• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابو داود

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
142-بَاب الإِعَادَةِ مِنَ النَّجَاسَةِ تَكُونُ فِي الثَّوْبِ
۱۴۲- باب: نجس کپڑے میں ادا کی جانے والی صلاۃ کے دوہرانے کا بیان​


388- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ فَارِسٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَارِثِ، حَدَّثَتْنَا أُمُّ يُونُسَ بِنْتُ شَدَّادٍ، قَالَتْ: حَدَّثَتْنِي حَمَاتِي أُمُّ جَحْدَرٍ الْعَامِرِيَّةُ أَنَّهَا سَأَلَتْ عَائِشَةَ عَنْ دَمِ الْحَيْضِ يُصِيبُ الثَّوْبَ، فَقَالَتْ: كُنْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم وَعَلَيْنَا شِعَارُنَا، وَقَدْ أَلْقَيْنَا فَوْقَهُ كِسَائً، فَلَمَّا أَصْبَحَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم أَخَذَ الْكِسَاءَ فَلَبِسَهُ ثُمَّ خَرَجَ فَصَلَّى الْغَدَاةَ، ثُمَّ جَلَسَ، فَقَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! هَذِهِ لُمْعَةٌ مِنْ دَمٍ، فَقَبَضَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم عَلَى مَا يَلِيهَا فَبَعَثَ بِهَا إِلَيَّ مَصْرُورَةً فِي يَدِ الْغُلامِ، فَقَالَ: < اغْسِلِي هَذِهِ وَأَجِفِّيهَا ثُمَّ أَرْسِلِي بِهَا إِلَيَّ > فَدَعَوْتُ بِقَصْعَتِي فَغَسَلْتُهَا ثُمَّ أَجْفَفْتُهَا فَأَحَرْتُهَا إِلَيْهِ، فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم بِنِصْفِ النَّهَارِ وَهِيَ عَلَيْهِ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۹۷۷)، وقد أخرجہ: حم (۶/۲۵۰) (ضعیف)

(اس کی دو راویہ’’ام جحدر‘‘اور’’ام یونس‘‘ مجہول ہیں)
۳۸۸- ام یونس بنت شدّاد کہتی ہیں کہ میری ساس اُم جحدر عامریہ نے مجھ سے بیان کیا کہ انہوں نے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے کپڑ ے میں لگ جانے والے حیض کے خون کے بارے میں پوچھا تو آپ نے کہا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھی اور ہم اپنا شعار (اندر کا کپڑا) پہنے ہوئے تھے، اس کے اوپر سے ہم نے ایک کمبل ڈال لیا تھا، جب صبح ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کمبل کو اوڑھ کر (صلاۃ کے لئے) چلے گئے اور صبح کی صلاۃ پڑھی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے تو ایک شخص نے کہا : اللہ کے رسول! یہ خون کا نشان ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے آس پاس کے حصہ کو مٹھی سے پکڑ کر غلام کے ہاتھ میں دے کر اسی طرح میرے پاس بھیجا اور فرمایا: ’’اسے دھو کراور سکھا کر میرے پاس بھیج دو‘‘، چنانچہ میں نے پانی کا اپنا پیالہ منگا کر اس کو دھویا پھر سکھایا، اس کے بعد آپ کے پاس واپس بھجوا دیا ، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دوپہر کے وقت وہی کمبل اوڑھے تشریف لائے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
143- بَاب الْبُصَاقِ يُصِيبُ الثَّوْبَ
۱۴۳ - باب: کپڑے میں تھوک لگ جائے تو کیا حکم ہے ؟​


389- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، أَخْبَرَنَا ثَابِتٌ الْبُنَانِيُّ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ قَالَ: بَزَقَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فِي ثَوْبِهِ وَحَكَّ بَعْضَهُ بِبَعْضٍ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود (تحفۃ الأشراف: ۶۱۸، ۱۹۴۹۲)، وقد أخرجہ: خ/الصلاۃ ۳۳ (۴۰۵)، ۳۹ (۴۱۷)، ن/الطھارۃ ۱۹۳ (۳۰۹)، ق/الصلاۃ ۶۱ (۱۰۲۴) (صحیح)

۳۸۹- ابونضرہ ( منذر بن مالک ) رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے کپڑے میں تھوکا اور اسی میں مل لیا ۔

390- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ قَالَ : ثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ عَنِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم بِمِثْلِهِ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۶۱۸) (صحیح)

۳۹۰- انس رضی اللہ عنہ نے اسی طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرفوعاً بیان کیا ہے ۔

* * * * *
* * *
*​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
صلاۃ کے احکام و مسائل

{ 2- كِتَابُ الصَّلاةِ }
۲-کتاب: صلاۃ کے احکام ومسائل


1- بَاب فَرْضِ الصَّلاةِ
۱ -باب: صلاۃ کی فرضیت کا بیان​


391- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ [عَمِّهِ] أَبِي سُهَيْلِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ سَمِعَ طَلْحَةَ بْنَ عُبَيْدِاللَّهِ يَقُولُ: جَائَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم مِنْ أَهْلِ نَجْدٍ ثَائِرَ الرَّأْسِ يُسْمَعُ دَوِيُّ صَوْتِهِ وَلا يُفْقَهُ مَا يَقُولُ، حَتَّى دَنَا فَإِذَا هُوَ يَسْأَلُ عَنِ الإِسْلامِ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم : <خَمْسُ صَلَوَاتٍ فِي الْيَوْمِ وَاللَّيْلَةِ> قَالَ: هَلْ عَلَيَّ غَيْرُهُنَّ؟ قَالَ: <لا، إِلا أَنْ تَطَّوَّعَ>، قَالَ: وَذَكَرَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم صِيَامَ شَهْرِ رَمَضَانَ، قَالَ: هَلْ عَلَيَّ غَيْرُهُ؟ قَالَ: <لا، إِلا أَنْ تَطَّوَّعَ >، قَالَ: وَذَكَرَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم الصَّدَقَةَ، قَالَ: فَهَلْ عَلَيَّ غَيْرُهَا؟ قَالَ: < لا، إِلا أَنْ تَطَّوَّعَ >، فَأَدْبَرَ الرَّجُلُ وَهُوَ يَقُولُ: وَاللَّهِ، لا أَزِيدُ عَلَى هَذَا وَلا أَنْقُصُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم : < أَفْلَحَ إِنْ صَدَقَ >۔
* تخريج: خ/الإیمان ۳۴ (۴۶)، والصوم ۱ (۱۸۹۱)، والشہادات ۲۶ (۲۶۷۸)، والحیل ۳ (۶۹۵۶)، م/الإیمان ۲ (۱۱)، ن/الصلاۃ ۴ (۴۵۹)، والصوم ۱ (۲۰۹۲)، الإیمان ۲۳ (۵۰۳۱)، (تحفۃ الأشراف: ۵۰۰۹)، وقد أخرجہ: ط/ قصر الصلاۃ ۲۵(۹۴)، حم (۱/۱۶۲)، دي/الصلاۃ ۲۰۸ (۱۶۹۱) (صحیح)

۳۹۱- طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اہل نجد کا ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، جس کے بال پراگندہ تھے، اس کی آواز کی گنگنا ہٹ تو سنی جاتی تھی لیکن بات سمجھ میں نہیں آتی تھی کہ وہ کیا کہہ رہا ہے، یہاں تک کہ وہ قریب آیا، تب معلوم ہوا کہ وہ اسلام کے متعلق پوچھ رہا ہے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’(اسلام) دن رات میں پانچ وقت کی صلاۃ پڑھنی ہے‘‘، اس نے پوچھا: ان کے علاوہ اور کوئی صلاۃ مجھ پر واجب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’نہیں ۱؎ إلا یہ کہ تم نفل پڑھو‘‘۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے ماہ رمضان کے صیام کا ذکر کیا، اس نے پوچھا: اس کے سوا کوئی اور بھی صوم مجھ پر فرض ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’نہیں ، إلا یہ کہ تم نفلی صوم رکھو‘‘۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے زکاۃ کا ذکر کیا، اس نے پوچھا: اس کے علاوہ کوئی اور بھی صدقہ مجھ پر واجب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’نہیں، إلایہ کہ تم نفلی صدقہ کرو‘‘۔
پھر وہ شخص پیٹھ پھیر کر یہ کہتے ہوئے چلا: قسم اللہ کی! میں نہ اس سے زیادہ کروں گا اور نہ کم، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’با مراد رہا اگر اس نے سچ کہا‘‘۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ وتر اور عیدین کی صلاۃ واجب نہیں جیسا کہ علماء محققین کی رائے ہے۔

392- حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ الْمَدَنِيُّ، عَنْ أَبِي سُهَيْلٍ نَافِعِ بْنِ مَالِكِ بْنِ أَبِي عَامِرٍ بِإِسْنَادِهِ بِهَذَا الْحَدِيثِ، قَالَ: < أَفْلَحَ وَأَبِيهِ إِنْ صَدَقَ، دَخَلَ الْجَنَّةَ وَأَبِيهِ إِنْ صَدَقَ >۔
* تخريج: انظر ما قبله، (تحفۃ الأشراف: ۵۰۰۹) (صحیح)

۳۹۲- اس سند سے بھی ابو سہیل نافع بن مالک بن ابی عامر سے یہی حدیث مروی ہے، اس میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس کے باپ کی قسم! ۱؎ اگر اس نے سچ کہا تو وہ بامراد رہا، اور اس کے باپ کی قسم !اگر اس نے سچ کہا تو وہ جنت میں جائے گا‘‘۔
وضاحت ۱؎ : یہ قسم عادت کے طور پر ہے، بالارادہ نہیں، یا غیر اللہ کی قسم کی ممانعت سے پہلے کی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
2-بَاب فِي الْمَوَاقِيتِ
۲-باب: اوقاتِ صلاۃ کا بیان​


393- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ سُفْيَانَ، حَدَّثَنِي عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ فُلانِ بْنِ أَبِي رَبِيعَةَ، عَنْ حَكِيمِ بْنِ حَكِيمٍ، عَنْ نَافِعِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، عنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم : < أَمَّنِي جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلام عِنْدَ الْبَيْتِ مَرَّتَيْنِ: فَصَلَّى بِيَ الظُّهْرَ حِينَ زَالَتِ الشَّمْسُ وَكَانَتْ قَدْرَ الشِّرَاكِ، وَصَلَّى بِيَ الْعَصْرَ حِينَ كَانَ ظِلُّهُ مِثْلَهُ، وَصَلَّى بِيَ -يَعْنِي الْمَغْرِبَ- حِينَ أَفْطَرَ الصَّائِمُ، وَصَلَّى بِيَ الْعِشَاءَ حِينَ غَابَ الشَّفَقُ، وَصَلَّى بِيَ الْفَجْرَ حِينَ حَرُمَ الطَّعَامُ وَالشَّرَابُ عَلَى الصَّائِمِ، فَلَمَّا كَانَ الْغَدُ صَلَّى بِيَ الظُّهْرَ حِينَ كَانَ ظِلُّهُ مِثْلَهُ، وَصَلَّى بِي الْعَصْرَ حِينَ كَانَ ظِلُّهُ مِثْلَيْهِ، وَصَلَّى بِيَ الْمَغْرِبَ حِينَ أَفْطَرَ الصَّائِمُ، وَصَلَّى بِيَ الْعِشَاءَ إِلَى ثُلُثِ اللَّيْلِ، وَصَلَّى بِيَ الْفَجْرَ فَأَسْفَرَ، ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَيَّ فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، هَذَا وَقْتُ الأَنْبِيَائِ مِنْ قَبْلِكَ، وَالْوَقْتُ مَا بَيْنَ هَذَيْنِ الْوَقْتَيْنِ >۔
* تخريج: ت/الصلاۃ ۱ (۱۴۹)، (تحفۃ الأشراف: ۶۵۱۹)، وقد أخرجہ: حم (۱/۳۳۳، ۳۵۴) (حسن صحیح)

۳۹۳- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جبرئیل وضاحت نے خانہ کعبہ کے پاس دوبار میری امامت کی ، ظہر مجھے اس وقت پڑھائی جب سورج ڈھل گیا اور سایہ جوتے کے تسمے کے برابر ہوگیا، عصر اس وقت پڑھائی جب ہر چیز کا سا یہ اس کے مثل ۱؎ ہوگیا، مغرب اس وقت پڑھائی جب صائم صیام کھولتا ہے (سورج ڈوبتے ہی)، عشاء اس وقت پڑھائی جب شفق ۲؎ غائب ہوگئی، اور فجر اس وقت پڑھائی جب صائم پر کھانا پینا حرام ہوجاتا ہے یعنی جب صبح صادق طلوع ہوتی ہے۔
دوسرے دن ظہر مجھے اس وقت پڑھائی، جب ہر چیز کا سایہ اس کے مثل ۳؎ ہوگیا،عصر اس وقت پڑھائی، جب ہر چیز کا سایہ اس کے دو مثل ہوگیا،مغرب اس وقت پڑھائی جب صائم صیام کھولتا ہے،عشاء تہائی رات میں پڑھائی ، اور فجراجالے میں پڑھائی، پھر جبرئیل وضاحت میری جانب متوجہ ہوئے اور فرمایا: اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! یہی وقت آپ سے پہلے انبیاء کا بھی رہا ہے،اور صلاۃ کا وقت ان دونوں وقتوں کے درمیان ہے ۴؎ ‘‘۔
وضاحت ۱؎ : اس سے معلوم ہوا کہ ایک مثل پر عصر کا وقت شروع ہوجاتا ہے۔
وضاحت ۲؎ : شفق اس سرخی کوکہتے ہیں جو سورج ڈوب جانے کے بعد مغرب (پچھم) میں باقی رہتی ہے۔
وضاحت ۳؎ : یعنی برابر ہونے کے قریب ہوگیا۔
وضاحت ۴؎ : پہلے دن جبرئیل وضاحت نے ساری صلاتیں اوّل وقت میں پڑھائیں، اور دوسرے دن آخری وقت میں تاکہ ہر صلاۃ کا اوّل اور آخر وقت معلوم ہوجائے۔

394- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ الْمُرَادِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ اللَّيْثِيِّ أَنَّ ابْنَ شِهَابٍ أَخْبَرَهُ أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِالْعَزِيزِ كَانَ قَاعِدًا عَلَى الْمِنْبَرِ فَأَخَّرَ الْعَصْرَ شَيْئًا، فَقَالَ لَهُ عُرْوَةُ ابْنُ الزُّبَيْرِ: أَمَا إِنَّ جِبْرِيلَ صلی اللہ علیہ وسلم قَدْ أَخْبَرَ مُحَمَّدًا صلی اللہ علیہ وسلم بِوَقْتِ الصَّلاةِ فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: اعْلَمْ مَا تَقُولُ، فَقَالَ عُرْوَةُ: سَمِعْتُ بَشِيرَ بْنَ أَبِي مَسْعُودٍ يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا مَسْعُودٍ الأَنْصَارِيَّ يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم يَقُولُ: < نَزَلَ جِبْرِيلُ صلی اللہ علیہ وسلم فَأَخْبَرَنِي بِوَقْتِ الصَّلاةِ فَصَلَّيْتُ مَعَهُ ثُمَّ صَلَّيْتُ مَعَهُ ثُمَّ صَلَّيْتُ مَعَهُ ثُمَّ صَلَّيْتُ مَعَهُ ثُمَّ صَلَّيْتُ مَعَهُ >، يَحْسُبُ بِأَصَابِعِهِ خَمْسَ صَلَوَاتٍ، فَرَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم صَلَّى الظُّهْرَ حِينَ تَزُولُ الشَّمْسُ، وَرُبَّمَا أَخَّرَهَا حِينَ يَشْتَدُّ الْحَرُّ، وَرَأَيْتُهُ يُصَلِّي الْعَصْرَ وَالشَّمْسُ مُرْتَفِعَةٌ بَيْضَاءُ قَبْلَ أَنْ تَدْخُلَهَا الصُّفْرَةُ فَيَنْصَرِفُ الرَّجُلُ مِنَ الصَّلاةِ فَيَأْتِي ذَا الْحُلَيْفَةِ قَبْلَ غُرُوبِ الشَّمْسِ، وَيُصَلِّي الْمَغْرِبَ حِينَ تَسْقُطُ الشَّمْسُ، وَيُصَلِّي الْعِشَاءَ حِينَ يَسْوَدُّ الأُفُقُ، وَرُبَّمَا أَخَّرَهَا حَتَّى يَجْتَمِعَ النَّاسُ، وَصَلَّى الصُّبْحَ مَرَّةً بِغَلَسٍ ثُمَّ صَلَّى مَرَّةً أُخْرَى فَأَسْفَرَ بِهَا، ثُمَّ كَانَتْ صَلاتُهُ بَعْدَ ذَلِكَ التَّغْلِيسَ حَتَّى مَاتَ وَلَمْ يَعُدْ إِلَى أَنْ يُسْفِرَ.
قَالَ أَبودَاود: رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ عَنِ الزُّهْرِيِّ مَعْمَرٌ وَمَالِكٌ وَابْنُ عُيَيْنَةَ وَشُعَيْبُ بْنُ أَبِي حَمْزَةَ وَاللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ وَغَيْرُهُمْ، لَمْ يَذْكُرُوا الْوَقْتَ الَّذِي صَلَّى فِيهِ وَلَمْ يُفَسِّرُوهُ، وَكَذَلِكَ أَيْضًا رَوَى هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ وَحَبِيبُ بْنُ أَبِي مَرْزُوقٍ عَنْ عُرْوَةَ نَحْوَ رِوَايَةِ مَعْمَرٍ وَأَصْحَابِهِ إِلا أَنَّ حَبِيبًا لَمْ يَذْكُرْ بَشِيرًا، وَرَوَى وَهْبُ بْنُ كَيْسَانَ عَنْ جَابِرٍ عَنِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم وَقْتَ الْمَغْرِبِ قَالَ: ثُمَّ جَائَهُ لِلْمَغْرِبِ حِينَ غَابَتِ الشَّمْسُ، يَعْنِي مِنَ الْغَدِ، وَقْتًا وَاحِدًا.
قَالَ أَبودَاود: [وَكَذَلِكَ رُوِيَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ: < ثُمَّ صَلَّى بِيَ الْمَغْرِبَ -يَعْنِي مِنَ الْغَدِ- وَقْتًا وَاحِدًا>] وَكَذَلِكَ رُوِيَ عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ مِنْ حَدِيثِ حَسَّانَ بْنِ عَطِيَّةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ عَنِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم ۔
* تخريج: م /المساجد ۳۱ (۶۱۰)، ن/ المواقیت ۱ (۴۹۵)، ق/ الصلاۃ ۱ (۶۶۸)، (تحفۃ الأشراف: ۹۹۷۷)، وقد أخرجہ: خ/ المواقیت ۱ (۵۲۱)، وبدء الخلق ۶ (۳۲۲۱)، والمغازي ۱۲ (۴۰۰۷)، ط/وقوت الصلاۃ ۱(۱)، حم (۴/۱۲۰)، دي/الصلاۃ ۳ (۱۲۲۳) (حسن)

