• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابو داود

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
180-بَاب كَيْفَ الْجُلُوسُ فِي التَّشَهُّدِ؟
۱۸۰-باب: تشہد میں کس طرح بیٹھے ؟​


957- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ وَائِلِ ابْنِ حُجْرٍ، قَالَ: قُلْتُ: لأَنْظُرَنَّ إِلَى صَلاةِ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم كَيْفَ يُصَلِّي، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ فَكَبَّرَ، فَرَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى حَاذَتَا بِأُذُنَيْهِ، ثُمَّ أَخَذَ شِمَالَهُ بِيَمِينِهِ، فَلَمَّا أَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ رَفَعَهُمَا مِثْلَ ذَلِكَ، قَالَ: ثُمَّ جَلَسَ فَافْتَرَشَ رِجْلَهُ الْيُسْرَى وَوَضَعَ يَدَهُ الْيُسْرَى عَلَى فَخِذِهِ الْيُسْرَى وَحَدَّ مِرْفَقَهُ الأَيْمَنَ عَلَى فَخِذِهِ الْيُمْنَى وَقَبَضَ ثِنْتَيْنِ وَحَلَّقَ حَلْقَةً وَرَأَيْتُهُ يَقُولُ هَكَذَا، وَحَلَّقَ بِشْرٌ الإِبْهَامَ وَالْوُسْطَى وَأَشَارَ بِالسَّبَّابَةِ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم (۷۲۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۷۸۱) (صحیح)

۹۵۷- وا ئل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا : میں ضرور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقۂ صلاۃ کو دیکھوں گا کہ آپ کس طرح صلاۃ پڑھتے ہیں؟ چنا نچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ( صلاۃ کے لئے ) کھڑے ہو ے تو قبلہ کا استقبال کیاپھر تکبیر (تحریمہ) کہہ کردونوں ہاتھ اٹھائے یہاں تک کہ انہیں پھر اپنے دونوں کانوں کے بالمقابل کیا پھراپنا با یاں ہا تھ اپنے داہنے ہا تھ سے پکڑا، پھر جب آپ نے رکوع کرنا چاہا توانہیں پھر اسی طرح اٹھایا، وہ کہتے ہیں: پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے تو اپنے بائیں پیر کو بچھا لیا اور اپنے بائیں ہاتھ کو اپنی بائیں ران پر رکھا اور اپنی داہنی کہنی کو اپنی داہنی ران سے اٹھائے رکھا اور دونوں انگلیاں (یعنی چھنگلیااور اس کے قریب کی انگلی ) بند کر لی اور ( بیچ کی انگلی اور انگو ٹھے سے ) حلقہ بنا لیا اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح کر تے ہوئے دیکھا ۔
اور بشر (راوی) نے بیچ کی انگلی اور انگو ٹھے سے حلقہ بنا کر اورکلمے کی انگلی سے اشارہ کرکے بتایا ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے اوراس کے علاوہ جتنی حدیثیں اس سلسلے میں آئی ہیں،ان سب سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ شروع ہی سے آپ اسی طرح (انگلی کے)اشارہ کی شکل پربیٹھتے ہی تھے نہ یہ کہ جب أشہدان لاإلہ إلاللہ پڑھتے تب انگلی سے اشارہ کرتے۔

958- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ قَالَ: سُنَّةُ الصَّلاةِ أَنْ تَنْصِبَ رِجْلَكَ الْيُمْنَى وَتَثْنِيَ رِجْلَكَ الْيُسْرَى۔
* تخريج: خ/الأذان ۱۴۵ (۸۲۷)، ن/التطبیق ۹۶ (۱۱۵۷)، (تحفۃ الأشراف: ۷۲۶۹)، وقد أخرجہ: ط/الصلاۃ ۱۲(۵۱) (صحیح)

۹۵۸- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ صلاۃ کی سنت یہ ہے کہ تم اپنا دا یاں پیر کھڑا رکھو اور بایاں پیر مو ڑ کر رکھو۔

959- حَدَّثَنَا ابْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَهَّابِ، قَالَ: سَمِعْتُ يَحْيَى قَالَ: سَمِعْتُ الْقَاسِمَ يَقُولُ: أَخْبَرَنِي عَبْدُاللَّهِ بْنُ عَبْدِاللَّهِ أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَاللَّهِ بْنَ عُمَرَ يَقُولُ: مِنْ سُنَّةِ الصَّلاةِ أَنْ تُضْجِعَ رِجْلَكَ الْيُسْرَى وَتَنْصِبَ الْيُمْنَى ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۷۲۶۹) (صحیح)

۹۵۹- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: صلاۃ کی سنت میں سے یہ ہے کہ تم اپنا با یاں پیر بچھائے رکھو اورداہنا پیر کھڑا رکھو۔

960- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ يَحْيَى، بِإِسْنَادِهِ مِثْلَهُ .
قَالَ أَبودَاود: قَالَ حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ يَحْيَى أَيْضًا: مِنَ السُّنَّةِ، كَمَا قَالَ جَرِيرٌ ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم : (۹۵۸)، (تحفۃ الأشراف: ۷۲۶۹) (صحیح)

۹۶۰- اس طریق سے بھی یحیی سے اسی سند سے اسی کے مثل مروی ہے۔
ابو داود کہتے ہیں: حماد بن زید نے یحییٰ سے ’’من السنة‘‘ کا لفظ روایت کیا ہے جیسے جریر نے کہا ہے۔

961- حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ أَنَّ الْقَاسِمَ بْنَ مُحَمَّدٍ أَرَاهُمُ الْجُلُوسَ فِي التَّشَهُّدِ، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم (۹۵۸)، (تحفۃ الأشراف: ۷۲۷۹، ۱۹۱۲۰۴) (صحیح)

۹۶۱- یحییٰ بن سعید سے روایت ہے کہ قاسم بن محمد نے( اپنے سا تھیوں کو) تشہد میں بیٹھنے کی کیفیت دکھا ئی پھر راوی نے پوری حدیث ذکر کی۔

962- حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، عَنْ وَكِيعٍ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنِ الزُّبَيْرِ بْنِ عَدِيٍّ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم إِذَا جَلَسَ فِي الصَّلاةِ افْتَرَشَ رِجْلَهُ الْيُسْرَى حَتَّى اسْوَدَّ ظَهْرُ قَدَمِهِ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۷۲۶۹، ۱۸۴۰۴) (ضعیف)

(سند میں انقطاع ہے ، ابراہیم نخعی کی اکثر روایتیں تابعین سے ہوتی ہیں )
۹۶۲- ابراہیم نخعی کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب صلاۃ میں (تشہد کے لئے) بیٹھتے تو اپنابا یاں پیر بچھا تے یہاں تک کہ آپ کے قدم کی پشت سیا ہ ہو گئی تھی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
181- بَاب مَنْ ذَكَرَ التَّوَرُّكَ فِي الرَّابِعَةِ
۱۸۱-باب: چو تھی رکعت میں تو رک (سرین پر بیٹھنے) کا بیان​


963- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ الضَّحَّاكُ بْنُ مَخْلَدٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ -يَعْنِي ابْنَ جَعْفَرٍ- (ح) وَحَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، حَدَّثَنَا عَبْدُالْحَمِيدِ -يَعْنِي ابْنَ جَعْفَرٍ- حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي حُمَيْدٍ السَّاعِدِيِّ قَالَ: سَمِعْتُهُ فِي عَشَرَةٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم ، وَقَالَ أَحْمَدُ: قَالَ أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ عَطَاءِ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا حُمَيْدٍ السَّاعِدِيَّ فِي عَشَرَةٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم مِنْهُمْ أَبُو قَتَادَةَ، قَالَ أَبُو حُمَيْدٍ: أَنَا أَعْلَمُكُمْ بِصَلاةِ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم ، قَالُوا: فَاعْرِضْ، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ، قَالَ: وَيَفْتَحُ أَصَابِعَ رِجْلَيْهِ إِذَا سَجَدَ ثُمَّ يَقُولُ: اللَّهُ أَكْبَرُ، وَيَرْفَعُ، وَيَثْنِي رِجْلَهُ الْيُسْرَى فَيَقْعُدُ عَلَيْهَا، ثُمَّ يَصْنَعُ فِي الأُخْرَى مِثْلَ ذَلِكَ، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ، قَالَ: حَتَّى إِذَا كَانَتِ السَّجْدَةُ الَّتِي فِيهَا التَّسْلِيمُ أَخَّرَ رِجْلَهُ الْيُسْرَى وَقَعَدَ مُتَوَرِّكًا عَلَى شِقِّهِ الأَيْسَرِ، زَادَ أَحْمَدُ: قَالُوا: صَدَقْتَ، هَكَذَا كَانَ يُصَلِّي، وَلَمْ يَذْكُرَا فِي حَدِيثِهِمَا الْجُلُوسَ فِي الثِّنْتَيْنِ كَيْفَ جَلَسَ ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم :۷۳۰، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۸۹۷) (صحیح)

۹۶۳- محمد بن عمرو کہتے کہ میں نے ابوحمیدساعدی رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دس اصحاب کی مو جو دگی میں سنا، اور احمد بن حنبل کی روایت میں ہے کہ محمد بن عمرو بن عطاء کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دس اصحاب کی مو جو دگی میں، جن میں ابو قتا دہ بھی تھے ، ابو حمید کو یہ کہتا سنا کہ میں تم لو گوں میں سب سے زیا دہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقۂ صلاۃ کو جانتا ہوں، لوگوں نے کہا: تو آپ پیش کیجئے، پھر راوی نے حدیث ذکر کی اس میں ہے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ کر تے تو پا ئوں کی انگلیاں کھلی رکھتے پھر ’’الله أكبر‘‘ کہتے اور سجدے سے سر اٹھا تے اور اپنا با یاں پا ئوںموڑتے اور اس پر بیٹھتے پھر دوسری رکعت میں ایسا ہی کر تے، پھر راوی نے حدیث ذکر کی اس میں ہے یہاں تک کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس (آخری) سجدے سے فا رغ ہو تے جس کے بعد سلام پھیر نا رہتا ہے تو با یاں پا ئوں ایک طرف نکال لیتے اور با ئیں سرین پر ٹیک لگا کر بیٹھتے۔
احمد نے اپنی روایت میں اضافہ کیا ہے: پھر لوگوں نے ان سے کہا:آپ نے سچ کہا، آپ اسی طرح صلاۃ پڑھتے تھے، لیکن ان دونوں نے یہ نہیں ذکر کیا کہ دو رکعت پڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح بیٹھے تھے؟ ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی ان دونوں نے پہلے تشہد میں بیٹھنے کی کیفیت کا ذکر نہیں کیا ہے۔

964- حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْمِصْرِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنِ اللَّيْثِ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ مُحَمَّدٍ الْقُرَشِيِّ، وَيَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَلْحَلَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَاءِ أَنَّهُ كَانَ جَالِسًا مَعَ نَفَرٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم بِهَذَا الْحَدِيثِ وَلَمْ يَذْكُرْ أَبَا قَتَادَةَ، قَالَ: فَإِذَا جَلَسَ فِي الرَّكْعَتَيْنِ جَلَسَ عَلَى رِجْلِهِ الْيُسْرَى، فَإِذَا جَلَسَ فِي الرَّكْعَةِ [الأَخِيرَةِ] قَدَّمَ رِجْلَهُ الْيُسْرَى وَجَلَسَ عَلَى مَقْعَدَتِهِ ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم :۷۳۰، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۸۹۷) (صحیح)

