• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابو داود

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
کتا ب السنن کا منہج اور مؤلف کی شرط

امام ابوداود نے اہل مکہ کے نام اپنے مکتوب میں کتاب السنن کے منہج اورطریقہ ٔ تالیف پرمفصل روشنی ڈالی ہے، ذیل میں ہم اس کے کچھ فقرات آپ کے منہج وطریقۂ تالیف کو بیان کرنے کے لئے نقل کررہے ہیں:

۱- میں نے ہرباب میں صرف ایک یا دو حدیثیں نقل کی ہیں، گو اس باب میں اور بھی صحیح حدیثیں موجود ہیں، اگر ان سب کو میں ذکر کرتا تو ان کی تعداد کافی بڑھ جاتی، اس سلسلہ میں میرے پیش نظر صرف قرب منفعت رہاہے۔

۲- اگر کسی روایت کے دویا تین طرق سے آنے کی وجہ سے میں نے کسی باب میں اسے مکرر ذکرکیا ہے تو اس کی وجہ صرف سیاق کلام کی زیادتی ہے ، بسااوقات بعض سندوں میں کوئی لفظ زائد ہوتاہے جو دوسری سند میں نہیں ہوتا ، اس زائد لفظ کو بیان کرنے کے لئے میں نے ایسا کیا ہے۔

۳-بعض طویل حدیثوں کو میں نے اس لئے مختصر کردیا ہے کہ اگر میں انہیں پوری ذکر کرتاتوبعض سامعین (وقراء) کی نگاہ سے اصل مقصد اوجھل رہ جاتا، اور وہ اصل نکتہ نہ سمجھ پاتے، اس وجہ سے میں نے زوائد کو حذف کرکے صرف اس ٹکڑے کو ذکر کیا ہے ، جو اصل مقصد سے مناسبت ومطابقت رکھتا ہے۔

۴- کتاب السنن میں میں نے کسی متروک الحدیث شخص سے کوئی روایت نہیں نقل کی ہے، اور اگر صحیح روایت کے نہ ہونے کی وجہ سے اگر کسی باب میں کوئی منکر روایت آئی بھی ہے، تو اس کی نکارت واضح کردی گئی ہے۔

۵- میری اس کتاب میں اگر کوئی روایت ایسی آئی ہے جس میں شدید ضعف پایا جاتاہے تو اس کا یہ ضعف بھی میں نے واضح کردیا ہے، اور اگر کسی روایت کی سند صحیح نہیں اور میں نے اس پرسکوت اختیار کیا ہے تو وہ میرے نزدیک صالح ہے، اور نسبتہً ان میں بعض بعض سے اصح ہیں۔

۶- اس کتاب میں بعض روایتیں ایسی بھی ہیں جو غیر متصل، مرسل اور مدلس ہیں، بیشتر محدثین ایسی روایتوں کو مستند و معتبر مانتے ہیں اور ان پر متصل ہی کا حکم لگاتے ہیں۔

۷- میں نے کتاب السنن میں صرف احکام کی حدیثوں کو شامل کیا ہے اس میں زہد اور فضائل اعمال وغیرہ سے متعلق حدیثیں درج نہیں کیں، یہ کتاب کل چارہزار آٹھ سو احادیث پرمشتمل ہے، جو سب کی سب احکام کے سلسلہ کی ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
احادیث سنن ابی داود صحت وضعف کے اعتبار سے

حافظ ابوعبد اللہ محمد بن اسحاق بن مندہ کا بیان ہے: ’’ ابوداود اورنسائی دونوں کی شرط ہے کہ وہ ایسے لوگوں کی روایت کی تخریج کرسکتے ہیں جن کے متروک ہونے پر علماء کا اجماع نہ ہو بشرطیکہ حدیث کی سند متصل ہو اس میں انقطاع اور ارسال واقع نہ ہو ‘‘ (شروط ابن مندہ)۔

اس سلسلہ میں خود امام ابوداودفرماتے ہیں: ’’میں نے اپنی کتاب میں کوئی ایسی روایت ذکرنہیں کی ہے جس کے متروک ہونے پر لوگوں کا اتفاق ہو‘‘۔
آپ کے اس بیان میں صراحت ہے کہ کتاب ’’ السنن‘‘ میں ضعیف احادیث موجود ہیں، بلکہ ایسی روایات بھی ہیں جو بہت زیادہ کمزور ہیں، اور ان کے ضعف کو انہوں نے کھول کر بیان کردیاہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
احادیث سنن ابی داود بقاعی کی نظر میں:

امام بقاعی ابو داود کے مذکورہ بالا قول : ( جو ان کے مکتوب بنام اہل مکہ میں موجود ہے) کو ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں: ان کے اس قول کی روسے سنن میں وارد احادیث کی پانچ قسمیں بنتی ہیں:

۱- صحیح جس سے انہوں نے صحیح لذاتہ مراد لیاہوگا۔
۲- صحیح کے مشابہ جس سے ان کی مراد صحیح لغیرہ ہوگی۔
۳- درجہ صحت کے قریب غالباً اس سے وہ حسن لذاتہ مراد لیتے ہوں گے۔
۴- جس میں شدید ضعف ہو۔
۵- ان کے اس قول: ’’وما سكتت عنه فهو صالح‘‘ (جن احادیث پر میں نے سکوت اختیار کیا ہے وہ صالح ہیں) سے سنن میں وارد احادیث کی ایک پانچویں قسم ان احادیث کی سمجھی جاتی ہے جو بہت زیادہ کمزور نہ ہوں،اس قسم کی روایتیں اگر تائید و تقویت سے محروم ہوں تو وہ صرف اعتبار کے قبیل سے ہیں ۔
۶- لیکن اگر انہیں کسی کی تائید و تقویت مل جائے تو بحیثیت مجموعی وہ ’’حسن لغیرہ‘‘ کے درجہ پر آجاتی ہیں، اور استدلال واحتجاج کے لائق بن جاتی ہیں، اس طرح ایک چھٹی قسم بھی وجود میں آجاتی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
احادیث سنن ابی داود امام ذہبی کی نظر میں:

امام ذہبی کابیان ہے کہ ابوداود کی کتاب میں وارد احادیث کے مختلف درجے ہیں، آپ نے ابن داسہ کا یہ قول نقل کیا کہ’’میں نے ابو داود کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ میں نے اپنی سنن میں صحیح اور اس سے قریب کی احادیث ذکر کی ہیں، اور اگر ان میں شدید ضعف ہے تو میں نے اس کو بیان کر دیا ہے‘‘، ذہبی کہتے ہیں: ’’میں کہتا ہوں: امام رحمہ اللہ نے اپنے اجتہاد کے مطابق اسے پورا پورا بیان کیا اور شدید ضعف والی احادیث کو جس کا ضعف قابل برداشت نہیں تھا بیان کردیا، اور قابل برداشت خفیف ضعف سے اغماض برتا، تو ایسی حالت میں آپ کے کسی حدیث پر سکوت سے یہ لازم نہیں آتا کہ یہ حدیث آپ کے یہاںحسن کے درجے کی ہو،بالخصوص جب ہم حسن کی تعریف پر اپنی جدید اصطلاح کا حکم لگائیں جو سلف کے عرف میںصحیح کی اقسام میں سے ایک قسم کی طرف لوٹتی ہے، اور جمہور علماء کے یہاں جس پر عمل واجب ہوتا ہے، یا جس سے امام بخاری بے رغبتی برتتے ہیں اور امام مسلم اسے لے لیتے ہیں، وبالعکس، تو یہ مراتب صحت کے ادنی مرتبہ میں ہے، اور اگر اس سے بھی نیچے گر جائے تو احتجاج واستدلال کی حد سے خارج ہوجاتی، اور حسن اور ضعیف کے درمیان متجاذب قسم بن جاتی ہے، تو ابو داود کی کتاب السنن میں:

۱- سب سے اونچا درجہ ان روایات کا ہے جن کی تخریج بخاری ومسلم دونوں نے کی ہے، اور جو تقریباً نصف کتاب پر مشتمل ہے۔
۲- اس کے بعد وہ حدیثیں ہیں جن کی تخریج بخاری ومسلم (شیخین) میں سے کسی ایک نے کی، اور دوسرے نے نہیں کی ہے۔
۳- پھر اس کے بعد وہ روایات ہیں جن کو بخاری ومسلم (شیخین) نے روایت نہیں کیا، اور وہ جید الاسناد ہیں اور علت وشذوذ سے محفوظ ہیں۔
۴- پھر وہ روایات ہیں جس کی اسناد صالح ہے، اور علماء نے ان کو دو یا اس سے زیادہ ضعیف طرق سے آنے کی وجہ سے قبول کر لیا ہے کہ ان میں سے ہر سند دوسرے کے لئے تقویت کا باعث ہے۔
۵- پھراس کے بعد وہ احادیث ہیں جن کی سندوں کا ضعف رواۃ کے حفظ میں کمی کی وجہ سے ہے، ایسی احادیث کو ابو داود قبول کر لیتے ہیں اور اکثر اس پر سکوت اختیار فرماتے ہیں۔
۶- ان کے بعد سب سے آخری درجہ ان احادیث کا ہے جن کے رواۃ کا ضعف واضح ہوتاہے، ایسی روایتوں پر وہ عام طور سے خاموش نہیں رہتے ہیں، ان کا ضعف ذکر کردیتے ہیں۔
۷- اور اگرکبھی خاموش رہتے بھی ہیں تو اس کی وجہ اس کے ضعف کی شہرت و نکارت ہوتی ہے، واللہ اعلم‘‘ (السیر ۱۳؍ ۲۱۴- ۲۱۵)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
سکوت ابی داود پر حافظ ابن حجر کی رائے:

امام ابوداود کا بعض احادیث پرسکوت کبھی اس وجہ سے ہوتاہے کہ وہ حدیث زیادہ ضعیف نہیں ہوتی، اور کبھی ضعیف روایت پروہ اس لئے سکوت فرماتے ہیں کہ اس روایت کا ضعف بہت مشہور ومعروف ہوتاہے۔
حافظ ابن حجر فرماتے ہیں : اس سے ان لوگوں کے طریقہ کا ضعف ظاہرہوتاہے جو امام ابوداود کی ہر اس حدیث کو لائق استدلال جانتے ہیںجس پر آپ نے سکوت اختیار کیا ہے،آپ ابن لہیعہ، صالح مولیٰ توأمہ،عبداللہ بن محمد بن عقیل،موسیٰ بن وردان،سلمہ بن فضل اور دلہم بن صالح جیسے کمزور راویوں کی حدیثوں کی تخریج کرتے ہیں، اور ان پر سکوت اختیار کرتے ہیں، لہذا ناقد حدیث کے لئے قطعاً یہ روا نہیں کہ وہ ان روایتوں پر سکوت کے معاملے میں امام ابوداود کی تقلید کرے اور احتجاج واستدلال میں ان کی متابعت کرے، بلکہ ایسی روایتوں کے متعلق اس کا وطیرہ یہ ہونا چاہئے کہ وہ خود ان میں غور کرے اور دیکھے کہ کیا ان کا کوئی متابع موجود ہے جس سے ان کو تائید و تقویت ملتی ہو، یا وہ منفرد وغریب ہیں تا کہ اس کے بارے میں توقف کیاجائے، خاص کر جب وہ اپنے سے زیادہ ثقہ راوی کی روایت کے مخالف ہوں تو وہ یقینا اپنے درجے سے گرکر منکر کے قبیل سے ہوجائیں گی۔
ابو داود نے بسا اوقات ان سے بھی زیادہ ضعیف راویوں مثلاً حارث بن وجیہ، صدقہ دقیقی، عثمان بن واقد عمری، محمد بن عبدالرحمن بیلمانی، ابوجناب کلبی، سلیمان بن ارقم اور اسحاق بن عبداللہ بن فروہ جیسے متروکین کی روایتوں کی تخریج کی ہے۔
اسی طرح اس کتاب میں بہت سی حدیثیں ایسی ہیں جن کی سندیں منقطع ہیں، یا ان کے رواۃ مدلس ہیں، اور وہ طریق حسن سے روایت کرتے ہیں یا ان کے رواۃ کے ناموں میں ابہام ہے ایسی تمام روایتوں پرمحض اس وجہ سے حسن کا حکم لگانا کہ امام ابوداود نے ان پر کوئی کلام نہیں کیا ہے درست نہیں، کیوں کہ:

۱- وہ کبھی اس لئے بھی سکوت اختیار کرتے ہیں کہ وہ اس سے پہلے راوی پر خود اپنی اس کتاب میں تفصیل سے کلام کرچکے ہوتے ہیں، بنابریں وہ سابقہ کلام پر اکتفا کرتے ہیں اس کے اعادہ کی ضرورت محسوس نہیں کرتے ۔

۲- کبھی آپ کا سکوت غفلت و نسیان کے سبب ہوتاہے۔

۳- اور کبھی اس لئے ہوتاہے کہ راوی کا ضعف بہت واضح ہوتاہے اس کے متروک الحدیث ہونے پر ائمہ میں اتفاق پایا جاتاہے جیسے ابوالحویرث اور یحییٰ بن العلاء وغیرہم ۔

۴- اور کبھی جو لوگ امام ابوداود سے روایت کرتے ہیں ان کے اختلاف کے سبب ایسا ہوتاہے اور ایسا بہت ہے، مثال کے طورپر ابوالحسن بن العبد کا روایت کردہ نسخہ ہے، اس کے بہت سے راویوں اورسندوں میں کلام ہے جو لؤلؤی کے نسخہ میں نہیں ہے گو یہ نسخہ اس سے مشہور ہے۔

۵- اور کبھی سنن کے علاوہ دوسری تصنیفات میں اس حدیث کے ضعف پرتفصیلی گفتگو کرتے ہیں اورسنن میں سکوت اختیار کرتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
سکوت ابی داود پر محدث عصر علامہ محمد ناصر الدین الالبانی رحمہ اللہ کا جامع تبصرہ :

علامہ البانی نے صحیح وضعیف ابی داود کے مقدمہ میں ابو داود کے سکوت سے متعلق جوتفصیل بیان کی ہے وہ درج ذیل ہے:

علم حدیث کے خدام کے ما بین یہ مشہور ہے کہ جن احادیث پر امام ابوداود نے اپنی سنن میں سکوت فرمایا، اورکوئی جرح نہیں کی ہے تووہ قابل استناد اور لائق استدلال ہیں، اس شہرت کا سبب خود امام موصوف ہیں، جن کی عبارتوں اور الفاظ کا یہ خلاصہ ہے، بلکہ بعض اقوال تو منصوص و صریح ہیں، میرے پاس اس موضوع پر امام موصوف کے چار اقوال ہیں، جن کو یہاں ذکر کرکے اپنی فہم کے مطابق اس مسئلہ پرگفتگو کروں گا، اور اپنی رائے کی تائید میں ائمہ کے اقوال پیش کروں گا۔

۱- امام ابوداود سنن کے بارے میں اہل مکہ کے نام اپنے مشہور رسالہ میں فرماتے ہیں : میری کتاب سنن میں کوئی راوی متروک الحدیث نہیں ہے، اگر کوئی حدیث منکر ہے تو میں نے اس کا منکر ہونا واضح کردیا ہے، اور اس باب میں اس موضوع پر اس طرح کی اس کے علاوہ اورکوئی حدیث نہیں ہے، پھر فرمایا : ’’وما كان في كتابي من حديث فيه وهن شديد فقد بينته، وما لم أذكر فيه شيئًا فهو صالح وبعضها أصح من بعض‘‘ ۔
میری کتاب میں موجود احادیث میں اگر شدید ضعف اور کمزوری ہے، تو میں نے اس کو واضح کردیا ہے، اورجن احادیث میں میں نے کچھ کلام نہیں کیا ہے تو وہ صالح ہیں، اور بعض احادیث بعض سے زیادہ صحیح ہیں۔

۲- اور فرمایا: ’’رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے ۵ لاکھ احادیث لکھی ہیں جن کے انتخاب پر یہ سنن مشتمل ہے، اس میں میں نے ۴ ہزار آٹھ سو احادیث جمع کی ہیں، ’’ذكرت الصحيح وما يشبهه وما يقاربه‘‘ اس میں صحیح اور اس کے مشابہ اور قریب احادیث ذکر کی ہیں (تاریخ بغداد : ۹؍۵۷)۔

۳- ’’ و روی عنہ انہ : یذکر فی کل باب اصح ما عرفہ فیہ‘‘ آپ سے منقول ہے کہ آپ نے ہرباب میں صحیح ترین احادیث ذکر کی ہیں، (الباعث الحثیث فی اختصار علوم الحدیث (۳۰)۔

