• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابو داود

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
93-بَاب الصَّلاةِ فِي الْكَعْبَةِ
۹۳-باب: کعبہ کے اندر صلاۃ کا بیان​


2023- حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ دَخَلَ الْكَعْبَةَ هُوَ وَأُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ وَعُثْمَانُ بْنُ طَلْحَةَ الْحَجَبِيُّ وَبِلالٌ، فَأَغْلَقَهَا عَلَيْهِ، فَمَكَثَ فِيهَا، قَالَ عَبْدُاللَّهِ بْنُ عُمَرَ: فَسَأَلْتُ بِلالا حِينَ خَرَجَ: مَاذَا صَنَعَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ؟ فَقَالَ: جَعَلَ عَمُودًا عَنْ يَسَارِهِ وَعَمُودَيْنِ عَنْ يَمِينِهِ وَثَلاثَةَ أَعْمِدَةٍ وَرَائَهُ -وَكَانَ الْبَيْتُ يَوْمَئِذٍ عَلَى سِتَّةِ أَعْمِدَةٍ- ثُمَّ صَلَّى۔
* تخريج: خ/الصلاۃ ۳۰ (۳۹۷)، ۸۱ (۴۸۶)، ۹۶ (۵۰۴)، التھجد ۲۵ (۱۱۶۷)، الحج ۵۱ (۱۵۹۸)، الجھاد ۱۲۷ (۲۹۸۸)، المغازي ۴۹ (۴۲۸۹)، ۷۷ (۴۴۰۰)، م/الحج ۶۸ (۱۳۲۹)، ن/المساجد ۵ (۶۹۳)، القبلۃ ۶ (۷۵۰)، الحج ۱۲۶ (۲۹۰۸)، ۱۲۷ (۲۹۰۹)، ق/المناسک ۷۹ (۳۰۶۳)، ( تحفۃ الأشراف: ۲۰۳۷، ۸۳۳۱)، وقد أخرجہ: ت/الحج ۴۶ (۸۷۴)، ط/الحج ۶۳ (۱۹۳)، حم (۲/۳۳، ۵۵، ۱۱۳، ۱۲۰، ۱۳۸، ۶/۱۲، ۱۳، ۱۴، ۱۵)، دي/المناسک ۴۳ (۱۹۰۸) (صحیح)
۲۰۲۳- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ، اسامہ بن زید، عثمان بن طلحہ حجبی اور بلال رضی اللہ عنہم کعبہ میں داخل ہو ئے، پھر ان لوگوں نے اسے بند کرلیا ،اور اس میں رکے رہے، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: میں نے بلال رضی اللہ عنہ سے جب وہ باہر آئے تو پوچھا کہ رسول اللہ ﷺ نے کیا کیا؟ وہ بولے: آپ نے ایک ستون اپنے بائیں طرف اور دو ستون دائیں طرف اور تین ستون اپنے پیچھے کیا ( اس وقت بیت اللہ چھ ستونوں پرقائم تھا) پھرآپ نے صلاۃ پڑھی ۔


2024- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ الأَذْرَمِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ مَالِكٍ، بِهَذَا (الْحَدِيثِ) لَمْ يَذْكُرِ السَّوَارِيَ، قَالَ: ثُمَّ صَلَّى وَبَيْنَهُ وَبَيْنَ الْقِبْلَةِ ثَلاثَةُ أَذْرُعٍ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، ( تحفۃ الأشراف: ۲۰۳۷، ۸۳۳۱) (صحیح)
۲۰۲۴- اس سند سے بھی مالک سے یہی حدیث مروی ہے ، اس میں ستونوں کا ذکر نہیں ، البتہ اتنا اضافہ ہے ''پھر آپ ﷺ نے صلاۃ پڑھی ،آپ کے اور قبلے کے درمیان تین ہاتھ کا فاصلہ تھا''۔


2025- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، بِمَعْنَى حَدِيثِ الْقَعْنَبِيِّ، قَالَ: وَنَسِيتُ أَنْ أَسْأَلَهُ كَمْ صَلَّى۔
* تخريج: انظر حدیث رقم (۲۰۲۳)، ( تحفۃ الأشراف: ۲۰۳۷) (صحیح)
۲۰۲۵- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے نبی اکرم ﷺ سے قعنبی کی حدیث کے ہم مثل روایت کی ہے اس میں اس طرح ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں : میں ان سے یہ پو چھنا بھول گیا کہ آپ نے کتنی رکعتیں پڑھیں؟۔


2026- حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ صَفْوَانَ قَالَ: قُلْتُ لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ: كَيْفَ صَنَعَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ حِينَ دَخَلَ الْكَعْبَةَ؟ قَالَ: صَلَّى رَكْعَتَيْنِ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف: ۱۰۵۹۰)، وقد أخرجہ: (حم ۳/۴۳۰، ۴۳۱) (صحیح)
۲۰۲۶- عبدالرحمن بن صفوان کہتے ہیں کہ میں نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہما سے پوچھا : رسول اللہ ﷺ جب کعبہ میں داخل ہوئے تو آپ نے کیا کیا؟ انہوں نے کہا: آپ ﷺ نے دو رکعتیں پڑھیں۔


