• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابو داود

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
54- بَاب طَوَافِ الْقَارِنِ
۵۴-باب: قِران کرنے والے کے طواف کا بیان​


1895- حَدَّثَنَا (أَحْمَدُ) بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُوالزُّبَيْرِ، قَالَ : سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِاللَّهِ يَقُولُ: لَمْ يَطُفِ النَّبِيُّ ﷺ وَلا أَصْحَابُهُ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ إِلا طَوَافًا وَاحِدًا، طَوَافَهُ الأَوَّلَ۔
* تخريج: م/الحج ۱۷ (۱۲۱۳)، ن/الحج ۱۸۲ (۲۹۸۹)، ( تحفۃ الأشراف: ۲۸۰۲)، وقد أخرجہ: ت/الحج ۱۰۲ (۹۴۷)، ق/المناسک ۳۹ (۲۹۷۲)، حم (۳/۳۱۷) (صحیح)
۱۸۹۵- ابو زبیر کہتے ہیں کہ میں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کو کہتے سنا کہ نبی اکرم ﷺ اور آپ کے صحا بہ نے (جنہوں نے قران کیا تھا) صفا اور مروہ کے درمیان صرف ایک ہی سعی کی اپنے پہلے طواف کے وقت۔


1896- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ (بْنُ سَعِيدٍ) حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ أَصْحَابَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ الَّذِينَ كَانُوا مَعَهُ لَمْ يَطُوفُوا حَتَّى رَمَوُا الْجَمْرَةَ۔
* تخريج: تفرد بہ أبوداود، ( تحفۃ الأشراف: ۱۶۶۰۱)، وقد أخرجہ: ن/ الکبری/ الحج (۴۱۷۲، ۴۱۷۳) (صحیح)
(یہ سابقہ حدیث نمبر: ۱۷۸۱ کا ایک ٹکڑا ہے)
۱۸۹۶- ا م المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے اصحاب نے جو آپ کے ساتھ تھے ، اس وقت تک طواف نہیں کیا جب تک کہ ان لوگوں نے رمی جمار نہیں کرلیا۔


1897- حَدَّثَنَا الرَّبِيعُ بْنُ سُلَيْمَانَ الْمُؤَذِّنُ، أَخْبَرَنِي الشَّافِعِيّ،ُ عَنِ ابْنِ عُيَيْنَةَ، عَنِ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ، عَنْ عَطَائٍ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ لَهَا: < طَوَافُكِ بِالْبَيْتِ وَبَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ يَكْفِيكِ لِحَجَّتِكِ وَعُمْرَتِكِ >.
قَالَ الشَّافِعِيُّ: كَانَ سُفْيَانُ رُبَّمَا قَالَ: عَنْ عَطَائٍ، عَنْ عَائِشَةَ، وَرُبَّمَا قَالَ: عَنْ عَطَائٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ لِعَائِشَةَ رَضِي اللَّه عَنْهَا۔
* تخريج: تفرد بہ أبوداود، ( تحفۃ الأشراف: ۱۷۳۸۱) (صحیح)
۱۸۹۷- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ان سے فرمایا: ’’بیت اللہ کا تمہارا طواف اور صفا و مروہ کی سعی حج وعمرہ دونوں کے لئے کا فی ہے‘‘۔
شا فعی کہتے ہیں: سفیان نے اس روایت کو کبھی عطاء سے اور انہوں نے ام المؤمنین عا ئشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے، اور کبھی عطاء سے مرسلاً روایت کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
55- بَاب الْمُلْتَزَمِ
۵۵-باب: ملتزم کا بیان ۱؎​


1898-حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ عَبْدِالْحَمِيدِ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ عَنْ مُجَاهِدٍ عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ صَفْوَانَ قَالَ لَمَّا فَتَحَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ مَكَّةَ قُلْتُ لأَلْبَسَنَّ ثِيَابِي وَكَانَتْ دَارِي عَلَى الطَّرِيقِ فَلأَنْظُرَنَّ كَيْفَ يَصْنَعُ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فَانْطَلَقْتُ فَرَأَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ قَدْ خَرَجَ مِنْ الْكَعْبَةِ هُوَ وَأَصْحَابُهُ وَقَدْ اسْتَلَمُوا الْبَيْتَ مِنْ الْبَابِ إِلَى الْحَطِيمِ وَقَدْ وَضَعُوا خُدُودَهُمْ عَلَى الْبَيْتِ وَرَسُولُ اللَّهِ ﷺ وَسْطَهُمْ .
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف: ۹۷۰۳)، وقد أخرجہ: حم (۳/۴۳۰، ۴۳۱) (ضعیف)
(اس کے راوی’’یزید‘‘ضعیف ہیں، نیز ملاحظہ ہو: الصحیحہ ۲۱۳۸)
۱۸۹۸- عبدالر حمن بن صفوان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ نے مکہ فتح کیا تو میں نے کہا: میں اپنے کپڑے پہنوں گا ( میرا گھر راستے میں تھا) پھرمیں دیکھوں گا کہ رسول اللہ ﷺ کیا کرتے ہیں، تو میں گیا تو نبی اکرم ﷺ کو دیکھا کہ آپ اور آپ کے صحا بہ کعبۃ اللہ کے اندر سے نکل چکے ہیں اور سب لوگ بیت اللہ کے دروازے سے لے کر حطیم تک کعبہ سے چمٹے ہوئے ہیں، انہوں نے اپنے رخسار بیت اللہ سے لگا دئے ہیںاور رسول اللہ ﷺ ان سب کے بیچ میں ہیں۔
وضاحت ۱؎ : ’’ملتزم‘‘: کعبہ کا وہ حصہ جوحجر اسود اور کعبہ کے دروازے کے درمیان واقع ہے، لوگ اس سے چمٹ کر دعا مانگتے ہیں۔


1899- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا الْمُثَنَّى بْنُ الصَّبَّاحِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: طُفْتُ مَعَ عَبْدِاللَّهِ، فَلَمَّا جِئْنَا دُبُرَ الْكَعْبَةِ قُلْتُ: أَلاتَتَعَوَّذُ، قَالَ: نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ النَّارِ، ثُمَّ مَضَى حَتَّى اسْتَلَمَ الْحَجَرَ، وَأَقَامَ بَيْنَ الرُّكْنِ وَالْبَابِ، فَوَضَعَ صَدْرَهُ، وَوَجْهَهُ، وَذِرَاعَيْهِ، وَكَفَّيْهِ هَكَذَا، وَبَسَطَهُمَا بَسْطًا، ثُمَّ قَالَ: هَكَذَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَفْعَلُهُ۔
* تخريج: ق/المناسک ۳۵ (۲۹۶۲)، ( تحفۃ الأشراف: ۸۷۷۶) (حسن)
(اس کے راوی’’مثنی‘‘ضعیف ہیں، لیکن شواہد اور متابعات کی وجہ سے تقویت پا کر یہ حسن ہے۔
۱۸۹۹- شعیب بن محمد بن عبداللہ بن عمرو بن العاص کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کے ساتھ طواف کیا، جب ہم لوگ کعبہ کے پیچھے آئے تو میں نے کہا:کیا آپ پناہ نہیں مانگیں گے؟ اس پر انہوں نے کہا: ہم پناہ مانگتے ہیں اللہ کی آگ سے، پھر وہ آگے بڑھتے رہے یہاں تک کہ انہوں نے حجر اسود کا استلام کیا، اور حجر اسود اور کعبہ کے دروازے کے درمیان کھڑے رہے اور اپنا سینہ ، اپنے دونوں ہاتھ اپنی دونوں ہتھیلیاں اس طرح رکھیں اور انہوں نے انہیں پوری طرح پھیلا یا ، پھر بولے : اسی طرح میں نے رسول اللہ ﷺ کو کرتے دیکھا ہے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی آپ ﷺ ملتزم سے چمٹے ہوئے تھے۔


1900- حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ عُمَرَ بْنِ مَيْسَرَةَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا السَّائِبُ بْنُ عَمْرٍو الْمَخْزُومِيُّ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ كَانَ يَقُودُ ابْنَ عَبَّاسٍ فَيُقِيمُهُ عِنْدَ الشُّقَّةِ الثَّالِثَةِ مِمَّا يَلِي الرُّكْنَ الَّذِي يَلِي الْحَجَرَ مِمَّا يَلِي الْبَابَ، فَيَقُولُ لَهُ ابْنُ عَبَّاسٍ: أُنْبِئْتُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ كَانَ يُصَلِّي هَا هُنَا؟ فَيَقُولُ: نَعَمْ فَيَقُومُ فَيُصَلِّي۔
* تخريج: ن/الحج ۱۳۳ (۲۹۲۱)، ( تحفۃ الأشراف: ۵۳۱۷)، وقد أخرجہ: حم (۳/۴۱۰) (ضعیف)
(اس کے راوی’’محمد بن عبداللہ بن سائب‘‘مجہول ہیں)
۱۹۰۰- عبداللہ بن سائب کہتے ہیں کہ وہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کو لے کرجاتے ( جب ان کی بینا ئی ختم ہوگئی) اور ان کو اس تیسرے کونے کے پاس کھڑا کر دیتے جو اس رکن کعبہ کے قریب ہے جو حجراسود کے قریب ہے اور دروازے سے ملا ہوا ہے تو ابن عباس ان سے کہتے : کیا تمہیں معلوم ہے کہ رسول اللہ ﷺ اس جگہ نماز پڑھتے تھے؟ وہ کہتے : ہاں ، تو ابن عباس کھڑے ہوتے اور صلاۃ پڑھتے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
56- بَاب أَمْرِ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ
۵۶-باب: صفا اور مر وہ کا بیان​


