2-بَاب فِي الْمَوَاقِيتِ
۲-باب: اوقاتِ صلاۃ کا بیان
393- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ سُفْيَانَ، حَدَّثَنِي عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ فُلانِ بْنِ أَبِي رَبِيعَةَ، عَنْ حَكِيمِ بْنِ حَكِيمٍ، عَنْ نَافِعِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، عنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم : < أَمَّنِي جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلام عِنْدَ الْبَيْتِ مَرَّتَيْنِ: فَصَلَّى بِيَ الظُّهْرَ حِينَ زَالَتِ الشَّمْسُ وَكَانَتْ قَدْرَ الشِّرَاكِ، وَصَلَّى بِيَ الْعَصْرَ حِينَ كَانَ ظِلُّهُ مِثْلَهُ، وَصَلَّى بِيَ -يَعْنِي الْمَغْرِبَ- حِينَ أَفْطَرَ الصَّائِمُ، وَصَلَّى بِيَ الْعِشَاءَ حِينَ غَابَ الشَّفَقُ، وَصَلَّى بِيَ الْفَجْرَ حِينَ حَرُمَ الطَّعَامُ وَالشَّرَابُ عَلَى الصَّائِمِ، فَلَمَّا كَانَ الْغَدُ صَلَّى بِيَ الظُّهْرَ حِينَ كَانَ ظِلُّهُ مِثْلَهُ، وَصَلَّى بِي الْعَصْرَ حِينَ كَانَ ظِلُّهُ مِثْلَيْهِ، وَصَلَّى بِيَ الْمَغْرِبَ حِينَ أَفْطَرَ الصَّائِمُ، وَصَلَّى بِيَ الْعِشَاءَ إِلَى ثُلُثِ اللَّيْلِ، وَصَلَّى بِيَ الْفَجْرَ فَأَسْفَرَ، ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَيَّ فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، هَذَا وَقْتُ الأَنْبِيَائِ مِنْ قَبْلِكَ، وَالْوَقْتُ مَا بَيْنَ هَذَيْنِ الْوَقْتَيْنِ >۔
* تخريج: ت/الصلاۃ ۱ (۱۴۹)، (تحفۃ الأشراف: ۶۵۱۹)، وقد أخرجہ: حم (۱/۳۳۳، ۳۵۴) (حسن صحیح)
۳۹۳- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جبرئیل وضاحت نے خانہ کعبہ کے پاس دوبار میری امامت کی ، ظہر مجھے اس وقت پڑھائی جب سورج ڈھل گیا اور سایہ جوتے کے تسمے کے برابر ہوگیا، عصر اس وقت پڑھائی جب ہر چیز کا سا یہ اس کے مثل ۱؎ ہوگیا، مغرب اس وقت پڑھائی جب صائم صیام کھولتا ہے (سورج ڈوبتے ہی)، عشاء اس وقت پڑھائی جب شفق ۲؎ غائب ہوگئی، اور فجر اس وقت پڑھائی جب صائم پر کھانا پینا حرام ہوجاتا ہے یعنی جب صبح صادق طلوع ہوتی ہے۔
دوسرے دن ظہر مجھے اس وقت پڑھائی، جب ہر چیز کا سایہ اس کے مثل ۳؎ ہوگیا،عصر اس وقت پڑھائی، جب ہر چیز کا سایہ اس کے دو مثل ہوگیا،مغرب اس وقت پڑھائی جب صائم صیام کھولتا ہے،عشاء تہائی رات میں پڑھائی ، اور فجراجالے میں پڑھائی، پھر جبرئیل وضاحت میری جانب متوجہ ہوئے اور فرمایا: اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! یہی وقت آپ سے پہلے انبیاء کا بھی رہا ہے،اور صلاۃ کا وقت ان دونوں وقتوں کے درمیان ہے ۴؎ ‘‘۔
