• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابو داود

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
73- بَاب أَيِّ وَقْتٍ يَخْطُبُ يَوْمَ النَّحْرِ
۷۳-باب: یوم النحر (قربانی کے دن) میں کس وقت خطبہ دیا جائے؟​


1956- حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَهَّابِ بْنُ عَبْدِ الرَّحِيمِ الدِّمَشْقِيُّ، حَدَّثَنَا مَرْوَانُ، عَنْ هِلالِ بْنِ عَامِرٍ الْمُزْنِيِّ، حَدَّثَنِي رَافِعُ بْنُ عَمْرٍو الْمُزْنِيُّ، قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَخْطُبُ النَّاسَ بِمِنًى حِينَ ارْتَفَعَ الضُّحَى عَلَى بَغْلَةٍ شَهْبَاءَ، وَعَلِيٌّ رَضِي اللَّه عَنْه، يُعَبِّرُ عَنْهُ وَالنَّاسُ بَيْنَ قَاعِدٍ وَقَائِمٍ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف: ۳۵۹۷)، وقد أخرجہ: ن/ الکبری/ الحج (۴۰۹۴) (صحیح)
۱۹۵۶- رافع بن عمرو المزنی کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو منیٰ میں ایک سفید خچر پر سوار لوگوں کو خطبہ دیتے سنا جس وقت آفتاب بلند ہو چکا تھا اور علی رضی اللہ عنہ آپ کی طرف سے اسے لوگوں کو پہنچا ۱؎ رہے تھے اور دور والوں کو بتا رہے تھے ، کچھ لوگ بیٹھے ہوئے تھے اور کچھ کھڑے تھے۔
وضاحت ۱؎ : رسول اللہ ﷺ سے سن کر وہی کلمات بلند آواز سے دہرا رہے تھے تا کہ جو لوگ آپ ﷺ سے دور ہیں وہ بھی اسے سن لیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
74- بَاب مَا يَذْكُرُ الإِمَامُ فِي خُطْبَتِهِ بِمِنًى
۷۴-باب: منیٰ کے خطبہ میں امام کیا بیان کرے؟​


1957- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَارِثِ، عَنْ حُمَيْدٍ الأَعْرَجِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ مُعَاذٍ التَّيْمِيِّ، قَالَ: خَطَبَنَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ (وَنَحْنُ) بِمِنًى فَفُتِحَتْ أَسْمَاعُنَا، حَتَّى كُنَّا نَسْمَعُ مَا يَقُولُ وَنَحْنُ فِي مَنَازِلِنَا، فَطَفِقَ يُعَلِّمُهُمْ (مَنَاسِكَهُمْ) حَتَّى بَلَغَ الْجِمَارَ، فَوَضَعَ أُصْبُعَيْهِ السَّبَّابَتَيْنِ، ثُمَّ قَالَ: < بِحَصَى الْخَذْفِ > ثُمَّ أَمَرَ الْمُهَاجِرِينَ فَنَزَلُوا فِي مُقَدَّمِ الْمَسْجِدِ، وَأَمَرَ الأَنْصَارَ فَنَزَلُوا مِنْ وَرَاءِ الْمَسْجِدِ، ثُمَّ نَزَلَ النَّاسَ بَعْدَ ذَلِكَ۔
* تخريج: ن/الحج ۱۸۹(۲۹۹۹)، (تحفۃ الأشراف: ۹۷۳۴)، وقد أخرجہ: حم (۴/۶۱)، دي/المناسک ۵۹ (۱۳۹۳) (صحیح)
۱۹۵۷- عبدالرحمن بن معاذ تمیمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ ﷺ نے خطبہ دیا، ہم منیٰ میں تھے تو ہمارے کان کھول دئے گئے آپ جو بھی فرماتے تھے ہم اسے سن لیتے تھے، ہم اپنے ٹھکانوں میں تھے، آپ ﷺ نے لوگوں کو ارکان حج سکھانا شروع کئے یہاں تک کہ جب آپ جمرات تک پہنچے تو آپ ﷺ نے اپنی شہادت کی دونوں انگلیوں کو رکھ کر اتنی چھوٹی چھوٹی کنکریاں ماریں جو انگلیوں کے درمیان آسکتی تھیں پھر آپ ﷺ نے مہاجرین کو حکم دیا کہ وہ مسجد کے اگلے حصہ میں اتریں اور انصار کو حکم دیا کہ وہ لوگ مسجد کے پیچھے اتریں اس کے بعد سب لوگ اترے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
75- بَاب يَبِيتُ بِمَكَّةَ لَيَالِيَ مِنًى
۷۵-باب: منیٰ کی راتوں کو مکہ میں گزارنے کا بیان​


1958- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ خَلادٍ الْبَاهِلِيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، حَدَّثَنِي حَرِيزٌ، أَوْ أَبُو حَرِيزٍ، الشَّكّ مِنْ يَحْيَى أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَالرَّحْمَنِ بْنَ فَرُّوخٍ يَسْأَلُ ابْنَ عُمَرَ، قَالَ: إِنَّا نَتَبَايَعُ بِأَمْوَالِ النَّاسِ، فَيَأْتِي أَحَدُنَا مَكَّةَ، فَيَبِيتُ عَلَى الْمَالِ، فَقَالَ: أَمَّا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فَبَاتَ بِمِنًى وَظَلَّ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف: ۶۶۸۷) (ضعیف)
(اس کے راوی’’حریز ، یا ابوحریز حجازی‘‘ مجہول ہیں )
۱۹۵۸- حریز یا ابوحریز بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے عبد الرحمن بن فروخ کو ابن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھتے ہوئے سنا ،وہ کہہ رہے تھے کہ ہم لوگوں کا مال بیچتے ہیں تو کیا ہم میں سے کوئی منیٰ کی راتوں میں مکہ میں جا کر مال کے پاس رہے؟ انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ تو رات اور دن دونوں منیٰ میں رہا کرتے تھے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس لئے مکہ میں رات گزارنی خلاف سنت اور ناجائز ہے، بعض علماء کے یہاں صرف شدید ضرورت کے وقت اس کی اجازت ہے۔


1959- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ وَأَبُو أُسَامَةَ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: اسْتَأْذَنَ الْعَبَّاسُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ أَنْ يَبِيتَ بِمَكَّةَ لَيَالِيَ مِنًى مِنْ أَجْلِ سِقَايَتِهِ، فَأَذِنَ لَهُ۔
* تخريج: حدیث ابن نمیر أخرجہ خ/الحج ۱۳۳ (۱۷۴۵)، م/الحج ۶۰ (۱۳۱۵)، ق/المناسک ۸۰ (۳۰۶۵)، حم (۲/۲۲)، وحدیث أبو أسامۃ أخرجہ: خ/ الحج ۱۳۳ (۱۷۴۵تعلیقاً)، م/الحج ۶۰ (۱۳۱۵)، دي/المناسک ۹۱ (۱۹۸۶)، ( تحفۃ الأشراف: ۷۸۲۴) (صحیح)
۱۹۵۹- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ عباس رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے حاجیوں کو پانی پلانے کی وجہ سے منیٰ کی راتوں کو مکہ میں گزارنے کی اجازت مانگی تو آپ ﷺ نے انہیں اجازت دے دی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
76- بَاب الصَّلاةِ بِمِنًى
۷۶-باب: منیٰ میں صلاۃ کا بیان​