1901- حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ (ح) وَحَدَّثَنَا ابْنُ السَّرْحِ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ هِشَامِ (بْنِ عُرْوَةَ) عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ قَالَ: قُلْتُ لِعَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ ﷺ وَأَنَا يَوْمَئِذٍ حَدِيثُ السِّنِّ: أَرَأَيْتِ قَوْلَ اللَّهِ تَعَالَى: { إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ} فَمَا أَرَى عَلَى أَحَدٍ شَيْئًا أَنْ لا يَطَّوَّفَ بِهِمَا، قَالَتْ عَائِشَةُ: كَلاَّ، لَوْ كَانَ كَمَا تَقُولُ كَانَتْ: {فَلا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ لا يَطَّوَّفَ بِهِمَا} إِنَّمَا أُنْزِلَتْ هَذِهِ الآيَةُ فِي الأَنْصَارِ كَانُوا يُهِلُّونَ لِمَنَاةَ، وَكَانَتْ مَنَاةُ حَذْوَ قُدَيْدٍ، وَكَانُوا يَتَحَرَّجُونَ أَنْ يَطُوفُوا بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ فَلَمَّا جَاءَ الإِسْلامُ سَأَلُوا رَسُولَ اللَّهِ ﷺ عَنْ ذَلِكَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: { إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ }۔
* تخريج: خ/الحج ۷۹ (۱۶۴۳)، والعمرۃ۱۰ (۱۷۹۰)، وتفسیرالبقرۃ ۲۱(۴۴۹۵)، وتفسیر النجم ۳ (۴۸۶۱)، ن/الحج ۱۶۸ (۲۹۷۱)، ( تحفۃ الأشراف: ۱۶۸۲۰، ۱۷۱۵۱)، وقد أخرجہ: م/الحج ۴۳ (۱۲۷۷)، ت/تفسیر سورۃ البقرۃ (۲۹۶۹)، ق/المناسک ۴۳ (۲۹۸۶)، ط/الحج ۴۲ (۱۲۹)، حم (۶/۱۴۴، ۱۶۲، ۲۲۷) (صحیح)
۱۹۰۱- عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ میں نے ام المو منین عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا اور میں ان دنوں کم سن تھا: مجھے اللہ تعالیٰ کے ارشاد { إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ} کے سلسلہ میں بتائیے، میں سمجھتا ہوں کہ اگر کوئی ان کے درمیان سعی نہ کرے تو اس پرکوئی گناہ نہیں، عائشہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا : ’’ہرگز نہیں، اگر ایسا ہوتا جیسا تم کہہ رہے ہو تو اللہ کا قول {فَلا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِمَا}کے بجائے{ فَلا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ لا يَطَّوَّفَ بِهِمَا} ( تو اس پر ان کی سعی نہ کرنے میں کوئی گناہ نہیں) ہوتا، یہ آیت دراصل انصار کے بارے میں اتری، وہ مناۃ ( یعنی زمانہ جاہلیت کا بت) کے لئے حج کرتے تھے اور مناۃ قدید ۱؎ کے سامنے تھا، وہ لوگ صفا و مروہ کے بیچ سعی کرنا برا سمجھتے تھے ، جب اسلام آیا تو انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے اس بارے میں پوچھا ، اس وقت اللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرمائی: {إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ} ‘‘ ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ’’مناة قديد‘‘: مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک دیہات کا نام ہے۔
وضاحت ۲؎ : بلاشبہ صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں ( سورة البقرة : ۱۵۸)


1902- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ ابْنِ أَبِي أَوْفَى أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ اعْتَمَرَ فَطَافَ بِالْبَيْتِ وَصَلَّى خَلْفَ الْمَقَامِ رَكْعَتَيْنِ وَمَعَهُ مَنْ يَسْتُرُهُ مِنَ النَّاسِ، فَقِيلَ لِعَبْدِ اللَّهِ: أَدَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ الْكَعْبَةَ؟ قَالَ: لا۔
* تخريج: خ/الحج ۵۳ (۱۶۰۰)، ق/المناسک ۴۴ (۲۹۹۰)، ( تحفۃ الأشراف: ۵۱۵۵، ۵۱۵۶)، وقد أخرجہ: م/الحج ۶۸ (۱۳۳۲)، حم (۴/۳۵۳، ۳۵۵، ۳۸۱)، دي/المناسک ۷۷ (۱۹۶۳) (صحیح)
۱۹۰۲- عبداللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عمرہ کیا تو بیت اللہ کا طواف کیا اور مقام ابراہیم کے پیچھے دو رکعت صلاۃ پڑھی، آپ کے ساتھ کچھ ایسے لوگ تھے جو آپ کو آڑ میں لئے ہوئے تھے، تو عبداللہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا : کیا رسول اللہ ﷺ کعبہ میں داخل ہوئے؟ انہوں نے جواب دیا : نہیں۔


1903- حَدَّثَنَا تَمِيمُ بْنُ الْمُنْتَصِرِ، أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا شَرِيكٌ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ ابْنِ أَبِي خَالِدٍ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَاللَّهِ بْنَ أَبِي أَوْفَى، بِهَذَا الْحَدِيثِ، زَادَ: ثُمَّ أَتَى الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ فَسَعَى بَيْنَهُمَا سَبْعًا، ثُمَّ حَلَقَ رَأْسَهُ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، ( تحفۃ الأشراف: ۵۱۵۵، ۵۱۵۶) (صحیح)
۱۹۰۳- اس سند سے بھی عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے یہی حدیث مروی ہے البتہ اس میں اتنا اضافہ ہے: پھر آپ صفا و مروہ آئے اور ان کے درمیان سات بار سعی کی، پھر اپنا سر منڈایا ۔


1904- حَدَّثَنَا النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا عَطَاءُ بْنُ السَّائِبِ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ جُمْهَانَ أَنَّ رَجُلا قَالَ لِعَبْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ: يَا أَبَا عَبْدِالرَّحْمَنِ! إِنِّي أَرَاكَ تَمْشِي وَالنَّاسُ يَسْعَوْنَ، قَالَ: إِنْ أَمْشِ فَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَمْشِي، وَإِنْ أَسْعَ فَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَسْعَى، وَأَنَا شَيْخٌ كَبِيرٌ۔
* تخريج: ت/الحج ۳۹ (۸۶۴)، ن/الحج ۱۷۴ (۲۹۷۹)، ق/المناسک ۴۳ (۲۹۸۸)، ( تحفۃ الأشراف: ۷۳۷۳، ۷۳۷۹)، وقد أخرجہ: حم (۲/۵۳) (صحیح)
۱۹۰۴- کثیر بن جمہان سے روایت ہے کہ صفا ومروہ کے درمیان عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے ایک شخص نے پوچھا: ابوعبدالرحمن! میں آپ کو(عام چال چلتے) دیکھتا ہوں جب کہ لوگ دوڑتے ہیں؟ انہوں نے کہا: اگر میں عام چال چلتا ہوں تو اس لئے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو عام چال چلتے دیکھا ہے اور اگر میں دوڑ کرتا ہوں تو اس لئے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو سعی (دوڑتے) کرتے دیکھا ہے اور میں بہت بوڑھا شخص ہوں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
arb] 57- بَاب صِفَةِ حَجَّةِ النَّبِيِّ ﷺ[/arb]​
۵۷-باب: نبی اکرم ﷺ کے حج کا طریقہ​