۳۹۴- ابن شہاب زہری کہتے ہیں کہ عمر بن عبدالعزیز منبر پر بیٹھے ہوئے تھے، آپ نے عصر میں کچھ تاخیر کردی، اس پر عروہ بن زبیر نے آپ سے کہا: کیا آپ کو معلوم نہیں کہ جبرئیل وضاحت نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو صلاۃ کا وقت بتادیا ہے؟ تو عمر بن عبدالعزیز نے کہا: جو تم کہہ رہے ہو ا سے سوچ لو ۱؎ ۔
عروہ نے کہا : میں نے بشیر بن ابی مسعود کو کہتے سنا ، وہ کہتے تھے کہ میں نے ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا، وہ کہتے تھے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا کہ ’’جبرئیل وضاحت اترے، انہوں نے مجھے اوقات ِصلاۃ کی خبر دی، چنانچہ میں نے ان کے ساتھ صلاۃ پڑھی، پھر ان کے ساتھ صلاۃ پڑھی، پھر ان کے ساتھ صلاۃ پڑھی ، پھر ان کے ساتھ صلاۃ پڑھی، پھر ان کے سا تھ صلاۃ پڑھی‘‘، آپ اپنی انگلیوں پر پانچوں (وقت کی ) صلاۃ کو شمار کرتے جارہے تھے۔
میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نے سورج ڈھلتے ہی ظہر پڑھی، اور جب کبھی گرمی شدید ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر دیر کرکے پڑھتے۔
اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عصر اس وقت پڑھتے دیکھا جب سورج بالکل بلند وسفید تھا، اس میں زردی نہیں آئی تھی کہ آدمی عصر سے فارغ ہو کر ذوالحلیفہ ۲؎ آتا ،تو سورج ڈوبنے سے پہلے وہاں پہنچ جاتا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم مغرب سورج ڈوبتے ہی پڑھتے اور عشاء اس وقت پڑھتے جب آسمان کے کناروں میں سیاہی آجاتی، اورکبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء میں دیر کرتے تاکہ لوگ اکٹھا ہوجائیں،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ فجر غلس (اندھیرے ) میں پڑھی، اور دوسری مرتبہ آپ نے اس میں اسفار ۳؎ کیا یعنی خوب اجالے میں پڑھی، مگر اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم فجر ہمیشہ غلس میں پڑھتے رہے یہاں تک کہ آپ کی وفات ہو گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر کبھی اسفار میں صلاۃ نہیںادا کی ۔
ابو داود کہتے ہیں:یہ حدیث زہری سے:معمر ، مالک ، ابن عیینہ، شعیب بن ابوحمزہ ، لیث بن سعد وغیرہم نے بھی روایت کی ہے لیکن ان سب نے ( اپنی روایت میں ) اس وقت کا ذکر نہیں کیا، جس میں آپ نے صلاۃ پڑھی، اور نہ ہی ان لوگوں نے اس کی تفسیر کی ہے، نیزہشام بن عروہ اور حبیب بن ابی مرزوق نے بھی عروہ سے اسی طرح روایت کی ہے جس طرح معمر اور ان کے اصحاب نے روایت کی ہے، مگر حبیب نے ( اپنی روایت میں ) بشیر کا ذکر نہیں کیا ہے ۔
اور وہب بن کیسان نے جابر رضی اللہ عنہ سے، جابرنے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مغرب کے وقت کی روایت کی ہے، اس میں ہے کہ جبرئیل وضاحت دوسرے دن مغرب کے وقت سورج ڈوبنے کے بعد آئے یعنی دونوں دن ایک ہی وقت میں آئے۔
ابوداود کہتے ہیں کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بھی اسی طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جبرئیل نے مجھے دوسرے دن مغرب ایک ہی وقت میں پڑھائی ‘‘۔
اسی طرح عبداللہ بن عمر وبن العاص رضی اللہ عنہما سے بھی مروی ہے یعنی حسان بن عطیہ کی حدیث جسے وہ عمروبن شعیب سے،وہ ان کے والد سے، وہ اپنے دادا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے، اور عبد اللہ بن عمرو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں۔
وضاحت ۱؎ : عمربن عبدالعزیز کواس حدیث کے متعلق شبہہ ہوا کہ کہیں یہ ضعیف نہ ہو کیونکہ عروہ نے اسے بغیر سند بیان کیا تھا، یا یہ شبہہ ہوا کہ اوقاتِ صلاۃ کی نشاندہی تو اللہ تعالی نے معراج کی رات میں خود براہ راست کردی ہے اس میں جبرئیل وضاحت کاواسطہ کہاں سے آگیا، یا جبرئیل وضاحت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت کیسے کی جبکہ وہ مرتبہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کمتر ہیں، چنانچہ انہیں شبہات کے ازالہ کے لئے عروہ نے اسے مع سند بیان کرنا شروع کیا۔
وضاحت ۲؎ : ذوالحلیفہ مدینہ سے مکہ کے راستہ میں دو فرسخ (چھ میل یا ساڑھے نو کیلو میٹر) کی دوری پر ہے،اس وقت یہ بئر علی یا ابیار علی سے معروف ہے ، یہ اہل مدینہ اور مدینہ کے راستہ سے گزرنے والے حجاج اور معتمرین کی میقات ہے۔
وضاحت ۳؎ : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا سفر میں یہ پڑھنا جواز کے بیان کے لئے تھا، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ غلس ہی میں فجر ادا کی۔

395- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ دَاوُدَ، حَدَّثَنَا بَدْرُ بْنُ عُثْمَانَ، حَدَّثَنَا أَبُوبَكْرِ ابْنُ أَبِي مُوسَى، عَنْ أَبِي مُوسَى أَنَّ سَائِلا سَأَلَ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيْهِ شَيْئًا، حَتَّى أَمَرَ بِلالاً فَأَقَامَ الْفَجْرَ حِينَ انْشَقَّ الْفَجْرُ، فَصَلَّى حِينَ كَانَ الرَّجُلُ لايَعْرِفُ وَجْهَ صَاحِبِهِ، أَوْ أَنَّ الرَّجُلَ لا يَعْرِفُ مَنْ إِلَى جَنْبِهِ، ثُمَّ أَمَرَ بِلالاً فَأَقَامَ الظُّهْرَ حِينَ زَالَتِ الشَّمْسُ، حَتَّى قَالَ الْقَائِلُ: انْتَصَفَ النَّهَارُ، وَهُوَ أَعْلَمُ، ثُمَّ أَمَرَ بِلالاً فَأَقَامَ الْعَصْرَ وَالشَّمْسُ بَيْضَاءُ مُرْتَفِعَةٌ، وَأَمَرَ بِلالا فَأَقَامَ الْمَغْرِبَ حِينَ غَابَتِ الشَّمْسُ، وَأَمَرَ بِلالاً فَأَقَامَ الْعِشَاءَ حِينَ غَابَ الشَّفَقُ، فَلَمَّا كَانَ مِنَ الْغَدِ صَلَّى الْفَجْرَ وَانْصَرَفَ فَقُلْنَا: أَطَلَعَتِ الشَّمْسُ؟ فَأَقَامَ الظُّهْرَ فِي وَقْتِ الْعَصْرِ الَّذِي كَانَ قَبْلَهُ، وَصَلَّى الْعَصْرَ وَقَدِ اصْفَرَّتِ الشَّمْسُ، أَوْ قَالَ: أَمْسَى، وَصَلَّى الْمَغْرِبَ قَبْلَ أَنْ يَغِيبَ الشَّفَقُ، وَصَلَّى الْعِشَاءَ إِلَى ثُلُثِ اللَّيْلِ، ثُمَّ قَالَ: <أَيْنَ السَّائِلُ عَنْ وَقْتِ الصَّلاةِ؟ الْوَقْتُ فِيمَا بَيْنَ هَذَيْنِ >.
قَالَ أَبودَاود: رَوَى سُلَيْمَانُ بْنُ مُوسَى، عَنْ عَطَاءِ، عَنْ جَابِرٍ؛ عَنِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم فِي الْمَغْرِبِ بِنَحْوِ هَذَا، قَالَ: $ ثُمَّ صَلَّى الْعِشَاءَ قَالَ بَعْضُهُمْ: إِلَى ثُلُثِ اللَّيْلِ وَقَالَ بَعْضُهُمْ: $ إِلَى شَطْرِهِ وَكَذَلِكَ رَوَى ابْنُ بُرَيْدَةَ عَنْ أَبِيهِ؛ عَنِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم ۔
* تخريج: م/المساجد ۳۱ (۶۱۳)، ن/المواقیت ۱۵ (۵۲۲)، (تحفۃ الأشراف:۹۱۳۷)، وقد أخرجہ: ت/الصلاۃ ۱ (۱۵۲)، ق/الصلاۃ ۱ (۶۶۷)، حم (۵/۲۴۹) (صحیح)