۹۶۴- محمد بن عمرو بن عطا ء سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کی ایک جماعت کے ساتھ ( ایک مجلس میں) بیٹھے ہوئے تھے، پھر انہوں نے یہی مذکو رہ حدیث بیان کی، اور ابو قتا دہ کا ذکر نہیں کیا کہا: جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم دورکعت کے بعد (تشہد کے لئے ) بیٹھتے تو اپنے با ئیں پیر پر بیٹھتے اور جب اخیر رکعت کے بعد بیٹھتے تو اپنا با یاں پیر ( دا ئیں جانب ) آگے نکال لیتے اور اپنے سرین پر بیٹھتے۔

965- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَلْحَلَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو الْعَامِرِيِّ، قَالَ: كُنْتُ فِي مَجْلِسٍ، بِهَذَا الْحَدِيثِ، قَالَ فِيهِ: فَإِذَا قَعَدَ فِي الرَّكْعَتَيْنِ قَعَدَ عَلَى بَطْنِ قَدَمِهِ الْيُسْرَى، وَنَصَبَ الْيُمْنَى، فَإِذَا كَانَتِ الرَّابِعَةُ أَفْضَى بِوَرِكِهِ الْيُسْرَى إِلَى الأَرْضِ وَأَخْرَجَ قَدَمَيْهِ مِنْ نَاحِيَةٍ وَاحِدَةٍ ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم :۷۳۳، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۸۹۷) (صحیح)

۹۶۵- محمد بن عمرو عامری کہتے ہیں کہ: میں ایک مجلس میں تھا، پھر انہوں نے یہی حدیث بیان کی جس میں ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو رکعت پڑھ کر بیٹھتے تو اپنے بائیں قدم کے تلوے پر بیٹھتے اوراپنا دا ہنا پیر کھڑا رکھتے پھر جب چوتھی رکعت ہوتی تو اپنی بائیں سرین کو زمین سے لگا تے اور اپنے دونوں قدموں کو ایک طرف نکال لیتے ۔

966- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا أَبُو بَدْرٍ، حَدَّثَنِي زُهَيْرٌ أَبُوخَيْثَمَةَ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الْحُرِّ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ عَبَّاسٍ -أَوْ عَيَّاشِ- بْنِ سَهْلٍ السَّاعِدِيِّ أَنَّهُ كَانَ فِي مَجْلِسٍ فِيهِ أَبُوهُ فَذَكَرَ فِيهِ، قَالَ: فَسَجَدَ فَانْتَصَبَ عَلَى كَفَّيْهِ وَرُكْبَتَيْهِ وَصُدُورِ قَدَمَيْهِ وَهُوَ جَالِسٌ فَتَوَرَّكَ وَنَصَبَ قَدَمَهُ الأُخْرَى، ثُمَّ كَبَّرَ فَسَجَدَ، ثُمَّ كَبَّرَ فَقَامَ وَلَمْ يَتَوَرَّكْ ثُمَّ عَادَ فَرَكَعَ الرَّكْعَةَ الأُخْرَى فَكَبَّرَ كَذَلِكَ، ثُمَّ جَلَسَ بَعْدَ الرَّكْعَتَيْنِ، حَتَّى إِذَا هُوَ أَرَادَ أَنْ يَنْهَضَ لِلْقِيَامِ قَامَ بِتَكْبِيرٍ، ثُمَّ رَكَعَ الرَّكْعَتَيْنِ الأُخْرَيَيْنِ فَلَمَّا سَلَّمَ سَلَّمَ عَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ شِمَالِهِ .
قَالَ أَبودَاود: لَمْ يَذْكُرْ فِي حَدِيثِهِ مَا ذَكَرَ عَبْدُالْحَمِيدِ فِي التَّوَرُّكِ وَالرَّفْعِ إِذَا قَامَ مِنْ ثِنْتَيْنِ ۔
* تخريج: انظرحدیث رقم : ۷۳۳، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۸۹۲) (ضعیف)

(اس کے راوی ’’عیسیٰ ‘‘ لین الحدیث ہیں اور ان کی یہ روایت سابقہ صحیح روایت کے خلاف ہے)
۹۶۶- عباس بن سہل یا عیاش بن سہل ساعدی سے روایت ہے کہ وہ ایک مجلس میں تھے،جس میں ان کے والد سہل ساعدی رضی اللہ عنہ بھی مو جود تھے تو اس مجلس میں انہوں نے ذکر کیاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ کیا تو اپنی دونوں ہتھیلیوں پر اور اپنے دونوں گھٹنوں اور دونوں پا ئوں کے سروں پر سہارا کیا، اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ( سجدے سے سر اٹھا کر ) بیٹھے تو تورک کیا یعنی سرین پر بیٹھے اور اپنے دوسرے قدم کو کھڑا رکھا پھر ’’الله أكبر‘‘ کہا اور سجدہ کیا، پھر’’الله أكبر‘‘ کہہ کر کھڑے ہوئے اور تو رک نہیں کیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوٹے اور دوسری رکعت پڑھی تو اسی طرح ’’الله أكبر‘‘ کہا، پھر دورکعت کے بعد بیٹھے یہاں تک کہ جب قیام کے لئے اٹھنے کاارادہ کرنے لگے تو’’الله أكبر‘‘ کہہ کر اٹھے، پھر آخری دونوںرکعتیں پڑھیں، پھر جب سلام پھیرا تو اپنی دائیں جانب اور بائیں جانب پھیرا۔
ابو داود کہتے ہیں: عیسی بن عبداللہ نے اپنی روایت میں تورک اور دو رکعت پڑھ کر اٹھتے وقت ہا تھ اٹھا نے کا ذکر نہیں کیا ہے،جس کا ذکر عبدالحمید نے کیاہے۔

967- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْمَلِكِ بْنُ عَمْرٍو، أَخْبَرَنِي فُلَيْحٌ، أَخْبَرَنِي عَبَّاسُ ابْنُ سَهْلٍ، قَالَ: اجْتَمَعَ أَبُو حُمَيْدٍ وَأَبُو أُسَيْدٍ وَسَهْلُ بْنُ سَعْدٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَةَ، فَذَكَرَ هَذَا الْحَدِيثَ، وَلَمْ يَذْكُرِ الرَّفْعَ إِذَا قَامَ مِنْ ثِنْتَيْنِ وَلا الْجُلُوسَ، قَالَ: حَتَّى فَرَغَ ثُمَّ جَلَسَ فَافْتَرَشَ رِجْلَهُ الْيُسْرَى، وَأَقْبَلَ بِصَدْرِ الْيُمْنَى عَلَى قِبْلَتِهِ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم :۷۳۳، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۸۹۲) (صحیح)

۹۶۷- فلیح کہتے ہیں: عباس بن سہل نے مجھے خبر دی ہے کہ ابو حمید، ابو اسید، سہل بن سعد اور محمد بن مسلمہ f اکٹھا ہوئے، پھر انہوں نے یہی حدیث ذکر کی اور دو رکعت پڑھ کر کھڑے ہو تے وقت ہا تھ اٹھا نے کا ذکر نہیں کیا اور نہ ہی بیٹھنے کا، وہ کہتے ہیں: یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فارغ ہوگئے پھر بیٹھے اور اپنا با یاں پیر بچھا یا اور اپنے داہنے پا ئوں کی انگلیاں قبلہ کی جانب کیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
182- بَاب التَّشَهُّدِ
۱۸۲-باب: تشہد (التحیات) کا بیان​


968- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى، عَنْ سُلَيْمَانَ الأَعْمَشِ، حَدَّثَنِي شَقِيقُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: كُنَّا إِذَا جَلَسْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فِي الصَّلاةِ قُلْنَا: السَّلامُ عَلَى اللَّهِ قَبْلَ عِبَادِهِ، السَّلامُ عَلَى فُلانٍ وَفُلانٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم : <لاتَقُولُوا السَّلامُ عَلَى اللَّهِ، فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ السَّلامُ، وَلَكِنْ إِذَا جَلَسَ أَحَدُكُمْ فَلْيَقُلِ: <التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ وَالصَّلَوَاتُ، وَالطَّيِّبَاتُ، السَّلامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ، السَّلامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ >، فَإِنَّكُمْ إِذَا قُلْتُمْ ذَلِكَ أَصَابَ كُلَّ عَبْدٍ صَالِحٍ فِي السَّمَاءِ وَالأَرْضِ > أَوْ: < بَيْنَ السَّمَاءِ وَالأَرْضِ > < أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، ثُمَّ لِيَتَخَيَّرْ أَحَدُكُمْ مِنَ الدُّعَاءِ أَعْجَبَهُ إِلَيْهِ فَيَدْعُوَ بِهِ > ۔
* تخريج: خ/الأذان ۱۴۸ (۸۳۱)، ۱۵۰ (۸۳۵)، والعمل فی الصلاۃ ۴ (۱۲۰۲)، والاستئذان ۳ (۶۲۳۰)، ۲۸ (۶۲۶۵)، والدعوات ۱۷ (۶۳۲۸) والتوحید ۵ (۷۳۸۱)، م/الصلاۃ ۱۶ (۴۰۲)، ن/التطبیق ۱۰۰ (۱۱۶۳، ۱۱۶۱)، والسھو ۴۱ (۱۲۷۸)، ۴۳ (۱۲۸۰)، ۵۶ (۱۲۹۹)، ق/إقامۃ الصلاۃ ۲۴ (۸۹۹)، (تحفۃ الأشراف: ۹۲۴۵)، وقد أخرجہ: ت/الصلاۃ ۱۰۳ (۲۸۹)، والنکاح ۱۷ (۱۱۰۵)، حم (۱/۳۷۶، ۳۸۲، ۴۰۸، ۴۱۳، ۴۱۴، ۴۲۲، ۴۲۳، ۴۲۸، ۴۳۱، ۴۳۷، ۴۳۹، ۴۴۰، ۴۵۰، ۴۵۹، ۴۶۴)، دي/الصلاۃ ۸۴ (۱۳۷۹) (صحیح)