2027- حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ عَبْدُاللَّهِ بْنُ عَمْرِو بْنِ أَبِي الْحَجَّاجِ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَارِثِ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ لَمَّا قَدِمَ مَكَّةَ أَبَى أَنْ يَدْخُلَ الْبَيْتَ وَفِيهِ الآلِهَةُ، فَأَمَرَ بِهَا فَأُخْرِجَتْ، قَالَ: فَأُخْرِجَ صُورَةُ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ، وَفِي أَيْدِيهِمَا الأَزْلامُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < قَاتَلَهُمُ اللَّهُ وَاللَّهِ لَقَدْ عَلِمُوا مَا اسْتَقْسَمَا بِهَا قَطُّ >، قَالَ: ثُمَّ دَخَلَ الْبَيْتَ، فَكَبَّرَ فِي نَوَاحِيهِ، وَفِي زَوَايَاهُ، ثُمَّ خَرَجَ وَلَمْ يُصَلِّ فِيهِ۔
* تخريج: خ/الصلاۃ ۳۰ (۳۹۷)، وأحادیث الأنبیاء ۸ (۳۳۵۱)، والحج ۵۴ (۱۶۰۱)، والمغازي ۴۸ (۴۲۸۸)، (تحفۃ الأشراف: ۵۹۹۵)، وقد أخرجہ: م/الحج ۶۸ (۱۳۲۹)، ن/المناسک ۱۳۰ (۲۹۱۶)، حم (۱/۳۳۴، ۳۶۵) (صحیح)
۲۰۲۷- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ جب مکہ آئے توآپ نے کعبہ میں داخل ہونے سے انکار کیا کیونکہ اس میں بت رکھے ہوئے تھے، آپ ﷺ نے حکم دیا تو وہ نکال دیئے گئے، اس میں ابراہیم اور اسماعیل علیہما السلام کی تصویریں بھی تھیں، وہ اپنے ہا تھوں میں فال نکالنے کے تیر لئے ہوئے تھے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''اللہ انہیں ہلا ک کرے ، اللہ کی قسم انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ ان دونوں ( ابراہیم اور اسماعیل) نے کبھی بھی فال نہیں نکالا'' ، وہ کہتے ہیں: پھر آپ ﷺ بیت اللہ میں داخل ہوئے تو اس کے گوشوں اور کونوں میں تکبیرات بلند کیں، پھر بغیر صلاۃ پڑھے نکل آئے۔
وضاحت: ۱؎ فال کے ان تیروں پر''افعل''،''لا تفعل''،''لا شيء'' لکھا ہوتا تھا، ان کی عادت تھی جب وہ سفر پر نکلتے تواس کو ایک تھیلی میں ڈال کر اس میں سے ایک کو نکالتے، اگر حسن اتفاق سے اس تیر پر ''افعل'' لکھا ہوتا توسفر پر نکلتے، اور ''لا تفعل'' لکھا ہوتا توسفر کو ملتوی کر دیتے اور اگر ''لا شيء'' لکھا رہتا تو پھر دوبارہ سب کو ڈال کر نکالتے، یہاں تک کہ ''افعل'' یا ''لا تفعل'' نکل آئے، رہی یہ بات کہ'' آپ نے کعبہ میں صلاۃ نہیں پڑھی'' تو یہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اپنے علم کی بنیاد پر کہا ہے، ترجیح بلال رضی اللہ عنہ کے بیان کو ہے جنہوں نے قریب سے دیکھا تھا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
94-بَاب الصَّلاةِ فِي الْحِجْرِ
۹۴-باب: حطیم میں صلاۃ پڑھنے کا بیان​


2028- حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْعَزِيزِ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ أُمِّهِ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّهَا قَالَتْ: كُنْتُ أُحِبُّ أَنْ أَدْخُلَ الْبَيْتَ فَأُصَلِّيَ فِيهِ، فَأَخَذَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بِيَدِي، فَأَدْخَلَنِي فِي الْحِجْرِ، فَقَالَ: < صَلِّي فِي الْحِجْرِ إِذَا أَرَدْتِ دُخُولَ الْبَيْتِ، فَإِنَّمَا هُوَ قَطْعَةٌ مِنَ الْبَيْتِ، فَإِنَّ قَوْمَكِ اقْتَصَرُوا حِينَ بَنَوُا الْكَعْبَةَ فَأَخْرَجُوهُ مِنَ الْبَيْتِ >۔
* تخريج: ن/الحج ۱۲۹ (۲۹۱۵)، ت/الحج ۴۸ (۸۷۶)، ( تحفۃ الأشراف: ۱۷۹۶۱)، وقد أخرجہ: خ/الحج ۴۲ (۱۵۸۳)، وأحادیث الأنبیاء ۱۰ (۳۳۶۸)، وتفسیر سورۃ البقرۃ ۱۰ (۴۴۸۴)، والتمنی ۹ (۷۲۴۳)، م/الحج ۶۹ (۳۹۸)، ق/المناسک ۳۱ (۲۹۵۵)، ط/الحج ۳۳(۱۰۴)، حم (۶/۶۷، ۹۲، ۹۳)، دي/المناسک ۴۴ (۱۹۱۱) (حسن صحیح)
۲۰۲۸- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میری خواہش تھی کہ میں بیت اللہ میں داخل ہوکر اس میں صلاۃ پڑھوں، تو رسول اللہ ﷺ نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے حطیم میں داخل کر دیا، اور فرمایا: ''جب تم بیت اللہ میں داخل ہونا چاہو تو حطیم کے اندر صلاۃ پڑھ لیا کرو کیونکہ یہ بھی بیت اللہ ہی کا ایک ٹکڑا ہے، تمہاری قوم کے لوگوں نے جب کعبہ تعمیر کیا تو اسی پراکتفا کیا تو لوگوں نے اسے بیت اللہ سے خارج ہی کر دیا'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : حطیم کے حصہ کو عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے اپنے دور خلافت میں کعبے کے اندر شامل کردیا تھا، لیکن حجاج بن یوسف نے جب ان پر چڑھائی کی اور کعبہ کی عمارت کو نقصان پہنچا تو اس نے پھر نئے سرے سے اس کی تعمیر کروائی اور حطیم کو چھوڑ دیا اور آج تک ویسے ہی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
95-بَابٌ فِيْ دُخُوْلِ الْكَعْبَةِ
۹۵-باب: کعبہ میں داخل ہونے کا بیان​