1960- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، أَنَّ أَبَا مُعَاوِيَةَ وَحَفْصَ بْنَ غِيَاثٍ حَدَّثَاهُ، وَحَدِيثُ أَبِي مُعَاوِيَةَ أَتَمّ،عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ قَالَ: صَلَّى عُثْمَانُ بِمِنًى أَرْبَعًا، فَقَالَ عَبْدُاللَّهِ: صَلَّيْتُ مَعَ النَّبِيِّ ﷺ رَكْعَتَيْنِ، وَمَعَ أَبِي بَكْرٍ رَكْعَتَيْنِ، وَمَعَ عُمَرَ رَكْعَتَيْنِ، زَادَ عَنْ حَفْصٍ: وَمَعَ عُثْمَانَ صَدْرًا مِنْ إِمَارَتِهِ، ثُمَّ أَتَمَّهَا -زَادَ مِنْ هَا هُنَا عَنْ أَبِي مُعَاوِيَةَ: ثُمَّ تَفَرَّقَتْ بِكُمُ الطُّرُقُ فَلَوَدِدْتُ أَنْ لِي مِنْ أَرْبَعِ رَكَعَاتٍ رَكْعَتَيْنِ مُتَقَبَّلَتَيْنِ- قَالَ الأَعْمَشُ: فَحَدَّثَنِي مُعَاوِيَةَ بْنُ قُرَّةَ عَنْ أَشْيَاخِهِ أَنَّ عَبْدَاللَّهِ صَلَّى أَرْبَعًا، قَالَ: فَقِيلَ لَهُ: عِبْتَ عَلَى عُثْمَانَ ثُمَّ صَلَّيْتُ أَرْبَعًا، قَالَ: الْخِلافُ شَرٌّ۔
* تخريج: خ/تقصیرالصلاۃ ۲ (۱۰۸۴)، والحج ۸۴ (۱۶۵۷)، م/المسافرین ۲ (۶۹۵)، ن/تقصیر الصلاۃ ۳ (۱۴۵۰)، (تحفۃ الأشراف: ۹۳۸۳)، وقد أخرجہ: حم (۱/۳۷۸، ۴۱۶، ۴۲۲، ۴۲۵، ۴۶۴)، دي/المناسک ۴۷ (۱۹۱۶) (صحیح)
۱۹۶۰- عبدالرحمن بن یزید کہتے ہیں کہ عثمان رضی اللہ عنہ نے منیٰ میں چار رکعتیں پڑھیں تو عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے نبی اکرم ﷺ ،ابوبکر اورعمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ دو ہی رکعتیں پڑھیں (اور حفص کی روایت میں اتنا مزید ہے کہ) عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ ان کی خلافت کے شروع میں، پھر وہ پوری پڑھنے لگے، (ایک روایت میں ابو معاویہ سے یہ ہے کہ) پھرتمہاری رائیں مختلف ہوگئیں، میری تو خواہش ہے کہ میرے لئے چار رکعتوں کے بجائے دو مقبول رکعتیں ہی ہوں۔
اعمش کہتے ہیں:مجھ سے معاویہ بن قرہ نے اپنے شیوخ کے واسطہ سے بیان کیا ہے کہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے چار رکعتیں پڑھیں، تو ان سے کہا گیا :آپ نے عثمان پر اعتراض کیا، پھر خود ہی چار پڑھنے لگے؟! تو انہوں نے کہا: اختلاف برا ہے۔


1961- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاءِ، أخْبَرَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، أَنَّ عُثْمَانَ إِنَّمَا صَلَّى بِمِنًى أَرْبَعًا لأَنَّهُ أَجْمَعَ عَلَى الإِقَامَةِ بَعْدَ الْحَجِّ ۔
* تخريج: تفرد بہ أبوداود (ضعیف)
(سند میں انقطاع ہے،زہری نے عثمان رضی اللہ عنہ کونہیں پایا ہے)
۱۹۶۱- زہر ی سے روایت ہے کہ عثمان رضی اللہ عنہ نے منیٰ میں چار رکعتیں صرف اس لئے پڑھیں کہ انہوں نے حج کے بعد وہاں اقامت کی نیت کی تھی۔


1962- حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، عَنْ أَبِي الأَحْوَصِ، عَنِ الْمُغِيرَةِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: إِنَّ عُثْمَانَ صَلَّى أَرْبَعًا لأَنَّهُ اتَّخَذَهَا وَطَنًا ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود (ضعیف)
(سند میں انقطاع ہے،ابراہیم نخعی نے عثمان رضی اللہ عنہ کونہیں پایا ہے)
۱۹۶۲- ابراہیم کہتے ہیں : عثمان رضی اللہ عنہ نے چار رکعتیں پڑھیں اس لئے کہ انہوں نے منیٰ کو وطن بنا لیا تھا۔


1963- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاءِ أَخْبَرَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ يُونُسَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: لَمَّا اتَّخَذَ عُثْمَانُ الأَمْوَالَ بِالطَّائِفِ وَأَرَادَ أَنْ يُقِيمَ بِهَا صَلَّى أَرْبَعًا، قَالَ: ثُمَّ أَخَذَ بِهِ الأَئِمَّةُ بَعْدَهُ.
* تخريج: تفرد بہ أبوداود (ضعیف)
(سند میں زہری اور عثمان رضی اللہ عنہ کے درمیان انقطاع ہے)
۱۹۶۳- زہر ی کہتے ہیں: جب عثمان رضی اللہ عنہ نے طائف میں اپنی جا ئیداد بنائی اور وہاں قیام کرنے کا ارادہ کیا تو وہاں چار رکعتیں پڑھیں، وہ کہتے ہیں: پھر اس کے بعد ائمہ نے اسی کواپنا لیا۔


1964- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ أَنَّ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ أَتَمَّ الصَّلاةَ بِمِنًى مِنْ أَجْلِ الأَعْرَابِ؛ لأَنَّهُمْ كَثُرُوا عَامَئِذٍ فَصَلَّى بِالنَّاسِ أَرْبَعًا لِيُعَلِّمَهُمْ أَنَّ الصَّلاةَ أَرْبَعٌ۔
* تخريج: تفرد بہ أبوداود (حسن لغیرہ)
(سند میں زہری اور عثمان رضی اللہ عنہ کے درمیان انقطاع ہے، لیکن دوسرے متصل طریق سے تقویت پا کر یہ حدیث حسن ہوئی، ملاحظہ ہو: صحیح ابی داود ۶؍ ۲۰۶)
۱۹۶۴- زہری سے روایت ہے کہ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے منیٰ میں صلاۃ اس وجہ سے پوری پڑھی کہ اس سال بدوی لوگ بہت آئے تھے تو انہوں نے چار رکعتیں پڑھیں تا کہ ان لوگوں کو معلوم ہو کہ صلاۃ( اصل میں) چار رکعت ہی ہے (نہ کہ دو، جو قصر کی صورت میں پڑھی جاتی ہے)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
77-بَاب الْقَصْرِ لأَهْلِ مَكَّةَ
۷۷-باب: اہل مکہ کے لئے قصرِصلاۃ کا بیان​


1965- حَدَّثَنَا النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ، حَدَّثَنِي حَارِثَةُ بْنُ وَهْبٍ الْخُزَاعِيُّ، وَكَانَتْ أُمُّهُ تَحْتَ عُمَرَ فَوَلَدَتْ (لَهُ) عُبَيْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، قَالَ: صَلَّيْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بِمِنًى وَالنَّاسُ أَكْثَرُ مَا كَانُوا، فَصَلَّى بِنَا رَكْعَتَيْنِ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ۔
قَالَ أَبودَاود: حَارِثَةُ بْنُ خُزَاعَةَ وَدَارُهُمْ بِمَكَّةَ۔
* تخريج: خ/تقصیر الصلاۃ ۲ (۱۰۸۳)، والحج ۸۴ (۱۶۵۶)، م/المسافرین ۲ (۶۹۶)، ت/الحج ۵۲ (۸۸۲)، ن/تقصیر الصلاۃ ۲ (۱۴۴۶)، ( تحفۃ الأشراف: ۳۲۸۴)، وقد أخرجہ: حم (۴/۳۰۶) (صحیح)
۱۹۶۵- ابواسحاق کہتے ہیں کہ مجھ سے حارثہ بن وہب خزاعی نے بیان کیا اور ان کی والدہ عمر رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں تو ان سے عبید اللہ بن عمر کی ولادت ہوئی ، وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے پیچھے منیٰ میں صلاۃ پڑھی، اور لوگ بڑی تعداد میں تھے ، تو آپ نے ہمیں حجۃ الوداع میں دو رکعتیں پڑھائیں ۱؎ ۔
ابو داود کہتے ہیں: حارثہ کا تعلق خزاعہ سے ہے اور ان کا گھر مکہ میں ہے۔
وضاحت ۱؎ : محقق علماء کا قو ل یہ ہے کہ اہل مکہ بھی منیٰ اور عرفات میں قصر کریں گے، یہ حج کے مسائل میں سے ہے، یہاں مسافر اور مقیم کے درمیان کوئی فرق نہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
78- بَاب فِي رَمْيِ الْجِمَارِ
۷۸-باب: رمی جمرات کا بیان​


1966- حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ، أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ عَمْرِو بْنِ الأَحْوَصِ، عَنْ أُمِّهِ، قَالَتْ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَرْمِي الْجَمْرَةَ مِنْ بَطْنِ الْوَادِي، وَهُوَ رَاكِبٌ يُكَبِّرُ مَعَ كُلِّ حَصَاةٍ، وَرَجُلٌ مِنْ خَلْفِهِ يَسْتُرُهُ، فَسَأَلْتُ عَنِ الرَّجُلِ، فَقَالُوا: الْفَضْلُ بْنُ الْعَبَّاسِ، وَازْدَحَمَ النَّاسُ، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: < يَا أَيُّهَا النَّاسُ لا يَقْتُلْ بَعْضُكُمْ بَعْضًا، وَإِذَا رَمَيْتُمُ الْجَمْرَةَ فَارْمُوا بِمِثْلِ حَصَى الْخَذْفِ >.
* تخريج: ق/المناسک ۶۳ (۳۰۲۸)، ( تحفۃ الأشراف: ۱۸۳۰۶)، وقد أخرجہ: حم (۳/۵۰۳، ۵/۲۷۰، ۳۷۹، ۶/۳۷۹) (حسن)
۱۹۶۶- والدئہ سلیمان بن عمرو بن احوص رضی اللہ عنہما کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو سوار ہو کربطن وادی سے جمرہ پر رمی کرتے دیکھا ، آپ ﷺ ہر کنکری پر تکبیر کہتے تھے، ایک شخص آپ کے پیچھے تھا، وہ آپ پر آڑ کر رہا تھا، میں نے پوچھا : یہ کون ہے؟ تو لوگوں نے کہا: فضل بن عباس رضی اللہ عنہما ہیں، اور لوگوں کی بھیڑ ہوگئی، تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’لوگو! تم میں سے کوئی کسی کو قتل نہ کرے ( یعنی بھیڑ کی وجہ سے ایک دوسرے کو کچل نہ ڈالے) اور جب تم رمی کرو تو ایسی چھوٹی کنکریوں سے مارو جنہیں تم دونوں انگلیوں کے بیچ رکھ سکو‘‘۔