۹۶۸- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صلاۃ میں بیٹھتے تو یہ کہتے تھے ’’السَّلامُ عَلَى اللَّهِ قَبْلَ عِبَادِهِ، السَّلامُ عَلَى فُلانٍ وَفُلانٍ‘‘ ( یعنی اللہ پر سلام ہو اس کے بندوں پر سلام سے پہلے یا اس کے بندوں کی طرف سے اور فلاں فلاں شخص پر سلام ہو) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم ایسا مت کہا کرو کہ اللہ پر سلام ہو، اس لئے کہ اللہ تعالی خود سلام ہے، بلکہ جب تم میں سے کو ئی صلاۃ میں بیٹھے تو یہ کہے’’التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ وَالصَّلَوَاتُ، وَالطَّيِّبَاتُ، السَّلامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِي ُّ ۱؎ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ، السَّلامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ‘‘ (آداب، بندگیاں ،صلاتیں اور پاکیزہ خیرات اللہ ہی کے لئے ہیں اے نبی!آپ پر سلام ،اور اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں نازل ہوں ،اور سلام ہو ہم پر اور اللہ کے تمام نیک وصالح بندوں پر) کیونکہ جب تم یہ کہو گے تو ہر نیک بندے کو خواہ آسمان میں ہو یا زمین میں ہو یا دونوں کے بیچ میں ہو اس ( دعا کے پڑھنے) کا ثواب پہنچے گا ( پھر یہ کہو): ’’أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ ‘‘ ( میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں) پھرتم میں سے جس کو جو دعا زیادہ پسند ہو، وہ اس کے ذریعہ دعاکرے‘‘۔
وضاحت ۱؎ : ’’السلام عليك أيها النبي‘‘ بصیغۂ خطاب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات میں کہاجاتاتھا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد صحابہ کرام بصیغۂ غائب کہتے تھے جیساکہ صحیح سند سے مروی ہے: ’’أن الصحابة كانوا يقولون والنبي صلی اللہ علیہ وسلم حي: ’’السلام عليك أيها النبي‘‘ فلما مات قالوا: ’’السلام على النبي‘‘، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب باحیات تھے تو صحابہ کرام ’’السلام علیک ایہا النبی ‘‘کہتے تھے اورجب آپ کی وفات ہوگئی تو’’ السلام علی النبی‘‘کہنے لگے، اسی معنی کی ایک اورحدیث عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے صحیح سندکے ساتھ مروی ہے نیزام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا لوگوں کو السلام علی النبی کہنے کی تعلیم دیتی تھیں (مسندالسراج: ۹/۱-۲، والفوائد: ۱۱/۵۴ بسندین صحیحین عنہا)، (ملاحظہ ہو: صفۃصلاۃ النبی للألبانی ۱۶۱-۱۶۲)

969- حَدَّثَنَا تَمِيمُ بْنُ الْمُنْتَصِرِ، أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ -يَعْنِي ابْنَ يُوسُفَ- عَنْ شَرِيكٍ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي الأَحْوَصِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: كُنَّا لا نَدْرِي مَا نَقُولُ إِذَا جَلَسْنَا فِي الصَّلاةِ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَدْ عُلِّمَ، فَذَكَرَ نَحْوَهُ.
* تخريج: تفرد بہ ابو داود ، (تحفۃ الأشراف: ۹۲۳۹، ۹۵۰۵)، وقد أخرجہ: حم (۱/۳۹۴، ۴۱۸) (صحیح) (پچھلی حدیث سے تقویت پاکر یہ حدیث بھی صحیح ہے،ورنہ شریک اور ابواسحاق کے سبب یہ سند ضعیف ہے)

قَالَ شَرِيكٌ: وَحَدَّثَنَا جَامِعٌ -يَعْنِي ابْنَ شَدَّادٍ- عَنْ أَبِي وَائِلٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بِمِثْلِهِ.
قَالَ: وَكَانَ يُعَلِّمُنَا كَلِمَاتٍ، وَلَمْ يَكُنْ يُعَلِّمُنَاهُنَّ كَمَا يُعَلِّمُنَا التَّشَهُّدَ: اللَّهُمَّ أَلِّفْ بَيْنَ قُلُوبِنَا، وَأَصْلِحْ ذَاتَ بَيْنِنَا، وَاهْدِنَا سُبُلَ السَّلامِ، وَنَجِّنَا مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ، وَجَنِّبْنَا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ، وَبَارِكْ لَنَا فِي أَسْمَاعِنَا، وَأَبْصَارِنَا، وَقُلُوبِنَا، وَأَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا، وَتُبْ عَلَيْنَا إِنَّكَ أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ، وَاجْعَلْنَا شَاكِرِينَ لِنِعْمَتِكَ مُثْنِينَ بِهَا قَابِلِيهَا وَأَتِمَّهَا عَلَيْنَا ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود (ضعیف) (شریک کی وجہ سے یہ سند ضعیف ہے)

۹۶۹- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم کو معلوم نہ تھا کہ جب ہم صلاۃ میں بیٹھیں توکیا کہیں، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا، پھر راوی نے اسی طرح کی روایت ذکر کی۔
شریک کہتے ہیں: ہم سے جامع یعنی ابن شدا د نے بیان کیاکہ انہوں نے ابو وائل سے اورابو وائل نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے اسی کے مثل روایت کی ہے اس میں(اتنا اضافہ) ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں چند کلما ت سکھا تے تھے او ر انہیں اس طرح نہیں سکھاتے تھے جیسے تشہد سکھاتے تھے اور وہ یہ ہیں : ’’اللَّهُمَّ أَلِّفْ بَيْنَ قُلُوبِنَا، وَأَصْلِحْ ذَاتَ بَيْنِنَا، وَاهْدِنَا سُبُلَ السَّلامِ، وَنَجِّنَا مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ، وَجَنِّبْنَا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ، وَبَارِكْ لَنَا فِي أَسْمَاعِنَا، وَأَبْصَارِنَا، وَقُلُوبِنَا، وَأَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا وَتُبْ عَلَيْنَا إِنَّكَ أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ وَاجْعَلْنَا شَاكِرِينَ لِنِعْمَتِكَ مُثْنِينَ بِهَا قَابِلِيهَا وَأَتِمَّهَا عَلَيْنَا ‘‘ ( اے اللہ ! تو ہمارے دلوں میں الفت ومحبت پیدا کردے، اور ہماری حالتوں کو درست فرمادے ، اور راہ سلامتی کی جانب ہماری رہنمائی کردے اور ہمیںتاریکیوں سے نجات دے کر روشنی عطا کردے ، آنکھوں ،دلوںاورہماری بیوی بچوںمیں برکت عطا کردے ، اور ہماری توبہ قبول فرمالے تو توبہ قبول فرمانے والا اور رحم وکرم کرنے والا ہے،اور ہمیں اپنی نعمتوں پر شکر گذار ونثا خواں اور اسے قبول کرنے والا بنادے،اور اے اللہ ! ان نعمتوں کو ہمارے اوپر کامل کردے)۔

970- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الْحُرِّ، عَنِ الْقَاسِمِ ابْنِ مُخَيْمِرَةَ، قَالَ: أَخَذَ عَلْقَمَةُ بِيَدِي، فَحَدَّثَنِي أَنَّ عَبْدَاللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ أَخَذَ بِيَدِهِ، وَأَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم أَخَذَ بِيَدِ عَبْدِاللَّهِ، فَعَلَّمَهُ التَّشَهُّدَ فِي الصَّلاةِ، فَذَكَرَ مِثْلَ دُعَاءِ حَدِيثِ الأَعْمَشِ: < إِذَا قُلْتَ هَذَا أَوْ قَضَيْتَ هَذَا فَقَدْ قَضَيْتَ صَلاتَكَ، إِنْ شِئْتَ أَنْ تَقُومَ فَقُمْ، وَإِنْ شِئْتَ أَنْ تَقْعُدَ فَاقْعُدْ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۹۴۷۴)، وانظر رقم (۹۶۸)، وقد أخرجہ: حم (۱/۴۲۲) (شاذ) (’’إذا قلت...الخ‘‘
کا اضافہ شاذ ہے صحیح بات یہ ہے کہ یہ ٹکڑا ابن مسعود کا اپنا قول ہے)
۹۷۰- قاسم بن مخیمرہ کہتے ہیں کہ علقمہ نے میرا ہا تھ پکڑ کر مجھ سے بیان کیا کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ان کا ہاتھ پکڑا (اور انہیں صلاۃ میں تشہد کے کلمات سکھائے)اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑا اور ان کو صلاۃ میں تشہد کے کلمات سکھا ئے، پھرراوی نے اعمش کی حدیث کی دعا کے مثل ذکر کیا، اس میں (اتنا اضافہ ) ہے کہ جب تم نے یہ دعا پڑھ لی یا پوری کر لی تو تمہا ری صلاۃ پو ری ہوگئی، اگرکھڑے ہو نا چاہوتوکھڑے ہوجاؤ اور اگربیٹھے رہنا چا ہو تو بیٹھے رہو۔

971- حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنِي أَبِي، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، سَمِعْتُ مُجَاهِدًا يُحَدِّثُ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فِي التَّشَهُّدِ: < التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ الصَّلَوَاتُ الطَّيِّبَاتُ السَّلامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ - قَالَ: قَالَ ابْنُ عُمَرَ: زِدْتَ فِيهَا وَبَرَكَاتُهُ-السَّلامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ -قَالَ ابْنُ عُمَرَ: زِدْتُ فِيهَا وَحْدَهُ لا شَرِيكَ لَهُ- وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، وراجع : ط/الصلاۃ ۱۳(۵۳)، (تحفۃ الأشراف: ۷۳۹۶) (صحیح)

۹۷۱- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما تشہد کے سلسلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کر تے ہیں کہ تشہد یہ ہے: ’’التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ الصَّلَوَاتُ الطَّيِّبَاتُ السَّلامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ ، السَّلامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ ، أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ وَحْدَهُ لا شَرِيكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ‘‘ ( آداب بندگیاں ، اور پاکیزہ صلاتیں اللہ ہی کے لئے ہیں، اے نبی!آپ پر سلام ،اور اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں نازل ہوں، اور سلام ہو ہم پر اور اللہ کے تمام نیک وصالح بندوں پر، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں)۔
راوی کہتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اس تشہد میں’’وبَرَكَاتُهُ ‘‘ اور ’’وَحْدَهُ لا شَرِيكَ لَهُ ‘‘ کا اضافہ میں نے کیا ہے ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : تشہد میں یہ دونوں اضافے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں ایسا ہرگز نہیں کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنی طرف سے ان کا اضافہ خود کردیا ہو بلکہ آپ نے اپنے اس تشہد میں ان کا اضافہ ان صحابہ کرام سے لے کر کیا ہے جنہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے انہیں روایت کیا ہے ۔

972- حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ، أَخْبَرَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ قَتَادَةَ (ح) وَحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ يُونُسَ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ حِطَّانَ بْنِ عَبْدِاللَّهِ الرَّقَاشِيِّ، قَالَ: صَلَّى بِنَا أَبُو مُوسَى الأَشْعَرِيُّ، فَلَمَّا جَلَسَ فِي آخِرِ صَلاتِهِ قَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ: أُقِرَّتِ الصَّلاةُ بِالْبِرِّ وَالزَّكَاةِ، فَلَمَّا انْفَتَلَ أَبُو مُوسَى أَقْبَلَ عَلَى الْقَوْمِ فَقَالَ: أَيُّكُمُ الْقَائِلُ كَلِمَةَ كَذَا وَكَذَا؟ [قَالَ:] فَأَرَمَّ الْقَوْمُ، فَقَالَ: أَيُّكُمُ الْقَائِلُ كَلِمَةَ كَذَا وَكَذَا؟ فَأَرَمَّ الْقَوْمُ، قَالَ: فَلَعَلَّكَ يَا حِطَّانُ [أَنْتَ] قُلْتَهَا، قَالَ: مَا قُلْتُهَا، وَلَقَدْ رَهِبْتُ أَنْ تَبْكَعَنِي بِهَا، قَالَ: فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ: أَنَا قُلْتُهَا، وَمَا أَرَدْتُ بِهَا إِلا الْخَيْرَ، فَقَالَ أَبُو مُوسَى: أَمَا تَعْلَمُونَ كَيْفَ تَقُولُونَ فِي صَلاتِكُمْ ؟ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم خَطَبَنَا فَعَلَّمَنَا وَبَيَّنَ لَنَا سُنَّتَنَا وَعَلَّمَنَا صَلاتَنَا فَقَالَ: < إِذَا صَلَّيْتُمْ فَأَقِيمُوا صُفُوفَكُمْ، ثُمَّ لِيَؤُمَّكُمْ أَحَدُكُمْ، فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا، وَإِذَا قَرَأَ: {غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّالِّينَ} فَقُولُوا: آمِينَ، يُحِبُّكُمُ اللَّهُ، وَإِذَا كَبَّرَ وَرَكَعَ فَكَبِّرُوا وَارْكَعُوا، فَإِنَّ الإِمَامَ يَرْكَعُ قَبْلَكُمْ وَيَرْفَعُ قَبْلَكُمْ -قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم : فَتِلْكَ بِتِلْكَ- وَإِذَا قَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ فَقُولُوا: اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ، يَسْمَعُ اللَّهُ لَكُمْ، فَإِنَّ اللَّهَ تَعَالَى قَالَ عَلَى لِسَانِ نَبِيِّهِ صلی اللہ علیہ وسلم : سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، وَإِذَا كَبَّرَ وَسَجَدَ فَكَبِّرُوا وَاسْجُدُوا، فَإِنَّ الإِمَامَ يَسْجُدُ قَبْلَكُمْ وَيَرْفَعُ قَبْلَكُمْ -قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم : فَتِلْكَ بِتِلْكَ- فَإِذَا كَانَ عِنْدَ الْقَعْدَةِ فَلْيَكُنْ مِنْ أَوَّلِ قَوْلِ أَحَدِكُمْ أَنْ يَقُولَ: التَّحِيَّاتُ الطَّيِّبَاتُ الصَّلَوَاتُ لِلَّهِ، السَّلامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ، السَّلامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ، أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ >، لَمْ يَقُلْ أَحْمَدُ: < وَبَرَكَاتُهُ >، وَلا قَالَ: < وَأَشْهَدُ >، قَالَ: < وَأَنَّ مُحَمَّدًا > ۔
* تخريج: م/الصلاۃ ۱۶ (۴۰۴)، ن/الإمامۃ ۳۸ (۸۳۱)، والتطبیق ۲۳ (۱۰۶۵)، ۱۰۱ (۱۱۷۳)، والسھو ۴۴ (۱۲۸۱)، ق/اقامۃ الصلاۃ ۲۴ (۹۰۱)، (تحفۃ الأشراف: ۸۹۸۷)، وقد أخرجہ: حم (۴/۴۰۱، ۴۰۵، ۴۰۹)، دي/الصلاۃ ۷۱ (۱۳۵۱) (صحیح)

۹۷۲- حطا ن بن عبداللہ رقاشی کہتے ہیں کہ ابو مو سیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے ہمیں صلاۃ پڑھا ئی تو جب وہ اخیر صلاۃ میں بیٹھنے لگے تو لو گوں میں سے ایک شخص نے کہا: صلاۃ نیکی اور پا کی کے سا تھ مقرر کی گئی ہے تو جب ابو مو سی اشعری صلاۃ سے فا رغ ہوئے تو لوگوں کی جانب متوجہ ہوئے اور پوچھا( ابھی ) تم میں سے کس نے اس اس طرح کی با ت کی ہے؟ ۔
راوی کہتے ہیں: تو لوگ خاموش رہے، پھر انہوں نے پو چھا :تم میں سے کس نے اس اس طرح کی بات کی ہے؟ ۔
راوی کہتے ہیں : لو گ پھر خاموش رہے تو ابومو سی اشعری نے کہا: حطا ن! شاید تم نے یہ با ت کہی ہے؟ انہوں نے کہا: میں نے نہیں کہی ہے اور میں تو ڈرتا ہوں کہ کہیں آپ مجھے ہی سز ا نہ دے ڈالیں۔
راوی کہتے ہیں: پھر ایک دوسرے شخص نے کہا: میں نے کہی ہے اور میری نیت خیر ہی کی تھی، اس پر ابوموسی رضی اللہ عنہ نے کہا :کیا تم لو گ نہیں جا نتے کہ تم اپنی صلاۃ میں کیا کہو؟بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطبہ دیا اورہم کو سکھا یا اور ہمیں ہمارا طریقہ بتا یا اور ہمیں ہماری صلاۃ سکھائی اور فرمایا: ’’جب تم صلاۃ پڑھنے کا قصد کر و، تو اپنی صفوں کو درست کرو، پھرتم میں سے کوئی شخص تمہاری امامت کرے تو جب وہ تکبیر کہے تو تم تکبیر کہو اور جب وہ {غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّاْلِّيْنَ}کہے تو تم آمین کہو، اللہ تم سے محبت فرما ئے گا ۱؎ اور جب وہ’’الله أكبر‘‘کہے اور رکوع کر ے تو تم بھی’’الله أكبر‘‘ کہو اور رکوع کرو کیو نکہ امام تم سے پہلے رکوع میں جائے گا اور تم سے پہلے سر اٹھائے گا‘‘۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’تو یہ اس کے برابر ہوگیا ۲؎ اور جب وہ ’’سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ ‘‘ کہے تو تم ’’اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ‘‘کہو، اللہ تمہاری سنے گا، کیو نکہ اللہ تعالی نے اپنے نبی کی زبانی ارشاد فرمایا ہے ’’سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ ‘‘ یعنی اللہ تعالی نے اس شخص کی سن لی جس نے اس کی تعریف کی، اور جب تکبیر کہے اور سجدہ کرے تو تم بھی تکبیر کہو اور سجدہ کرو کیو نکہ امام تم سے پہلے سجدہ کرے گا اور تم سے پہلے سر اٹھا ئے گا‘‘۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تویہ اس کے برابر ہوجائے گا، پھرجب تم میں سے کوئی قعدہ میں بیٹھے تواس کی سب سے پہلی بات یہ کہے: ’’التَّحِيَّاتُ الطَّيِّبَاتُ الصَّلَوَاتُ لِلَّهِ، السَّلامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ، السَّلامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ، أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ ‘‘ ( آداب، بندگیاں، پاکیزہ خیرات ،اور صلاۃودعائیں اللہ ہی کے لئے ہیں، اے نبی!آپ پر سلام ،اور اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں نازل ہوں ،اور سلام ہو ہم پر اور اللہ کے تمام نیک وصالح بندوں پر، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں)۔
احمد نے اپنی روایت میں: ’ ’ وَبَرَكَاتُهُ‘‘ کا لفظ نہیں کہا ہے اور نہ ہی ’’ وَأَشْهَدُ ‘‘ کہا بلکہ’’وَأَنَّ مُحَمَّدًا‘‘ کہا ہے۔
وضاحت ۱؎ :مسلم کی روایت میں ’’يجبكم‘‘ ہے یعنی :اللہ تمہاری دعاء قبول کر لے گا۔
وضاحت ۲؎ : یعنی امام تم سے جتنا پہلے رکوع میں گیا اتنا ہی پہلے وہ رکوع سے اٹھ گیا اس طرح تمہاری اور امام کی صلاۃ برابر ہوگئی ۔

973- حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ النَّضْرِ، حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنْ أَبِي غَلابٍ يُحَدِّثُهُ، عَنْ حِطَّانَ بْنِ عَبْدِاللَّهِ الرَّقَاشِيِّ بِهَذَا الْحَدِيثِ، زَادَ: فَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوا، وَقَالَ فِي التَّشَهُّدِ بَعْدَ < أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ > زَادَ: < وَحْدَهُ لا شَرِيكَ لَهُ>.
قَالَ أَبودَاود: وَقَوْلُهُ < فَأَنْصِتُوا > لَيْسَ بِمَحْفُوظٍ، لَمْ يَجِئْ بِهِ إِلا سُلَيْمَانُ التَّيْمِيُّ فِي هَذَا الْحَدِيثِ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۸۹۸۷) (صحیح)

۹۷۳- اس سند سے بھی ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے یہی حدیث مر وی ہے، اس میں (سلیمان تیمی)نے یہ اضافہ کیا ہے کہ جب وہ قرأت کرے تو تم خاموش رہو، اور انہوں نے تشہد میں ’’أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ ‘‘کے بعد ’’وَحْدَهُ لا شَرِيكَ لَهُ‘‘ کا اضا فہ کیا ہے۔
ابو داود کہتے ہیں: آپ کا قول: ’’ فَأَنْصِتُوا‘‘ محفوظ نہیں ہے، اس حدیث کے اندر یہ لفظ صرف سلیمان تیمی نے نقل کیا ہے۔

974- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، وَطَاوُسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّهُ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم يُعَلِّمُنَا التَّشَهُّدَ كَمَا يُعَلِّمُنَا الْقُرْآنَ، وَكَانَ يَقُولُ: < التَّحِيَّاتُ الْمُبَارَكَاتُ الصَّلَوَاتُ الطَّيِّبَاتُ لِلَّهِ، السَّلامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ، السَّلامُ عَلَيْنَا، وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ، أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ >۔
* تخريج: م/الصلاۃ ۱۶ (۴۰۳)، ت/الصلاۃ ۱۰۴ (۲۹۰)، ن/التطبیق ۱۰۳ (۱۱۷۵)، والسھو ۴۲ (۱۲۷۹)، ق/الإقامۃ ۲۴ (۹۰۰)، (تحفۃ الأشراف: ۵۷۵۰)، وقد أخرجہ: حم (۱/۲۹۲) (صحیح)

۹۷۴- عبداللہ بن عبا س رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں تشہد اسی طرح سکھا تے تھے جس طرح قرآن سکھا تے تھے ، آپ کہا کرتے تھے: ’’التَّحِيَّاتُ الْمُبَارَكَاتُ الصَّلَوَاتُ الطَّيِّبَاتُ لِلَّهِ، السَّلامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ، السَّلامُ عَلَيْنَا، وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ، أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ‘‘ ( آداب، بندگیاں، پاکیزہ صلاۃ ودعائیں اللہ ہی کے لئے ہیں، اے نبی!آپ پر سلام ،اور اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں نازل ہوں ،اور سلام ہو ہم پر اور اللہ کے تمام نیک وصالح بندوں پر، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں)۔

975- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ دَاوُدَ بْنِ سُفْيَانَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَسَّانَ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ مُوسَى أَبُودَاوُدَ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سَعْدِ بْنِ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ، حَدَّثَنِي خُبَيْبُ بْنُ سُلَيْمَانَ [بْنِ سَمُرَةَ]، عَنْ أَبِيهِ سُلَيْمَانَ بْنِ سَمُرَةَ، عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ، أَمَّا بَعْدُ: أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم إِذَا كَانَ فِي وَسَطِ الصَّلاةِ أَوْ حِينَ انْقِضَائِهَا فَابْدَئُوا قَبْلَ التَّسْلِيمِ فَقُولُوا: < التَّحِيَّاتُ الطَّيِّبَاتُ وَالصَّلَوَاتُ وَالْمُلْكُ لِلَّهِ > ثُمَّ سَلِّمُوا عَلَى الْيَمِينِ، ثُمَّ سَلِّمُوا عَلَى قَارِئِكُمْ، وَعَلَى أَنْفُسِكُمْ .
قَالَ أَبودَاود: سُلَيْمَانُ بْنُ مُوسَى كُوفِيُّ الأَصْلِ كَانَ بِدِمَشْقَ.
قَالَ أَبودَاود: دَلَّتْ هَذِهِ الصَّحِيفَةُ [عَلَى] أَنَّ الْحَسَنَ سَمِعَ مِنْ سَمُرَةَ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۴۶۱۷) (ضعیف)
(اس کے راوی ’’سلیمان بن موسی ‘‘ ضعیف ہیں)
۹۷۵- سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے ’’اما بعد‘‘ کے بعد کہاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ جب تم صلاۃ کے بیچ میں یا اخیر میں بیٹھوتو سلام پھیرنے سے قبل یہ دعا پڑھو: ’’التَّحِيَّاتُ الطَّيِّبَاتُ وَالصَّلَوَاتُ وَالْمُلْكُ لِلَّهِ‘‘پھر دائیں جانب سلام پھیر و، پھر اپنے قاری پر اور خود اپنے اوپر سلام کرو۔
ابو داود کہتے ہیں: یہ صحیفہ ( جسے سمرہ نے اپنے بیٹے کے پا س لکھ کر بھیجا تھا )یہ بتا رہا ہے کہ حسن بصری نے سمرہ سے سنا ہے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس جملے کا باب سے تعلق یہ ہے کہ یہ الفاظ جنہیں سلیمان بن سمرہ نے اپنے والد سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے اس صحیفہ کے الفاظ ہیں جنہیں سمرہ نے املا کرایا تھا اور جنہیں ان سے ان کے بیٹے سلیمان نے روایت کیا ہے، ابو داود کا مقصد یہ ہے کہ جس طرح سلیمان بن سمرہ کا سماع اپنے والد سمرہ سے ثابت ہے اسی طرح حسن بصری کا سماع بھی ثابت ہے کیونکہ یہ دونوں طبقہ ثالثہ کے راوی ہیں تو جب سلیمان اپنے والد سمرہ سے سن سکتے ہیں تو حسن بصری کے سماع کے لئے بھی کوئی چیز مانع نہیں، بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ حسن بصری نے سمرہ سے صرف عقیقہ والی حدیث سنی ہے اور باقی حدیثیں جو سمرہ سے وہ روایت کرتے ہیں وہ اسی صحیفہ میں لکھی ہوئی حدیثیں ہیں سمرہ سے ان کی سنی ہوئی نہیں ہیں ابو داود نے اسی خیال کی تردید کی ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
183-بَاب الصَّلاةِ عَلَى النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم بَعْدَ التَّشَهُّدِ
۱۸۳-باب: تشہد کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود (صلاۃ) پڑھنے کا بیان​


976- حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنِ الْحَكَمِ، عَنِ ابْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ، قَالَ: قُلْنَا، أَوْ قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَمَرْتَنَا أَنْ نُصَلِّيَ عَلَيْكَ وَأَنْ نُسَلِّمَ عَلَيْكَ، فَأَمَّا السَّلامُ فَقَدْ عَرَفْنَاهُ، فَكَيْفَ نُصَلِّي عَلَيْكَ؟ قَالَ: < قُولُوا: اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى [آلِ] إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ >۔
* تخريج: خ/أحادیث الأنبیاء ۱۰ (۳۳۷۰)، وتفسیر الأحزاب ۱۰ (۴۷۹۷)، والدعوات ۳۲ (۶۳۵۷)، م/الصلاۃ ۱۷ (۴۰۶)، ت/الصلاۃ ۲۳۴ (۴۸۳)، ن/السھو ۵۱ (۱۲۸۸)، ق/إقامۃ الصلاۃ ۲۵ (۹۰۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۱۱۳)، وقد أخرجہ: حم (۴/۲۴۱، ۲۴۴)، دي/الصلاۃ ۸۵ (۱۳۸۱) (صحیح)

۹۷۶- کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے یا لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ! آپ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم آپ پر درودو سلام بھیجا کریں، آپ پر سلام بھیجنے کا طریقہ تو ہمیں معلوم ہوگیا ہے لیکن ہم آپ پر درود کس طرح بھیجیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہو:’’اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى [آلِ] إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ ‘‘ یعنی اے اللہ! محمد اور آل محمد پر درود بھیج ۱؎ جس طرح تو نے آل ابراہیم پر بھیجا ہے اور محمد اور آل محمد پر اپنی برکت ۲؎ نازل فرما جس طرح تو نے آل ابراہیم پر نازل فرما ئی ہے، بیشک تولائق تعریف اور بزرگ ہے۔
وضاحت ۱؎ : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر اللہ تعالیٰ کے درود بھیجنے کی وضاحت ابوالعالیہ نے اس طرح کی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے درود بھیجنے کا مطلب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح وستائش اور تعظیم کرنا اور فرشتوں وغیرہ کے درود بھیجنے کا مطلب اللہ تعالیٰ سے اس مدح وستائش اور تعظیم میں طلب زیادتی ہے، ابوالعالیہ کے اس قول کو حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں نقل کرنے کے بعد اس مشہور قول کی تردید کی ہے جس میں اللہ تعالیٰ کے درود کا معنیٰ رحمت بتایا گیا ہے ۔
وضاحت ۲؎ : برکت کے معنیٰ بالیدگی وبڑھوتری کے ہیں یعنی اللہ تعالیٰ جو بھلائیاں تو نے آل ابراہیم وضاحت کو عطا کی ہیں وہ سب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا فرمااور انہیں قائم ودائم رکھ اور انہیں بڑھا کر کئی گنا کردے ۔

977- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، بِهَذَا الْحَدِيثِ، قَالَ: صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۱۱۳) (صحیح)

۹۷۷- اس سند سے بھی شعبہ نے یہی حدیث روایت کی ہے ، اس میں یوں ہے: ’’صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ ‘‘(اے اللہ ! محمد اور آل محمد پر اپنی رحمت نازل فرما جیسا کہ تو نے ابراہیم وضاحت پر اپنی رحمت نازل فرمائی)۔

978- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاءِ، حَدَّثَنَا ابْنُ بِشْرٍ، عَنْ مِسْعَرٍ، عَنِ الْحَكَمِ، بِإِسْنَادِهِ بِهَذَا، قَالَ: < اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ >.
قَالَ ابو داود : رَوَاهُ الزُّبَيْرُ بْنُ عَدِيٍّ، عَنِ ابْنِ أَبِي لَيْلَى، كَمَا رَوَاهُ مِسْعَرٌ إِلا أَنَّهُ قَالَ: <كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ > وَسَاقَ مِثْلَهُ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم : ۹۷۶، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۱۱۳) (صحیح)

۹۷۸- اس طریق سے بھی حکم سے اسی سند سے یہی حدیث مر وی ہے ، اس میں یوں ہے:’’اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ ‘‘ ( اے اللہ ! محمد اور آل محمد پر اپنی رحمت نازل فرما جیسا کہ تو نے ابراہیم وضاحت پر اپنی رحمت نازل فرمائی ، بیشک تو بڑی خوبیوں والا بزرگی والا ہے، اے اللہ ! محمد اور آل محمد پر اپنی برکت نازل فرماجیسا کہ تو نے ابراہیم وضاحت پر انپی برکت نازل فرمائی ، بیشک تو بڑی خوبیوں والا بزرگی والا ہے)۔
ابو داود کہتے ہیں:اِسے زبیر بن عدی نے ابن ابی لیلیٰ سے اسی طرح روایت کیا ہے جیسے مسعر نے کیا ہے، مگر اس میں یہ ہے: ’’كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ‘‘ اور آگے انہوں نے اسی کے مثل بیان کیا ہے۔

979- حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ (ح) وَحَدَّثَنَا ابْنُ السَّرْحِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي مَالِكٌ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ سُلَيْمٍ الزُّرَقِيِّ أَنَّهُ قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو حُمَيْدٍ السَّاعِدِيُّ أَنَّهُمْ قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ! كَيْفَ نُصَلِّي عَلَيْكَ؟ قَالَ: < قُولُوا: اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَأَزْوَاجِهِ وَذُرِّيَّتِهِ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَأَزْوَاجِهِ وَذُرِّيَّتِهِ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ > ۔
* تخريج: خ/أحادیث الأنبیاء ۱۰ (۳۳۶۹)، والدعوات ۳۳ (۶۳۶۰)، م/الصلاۃ ۱۷ (۴۰۷)، ن/السھو ۵۵ (۱۲۹۵)، ق/إقامۃ الصلاۃ ۲۵ (۹۰۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۸۹۷)، وقد أخرجہ: ط/قصر الصلاۃ ۲۲ (۶۶)، حم (۵/۴۲۴) (صحیح)

۹۷۹- عمروبن سلیم زرقی انصاری کہتے ہیں کہ مجھے ابو حمید سا عدی رضی اللہ عنہ نے خبردی ہے کہ لوگوں نے پو چھا: اللہ کے رسول! ہم آپ پر درود کس طرح بھیجیں ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم لو گ کہو : اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَأَزْوَاجِهِ وَذُرِّيَّتِهِ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَأَزْوَاجِهِ وَذُرِّيَّتِهِ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ‘‘۔ ( اے اللہ !محمد اور ان کی بیویوں اور ان کی اولاد پر اپنی رحمت نازل فرماجیسا کہ تونے اپنی رحمت آل ابراہیم پر نازل فرمائی،اور محمد اور ان کی بیو یوں اور ان کی اولاد پر اپنی برکت نازل فرما جیسا کہ تو نے آل ابراہیم پر نازل فرمائی ،بیشک تو بڑی خوبیوں والا بزرگی والا ہے) ۔

980- حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ نُعَيْمِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ الْمُجْمِرِ، أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ عَبْدِاللَّهِ بْنِ زَيْدٍ -وَعَبْدُاللَّهِ بْنُ زَيْدٍ هُوَ الَّذِي أُرِيَ النِّدَاءَ بِالصَّلاةِ- أَخْبَرَهُ عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الأَنْصَارِيِّ أَنَّهُ قَالَ: أَتَانَا رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فِي مَجْلِسِ سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ، فَقَالَ: [لَهُ] بَشِيرُ بْنُ سَعْدٍ: أَمَرَنَا اللَّهُ أَنْ نُصَلِّيَ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَكَيْفَ نُصَلِّي عَلَيْكَ؟ فَسَكَتَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم حَتَّى تَمَنَّيْنَا أَنَّهُ لَمْ يَسْأَلْهُ، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم : < قُولُوا > فَذَكَرَ مَعْنَى حَدِيثِ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ زَادَ فِي آخِرِهِ: < فِي الْعَالَمِينَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ >۔
* تخريج: م/الصلاۃ ۱۷ (۴۰۵)، ت/تفسیر الأحزاب (۳۲۲۰)، ن/السہو ۴۹ (۱۲۸۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۰۰۷)، وقد أخرجہ: ط/قصر الصلاۃ ۲۲ (۶۷)، حم (۴/۱۱۸، ۱۱۹، ۵/ ۲۷۴)، دي/الصلاۃ ۸۵ (۱۳۸۲) (صحیح)