2029 حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ دَاوُدَ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ عَبْدِالْمَلِكِ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ خَرَجَ مِنْ عِنْدِهَا وَهُوَ مَسْرُورٌ، ثُمَّ رَجَعَ إِلَيَّ وَهُوَ كَئِيبٌ، فَقَالَ: < إِنِّي دَخَلْتُ الْكَعْبَةَ، وَلَوِ اسْتَقْبَلْتُ مِنْ أَمْرِي مَا اسْتَدْبَرْتُ مَا دَخَلْتُهَا، إِنِّي أَخَافُ أَنْ أَكُونَ قَدْ شَقَقْتُ عَلَى أُمَّتِي >۔
* تخريج: ت/الحج ۴۵ (۸۷۳)، ق/المناسک ۷۹ (۳۰۶۴)، ( تحفۃ الأشراف: ۱۶۲۳۰)، وقد أخرجہ: حم (۶/۱۳۷) (ضعیف)
(اس کے راوی ''اسماعیل'' کثیرالوہم ہیں)
۲۰۲۹- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ میرے پاس سے نکلے اور آپ خوش تھے پھر میرے پاس آئے اور آپ غمگین تھے، آپ ﷺ نے فرمایا: ''میں کعبے کے اندر گیا اگر مجھے وہ بات پہلے معلوم ہو جاتی جو بعد میں معلوم ہوئی۱؎ تو میں اس میں داخل نہ ہوتا، مجھے اندیشہ ہے کہ میں نے اپنی امت کو زحمت میں ڈال دیا ہے'' ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : کہ لوگوں کوکعبہ کے اندر داخل ہونے میں بڑی پریشانیاں اٹھانا پڑیں گی۔
وضاحت ۲؎ : آپ ﷺ کا یہ اندیشہ صحیح ثابت ہوا عوام نے کعبہ کے اندر جانے کو ضروری سمجھ لیا چنانچہ اس کے لئے انہیں بڑی دھکم پیل کرنی پڑتی تھی،اللہ بھلا کرے سعودی حکومت کا جس نے کعبہ کے اندر عام لوگوں کا داخلہ بند کردیا۔


2030- حَدَّثَنَا ابْنُ السَّرْحِ وَسَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ وَمُسَدَّدٌ، قَالُوا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مَنْصُورٍ الْحَجَبِيِّ، حَدَّثَنِي خَالِي، عَنْ أُمِّي (صَفِيَّةَ بِنْتِ شَيْبَةَ) قَالَتْ: سَمِعْتُ الأسْلَمِيَّةَ تَقُولُ: قُلْتُ لِعُثْمَانَ: مَا قَالَ لَكَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ حِينَ دَعَاكَ؟ قَالَ: قَالَ: < إِنِّي نَسِيتُ أَنْ آمُرَكَ أَنْ تُخَمِّرَ الْقَرْنَيْنِ فَإِنَّهُ لَيْسَ يَنْبَغِي أَنْ يَكُونَ فِي الْبَيْتِ شَيْئٌ يَشْغَلُ الْمُصَلِّيَ > قَالَ ابْنُ السَّرْحِ: خَالِي مُسَافِعُ بْنُ شَيْبَةَ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف: ۹۷۶۲)، وقد أخرجہ: حم (۵/۳۸۰) (صحیح)
۲۰۳۰- اسلمیہ کہتی ہیں کہ میں نے عثمان رضی اللہ عنہ ۱؎ سے پوچھا : جب رسول اللہ ﷺ نے آپ کو بلایا تو آپ سے کیا کہا؟ تو انہوں نے کہا کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ''میں تمہیں یہ بتانا بھول گیا کہ مینڈھے ۲؎ کی دونوں سینگوں کو چھپا دو اس لئے کہ کعبہ میں کوئی چیز ایسی رہنی مناسب نہیں ہے جو صلاۃ پڑھنے والے کو غافل کر دے''۔
وضاحت ۱؎ : عثمان سے مراد عثمان بن طلحہ حجبی رضی اللہ عنہ ہیں۔
وضاحت ۲؎ : اس دنبہ کی سینگیں جس کو اسماعیل علیہ السلام کی جگہ پر ذبح کرنے کے لئے جبریل علیہ السلام لے آئے تھے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
96-بَاب فِي مَالِ الْكَعْبَةِ
۹۶-باب: کعبہ میں مدفون مال کا بیان​


2031- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمُحَارِبِيُّ، عَنِ الشَّيْبَانِيِّ، عَنْ وَاصِلٍ الأَحْدَبِ، عَنْ شَقِيقٍ، عَنْ شَيْبَةَ -يَعْنِي ابْنَ عُثْمَانَ- قَالَ: قَعَدَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِي اللَّه عَنْه فِي مَقْعَدِكَ الَّذِي أَنْتَ فِيهِ، فَقَالَ: لا أَخْرُجُ حَتَّى أَقْسِمَ مَالَ الْكَعْبَةِ، قَالَ: قُلْتُ: مَا أَنْتَ بِفَاعِلٍ، قَالَ: بَلَى لأَفْعَلَنَّ، قَالَ: قُلْتُ: مَا أَنْتَ بِفَاعِلٍ، قَالَ: لِمَ؟ قُلْتُ: لأَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَدْ رَأَى مَكَانَهُ وَأَبُو بَكْرٍ رَضِي اللَّه عَنْه، وَهُمَا أَحْوَجُ مِنْكَ إِلَى الْمَالِ، فَلَمْ يُخْرِجَاهُ، فَقَامَ فَخَرَجَ۔
* تخريج: خ/الحج ۴۸ (۱۵۹۴)، والاعتصام ۲ (۷۲۷۵)، ق/المناسک ۱۰۵ (۳۱۱۶)، ( تحفۃ الأشراف: ۴۸۴۹)، وقد أخرجہ: حم (۳/۴۱۰) (صحیح)
۲۰۳۱- شیبہ بن عثمان کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اس جگہ بیٹھے جہاں تم بیٹھے ہو اور کہا: میں باہر نہیں نکلوں گا جب تک کہ کعبہ کا مال ۱؎ (محتاج مسلمانوں میں) تقسیم نہ کردوں، میں نے کہا: آپ ایسا نہیں کرسکتے، فرمایا: کیوں نہیں، میں ضرور کروں گا، میں نے کہا: آپ ایسا نہیں کرسکتے، وہ بولے: کیوں؟ میں نے کہا : اس لئے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس مال کی جگہ دیکھی، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی دیکھ رکھی تھی، اور وہ دونوں اس مال کے آپ سے زیادہ حاجت مند تھے لیکن انہوں نے اسے نہیں نکالا، یہ سن کرعمرکھڑے ہوئے اور باہر نکل آئے ۔
وضاحت ۱؎ : بعض علماء کہتے ہیں کہ اللہ تعالی نے یہ مال امام مہدی کے لئے رکھ چھوڑا ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
97- بَابٌ
۹۷-باب: وادیٔ وج کے حرم ہونے کا بیان​