وضاحت ۱؎ : اس سے معلوم ہوا کہ ایک مثل پر عصر کا وقت شروع ہوجاتا ہے۔
وضاحت ۲؎ : شفق اس سرخی کوکہتے ہیں جو سورج ڈوب جانے کے بعد مغرب (پچھم) میں باقی رہتی ہے۔
وضاحت ۳؎ : یعنی برابر ہونے کے قریب ہوگیا۔
وضاحت ۴؎ : پہلے دن جبرئیل وضاحت نے ساری صلاتیں اوّل وقت میں پڑھائیں، اور دوسرے دن آخری وقت میں تاکہ ہر صلاۃ کا اوّل اور آخر وقت معلوم ہوجائے۔
394- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ الْمُرَادِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ اللَّيْثِيِّ أَنَّ ابْنَ شِهَابٍ أَخْبَرَهُ أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِالْعَزِيزِ كَانَ قَاعِدًا عَلَى الْمِنْبَرِ فَأَخَّرَ الْعَصْرَ شَيْئًا، فَقَالَ لَهُ عُرْوَةُ ابْنُ الزُّبَيْرِ: أَمَا إِنَّ جِبْرِيلَ صلی اللہ علیہ وسلم قَدْ أَخْبَرَ مُحَمَّدًا صلی اللہ علیہ وسلم بِوَقْتِ الصَّلاةِ فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: اعْلَمْ مَا تَقُولُ، فَقَالَ عُرْوَةُ: سَمِعْتُ بَشِيرَ بْنَ أَبِي مَسْعُودٍ يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا مَسْعُودٍ الأَنْصَارِيَّ يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم يَقُولُ: < نَزَلَ جِبْرِيلُ صلی اللہ علیہ وسلم فَأَخْبَرَنِي بِوَقْتِ الصَّلاةِ فَصَلَّيْتُ مَعَهُ ثُمَّ صَلَّيْتُ مَعَهُ ثُمَّ صَلَّيْتُ مَعَهُ ثُمَّ صَلَّيْتُ مَعَهُ ثُمَّ صَلَّيْتُ مَعَهُ >، يَحْسُبُ بِأَصَابِعِهِ خَمْسَ صَلَوَاتٍ، فَرَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم صَلَّى الظُّهْرَ حِينَ تَزُولُ الشَّمْسُ، وَرُبَّمَا أَخَّرَهَا حِينَ يَشْتَدُّ الْحَرُّ، وَرَأَيْتُهُ يُصَلِّي الْعَصْرَ وَالشَّمْسُ مُرْتَفِعَةٌ بَيْضَاءُ قَبْلَ أَنْ تَدْخُلَهَا الصُّفْرَةُ فَيَنْصَرِفُ الرَّجُلُ مِنَ الصَّلاةِ فَيَأْتِي ذَا الْحُلَيْفَةِ قَبْلَ غُرُوبِ الشَّمْسِ، وَيُصَلِّي الْمَغْرِبَ حِينَ تَسْقُطُ الشَّمْسُ، وَيُصَلِّي الْعِشَاءَ حِينَ يَسْوَدُّ الأُفُقُ، وَرُبَّمَا أَخَّرَهَا حَتَّى يَجْتَمِعَ النَّاسُ، وَصَلَّى الصُّبْحَ مَرَّةً بِغَلَسٍ ثُمَّ صَلَّى مَرَّةً أُخْرَى فَأَسْفَرَ بِهَا، ثُمَّ كَانَتْ صَلاتُهُ بَعْدَ ذَلِكَ التَّغْلِيسَ حَتَّى مَاتَ وَلَمْ يَعُدْ إِلَى أَنْ يُسْفِرَ.