1905- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ، وَعُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَهِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، وَسُلَيْمَانُ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ الدِّمَشْقِيَّانِ، وَرُبَّمَا زَادَ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ الْكَلِمَةَ وَالشَّيْئَ، قَالُوا: حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: دَخَلْنَا عَلَى جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ، فَلَمَّا انْتَهَيْنَا إِلَيْهِ سَأَلَ عَنِ الْقَوْمِ، حَتَّى انْتَهَى إِلَيَّ؛ فَقُلْتُ: أَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ، فَأَهْوَى بِيَدِهِ إِلَى رَأْسِي فَنَزَعَ زِرِّي الأَعْلَى، ثُمَّ نَزَعَ زِرِّي الأَسْفَلَ، ثُمَّ وَضَعَ كَفَّهُ بَيْنَ ثَدْيَيَّ وَأَنَا يَوْمَئِذٍ غُلامٌ شَابٌّ، فَقَالَ: مَرْحَبًا بِكَ وَأَهْلا يَا ابْنَ أَخِي، سَلْ عَمَّا شِئْتَ، فَسَأَلْتُهُ وَهُوَ أَعْمَى، وَجَاءَ وَقْتُ الصَّلاةِ فَقَامَ فِي نِسَاجَةٍ مُلْتَحِفًا بِهَا، يَعْنِي ثَوْبًا مُلَفَّقًا، كُلَّمَا وَضَعَهَا عَلَى مَنْكِبِهِ رَجَعَ طَرَفَاهَا إِلَيْهِ مِنْ صِغَرِهَا، فَصَلَّى بِنَا وَرِدَاؤُهُ إِلَى جَنْبِهِ عَلَى الْمِشْجَبِ، فَقُلْتُ: أَخْبِرْنِي عَنْ حَجَّةِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ، فَقَالَ بِيَدِهِ فَعَقَدَ تِسْعًا، ثُمَّ قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ مَكَثَ تِسْعَ سِنِينَ لَمْ يَحُجَّ ثُمَّ أُذِّنَ فِي النَّاسِ فِي الْعَاشِرَةِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ حَاجٌّ، فَقَدِمَ الْمَدِينَةَ بَشَرٌ كَثِيرٌ كُلُّهُمْ يَلْتَمِسُ أَنْ يَأْتَمَّ بِرَسُولِ اللَّهِ ﷺ وَيَعْمَلَ بِمِثْلِ عَمَلِهِ، فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ، وَخَرَجْنَا مَعَهُ، حَتَّى أَتَيْنَا ذَا الْحُلَيْفَةِ، فَوَلَدَتْ أَسْمَاءُ بِنْتُ عُمَيْسٍ مُحَمَّدَ بْنَ أَبِي بَكْرٍ، فَأَرْسَلَتْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ: كَيْفَ أَصْنَعُ؟ فَقَالَ: < اغْتَسِلِي وَاسْتَذْفِرِي بِثَوْبٍ وَأَحْرِمِي > فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فِي الْمَسْجِدِ، ثُمَّ رَكِبَ الْقَصْوَاءَ، حَتَّى إِذَا اسْتَوَتْ (بِهِ) نَاقَتُهُ عَلَى الْبَيْدَاءِ، قَالَ جَابِرٌ: نَظَرْتُ إِلَى مَدِّ بَصَرِي مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ مِنْ رَاكِبٍ وَمَاشٍ وَعَنْ يَمِينِهِ مِثْلُ ذَلِكَ، وَعَنْ يَسَارِهِ مِثْلُ ذَلِكَ وَمِنْ خَلْفِهِ مِثْلُ ذَلِكَ ، وَرَسُولُ اللَّهِ ﷺ بَيْنَ أَظْهُرِنَا، وَعَلَيْهِ يَنْزِلُ الْقُرْآنُ، وَهُوَ يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ، فَمَا عَمِلَ بِهِ، مِنْ شَيْئٍ عَمِلْنَا بِهِ، فَأَهَلَّ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بِالتَّوْحِيدِ: < لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ لا شَرِيكَ لَكَ، لَبَّيْكَ إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالْمُلْكَ،لا شَرِيكَ لَكَ > وَأَهَلَّ النَّاسُ بِهَذَا الَّذِي يُهِلُّونَ بِهِ، فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيْهِمْ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ شَيْئًا مِنْهُ، وَلَزِمَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ تَلْبِيَتَهُ، قَالَ جَابِرٌ: لَسْنَا نَنْوِي إِلا الْحَجَّ، لَسْنَا نَعْرِفُ الْعُمْرَةَ، حَتَّى إِذَا أَتَيْنَا الْبَيْتَ مَعَهُ اسْتَلَمَ الرُّكْنَ فَرَمَلَ ثَلاثًا وَمَشَى أَرْبَعًا، ثُمَّ تَقَدَّمَ إِلَى مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ فَقَرَأَ: {وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى} فَجَعَلَ الْمَقَامَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْبَيْتِ، قَالَ: فَكَانَ أَبِي يَقُولُ: قَالَ ابْنُ نُفَيْلٍ وَعُثْمَانُ : وَلا أَعْلَمُهُ ذَكَرَهُ إِلا عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، قَالَ سُلَيْمَانُ: وَلا أَعْلَمُهُ إِلا قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَقْرَأُ فِي الرَّكْعَتَيْنِ بـِ{قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ} وَبـِ{قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ} ثُمَّ رَجَعَ إِلَى الْبَيْتِ فَاسْتَلَمَ الرُّكْنَ، ثُمَّ خَرَجَ مِنَ الْبَابِ إِلَى الصَّفَا، فَلَمَّا دَنَا مِنَ الصَّفَا قَرَأَ: {إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ} < نَبْدَأُ بِمَا بَدَأَ اللَّهُ بِهِ > فَبَدَأَ بِالصَّفَا فَرَقِيَ عَلَيْهِ حَتَّى رَأَى الْبَيْتَ فَكَبَّرَ اللَّهَ وَوَحَّدَهُ وَقَالَ: < لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ وَحْدَهُ، لا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ، وَلَهُ الْحَمْدُ، يُحْيِي وَيُمِيتُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْئٍ قَدِيرٌ،لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ وَحْدَهُ، أَنْجَزَ وَعْدَهُ، وَنَصَرَ عَبْدَهُ، وَهَزَمَ الأَحْزَابَ وَحْدَهُ > ثُمَّ دَعَا بَيْنَ ذَلِكَ، وَقَالَ مِثْلَ هَذَا ثَلاثَ مَرَّاتٍ، ثُمَّ نَزَلَ إِلَى الْمَرْوَةِ، حَتَّى إِذَا انْصَبَّتْ قَدَمَاهُ رَمَلَ فِي بَطْنِ الْوَادِي، حَتَّى إِذَا صَعَدَ مَشَى، حَتَّى أَتَى الْمَرْوَةَ فَصَنَعَ عَلَى الْمَرْوَةِ مِثْل مَا صَنَعَ عَلَى الصَّفَا، حَتَّى إِذَا كَانَ آخِرُ الطَّوَافِ عَلَى الْمَرْوَةِ قَالَ: < إِنِّي لَوِ اسْتَقْبَلْتُ مِنْ أَمْرِي مَا اسْتَدْبَرْتُ لَمْ أَسُقِ الْهَدْيَ، وَلَجَعَلْتُهَا عُمْرَةً، فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ لَيْسَ مَعَهُ هَدْيٌ فَلْيُحْلِلْ وَلْيَجْعَلْهَا عُمْرَةً > فَحَلَّ النَّاسُ كُلُّهُمْ وَقَصَّرُوا، إِلا النَّبِيَّ ﷺ وَمَنْ كَانَ مَعَهُ هَدْيٌ، فَقَامَ سُرَاقَةُ بْنُ جُعْشُمٍ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ ﷺ أَلِعَامِنَا هَذَا أَمْ لِلأَبَدِ؟ فَشَبَّكَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَصَابِعَهُ فِي الأُخْرَى ثُمَّ قَالَ: < دَخَلَتِ الْعُمْرَةُ فِي الْحَجِّ > هَكَذَا مَرَّتَيْنِ: < لا بَلْ لأَبَدِ أَبَدٍ، لا بَلْ لأَبَدِ أَبَدٍ > قَالَ: وَقَدِمَ عَلِيٌّ رَضِي اللَّه عَنْه مِنَ الْيَمَنِ بِبُدْنِ النَّبِيِّ ﷺ، فَوَجَدَ فَاطِمَةَ رَضِي اللَّه عَنْهَا مِمَّنْ حَلَّ وَلَبِسَتْ ثِيَابًا صَبِيغًا وَاكْتَحَلَتْ، فَأَنْكَرَ عَلِيٌّ ذَلِكَ عَلَيْهَا، وَقَالَ: مَنْ أَمَرَكِ بِهَذَا؟ فَقَالَتْ: أَبِي، فَكَانَ عَلِيٌّ يَقُولُ بِالْعِرَاقِ: ذَهَبْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ مُحَرِّشًا عَلَى فَاطِمَةَ فِي الأَمْرِ الَّذِي صَنَعَتْهُ مُسْتَفْتِيًا لِرَسُولِ اللَّهِ ﷺ فِي الَّذِي ذَكَرَتْ عَنْهُ، فَأَخْبَرْتُهُ أَنِّي أَنْكَرْتُ ذَلِكَ عَلَيْهَا، فَقَالَتْ: إِنَّ أَبِي أَمَرَنِي بِهَذَا، فَقَالَ: < صَدَقَتْ صَدَقَتْ! مَاذَا قُلْتَ حِينَ فَرَضْتَ الْحَجَّ؟ > قَالَ: قُلْتُ: اللَّهُمَّ إِنِّي أُهِلُّ بِمَا أَهَلَّ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ، قَالَ: < فَإِنَّ مَعِيَ الْهَدْيَ، فَلا تَحْلِلْ > قَالَ: وَكَانَ جَمَاعَةُ الْهَدْيِ الَّذِي قَدِمَ بِهِ عَلِيٌّ مِنَ الْيَمَنِ وَالَّذِي أَتَى بِهِ النَّبِيُّ ﷺ مِنَ الْمَدِينَةِ مِائَةً، فَحَلَّ النَّاسُ كُلُّهُمْ وَقَصَّرُوا، إِلا النَّبِيَّ ﷺ وَمَنْ كَانَ مَعَهُ هَدْيٌ، قَالَ: فَلَمَّا كَانَ يَوْمُ التَّرْوِيَةِ وَوَجَّهُوا إِلَى مِنًى أَهَلُّوا بِالْحَجِّ، فَرَكِبَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فَصَلَّى بِمِنًى الظُّهْرَ وَالْعَصْرَ وَالْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ وَالصُّبْحَ، ثُمَّ مَكَثَ قَلِيلا حَتَّى طَلَعَتِ الشَّمْسُ، وَأَمَرَ بِقُبَّةٍ لَهُ مِنْ شَعْرٍ فَضُرِبَتْ بِنَمِرَةٍ فَسَارَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ، وَلا تَشُكُّ قُرَيْشٌ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ وَاقِفٌ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ بِالْمُزْدَلِفَةِ كَمَا كَانَتْ قُرَيْشٌ تَصْنَعُ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، فَأَجَازَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ حَتَّى أَتَى عَرَفَةَ فَوَجَدَ الْقُبَّةَ قَدْ ضُرِبَتْ لَهُ بِنَمِرَةٍ، فَنَزَلَ بِهَا حَتَّى إِذَا زَاغَتِ الشَّمْسُ أَمَرَ بِالْقَصْوَاءِ فَرُحِلَتْ لَهُ، فَرَكِبَ حَتَّى أَتَى بَطْنَ الْوَادِي، فَخَطَبَ النَّاسَ فَقَالَ: < إِنَّ دِمَائَكُمْ وَأَمْوَالَكُمْ عَلَيْكُمْ حَرَامٌ كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا فِي شَهْرِكُمْ هَذَا فِي بَلَدِكُمْ هَذَا، أَلا إِنَّ كُلَّ شَيْئٍ مِنْ أَمْرِ الْجَاهِلِيَّةِ تَحْتَ قَدَمَيَّ مَوْضُوعٌ، وَدِمَاءُ الْجَاهِلِيَّةِ مَوْضُوعَةٌ، وَأَوَّلُ دَمٍ أَضَعُهُ دِمَاؤُنَا: دَمُ -قَالَ عُثْمَانُ: دَمُ ابْنُ رَبِيعَةَ، وقَالَ سُلَيْمَانُ: دَمُ رَبِيعَةَ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِالْمُطَّلِبِ، و قَالَ بَعْضُ هَؤُلاءِ: كَانَ مُسْتَرْضَعًا فِي بَنِي سَعْدٍ فَقَتَلَتْهُ هُذَيْلٌ- وَرِبَا الْجَاهِلِيَّةِ مَوْضُوعٌ، وَأَوَّلُ رِبًا أَضَعُهُ رِبَانَا: رِبَا عَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ؛ فَإِنَّهُ مَوْضُوعٌ كُلُّهُ، اتَّقُوا اللَّهَ فِي النِّسَاءِ، فَإِنَّكُمْ أَخَذْتُمُوهُنَّ بِأَمَانَةِ اللَّهِ، وَاسْتَحْلَلْتُمْ فُرُوجَهُنَّ بِكَلِمَةِ اللَّهِ، وَإِنَّ لَكُمْ عَلَيْهِنَّ أَنْ لا يُوطِئْنَ فُرُشَكُمْ أَحَدًا تَكْرَهُونَهُ، فَإِنْ فَعَلْنَ فَاضْرِبُوهُنَّ ضَرْبًا غَيْرَ مُبَرِّحٍ، وَلَهُنَّ عَلَيْكُمْ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ، وَإِنِّي قَدْ تَرَكْتُ فِيكُمْ مَا لَنْ تَضِلُّوا بَعْدَهُ إِنِ اعْتَصَمْتُمْ بِهِ: كِتَابَ اللَّهِ، وَأَنْتُمْ مَسْئُولُونَ عَنِّي، فَمَا أَنْتُمْ قَائِلُونَ؟ > قَالُوا: نَشْهَدُ أَنَّكَ قَدْ بَلَّغْتَ وَأَدَّيْتَ وَنَصَحْتَ، ثُمَّ قَالَ بِأُصْبُعِهِ السَّبَّابَةِ يَرْفَعُهَا إِلَى السَّمَاءِ وَيَنْكُبُهَا إِلَى النَّاسِ: < اللَّهُمَّ اشْهَدْ، اللَّهُمَّ اشْهَدْ، اللَّهُمَّ اشْهَدْ >، ثُمَّ أَذَّنَ بِلالٌ، ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّى الظُّهْرَ، ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّى الْعَصْرَ وَلَمْ يُصَلِّ بَيْنَهُمَا شَيْئًا، ثُمَّ رَكِبَ الْقَصْوَاءَ حَتَّى أَتَى الْمَوْقِفَ فَجَعَلَ بَطْنَ نَاقَتِهِ الْقَصْوَاءِ إِلَى الصَّخَرَاتِ، وَجَعَلَ حَبْلَ الْمُشَاةِ بَيْنَ يَدَيْهِ، فَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ، فَلَمْ يَزَلْ وَاقِفًا حَتَّى غَرَبَتِ الشَّمْسُ وَذَهَبَتِ الصُّفْرَةُ قَلِيلا حِينَ غَابَ الْقُرْصُ، وَأَرْدَفَ أُسَامَةَ خَلْفَهُ ، فَدَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ وَقَدْ شَنَقَ لِلْقَصْوَاءِ الزِّمَامَ حَتَّى إِنَّ رَأْسَهَا لَيُصِيبُ مَوْرِكَ رَحْلِهِ، وَهُوَ يَقُولُ بِيَدِهِ الْيُمْنَى: <السَّكِينَةَ أَيُّهَا النَّاسُ، السَّكِينَةَ أَيُّهَا النَّاسُ > كُلَّمَا أَتَى حَبْلا مِنَ الْحِبَالِ أَرْخَى لَهَا قَلِيلا حَتَّى تَصْعَدَ، حَتَّى أَتَى الْمُزْدَلِفَةَ فَجَمَعَ بَيْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ بِأَذَانٍ وَاحِدٍ وَإِقَامَتَيْنِ، قَالَ عُثْمَانُ: وَلَمْ يُسَبِّحْ بَيْنَهُمَا شَيْئًا، ثُمَّ اتَّفَقُوا: ثُمَّ اضْطَجَعَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ حَتَّى طَلَعَ الْفَجْرُ، فَصَلَّى الْفَجْرَ حِينَ تَبَيَّنَ لَهُ الصُّبْحُ، قَالَ سُلَيْمَانُ: بِنِدَائٍ وَإِقَامَةٍ، ثُمَّ اتَّفَقُوا: ثُمَّ رَكِبَ الْقَصْوَاءَ حَتَّى أَتَى الْمَشْعَرَ الْحَرَامَ فَرَقِيَ عَلَيْهِ، قَالَ عُثْمَانُ وَسُلَيْمَانُ: فَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ، فَحَمِدَ اللَّهَ وَكَبَّرَهُ وَهَلَّلَهُ، زَادَ عُثْمَانُ : وَوَحَّدَهُ : فَلَمْ يَزَلْ وَاقِفًا حَتَّى أَسْفَرَ جِدًّا، ثُمَّ دَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ، وَأَرْدَفَ الْفَضْلَ بْنَ عَبَّاسٍ، وَكَانَ رَجُلا حَسَنَ الشَّعْرِ أَبْيَضَ وَسِيمًا، فَلَمَّا دَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ مَرَّ الظُّعُنُ يَجْرِينَ، فَطَفِقَ الْفَضْلُ يَنْظُرُ إِلَيْهِنَّ، فَوَضَعَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَدَهُ عَلَى وَجْهِ الْفَضْلِ، وَصَرَفَ الْفَضْلُ وَجْهَهُ إِلَى الشِّقِّ الآخَرِ، وَحَوَّلَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَدَهُ إِلَى الشِّقِّ الآخَرِ، وَصَرَفَ الْفَضْلُ وَجْهَهُ إِلَى الشِّقِّ الآخَرِ يَنْظُرُ، حَتَّى أَتَى مُحَسِّرًا فَحَرَّكَ قَلِيلا، ثُمَّ سَلَكَ الطَّرِيقَ الْوُسْطَى الَّذِي يُخْرِجُكَ إِلَى الْجَمْرَةِ الْكُبْرَى، حَتَّى أَتَى الْجَمْرَةَ الَّتِي عِنْدَ الشَّجَرَةِ فَرَمَاهَا بِسَبْعِ حَصَيَاتٍ يُكَبِّرُ مَعَ كُلِّ حَصَاةٍ (مِنْهَا) بِمِثْلِ حَصَى الْخَذْفِ، فَرَمَى مِنْ بَطْنِ الْوَادِي، ثُمَّ انْصَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ إِلَى الْمَنْحَرِ، فَنَحَرَ بِيَدِهِ ثَلاثًا وَسِتِّينَ، وَأَمَرَ عَلِيًّا فَنَحَرَ مَا غَبَرَ، يَقُولُ: مَا بَقِيَ: وَأَشْرَكَهُ فِي هَدْيِهِ، ثُمَّ أَمَرَ مِنْ كُلِّ بَدَنَةٍ بِبَضْعَةٍ فَجُعِلَتْ فِي قِدْرٍ فَطُبِخَتْ فَأَكَلا مِنْ لَحْمِهَا وَشَرِبَا مِنْ مَرَقِهَا، قَالَ سُلَيْمَانُ: ثُمَّ رَكِبَ، ثُمَّ أَفَاضَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ إِلَى الْبَيْتِ فَصَلَّى بِمَكَّةَ الظُّهْرَ، ثُمَّ أَتَى بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ وَهُمْ يَسْقُونَ عَلَى زَمْزَمَ فَقَالَ: < انْزِعُوا بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، فَلَوْلا أَنْ يَغْلِبَكُمُ النَّاسُ عَلَى سِقَايَتِكُمْ لَنَزَعْتُ مَعَكُمْ > فَنَاوَلُوهُ دَلْوًا فَشَرِبَ مِنْهُ ۔
* تخريج: م/الحج ۱۹ (۱۲۱۸)، ن/الحج ۴۶ (۲۷۱۳)، ۵۱ (۲۷۴۱)، ۵۲ (۲۷۴۴)، ۷۳ (۲۸۰۰)، ق/المناسک ۸۴ (۳۰۷۴)، ( تحفۃ الأشراف: ۲۵۹۳)، وقد أخرجہ: حم (۳/۳۲۰، ۳۳۱، ۳۳۳، ۳۴۰، ۳۷۳، ۳۸۸، ۳۹۴، ۳۹۷)، دي/المناسک ۱۱(۱۸۴۶) (صحیح)