2032- حَدَّثَنَا حَامِدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ الْحَارِثِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ إِنْسَانٍ الطَّائِفِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنِ الزُّبَيْرِ قَالَ: لَمَّا أَقْبَلْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ مِنْ لِيَّةَ حَتَّى إِذَا كُنَّا عِنْدَ السِّدْرَةِ وَقَفَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فِي طَرَفِ الْقَرْنِ الأَسْوَدِ حَذْوَهَا، فَاسْتَقْبَلَ نَخِبًا بِبَصَرِهِ وَقَالَ مَرَّةً: وَادِيَهُ، وَوَقَفَ حَتَّى اتَّقَفَ النَّاسُ كُلُّهُمْ، ثُمَّ قَالَ: < إِنَّ صَيْدَ وَجٍّ وَعِضَاهَهُ حَرَامٌ مُحَرَّمٌ لِلَّهِ > وَذَلِكَ قَبْلَ نُزُولِهِ الطَّائِفَ وَحِصَارِهِ لِثَقِيفٍ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف: ۳۶۴۰)، وقد أخرجہ: حم (۱/۱۶۵) (ضعیف)
(اس کے راوی ''محمد'' اور ''عبداللہ'' دونوں ضعیف ہیں)
۲۰۳۲- زبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ لیّۃ ۱؎ سے لوٹے اور بیری کے درخت کے پاس پہنچے تو رسول اللہ ﷺ قرن اسود ۲؎ کے دامن میں اس کے بالمقابل کھڑے ہوئے پھر اپنی نگاہ سے نخب ۳؎ کا استقبال کیا (اور راوی نے کبھی(''نخبا'' کے بجائے''واديه'' کا لفظ کہا) اور ٹھہر گئے تو سارے لوگ ٹھہر گئے تو فرمایا: ''صیدوج ۴؎ اور اس کے درخت محترم ہیں ، اللہ کی طرف سے محترم قرار دیئے گئے ہیں'' ، یہ آپ ﷺ کے طائف میں اترنے اور ثقیف کا محاصرہ کرنے سے پہلے کی بات ہے ۔
وضاحت ۱ ؎ : ایک پہاڑ کا نام ہے جو طائف سے قریب ہے۔
وضاحت ۲ ؎ : حجاز میں ایک پہاڑ کا نام ہے۔
وضاحت ۳ ؎ : ایک جگہ کا نام ہے۔
وضاحت ۴ ؎ : طائف میں ایک وادی کا نام ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
98-بَاب فِي إِتْيَانِ الْمَدِينَةِ
۹۸-باب: مدینہ میں آنے کا بیان​


2033- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: < لا تُشَدُّ الرِّحَالُ إِلا إِلَى ثَلاثَةِ مَسَاجِدَ: مَسْجِدِ الْحَرَامِ، وَمَسْجِدِي هَذَا، وَالْمَسْجِدِ الأَقْصَى >۔
* تخريج: خ/فضائل الصلاۃ ۱ (۱۱۸۹)، م/الحج ۹۵ (۱۳۹۷)، ن/المساجد ۱۰ (۶۹۹)، ( تحفۃ الأشراف: ۱۳۱۳۰)، وقد أخرجہ: ق/إقامۃ الصلاۃ ۱۹۶ (۱۴۰۹)، ط/ الجمعۃ ۷ (۱۶)، حم (۲/۲۳۴، ۲۳۸، ۲۷۸)، دي/الصلاۃ ۱۳۲ (۱۴۶۱) (صحیح)
۲۰۳۳- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' کجاوے صرف تین ہی مسجدوں کے لئے کسے جائیں : مسجد حرام، میری اس مسجد (یعنی مسجد نبوی) اور مسجد اقصی کے لئے''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
99-بَاب فِي تَحْرِيمِ الْمَدِينَةِ
۹۹-باب: مدینہ کے حرم ہونے کا بیان​


2034 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِي اللَّه عَنْه، قَالَ: مَا كَتَبْنَا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ إِلا الْقُرْآنَ، وَمَا فِي هَذِهِ الصَّحِيفَةِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < الْمَدِينَةُ حَرَامٌ مَا بَيْنَ عَائِرَ إِلَى ثَوْرٍ، فَمَنْ أَحْدَثَ حَدَثًا أَوْ آوَى مُحْدِثًا فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ، لا يُقْبَلُ مِنْهُ عَدْلٌ وَلا صَرْفٌ، (وَ) ذِمَّةُ الْمُسْلِمِينَ وَاحِدَةٌ يَسْعَى بِهَا أَدْنَاهُمْ، فَمَنْ أَخْفَرَ مُسْلِمًا فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ، لا يُقْبَلُ مِنْهُ عَدْلٌ وَلا صَرْفٌ، وَمَنْ وَالَى قَوْمًا بِغَيْرِ إِذْنِ مَوَالِيهِ فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ (لا يُقْبَلُ مِنْهُ عَدْلٌ وَلا صَرْفٌ ) >۔
* تخريج: خ/العلم ۳۹ (۱۱۱)، وفضائل المدینۃ ۱ (۱۸۶۷)، والجھاد ۱۷۱ (۳۰۴۷)، والجزیۃ ۱۰ (۳۱۷۲، ۳۱۷۹)، والفرائض ۲۱ (۶۷۵۵)، والدیات ۲۴ (۶۹۰۳)، والاعتصام ۵ (۷۳۰۰)، م/الحج ۸۵ (۱۳۷۰)، ت/الدیات ۱۶ (۱۴۱۲)، والولاء والھبۃ ۳ (۲۱۲۷)، ن/القسامۃ ۹، ۱۰ (۴۷۴۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۳۱۷)، وقد أخرجہ: ق/الدیات ۲۱ (۲۶۵۸)، حم (۱/۸۱، ۱۲۲، ۱۲۶، ۱۵۱، ۲/۳۹۸)، دي/الدیات ۵ (۲۴۰۱) (صحیح)
۲۰۳۴- علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ سے سوائے قرآن کے اور اس کے جو اس صحیفے ۱؎ میں ہے کچھ نہیں لکھا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' مدینہ حرام ہے عائر سے ثور تک ( عا ئر اور ثور دو پہاڑ ہیں)، جو شخص مدینہ میں کوئی بدعت (نئی بات )نکالے، یا نئی بات نکالنے والے کو پناہ اور ٹھکانا دے تو اس پر اللہ ، ملا ئکہ اور تمام لوگوں کی لعنت ہے، نہ اس کا فرض قبول ہو گا اور نہ کوئی نفل ، مسلمانوں کا ذمہ ( عہد ) ایک ہے ( مسلمان سب ایک ہیں اگر کوئی کسی کو امان دے دے تو وہ سب کی طرف سے ہو گی ) اس ( کو نبھانے) کی ادنی سے ادنی شخص بھی کوشش کرے گا ، لہٰذا جو کسی مسلمان کی دی ہوئی امان کو توڑے تو اس پر اللہ ، ملائکہ اور تمام لوگوں کی لعنت ہے، نہ اس کا فرض قبول ہو گا اور نہ نفل، اور جو اپنے مولی کی اجازت کے بغیر کسی قوم سے ولاء کرے ۲؎ اس پر اللہ، ملائکہ اور تمام لوگوں کی لعنت ہے، نہ اس کا فرض قبول ہوگا اور نہ نفل''۔
وضاحت ۱؎ : یہ صحیفہ ایک ورق تھا جس میں دیت کے احکام تھے ،علی رضی اللہ عنہ اسے اپنی تلوار کی نیام میں رکھتے تھے۔
وضاحت ۲ ؎ : یعنی کوئی اپنی آزادی کی نسبت کسی دوسرے کی طرف نہ کرے۔