قَالَ أَبودَاود: رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ عَنِ الزُّهْرِيِّ مَعْمَرٌ وَمَالِكٌ وَابْنُ عُيَيْنَةَ وَشُعَيْبُ بْنُ أَبِي حَمْزَةَ وَاللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ وَغَيْرُهُمْ، لَمْ يَذْكُرُوا الْوَقْتَ الَّذِي صَلَّى فِيهِ وَلَمْ يُفَسِّرُوهُ، وَكَذَلِكَ أَيْضًا رَوَى هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ وَحَبِيبُ بْنُ أَبِي مَرْزُوقٍ عَنْ عُرْوَةَ نَحْوَ رِوَايَةِ مَعْمَرٍ وَأَصْحَابِهِ إِلا أَنَّ حَبِيبًا لَمْ يَذْكُرْ بَشِيرًا، وَرَوَى وَهْبُ بْنُ كَيْسَانَ عَنْ جَابِرٍ عَنِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم وَقْتَ الْمَغْرِبِ قَالَ: ثُمَّ جَائَهُ لِلْمَغْرِبِ حِينَ غَابَتِ الشَّمْسُ، يَعْنِي مِنَ الْغَدِ، وَقْتًا وَاحِدًا.
قَالَ أَبودَاود: [وَكَذَلِكَ رُوِيَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ: < ثُمَّ صَلَّى بِيَ الْمَغْرِبَ -يَعْنِي مِنَ الْغَدِ- وَقْتًا وَاحِدًا>] وَكَذَلِكَ رُوِيَ عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ مِنْ حَدِيثِ حَسَّانَ بْنِ عَطِيَّةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ عَنِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم ۔
* تخريج: م /المساجد ۳۱ (۶۱۰)، ن/ المواقیت ۱ (۴۹۵)، ق/ الصلاۃ ۱ (۶۶۸)، (تحفۃ الأشراف: ۹۹۷۷)، وقد أخرجہ: خ/ المواقیت ۱ (۵۲۱)، وبدء الخلق ۶ (۳۲۲۱)، والمغازي ۱۲ (۴۰۰۷)، ط/وقوت الصلاۃ ۱(۱)، حم (۴/۱۲۰)، دي/الصلاۃ ۳ (۱۲۲۳) (حسن)
۳۹۴- ابن شہاب زہری کہتے ہیں کہ عمر بن عبدالعزیز منبر پر بیٹھے ہوئے تھے، آپ نے عصر میں کچھ تاخیر کردی، اس پر عروہ بن زبیر نے آپ سے کہا: کیا آپ کو معلوم نہیں کہ جبرئیل وضاحت نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو صلاۃ کا وقت بتادیا ہے؟ تو عمر بن عبدالعزیز نے کہا: جو تم کہہ رہے ہو ا سے سوچ لو ۱؎ ۔
عروہ نے کہا : میں نے بشیر بن ابی مسعود کو کہتے سنا ، وہ کہتے تھے کہ میں نے ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا، وہ کہتے تھے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا کہ ’’جبرئیل وضاحت اترے، انہوں نے مجھے اوقات ِصلاۃ کی خبر دی، چنانچہ میں نے ان کے ساتھ صلاۃ پڑھی، پھر ان کے ساتھ صلاۃ پڑھی، پھر ان کے ساتھ صلاۃ پڑھی ، پھر ان کے ساتھ صلاۃ پڑھی، پھر ان کے سا تھ صلاۃ پڑھی‘‘، آپ اپنی انگلیوں پر پانچوں (وقت کی ) صلاۃ کو شمار کرتے جارہے تھے۔
میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نے سورج ڈھلتے ہی ظہر پڑھی، اور جب کبھی گرمی شدید ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر دیر کرکے پڑھتے۔
اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عصر اس وقت پڑھتے دیکھا جب سورج بالکل بلند وسفید تھا، اس میں زردی نہیں آئی تھی کہ آدمی عصر سے فارغ ہو کر ذوالحلیفہ ۲؎ آتا ،تو سورج ڈوبنے سے پہلے وہاں پہنچ جاتا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم مغرب سورج ڈوبتے ہی پڑھتے اور عشاء اس وقت پڑھتے جب آسمان کے کناروں میں سیاہی آجاتی، اورکبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء میں دیر کرتے تاکہ لوگ اکٹھا ہوجائیں،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ فجر غلس (اندھیرے ) میں پڑھی، اور دوسری مرتبہ آپ نے اس میں اسفار ۳؎ کیا یعنی خوب اجالے میں پڑھی، مگر اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم فجر ہمیشہ غلس میں پڑھتے رہے یہاں تک کہ آپ کی وفات ہو گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر کبھی اسفار میں صلاۃ نہیںادا کی ۔
ابو داود کہتے ہیں:یہ حدیث زہری سے:معمر ، مالک ، ابن عیینہ، شعیب بن ابوحمزہ ، لیث بن سعد وغیرہم نے بھی روایت کی ہے لیکن ان سب نے ( اپنی روایت میں ) اس وقت کا ذکر نہیں کیا، جس میں آپ نے صلاۃ پڑھی، اور نہ ہی ان لوگوں نے اس کی تفسیر کی ہے، نیزہشام بن عروہ اور حبیب بن ابی مرزوق نے بھی عروہ سے اسی طرح روایت کی ہے جس طرح معمر اور ان کے اصحاب نے روایت کی ہے، مگر حبیب نے ( اپنی روایت میں ) بشیر کا ذکر نہیں کیا ہے ۔
اور وہب بن کیسان نے جابر رضی اللہ عنہ سے، جابرنے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مغرب کے وقت کی روایت کی ہے، اس میں ہے کہ جبرئیل وضاحت دوسرے دن مغرب کے وقت سورج ڈوبنے کے بعد آئے یعنی دونوں دن ایک ہی وقت میں آئے۔
ابوداود کہتے ہیں کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بھی اسی طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جبرئیل نے مجھے دوسرے دن مغرب ایک ہی وقت میں پڑھائی ‘‘۔
اسی طرح عبداللہ بن عمر وبن العاص رضی اللہ عنہما سے بھی مروی ہے یعنی حسان بن عطیہ کی حدیث جسے وہ عمروبن شعیب سے،وہ ان کے والد سے، وہ اپنے دادا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے، اور عبد اللہ بن عمرو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں۔
وضاحت ۱؎ : عمربن عبدالعزیز کواس حدیث کے متعلق شبہہ ہوا کہ کہیں یہ ضعیف نہ ہو کیونکہ عروہ نے اسے بغیر سند بیان کیا تھا، یا یہ شبہہ ہوا کہ اوقاتِ صلاۃ کی نشاندہی تو اللہ تعالی نے معراج کی رات میں خود براہ راست کردی ہے اس میں جبرئیل وضاحت کاواسطہ کہاں سے آگیا، یا جبرئیل وضاحت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت کیسے کی جبکہ وہ مرتبہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کمتر ہیں، چنانچہ انہیں شبہات کے ازالہ کے لئے عروہ نے اسے مع سند بیان کرنا شروع کیا۔
وضاحت ۲؎ : ذوالحلیفہ مدینہ سے مکہ کے راستہ میں دو فرسخ (چھ میل یا ساڑھے نو کیلو میٹر) کی دوری پر ہے،اس وقت یہ
بئر علی یا ابیار علی سے معروف ہے ، یہ اہل مدینہ اور مدینہ کے راستہ سے گزرنے والے حجاج اور معتمرین کی میقات ہے۔
وضاحت ۳؎ : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا سفر میں یہ پڑھنا جواز کے بیان کے لئے تھا، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ غلس ہی میں فجر ادا کی۔
395- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ دَاوُدَ، حَدَّثَنَا بَدْرُ بْنُ عُثْمَانَ، حَدَّثَنَا أَبُوبَكْرِ ابْنُ أَبِي مُوسَى، عَنْ أَبِي مُوسَى أَنَّ سَائِلا سَأَلَ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيْهِ شَيْئًا، حَتَّى أَمَرَ بِلالاً فَأَقَامَ الْفَجْرَ حِينَ انْشَقَّ الْفَجْرُ، فَصَلَّى حِينَ كَانَ الرَّجُلُ لايَعْرِفُ وَجْهَ صَاحِبِهِ، أَوْ أَنَّ الرَّجُلَ لا يَعْرِفُ مَنْ إِلَى جَنْبِهِ، ثُمَّ أَمَرَ بِلالاً فَأَقَامَ الظُّهْرَ حِينَ زَالَتِ الشَّمْسُ، حَتَّى قَالَ الْقَائِلُ: انْتَصَفَ النَّهَارُ، وَهُوَ أَعْلَمُ، ثُمَّ أَمَرَ بِلالاً فَأَقَامَ الْعَصْرَ وَالشَّمْسُ بَيْضَاءُ مُرْتَفِعَةٌ، وَأَمَرَ بِلالا فَأَقَامَ الْمَغْرِبَ حِينَ غَابَتِ الشَّمْسُ، وَأَمَرَ بِلالاً فَأَقَامَ الْعِشَاءَ حِينَ غَابَ الشَّفَقُ، فَلَمَّا كَانَ مِنَ الْغَدِ صَلَّى الْفَجْرَ وَانْصَرَفَ فَقُلْنَا: أَطَلَعَتِ الشَّمْسُ؟ فَأَقَامَ الظُّهْرَ فِي وَقْتِ الْعَصْرِ الَّذِي كَانَ قَبْلَهُ، وَصَلَّى الْعَصْرَ وَقَدِ اصْفَرَّتِ الشَّمْسُ، أَوْ قَالَ: أَمْسَى، وَصَلَّى الْمَغْرِبَ قَبْلَ أَنْ يَغِيبَ الشَّفَقُ، وَصَلَّى الْعِشَاءَ إِلَى ثُلُثِ اللَّيْلِ، ثُمَّ قَالَ: <أَيْنَ السَّائِلُ عَنْ وَقْتِ الصَّلاةِ؟ الْوَقْتُ فِيمَا بَيْنَ هَذَيْنِ >.
قَالَ أَبودَاود: رَوَى سُلَيْمَانُ بْنُ مُوسَى، عَنْ عَطَاءِ، عَنْ جَابِرٍ؛ عَنِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم فِي الْمَغْرِبِ بِنَحْوِ هَذَا، قَالَ: $ ثُمَّ صَلَّى الْعِشَاءَ قَالَ بَعْضُهُمْ: إِلَى ثُلُثِ اللَّيْلِ وَقَالَ بَعْضُهُمْ: $ إِلَى شَطْرِهِ وَكَذَلِكَ رَوَى ابْنُ بُرَيْدَةَ عَنْ أَبِيهِ؛ عَنِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم ۔
* تخريج: م/المساجد ۳۱ (۶۱۳)، ن/المواقیت ۱۵ (۵۲۲)، (تحفۃ الأشراف:۹۱۳۷)، وقد أخرجہ: ت/الصلاۃ ۱ (۱۵۲)، ق/الصلاۃ ۱ (۶۶۷)، حم (۵/۲۴۹) (صحیح)
۳۹۵- ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک سائل نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے( اوقاتِ صلاۃ کے بارے میں) پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کوئی جواب نہیں دیا، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیاتو انہوں نے فجر کی اقامت اس وقت کہی جب صبح صادق کی پَوْپھٹ گئی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صلاۃِ فجر اس وقت پڑھی جب آدمی اپنے ساتھ والے کا چہرہ (اندھیرے کی وجہ سے) نہیں پہچان سکتا تھا، یا آدمی کے پہلو میں جو شخص ہوتا اسے نہیں پہچان سکتاتھا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال کو حکم دیاتو انہوں نے ظہر کی اقامت اس وقت کہی جب آفتاب ڈھل گیا یہاں تک کہ کہنے والے نے کہا : (ابھی تو) ٹھیک دو پہر ہوئی ہے، اور آپ کو خوب معلوم تھا(کہ زوال