1967- حَدَّثَنَا أَبُو ثَوْرٍ -إِبْرَاهِيمُ بْنُ خَالِدٍ- وَوَهْبُ بْنُ بَيَانٍ، قَالا: حَدَّثَنَا عُبَيْدَةُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ عَمْرِو بْنِ الأَحْوَصِ، عَنْ أُمِّهِ، قَالَتْ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ عِنْدَ جَمْرَةِ الْعَقَبَةِ رَاكِبًا، وَرَأَيْتُ بَيْنَ أَصَابِعِهِ حَجَرًا فَرَمَى وَرَمَى النَّاسُ ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، ( تحفۃ الأشراف: ۱۸۳۰۶) (صحیح)
۱۹۶۷- والدئہ سلیمان بن عمرو بن احوص رضی اللہ عنہما کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو جمرئہ عقبہ کے پاس سوار دیکھا اور میں نے دیکھا کہ آپ کی انگلیوں میں کنکریاں تھیں، تو آپ نے بھی رمی کی اور لوگوں نے بھی رمی کی ۱ ؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ان احادیث سے معلوم ہوا کہ جمرات کی رمی سواری پر درست ہے، لیکن موجودہ حالات میں منتظمین حج کے احکام کی روشنی میں مناسک حج، قربانی، اور رمی جمرات وغیرہ کے کام انجام دینا چاہئے۔


1968- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاءِ، حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ أَبِي زِيَادٍ، بِإِسْنَادِهِ فِي (مِثْلِ) هَذَا الْحَدِيثِ، زَادَ: وَلَمْ يَقُمْ عِنْدَهَا۔
* تخريج: انظر حدیث رقم : ۱۹۶۶، ( تحفۃ الأشراف: ۱۸۳۰۶) (صحیح)
۱۹۶۸- اس سند سے بھی یزید بن ابی زیا د سے اسی طریق سے اسی حدیث کے ہم مثل مروی ہے اس میں ’’وَلَمْ يَقُمْ عِنْدَهَا‘‘ (اوراس کے پاس نہیں ٹھہرے) کا جملہ زائد ہے۔


1969- حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ -يَعْنِي ابْنَ عُمَرَ- عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّهُ كَانَ يَأْتِي الْجِمَارَ، فِي الأَيَّامِ الثَّلاثَةِ بَعْدَ يَوْمِ النَّحْرِ، مَاشِيًا ذَاهِبًا وَرَاجِعًا وَيُخْبِرُ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يَفْعَلُ ذَلِكَ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف: ۷۷۲۷)، وقد أخرجہ: ت/الحج ۶۳ (۸۹۹)، حم (۲/۱۱۴، ۱۳۸، ۱۵۶) (صحیح)
۱۹۶۹- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ وہ یوم النحر کے بعد تین دنوں میں جمرات کی رمی کے لئے پیدل چل کر آتے تھے اور پیدل ہی واپس جاتے اور وہ بتاتے تھے کہ خود نبی اکرم ﷺ ایسا ہی کرتے تھے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس سے معلوم ہوا کہ رمی جمرات کے لئے پیدل چل کر آنا افضل ہے۔


1970- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ، سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِاللَّهِ يَقُولُ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَرْمِي عَلَى رَاحِلَتِهِ يَوْمَ النَّحْرِ يَقُولُ: < لِتَأْخُذُوا مَنَاسِكَكُمْ، فَإِنِّي لا أَدْرِي لَعَلِّي لا أَحُجُّ بَعْدَ حَجَّتِي هَذِهِ >۔
* تخريج: م/الحج ۵۳ (۱۲۹۷)، ن/الحج ۲۲۰ (۳۰۶۴)، ( تحفۃ الأشراف: ۲۸۰۴)، وقد أخرجہ: ت/الحج ۵۹ (۸۹۴)، ق/المناسک ۷۵ (۳۰۵۳)، حم (۳/۳۱۳، ۳۱۹، ۴۰۰)، دي/المناسک ۵۸ (۱۹۳۷) (صحیح)
۱۹۷۰- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا آپ اپنی سواری پر یوم النحر کو رمی کر رہے تھے، آپ ﷺ فرما رہے تھے: ’’تم لوگ اپنے حج کے ارکان سیکھ لو کیونکہ مجھے نہیں معلوم کہ میں اپنے اس حج کے بعد کوئی حج کر سکوں گا یا نہیں‘‘۔



1971- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِاللَّهِ يَقُولُ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَرْمِي (عَلَى رَاحِلَتِهِ) يَوْمَ النَّحْرِ ضُحًى، فَأَمَّا بَعْدَ ذَلِكَ فَبَعْدَ زَوَالِ الشَّمْسِ۔
* تخريج: م/ الحج ۵۳ (۱۲۹۹)، ت/ الحج ۵۹ (۸۹۴)، ن/ الحج ۲۲۱ (۳۰۶۵)، ق/ ۷۵المناسک (۳۰۵۳)، (تحفۃ الأشراف: ۲۷۹۵)، وقد أخرجہ: حم (۳/۳۱۲، ۳۹۹)، دی/ المناسک ۵۸ (۱۹۳۷) (صحیح)
۱۹۷۱- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو اپنی سواری پر بیٹھ کر یوم النحر کو چاشت کے وقت رمی کرتے دیکھا پھر اس کے بعد جو رمی کی (یعنی گیارہ، بارہ اور تیرہ کو) تو وہ زوال کے بعد کی۔


1972- حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ الزُّهْرِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مِسْعَرٍ، عَنْ وَبَرَةَ، قَالَ: سَأَلْتُ ابْنَ عُمَرَ: مَتَى أَرْمِي الْجِمَارَ؟ قَالَ: إِذَا رَمَى إِمَامُكَ فَارْمِ، فَأَعَدْتُ عَلَيْهِ الْمَسْأَلَةَ فَقَالَ: كُنَّا نَتَحَيَّنُ زَوَالَ الشَّمْسِ فَإِذَا زَالَتِ الشَّمْسُ رَمَيْنَا۔
* تخريج: خ/الحج ۱۳۴ (۱۷۴۶)، ( تحفۃ الأشراف: ۸۵۵۴) (صحیح)
۱۹۷۲- وبرہ کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ کنکریاں کب ماروں؟ آپ نے کہا: جب تمہارا امام کنکریاں مارے تو تم بھی مارو، میں نے پھر یہی سوال کیا ، انہوں نے کہا: ہم سورج ڈھلنے کا انتظار کرتے تھے توجب سورج ڈھل جاتا تو ہم کنکریاں مارتے۔


1973- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ بَحْرٍ وَعَبْدُاللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ الْمَعْنَى، قَالا: حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: أَفَاضَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ مِنْ آخِرِ يَوْمِهِ حِينَ صَلَّى الظُّهْرَ، ثُمَّ رَجَعَ إِلَى مِنًى، فَمَكَثَ بِهَا لَيَالِيَ أَيَّامِ التَّشْرِيقِ، يَرْمِي الْجَمْرَةَ إِذَا زَالَتِ الشَّمْسُ، كُلُّ جَمْرَةٍ بِسَبْعِ حَصَيَاتٍ يُكَبِّرُ مَعَ كُلِّ حَصَاةٍ وَيَقِفُ عِنْدَ الأُولَى وَالثَّانِيَةِ فَيُطِيلُ الْقِيَامَ وَيَتَضَرَّعُ، وَيَرْمِي الثَّالِثَةَ وَلا يَقِفُ عِنْدَهَا۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف: ۱۷۵۲۳)، وقد أخرجہ: حم (۶/۹۰) (صحیح)
(لیکن صلی الظہر - ظہر پڑھی- کا جملہ صحیح نہیں ہے)
۱۹۷۳- ام المومنین عا ئشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے( یو م النحر) کے آخری حصہ میں جس وقت ظہر پڑھ لی طواف افاضہ کیا، پھر منیٰ لوٹے اور تشریق کے دنوں تک وہاں ٹھہرے رہے، جب سو ر ج ڈھل جاتا تو ہر جمرے کو سات سا ت کنکریاں مارتے، ہر کنکری کے ساتھ تکبیر کہتے، اور پہلے اور دوسرے جمرے پر دیر تک ٹھہرتے ، روتے گڑگڑاتے اور دعا کرتے اور تیسرے جمرے کو کنکریاں مار کر اس کے پاس نہیں ٹھہرتے۔