۱۹۰۵- جعفر بن محمد اپنے والد محمد (باقر) سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ہم جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کے پاس آئے جب ہم ان کے پاس پہنچے تو انہوں نے آنے والوں کے بارے میں(ہر ایک سے ) پوچھا یہاں تک کہ جب مجھ تک پہنچے تو میں نے کہا: میں محمد بن علی بن حسین ہوں، تو انہوں نے اپنا ہاتھ میرے سر کی طرف بڑھایا، اور میرے کرتے کے اوپر کی گھنڈی کھولی، پھر نیچے کی کھولی، اور پھر اپنی ہتھیلی میرے دونوں چھاتیوں کے بیچ میں رکھی، میں ان دنوں جوان تھا، پھرکہا: خوش آمدید اے میرے بھتیجے ! جو چاہو پوچھو، میں نے ان سے سوالات کئے، وہ نابینا ہو چکے تھے اور صلاۃ کا وقت آگیا، تو وہ ایک کپڑا اوڑھ کر کھڑے ہو گئے (یعنی ایک ایسا کپڑا جو دہرا کرکے سلا ہوا تھا)، جب اسے اپنے کندھے پر ڈالتے توچھوٹا ہونے کی وجہ سے وہ کندھے سے گرجاتا، چنانچہ انہوں نے ہمیں صلاۃ پڑھائی اور ان کی چادر ان کے بغل میں تپائی پر رکھی ہوئی تھی، میں نے عرض کیا: مجھے اللہ کے رسول کے حج کا حال بتائئے، پھر انہوں نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا اور نو کی گرہ بنائی پھر بولے :
رسول اللہ ﷺ نو سال تک (مدینہ میں) حج کئے بغیر رہے، پھر دسویں سال لوگوں میں اعلان کیا گیا کہ رسول اکرم ﷺ حج کو جانے والے ہیں، چنانچہ مدینہ میں لوگ کثرت سے آگئے ۱؎ ، ہر ایک کی خواہش تھی کہ وہ آپ ﷺ کی اقتداء میں حج کرے، اور آپ ہی کی طرح سارے کام انجام دے، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نکلے اور آپ کے ساتھ ہم بھی نکلے، ہم لوگ ذی الحلیفہ پہنچے تو اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا کے یہاں محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہما کی ولادت ہوئی، انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھوایا: میں کیا کروں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تم غسل کرلو، اور کپڑے کا لنگوٹ باندھ لو، اور احرام پہن لو‘‘، پھر رسول اللہ ﷺ نے (ذو الحلیفہ کی) مسجد میں صلاۃ پڑھی، پھر قصواء (نامی اونٹنی) پر سوار ہو ئے، یہاں تک کہ جب بیداء میں اونٹنی کو لے کر سیدھی ہوگئی (جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں) تو میں نے تاحد نگاہ دیکھا کہ آپ ﷺ کے سامنے سوار بھی ہیں پیدل بھی، اسی طرح معاملہ دائیں جانب تھا، اسی طرح بائیں جانب، اور اسی طرح آپ کے پیچھے، اور رسول اللہ ﷺ ہمارے درمیان میں تھے ۱؎ ، آپ ﷺ پر قرآن نازل ہو رہا تھا، اور آپ ﷺ اس کا معنی سمجھتے تھے، چنانچہ جیسے آپ ﷺ کرتے ویسے ہی ہم بھی کرتے۔
آپ ﷺ نے توحید پر مشتمل تلبیہ: ’’لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ لا شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ، إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالْمُلْكَ، لا شَرِيكَ لَكَ‘‘ پکارا، اور لوگ وہی تلبیہ پکارتے رہے جسے آپ ﷺ پکارا کرتے تھے ۲؎ ، تو نبی اکرم ﷺ نے انہیں اس میں سے کسی بھی لفظ سے منع نہیں کیا، بلکہ آپ ﷺ اپنا تلبیہ ہی برابر کہتے رہے۔
ہماری نیت صرف حج کی تھی، ہمیں پتہ نہیں تھا کہ عمرہ بھی کرنا پڑے گا ۳؎ ، جب ہم آپ ﷺ کے ساتھ بیت اللہ پہنچے تو آپ ﷺ نے حجر اسود کا استلام کیا پھر تین پھیروں میں رمل کیا، اور چار پھیروں میں عام چال چلے، پھر مقام ابراہیم کے پاس آئے اور یہ آیت پڑھی: { وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَقَاْمِ إِبْرَاْهِيْمَ مُصَلَّىً} ۴؎ ، اور مقام ابراہیم کو اپنے اور بیت اللہ کے بیچ میں رکھا۔
(محمد بن جعفر) کہتے ہیں: میرے والد کہتے تھے (ابن نفیل اور عثمان کی روایت میں ہے) کہ میں یہی جانتا ہوں کہ جابر رضی اللہ عنہ نے اسے نبی اکرم ﷺ سے نقل کیا ہے (اور سلیمان کی روایت میں ہے) میں یہی جانتا ہوں کہ انہوں نے کہا: ’’رسول ﷺ نے دونوں رکعتوں میں { قُلْ هُوَ اللهُ أَحَدٌ} اور{قُلْ يَاْ أَيُّهَا الْكَاْفِرُوْنَ} پڑھا ۵؎ ، پھر بیت اللہ کی طرف لوٹے اور حجر اسود کا استلام کیا، اس کے بعد (مسجد کے) دروازے سے صفا کی طرف نکل گئے جب صفا سے قریب ہوئے تو {إِنَّ الصَّفَاْ وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللهِ} پڑھا اور فرمایا: ’’ہم بھی وہیں سے شروع کریں گے جہاں سے اللہ تعالی نے شروع کیا ہے‘‘، چنانچہ آپ ﷺ نے صفا سے ابتداء کی اور اس پر چڑھے یہاں تک کہ بیت اللہ کو دیکھا، تو اللہ کی بڑائی اور وحدانیت بیان کی اور فرمایا : ’’لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ وَحْدَهُ، لا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ، وَلَهُ الْحَمْدُ، يُحْيِي وَيُمِيتُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْئٍ قَدِيرٌ،لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ وَحْدَهُ، أَنْجَزَ وَعْدَهُ، وَنَصَرَ عَبْدَهُ، وَهَزَمَ الأَحْزَابَ وَحْدَهُ‘‘، پھر اس کے درمیان میں دعا مانگی اور اس طرح تین بار کہا، پھر مروہ کی طرف اتر کر آئے، جب آپ ﷺ کے قدم ڈھلکنے لگے تو آپ ﷺ نے بطن وادی ۶؎ میں رمل کیا یہاں تک کہ جب چڑھنے لگے تو عام چال چلے، یہاں تک کہ مروہ آئے تو وہاں بھی وہی کیا جو صفا پہ کیا تھا، جب طواف کا آخری پھیرا مروہ پہ ختم ہوا تو فرمایا: ’’اگر مجھے پہلے سے معلوم ہوتا جو کہ بعد میں معلوم ہوا تو میں ہدی نہ لاتا اور میں اسے عمرہ بنا دیتا، لہٰذا تم میں سے جس کے ساتھ ہدی نہ ہو تو وہ حلال ہو جائے، اور اسے عمرہ بنالے‘‘۔
سبھی لوگ حلال ہوگئے اور بال کتروا لئے سوائے نبی اکرم ﷺ اور ان لوگوں کے جن کے ساتھ ہدی تھی۔
پھر سراقہ بن جعشم رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور انھوں نے پوچھا: اللہ کے رسول! کیا یہ (عمرہ) صرف اسی سال کے لئے ہے یا ہمیشہ ہمیش کے لئے؟ تو رسول اللہ ﷺ نے اپنے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے میں داخل کیں اور فرمایا: ’’عمرہ حج میں اسی طرح داخل ہوگیا‘‘، اسے دو مرتبہ فرمایا:’’(صرف اسی سال کے لئے ) نہیں، بلکہ ہمیشہ ہمیش کے لئے (صرف اسی سال کے لئے) نہیں، بلکہ ہمیشہ ہمیش کے لئے‘‘ ، اور علی رضی اللہ عنہ یمن سے نبی اکرم ﷺ کے ہدی کے اونٹ لے کر آئے تو فاطمہ رضی اللہ عنہا کو ان لوگوں میں سے پایا جنہوں نے احرام کھول ڈالا تھا، وہ رنگین کپڑے زیب تن کئے ہوئے تھیں، اور سرمہ لگا رکھا تھا، علی کو یہ ناگوار لگا، وہ کہنے لگے: تمہیں کس نے اس کا حکم دیا تھا؟ وہ بولیں: میرے والد نے۔
علی رضی اللہ عنہ (اپنے ایام خلافت میں) عراق میں کہا کرتے تھے کہ میں ان کاموں سے جن کوفاطمہ نے کر رکھا تھا غصہ میں بھرا ہوا رسول اللہ ﷺ کے پاس پوچھنے کے لئے آیا جو فاطمہ نے آپ ﷺ کے متعلق بتائی تھی، اور جس پر میں نے ناگواری کا اظہار کیا تھا، تو انہوں نے کہا کہ مجھے میرے والد نے اس کا حکم دیا ہے، تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اس نے سچ کہا، اس نے سچ کہا، تم نے حج کی نیت کرتے وقت کیا کہا تھا ؟‘‘،عرض کیا: میں نے یوں کہا تھا: ’’اے اللہ! میں اسی کا احرام باندھتا ہوں جس کا تیرے رسول نے باندھا ہے‘‘، آپ ﷺ نے فرمایا: ’’میرے ساتھ تو ہدی ہے اب تم بھی احرام نہ کھولنا‘‘۔
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہدی کے جانوروں کی مجموعی تعداد جو علی رضی اللہ عنہ یمن سے لے کر آئے تھے اور جو رسول اللہ ﷺ مدینہ سے لے کر آئے تھے کل سو (۱۰۰) تھی، چنانچہ تمام لوگوں نے احرام کھول دیا، اور بال کتروائے سوائے نبی اکرم ﷺ اور ان لوگوں کے جن کے ساتھ ہدی تھی ۔
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: جب یوم الترویہ (ذو الحجہ کا آٹھواں دن) آیا تو سب لوگوں نے منیٰ کا رخ کیا اور حج کا احرام باندھا، رسول اللہ ﷺ بھی سوار ہوئے، اور منیٰ پہنچ کر آپ ﷺ نے وہاں ظہر ،عصر، مغرب، عشاء اور فجر کی صلاتیں اداکیں۔
پھر کچھ دیر ٹھہرے یہاں تک کہ سورج نکل آیا، آپ ﷺ نے اپنے لئے بالوں سے بنا ہوا ایک خیمہ کا حکم دیا، تو وادی نمرہ میں خیمہ لگایا گیا، پھر رسول اللہ ﷺ چلے، قریش کو اس بات میں شک نہیں تھا کہ رسول اللہ ﷺ مزدلفہ میں مشعر حرام ۷؎ کے پاس ٹھہریں گے جیسے جاہلیت میں قریش کیا کرتے تھے، لیکن رسول اللہ ﷺ آگے بڑھ گئے یہاں تک کہ عرفات جا پہنچے ۸؎ تو دیکھا کہ خیمہ نمرہ میں لگا دیا گیا ہے، آپ ﷺ وہاں اترے یہاں تک کہ جب سورج ڈھل گیا تو قصواء کو لانے کا حکم فرمایا، اس پر کجاوہ باندھا گیا، آپ ﷺ اس پر سوار ہوئے یہاں تک کہ وادی کے اندر آئے، تو لوگوں کو خطاب کیا اور فرمایا:
’’تمہاری جانیں اور تمہارے مال تم پر ایسے ہی حرام ہیں جیسے تمہارا یہ دن، تمہارے اس مہینے، اور تمہارے اس شہر میں ۔
سنو! جاہلیت کے زمانے کی ہر بات میرے قدموں تلے پامال ہوگئی (یعنی لغو اور باطل ہوگئی اور اس کا اعتبار نہ رہا) جاہلیت کے سارے خون معاف ہیں اور سب سے پہلا خون جسے میں معاف کرتا ہوں وہ ابن ربیعہ یا ربیعہ بن حارث بن عبدالمطلب کا ہے- وہ بنی سعد میں دودھ پی رہا تھا- اسے ہذیل کے لوگوں نے قتل کر دیا تھا (وہ نبی اکرم ﷺ کا چچا زاد بھائی تھا) اور جاہلیت کے تمام سود ختم ہیں سب سے پہلا سود جسے میں ختم کرتا ہوں وہ اپنا سود ہے یعنی عباس بن عبدالمطلب کا کیونکہ سود سبھی ختم ہیں خواہ وہ کسی کے بھی ہوں ۔
اور عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو، اس لئے کہ تم نے انہیں اللہ کی امان کے ساتھ اپنے قبضہ میں لیا ہے، اور تم نے اللہ کے حکم سے ان کی شرم گاہوں کو حلال کیا ہے، ان پر تمہارا حق یہ ہے کہ وہ تمہارے بستر پر اس شخص کو نہ آنے دیں جسے تم ناپسند کرتے ہو، اب اگر وہ ایسا کریں تو انہیں بس اس قدر مارو کہ ہڈی نہ ٹوٹنے پائے، اور انہیں تم سے دستور کے مطابق کھانا لینے اور کپڑا لینے کا حق ہے۔
میں تمہارے درمیان ایسی چیز چھوڑے جاتا ہوں کہ اگر تم اسے مضبوطی سے پکڑے رہو گے تو اس کے بعد کبھی گمراہ نہ ہو گے، وہ اللہ کی کتاب ہے۔
(اچھا بتاؤ) تم سے قیامت کے روز میرے بارے میں سوال کیا جائے گا تو تمہارا جواب کیا ہوگا؟‘‘۔
لوگوں نے کہا: ہم گواہی دیں گے کہ آپ ﷺ نے اللہ کا حکم پہنچا دیا، حق ادا کردیا، اور نصیحت کی، پھر آپ ﷺ نے اپنی انگشت شہادت کو آسمان کی طرف اٹھایا، پھر لوگوں کی طرف جھکایا ، اور فرمایا: ’’اے اللہ! تو گواہ رہ، اے اللہ! تو گواہ رہ ‘‘۔
پھر بلال رضی اللہ عنہ نے اذان دی اور اقامت کہی تو آپ ﷺ نے ظہر پڑھی اور انہوں نے پھر اقامت کہی تو آپ ﷺ نے عصر کی نماز پڑھی یہاں تک کہ میدان عرفات آئے تو اپنی اونٹی قصواء کا پیٹ صخرات (بڑے پتھروں) کی جانب کیا، اور حبل المشاۃ کو اپنے سامنے کیا، اور قبلہ رخ ہوئے، اور شام تک ٹھہرے رہے یہاں تک کہ سورج ڈوب گیا اور سورج کی ٹکیہ غائب ہونے کے بعد زردی کچھ کم ہوگئی۔
آپ ﷺ نے اسامہ رضی اللہ عنہ کو اپنے پیچھے بٹھا لیا، پھر عرفات سے لوٹے، قصواء کی باگ آپ ﷺ نے کھینچ کر رکھی تھی یہاں تک کہ اس کا سر پالان کے سر سے چھو جایا کرتا تھا، آپ ﷺ اپنے داہنے ہاتھ کے اشارہ سے لوگوں سے کہہ رہے تھے کہ: ’’لوگو! اطمینان سے چلو!، لوگو! اطمینان سے چلو!‘‘، جب آپ ﷺ کسی بلندی پر آتے تو باگ ڈھیلی چھوڑ دیتے تاکہ وہ چڑھ سکے یہاں تک کہ مزدلفہ پہنچے تو مغرب اور عشاء ایک اذان اور دو اقامتوں کے ساتھ ملا کر پڑھیں۔
عثمان کہتے ہیں: دونوں کے بیچ میں کوئی نفلی صلاۃ نہیں پڑھی پھر سارے راوی متفق ہیں۔
پھر رسول اللہ ﷺ لیٹ گئے یہاں تک کہ فجر طلوع ہوگئی تو آپ ﷺ نے فجر پڑھی یہاں تک کہ صبح خوب اچھی طرح روشن ہوگئی، سلیمان کہتے ہیں (یہ صلاۃ) آپ ﷺ نے ایک اذان اور ایک اقامت سے (پڑھی)، پھر سارے راوی متفق ہیں)، پھر آپ ﷺ قصواء پر سوار ہوئے یہاں تک کہ مشعر حرام کے پاس آئے، اس پر چڑھے، (عثمان اور سلیمان کہتے ہیں) پھر قبلہ رخ ہوئے اور اللہ کی تحمید، تکبیر اور تہلیل کی، (عثمان نے یہ اضافہ کیا کہ) آپ ﷺ نے توحید بیان کی۔
پھر آپ ﷺ وہاں ٹھہرے رہے یہاں تک کہ خوب روشنی ہوگئی اس کے بعد سورج طلوع ہونے سے پہلے آپ ﷺ وہاں سے چل پڑے، اور فضل بن عباس رضی اللہ عنہما کو اپنے پیچھے سوار کرلیا، وہ نہایت عمدہ بال والے گورے خوبصورت شخص تھے، جب رسول اللہ ﷺ چلے تو آپ کا گزر ایسی عورتوں پر ہوا جو ہودجوں میں بیٹھی ہوئی جا رہی تھیں،فضل ان کی طرف دیکھنے لگے، رسول اللہ ﷺ نے اپنا ہاتھ فضل کے چہرے پر رکھ دیا تو فضل نے اپنا چہرہ دوسری طرف پھیر لیا، آپ ﷺ نے بھی اپنا ہاتھ دوسری جانب موڑ دیا تو فضل نے اپنا رخ اور جانب موڑ لیا اور دیکھنے لگے، یہاں تک کہ جب وادی محسر میں آئے تو اپنی سواری کو ذرا حرکت دی (یعنی ذرا تیز چلایا) پھر درمیانی راستے ۹؎ سے چلے جو جمرہ عقبہ پہنچاتا ہے یہاں تک کہ جب اس جمرے کے پاس آئے جو درخت کے پاس ہے تو اسے سات کنکریاں ماریں، ہر کنکری پر تکبیر کہی، کنکری اتنی بڑی تھی کہ انگلی میں رکھ کر پھینک رہے تھے، آپ ﷺ نے وادی کے اندر سے کنکریاں ماریں پھر آپ ﷺ وہاں سے نحر کرنے کی جگہ کو آئے، اور اپنے ہاتھ سے (۶۳) اونٹنیاں نحر کیں، اور پھر علی رضی اللہ عنہ کو حکم دیا تو باقی انہوں نے نحر کیں، آپ ﷺ نے انہیں بھی اپنے ہدی میں شریک کرلیا (یعنی اپنے ہدی کے اونٹوں میں سے کچھ اونٹ انہیں بھی نحر کرنے کے لئے دے دیئے) پھر ہر اونٹ میں سے گوشت کا ایک ایک ٹکڑا لینے کا حکم دیا، تو وہ سب ٹکڑے ایک دیگ میں رکھ کر پکائے گئے (آپ ﷺ اور علی رضی اللہ عنہ) دونوں نے ان کا گوشت کھایا اور ان کا شوربہ پیا، (سلیمان کہتے ہیں ) پھر آپ ﷺ سوار ہوئے اور بیت اللہ کی طرف چلے، آپ ﷺ نے مکہ میں ۱۰؎ ظہر پڑھی۔
پھر بنی عبدالمطلب کے پاس آئے، وہ لوگ آب زمزم پلا رہے تھے فرمایا: ’’اے بنی عبدالمطلب! پانی کھینچو، اگر مجھے یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ تمہارے سقایہ پر لوگ تم پر غالب آجائیں گے ۱۱؎ تو میں بھی تمہارے ساتھ پانی کھینچتا، ان لوگوں نے ایک ڈول آپ ﷺ کو بھی دیا، آپ ﷺ نے اس میں سے پیا۔
وضاحت ۱؎ : بعض لوگوں نے یہ تعداد (۹۰) ہزار لکھی ہے، اور بعض نے ایک لاکھ تیس ہزار کہا ہے۔
وضاحت ۲؎ : زمانہ جاہلیت میں تلبیہ میں ’’لبيك اللهم لبيك لا شريك لك‘‘کے بعد’’إلا شريكًا هو لك تملكه‘‘ بڑھا کر کہا جاتا تھا۔
وضاحت ۳؎ : یعنی عمرہ کا بالکل قصد نہیں تھا، یا عمرہ کو حج کے مہینوں میں جائز ہی نہیں سمجھتے تھے۔
وضاحت ۴؎ : اور مقام ابراہیم کومصلیٰ بنالو (سورۃ البقرۃ :۱۲۵)۔
وضاحت ۵؎ : پہلی رکعت میں {قل يا أيها الكافرون} پڑھی اور دوسری میں {قل هو الله أحد}۔
وضاحت ۶؎ : حرم مکی کی تعمیر جدید میں دو سبز نشان سے اس وادی کی حد مقرر کر دی گئی ہے، جن کو میلین اخضرین کہاجاتا ہے۔
وضاحت ۷ ؎ : ’’مشعر حرام‘‘:مزدلفہ میں ایک مشہور پہاڑی کا نام ہے اسے قزح بھی کہا جاتا ہے۔
وضاحت ۸؎ : زمانۂ جاہلیت میں قریش مزدلفہ میں ٹھہر جاتے تھے ، عرفات نہیں جاتے تھے، اور باقی لوگ عرفات جاتے تھے ، ان کا خیال تھا کہ نبی اکرم ﷺ بھی قریش کی اتباع کریں گے، لیکن آپ ﷺ وہاں نہیں ٹھہرے اور عرفات چل دیئے۔
وضاحت ۹؎ : اس کو طریق مازمین(دو پہاڑوں کا نام ہے) کہتے ہیں، عرفات سے اسی راستہ سے واپس ہونا سنت ہے، یہ اس راستہ کے علاوہ ہے جس سے رسولِ اکرم ﷺ عرفات گئے تھے، راستہ کی یہ تبدیلی نیک فال کے طور پر بھی ہے۔
وضاحت ۱۰؎ : یہی راجح قول ہے اس کے برخلاف ایک روایت آتی ہے جس میں ظہر منیٰ میں پڑھنے کا ذکر ہے، علماء نے دونوں میں تطبیق اس طرح دی ہے کہ آپ ﷺ نے زوال سے پہلے طواف افاضہ کیا پھر مکہ میں اوّل وقت پر ظہر پڑھی پھر منیٰ واپس آئے تو وہاں بھی صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ ظہر پڑھی، اور بعد والی صلاۃ آپ ﷺ کی نفل ہوگئی۔
وضاحت ۱۱؎ : آپ ﷺ کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ اگر میں بھی پانی نکالنے میں لگ جاؤں تو لوگ اس کو بھی حج کی ایک ذمہ داری سمجھ لیں گے، اور اس کے لئے بھیڑ لگائیں گے، پھر تم ڈر کی وجہ سے اس خدمت سے علاحدہ ہو جاؤ گے کیونکہ تم لوگوں سے نہیں لڑسکو گے، اور وہ تم پر غالب آجائیں گے۔