۳۹۵- ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک سائل نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے( اوقاتِ صلاۃ کے بارے میں) پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کوئی جواب نہیں دیا، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیاتو انہوں نے فجر کی اقامت اس وقت کہی جب صبح صادق کی پَوْپھٹ گئی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صلاۃِ فجر اس وقت پڑھی جب آدمی اپنے ساتھ والے کا چہرہ (اندھیرے کی وجہ سے) نہیں پہچان سکتا تھا، یا آدمی کے پہلو میں جو شخص ہوتا اسے نہیں پہچان سکتاتھا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال کو حکم دیاتو انہوں نے ظہر کی اقامت اس وقت کہی جب آفتاب ڈھل گیا یہاں تک کہ کہنے والے نے کہا : (ابھی تو) ٹھیک دو پہر ہوئی ہے، اور آپ کو خوب معلوم تھا(کہ زوال ہوچکا ہے)، پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال کو حکم دیاتو انہوں نے عصر کی اقامت کہی، اس وقت سورج بلند وسفید تھا، پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال کو حکم دیا توانہوں نے مغرب کی اقامت سورج ڈوبنے پر کہی، پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال کو حکم دیاتو انہوں نے عشاء کی اقامت اس وقت کہی جب شفق غائب ہوگئی، پھر جب دوسرا دن ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر پڑھی اور صلاۃ سے فارغ ہوئے، تو ہم لوگ کہنے لگے: کیا سورج نکل آیا؟ پھر ظہر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت پڑھی جس وقت پہلے روز عصر پڑھی تھی اور عصر اس وقت پڑھی جب سورج زرد ہوگیا یا کہا: شام ہوگئی، اور مغرب شفق غائب ہونے سے پہلے پڑھی، اور عشاء اس وقت پڑھی جب تہائی رات گزرگئی، پھر فرمایا: ’’ کہاں ہے وہ شخص جو صلاۃ کے اوقات پوچھ رہا تھا ؟ صلاۃ کا وقت ان دونوں کے بیچ میں ہے‘‘ ۱ ؎ ۔
ابوداود کہتے ہیں: سلیمان بن موسیٰ نے عطاء سے، عطاء نے جا بر رضی اللہ عنہ سے ، جابر نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مغرب کے بارے میں اسی طرح روایت کی ہے، اس میں ہے: ’’پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء پڑھی‘‘، بعض نے کہا : ’’تہائی رات میں پڑھی‘‘، بعض نے کہا: ’’آدھی رات میں‘‘،اور اسی طرح یہ حدیث ابن بریدہ نے اپنے والد (بریدہ) سے ،بریدہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے ۔
وضاحت ۱؎ :پہلے دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ساری صلاتیں اوّل وقت میں پڑھیں، اور دوسرے دن آخری وقت میں، ایسا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو بتانے کے لئے کیا تھا، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی فجر اسفار میں نہیں پڑھی اور نہ ہی کبھی بلاوجہ ظہر،عصر اور مغرب میں تاخیر کی۔

396- حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، سَمِعَ أَبَا أَيُّوبَ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، عَنِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم أَنَّهُ قَالَ: < وَقْتُ الظُّهْرِ مَا لَمْ تَحْضُرِ الْعَصْرُ، وَوَقْتُ الْعَصْرِ مَا لَمْ تَصْفَرَّ الشَّمْسُ، وَوَقْتُ الْمَغْرِبِ مَا لَمْ يَسْقُطْ فَوْرُ الشَّفَقِ، وَوَقْتُ الْعِشَائِ إِلَى نِصْفِ اللَّيْلِ، وَوَقْتُ [صَلاةِ] الْفَجْرِ مَا لَمْ تَطْلُعِ الشَّمْسُ >۔
* تخريج: م/المساجد ۳۱ (۶۱۲)، ن/المواقیت ۱۴ (۵۲۳)، (تحفۃ الأشراف: ۸۹۴۶)، وقد أخرجہ: حم (۲/۲۱۰، ۲۱۳، ۲۲۳) (صحیح)

۳۹۶- عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ظہر کا وقت اس وقت تک ہے جب تک کہ عصر کا وقت نہ آجائے،عصر کا وقت اس وقت تک ہے جب تک کہ سورج زرد نہ ہوجائے،مغرب کا وقت اس وقت تک ہے جب تک کہ شفق کی سرخی ختم نہ ہوجائے،عشاء کا وقت آدھی رات تک ہے، اور فجر کا وقت اس وقت تک ہے جب تک کہ سورج نہ نکل آئے ‘‘۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
3- بَاب فِي وَقْتِ صَلاةِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم وَكَيْفَ كَانَ يُصَلِّيهَا؟
۳ -باب: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اوقات صلاۃ کابیان اور آپ صلاۃ کیسے پڑھتے تھے؟ ۱ ؎​


397- حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو -وَهُوَ ابْنُ الْحَسَنِ [بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ]-، قَالَ: سَأَلْنَا جَابِرًا عَنْ وَقْتِ صَلاةِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَ: كَانَ يُصَلِّي الظُّهْرَ بِالْهَاجِرَةِ، وَالْعَصْرَ وَالشَّمْسُ حَيَّةٌ، وَالْمَغْرِبَ إِذَا غَرَبَتِ الشَّمْسُ، وَالْعِشَاءَ: إِذَا كَثُرَ النَّاسُ عَجَّلَ، وَإِذَا قَلُّوا أَخَّرَ، وَالصُّبْحَ بِغَلَسٍ۔
* تخريج: خ/المواقیت ۱۸ (۵۶۰)، ۲۱ (۵۶۵)، م/المساجد ۴۰ (۶۴۶)، ن/المواقیت ۱۷ (۵۲۸)، (تحفۃ الأشراف: ۲۶۴۴)، وقد أخرجہ: حم (۳/۳۶۹)، دي/الصلاۃ ۲ (۱۲۲۲) (صحیح)

۳۹۷- محمد بن عمرو سے روایت ہے (اوروہ حسن بن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہما کے لڑکے ہیں) وہ کہتے ہیں کہ ہم نے جابر رضی اللہ عنہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صلاۃ کے اوقات کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا : آپ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر سورج ڈھل جانے پر پڑھتے تھے، عصر ایسے وقت پڑھتے کہ سورج زندہ رہتا، مغرب سورج ڈوب جانے پر پڑھتے، اورعشاء اس وقت جلدی ادا کرتے جب آدمی زیادہ ہوتے ، اور جب کم ہوتے تو دیر سے پڑھتے، اور فجر غلس (اندھیرے ) میں پڑھتے تھے ۔
وضاحت ۱؎ : اس سے پہلے والے باب میں مطلق وقت کا بیان تھا اور اس باب میں مستحب اوقات کا بیان ہے جن میں صلاۃ پڑھنی افضل ہے ۔
398- حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي الْمِنْهَالِ، عَنْ أَبِي بَرْزَةَ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم يُصَلِّي الظُّهْرَ إِذَا زَالَتِ الشَّمْسُ، وَيُصَلِّي الْعَصْرَ وَإِنَّ أَحَدَنَا لَيَذْهَبُ إِلَى أَقْصَى الْمَدِينَةِ وَيَرْجِعُ وَالشَّمْسُ حَيَّةٌ، وَنَسِيتُ الْمَغْرِبَ، وَكَانَ لا يُبَالِي تَأْخِيرَ الْعِشَاءِ إِلَى ثُلُثِ اللَّيْلِ، قَالَ: ثُمَّ قَالَ: إِلَى شَطْرِ اللَّيْلِ، قَالَ وَكَانَ يَكْرَهُ النَّوْمَ قَبْلَهَا وَالْحَدِيثَ بَعْدَهَا، وَكَانَ يُصَلِّي الصُّبْحَ وَمَا يَعْرِفُ أَحَدُنَا جَلِيسَهُ الَّذِي كَانَ يَعْرِفُهُ، وَكَانَ يَقْرَأُ فِيهَا [مِنَ] السِّتِّينَ إِلَى الْمِائَةِ۔
* تخريج: خ/المواقیت ۱۱ (۵۴۱)، ۱۳ (۵۴۷)، ۲۳ (۵۶۸)، ۳۸ (۵۹۸)، م/المساجد ۴۰ (۶۴۷)، ت/الصلاۃ ۱۱ (۱۶۸)، ن/المواقیت ۱ (۴۹۶)، ۱۶ (۵۲۶)، ۲۰ (۵۳۱)، الافتتاح ۴۲ (۹۴۹)، ق/الصلاۃ ۳ (۶۷۴)، ۱۲ (۷۰۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۶۰۵)، وقد أخرجہ: حم (۴/۴۲۰، ۴۲۱، ۴۲۳، ۴۲۴، ۴۲۵)، دي/الصلاۃ ۶۶ (۱۳۳۸)، ویأتي في الأدب ۴۸۹۴ (صحیح)

۳۹۸- ابو برزہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر سورج ڈھل جانے پر پڑھتے اور عصر اس وقت پڑھتے کہ ہم میں سے کوئی آدمی مدینہ کے آخری کنارے پر جا کر وہاں سے لوٹ آتا، اور سورج زندہ رہتا (یعنی صاف اور تیز رہتا) اور مغرب کو میں بھول گیا، اور عشاء کو تہائی رات تک مؤخر کرنے میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتے، پھر انہوں نے کہا: آدھی رات تک مؤخر کرنے میں (کوئی حرج محسوس نہیں کرتے) فرمایا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء سے پہلے سونے ۱؎ کو اور عشاء کے بعد بات چیت کو برا جانتے تھے ۲؎ ، اور فجرپڑھتے اور حال یہ ہوتا کہ ہم میں سے ایک اپنے اس ساتھی کو جسے وہ اچھی طرح جانتا ہوتا، اندھیرے کی وجہ سے پہچان نہیں پاتا، اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ساٹھ آیتوں سے لے کر سو آیتوں تک پڑھتے تھے ۔
وضاحت ۱؎ : عشاء سے پہلے سونے کو اکثر علماء نے مکروہ کہا ہے، بعضوں نے اس کی اجازت دی ہے، امام نووی نے کہا ہے کہ اگر نیند کا غلبہ ہو اور صلاۃ کی قضا کا اندیشہ نہ ہو تو سونے میں کوئی حرج نہیں۔
وضاحت ۲؎ : مراد لایعنی باتیں ہیں جن سے دنیاوآخرت کا کوئی مفاد وابستہ نہ ہو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
4- بَاب فِي وَقْتِ صَلاةِ الظُّهْرِ
۴-باب: ظہر کے وقت کا بیان​


399- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، وَمُسَدَّدٌ قَالا: حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ عَبَّادٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْحَارِثِ الأَنْصَارِيِّ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ قَالَ: كُنْتُ أُصَلِّي الظُّهْرَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَآخُذُ قَبْضَةً مِنَ الْحَصَى لِتَبْرُدَ فِي كَفِّي أَضَعُهَا لِجَبْهَتِي أَسْجُدُ عَلَيْهَا لِشِدَّةِ الْحَرِّ۔
* تخريج: وقد تفرد بہ أبو داود: (تحفۃ الأشراف: ۲۲۵۲)، وقد أخرجہ: ن/التطبیق ۳۳ (۱۰۸۰)، حم (۳/۳۲۷) (حسن)

۳۹۹- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ظہر پڑھتا توایک مٹھی کنکری اُٹھا لیتا تاکہ وہ میری مٹھی میں ٹھنڈی ہوجائے، میں اسے گرمی کی شدت کی وجہ سے اپنی پیشانی کے نیچے رکھ کر اس پر سجدہ کرتاتھا ۔

400- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبِيدَةُ بْنُ حُمَيْدٍ، عَنْ أَبِي مَالِكٍ الأَشْجَعِيِّ سَعْدِ بْنِ طَارِقٍ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ مُدْرِكٍ عَنِ الأَسْوَدِ أَنَّ عَبْدَاللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ قَالَ: كَانَتْ قَدْرُ صَلاةِ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فِي الصَّيْفِ ثَلاثَةَ أَقْدَامٍ إِلَى خَمْسَةِ أَقْدَامٍ، وَفِي الشِّتَاءِ خَمْسَةَ أَقْدَامٍ إِلَى سَبْعَةِ أَقْدَامٍ۔
* تخريج: ن/المواقیت ۵ (۵۰۴)، (تحفۃ الأشراف: ۹۱۸۶) (صحیح)

۴۰۰- اسود کہتے ہیں کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی (صلاۃِظہر) کا اندازہ گرمی میں تین قدم سے پانچ قدم تک اور جاڑے میں پانچ قدم سے سات قدم تک تھا ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی اصلی سایہ اورزائد دونوں کا مجموعہ ملا کر اس مقدار کو پہنچتا تھانہ کہ صرف زائد، یہ بات سارے ملکوں اور شہروں کے حق میں یکساں نہیں ،ملکوں اور علاقوں کے اختلاف سے اس کا معاملہ مختلف ہوگا، مکہ اور مدینہ دوسری اقلیم میں واقع ہیں، جوشہر اس اقلیم میں واقع ہوں گے انہیں کے لئے یہ حکم ہوگا، رہے دوسرے شہر جو دوسرے اقالیم میں واقع ہیں تو ان کا معاملہ دوسرا ہوگا۔

401- حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، أَخْبَرَنِي أَبُو الْحَسَنِ [قَالَ أَبودَاود: أَبُو الْحَسَنِ هُوَ مُهَاجِرٌ] قَالَ: سَمِعْتُ زَيْدَ بْنَ وَهْبٍ يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا ذَرٍّ يَقُولُ: كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم فَأَرَادَ الْمُؤَذِّنُ أَنْ يُؤَذِّنَ الظُّهْرَ فَقَالَ: <أَبْرِدْ> ثُمَّ أَرَادَ أَنْ يُؤَذِّنَ فَقَالَ: <أَبْرِدْ> مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلاثًا، حَتَّى رَأَيْنَا فَيْئَ التُّلُولِ، ثُمَّ قَالَ: <إِنَّ شِدَّةَ الْحَرِّ مِنْ فَيْحِ جَهَنَّمَ فَإِذَا اشْتَدَّ الْحَرُّ فَأَبْرِدُوا بِالصَّلاةِ>۔
* تخريج: خ/المواقیت ۹ (۵۳۵)، م/المساجد ۳۲ (۶۱۶)، ت/الصلاۃ ۶ (۱۵۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۹۱۴)، وقد أخرجہ: حم (۵/۱۵۵، ۱۶۲، ۱۷۶) (صحیح)

۴۰۱- ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، مؤذن نے ظہر کی اذان کہنے کا ارادہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’(ظہر) ٹھنڈی کرلو‘‘، پھر اس نے اذان کہنے کا ارادہ کیا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ٹھنڈی کرلو‘‘، اسی طرح دو یا تین بار فرمایا یہاں تک کہ ہم نے ٹیلوں کے سائے دیکھ لئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’گرمی کی شدت جہنم کے جوش مارنے سے ہوتی ہے لہٰذا جب گرمی کی شدت ہو تو صلاۃ ٹھنڈے وقت میں پڑھو‘‘۔

402- حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ خَالِدِ بْنِ مَوْهَبٍ الْهَمْدَانِيُّ، وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ الثَّقَفِيُّ أَنَّ اللَّيْثَ حَدَّثَهُمْ عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ وَأَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ: <إِذَا اشْتَدَّ الْحَرُّ فَأَبْرِدُوا عَنِ الصَّلاةِ - قَالَ ابْنُ مَوْهَبٍ: بِالصَّلاةِ - فَإِنَّ شِدَّةَ الْحَرِّ مِنْ فَيْحِ جَهَنَّمَ >۔
* تخريج: خ/المواقیت ۹ (۵۳۶)، م/المساجد ۳۲ (۶۱۵)، ت/الصلاۃ ۵ (۱۵۷)، ن/المواقیت ۴ (۵۰۱)، ق/الصلاۃ ۴ (۶۷۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۲۲۶، ۱۵۲۳۷)، وقد أخرجہ: ط/وقوت الصلاۃ ۷ (۲۸،۲۹)، حم (۲/۲۲۹، ۲۳۸، ۲۵۶، ۲۶۶، ۳۴۸، ۳۷۷، ۳۹۳، ۴۰۰، ۴۱۱)، دي/الصلاۃ ۱۴ (۱۲۴۳)، الرقاق ۱۱۹ (۲۸۸۷) (صحیح)

۴۰۲- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’جب گرمی کی شدت ہو توصلاۃ کو ٹھنڈی کرکے پڑھو، (ابن موہب کی روایت میں ’’فَأَبْرِدُوا عَنِ الصَّلاةِ ‘‘ کے بجائے ’’فَأَبْرِدُوا بِالصَّلاةِ ‘‘ ہے)، کیونکہ گرمی کی شدت جہنم کی لپٹ سے ہے‘‘ ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اسے حقیقی اور ظاہری معنی میں لینا زیادہ صحیح ہے، کیونکہ بخاری ومسلم کی (متفق علیہ) حدیث میں ہے کہ جہنم کی آگ نے اللہ رب العزت سے شکایت کی کہ میرے بعض حصے گرمی کی شدت اور گھٹن سے بعض کو کھا گئے ہیں، تواللہ رب العزت نے اسے دوسانسوں کی اجازت دی، ایک جاڑے کے موسم میں، اور ایک گرمی کے موسم میں، جہنم جاڑے میں سانس اندر کو لیتی ہے، اور گرمی میں باہر کو، اس حدیث سے یہ ثابت ہوا کہ گرمی کی شدت میں ظہر کو دیر سے پڑھنا جلدی پڑھنے سے بہتر ہے، اس کا یہ مطلب نہیں کہ ایک مثل کے بعد پڑھے، اس سے مقصود صرف اتنا ہے کہ بہ نسبت دوپہر کے کچھ ٹھنڈک ہوجائے اور جب سورج زیادہ ڈھل جاتاہے تو دوپہر کی بہ نسبت کچھ ٹھنڈک آہی جاتی ہے۔

403- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ أَنَّ بِلالا كَانَ يُؤَذِّنُ الظُّهْرَ إِذَا دَحَضَتِ الشَّمْسُ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۲۱۴۹)، وقد أخرجہ: م/المساجد ۳۳ (۶۱۸)، ق/الصلاۃ ۳ (۶۷۳)، حم (۵/۱۰۶) (حسن صحیح)

۴۰۳- جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ بلال رضی اللہ عنہ ظہر کی اذان اس وقت دیتے تھے جب سورج ڈھل جاتا تھا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
5- بَاب فِي وَقْتِ صَلاةِ الْعَصْرِ
۵ -باب: عصرکے وقت کا بیان​


404- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّهُ أَخْبَرَهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم كَانَ يُصَلِّي الْعَصْرَ وَالشَّمْسُ بَيْضَاءُ مُرْتَفِعَةٌ حَيَّةٌ وَيَذْهَبُ الذَّاهِبُ إِلَى الْعَوَالِي وَالشَّمْسُ مُرْتَفِعَةٌ ۔
* تخريج: م/المساجد ۳۴ (۶۲۱)، ن/المواقیت ۷ (۵۰۸)، ق/الصلاۃ ۵ (۶۸۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۲۲)، وقد أخرجہ: خ/المواقیت ۱۳ (۵۵۰)، والاعتصام ۱۶ (۷۳۲۹)، ط/وقوت الصلاۃ ۱(۱۱)، حم (۳/۲۲۳)، دي/الصلاۃ ۱۵ (۱۲۴۴) (صحیح)

۴۰۴- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عصر ایسے وقت میں پڑھتے تھے کہ سورج سفید، بلند اور زندہ ہوتا تھا، اور جانے والا ( عصر پڑھ کر) عوالی مدینہ تک جاتا اور سورج بلند رہتا تھا۔

405- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ قَالَ: وَالْعَوَالِي عَلَى مِيلَيْنِ أَوْ ثَلاثَةٍ، قَالَ: وَأَحْسَبُهُ قَالَ: أَوْ أَرْبَعَةٍ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۹۳۷۸) (صحیح)

۴۰۵- زہری کا بیان ہے کہ عوالی مدینہ سے دو یا تین میل کے فاصلہ پر واقع ہے۔
راوی کا کہنا ہے کہ میرا خیال ہے کہ انہوں نے چارمیل بھی کہا ۔

406- حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ مُوسَى ، ثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ خَيْثَمَةَ؛ قَالَ: حَيَاتُهَا أَنْ تَجِدَ حَرَّهَا۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف:۱۸۶۱۸) (صحیح)

۴۰۶- خیثمہ کہتے ہیں کہ سورج کے زندہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ تم اس کی تپش اور گرمی محسوس کرو ۔

407- حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ عُرْوَةُ: وَلَقَدْ حَدَّثَتْنِي عَائِشَةُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم كَانَ يُصَلِّي الْعَصْرَ وَالشَّمْسُ فِي حُجْرَتِهَا قَبْلَ أَنْ تَظْهَرَ۔
* تخريج: خ/المواقیت ۱ (۵۲۲)، ۱۳ (۵۴۴)، والخمس ۴ (۳۱۰۳)، م/المساجد ۳۱ (۶۱۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۵۹۶)، وقد أخرجہ: ت/الصلاۃ ۶ (۱۰۹)، ن/المواقیت ۷ (۵۰۶)، ق/الصلاۃ ۵ (۶۸۳)، ط/وقوت الصلاۃ ۱(۲) (صحیح)

۴۰۷- امّ المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عصر ایسے وقت میں ادا فرماتے تھے کہ دھوپ میرے کمرے میں ہوتی ، ابھی دیواروں پر چڑھی نہ ہو تی۔

408- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ الْعَنْبَرِيُّ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ أَبِي الْوَزِيرِ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ الْيَمَامِيُّ، حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ شَيْبَانَ، عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ عَلِيِّ بْنِ شَيْبَانَ قَالَ: قَدِمْنَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم الْمَدِينَةَ فَكَانَ يُؤَخِّرُ الْعَصْرَ مَا دَامَتِ الشَّمْسُ بَيْضَائَ نَقِيَّةً۔
* تخريج: تفرد به أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۰۱۹) (ضعیف)

(اس کے دوراوی’’محمد بن یزید اوریزید‘‘مجہول ہیں)
۴۰۸- علی بن شیبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مدینہ آئے تو دیکھا کہ آپ عصر کو مؤخر کرتے جب تک کہ سورج سفید اور صاف رہتا تھا۔

409- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ زَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ وَيَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ حَسَّانَ، عَنْ مُحَمَّدِ [بْنِ سِيرِينَ] عَنْ عَبِيدَةَ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِي اللَّه عَنْه أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ يَوْمَ الْخَنْدَقِ: <حَبَسُونَا عَنْ صَلاةِ الْوُسْطَى صَلاةِ الْعَصْرِ مَلأَ اللَّهُ بُيُوتَهُمْ وَقُبُورَهُمْ نَارًا>۔
* تخريج: خ/الجہاد ۹۸ (۲۹۳۱)، والمغازي ۲۹ (۴۱۱۱)، وتفسیر البقرۃ (۴۵۳۳)، والدعوات ۵۸ (۶۳۹۶)، م/المساجد ۳۵ (۶۲۶)، ۳۶ (۶۲۷)، ت/تفسیر البقرۃ ۴۲ (۲۹۸۴)، ن/الصلاۃ ۱۴ (۴۷۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۲۳۲)، وقد أخرجہ: ق/الصلاۃ ۶ (۶۸۴)، حم (۱/۸۱، ۸۲، ۱۱۳، ۱۲۲، ۱۲۶، ۱۳۵، ۱۳۷، ۱۴۴، ۱۴۶، ۱۵۰، ۱۵۱، ۱۵۲، ۱۵۳، ۱۵۴)، دي/الصلاۃ ۲۸ (۱۲۸۶) (صحیح)

۴۰۹- علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ خندق کے روز فرمایا: ’’ہم کوانہوں نے ( یعنی کافروں نے) صلاۃ وسطیٰ (یعنی عصر ) سے روکے رکھا، اللہ ان کے گھروں اور قبروں کو جہنم کی آگ سے بھر دے‘‘۔

410- حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنِ الْقَعْقَاعِ بْنِ حَكِيمٍ، عَنْ أَبِي يُونُسَ مَوْلَى عَائِشَةَ رَضِي اللَّه عَنْهَا أَنَّهُ قَالَ: أَمَرَتْنِي عَائِشَةُ أَنْ أَكْتُبَ لَهَا مُصْحَفًا وَقَالَتْ: إِذَا بَلَغْتَ هَذِهِ الآيَةَ فَآذِنِّي: {حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلاةِ الْوُسْطَى} فَلَمَّا بَلَغْتُهَا آذَنْتُهَا، فَأَمْلَتْ عَلَيَّ: <حَاْفِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلاةِ الْوُسْطَى وَصَلاةِ الْعَصْرِ وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ >، ثُمَّ قَالَتْ عَائِشَةُ: سَمِعْتُهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم ۔
* تخريج: م/المساجد ۳۶ (۶۲۹)، ت/تفسیر البقرۃ (۲۹۸۲)، ن/الصلاۃ ۱۴ (۴۷۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۸۰۹)، وقد أخرجہ: ط/صلاۃ الجماعۃ ۷ (۲۵)، حم (۶/۷۳) (صحیح)

۴۱۰- قعقاع بن حکیم ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے آزاد کر دہ غلام ابویونس سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ ام المومنین عائشہ نے مجھے حکم دیا کہ میں ا ن کے لئے ایک مصحف لکھوں اورکہاکہ جب تم آیت کریمہ: {حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلاةِ الْوُسْطَى} پر پہنچنا تو مجھے بتانا، چنانچہ جب میں اس آیت پر پہنچا تو انہیں اس کی خبر دی، تو انہوں نے مجھ سے اسے یوں لکھوایا:’’حَاْفِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلاةِ الْوُسْطَى وَصَلاةِ الْعَصْرِ ۱؎ وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ‘‘ ۲؎ ، پھر عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: میں نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سناہے ۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صلاۃ وسطیٰ (درمیانی صلاۃ) صلاۃ عصر نہیں کوئی اورصلاۃ ہے لیکن یہ قرأت شاذ ہے اس سے استدلال صحیح نہیں، یا یہ عطف عطف تفسیری ہے۔
وضاحت ۲؎ : صلاتوں کی حفاظت کرو خصوصی طورپر درمیان والی صلاۃ کی اور عصر کی اور اللہ کے سامنے باادب کھڑے رہاکرو ۔

411- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنِي عَمْرُو ابْنُ أَبِي حَكِيمٍ قَالَ سَمِعْتُ الزِّبْرِقَانَ يُحَدِّثُ عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم يُصَلِّي الظُّهْرَ بِالْهَاجِرَةِ وَلَمْ يَكُنْ يُصَلِّي صَلاةً أَشَدَّ عَلَى أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم مِنْهَا، فَنَزَلَتْ: {حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلاةِ الْوُسْطَى}، وَقَالَ: < إِنَّ قَبْلَهَا صَلاتَيْنِ وَبَعْدَهَا صَلاتَيْنِ >۔
* تخريج: تفرد به أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۳۷۳۱)، وقد أخرجہ: حم (۵/۱۸۳)، ط/صلاۃ الجماعۃ ۷ (۲۷موقوفا) (صحیح)

۴۱۱- زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر دوپہر کو پڑھا کرتے تھے،اور کوئی صلاۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب پر اس سے زیادہ سخت نہ ہوتی تھی، تو یہ آیت نازل ہوئی: {حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلاةِ الْوُسْطَى} ۱؎ زید نے کہا: بے شک اس سے پہلے دو صلاۃ ہیں( ایک عشاء کی، دوسری فجرکی) اور اس کے بعد دو صلاۃ ہیں (ایک عصر کی دوسری مغرب کی)۔
وضاحت ۱؎ : صلاۃ وسطی سے مراد کون سی صلاۃہے اس سلسلے میں مختلف حدیثیں وارد ہیں، زیادہ صحیح قول یہ ہے کہ اس سے عصر مراد ہے ، اکثر علماء کا رجحان اسی جانب ہے، واللہ اعلم بالصواب ۔

412- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الرَّبِيعِ، حَدَّثَنِي ابْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ ابْنِ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم : < مَنْ أَدْرَكَ مِنَ الْعَصْرِ رَكْعَةً قَبْلَ أَنْ تَغْرُبَ الشَّمْسُ فَقَدْ أَدْرَكَ، وَمَنْ أَدْرَكَ مِنَ الْفَجْرِ رَكْعَةً قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ فَقَدْ أَدْرَكَ >۔
* تخريج: م/المساجد ۳۰ (۶۰۸)، ن/المواقیت ۱۰ (۵۱۵)، ۲۸ (۵۵۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۵۷۶)، وقد أخرجہ: خ/المواقیت ۲۸ (۵۷۹)، ت/الصلاۃ ۲۵ (۱۸۶)، ن/۱۱ (۵۱۶، ۵۱۷)، ق/الصلاۃ ۱۱ (۱۱۲۲)، ط/وقوت الصلاۃ ۱(۵)، حم (۲/۲۵۴، ۲۶۰، ۲۸۲، ۳۴۸، ۳۹۹، ۴۶۲، ۴۷۴)، دي/الصلاۃ ۲۲ (۱۲۵۸) (صحیح)

۴۱۲- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جس شخص نے سورج ڈوبنے سے پہلے عصر کی ایک رکعت پالی تو اس نے صلاۃِ عصر پالی، اور جس شخص نے سورج نکلنے سے پہلے فجر کی ایک رکعت پالی تو اس نے صلاۃِفجر پالی‘‘ ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی فجر اور عصردونوں ادا سمجھی جائیں گی نہ کہ قضا، اس سے معلوم ہوا کہ فجر کاوقت سورج نکلنے تک، اور عصر کا وقت سورج ڈوبنے تک رہتا ہے ،البتہ دھوپ میں زردی آجانے کے بعد وقت مکروہ ہوجاتاہے۔

413- حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنِ الْعَلاءِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ أَنَّهُ قَالَ: دَخَلْنَا عَلَى أَنَسِ ابْنِ مَالِكٍ بَعْدَ الظُّهْرِ فَقَامَ يُصَلِّي الْعَصْرَ، فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ صَلاتِهِ ذَكَرْنَا تَعْجِيلَ الصَّلاةِ أَوْ ذَكَرَهَا، فَقَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم يَقُولُ : < تِلْكَ صَلاةُ الْمُنَافِقِينَ، تِلْكَ صَلاةُ الْمُنَافِقِينَ، تِلْكَ صَلاةُ الْمُنَافِقِينَ: يَجْلِسُ أَحَدُهُمْ حَتَّى إِذَا اصْفَرَّتِ الشَّمْسُ فَكَانَتْ بَيْنَ قَرْنَيْ شَيْطَانٍ، أَوْ عَلَى قَرْنَيِ الشَّيْطَانِ، قَامَ فَنَقَرَ أَرْبَعًا لا يَذْكُرُ اللَّهَ فِيهَا إِلا قَلِيلا >۔
* تخريج: م/المساجد ۳۴ (۶۲۲)، ت/الصلاۃ ۶ (۱۶۰)، ن/المواقیت ۸ (۵۱۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۲۲)، وقد أخرجہ: ط/القرآن ۱۰(۴۶)، حم (۳/۱۰۲، ۱۰۳، ۱۴۹، ۱۸۵، ۲۴۷) (صحیح)

۴۱۳- علاء بن عبدالرحمن کہتے ہیں کہ ہم ظہرکے بعد انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تو دیکھا کہ وہ عصر پڑھنے کے لئے کھڑے ہوئے ہیں، جب وہ صلاۃ سے فارغ ہوئے تو ہم نیصلاۃ کے جلدی ہو نے کا ذکر کیا یا خود انہوں نے اس کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ’’یہ منافقوں کی صلاۃ ہے ، یہ منافقوں کی صلاۃ ہے، یہ منافقوں کی صلاۃ ہے کہ آدمی بیٹھا رہے یہاں تک کہ جب سورج زرد ہوجائے اور وہ شیطان کی دونوں سینگوں کے بیچ ہوجائے یا اس کی دونوںسینگوں پر ہوجائے ۱؎ تواٹھے اور چار ٹھونگیں لگالے اور اس میں اللہ کا ذکر صرف تھوڑا سا کرے‘‘۔
وضاحت ۱؎ : علماء نے اس کی تاویل میں اختلاف کیا ہے، بعض علماء نے کہا ہے کہ شیطان سورج ڈوبنے کے وقت اپنا سرسورج پررکھ دیتا ہے کہ سورج کے پجاریوں کا سجدہ اسی کو واقع ہو اور بعض نے کہا ہے کہ شیطان کی سینگ سے مراد اس کے وہ پیروکار ہیں جو سورج کوپوجتے ہیں۔

414- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ: < الَّذِي تَفُوتُهُ صَلاةُ الْعَصْرِ فَكَأَنَّمَا وُتِرَ أَهْلَهُ وَمَالَهُ >.
قَالَ أَبودَاود: وقَالَ عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ عُمَرَ: < أُتِرَ>، وَاخْتُلِفَ عَلَى أَيُّوبَ فِيهِ، وقَالَ الزُّهْرِيُّ عَنْ سَالِمٍ عَنْ أَبِيهِ عَنِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ: <وُتِرَ> ۔
* تخريج: خ/المواقیت ۱۴ (۵۵۲)، م/المساجد ۳۵ (۶۲۶)، ن/الصلاۃ ۱۷ (۴۷۹)، (تحفۃ الأشراف: ۸۳۴۵)، وقد أخرجہ: ت/الصلاۃ ۱۶ (۱۷۵)، ق/الصلاۃ ۶ (۶۸۵)، ط/وقوت الصلاۃ ۵ (۲۱)، حم (۲/۸، ۱۳، ۲۷، ۴۸، ۶۴، ۷۵، ۷۶، ۱۰۲، ۱۳۴، ۱۴۵، ۱۴۷)، دي/الصلاۃ ۲۷ (۱۲۶۷) (صحیح)

۴۱۴- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس شخص کی عصر چھوٹ گئی گویا اس کے اہل وعیال تباہ ہوگئے اور اس کے مال واسباب لٹ گئے‘‘۔
ابو دا ود کہتے ہیں: عبیداللہ بن عمر نے ’’وتر‘‘ ( وائو کے ساتھ) کے بجا ئے ’’أتر‘‘ ( ہمزہ کے ساتھ) کہا ہے ( دونوں کے معنی ہیں: لو ٹ لئے گئے)۔
اس حدیث میں’’ وتر‘‘ اور ’’أتر‘‘کا اختلاف ایو ب کے تلا مذہ میں ہوا ہے ۔
اور زہری نے سالم سے، سالم نے اپنے والد عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے اورعبد اللہ بن عمر نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیاہے کہ آپ نے ’’وتر‘‘ فرمایا ہے۔

415- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ، قَالَ: قَالَ أَبُو عَمْرٍو -يَعْنِي الأَوْزَاعِيَّ-: وَذَلِكَ أَنْ تَرَى مَا عَلَى الأَرْضِ مِنَ الشَّمْسِ صَفْرَائَ۔
* تخريج: تفرد بہ ابو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۹۶۵) (ضعیف )

(ولید مدلس راوی ہیں،نیزیہ اوزاعی کااپناخیال ہے)
۴۱۵- ابو عمرو یعنی اوزاعی کا بیان ہے کہ عصر فوت ہونے کا مطلب یہ ہے کہ زمین پر جو دھوپ ہے وہ تمہیں زرد نظر آنے لگے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
6- بَاب فِي وَقْتِ الْمَغْرِبِ
۶-باب: مغرب کے وقت کا بیان​


416- حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ شَبِيبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: كُنَّا نُصَلِّي الْمَغْرِبَ مَعَ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم ثُمَّ نَرْمِي فَيَرَى أَحَدُنَا مَوْضِعَ نَبْلِهِ۔
* تخريج:تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۳۷۴) وقد أخرجہ: حم (۳/۳۷۰) (صحیح)

۴۱۶- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مغرب پڑھتے تھے، پھر تیر مارتے توہم میں سے ہر شخص اپنے تیر کے گرنے کی جگہ دیکھ لیتا تھا۔

417- حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ عِيسَى، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي عُبَيْدٍ ، عَنْ سَلَمَةَ ابْنِ الأَكْوَعِ [قَالَ]: كَانَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم يُصَلِّي الْمَغْرِبَ سَاعَةَ تَغْرُبُ الشَّمْسُ، إِذَا غَابَ حَاجِبُهَا۔
* تخريج: خ/المواقیت ۱۸ (۵۶۱)، م/المساجد ۳۸ (۶۳۶)، ت/الصلاۃ ۸ (۱۶۴)، ق/الصلاۃ ۷ (۶۸۸)، (تحفۃ الأشراف: ۴۵۳۵)، وقد أخرجہ: حم (۴/۵۴)، دی/الصلاۃ ۱۶(۱۲۴۵) (صحیح)

۴۱۷- سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مغرب سورج ڈوبتے ہی پڑھتے تھے جب اس کے اوپر کا کنارہ غائب ہو جاتا ۔

418- حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ، حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ مَرْثَدِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ قَالَ: لَمَّا قَدِمَ عَلَيْنَا أَبُو أَيُّوبَ غَازِيًا وَعُقْبَةُ بْنُ عَامِرٍ يَوْمَئِذٍ عَلَى مِصْرَ، فَأَخَّرَ الْمَغْرِبَ، فَقَامَ إِلَيْهِ أَبُو أَيُّوبَ فَقَالَ لَهُ: مَا هَذِهِ الصَّلاةُ يَا عُقْبَةُ؟ فَقَالَ: شُغِلْنَا، قَالَ: أَمَا سَمِعْتَ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم يَقُولُ: <لا تَزَالُ أُمَّتِي بِخَيْرٍ،-أَوْ قَالَ: عَلَى الْفِطْرَةِ- مَا لَمْ يُؤَخِّرُوا الْمَغْرِبَ، إِلَى أَنْ تَشْتَبِكَ النُّجُومُ >۔
* تخريج: تفرد به أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۳۴۸۸)، وقد أخرجہ: حم (۴/۱۴۷) (حسن صحیح)

۴۱۸- مرثد بن عبداللہ کہتے ہیں کہ جب ابو ایوب رضی اللہ عنہ ہمارے پاس جہاد کے ارادے سے آئے، ان دنوں عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ مصر کے حاکم تھے، تو عقبہ نے مغرب میں دیر کی، ابو ایوب نے کھڑے ہوکر ان سے کہا: عقبہ! بھلا یہ کیاصلاۃ ہے؟ عقبہ نے کہا: ہم مشغول رہے، انہوں نے کہا: کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے نہیں سنا کہ: ’’میری امت ہمیشہ بھلائی یا فطرت پر رہے گی جب تک وہ مغرب میں اتنی تاخیر نہ کرے گی کہ ستار ے چمکنے لگ جائیں‘‘۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
7- بَاب فِي وَقْتِ الْعِشَاءِ الآخِرَةِ
۷-باب: عشاء کے وقت کا بیان​


419- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، عَنْ بَشِيرِ بْنِ ثَابِتٍ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ سَالِمٍ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ قَالَ: أَنَا أَعْلَمُ النَّاسِ بِوَقْتِ هَذِهِ الصَّلاةِ صَلاةِ الْعِشَاءِ الآخِرَةِ، كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم يُصَلِّيهَا لِسُقُوطِ الْقَمَرِ لِثَالِثَةٍ۔
* تخريج: ت/الصلاۃ ۹ (۱۶۵)، ن/المواقیت ۱۸ (۵۲۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۶۱۴)، وقد أخرجہ: حم (۴/۲۷۰، ۲۷۴)، دي/الصلاۃ ۱۸ (۱۲۴۷) (صحیح)

۴۱۹- نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں لوگوں میں سب سے زیادہ اس صلاۃ یعنی عشاء کے وقت کو جانتا ہوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ صلاۃ تیسری رات کا چاند ڈوب جانے کے وقت پڑھتے تھے ۔

420- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنِ الْحَكَمِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ قَالَ: مَكَثْنَا ذَاتَ لَيْلَةٍ نَنْتَظِرُ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم لِصَلاةِ الْعِشَاءِ فَخَرَجَ إِلَيْنَا حِينَ ذَهَبَ ثُلُثُ اللَّيْلِ أَوْ بَعْدَهُ، فَلا نَدْرِي أَشَيْئٌ شَغَلَهُ أَمْ غَيْرُ ذَلِكَ، فَقَالَ حِينَ خَرَجَ: <أَتَنْتَظِرُونَ هَذِهِ الصَّلاةَ؟ لَوْلا أَنْ تَثْقُلَ عَلَى أُمَّتِي لَصَلَّيْتُ بِهِمْ هَذِهِ السَّاعَةَ>، ثُمَّ أَمَرَ الْمُؤَذِّنَ فَأَقَامَ الصَّلاةَ۔
* تخريج:م/المساجد ۳۹ (۶۳۹)، ن/المواقیت ۲۰ (۵۳۸)، (تحفۃ الأشراف: ۷۶۴۹)، وقد أخرجہ: خ/مواقیت الصلاۃ ۲۴ (۵۷۱)، حم (۲/۲۸، ۹۵، ۱۲۶) (صحیح)

۴۲۰- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک رات ہم عشاء کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کا انتظار کرتے رہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت تشریف لائے جب تہائی رات یا اس سے زیادہ گزر گئی، ہم نہیں جانتے کہ کسی چیز نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مشغول کر رکھا تھا یا کوئی اور بات تھی، جس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نکل کر آئے تو فرمایا: ’’کیا تم لوگ اس صلاۃ کا انتظار کر رہے ہو؟ اگر میری امت پر گراں نہ گزرتا تو میں انہیں یہ صلاۃ اسی وقت پڑھاتا‘‘، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مؤذن کو حکم دیا، اس نے صلاۃ کے لئے تکبیر کہی ۔

421- حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ الْحِمْصِيُّ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا حَرِيزٌ، عَنْ رَاشِدِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ حُمَيْدٍ السَّكُونِيِّ أَنَّهُ سَمِعَ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ يَقُولُ: أَبْقَيْنَا النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم فِي صَلاةِ الْعَتَمَةِ فَأَخَّرَ حَتَّى ظَنَّ الظَّانُّ أَنَّهُ لَيْسَ بِخَارِجٍ، وَالْقَائِلُ مِنَّا يَقُولُ: صَلَّى، فَإِنَّا لَكَذَلِكَ حَتَّى خَرَجَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالُوا لَهُ كَمَا قَالُوا، فَقَالَ لَهُمْ: < أَعْتِمُوا بِهَذِهِ الصَّلاةِ فَإِنَّكُمْ قَدْ فُضِّلْتُمْ بِهَا عَلَى سَائِرِ الأُمَمِ، وَلَمْ تُصَلِّهَا أُمَّةٌ قَبْلَكُمْ >۔
* تخريج: تفرد به أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۳۱۹)، وقد أخرجہ: حم (۵/۲۳۷) (صحیح)

۴۲۱- معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے عشاء میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا انتظار کیالیکن آپ نے تاخیر کی، یہاں تک کہ گمان کرنے والوں نے گمان کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہیں نکلیں گے، اور ہم میں سے بعض کہنے والے یہ بھی کہہ رہے تھے کہ آپ صلاۃ پڑھ چکے ہیں، ہم اسی حال میں تھے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نکلے ، لوگوں نے آپ سے بھی وہی بات کہی جو پہلے کہہ رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ’’تم لوگ اس صلاۃ کو دیر کرکے پڑھو، کیونکہ تمہیں اسی کی وجہ سے دوسری امتوں پر فضیلت دی گئی ہے ، تم سے پہلے کسی امت نے یہ صلاۃ نہیں پڑھی ‘‘۔

422- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ أَبِي هِنْدٍ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ: صَلَّيْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم صَلاةَ الْعَتَمَةِ، فَلَمْ يَخْرُجْ حَتَّى مَضَى نَحْوٌ مِنْ شَطْرِ اللَّيْلِ فَقَالَ: <خُذُوا مَقَاعِدَكُمْ> فَأَخَذْنَا مَقَاعِدَنَا فَقَالَ: <إِنَّ النَّاسَ قَدْ صَلَّوْا وَأَخَذُوا مَضَاجِعَهُمْ، وَإِنَّكُمْ لَنْ تَزَالُوا فِي صَلاةٍ مَا انْتَظَرْتُمُ الصَّلاةَ، وَلَوْلا ضَعْفُ الضَّعِيفِ وَسَقَمُ السَّقِيمِ لأَخَّرْتُ هَذِهِ الصَّلاةَ إِلَى شَطْرِ اللَّيْلِ>۔
* تخريج: ن/المواقیت ۲۰ (۵۳۹)، ق/الصلاۃ ۸ (۶۹۳)، (تحفۃ الأشراف: ۴۳۱۴)، وقد أخرجہ: حم (۳/۵) (صحیح)

۴۲۲- ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عشاء پڑھنی چاہی تو آپ باہرنکلے ہی نہیں یہاں تک کہ آدھی رات گزر گئی( اس کے بعد نکلے ) اور فرمایا: ’’تم لوگ اپنی اپنی جگہ بیٹھے رہو، ہم لوگ اپنی اپنی جگہ بیٹھے رہے‘‘، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’لوگوں نے صلاۃ پڑھ لی اور اپنی خواب گاہوں میں جاکر سورہے، اور تم برابر صلاۃ ہی میں رہے جب تک کہ تم صلاۃ کا انتظار کرتے رہے، اگر مجھے کمزور کی کمزوری ، اور بیمار کی بیماری کا خیال نہ ہوتا تو میں اس صلاۃ کو آدھی رات تک مؤخر کرتا‘‘۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
8- بَاب فِي وَقْتِ الصُّبْحِ
۸ -باب: فجر کے وقت کا بیان​


423- حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ ، عَنْ مَالِكٍ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عَمْرَةَ بِنْتِ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِي اللَّه عَنْهَا أَنَّهَا قَالَتْ: إِنْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم لَيُصَلِّي الصُّبْحَ فَيَنْصَرِفُ النِّسَاءُ مُتَلَفِّعَاتٍ بِمُرُوطِهِنَّ مَا يُعْرَفْنَ مِنَ الْغَلَسِ۔
* تخريج: خ/ الصلاۃ ۱۳ (۳۷۲)، المواقیت ۲۷ (۵۷۸)، والأذان ۱۶۳ (۸۶۷)، ۱۶۵ (۸۷۲)، م/المساجد ۴۰ (۶۴۵)، ت/الصلاۃ ۲ (۱۵۳)، ق/الصلاۃ ۲ (۶۶۹)، ن/المواقیت ۲۴ (۵۴۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۹۳۱)، وقد أخرجہ: ط/وقوت الصلاۃ ۱(۴)، حم (۶/۳۳، ۳۶، ۱۷۹، ۲۴۸، ۲۵۹)، دي/الصلاۃ ۲۰ (۱۲۵۲) (صحیح)

۴۲۳- امّ المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلاۃِصبح(فجر) ادا فرماتے، پھر عورتیں اپنی چادروں میں لپٹی واپس لوٹتیں تو اندھیرے کی وجہ سے وہ پہچانی نہیں جاتی تھیں ۔

424- حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ ابْنِ عَجْلانَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ ابْنِ قَتَادَةَ بْنِ النُّعْمَانِ، عَنْ مَحْمُودِ بْنِ لَبِيدٍ، عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم : <أَصْبِحُوا بِالصُّبْحِ فَإِنَّهُ أَعْظَمُ لأُجُورِكُمْ >، أَوْ: < أَعْظَمُ لِلأَجْرِ >۔
* تخريج: ت/الصلاۃ ۳ (۱۵۴)، ن/المواقیت ۲۶ (۵۵۰)، ق/الصلاۃ ۲ (۶۷۲)، تحفۃ الأشراف(۳۵۸۲)، وقد أخرجہ: حم (۳/۴۶۰، ۴/۱۴۰)، دي/الصلاۃ ۲۱ (۱۲۵۳) (حسن صحیح)

۴۲۴- رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’فجر(صلاۃِصبح) اس وقت پڑھو جب اچھی طرح صبح (صادق) ہو جا ئے، کیونکہ یہ چیز تمہارے ثوابوں کو زیادہ کر نے والی ہے (یا کہا: ثواب کو زیادہ کرنے والی ہے)‘‘ ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی فجر طلوع صبح کے وقت پڑھو کیونکہ’’اصبح الرجل‘‘اس وقت کہا جاتا ہے جب آدمی صبح کرے اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ جن لوگوں نے ’’ أَسْفِرُوْا بِالْفَجْرِ‘‘ کی روایت کی ہے، وہ روایت بالمعنی ہے اور یہ غلس میں پڑھنے کی فضیلت کی دلیل ہے نہ کہ اسفار کی۔
 
Top