1974- حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ وَمُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، الْمَعْنَى، قَالا: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنِ الْحَكَمِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: لَمَّا انْتَهَى إِلَى الْجَمْرَةِ الْكُبْرَى جَعَلَ الْبَيْتَ عَنْ يَسَارِهِ وَمِنًى عَنْ يَمِينِهِ، وَرَمَى الْجَمْرَةَ بِسَبْعِ حَصَيَاتٍ، وَقَالَ: هَكَذَا رَمَى الَّذِي أُنْزِلَتْ عَلَيْهِ سُورَةُ الْبَقَرَةِ۔
* تخريج: خ/الحج ۱۳۵ (۱۷۴۷)، ۱۳۸ (۱۷۵۰)، م/الحج ۵۰ (۱۲۹۶)، ت/الحج ۶۴ (۹۰۱)، ن/المناسک ۲۲۶ (۳۰۷۳، ۳۰۷۵)، ق/المناسک ۶۴ (۳۰۳۰)، ( تحفۃ الأشراف: ۹۳۸۲)، وقد أخرجہ: حم (۱/۳۷۴، ۴۰۸، ۴۱۵، ۴۲۷، ۴۳۰، ۴۳۲، ۴۳۶، ۴۵۶، ۴۵۸) (صحیح)
۱۹۷۴- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب وہ جمرۂ کبری (جمرۂ عقبہ) کے پاس آئے تو بیت اللہ کو اپنے بائیں جانب اور منیٰ کو دائیں جانب کیا اور جمرے کو سات کنکریاں ماریں ، اور کہا: اسی طرح اس ذات نے بھی کنکریاں ماری تھیں جس پر سورہ بقرہ نازل کی گئی۔


1975- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ (ح) وَحَدَّثَنَا ابْنُ السَّرْحِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي مَالِكٌ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي الْبَدَّاحِ بْنِ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ رَخَّصَ لِرِعَاءِ الإِبِلِ فِي الْبَيْتُوتَةِ يَرْمُونَ يَوْمَ النَّحْرِ ثُمَّ يَرْمُونَ الْغَدَ، وَمِنْ بَعْدِ الْغَدِ بِيَوْمَيْنِ، وَيَرْمُونَ يَوْمَ النَّفْرِ۔
* تخريج: ت/الحج ۱۰۸ (۹۵۴و ۹۵۵)، ن/الحج ۲۲۵ (۳۰۷)، ق/المناسک ۶۷ (۳۰۳۶، ۳۰۳۷)، (تحفۃ الأشراف: ۵۰۳۰)، وقد أخرجہ: ط/الحج ۷۲ (۲۱۸)، حم (۵/۴۵۰)، دي/المناسک ۵۸ (۱۹۳۸) (صحیح)
۱۹۷۵- عاصم سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اونٹ کے چرواہوں کو(منیٰ میں) رات نہ گذارنے کی رخصت دی اور یہ کہ وہ یوم النحر کو رمی کریں ، پھر اس کے بعد والے دن یعنی گیارہویں کو گیارہویں اور بارہویں دونوں دنوں کی رمی کریں، اور پھر روانگی کے دن (تیرہویں کو) رمی کریں گے۔


1976- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ وَمُحَمَّدُ ابْنَيْ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ أَبِيهِمَا، عَنْ أَبِي الْبَدَّاحِ بْنِ عَدِيٍّ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ رَخَّصَ لِلرِّعَاءِ أَنْ يَرْمُوا يَوْمًا وَيَدَعُوا يَوْمًا۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، ( تحفۃ الأشراف: ۵۰۳۰) (صحیح)
۱۹۷۶- عاصم بن عدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے چرواہوں کو رخصت دی کہ ایک دن رمی کریں اور ایک دن ناغہ کریں۔


1977- حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ الْمُبَارَكِ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا مِجْلَزٍ يَقُولُ: سَأَلْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ عَنْ شَيْئٍ مِنْ أَمْرِ الْجِمَارِ، قَالَ: مَا أَدْرِي أَرَمَاهَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بِسِتٍّ أَوْ بِسَبْعٍ۔
* تخريج: ن/الحج ۲۲۷ (۳۰۸۰)، ( تحفۃ الأشراف: ۶۵۴۱)، وقد أخرجہ: حم (۱/۳۷۲) (صحیح)
۱۹۷۷- ابو مجلز کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے رمی جمرات کا حال دریافت کیا تو انہوں نے کہا: مجھے نہیں معلوم کہ رسول اللہ ﷺ نے چھ کنکر یاں ماریں یا سات ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو معلوم نہ ہوسکا تھا ، دوسرے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی روایات سے ہر جمرے کو س ات کنکریاں مارنا ثابت ہے۔


1978- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَاحِدِ بْنِ زِيَادٍ، حَدَّثَنَا الْحَجَّاجُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَمْرَةَ بِنْتِ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: <إِذَا رَمَى أَحَدُكُمْ جَمْرَةَ الْعَقَبَةِ فَقَدْ حَلَّ لَهُ كُلُّ شَيْئٍ إِلا النِّسَاءَ >.
قَالَ أَبودَاود : هَذَا حَدِيثٌ ضَعِيفٌ، الْحَجَّاجُ لَمْ يَرَ الزُّهْرِيَّ وَلَمْ يَسْمَعْ مِنْهُ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف: ۱۷۹۲۶)، وقد أخرجہ: حم (۶/۱۴۳) (صحیح)
(متابعات اور شواہد سے تقویت پا کر یہ روایت صحیح ہے)
۱۹۷۸- ام المومنین عا ئشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تم میں سے جب کوئی جمرہ عقبہ کی رمی کرلے تو اس کے لئے سوائے عورتوں کے ہر چیز حلا ل ہے‘‘ ۱؎ ۔
ابو داود کہتے ہیں: یہ حدیث ضعیف ہے، حجاج نے نہ تو زہری کو دیکھا ہے اور نہ ہی ان سے سنا ہے ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : بیویوں سے صحبت یا بوس وکنار اس وقت جائز ہوگا جب حاجی طواف زیارت سے فارغ ہو جائے۔
وضاحت ۲؎ : مسنداحمد کی سند میں زہری کی جگہ ابوبکربن محمد بن عمرو بن حزم ہیں حجاج بن أرطاۃ کا ان سے سماع ثابت ہے، نیزحدیث کے دیگر شواہد بھی ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
79-بَاب الْحَلْق وَالتَّقْصِيرِ
۷۹-باب: بال منڈانے اور کٹوانے کا بیان​


1979- حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < اللَّهُمَّ ارْحَمِ الْمُحَلِّقِينَ >، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ وَالْمُقَصِّرِينَ، قَالَ: < اللَّهُمَّ ارْحَمِ الْمُحَلِّقِينَ > قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ وَالْمُقَصِّرِينَ، قَالَ: < وَالْمُقَصِّرِينَ >۔
* تخريج: خ/الحج ۱۴۷ (۱۷۲۷)، م/الحج ۵۵ (۱۳۰۱)، ق/المناسک ۷۱ (۳۰۴۳)، ( تحفۃ الأشراف: ۷۹۴۷، ۱۸۳۵۴)، وقد أخرجہ: ت/الحج ۴۷ (۹۱۳)، ط/الحج ۶۰(۱۸۴)، حم (۲/۳۴، ۷۹، ۱۳۸، ۱۵۱)، دي/المناسک ۶۴ (۱۹۴۷) (صحیح)
۱۹۷۹- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’اللَّهُمَّ ارْحَمِ الْمُحَلِّقِينَ‘‘ ( اے اللہ سرمنڈوانے والوں پر رحم کر)، لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اور کٹوانے والوں پر؟ آپ ﷺ نے فرمایا:’’اللَّهُمَّ ارْحَمِ الْمُحَلِّقِينَ‘‘ (اے اللہ سر منڈوانے والوں پر رحم فرما) ، لوگوں نے عرض کیا:اللہ کے رسول! اور کٹوانے والوں پر؟آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ اور کٹوانے والوں پر بھی‘‘ ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بال منڈانا کتروانے سے زیادہ بہتر ہے۔