۹۸۰- ابو مسعود انصا ری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پا س سعد بن عبا دہ رضی اللہ عنہ کی مجلس میں تشریف لائے تو بشیربن سعد رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عر ض کیا: اللہ کے رسول ! اللہ تعالی نے ہم کو آپ پر درود بھیجنے کا حکم دیا ہے تو ہم آپ پر درود کس طرح بھیجیں؟ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے یہاں تک کہ ہم نے آرزو کی کہ کا ش انہوں نے نہ پو چھا ہوتا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم لو گ کہو‘‘۔
پھر راوی نے کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کے ہم معنی حدیث ذکر کی اور اس کے اخیر میں ’’فِي الْعَالَمِينَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ ‘‘ کااضافہ کیا ہے۔

981- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَمْرٍو، بِهَذَا الْخَبَرِ، قَالَ: قُولُوا: اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ النَّبِيِّ الأُمِّيِّ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۰۰۷) (حسن)

۹۸۱- اس سند سے بھی عقبہ بن عمرو(ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ ) سے یہی حدیث مر وی ہے، اس میں ہے:آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یوں کہو:اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ النَّبِيِّ الأُمِّيِّ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ ‘‘ (اے اللہ ! نبی امی محمداور آپ کی آل پر اپنی رحمت نازل فرما)‘‘۔

982- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حِبَّانُ بْنُ يَسَارٍ الْكِلابِيُّ، حَدَّثَنِي أَبُو مُطَرِّفٍ عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ كَرِيزٍ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ الْهَاشِمِيُّ، عَنِ الْمُجْمِرِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم ، قَالَ: < مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَكْتَالَ بِالْمِكْيَالِ الأَوْفَى إِذَا صَلَّى عَلَيْنَا أَهْلَ الْبَيْتِ فَلْيَقُلِ: اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَأَزْوَاجِهِ أُمَّهَاتِ الْمُؤْمِنِينَ وَذُرِّيَّتِهِ وَأَهْلِ بَيْتِهِ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۶۴۵) (ضعیف)
(اس کے راوی ’’حبان الکلابی ‘‘ میں کلام ہے )
۹۸۲- ابو ہر یرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جسے یہ بات خوش کر تی ہوکہ اسے پورا پیمانہ بھر کردیا جائے تو وہ ہم اہل بیت پرجب درود بھیجے تو کہے:اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَأَزْوَاجِهِ أُمَّهَاتِ الْمُؤْمِنِينَ وَذُرِّيَّتِهِ وَأَهْلِ بَيْتِهِ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ ‘‘۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
184-بَاب مَا يَقُولُ بَعْدَ التَّشَهُّدِ ؟
۱۸۴-باب: تشہد کے بعد آدمی کیا پڑھے ؟​


983- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا الأَوْزَاعِيُّ، حَدَّثَنِي حَسَّانُ بْنُ عَطِيَّةَ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عَائِشَةَ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم : <إِذَا فَرَغَ أَحَدُكُمْ مِنَ التَّشَهُّدِ الآخِرِ فَلْيَتَعَوَّذْ بِاللَّهِ مِنْ أَرْبَعٍ: مِنْ عَذَابِ جَهَنَّمَ، وَمِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ، وَمِنْ فِتْنَةِ الْمَحْيَا وَالْمَمَاتِ، وَمِنْ شَرِّ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ >۔
* تخريج: م/المساجد ۲۵ (۵۸۸)، ن/السھو ۶۴ (۱۳۱۱)، ق/إقامۃ الصلاۃ ۲۶(۹۰۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۵۸۷)، وقد أخرجہ: خ/الجنائز ۸۷ (۱۳۷۷)، حم (۲/۲۳۷)، دي/الصلاۃ ۸۶ (۱۳۸۳) (صحیح)

۹۸۳- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تم میں سے کو ئی آخری تشہد سے فا رغ ہو توچا ر چیزوں سے اللہ کی پنا ہ ما نگے : جہنم کے عذاب سے، قبر کے عذاب سے، زندگی اور موت کے فتنے سے اور مسیح دجال کے شر سے‘‘۔

984- حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ بَقِيَّةَ، أَخْبَرَنَا عُمَرُ بْنُ يُونُسَ الْيَمَامِيُّ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ بَعْدَ التَّشَهُّدِ: < اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ جَهَنَّمَ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الدَّجَّالِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الْمَحْيَا وَالْمَمَاتِ >۔
* تخريج: م/المساجد ۲۵ (۵۸۸)، ت/الدعوات ۷۷ (۳۴۹۴)، ن/الجنائز ۱۱۵ (۲۰۶۵)، ق/الدعاء ۳ (۳۸۴۰)، (تحفۃ الأشراف: ۵۷۲۱)، وقد أخرجہ: ط/القرآن ۸(۳۳)، حم (۱/۲۴۲، ۲۵۸، ۲۹۸، ۳۱۱)، ویأتي برقم (۱۵۴۲) (حسن صحیح)

۹۸۴- عبداللہ بن عبا س رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشہد کے بعد یہ کہتے تھے: ’’اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ جَهَنَّمَ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الدَّجَّالِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الْمَحْيَا وَالْمَمَاتِ‘‘ (یعنی اے اللہ!میں تیری پناہ چاہتا ہوں جہنم کے عذاب سے،تیری پنا ہ چاہتا ہوں قبر کے عذاب سے،تیری پناہ چا ہتا ہوں دجال کے فتنہ سے اور تیری پنا ہ چا ہتا ہوں زندگی اورمو ت کے فتنے سے ) ۔

985- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ عَمْرٍو أَبُو مَعْمَرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَارِثِ، حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ الْمُعَلِّمُ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ حَنْظَلَةَ بْنِ عَلِيٍّ أَنَّ مِحْجَنَ بْنَ الأَدْرَعِ حَدَّثَهُ قَالَ: دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم الْمَسْجِدَ فَإِذَا هُوَ بِرَجُلٍ قَدْ قَضَى صَلاتَهُ وَهُوَ يَتَشَهَّدُ، وَهُوَ يَقُولُ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ يَا أَللَّهُ الأَحَدُ الصَّمَدُ الَّذِي لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ، أَنْ تَغْفِرَ لِي ذُنُوبِي، إِنَّكَ أَنْتَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ، قَالَ: فَقَالَ: < قَدْ غُفِرَ لَهُ، قَدْ غُفِرَ لَهُ > ثَلاثًا۔
* تخريج: ن/السھو ۵۸ (۱۳۰۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۲۱۸)، وقد أخرجہ: حم (۴/۳۳۸) (صحیح)

۹۸۵- محجن بن ادرع رضی اللہ عنہ کا بیانہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ ایک شخص نے اپنی صلاۃ پوری کرلی، اورتشہد میں بیٹھا ہے اور کہہ رہا ہے:’’اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ يَا أَللَّهُ الأَحَدُ الصَّمَدُ الَّذِي لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ، أَنْ تَغْفِرَ لِي ذُنُوبِي، إِنَّكَ أَنْتَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ‘‘ (اے تنہا واکیلا، باپ بیٹا سے بے نیاز، بے مقابل ولا مثیل اللہ! میں تجھ سے یہ سوال کرتا ہوں کہ تو میری گناہوں کو بخش دے، بیشک تو بہت بخشش کرنے والا مہربان ہے)یہ سن کر آپ نے تین مر تبہ یہ فرمایا:’’ اِسے بخش دیا گیا، اِسے بخش دیاگیا‘‘۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
185-بَاب إِخْفَاءِ التَّشَهُّدِ
۱۸۵-باب: تشہد آہستہ پڑھنے کا بیان​


986- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ الْكِنْدِيُّ، حَدَّثَنَا يُونُسُ -يَعْنِي ابْنَ بُكَيْرٍ- عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ الأَسْوَدِ عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ، قَالَ: مِنَ السُّنَّةِ أَنْ يُخْفَى التَّشَهُّدُ۔
* تخريج: ت/الصلاۃ ۱۰۴ (۲۹۱)، (تحفۃ الأشراف: ۹۱۷۲) (صحیح)

۹۸۶- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ سنت یہ ہے کہ تشہد آہستہ پڑھی جا ئے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
186- بَاب الإِشَارَةِ فِي التَّشَهُّدِ
۱۸۶-باب: تشہد میں انگلی سے اشا رہ کر نے کا بیان


987- حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ مُسْلِمِ بْنِ أَبِي مَرْيَمَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ الْمُعَاوِيِّ، قَالَ: رَآنِي عَبْدُاللَّهِ بْنُ عُمَرَ وَأَنَا أَعْبَثُ بِالْحَصَى فِي الصَّلاةِ، فَلَمَّا انْصَرَفَ نَهَانِي، وَقَالَ: اصْنَعْ كَمَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم يَصْنَعُ، فَقُلْتُ: وَكَيْفَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم يَصْنَعُ؟ قَالَ: [كَانَ] إِذَا جَلَسَ فِي الصَّلاةِ وَضَعَ كَفَّهُ الْيُمْنَى عَلَى فَخْذِهِ [الْيُمْنَى]، وَقَبَضَ أَصَابِعَهُ كُلَّهَا، وَأَشَارَ بِأُصْبُعِهِ الَّتِي تَلِي الإِبْهَامَ، وَوَضَعَ كَفَّهُ الْيُسْرَى عَلَى فَخْذِهِ الْيُسْرَى۔
* تخريج: م/المساجد ۲۱ (۵۸۰)، ن/التطبیق ۹۸ (۱۱۶۱)، والسھو ۳۲ (۱۲۶۷) ۳۳ (۱۲۶۸)، (تحفۃ الأشراف: ۷۳۵۱)، وقد أخرجہ: ط/الصلاۃ ۱۱(۴۸)، دي/الصلاۃ ۸۳ (۱۳۷۸) (صحیح)

۹۸۷- علی بن عبدالرحمن معا وی کہتے ہیں: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے مجھے صلاۃ میں کنکریوں سے کھیلتے ہو ے دیکھا، جب وہ صلاۃ سے فا رغ ہو ئے تو مجھے اس سے منع کیا اور کہا: تم صلاۃ میں اسی طرح کرو جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کر تے تھے، میں نے عرض کیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیسے کر تے تھے؟ انہوں نے کہا: جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم صلاۃ میں بیٹھتے تو اپنی داہنی ہتھیلی اپنی داہنی ران پر رکھتے اور اپنی تمام انگلیاں سمیٹ لیتے اور شہا دت کی انگلی جو انگو ٹھے سے متصل ہو تی ہے،اشا رہ کر تے ۱؎ اور اپنی با ئیں ہتھیلی بائیں ران پر رکھتے۔
وضاحت ۱؎ : اس سے سلام پھیرنے تک برابرشہادت کی انگلی سے اشارہ کرنے کا ثبوت ملتا ہے، اشارہ کرنے کے بعد انگلی کے گرالینے یا ’’لا إله‘‘ پر اٹھانے اور ’’إلا الله‘‘ پر گرالینے کی کوئی دلیل حدیث میں نہیں ہے ۔

988- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِالرَّحِيمِ الْبَزَّازُ، حَدَّثَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ ابْنُ حَكِيمٍ، حَدَّثَنَا عَامِرُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم إِذَا قَعَدَ فِي الصَّلاةِ جَعَلَ قَدَمَهُ الْيُسْرَى تَحْتَ فَخْذِهِ الْيُمْنَى وَسَاقِهِ وَفَرَشَ قَدَمَهُ الْيُمْنَى وَوَضَعَ يَدَهُ الْيُسْرَى عَلَى رُكْبَتِهِ الْيُسْرَى وَوَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى فَخْذِهِ الْيُمْنَى وَأَشَارَ بِأُصْبُعِهِ، وَأَرَانَا عَبْدُالْوَاحِدِ وَأَشَارَ بِالسَّبَّابَةِ۔
* تخريج: م/المساجد ۲۱ (۵۷۹)، ن/التطبیق ۹۹ (۱۱۶۲)، والسھو ۳۵ (۱۲۷۱)، ۳۹ (۱۲۷۶)، (تحفۃ الأشراف: ۵۲۶۳)، وقد أخرجہ: حم (۴/۳) (صحیح)

۹۸۸- عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ روایت کر تے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب صلاۃ میں بیٹھتے تو اپنا بایاں پائوں داہنی ران اور پنڈلی کے نیچے کر تے اور داہنا پا ئوں بچھا دیتے اور با یاں ہا تھ اپنے با ئیں گھٹنے پر رکھتے اور اپنا دا ہنا ہا تھ اپنی داہنی ران پر رکھتے اوراپنی انگلی سے اشا رہ کر تے ، عبدالو احد نے ہمیں شہا دت کی انگلی سے اشا رہ کرکے دکھایا۔

989- حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْحَسَنِ الْمِصِّيصِيُّ، حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ زِيَادٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلانَ، عَنْ عَامِرِ بْنِ عَبْداللَّهِ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ أَنَّهُ ذَكَرَ أَنَّ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم كَانَ يُشِيرُ بِأُصْبُعِهِ إِذَا دَعَا وَلا يُحَرِّكُهَا .
* تخريج: ن/السہو ۳۵ (۱۲۷۱)، (تحفۃ الأشراف: ۵۲۶۴)، وقد أخرجہ: حم (۴/۳) (شاذ) (’’ولا يحركها‘‘
کے جملہ کے ساتھ شاذ ہے)
قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ وَزَادَ عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ: قَالَ أَخْبَرَنِي عَامِرٌ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ رَأَى النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم يَدْعُو كَذَلِكَ، وَيَتَحَامَلُ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم بِيَدِهِ الْيُسْرَى عَلَى فَخْذِهِ الْيُسْرَى (صحیح)
۹۸۹- عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب تشہد پڑھتے تو اپنی انگلی سے اشا رے کر تے تھے اور اسے حر کت نہیں دیتے تھے ۱؎ ۔
ابن جریج کہتے ہیں کہ عمر و بن دینا ر نے یہ اضافہ کیاہے کہ مجھے عا مر نے اپنے والد کے واسطہ سے خبر دی ہے کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح تشہد پڑھتے دیکھا ہے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنا با یاں ہاتھ اپنی با ئیں ران پر رکھتے تھے۔
وضاحت ۱؎ : اور اسے حرکت نہیں دیتے تھے کا جملہ شاذ ہے جیسا کہ تخریج سے ظاہر ہے اس کے برخلاف صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی انگلی کو اٹھانے کے بعد اسے حرکت دے دے کر دعا کرتے اور فرماتے تھے کہ یہ شہادت کی انگلی شیطان پر لوہے سے بھی زیادہ سخت ہے۔

990- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، حَدَّثَنَا ابْنُ عَجْلانَ، عَنْ عَامِرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ أَبِيهِ، بِهَذَا الْحَدِيثِ، قَالَ: لا يُجَاوِزُ بَصَرُهُ إِشَارَتَهُ، وَحَدِيثُ حَجَّاجٍ أَتَمُّ ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۵۲۶۴) (حسن صحیح)

۹۹۰- اس طریق سے بھی عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے یہی حدیث مر وی ہے، اس میں ہے: آپ کی نظراشا رہ سے آگے نہیں بڑھتی تھی اور حجا ج کی حدیث (یعنی پچھلی حدیث )زیا دہ مکمل ہے۔

991- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ -يَعْنِي ابْنَ عَبْدِالرَّحْمَنِ- حَدَّثَنَا عِصَامُ بْنُ قُدَامَةَ مِنْ بَنِي بَجِيلَةَ، عَنْ مَالِكِ بْنِ نُمَيْرٍ الْخُزَاعِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم وَاضِعًا ذِرَاعَهُ الْيُمْنَى عَلَى فَخِذِهِ الْيُمْنَى، رَافِعًا إِصْبَعَهُ السَّبَّابَةَ، قَدْ حَنَاهَا شَيْئًا ۔
* تخريج: ن/السھو ۳۶ (۱۲۷۲)، ق/إقامۃ الصلاۃ ۲۷ (۹۱۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۷۱۰)، وقد أخرجہ: حم (۳/۴۷۱) (ضعیف)
(اس کے راوی’’مالک‘‘لین الحدیث ہیں)
۹۹۱- نمیر خزاعی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا دا ہنا ہاتھ اپنی دا ہنی ران پر رکھے ہوئے اور شہادت کی انگلی کو اٹھائے ہوئے دیکھا، آپ نے اسے تھوڑا سا جھکا رکھا تھا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
187- بَاب كَرَاهِيَةِ الاعْتِمَادِ عَلَى الْيَدِ فِي الصَّلاةِ
۱۸۷-باب: صلاۃ میں ہا تھ پر ٹیک لگا نا مکروہ ہے​


992- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، وَأَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ شَبُّوَيْهِ، وَمُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِالْمَلِكِ الْغَزَّالُ قَالُوا: حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أُمَيَّةَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم ، قَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ: أَنْ يَجْلِسَ الرَّجُلُ فِي الصَّلاةِ وَهُوَ مُعْتَمِدٌ عَلَى يَدِهِ، وَقَالَ ابْنُ شَبُّوَيْهِ: نَهَى أَنْ يَعْتَمِدَ الرَّجُلُ عَلَى يَدِهِ فِي الصَّلاةِ، وَقَالَ ابْنُ رَافِعٍ: نَهَى أَنْ يُصَلِّيَ الرَّجُلُ وَهُوَ مُعْتَمِدٌ عَلَى يَدِهِ، وَذَكَرَهُ فِي بَابِ الرَّفْعِ مِنَ السُّجُودِ، وَقَالَ ابْنُ عَبْدِالْمَلِكِ: نَهَى أَنْ يَعْتَمِدَ الرَّجُلُ عَلَى يَدَيْهِ إِذَا نَهَضَ فِي الصَّلاةِ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۷۵۰۴)، وقد أخرجہ: حم (۲/۱۴۷) (صحیح)

(لیکن آخری ٹکڑا ’’إذا نھض۔۔۔الخ‘‘ منکر ہے)
۹۹۲- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے:’’آدمی کو صلاۃ میں اپنے ہاتھ پر ٹیک لگاکر بیٹھنے سے‘‘، اور ابن شبویہ کی روایت میں ہے: ’’ آدمی کو صلاۃ میں اپنے ہاتھ پر ٹیک لگانے سے منع کیا ہے‘‘، اور ابن رافع کی روایت میں ہے: ’’آدمی کو اپنے ہاتھ پر ٹیک لگا کر صلاۃ پڑھنے سے منع کیا ہے‘‘، اور انہوں نے اسے ’’باب الرفع من السجود‘‘ میں ذکر کیا ہے، اور ابن عبدالملک کی روایت میں ہے کہ آدمی کو صلاۃ میں اٹھتے وقت اپنے دونوںہاتھ پر ٹیک لگانے سے منع کیا ہے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : عبدالرزاق کے تلامذہ نے اسے چار وجوہ پر روایت کیا ہے جس میں دوسری اور تیسری وجہ پہلی وجہ کے مخالف نہیں البتہ چوتھی پہلی کے صریح مخالف ہے اور ترجیح پہلی وجہ کو حاصل ہے کیونکہ اس کے روایت کرنے والے احمد بن حنبل ہیں جو حفظ وضبط اور اتقان میں مشہورائمہ میں سے ہیں اس کے برخلاف ابن عبدالملک کو اگرچہ نسائی وغیرہ نے ثقہ کہا ہے لیکن مسلم نے انہیں ثقہ کثیر الخطا کہا ہے ایسی صورت میں ثقہ کی مخالفت سے ان کی روایت منکر ہوگی اسی وجہ سے تخریج میں ابن عبدالملک کی روایت کو منکر کہا گیا ہے، رہی وہ حدیث جس میں یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دونوں ہاتھوں پر ٹیک لگائے بغیر تیرکی مانند اٹھتے تھے تو وہ من گھڑت اور موضوع ہے، سجدے سے دونوں ہاتھ ٹیک کر اٹھنے کے مسنون ہونے کی دلیل صحیح بخاری میں مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کی روایت ہے جس میں ہے : ’’وإذا رفع رأسه عن السجدة الثانية واعتمد على الأرض ثم قام‘‘ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب دوسرے سجدہ سے اپنا سر اٹھاتے تو بیٹھتے اور زمین پر ٹیک لگاتے پھر کھڑے ہوتے ۔

993- حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ هِلالٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَارِثِ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أُمَيَّةَ، سَأَلْتُ نَافِعًا عَنِ الرَّجُلِ يُصَلِّي وَهُوَ مُشَبِّكٌ يَدَيْهِ، قَالَ: قَالَ ابْنُ عُمَرَ: تِلْكَ صَلاةُ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۷۵۰۴) (صحیح)

۹۹۳- اسماعیل بن امیہ کہتے ہیں: میں نے نا فع سے اس شخص کے بارے میں پوچھا جو صلاۃ پڑھ رہا ہو اور وہ اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو ایک دوسرے میں پیوست کئے ہوئے ہو، تو انہوں نے کہا : ابن عمر رضی اللہ عنہما کا کہنا ہے کہ یہ غضب کی شکار (مغضوب علیہم) قوم یہود کی صلاۃ ہے ۔

994- حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ زَيْدِ بْنِ أَبِي الزَّرْقَاءِ، حَدَّثَنَا أَبِي (ح) وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، وَهَذَا لَفْظُهُ، جَمِيعًا عَنْ هِشَامِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّهُ رَأَى رَجُلا يَتَّكِئُ عَلَى يَدِهِ الْيُسْرَى وَهُوَ قَاعِدٌ فِي الصَّلاةِ، قَالَ هَارُونُ بْنُ زَيْدٍ: سَاقِطًا عَلَى شِقِّهِ الأَيْسَرِ، ثُمَّ اتَّفَقَا: فَقَالَ لَهُ لا تَجْلِسْ هَكَذَا فَإِنَّ هَكَذَا يَجْلِسُ الَّذِينَ يُعَذَّبُونَ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۸۵۱۳)، وقد أخرجہ: حم (۲/۱۱۶) (حسن)