1906- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ -يَعْنِي ابْنَ بِلالٍ- (ح) وَحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ، الْمَعْنَى وَاحِدٌ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ ،عَنْ أَبِيهِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ صَلَّى الظُّهْرَ وَالْعَصْرَ بِأَذَانٍ وَاحِدٍ بِعَرَفَةَ، وَلَمْ يُسَبِّحْ بَيْنَهُمَا، وَإِقَامَتَيْنِ، وَصَلَّى الْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ بِجَمْعٍ بِأَذَانٍ وَاحِدٍ وَإِقَامَتَيْنِ وَلَمْ يُسَبِّحْ بَيْنَهُمَا .
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف: ۲۶۱۰) (صحیح)
قَالَ أَبو دَاود: هَذَا الْحَدِيثُ أَسْنَدَهُ حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ فِي الْحَدِيثِ الطَّوِيلِ، وَوَافَقَ حَاتِمَ بْنَ إِسْمَاعِيلَ عَلَى إِسْنَادِهِ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ الْجُعْفِيُّ عَنْ جَعْفَرٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَابِرٍ، إِلا أَنَّهُ قَالَ: فَصَلَّى الْمَغْرِبَ وَالْعَتَمَةَ بِأَذَانٍ وَإِقَامَةٍ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف: ۱۹۳۲۰) (ضعیف)
یہ حدیث معلق ہے، اس کی ابتدائی سند کو ابوداود نے ذکر نہیں کیا ہے، اور اس میں ’’ اقامۃ‘‘ کا لفظ شاذ ہے، ’’اقامتین‘‘ محفوظ ہے، جیسا کہ گزرا (ملاحظہ ہو: ۱۹۰۵- ۱۹۰۶)
۱۹۰۶- جعفر بن محمد اپنے والد محمد باقر سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے عرفا ت میں ظہر اور عصر ایک اذان سے پڑھی ، ان کے درمیان کوئی نفل نہیں پڑھی، البتہ اقامت دو تھیں، اور مغرب و عشا ء جمع ( مز دلفہ ) میں ایک اذان اور دو اقامتوں سے پڑھی ، ان کے درمیان بھی کوئی نفل نہیں پڑھی۔
ابو داود کہتے ہیں: اس حدیث کو حاتم بن اسماعیل نے ایک لمبی حدیث میں مسنداً بیان کیا ہے اور حاتم بن اسماعیل کی طرح اسے محمد بن علی الجعفی نے جعفر سے، اور جعفر نے اپنے والد محمد سے، محمد نے جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے البتہ اس میں یہ الفا ظ ہیں کہ ’’آپ نے مغرب اورعشاء ایک اذان اور ایک اقامت سے پڑھی‘‘ ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اور یہ روایت سنداً و واقعۃً ضعیف ہے، صحیح یہی ہے کہ دونوں صلاۃ ایک اذان اور دو اقامتوں سے ادا کیں۔