1980- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ (يَعْنِي الإِسْكَنْدَرَانِيَّ) عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ حَلَقَ رَأْسَهُ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ۔
* تخريج: خ/المغازی ۷۸ (۴۴۱۰)، م/ الحج ۵۵ (۱۳۰۴)، ( تحفۃ الأشراف: ۸۴۵۴)، وقد أخرجہ: (۲/۸۸، ۱۲۸) (صحیح)
۱۹۸۰- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع میں اپنا سر منڈوایا۔


1981- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاءِ، حَدَّثَنَا حَفْصٌ، عَنْ هِشَامٍ، عَنِ ابْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَنَسِ ابْنِ مَالِكٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ رَمَى جَمْرَةَ الْعَقَبَةِ يَوْمَ النَّحْرِ، ثُمَّ رَجَعَ إِلَى مَنْزِلِهِ بِمِنًى فَدَعَا بِذِبْحٍ فَذُبِحَ، ثُمَّ دَعَا بِالْحَلاقِ فَأَخَذَ بِشِقِّ رَأْسِهِ الأَيْمَنِ فَحَلَقَهُ فَجَعَلَ يَقْسِمُ بَيْنَ مَنْ يَلِيهِ الشَّعْرَةَ وَالشَّعْرَتَيْنِ، ثُمَّ أَخَذَ بِشِقِّ رَأْسِهِ الأَيْسَرِ فَحَلَقَهُ ثُمَّ قَالَ: < هَا هُنَا أَبُو طَلْحَةَ > فَدَفَعَهُ إِلَى أَبِي طَلْحَةَ۔
* تخريج: م/الحج ۵۶ (۱۳۰۵)، ت/الحج ۷۳ (۹۱۲)، ن/ الکبری/ الحج (۴۱۱۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۵۶)، وقد أخرجہ: خ/الوضوء ۳۳ (۱۷۱)، حم (۳/۱۱۱،۲۰۸، ۲۱۴، ۲۵۶) (صحیح)
۱۹۸۱- انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے یوم النحرکو جمرہ عقبہ کی رمی کی ، پھر آپ منیٰ میں اپنی قیام گاہ لوٹ آئے ، پھر قربانی کے جانور منگا کر انہیں ذبح کیا، اس کے بعد حلاق (سر مونڈنے والے کو بلایا)، اس نے آپ ﷺ کے سر کے داہنے حصے کو پکڑا، اور بال مونڈ دیئے ۱؎ ، پھر ایک ایک اور دودو بال ان لوگوں میں تقسیم کئے جوآپ کے قریب تھے پھر بایاں جانب منڈوایا اور فرمایا: ’’ ابو طلحہ یہاں ہیں؟‘‘ اور وہ سب بال ابو طلحہ کو دے دیئے۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بال کٹوانے کے مقابلے میں منڈوانا زیادہ بہتر ہے، اور بال منڈوانے اور کتروانے میں یہ خیال رہے کہ اس کو داہنی جانب سے شروع کرے، مونڈنے والے کو بھی اس سنت کا خیال رکھنا چاہئے۔


1982- حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ هِشَامٍ -أَبُو نُعَيْمٍ الْحَلَبِيُّ- وَعَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ الْمَعْنَى، قَالا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ هِشَامِ بْنِ حَسَّانَ -بِإِسْنَادِهِ بِهَذَا- قَالَ فِيهِ: قَالَ لِلْحَالِقِ: < ابْدَأْ بِشِقِّي الأَيْمَنِ فَاحْلِقْهُ >۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، ( تحفۃ الأشراف: ۱۴۵۶) (صحیح)
۱۹۸۲- ہشام بن حسان سے اس سند سے بھی یہی حدیث مر وی ہے البتہ اس میں اس طرح ہے: آپ ﷺ نے حلاق ( سر مونڈنے والے) سے فرمایا :’’ میرے دائیں جانب سے شروع کرو اور اسے مونڈو‘‘۔


1983- حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، أَخْبَرَنَا خَالِدٌ عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يُسْأَلُ يَوْمَ مِنًى فَيَقُولُ: < لا حَرَجَ > فَسَأَلَهُ رَجُلٌ فَقَالَ: إِنِّي حَلَقْتُ قَبْلَ أَنْ أَذْبَحَ، قَالَ: < اذْبَحْ وَلا حَرَجَ > قَالَ: إِنِّي أَمْسَيْتُ وَلَمْ أَرْمِ، قَالَ: < ارْمِ وَلا حَرَجَ >۔
* تخريج: خ/العلم ۲۴ (۸۴)، والحج ۱۲۵(۱۷۲۳)، ۱۳۰ (۱۷۳۵)، والأیمان ۱۵ (۶۶۶۶)، ن/الحج ۲۲۴ (۳۰۶۹)، ق/المناسک ۷۴ (۳۰۵۰)، ( تحفۃ الأشراف: ۶۰۴۷)، وقد أخرجہ: م/الحج ۵۷ (۱۳۰۷)، حم (۱/۲۱۶، ۲۵۸، ۲۶۹، ۲۹۱، ۳۰۰، ۳۱۱، ۳۲۸) (صحیح)
۱۹۸۳- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ سے منیٰ کے دن پوچھا جاتا تو آپ ﷺ فرماتے: ’’کوئی حرج نہیں‘‘، چنانچہ ایک شخص نے پوچھا: میں نے ذبح کرنے سے پہلے حلق کرا لیا ، آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ذبح کرلو، کوئی حرج نہیں‘‘، دوسرے نے کہا: مجھے شام ہوگئی اور میں نے اب تک رمی نہیں کی، آپ ﷺ نے فرمایا: ’’رمی اب کر لو ، کوئی حرج نہیں‘‘ ۱ ؎ ۔
وضاحت ۱؎ : حج میں نحر (قربانی) کے دن جمرہ کبری کو کنکری مارنا ، ہدی کا جانور ذبح کرنا، بالوں کا حلق (منڈوانا) یا قصر (کٹوانا) پھر طواف افاضہ (طواف زیارہ) (یعنی کعبۃ اللہ کا طواف اور صفا ومروہ کی سعی) میں ترتیب افضل ہے، مگر اس حدیث کی روشنی میں رمی، ذبح، حلق، اور طواف میں ترتیب باقی نہ رہ جائے تو دم لازم نہیں ہوگا، اور نہ ہی حج میں کوئی حرج واقع ہوگا۔


1984- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ الْعَتَكِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ قَالَ: بَلَغَنِي عَنْ صَفِيَّةَ بِنْتِ شَيْبَةَ بْنِ عُثْمَانَ قَالَتْ: أَخْبَرَتْنِي أُمُّ عُثْمَانَ (بِنْتُ أَبِي سُفْيَانَ) أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < لَيْسَ عَلَى النِّسَاءِ حَلْقٌ، إِنَّمَا عَلَى النِّسَاءِ التَّقْصِيرُ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف: ۶۵۷۶)، وقد أخرجہ: دي/المناسک ۶۳ (۱۹۴۶) (صحیح)
(اگلی سند سے تقویت پا کر یہ روایت بھی صحیح ہے)
۱۹۸۴- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’عورتوں پر حلق نہیں صرف تقصیر (بال کٹانا) ہے‘‘۔


1985- حَدَّثَنَا أَبُو يَعْقُوبَ الْبَغْدَادِيُّ -ثِقَةٌ- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ يُوسُفَ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ عَبْدِالْحَمِيدِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ شَيْبَةَ، عَنْ صَفِيَّةَ بِنْتِ شَيْبَةَ، قَالَتْ: أَخْبَرَتْنِي أُمُّ عُثْمَانَ بِنْتُ أَبِي سُفْيَانَ أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < لَيْسَ عَلَى النِّسَاءِ الْحَلْقُ، إِنَّمَا عَلَى النِّسَاءِ التَّقْصِيرُ >۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، ( تحفۃ الأشراف: ۶۵۷۶) (صحیح)
۱۹۸۵- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’عورتوں پر حلق نہیں بلکہ صرف تقصیر (بال کٹانا) ہے‘‘۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
80-بَاب الْعُمْرَةِ
۸۰-باب: عمرے کا بیان​


1986- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا مَخْلَدُ بْنُ يَزِيدَ، وَيَحْيَى بْنُ زَكَرِيَّا، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ بْنِ خَالِدٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: اعْتَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ قَبْلَ أَنْ يَحُجَّ۔
* تخريج: خ/العمرۃ ۲ (۱۷۷۴)، ( تحفۃ الأشراف: ۷۳۴۵) (صحیح)
۱۹۸۶- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حج کرنے سے پہلے عمرہ کیا۔