ہوچکا ہے)، پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال کو حکم دیاتو انہوں نے عصر کی اقامت کہی، اس وقت سورج بلند وسفید تھا، پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال کو حکم دیا توانہوں نے مغرب کی اقامت سورج ڈوبنے پر کہی، پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال کو حکم دیاتو انہوں نے عشاء کی اقامت اس وقت کہی جب شفق غائب ہوگئی، پھر جب دوسرا دن ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر پڑھی اور صلاۃ سے فارغ ہوئے، تو ہم لوگ کہنے لگے: کیا سورج نکل آیا؟ پھر ظہر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت پڑھی جس وقت پہلے روز عصر پڑھی تھی اور عصر اس وقت پڑھی جب سورج زرد ہوگیا یا کہا: شام ہوگئی، اور مغرب شفق غائب ہونے سے پہلے پڑھی، اور عشاء اس وقت پڑھی جب تہائی رات گزرگئی، پھر فرمایا: ’’ کہاں ہے وہ شخص جو صلاۃ کے اوقات پوچھ رہا تھا ؟ صلاۃ کا وقت ان دونوں کے بیچ میں ہے‘‘ ۱ ؎ ۔
ابوداود کہتے ہیں: سلیمان بن موسیٰ نے عطاء سے، عطاء نے جا بر رضی اللہ عنہ سے ، جابر نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مغرب کے بارے میں اسی طرح روایت کی ہے، اس میں ہے: ’’پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء پڑھی‘‘، بعض نے کہا : ’’تہائی رات میں پڑھی‘‘، بعض نے کہا: ’’آدھی رات میں‘‘،اور اسی طرح یہ حدیث ابن بریدہ نے اپنے والد (بریدہ) سے ،بریدہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے ۔
وضاحت ۱؎ :پہلے دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ساری صلاتیں اوّل وقت میں پڑھیں، اور دوسرے دن آخری وقت میں، ایسا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو بتانے کے لئے کیا تھا، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی فجر اسفار میں نہیں پڑھی اور نہ ہی کبھی بلاوجہ ظہر،عصر اور مغرب میں تاخیر کی۔
396- حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، سَمِعَ أَبَا أَيُّوبَ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، عَنِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم أَنَّهُ قَالَ: < وَقْتُ الظُّهْرِ مَا لَمْ تَحْضُرِ الْعَصْرُ، وَوَقْتُ الْعَصْرِ مَا لَمْ تَصْفَرَّ الشَّمْسُ، وَوَقْتُ الْمَغْرِبِ مَا لَمْ يَسْقُطْ فَوْرُ الشَّفَقِ، وَوَقْتُ الْعِشَائِ إِلَى نِصْفِ اللَّيْلِ، وَوَقْتُ [صَلاةِ] الْفَجْرِ مَا لَمْ تَطْلُعِ الشَّمْسُ >۔
* تخريج: م/المساجد ۳۱ (۶۱۲)، ن/المواقیت ۱۴ (۵۲۳)، (تحفۃ الأشراف: ۸۹۴۶)، وقد أخرجہ: حم (۲/۲۱۰، ۲۱۳، ۲۲۳) (صحیح)
۳۹۶- عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ظہر کا وقت اس وقت تک ہے جب تک کہ عصر کا وقت نہ آجائے،عصر کا وقت اس وقت تک ہے جب تک کہ سورج زرد نہ ہوجائے،مغرب کا وقت اس وقت تک ہے جب تک کہ شفق کی سرخی ختم نہ ہوجائے،عشاء کا وقت آدھی رات تک ہے، اور فجر کا وقت اس وقت تک ہے جب تک کہ سورج نہ نکل آئے ‘‘۔