2035- حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا عَبْدُالصَّمَدِ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنْ أَبِي حَسَّانَ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِي اللَّه عَنْه، فِي هَذِهِ الْقِصَّةِ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: < لا يُخْتَلَى خَلاهَا، وَلا يُنَفَّرُ صَيْدُهَا، وَلا تُلْتَقَطُ لُقَطَتُهَا إِلا لِمَنْ أَشَادَ بِهَا وَلا يَصْلُحُ لِرَجُلٍ أَنْ يَحْمِلَ فِيهَا السِّلاحَ لِقِتَالٍ، وَلا يَصْلُحُ أَنْ يُقْطَعَ مِنْهَا شَجَرَةٌ إِلا أَنْ يَعْلِفَ رَجُلٌ بَعِيرَهُ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف: ۱۰۲۷۸)، وقد أخرجہ: حم (۱/۱۱۹) (صحیح)
۲۰۳۵- علی رضی اللہ عنہ سے اس قصے میں روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ''اس (یعنی مدینہ) کی نہ گھاس کاٹی جائے ، نہ اس کا شکار بھگایا جائے، اور نہ وہاں کی گری پڑی چیزوں کو اٹھایا جائے ، سوائے اس شخص کے جو اس کی پہچان کرائے ، کسی شخص کے لئے درست نہیں کہ وہ وہاں لڑا ئی کے لئے ہتھیار لے جائے، اور نہ یہ درست ہے کہ وہاں کا کوئی درخت کاٹا جائے سوائے اس کے کہ کوئی آدمی اپنے اونٹ کو چارہ کھلائے''۔


2036- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاءِ أَنَّ زَيْدَ بْنَ الْحُبَابِ حَدَّثَهُمْ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ كِنَانَةَ مَوْلَى عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ، أَخْبَرَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ زَيْدٍ، قَالَ: حَمَى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ كُلَّ نَاحِيَةٍ مِنَ الْمَدِينَةِ بَرِيدًا بَرِيدًا: لا يُخْبَطُ شَجَرُهُ وَلايُعْضَدُ إِلا مَا يُسَاقُ بِهِ الْجَمَلُ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف: ۹۸۷۹) (حسن)
(اس کے راوی''سلیمان''مجہول اور''عبداللہ''لین الحدیث ہیں، لیکن یہ حدیث شواہد کی بناپرحسن ہے،ملاحظہ ہو: صحیح ابی داود۶/۲۷۵، والصحیحۃ: ۳۲۴۳)
۲۰۳۶- عدی بن زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مدینہ کے ہر جانب ایک ایک برید محفوظ کر دیا ہے ۱؎ نہ وہاں کا درخت کاٹا جائے گا اور نہ پتے توڑے جا ئیں گے مگر اونٹ کے چارے کے لئے ( بہ قدر ضرورت)۔
وضاحت ۱؎ : چاروں اطراف مشرق، مغرب اور شمال جنوب کو ملا کر کل چار برید ہوئے اور ایک برید چار فرسخ کا ہوتا ہے اور ایک فرسخ تین میل کا اس طرح اس حدیث کی رو سے کل (۴۸)میل بنتا ہے جبکہ صحیح مسلم کی روایت میں (۱۲) میل کی صراحت آئی ہے۔


2037- حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ -يَعْنِي ابْنَ حَازِمٍ- حَدَّثَنِي يَعْلَى بْنُ حَكِيمٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ ابْنِ أَبِي عَبْدِاللَّهِ قَالَ: رَأَيْتُ سَعْدَ بْنَ أَبِي وَقَّاصٍ أَخَذَ رَجُلا يَصِيدُ فِي حَرَمِ الْمَدِينَةِ الَّذِي حَرَّمَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فَسَلَبَهُ ثِيَابَهُ، فَجَاءَ مَوَالِيهِ فَكَلَّمُوهُ فِيهِ، فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ حَرَّمَ هَذَا الْحَرَمَ، وَقَالَ: < مَنْ أَخَذَ أَحَدًا يَصِيدُ فِيهِ فَلْيَسْلُبْهُ (ثِيَابَهُ) >، فَلا أَرُدُّ عَلَيْكُمْ طُعْمَةً أَطْعَمَنِيهَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ، وَلَكِنْ إِنْ شِئْتُمْ دَفَعْتُ إِلَيْكُمْ ثَمَنَهُ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف: ۳۸۶۳)، وقد أخرجہ: م/الحج ۸۵ (۴۰۶۰)، حم (۱/۱۶۸، ۱۷۰) (صحیح)
(لیکن ''شکار'' کی بات منکر ہے، صحیح بات درخت کاٹنے کی ہے جیسا کہ اگلی حدیث میں ہے اورصحیح مسلم میں بھی یہی بات ہے)
۲۰۳۷- سلیمان بن ابی عبداللہ کہتے ہیں کہ میں نے سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ انہوں نے ایک شخص کو پکڑا جو مدینہ کے حرم میں جسے رسول اللہ ﷺ نے حرم قرار دیا ہے شکار کررہا تھا، سعد نے اس سے اس کے کپڑے چھین لئے تو اس کے سات(۷) لوگوں نے آکر ان سے اس کے بارے میں گفتگو کی ، آپ نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے اسے حرم قرار دیا ہے اور فرمایا ہے: ''جو کسی کو اس میں شکار کرتے پکڑے تو چاہئے کہ وہ اس کے کپڑے چھین لے'' ، لہٰذا میں تمہیں وہ سامان نہیں دوں گا جو مجھے رسول اللہ ﷺ نے دلایا ہے البتہ اگر تم چاہو تو میں تمہیں اس کی قیمت دے دوں گا ۔