1987- حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيّ،ِ عَنِ ابْنِ أَبِي زَائِدَةَ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: وَاللَّهِ مَا أَعْمَرَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عَائِشَةَ فِي ذِي الْحِجَّةِ إِلا لِيَقْطَعَ بِذَلِكَ أَمْرَ أَهْلِ الشِّرْكِ؛ فَإِنَّ هَذَا الْحَيَّ مِنْ قُرَيْشٍ وَمَنْ دَانَ دِينَهُمْ كَانُوا يَقُولُونَ: إِذَا عَفَا الْوَبَرْ، وَبَرَأَ الدَّبَرْ وَدَخَلَ صَفَرْ، فَقَدْ حَلَّتِ الْعُمْرَةُ لِمَنِ اعْتَمَرْ، فَكَانُوا يُحَرِّمُونَ الْعُمْرَةَ حَتَّى يَنْسَلِخَ ذُو الْحِجَّةِ وَالْمُحَرَّمُ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف: ۵۷۲۲)، وقد أخرجہ: خ/الحج ۳۴ (۱۵۶۴)، ومناقب الأنصار ۲۶ (۳۸۳۲)، م/الحج ۳۱ (۱۲۴۰)، ن/الحج ۷۷ (۲۸۱۶)، ۱۰۸ (۲۸۷۰)، حم (۱/۲۵۲، ۲۶۱) (حسن)
۱۹۸۷- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم! رسول اللہ ﷺ نے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کو ذی الحجہ میں عمرہ صرف اس لئے کرایا کہ مشرکین کا خیال ختم ہو جائے اس لئے کہ قریش کے لوگ نیز وہ لوگ جو ان کے دین پر چلتے تھے، کہتے تھے: جب اونٹ کے بال بڑھ جائیں اور پیٹھ کا زخم ٹھیک ہو جائے اور صفر کا مہینہ آجائے تو عمرہ کرنے والے کا عمرہ درست ہو گیا، چنانچہ وہ ذی الحجہ اور محرم ( اشہرحرم) کے ختم ہو نے تک عمرہ کرنا حرام سمجھتے تھے۔


1988- حَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُهَاجِرٍ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ أَخْبَرَنِي رَسُولُ مَرْوَانَ الَّذِي أُرْسِلَ إِلَى أُمِّ مَعْقَلٍ قَالَتْ: كَانَ أَبُو مَعْقَلٍ حَاجًّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ، فَلَمَّا قَدِمَ قَالَتْ أُمُّ مَعْقَلٍ: قَدْ عَلِمْتَ أَنَّ عَلَيَّ حَجَّةً فَانْطَلَقَا يَمْشِيَانِ حَتَّى دَخَلا عَلَيْهِ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنَّ عَلَيَّ حَجَّةً، وَإِنَّ لأَبِي مَعْقَلٍ بَكْرًا، قَالَ أَبُو مَعْقَلٍ: صَدَقَتْ جَعَلْتُهُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: <أَعْطِهَا فَلْتَحُجَّ عَلَيْهِ، فَإِنَّهُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ > فَأَعْطَاهَا الْبَكْرَ، فَقَالَتْ: يَارَسُولَ اللَّهِ! إِنِّي امْرَأَةٌ قَدْ كَبِرْتُ وَسَقِمْتُ فَهَلْ مِنْ عَمَلٍ يُجْزِءُ عَنِّي مِنْ حَجَّتِي؟ قَالَ: < عُمْرَةٌ فِي رَمَضَانَ تُجْزِءُ حَجَّةً >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف: ۱۸۳۵۹)، وقد أخرجہ: ت/الحج ۹۵ (۹۳۹)، ن/ الکبری/ الحج (۴۲۲۷)، ق/المناسک ۴۵ (۲۹۹۳)، حم (۶/۴۰۵، ۴۰۶) (حسن)
(اس کے راوی’’ابراہیم‘‘حافظہ کے کمزور ہیں مگر حدیث نمبر (۱۹۹۰) سے اس کو تقویت مل رہی ہے، نیز رمضان میں عمرہ کے ثواب سے متعلق جملہ کے شواہد صحیحین میں بھی ہیں، ہاں عورت کا قول ’’إني امرأة ... من حجتي؟‘‘ صحیح نہیں ہے)
۱۹۸۸- ابوبکر بن عبدالرحمن کہتے ہیں کہ مجھے مر وان کے قاصد (جسے ام معقل رضی اللہ عنہا کے پاس بھیجا گیا تھا) نے خبر دی ہے کہ ام معقل کا بیان ہے کہ ابو معقل رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حج کو نکلنے والے تھے جب وہ آئے تو ام معقل رضی اللہ عنہا کہنے لگیں: آپ کو معلوم ہے کہ مجھ پر حج واجب ۱؎ ہے، چناچہ دونوں ( ام معقل اور ابو معقل رضی اللہ عنہما ) چلے اور رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے، ام معقل نے کہا: اللہ کے رسول! ابو معقل کے پاس ایک اونٹ ہے اور مجھ پر حج واجب ہے؟! ابو معقل نے کہا: یہ سچ کہتی ہے، میں نے اس اونٹ کو اللہ کی راہ میں دے دیا ہے، اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’یہ اونٹ اسے دے دو کہ وہ اس پر سوار ہوکر حج کر لے، یہ بھی اللہ کی راہ ہی میں ہے‘‘ ، ابومعقل نے ام معقل کو اونٹ دے دیا ،پھر وہ کہنے لگیں: اللہ کے رسول! میں عمر رسیدہ اور بیمار عورت ہوں ۲؎ کوئی ایسا کام ہے جو حج کی جگہ میرے لئے کافی ہو، آپ ﷺ نے فرمایا: ’’رمضان میں عمرہ کرنا (میرے ساتھ) حج کرنے کی جگہ میں کافی ہے‘‘ ۳؎ ۔
وضاحت ۱؎ : کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حج کرنے کا ارادہ کر رکھا تھا لیکن میرے لئے رسول اللہ ﷺ کی معیت مقدر نہیں تھی اور میں نہیں جا سکی۔
وضاحت ۲؎ : اس لئے مجھے نہیں معلوم کہ میں حج کب کرسکوں گی۔
وضاحت ۳؎ : یعنی رمضان میں عمرہ کا ثواب میرے ساتھ حج کے ثواب کے برابر ہے


1989- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَوْفٍ الطَّائِيُّ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ خَالِدٍ الْوَهْبِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ، عَنْ عِيسَى بْنِ مَعْقَلِ بْنِ أُمِّ مَعْقَلٍ الأَسَدِيِّ أَسَدِ خُزَيْمَةَ، حَدَّثَنِي يُوسُفُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ سَلامٍ، عَنْ جَدَّتِهِ أُمِّ مَعْقَلٍ قَالَتْ: لَمَّا حَجَّ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ حَجَّةَ الْوَدَاعِ، وَكَانَ لَنَا جَمَلٌ، فَجَعَلَهُ أَبُو مَعْقِلٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَأَصَابَنَا مَرَضٌ، وَهَلَكَ أَبُومَعْقِلٍ، وَخَرَجَ النَّبِيُّ ﷺ، فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ حَجِّهِ جِئْتُهُ فَقَالَ: < يَا أُمَّ مَعْقِلٍ، مَا مَنَعَكِ أَنْ تَخْرُجِي مَعَنَا؟ > قَالَتْ: لَقَدْ تَهَيَّأْنَا فَهَلَكَ أَبُو مَعْقِلٍ، وَكَانَ لَنَا جَمَلٌ هُوَ الَّذِي نَحُجُّ عَلَيْهِ، فَأَوْصَى بِهِ أَبُو مَعْقِلٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، قَالَ: < فَهَلا خَرَجْتِ عَلَيْهِ فَإِنَّ الْحَجَّ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، فَأَمَّا إِذْ فَاتَتْكِ هَذِهِ الْحَجَّةُ مَعَنَا فَاعْتَمِرِي فِي رَمَضَانَ فَإِنَّهَا كَحَجَّةٍ > فَكَانَتْ تَقُولُ: الْحَجُّ حَجَّةٌ، وَالْعُمْرَةُ عُمْرَةٌ، وَقَدْ قَالَ هَذَا لِي رَسُولُ اللَّهِ ﷺ مَا أَدْرِي أَلِيَ خَاصَّةً۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف: ۱۱۸۵۷، ۱۸۳۶۱) (صحیح لغیرہ)
(اس کے راوی’’محمد بن اسحاق‘‘مدلس ہیں اور روایت’’عنعنہ‘‘ سے، نیز’’عیسیٰ‘‘لین الحدیث ہیں، لیکن’’رمضان میں عمرہ کا ثواب حج کے برابر ہے‘‘کے ٹکڑے کے شواہد صحیحین اور دیگر مصادر میں ہیں ، اس لئے یہ حدیث صحیح ہے، ہاں: آخری ٹکڑا : ’’فكانت تقول إلخ‘‘ کا شاہد نہیں ہے، اس لئے ضعیف ہے، ملاحظہ ہو: صحیح ابی داود ۶؍ ۲۳۰)
۱۹۸۹- ام معقل رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع کیا تو ہمارے پاس ایک اونٹ تھا لیکن ابومعقل رضی اللہ عنہ نے اسے اللہ کی راہ میں دے دیا تھا ہم بیمار پڑگئے، اور ابو معقل رضی اللہ عنہ چل بسے ، نبی اکرم ﷺ حج کو تشریف لے گئے، جب اپنے حج سے واپس ہوئے تو میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوئی تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ام معقل! کس چیز نے تمہیں ہمارے ساتھ ( حج کے لئے ) نکلنے سے روک دیا؟ ‘‘، وہ بولیں : ہم نے تیاری تو کی تھی لیکن اتنے میں ابومعقل کی وفات ہوگئی، ہمارے پاس ایک ہی اونٹ تھا جس پر ہم حج کیا کرتے تھے ، ابو معقل رضی اللہ عنہ نے اسے اللہ کی راہ میں دے دینے کی وصیت کر دی، آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تم اسی اونٹ پر سوار ہوکر کیوں نہیں نکلیں؟ حج بھی تو اللہ کی راہ میں ہے ، لیکن اب تو ہمارے ساتھ تمہارا حج جاتا رہا تم رمضان میں عمرہ کر لو ، اس لئے کہ یہ بھی حج کی طرح ہے‘‘، ام معقل رضی اللہ عنہا کہا کرتی تھیں حج حج ہے اور عمرہ عمرہ ۱؎ ہے لیکن رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے یہی فرمایا اب مجھے نہیں معلوم کہ یہ حکم میرے لئے خا ص تھا (یا سب کے لئے ہے)۔
وضاحت ۱؎ : یعنی دونوں ایک مرتبہ میں نہیں ہے۔