۴- ’’ ویروی عنہ انہ قال: ’’وما سكتُّ عنه فهو حسن‘‘ یہ بھی منقول ہے کہ جس حدیث پر میں نے سکوت کیاہے وہ حسن ہے۔ (الباعث الحثیث )
آخری قول( بشرط صحت) سکوت ابوداود سے استدلال کی شہرت کے باب میں صریح اور واضح ہے۔
پہلے کے دونوں اقوال میں اس مسئلہ سے تعرض نہیں ہے، ہاں ! دوسرے قول سے آخری قول کو تقویت ہوسکتی ہے، اس لئے کہ صحیح کے مشابہ اور قریب حدیث حسن ہی ہے، اور امام ابوداود جن احادیث پر کلام کریں یا جن کی تعلیل بیان فرمادیں وہ حسن کے قبیل سے نہیں ہے كما لا يخفى.
پہلی روایت میں ’’وهن شديد‘‘ (شدید کمزوری) کا مفہوم مخالف یہ ہے کہ جس حدیث میں زیادہ ضعف نہیں ہوگا امام ابوداود اس کو بیان نہیں کریں گے۔
اس مفہوم مخالف کو مراد لے لینے کی صورت میں اس کے درمیان اور اس قول صریح: ’’وما له لم اذكر فيه شيئاً فهو صالح ’’(جس حدیث پر میں کچھ کلام نہ کروں وہ صالح ہے)کے مابین تطبیق دینے کی ضرورت ہے، تو یا یہ کہاجائے کہ اس مفہوم مخالف کا کوئی اعتبار ولحاظ نہیں ہے کیوں کہ یہ منطوق کے مخالف ہے، اور یہ (مفہوم مخالف ) ہمارے یہاں ضعیف اور مرجوح ہے، دونوں اقوال کے ما بین تطبیق وتوفیق یوںممکن ہے کہ ابوداود کے یہاں ’’صالح ‘‘ میں وہ ضعیف احادیث شامل ہوں، جن کا ضعف شدید نہ ہو تو ایسی صورت میں منطوق اور مفہوم کے مابین کوئی تعارض نہیں، اور بڑے غوروفکر کے بعد یہ ایسی بات ہے جس پرنفس کو اطمینان اور دل کو انشراح ہوتاہے، حافظ ابن حجر کا میلان بھی اسی طرف ہے، فرماتے ہیں : ابوداود کے کلام میں ’’ صحیح‘‘ کا لفظ عام ہے کہ وہ استدلال وحجت کے لئے ہے یا اعتبار کے لئے، تو حدیث کے حسن پھر صحیح کے درجہ تک پہنچنے کی صورت میں لفظ’’صالح‘‘ سے استدلال وحجت کا معنی مراد ہوگا، اور جو حدیث صحیح وحسن کے درجہ کو نہ پہنچے تو وہ دوسرے معنی میں یعنی اعتبار کے قبیل سے ہے، اور جو (ان دونوں قسموں ) سے پیچھے رہ جائے تووہ ایسی حدیث ہے جس میں ’’ضعف شدید‘‘ ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی یہ اچھوتی تحقیق ہے، اور علم حدیث میں صحیح نقدونظر سنن ابی داود میں ا ن چار اقسام کے وجود کی شاہد ہے ، اور ان احادیث میں سے سند ا ً کمزور و واہی اور واضح کمزور احادیث ہیں جن پر امام ابوداود نے سکوت فرمایا، یہاں تک کہ امام نووی -رحمہ اللہ- نے بعض احادیث کے بارے میں فرمایا:
’’ امام ابوداود نے اس کے ضعف کی صراحت اس واسطے نہیں فرمائی کہ اس کاضعف ظاہرہے‘‘۔
حافظ منذری ترغیب وترہیب کے مقدمہ (۱؍۸) میں فرماتے ہیں کہ ’’ ابوداود نے حدیث کی تضعیف پر سکوت اختیار کرکے جو تساہل کیا ہے املاء کے وقت اکثر احادیث پر جو یاد آگیا تو میں اس پر متنبہ کروں گا۔
پھر فرمایا: ’’ہر حدیث جس کی نسبت میں نے ابوداود کی طرف کی، اور اس پرسکوت کیا تو ویسے ہی ہے جیسے ابوداود نے ذکر کیا، اور یہ احادیث درجہ ٔ حسن سے کم درجہ کی نہیں ہیں، ہوسکتاہے کہ شیخین یا کسی ایک کی شرط پر ہوں‘‘ ۔
اس بنا پر حافظ ابن الصلاح نے مقدمۂ علوم حدیث میں پہلے تین اقوال کے تذکرہ کے بعد مندرجہ ذیل جو بات کہی ہے وہ بظاہر درست نہیں ہے، فرماتے ہیں:’’ اس بناء پر آپ کی کتاب السنن میں مذکور احادیث جو صحیحین میں سے کسی میں موجود نہیں اور نہ تصحیح و تحسین کرنے والے اہل علم نے ان کی صحت پر تنصیص فرمائی ہے، ہمیں ایسی احادیث کے بارے میں معلوم ہواکہ یہ ابوداود کے یہاں حسن کے درجہ میں ہیں، اور ان میں بعض وہ احادیث بھی شامل ہوں گی جو نہ ان کے علاوہ کے یہاں حسن ہوں گی، اور نہ سابقہ حسن کے ضابطہ (جس کی ہم نے تحقیق کی ہے) کے تحت ان کا اندراج ہوگا‘‘۔
