اور بادل کے ٹکڑے کی طرح اس کے اوپر لٹکا رہتا ہے، پھر جب زنا سے الگ ہوتا ہے تو دوبارہ ایمان اس کی طرف لوٹ آتا ہے''۔
 
شمولیت
مارچ 14، 2013
پیغامات
22
ری ایکشن اسکور
54
پوائنٹ
19
* تخريج: ت/الصوم ۳۸ (۷۳۸)، ق/الصیام ۵ (۱۶۵۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۰۵۱)، وقد أخرجہ: دي/الصوم ۳۴ (۱۷۸۱) (صحیح)
مجھے سمجھ نہیں آئی یہ ریفرنس کے ساتھ "تخریج" کیوں لکھا ہے ؟؟؟ کیا ان احادیث کی تخریج ہی ہے ؟؟؟؟؟؟ براہ مہربانی واضح کر دیں
 
Top