1990- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، وَحَدَّثَنَا عَبْدُالْوَارِثِ، عَنْ عَامِرٍ الأَحْوَلِ، عَنْ بَكْرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: أَرَادَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ الْحَجَّ فَقَالَتِ امْرَأَةٌ لِزَوْجِهَا، أَحِجَّنِي مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ (عَلَى جَمَلِكَ)، فَقَالَ: مَا عِنْدِي مَا أُحِجُّكِ عَلَيْهِ، قَالَتْ: أَحِجَّنِي عَلَى جَمَلِكَ فُلانٍ، قَالَ: ذَاكَ حَبِيسٌ فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، فَأَتَى رَسُولَ اللَّهِ ﷺ فَقَالَ: إِنَّ امْرَأَتِي تَقْرَأُ عَلَيْكَ السَّلامَ وَرَحْمَةَ اللَّهِ، وَإِنَّهَا سَأَلَتْنِي الْحَجَّ مَعَكَ، قَالَتْ: أَحِجَّنِي مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ، فَقُلْتُ: مَا عِنْدِي مَا أُحِجُّكِ عَلَيْهِ، فَقَالَتْ: أَحِجَّنِي عَلَى جَمَلِكَ فُلانٍ، فَقُلْتُ ذَاكَ حَبِيسٌ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، فَقَالَ: < أَمَا إِنَّكَ لَوْ أَحْجَجْتَهَا عَلَيْهِ كَانَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ > قَالَ: وَإِنَّهَا أَمَرَتْنِي أَنْ أَسْأَلَكَ مَا يَعْدِلُ حَجَّةً مَعَكَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < أَقْرِئْهَا السَّلامَ وَرَحْمَةَ اللَّهِ وَبَرَكَاتِهِ، وَأَخْبِرْهَا أَنَّهَا تَعْدِلُ حَجَّةً مَعِي > يَعْنِي عُمْرَةً فِي رَمَضَانَ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود ( تحفۃ الأشراف: ۵۳۷۴)، وقد أخرجہ: (خ/العمرۃ ۴(۱۷۸۲)، م/الحج ۳۶ (۲۲۱) بدون ذکر : ’’أن الحج في سبیل اللہ‘‘۔ (حسن صحیح)
۱۹۹۰- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حج کا ارادہ کیا، ایک عورت نے اپنے خاوند سے کہا: مجھے بھی اپنے اونٹ پر رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حج کرائیں، انہوں نے کہا: میرے پاس تو کوئی ایسی چیز نہیں جس پر میں تمہیں حج کرائوں، وہ کہنے لگی: مجھے اپنے فلاں اونٹ پر حج کرائو، تو انہوں نے کہا: وہ اونٹ تو اللہ کی راہ میں وقف ہے، پھر وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے، اور کہنے لگے: اللہ کے رسول! میری بیوی آپ کو سلام کہتی ہے ، اس نے آپ کے ساتھ حج کرنے کی مجھ سے خواہش کی ہے، اور کہا ہے : مجھے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حج کرائیں، میں نے اس سے کہا: میرے پاس کوئی ایسی چیز نہیں جس پر میں تمہیں حج کرائوں ،اس نے کہا: مجھے اپنے فلاں اونٹ پر حج کرائیں، میں نے اس سے کہا: وہ تو اللہ کی راہ میں وقف ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: ’’سنو اگر تم اسے اس اونٹ پر حج کرا دیتے تو وہ بھی اللہ کی راہ میں ہوتا‘‘۔
اس نے کہا: اس نے مجھے یہ بھی آپ سے دریافت کرنے کے لئے کہا ہے کہ کون سی چیز آپ ﷺ کے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اسے سلام کہو اور بتائو کہ رمضان میں عمرہ کرلینا میرے ساتھ حج کرلینے کے برابر ہے‘‘۔


1991- حَدَّثَنَا عَبْدُالأَعْلَى بْنُ حَمَّادٍ، حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ اعْتَمَرَ عُمْرَتَيْنِ: عُمْرَةً فِي ذِي الْقِعْدَةِ، وَعُمْرَةً فِي شَوَّالٍ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف: ۱۶۸۸۹) (صحیح)
۱۹۹۱- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دو عمرے کئے : ایک ذی قعدہ میں اور دوسرا شوال میں ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اس حدیث میں ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی اکرم ﷺ کے عمرے کی مجموعی تعداد کا ذکر نہیں کیا ہے بلکہ ان کی مراد یہ ہے کہ ایک سال کے اندر آپ ﷺ نے دوعمرے کئے : ایک ذی قعدہ میں اور ایک شوال میں، لیکن یہ قول صحیح نہیں ہے کیونکہ ایک سال کے اندر دوعمرہ نبی اکرم ﷺ نے کبھی نہیں کیا ہے، اور حج کے ساتھ والے عمرے کوچھوڑ کر آپ ﷺ کے سارے عمرے ذی قعدہ میں ہوئے ہیں، پھر امّ المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کا ’’عمرۃ فی شوّال‘‘ کہنا ان کا وہم ہے، اور اگر اسے محفوظ مان لیا جائے تواس کی تاویل یہ ہوگی اس عمرہ سے مراد عمرۂ جعرّانہ ہے جو اگرچہ ذی قعدہ ہی میں ہوا ہے، لیکن مکہ سے حنین کے لئے آپ شوّال ہی میں نکلے تھے، اور واپسی پر جعرانہ سے احرام باندھ کر یہ عمرہ کیا تھا تو نکلنے کا لحاظ کرکے انہوں نے اس کی نسبت شوّال کی طرف کردی ہے۔


1992- حَدَّثَنَا النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ، عَنْ مُجَاهِدٍ قَالَ: سُئِلَ ابْنُ عُمَرَ: كَمِ اعْتَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ؟ فَقَالَ: مَرَّتَيْنِ، فَقَالَتْ عَائِشَةُ: لَقَدْ عَلِمَ ابْنُ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَدِ اعْتَمَرَ ثَلاثًا سِوَى الَّتِي قَرَنَهَا بِحَجَّةِ الْوَدَاعِ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، ( تحفۃ الأشراف: ۷۳۸۴، ۱۷۵۷۴) (ضعیف)
(اس کے راوی’’ابواسحاق‘‘مدلس ہیں اور’’عنعنہ‘‘ سے روایت ہے، مگر اس میں مذکور عمروں کی تعداد صحیح ہے)
۱۹۹۲- مجاہد کہتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا گیا کہ رسول اللہ ﷺ نے کتنے عمرے کئے؟ انہوں نے جواب دیا: دو بار ۱؎، اس پر ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: ابن عمر رضی اللہ عنہما کو یہ معلوم ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس عمرے کے علاوہ جو آپ نے حجۃ الوداع کے ساتھ ملایا تھا تین عمرے کئے ہیں۔
وضاحت ۱ ؎ : عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے عمرۂ حدیبیہ کواور اسی طرح حج کے ساتھ والے عمرہ کو شمار نہیں کیا۔