۹۹۴- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک شخص کو اپنے با ئیں ہاتھ پر ٹیک لگا ئے صلاۃ میں بیٹھے ہوئے دیکھا (ہا رون بن زید نے اپنی روایت میں کہا ہے کہ با ئیں پہلو پر پڑا ہوا دیکھا پھر(آگے) دونوں(الفاظ میں) متفق ہیں) تو انہوں نے اس سے کہا:اس طرح نہ بیٹھوکیونکہ اس طرح وہ لوگ بیٹھتے ہیں جو عذاب دیئے جائیں گے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
188- بَاب فِي تَخْفِيفِ الْقُعُودِ
۱۸۸-باب: تشہد( پہلے قعدہ) میں تھوڑی دیر بیٹھنے کا بیان​


995- حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم كَانَ فِي الرَّكْعَتَيْنِ الأُولَيَيْنِ كَأَنَّهُ عَلَى الرَّضْفِ، قَالَ: قُلْنَا: حَتَّى يَقُومَ، قَالَ: حَتَّى يَقُومَ۔
* تخريج: ت/الصلاۃ ۱۵۸ (۳۶۶)، ن/التطبیق ۱۰۵ (۱۱۷۷)، (تحفۃ الأشراف: ۹۶۰۹)، وقد أخرجہ: حم (۱/۳۸۶، ۴۱۰، ۴۲۸، ۴۳۶، ۴۶۰) (ضعیف)
(ابوعبیدہ کا اپنے والد سے سماع نہیں ہے )
ٍ ۹۹۵- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پہلی دو رکعتوں میں یعنی پہلے تشہد میں اس طرح ہو تے تھے گویا کہ گر م پتھر پر( بیٹھے) ہیں ۔
شعبہ کہتے ہیں کہ ہم نے پوچھا: کھڑے ہونے تک ؟ توسعد بن ابرا ہیم نے کہا: کھڑے ہونے تک ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : مطلب یہ ہے کہ آخری قعدہ کی بہ نسبت پہلے قعدہ میں آپ جلدی کھڑے ہوجاتے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
189-بَاب فِي السَّلامِ
۱۸۹-باب: سلام پھیر نے کا بیان​


996- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ (ح) وَحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا زَائِدَةُ (ح) وَحَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ (ح) وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ الْمُحَارِبِيُّ، وَزِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ، قَالا: حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ عُبَيْدٍ الطَّنَافِسِيُّ (ح) وَحَدَّثَنَا تَمِيمُ بْنُ الْمُنْتَصِرِ، أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ -يَعْنِي ابْنَ يُوسُفَ- عَنْ شَرِيكٍ (ح) وَحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ كُلُّهُمْ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي الأَحْوَصِ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ، وَقَالَ إِسْرَائِيلُ: عَنْ أَبِي الأَحْوَصِ وَالأَسْوَدِ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ أَنَّ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم كَانَ يُسَلِّمُ عَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ شِمَالِهِ حَتَّى يُرَى بَيَاضُ خَدِّهِ: < السَّلامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ، السَّلامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ >.
قَالَ أَبودَاود: وَهَذَا لَفْظُ حَدِيثِ سُفْيَانَ، وَحَدِيثُ إِسْرَائِيلَ لَمْ يُفَسِّرْهُ.
قَالَ أَبودَاود: وَرَوَاهُ زُهَيْرٌ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، وَيَحْيَى بْنُ آدَمَ عَنْ إِسْرَائِيلَ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ الأَسْوَدِ عَنْ أَبِيهِ، وَعَلْقَمَةَ عَنْ عَبْدِاللَّهِ.
قَالَ أَبودَاود: شُعْبَةُ كَانَ يُنْكِرُ هَذَا الْحَدِيثَ حَدِيثَ أَبِي إِسْحَاقَ [أَنْ يَكُونَ مَرْفُوعًا]۔
* تخريج: ت/الصلاۃ ۱۰۹ (۲۹۵)، ن/السھو ۷۱ (۱۳۲۳، ۱۳۲۴، ۱۳۲۵، ۱۳۲۶)، ق/إقامۃ الصلاۃ ۲۸ (۹۱۴)، (تحفۃ الأشراف: ۹۱۸۲، ۹۵۰۴)، وقد أخرجہ: حم (۱/۳۹۰، ۴۰۶، ۴۰۹، ۴۱۴، ۴۴۴، ۴۴۸)، دي/الصلاۃ ۸۷ (۱۳۸۵) (صحیح)

۹۹۶- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دائیں اور با ئیں’’السلام عليكم ورحمة الله، السلام عليكم ورحمة الله‘‘ کہتے ہوئے سلام پھیرتے یہاں تک کہ آپ کی گال کی سفیدی دکھائی دیتی۔
ابو داود کہتے ہیں: یہ سفیان کی روایت کے الفا ظ ہیں اور اسرا ئیل کی حدیث سفیان کی حدیث کی مفسّر نہیں ہے ۔
ابو داود کہتے ہیں: اور اسے زہیر نے ابو اسحاق سے اور یحییٰ بن آدم نے اسرائیل سے، اسرائیل نے ابو اسحاق سے، ابو اسحاق نے عبدالرحمن بن اسود سے، انہوں نے اپنے والد اسود اور علقمہ سے روایت کیا ہے، اور ان دونوں نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے ۱؎ ۔
ابو داود کہتے ہیں: شعبہ ابو اسحاق کی اس حدیث کے مر فوع ہو نے کے منکر تھے۔
وضاحت ۱؎ : یہ ترجمہ اس صورت میں ہوگا جب علقمہ کا عطف ’’عن أبيه‘‘ پر ہواور اگر علقمہ کا عطف ’’عن عبدالرحمن‘‘ پر ہو تو ترجمہ یہ ہوگا کہ ابواسحاق نے اسے عبدالرحمن سے اور انہوں نے اپنے والد سے اوراسی طرح ابواسحاق نے علقمہ سے اور انہوں نے عبداللہ سے روایت کیا ہے۔

997- حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ قَيْسٍ الْحَضْرَمِيُّ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَائِلٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: صَلَّيْتُ مَعَ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم فَكَانَ يُسَلِّمُ عَنْ يَمِينِهِ < السَّلامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ >، وَعَنْ شِمَالِهِ: < السَّلامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۷۷۶) (صحیح)

۹۹۷- وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سا تھ صلاۃ پڑھی آپ اپنے دائیں جانب ’’السلام عليكم ورحمة الله وبركاته‘‘ اور اپنے بائیں جانب ’’السلام عليكم ورحمة الله وبركاته‘‘ کہتے ہوے سلام پھیررہے تھے۔

998- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ زَكَرِيَّا، وَوَكِيعٌ، عَنْ مِسْعَرٍ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ الْقِبْطِيَّةِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ: كُنَّا إِذَا صَلَّيْنَا خَلْفَ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَسَلَّمَ أَحَدُنَا أَشَارَ بِيَدِهِ مِنْ عَنْ يَمِينِهِ وَمِنْ عَنْ يَسَارِهِ، فَلَمَّا صَلَّى قَالَ: < مَا بَالُ أَحَدِكُمْ يُومِي بِيَدِهِ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمْسٍ؟ إِنَّمَا يَكْفِي أَحَدَكُمْ أَوْ أَلا يَكْفِي أَحَدَكُمْ، أَنْ يَقُولَ هَكَذَا -وَأَشَارَ بِأُصْبُعِهِ- يُسَلِّمُ عَلَى أَخِيهِ مِنْ عَنْ يَمِينِهِ وَمِنْ عَنْ شِمَالِهِ > ۔
* تخريج: م/الصلاۃ ۲۷ (۴۳۱)، ن/السھو ۵ (۱۱۸۶)، ۶۹ (۱۳۱۹)، ۷۲ (۱۳۲۷)، (تحفۃ الأشراف: ۲۲۰۷)، وقد أخرجہ: حم (۵/۸۶، ۸۸، ۹۳، ۱۰۱، ۱۰۲، ۱۰۷) (صحیح)

۹۹۸- جا بر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے صلاۃ پڑھتے تھے تو ہم میں سے کوئی سلام پھیرتا تو اپنے ہا تھ سے اپنے دائیں اور با ئیں اشا رے کرتا، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم صلاۃ سے فا رغ ہوئے تو فرمایا: ’’تم لو گوں کا کیا حال ہے کہ تم میں سے کوئی ( صلاۃ میں) اپنے ہاتھ سے اشا رے کر تا ہے، گو یااس کا ہاتھ شریر گھو ڑے کی دم ہے، تم میں سے ہر ایک کو بس اتنا کا فی ہے‘‘ (یایہ کہا:کیاتم میں سے ہر ایک کواس طرح کرناکا فی نہیں ؟)، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلی سے اشا رہ کیا کہ دائیں اور بائیں طرف کے اپنے بھائی کو سلام کرے۔

999- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سُلَيْمَانَ الأَنْبَارِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، عَنْ مِسْعَرٍ، بِإِسْنَادِهِ وَمَعْنَاهُ، قَالَ: < أَمَا يَكْفِي أَحَدَكُمْ، أَوْ أَحَدَهُمْ أَنْ يَضَعَ يَدَهُ عَلَى فَخْذِهِ، ثُمَّ يُسَلِّمَ عَلَى أَخِيهِ مِنْ عَنْ يَمِينِهِ وَمِنْ عَنْ شِمَالِهِ >۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۲۲۰۷) (صحیح)

۹۹۹- اس طریق سے بھی مسعر سے اس مفہوم کی حدیث مروی ہے اس میں ہے: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کیا تم میں سے کسی کو یا ان میں سے کسی کو کا فی نہیں ہے کہ وہ اپنا ہا تھ اپنی ران پر رکھے پھراپنے دائیں اور با ئیں اپنے بھا ئی کو سلام کرے‘‘ ۔

1000- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، عَنِ الْمُسَيَّبِ بْنِ رَافِعٍ، عَنْ تَمِيمٍ الطَّائِيِّ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ: دَخَلَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم وَالنَّاسُ رَافِعُوا أَيْدِيهِمْ -قَالَ زُهَيْرٌ: أُرَاهُ قَالَ: فِي الصَّلاةِ- فَقَالَ: < مَا لِي أَرَاكُمْ رَافِعِي أَيْدِيكُمْ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمْسٍ؟! أُسْكُنُوا فِي الصَّلاةِ >۔
* تخريج: م/ الصلاۃ ۲۷ (۴۳۰)، ن/السہو ۵ (۱۱۸۵)، (تحفۃ الأشراف: ۲۱۲۸)، وقد أخرجہ: حم (۵/۸۶، ۸۸، ۹۳، ۱۰۱، ۱۰۲، ۱۰۷) (صحیح)

۱۰۰۰- جا بر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہما رے پاس تشریف لا ئے اس حال میں کہ لوگ صلاۃ میں اپنے ہاتھ اٹھا ئے ہوئے تھے توآپ نے فرمایا : ’’مجھے کیا ہو گیا ہے کہ میں تمہیں اپنے ہا تھ اٹھا ئے ہو ے دیکھ رہا ہوں، گویا کہ وہ شریر گھو ڑوں کی دم ہیں؟! صلاۃ میں سکو ن سے رہا کرو‘‘۔
 
Top