1907- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا جَعْفَرٌ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ جَابِرٍ قَالَ: ثُمَّ قَالَ النَّبِيُّ ﷺ: < قَدْ نَحَرْتُ هَا هُنَا، وَمِنًى كُلُّهَا مَنْحَرٌ >، وَوَقَفَ بِعَرَفَةَ فَقَالَ: < قَدْ وَقَفْتُ هَا هُنَا، وَعَرَفَةُ كُلُّهَا مَوْقِفٌ >، وَوَقَفَ بِالْمُزْدَلِفَةِ فَقَالَ: < قَدْ وَقَفْتُ هَا هُنَا، وَمُزْدَلِفَةُ كُلُّهَا مَوْقِفٌ >۔
* تخريج: م/ الحج ۱۹ (۱۲۱۸)، ن/ الحج ۵۱ (۲۷۴۱)، ( تحفۃ الأشراف: ۲۵۹۶) (صحیح)
۱۹۰۷- جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ پھر نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’میں نے تو یہاں (منیٰ میں) نحر کیا ہے اور منیٰ پورا کا پورا نحر کرنے کی جگہ ہے‘‘، اورعرفا ت میں وقوف کیا تو فرمایا: ’’میں نے یہاں وقوف کیا ہے لیکن پورا میدان عرفات وقوف (ٹھہرنے) کی جگہ ہے‘‘، اور مزدلفہ میں وقوف تو فرمایا: ’’میں یہاں ٹھہرا ہوں لیکن پورا مزدلفہ وقوف (ٹھہرنے) کی جگہ ہے‘‘۔