ہمارے پاس اس مسئلہ میں ابوداود کا کوئی قول ایسا نہیں ہے جو ابن صلاح کے مذہب کے لئے دلیل بن سکے، صرف آخری قول ہے جس کی صحت کا ہمیں علم نہیں ہے، حتی کہ خود ابن صلاح نے اس کو اپنی کتاب میں ذکر کرنے سے اعراض کیا ہے، ظاہر ہے کہ ابن الصلاح نے ابوداود کے منطوق وصریح قول ( فھو صالح) پر اعتماد کیا ہے، اور اس کے سابق الذکر مفہوم کی طرف التفات نہیں کیا، سابقہ بیان کی روشنی میں ابن الصلاح کی طرف سے یہ بات درست نہیں ہے،اور اس لئے بھی کہ خود ابن الصلاح نے حافظ ابن مندہ سے یہ نقل کیا ہے: ’’كان أبوداود يخرج الإسناد الضعيف إذا لم يجد في الباب غيره، لأنه أقوى عنده من رأي الرجال‘‘ (ابوداود جس باب میں ضعیف اسناد کے علاوہ کچھ اور نہیں پاتے تھے تو ضعیف اسناد کی تخریج کرتے تھے، اس لئے کہ یہ ان کے نزدیک آراءِ رجال سے قوی ترہے)۔
اوراسی لئے کئی محقق علماء نے ابن الصلاح کی تردید کی ہے، چنانچہ ابن کثیر دمشقی مختصر علوم حدیث میں آپ پر تردید کرتے ہوئے کہتے ہیں :
’’ میں کہتاہوں کہ ابوداود سے سنن کی بہت ساری روایات ہیں،بعض نسخوں میں کچھ کلام پایا جاتا ہے،بلکہ کچھ احادیث ایسی پائی جاتی ہیں جو دوسری روایتوں میں نہیں ہوتیں، ابوعبید آجری کی کتاب جو جرح وتعدیل اور تصحیح وتعلیل کے مباحث سے متعلق ابوداود سے سوالات پرمشتمل ہے، یہ ایک مفید کتاب ہے، ان سوالات میں وہ احادیث و رجال سند ہیں، جن کا ذکر ابو داود نے اپنی سنن میں کیا ہے، پس ابوداود کے اس قول : « وما سكتُّ عليه فهو حسن» ’’جس حدیث پر میں نے سکوت اختیار کیا وہ صالح ہے‘‘ پر انتباہ اور تیقظ کی ضرورت ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
مناوی فیض القدیر میں ابوداود کے پہلے قول کے نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں : ذہبی نے فرمایا: ابوداود نے وعدہ پوراکیا ، اور ظاہری ضعف کو بیان کردیا، اور تصحیح یا تضعیف کی حامل احادیث پر سکوت فرمایا، تو جن احادیث پر سکوت فرمایا وہ ان کے یہاں حسن نہ ہوں گی، بلکہ جیساکہ ابن صلاح وغیرہ کا گمان ہے: لا بدی طورپر ان میں ضعف ہوسکتاہے، اس بات کو ابن مندہ پہلے ہی کہہ چکے ہیں (جیسے کہ پہلے گزرا ) مناوی نے آگے فرمایا: ابن عبدالہادی کہتے ہیں کہ یہ ان لوگوں کی تردید ہے جو کہتے ہیںکہ ابوداود کا سکوت قابل استدلال واحتجاج ہے، اور یہ کہ یہ ابوداود کے یہاں حسن ہے، جو چیز ظاہر ہوتی ہے وہ یہ کہ جن احادیث پر ابوداود نے سکوت فرمایا ہے اور وہ صحیحین میں نہیں ہیں، ان کی اقسام اس طور پر ہیں کہ ان میں لائق استدلال صحیح احادیث ہیں اور ایسی ضعیف احادیث جو تنہا و مستقلاً قابل استدلال نہیں، اور ان دونوں کے درمیان کی ایک قسم تو سنن ابو داود میں احادیث کی ۶؍یا ۸؍ اقسام ہیں:
۱- صحیح لذاتہ ۲- صحیح لغیرہ یہ دونوں قسمیں ضعف سے خالی ہیں۔
۳- شدید ضعف والی احادیث ۴- ایسی احادیث جن کا ضعف شدید نہیں۔
۵- ان دونوں قسموں میں سے وہ احادیث جن کے ضعف کو پورا کرنے کے لئے باہر سے احادیث موجود ہوں۔
۶- اور ایسی احادیث جن کی تقویت کے لئے احادیث موجود نہ ہوں۔
۷- ان دونوں قسموں سے پہلی دو قسمیں ایسی احادیث کی ہیں جن کا ضعف امام ابوداود نے خود بیان کردیا ہے۔
۸- اور جن کا وہن (ضعف ) بیان نہیں کیا ہے‘‘۔
البانی صاحب کہتے ہیں:یہ تقسیم صحیح ہے،اس بیان سے واضح ہوگیا کہ ابوداود کا ہرسکوت ان کے نزدیک قابل استدلال حدیث حسن نہیں ہے، رہ گئے دوسرے علماء تو ان کے نزدیک اس مسئلہ میں کوئی جدال وبحث کی بات ہی نہیں ہے حتی کہ مرجوح قول کے قائلین کے یہاں بھی یہ مسئلہ اختلافی نہیں ہے ، ابن الصلاح کے قول میں اس کی طرف اشارہ موجود ہے، اور ائمہ ٔمحققین (جیسے: حافظ منذری، نووی، زیلعی،عراقی اور ابن حجر وغیرہم) کا عمل اسی پر ہے، چنانچہ ان علماء نے ابوداود کے سکوت والی بہت ساری احادیث کو ضعیف قراردیا ہے، جیساکہ آپ ضعیف سنن ابی داود میں ملاحظہ کریں گے ان شاء اللہ(مقدمہ صحیح وضعیف ابی داود ۱؍۱۳-۱۹، ط غراس، کویت) ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
سنن ابی داود کی خصوصیات