2038- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ صَالِحٍ مَوْلَى التَّوْأَمَةِ، عَنْ مَوْلًى لِسَعْدٍ أَنَّ سَعْدًا وَجَدَ عَبِيدًا مِنْ عَبِيدِ الْمَدِينَةِ يَقْطَعُونَ مِنْ شَجَرِ الْمَدِينَةِ، فَأَخَذَ مَتَاعَهُمْ، وَقَالَ -يَعْنِي لِمَوَالِيهِمْ-: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَنْهَى أَنْ يُقْطَعَ مِنْ شَجَرِ الْمَدِينَةِ شَيْئٌ، وَقَالَ: < مَنْ قَطَعَ مِنْهُ شَيْئًا فَلِمَنْ أَخَذَهُ سَلَبُهُ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف: ۳۹۵۱) (صحیح)
(متابعات سے تقویت پا کر یہ روایت صحیح ہے، مؤلف کی سند میں دو علتیں ہیں : صالح کا اختلاط اور مولی لسعد کا مبہم ہونا)
۲۰۳۸- سعد رضی اللہ عنہ کے غلام سے روایت ہے کہ سعد نے مدینہ کے غلاموں میں سے کچھ غلاموں کو مدینہ کے درخت کاٹتے پایا تو ان کے اسباب چھین لیے اور ان کے مالکوں سے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو منع کرتے سنا ہے کہ مدینہ کا کوئی درخت نہ کاٹا جائے، آپ ﷺ نے فرمایا ہے: ''جو کوئی اس میں کچھ کاٹے تو جو اسے پکڑ ے اس کا اسباب چھین لے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یہ جھڑکی اور ملامت کے طور پر ہے، پھر اسے واپس دیدے ، اکثر علماء کی یہی رائے ہے، اور بعض علماء نے کہا ہے کہ نہ دے ۔


2039- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَفْصٍ أَبُو عَبْدِالرَّحْمَنِ الْقَطَّانُ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَالِدٍ، أَخْبَرَنِي خَارِجَةُ بْنُ الْحَارِثِ الْجُهَنِيُّ، أَخْبَرَنِي أَبِي، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ أَنْ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < لايُخْبَطُ وَلا يُعْضَدُ حِمَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ، وَلَكِنْ يُهَشُّ هَشًّا رَفِيقًا >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف: ۲۲۱۸) (صحیح)
۲۰۳۹- جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''رسول اللہ ﷺ کے حرم سے نہ درخت کاٹے جائیں اور نہ پتے توڑے جائیں البتہ نرمی سے جھاڑ لئے جائیں'' ۱ ؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اکثر علماء کے نزدیک حرم مدینہ کے درخت کاٹنے یا شکار مارنے میں کوئی سزا نہیں ہے، بعض علماء کے نزدیک سزاکا مستحق ہے۔


2040- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى (ح) حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، عَنِ ابْنِ نُمَيْرٍ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ كَانَ يَأْتِي قُبَائً مَاشِيًا وَرَاكِبًا، زَادَ ابْنُ نُمَيْرٍ: وَيُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ۔
* تخريج: خ/الصلاۃ في مسجد مکۃ والمدینۃ ۳ (۱۱۹۴)تعلیقًا، والاعتصام ۱۶ (۷۳۲۳)، م/الحج ۹۷ (۱۳۹۹)، ن/المساجد ۹ (۶۹۹)، (تحفۃ الأشراف: ۷۹۴۱، ۸۱۴۸)، وقد أخرجہ: ط/ قصرالصلاۃ ۲۳ (۷۱)، حم (۲/۵، ۳۰، ۵۷، ۵۸، ۶۵) (صحیح)
۲۰۴۰- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مسجد قباء پیدل اور سوار (دونوں طرح سے) آتے تھے ابن نمیر کی روایت میں) '' اور دو رکعت پڑھتے تھے'' ( کا اضافہ ہے)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
100- بَاب زِيَارَةِ الْقُبُورِ
۱۰۰-باب: قبروں کی زیارت کا بیان​


2041- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَوْفٍ، حَدَّثَنَا الْمُقْرِءُ، حَدَّثَنَا حَيْوَةُ، عَنْ أَبِي صَخْرٍ حُمَيْدِ بْنِ زِيَادٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ قُسَيْطٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < مَا مِنْ أَحَدٍ يُسَلِّمُ عَلَيَّ إِلا رَدَّ اللَّهُ عَلَيَّ رُوحِي حَتَّى أَرُدَّ عَلَيْهِ السَّلامَ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف: ۱۴۸۳۹)، وقد أخرجہ: حم (۲/۵۲۷) (حسن)
۲۰۴۱- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''مجھ پر جب بھی کوئی سلام بھیجتا ہے تو اللہ تعالی میری روح مجھے لوٹا دیتا ہے یہاں تک کہ میں اس کے سلام کا جواب دیتا ہوں''۔