1908- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ، عَنْ جَعْفَرٍ، بِإِسْنَادِهِ، زَادَ: <فَانْحَرُوا فِي رِحَالِكُمْ >۔
* تخريج: انظر ما قبلہ ، (تحفۃ الأشراف: ۲۵۹۶) (صحیح)
۱۹۰۸- اس سند سے بھی جعفر سے یہی حدیث مروی ہے اس میں ا تنا اضافہ ہے: ’’فانحروا في رحالكم‘‘ کہ تم لوگ اپنی قیام گاہوں میں نحر کرو۔


1909- حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ، عَنْ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ جَابِرٍ، فَذَكَرَ هَذَا الْحَدِيثَ، وَأَدْرَجَ فِي الْحَدِيثِ عِنْدَ قَوْلِهِ: {وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى} قَالَ: فَقَرَأَ فِيهِمَا بِالتَّوْحِيدِ وَ: {قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ} وَقَالَ فِيهِ: قَالَ عَلِيٌّ رَضِي اللَّه عَنْه بِالْكُوفَةِ، قَالَ أَبِي: هَذَا الْحَرْفُ لَمْ يَذْكُرْهُ جَابِرٌ: فَذَهَبْتُ مُحَرِّشًا، وَذَكَرَ قِصَّةَ فَاطِمَةَ رَضِي اللَّه عَنْهَا۔
* تخريج: انظر حدیث رقم (۱۹۰۵)، ( تحفۃ الأشراف: ۲۵۹۳) (صحیح )
۱۹۰۹- اس سند سے بھی جابر رضی اللہ عنہ سے یہی حدیث مروی ہے البتہ اس میں یعقوب نے {واتخذوا من مقام إبراهيم مصلى} پڑھنے کے بعد یہ ادراج کیا ہے کہ ’’آپ نے ان دونوں رکعتوں میں توحید( یعنی {قُلْ هُوَ اللهُ أَحَدْ}) اور{قُلْ يَاْ أَيُّهَا الْكَاْفِرُوْنَ} پڑھیں‘‘، اور اس میں یہ ادراج بھی کیا کہ ’’علی رضی اللہ عنہ نے کوفہ میں کہا‘‘ یعقوب کہتے ہیں کہ میرے والد نے فرمایا: جابر رضی اللہ عنہ نے علی رضی اللہ عنہ کا یہ قول ذکر نہیں کیا: ( میں نبی اکرم ﷺ کے پاس فاطمہ رضی اللہ عنہا کے خلاف غصہ دلانے چلا)، اور یعقوب نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کا واقعہ ذکر کیا، میرے والد جعفر کا کہنا ہے کہ جابر رضی اللہ عنہ نے اس حرف یعنی ’’فَذَهَبْتُ مُحَرِّشًا‘‘ کا ذکر نہیں کیا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
58- بَاب الْوُقُوفِ بِعَرَفَةَ
۵۸-باب: عرفات میں وقوف (ٹھہرنے) کا بیان​


1910- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، عَنْ أَبِي مُعَاوِيَةَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: كَانَتْ قُرَيْشٌ وَمَنْ دَانَ دِينَهَا يَقِفُونَ بِالْمُزْدَلِفَةِ، وَكَانُوا يُسَمَّوْنَ الْحُمُسَ، وَكَانَ سَائِرُ الْعَرَبِ يَقِفُونَ بِعَرَفَةَ، قَالَتْ: فَلَمَّا جَاءَ الإِسْلامُ أَمَرَ اللَّهُ تَعَالَى نَبِيَّهُ ﷺ أَنْ يَأْتِيَ عَرَفَاتٍ فَيَقِفَ بِهَا ثُمَّ يُفِيضُ مِنْهَا، فَذَلِكَ قَوْلُهُ تَعَالَى: { ثُمَّ أَفِيضُوا مِنْ حَيْثُ أَفَاضَ النَّاسُ}۔
* تخريج: خ/الحج ۹۱ (۱۶۶۵)، وتفسیر البقرۃ ۳۵ (۴۵۲۰)، م /الحج ۲۱ (۱۲۱۹)، ن/ الحج ۲۰۲ (۳۰۱۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۱۹۵)، وقد أخرجہ: ت/الحج ۵۳ (۸۸۴)، ق/المناسک ۵۸ (۳۰۱۸) (صحیح)
۱۹۱۰- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ قریش اور ان کے ہم مذہب لوگ مزدلفہ میں ہی ٹھہرتے تھے اور لوگ انہیں حمس یعنی بہادر و شجاع کہتے تھے جب کہ سارے عرب کے لوگ عرفات میں ٹھہرتے تھے ، تو جب اسلام آیا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کو عرفات آنے اور وہاں ٹھہرنے پھر وہاں سے مزدلفہ لوٹنے کا حکم دیا اور یہی حکم اس آیت میں ہے: {ثُمَّ أَفِيضُوا مِنْ حَيْثُ أَفَاضَ النَّاسُ}(سورۃ البقرۃ: ۱۹۹) (تم لوگ وہاں سے لوٹو جہاں سے سبھی لوگ لوٹتے ہیں- یعنی عرفات سے-) ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
59- بَاب الْخُرُوجِ إِلَى مِنًى
۵۹-باب: مکہ سے منیٰ جا نے کا بیان​


1911- حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا الأَحْوَصُ بْنُ جَوَّابٍ الضَّبِّىُّ، حَدَّثَنَا عَمَّارُ بْنُ رُزَيْقٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ الأَعْمَشِ، عَنِ الْحَكَمِ، عَنْ مِقْسَمٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ الظُّهْرَ يَوْمَ التَّرْوِيَةِ وَالْفَجْرَ يَوْمَ عَرَفَةَ بِمِنًى۔
* تخريج: ت/الحج ۵۰ (۸۸۰)، ( تحفۃ الأشراف: ۶۴۶۵)، وقد أخرجہ: حم (۱/۲۵۵، ۲۹۶، ۲۹۷، ۳۰۳)، دی/المناسک ۴۶ (۱۹۱۳) (صحیح)
۱۹۱۱- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے یوم الترویہ ( آ ٹھویں ذی الحجہ )کو ظہر اور یوم عرفہ (نویں ذی الحجہ ) کو فجر منیٰ میں پڑھی۔


1912- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ الأَزْرَقُ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَبْدِالْعَزِيزِ بْنِ رَفِيعٍ قَالَ: سَأَلْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ أَخْبِرْنِي بِشَيْئٍ عَقَلْتَهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ: أَيْنَ صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ الظُّهْرَ يَوْمَ التَّرْوِيَةِ؟ فَقَالَ: بِمِنًى، قُلْتُ: فَأَيْنَ صَلَّى الْعَصْرَ يَوْمَ النَّفْرِ؟ قَالَ: بِالأَبْطَحِ، ثُمَّ قَالَ: افْعَلْ كَمَا يَفْعَلُ أُمَرَاؤُكَ۔
* تخريج:خ/الحج ۸۳ (۱۶۵۳)، ۱۴۶ (۱۷۶۳)، م/الحج ۵۸ (۱۳۰۸)، ت/الحج ۱۱۶ (۹۶۴)، ن/الحج ۱۹۰ (۳۰۰۰)، (تحفۃ الأشراف: ۹۸۸)، وقد أخرجہ: حم (۳/۱۰۰)، دي/المناسک ۴۶ (۱۹۱۴) (صحیح)
۱۹۱۲- عبدالعزیز بن رفیع کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سوال کیا اور کہا: مجھے آپ وہ بتائیے جو رسول اللہ ﷺ سے آپ کو یاد ہو کہ آپ نے ظہر یوم الترویہ ( آٹھویں ذی الحجہ ) کو کہاں پڑھی ؟انہوں نے کہا: منیٰ میں ، میں نے عرض کیا تو لوٹنے کے دن آپ ﷺ نے عصر کہاں پڑھی ؟ فرمایا : ابطح میں ، پھر کہا : تم وہی کرو جو تمہارے امراء کریں ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی اس طرح کے چھوٹے چھوٹے مسئلوں میں امیر کی مخالفت نہ کرو کیوں کہ ان کی مخالفت بسا اوقات فتنوں اور فساد کا موجب ہوتی ہے ، خصوصاً جب کہ امراء ظالم ہوں ورنہ رسول اللہ ﷺ کی اتباع تو ہرحال میں بہتر ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
60- بَاب الْخُرُوجِ إِلَى عَرَفَةَ
۶۰-باب: (منیٰ سے)عرفات جانے کا بیان​