1993- حَدَّثَنَا النُّفَيْلِيُّ وَقُتَيْبَةُ، قَالا: حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ الْعَطَّارُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: اعْتَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَرْبَعَ عُمَرٍ: عُمْرَةَ الْحُدَيْبِيَةِ، وَالثَّانِيَةَ حِينَ تَوَاطَئُوا عَلَى عُمْرَةٍ (مِنْ) قَابِلٍ، وَالثَّالِثَةَ مِنَ الْجِعْرَانَةِ، وَالرَّابِعَةَ الَّتِي قَرَنَ مَعَ حَجَّتِهِ۔
* تخريج: ت/الحج ۷ (۸۱۶)، ق/المناسک ۵۰ (۳۰۰۳)، (تحفۃ الأشراف: ۶۱۶۸)، وقد أخرجہ: حم (۱/۲۴۶، ۳۲۱)، دي/المناسک ۳۹ (۱۹۰۰) (صحیح)
۱۹۹۳- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے چار عمرے کئے: ایک عمرہ حدیبیہ کا، دوسرا وہ عمرہ جسے آئندہ سال کرنے پر اتفاق کیا تھا، تیسرا عمرہ جعرانہ ۱؎ کا، اور چوتھا وہ جسے آپ ﷺ نے اپنے حج کے ساتھ ملایا تھا۔
وضاحت ۱؎ : ’’جعرانة‘‘: طائف اور مکہ کے درمیان ایک جگہ کا نام ہے، نبی اکرم ﷺ نے غزوئہ حنین کے مال غنیمت کی تقسیم کے بعد یہیں سے عمرہ کا احرام باندھا تھا۔


1994- حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ وَهُدْبَةُ بْنُ خَالِدٍ، قَالا: حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ اعْتَمَرَ أَرْبَعَ عُمَرٍ كُلَّهُنَّ فِي ذِي الْقِعْدَةِ، إِلا الَّتِي مَعَ حَجَّتِهِ .
قَالَ أَبودَاود: أَتْقَنْتُ مِنْ هَا هُنَا مِنْ هُدْبَةَ، وَسَمِعْتُهُ مِنْ أَبِي الْوَلِيدِ وَلَمْ أَضْبِطْهُ: (عُمْرَةً) زَمَنَ الْحُدَيْبِيَةِ، أَوْ مِنَ الْحُدَيْبِيَةِ، وَعُمْرَةَ الْقَضَاءِ فِي ذِي الْقِعْدَةِ، وَعُمْرَةً مِنَ الْجِعْرَانَةِ، حَيْثُ قَسَمَ غَنَائِمَ حُنَيْنٍ فِي ذِي الْقِعْدَةِ، وَعُمْرَةً مَعَ حَجَّتِهِ۔
* تخريج: خ/العمرۃ ۳ (۱۷۷۸)، م/الحج ۳۵ (۱۲۵۳)، ت/الحج ۶ (۸۱۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۹۳)، وقد أخرجہ: حم (۳/۲۵۶)، دي/المناسک ۳ (۱۸۲۸) (صحیح)
۱۹۹۴- انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے چار عمر ے کئے اور وہ تما م ذی قعدہ میں تھے سوائے اس کے جسے آپ نے اپنے حج کے ساتھ ملایا تھا۔
ابو داود کہتے ہیں:یہاں سے آگے کے الفاظ میں نے ابوالولید سے بھی سنے لیکن انہیں یاد نہیں رکھ سکا، البتہ ہدبہ کے الفاظ اچھی طرح یاد ہیں کہ: ایک حدیبیہ کے زمانے کا، یا حدیبیہ کا عمرہ ، دوسرا ذی قعدہ میں قضا کا عمرہ ، تیسرا عمرہ ذی قعدہ میں جعرانہ کا جب آپ ﷺ نے حنین کا مال غنیمت تقسیم فرمایا، اور چوتھا وہ عمرہ جسے آپ نے اپنے حج کے ساتھ ملایا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
81- بَاب الْمُهِلَّةِ بِالْعُمْرَةِ تَحِيضُ فَيُدْرِكُهَا الْحَجُّ فَتَنْقُضُ عُمْرَتَهَا وَتُهِلُّ بِالْحَجِّ هَلْ تَقْضِي عُمْرَتَهَا ؟
۸۱-باب: عمرے کے احرام میں عورت کو حیض آجائے پھر حج کا وقت آجائے تو وہ عمرے کو چھوڑ کر حج کا تلبیہ پکارے ،کیا اس پر عمرے کی قضا لازم ہوگی؟​


1995- حَدَّثَنَا عَبْدُالأَعْلَى بْنُ حَمَّادٍ، حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ، حَدَّثَنِي عَبْدُاللَّهِ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ خُثَيْمٍ، عَنْ يُوسُفَ بْنِ مَاهَكَ، عَنْ حَفْصَةَ بِنْتِ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ أَبِيهَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ لِعَبْدِالرَّحْمَنِ: < يَا عَبْدَالرَّحْمَنِ! أَرْدِفْ أُخْتَكَ عَائِشَةَ فَأَعْمِرْهَا مِنَ التَّنْعِيمِ، فَإِذَا هَبَطْتَ بِهَا مِنَ الأَكَمَةِ فَلْتُحْرِمْ فَإِنَّهَا عُمْرَةٌ مُتَقَبَّلَةٌ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف: ۹۶۹۱)، وقد أخرجہ: خ/العمرۃ ۶ (۱۷۸۴)، والجھاد ۱۲۵ (۲۹۸۵)، م/الحج ۱۷ (۱۲۱۲)، ت/الحج ۹۱ (۹۳۴)، ق/المناسک ۴۸ (۲۹۹۹)، حم (۱/۱۹۷، ۱۹۸)، دي/المناسک ۴۱ (۱۹۰۴) (صحیح)
۱۹۹۵- عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عبدالرحمن رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ’’عبدالرحمن ! اپنی بہن عائشہ کو بٹھا کر لے جائو اور انہیں تنعیم ۱؎ سے عمرہ کرا لائو، جب تم ٹیلوں سے تنعیم میں اترو تو چاہئے کہ وہ احرام باندھے ہو، کیونکہ یہ مقبول عمرہ ہے‘‘۔
وضاحت ۱ ؎ : ’’تنعيم‘‘: ایک مقام ہے مکہ سے تین میل کے فاصلے پر،اب وہاں پر ایک مسجد بن گئی ہے جسے مسجد عائشہ کہتے ہیں،عمرہ کا احرام حرم سے باہر نکل کر باندھنا چاہئے، یہ مقام بہ نسبت دوسرے مقامات کے زیادہ قریب ہے اس لئے آپ ﷺ نے عائشہ رضی اللہ عنہا کو وہیں سے عمرہ کرانے کا حکم دیا۔


1996- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ (مُزَاحِمِ) بْنِ أَبِي مُزَاحِمٍ، حَدَّثَنِي أَبِي مُزَاحِمٍ، عَنْ عَبْدِالْعَزِيزِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ أَسِيدٍ، عَنْ مُحَرِّشٍ الْكَعْبِيِّ قَالَ: دَخَلَ النَّبِيُّ ﷺ الْجِعْرَانَةِ فَجَاءَ إِلَى الْمَسْجِدِ فَرَكَعَ مَا شَاءَ (اللَّهُ) ثُمَّ أَحْرَمَ، ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى رَاحِلَتِهِ، فَاسْتَقْبَلَ بَطْنَ سَرِفَ حَتَّى لَقِيَ طَرِيقَ الْمَدِينَةِ، فَأَصْبَحَ بِمَكَّةَ كَبَائِتٍ۔
* تخريج: ت/الحج ۹۲ (۹۳۵)، ن/الحج ۱۰۴ (۲۸۶۶، ۲۸۶۷)، ( تحفۃ الأشراف: ۱۱۲۲۰)، وقد أخرجہ: حم (۳/۴۲۶، ۴۲۷، ۴/۶۹، ۵/۳۸۰) دي/المناسک ۴۱ (۱۹۰۳) (صحیح) دون رکوعہ في المسجد، فإنہ منکر۔
۱۹۹۶- محرش کعبی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ جعرانہ میں داخل ہو ئے تو مسجد آئے اور وہاں اللہ نے جتنی چاہا صلاۃ پڑھی ، پھرا حرام با ندھا، پھرا پنی سواری پر جم کر بیٹھ گئے اور وادی سرف کی طرف بڑھے یہاں تک کہ مدینہ کے راستہ سے جاملے، پھر آپ نے صبح مکہ میں اس طرح کی جیسے کوئی رات کو مکہ میں رہا ہو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
82-بَاب الْمَقَامِ فِي الْعُمْرَةِ
۸۲-باب: عمرے میں مکہ میں قیام کرنے کا بیان​


1997- حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ رُشَيْدٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ زَكَرِيَّا، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ عَنْ أَبَانَ ابْنِ صَالِحٍ، وَعَنِ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ أَقَامَ فِي عُمْرَةِ الْقَضَاءِ ثَلاثًا۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف: ۶۳۷۶) (صحیح)
۱۹۹۷- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عمرۂ قضا میں تین دن قیام فرمایا۔
 
Top