2042- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، قَرَأْتُ عَلَى عَبْدِاللَّهِ بْنِ نَافِعٍ، أَخْبَرَنِي ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < لا تَجْعَلُوا بُيُوتَكُمْ قُبُورًا، وَلا تَجْعَلُوا قَبْرِي عِيدًا؛ وَصَلُّوا عَلَيَّ فَإِنَّ صَلاتَكُمْ تَبْلُغُنِي حَيْثُ كُنْتُمْ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف: ۱۳۰۳۲)، وقد أخرجہ: حم (۲/۳۶۷) (صحیح)
۲۰۴۲- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''اپنے گھر وں کو قبرستان ۱؎ نہ بنائو اور میری قبر کو میلا نہ بنائو (کہ سب لوگ وہاں اکٹھا ہوں)، اور میرے اوپر درود بھیجا کرو کیونکہ تم جہاں بھی رہو گے تمہارا درود مجھے پہنچایا جائے گا''۔
وضاحت ۱؎ : یعنی اس میں صلاۃ پڑھنا اور عبادت کرنا نہ چھوڑو کہ تم اس میں مردوں کی طرح ہوجاؤ اس سے معلوم ہوا کہ جس گھر میں صلاۃ اور عبادت نہیں ہوتی وہ قبرستان کے مانند ہے۔


2043- حَدَّثَنَا حَامِدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَعْنٍ الْمَدَنِيّ،ُ أَخْبَرَنِي دَاوُدُ بْنُ خَالِدٍ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ أَبِي عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ رَبِيعَةَ -يَعْنِي ابْنَ الْهُدَيْرِ- قَالَ: مَا سَمِعْتُ طَلْحَةَ بْنَ عُبَيْدِاللَّهِ يُحَدِّثُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ حَدِيثًا قَطُّ غَيْرَ حَدِيثٍ وَاحِدٍ، قَالَ: قُلْتُ: وَمَا هُوَ؟ قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ يُرِيدُ قُبُورَ الشُّهَدَاءِ، حَتَّى إِذَا أَشْرَفْنَا عَلَى حَرَّةِ وَاقِمٍ، فَلَمَّا تَدَلَّيْنَا مِنْهَا وَإِذَا قُبُورٌ بِمَحْنِيَّةٍ، قَالَ: قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَقُبُورُ إِخْوَانِنَا هَذِهِ؟ قَالَ: < قُبُورُ أَصْحَابِنَا > فَلَمَّا جِئْنَا قُبُورَ الشُّهَدَاءِ قَالَ: < هَذِهِ قُبُورُ إِخْوَانِنَا >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف: ۴۹۹۷)، وقد أخرجہ: حم (۱/۱۶۱) (صحیح)
۲۰۴۳- ربیعہ بن ہدیر کہتے ہیں کہ میں نے طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ کو سوائے اس ایک حدیث کے کوئی اور حدیث رسول اللہ ﷺسے روایت کرتے نہیں سنا، میں نے عرض کیا: وہ کون سی حدیث ہے؟ تو انہوں نے کہا: ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نکلے، آپ شہداء کی قبروں کا ارادہ رکھتے تھے جب ہم حرۂ واقم ( ایک ٹیلے کا نام ہے) پر چڑھے اور اس پر سے اترے تو دیکھا کہ وادی کے موڑ پرکئی قبریں ہیں، ہم نے پوچھا: اللہ کے رسول! کیا ہمارے بھائیوں کی قبریں یہی ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ''ہمارے صحابہ ۱؎ کی قبریں ہیں ''، جب ہم شہداء کی قبروں کے پاس پہنچے تو آپ ﷺ نے فرمایا: ''یہ ہمارے بھائیوں ۲؎ کی قبریں ہیں''۔
وضاحت ۱؎ : جن کی موت اسلام پر ہوئی ہے اور وہ شہداء کا مقام نہیں پاسکے ہیں۔
وضاحت ۲؎ : نبی اکرم ﷺ نے اخوت کی نسبت ان کی طرف کی یہ ان کے لئے بڑے شرف کی بات ہے۔


2044- حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ أَنَاخَ بِالْبَطْحَاءِ الَّتِي بِذِي الْحُلَيْفَةِ فَصَلَّى بِهَا، فَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ يَفْعَلُ ذَلِكَ۔
* تخريج: خ/الصلاۃ ۸۹ (۴۸۴)، والحج ۱۴ (۱۵۳۲)، ۱۵ (۱۵۳۳)، ۱۶ (۱۵۳۵)، والعمرۃ ۱۴ (۱۷۹۹)، والمزارعۃ ۱۶ (۲۳۳۶)، م/الحج ۶ (۱۱۸۸)، ۷۷ (۱۲۷۵)، ن/المناسک ۲۴ (۲۶۶۰)، ( تحفۃ الأشراف: ۸۳۳۸)، وقد أخرجہ: ط/الحج ۶۹(۲۰۶)، حم (۲/۲۸، ۸۷، ۱۱۲، ۱۳۸) (صحیح)
۲۰۴۴- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بطحا میں جو ذی الحلیفہ میں ہے اونٹ بٹھایا اور وہاں صلاۃ پڑھی، چنانچہ عبداللہ بن عمربھی ایسا ہی کرتے تھے۔


2045- حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، قَالَ: قَالَ مَالِكٌ: لا يَنْبَغِي لأَحَدٍ أَنْ يُجَاوِزَ الْمُعَرَّسِ إِذَا قَفَلَ رَاجِعًا إِلَى الْمَدِينَةِ، حَتَّى يُصَلِّيَ فِيهَا مَا بَدَا لَهُ، لأَنَّهُ بَلَغَنِي أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ عَرَّسَ بِهِ .
(قَالَ أَبودَاود) : سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ إِسْحَاقَ الْمَدَنِيَّ قَالَ: الْمُعَرَّسُ عَلَى سِتَّةِ أَمْيَالٍ مِنَ الْمَدِينَةِ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ط/الحج/ عقب حدیث (۲۰۶) (صحیح)
۲۰۴۵- مالک کہتے ہیں: جب کوئی مدینہ واپس لوٹے اور معرس پہنچے تواس کے لئے مناسب نہیں ہے کہ وہ آگے بڑھے جب تک کہ صلاۃ نہ پڑھ لے جتنا اس کا جی چاہے اس لئے کہ مجھے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے وہاں رات کو قیام کیا تھا۔
ابو داود کہتے ہیں: میں نے محمد بن اسحاق مدنی کو کہتے سنا: معرس مدینہ سے چھ میل کے فاصلے پر ایک مقام ہے۔


* * * * *​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
{ 6- كِتَاب النِّكَاحِ }
۶-کتاب: نکاح کے احکام ومسائل