1913- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ، حَدَّثَنِي نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: غَدَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ مِنْ مِنًى حِينَ صَلَّى الصُّبْحَ صَبِيحَةَ يَوْمِ عَرَفَةَ حَتَّى أَتَى عَرَفَةَ، فَنَزَلَ بِنَمِرَةَ، وَهِيَ مَنْزِلُ الإِمَامِ الَّذِي يَنْزِلُ بِهِ بِعَرَفَةَ، حَتَّى إِذَا كَانَ عِنْدَ صَلاةِ الظُّهْرِ رَاحَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ مُهَجِّرًا فَجَمَعَ بَيْنَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ، ثُمَّ خَطَبَ النَّاسَ، ثُمَّ رَاحَ فَوَقَفَ عَلَى الْمَوْقِفِ مِنْ عَرَفَةَ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف: ۸۴۱۶)، وقد أخرجہ: حم (۲/۱۲۹) (حسن)
۱۹۱۳- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ یوم عرفہ (نویں ذی الحجہ ) کو فجر پڑھ کر منیٰ سے چلے یہاں تک کہ عرفات آئے تو نمرہ میں اترے اور نمرہ عرفات میں امام کے اترنے کی جگہ ہے ، جب ظہر کا وقت آنے کو ہوا تو رسول اللہ ﷺ(نمرہ سے)عین دوپہر میں چلے اور ظہر اورعصر کو جمع کیا، پھر لوگوں میں خطبہ دیا ۱؎ پھر چلے اورعرفات میں موقف میں وقوف کیا۔
وضاحت ۱؎ : اس کے برخلاف جابر رضی اللہ عنہ کی ایک حدیث میں صلاۃ سے پہلے خطبہ کا ذکر ہے، دونوں حدیثوں میں تطبیق یہ دی جاتی ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کی اس حدیث کو عام نصیحت پر محمول کرلیا جائے، اور جابر رضی اللہ عنہ کی روایت کوعرفہ کے مسنون خطبہ پر، یا یہ کہا جائے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما والی روایت میں راوی کو وہم ہوگیا ہے، واللہ اعلم۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
61- بَاب الرَّوَاحِ إِلَى عَرَفَةَ
۶۱-باب: (نمرہ سے)عرفات کے لئے نکلنے کا بیان​


1914- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا نَافِعُ بْنُ عُمَرَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ حَسَّانَ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: لَمَّا (أَنْ) قَتَلَ الْحَجَّاجُ ابْنَ الزُّبَيْرِ أَرْسَلَ إِلَى ابْنِ عُمَرَ: أَيَّةُ سَاعَةٍ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَرُوحُ فِي هَذَا الْيَوْمِ؟ قَالَ: إِذَا كَانَ ذَلِكَ رُحْنَا، فَلَمَّا أَرَادَ ابْنُ عُمَرَ أَنْ يَرُوحَ، قَالُوا: لَمْ تَزِغِ الشَّمْسُة، قَالَ: أَزَاغَتْ؟ قَالُوا: لَمْ تَزِغْ (أَوْ زَاغَتْ)، قَالَ: فَلَمَّا قَالُوا قَدْ زَاغَتِ ارْتَحَلَ۔
* تخريج: ق/المناسک ۵۴ (۳۰۰۹)، (تحفۃ الأشراف: ۷۰۷۳)، وقد أخرجہ: خ/الحج ۸۷ (۱۶۶۰)، ط/الحج ۶۴ (۱۹۵)، حم (۲/۲۵) (حسن)
۱۹۱۴- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جب حجاج نے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کو قتل کیا تو ابن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس (پوچھنے کے لئے آدمی) بھیجا کہ رسول اللہ ﷺ آج (یعنی عرفہ) کے دن(صلاۃ اور خطبہ کے لئے) کس وقت نکلتے تھے؟ انہوں نے جواب دیا جب یہ وقت آئے گا تو ہم خود چلیں گے، پھر جب ابن عمر رضی اللہ عنہما نے چلنے کا ارادہ کیا تو لوگوں نے کہا: ابھی سورج ڈھلا نہیں، انہوں نے پوچھا: کیا اب ڈھل گیا؟ لوگوں نے کہا: ابھی نہیں ڈھلا ، پھر جب لوگوں نے کہا کہ سورج ’’ڈھل گیا‘‘ تو وہ چلے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
62-بَاب الْخُطْبَةِ عَلَى الْمِنْبَرِ بِعَرَفَةَ
۶۲-باب: عرفات میں منبر پر خطبہ دینے کا بیان​


1915- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ عَنِ ابْنِ أَبِي زَائِدَةَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ بَنِي ضَمْرَةَ، عَنْ أَبِيهِ، أَوْ عَمِّهِ قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ وَهُوَ عَلَى الْمِنْبَرِ بِعَرَفَةَ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۷۰۰)، وقد أخرجہ: حم (۲/۱۹۴، ۳۶۹، ۴۳۰) (ضعیف)

(اس کی سند میں ایک راوی’’رَجُلٌ‘‘مبہم ہے)
۱۹۱۵- بنی ضمرہ کے ایک آدمی اپنے والد یا اپنے چچا سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو عرفات میں منبر پر( خطبہ دیتے ) دیکھا۔


1916- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ دَاوُدَ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ نُبَيْطٍ، عَنْ رَجُلٍ مِنَ الْحَيِّ، عَنْ أَبِيهِ نُبَيْطٍ أَنَّهُ رَأَى النَّبِيَّ ﷺ وَاقِفًا بِعَرَفَةَ عَلَى بَعِيرٍ أَحْمَرَ يَخْطُبُ۔
* تخريج: ن/الحج ۱۹۸ (۳۰۱۰)، ۱۹۹ (۳۰۱۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۵۸۹)، وقد أخرجہ: ق/إقامۃ الصلاۃ ۱۵۸(۱۲۸۶)، حم (۴/ ۳۰۵، ۳۰۶) (صحیح)
(مؤلف کے علاوہ دوسروں کے یہاں سند میں ’’عن رجل‘‘ کا اضافہ نہیں ہے اورسلمہ کا اپنے والد سے سماع ثابت ہے اس لئے یہ حدیث صحیح ہے)
۱۹۱۶- نبیط بن شریط رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کو عرفات میں سرخ اونٹ پر کھڑے ہوکر خطبہ دیتے دیکھا۔


1917- حَدَّثَنَا هنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ وَعُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ قَالا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ عَبْدِالْمَجِيدِ، قَالَ: حَدَّثَنِي الْعَدَّاءُ بْنُ خَالِدِ بْنِ هَوْذَةَ، قَالَ هَنَّادٌ: عَنْ عَبْدِالْمَجِيدِ أَبِي عَمْرٍو قَالَ: حَدَّثَنِي خَالِدُ ابْنُ الْعَدَّاءِ بْنِ هَوْذَةَ، قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَخْطُبُ النَّاسَ يَوْمَ عَرَفَةَ عَلَى بَعِيرٍ قَائِمٌ فِي الرِّكَابَيْنِ، قَالَ أَبودَاود: رَوَاهُ ابْنُ الْعَلاءِ عَنْ وَكِيعٍ كَمَا قَالَ هَنَّادٌ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف: ۹۸۴۹)، وقد أخرجہ: حم (۵/۳۰) (صحیح)
۱۹۱۷- خالد بن عداء بن ہوذہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :عرفہ کے دن میں نے رسول اللہ ﷺ کو ایک اونٹ پر دونوں رکابوں کے درمیان کھڑے ہو کر لوگوں کو خطبہ ۱؎ دیتے دیکھا۔
ابوداود کہتے ہیں: اسے ابن العلا ء نے وکیع سے اسی طرح روایت کیا ہے جیسے ہناد نے ۔
وضاحت ۱؎ : یہی صحیح ہے اور باب کی پہلی حدیث جس میں میدان عرفات میں منبر پر خطبہ دینے کاتذکرہ ہے وہ سند کے اعتبار سے کمزور ہے، واضح رہے کہ اس وقت وہاں منبر تھا ہی نہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ منبر پر خطبہ دیتے۔


1918- حَدَّثَنَا عَبَّاسُ بْنُ عَبْدِالْعَظِيمِ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْمَجِيدِ أَبُو عَمْرٍو، عَنِ الْعَدَّاءِ بْنِ خَالِدٍ، بِمَعْنَاهُ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، ( تحفۃ الأشراف: ۹۸۴۹) (صحیح)
۱۹۱۸- اس سند سے بھی عداء بن خالد سے اسی مفہوم کی حدیث مروی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
63- بَاب مَوْضِعِ الْوُقُوفِ بِعَرَفَةَ
۶۳-باب: عرفات میں وقوف (ٹھہر نے) کی جگہ کا بیان​


1919- حَدَّثَنَا ابْنُ نُفَيْلٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرٍو -يَعْنِي ابْنَ دِينَارٍ- عَنْ عَمْرِو بْنِ عَبْدِاللَّهِ ابْنِ صَفْوَانَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ شَيْبَانَ، قَالَ: أَتَانَا ابْنُ مِرْبَعٍ الأَنْصَارِيُّ وَنَحْنُ بِعَرَفَةَ -فِي مَكَانٍ يُبَاعِدُهُ عَمْرُو عَنِ الإِمَامِ- فَقَالَ: (أَمَا) إِنِّي رَسُولُ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ إِلَيْكُمْ، يَقُولُ لَكُمْ: < قِفُوا عَلَى مَشَاعِرِكُمْ فَإِنَّكُمْ عَلَى إِرْثٍ مِنْ إِرْثِ أَبِيكُمْ إِبْرَاهِيمَ >۔
* تخريج: ت/الحج ۵۳ (۸۸۳)، ق/المناسک ۵۵ (۳۰۱۱) ن/ الحج ۲۰۲ (۳۰۱۷)، ( تحفۃ الأشراف: ۱۵۵۲۶)، وقد أخرجہ: حم (۴/۱۳۷) (صحیح)
۱۹۱۹- یزید بن شیبان کہتے ہیں: ہما رے پاس ابن مربع انصاری آئے ہم عرفات میں تھے(وہ ایسی جگہ تھی جسے عمرو(بن عبداللہ) امام سے دور سمجھتے تھے) ، انہوں نے کہا : میں رسول اللہ ﷺ کا بھیجا ہوا قاصد ہوں، آپ کا فرمان ہے کہ اپنے مشاعر (نشانیوں کی جگہوں) پر ٹھہرو ۱؎ اس لئے کہ تم اپنے والد ابراہیم کے وارث ہو۔
وضاحت ۱؎ : مشاعر سے مراد مناسک حج کے مقامات اور قدیم مواقف ہیں، یعنی ان جگہوں پر تم بھی ٹھہرو کیونکہ ان جگہوں پر وقوف تمہارے باپ ابراہیم کے زمانہ ہی سے بطور وراثت چلا آرہا ہے۔
 
Top