1- بَاب التَّحْرِيضِ عَلَى النِّكَاحِ
۱-باب: نکاح کی ترغیب کا بیان​


2046- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، قَالَ: إِنِّي لأَمْشِي مَعَ عَبْدِاللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ بِمِنًى إِذْ لَقِيَهُ عُثْمَانُ فَاسْتَخْلاهُ، فَلَمَّا رَأَى عَبْدُاللَّهِ أَنْ لَيْسَتْ لَهُ حَاجَةٌ قَالَ لِي: تَعَالَ يَا عَلْقَمَةُ، فَجِئْتُ، فَقَالَ لَهُ عُثْمَانُ: أَلا نُزَوِّجُكَ يَا أَبَا عَبْدِالرَّحْمَنِ بِجَارِيَةٍ بِكْرٍ، لَعَلَّهُ يَرْجِعُ إِلَيْكَ مِنْ نَفْسِكَ مَا كُنْتَ تَعْهَدُ؟ فَقَالَ عَبْدُاللَّهِ: لَئِنْ قُلْتَ ذَاكَ لَقَدْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْكُمُ الْبَائَةَ فَلْيَتَزَوَّجْ فَإِنَّهُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ، وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ، وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ مِنْكُمْ فَعَلَيْهِ بِالصَّوْمِ، فَإِنَّهُ لَهُ وِجَائٌ >۔
* تخريج: خ/الصوم ۱۰ (۱۹۰۵)، النکاح ۲ (۵۰۶۵)، ۳ (۵۰۶۶)، م/النکاح ۱ (۱۴۰۰)، ت/النکاح ۱ (۱۰۸۱تعلیقًا)، ن/الصیام ۴۳ (۲۲۴۱)، والنکاح ۳ (۳۲۰۹) ، ق/النکاح ۱ (۱۸۴۵)، ( تحفۃ الأشراف: ۹۴۱۷)، وقد أخرجہ: حم (۱/۳۷۸، ۴۲۴، ۴۲۵، ۴۳۲، ۴۴۷)، دي/النکاح ۲ (۲۲۱۲) (صحیح)
۲۰۴۶- علقمہ کہتے ہیں کہ میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے ساتھ منیٰ میں چل رہا تھا کہ اچانک ان کی ملاقات عثمان رضی اللہ عنہ سے ہو گئی تو وہ ان کو لے کر خلوت میں گئے، جب عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے محسوس کیا کہ انہیں(شادی کی) ضرورت نہیں ہے تومجھ سے کہا: علقمہ ! آجائو ۱؎ تو میں گیا تو عثمان رضی اللہ عنہ ۲؎ نے ان سے کہا: ابو عبدالرحمن! کیا ہم آپ کی شادی ایک کنواری لڑکی سے نہ کرا دیں، شاید آپ کی دیرینہ طاقت ونشاط واپس آجائے۔
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: اگر آپ ایسی بات کہہ رہے ہیں تو میں تو اللہ کے رسول ﷺ کو فرماتے ہوئے سن چکا ہوں کہ: ’’تم میں سے جو شخص نکاح کی طاقت رکھتا ہو اسے نکاح کر لینا چاہئے کیونکہ یہ نگاہ کو خوب پست رکھنے والی اور شرم گاہ کی خوب حفاظت کرنے والی چیز ہے اور جو تم میں سے اس کے اخراجات کی طاقت نہ رکھتا ہوتو اس پر صیام ہے، یہ اس کی شہوت کے لئے توڑ ہوگا‘‘ ۳؎ ۔
وضاحت: ۱؎ کیونکہ اب خلوت کی ضرورت نہیں رہ گئی۔
وضاحت ۲؎ ہوسکتا ہے کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے علقمہ سے وہ گفتگو بیان کی ہو جوعثمان نے خلوت میں ان سے کی تھی اور یہ بھی احتمال ہے کہ عثمان رضی اللہ عنہ نے علقمہ رضی اللہ عنہ کے آنے کے بعد اپنی بات پوری کرتے ہوئے علقمہ کی موجودگی میں اسے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے کہا ہو۔
وضاحت۳؎ : آدمی جب نان ونفقہ کی طاقت رکھے تو اس کے لئے نکاح کرنا مسنون ہے، اور بعض کے نزدیک اگر گناہ میں پڑجانے کا خطرہ ہو تو واجب یا فرض ہے، اس کے فوائد یہ ہیں کہ اس سے افزائش نسل کے علاوہ شہوانی جذبات کو تسکین ملتی ہے، اور زنا فسق وفجور سے آدمی کی حفاظت ہوتی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
2- بَاب مَا يُؤْمَرُ بِهِ مِنْ تَزْوِيجِ ذَاتِ الدِّينِ
۲-باب: دین دارعورت سے نکاح کا حکم​


2047- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى (يَعْنِي) ابْنَ سَعِيدٍ، حَدَّثَنِي عُبَيْدُاللَّهِ، حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: < تُنْكَحُ النِّسَاءُ لأَرْبَعٍ: لِمَالِهَا، وَلِحَسَبِهَا، وَلِجَمَالِهَا، وَلِدِينِهَا، فَاظْفَرْ بِذَاتِ الدِّينِ تَرِبَتْ يَدَاكَ >۔
* تخريج: خ/النکاح ۱۵ (۵۰۹۰)، م/الرضاع ۱۵ (۱۴۶۶)، ن/النکاح ۱۳ (۳۲۳۲)، ق/النکاح ۶ (۱۸۵۸)، حم (۲/۴۲۸)، دي/النکاح ۴ (۲۲۱۶)، ( تحفۃ الأشراف: ۱۴۳۰۵) (صحیح)
۲۰۴۷- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ''عورتوں سے نکاح چار چیزوں کی بنا پر کیا جاتا ہے: ان کے مال کی وجہ سے ،ان کے حسب و نسب کی وجہ سے ، ان کی خوبصورتی کی بنا پر، اور ان کی دین داری کے سبب ، تم دین دار عورت سے نکاح کر کے کامیاب بن جاؤ ،تمہارے ہاتھ خاک آلود ہوں'' ۱ ؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی عام طور پر عورت سے نکاح انہیں چار چیزوں کے سبب کیا جاتا ہے، ایک دیندار مسلمان کو چاہئے کہ ان سب اسباب میں دین کو ترجیح دے۔
 
Top