سنن ابی داود کی سب سے اہم خصوصیت یہ ہے کہ وہ صرف احکام ومسائل سے متعلق روایات پرمشتمل ہے، امام صاحب سے پہلے اس قسم کی کتابیں لکھنے کارواج نہ تھا، بلکہ ان کاتعلق احکام، تفسیر وقصص، اخبار ومواعظ اورادب وزہد وغیرہ سے تھا، یعنی وہ جوامع اور مسانید تھیں جیسا کہ’’رسالہ مکیہ‘‘ میں امام صاحب نے خو د ہی ذکرکیا ہے، اور آپ نے ایک انو کھی راہ اختیار کی ہے، لہذا اپنی اسی خصوصیت کی بنا ء پر یہ کتاب ائمہ اور علماء آثار کی توجہات کا مرکز بن گئی ، جیسا کہ اما م نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’فأما السنن المحضة فلم يقصد أحد منهم جمعها واستيفائها ولم يقدر على تلخيصها واختصار مواضعها من اثناء تلك الأحاديث الطويلة كما حصل لأبي داود، لهذا حل كتابه عند أئمة أهل الحديث وعلماء الأثر محل العجب فضربت فيه اكباد الإبل ودامت إليه الرحل‘‘ (تهذيب الاسماء واللغات ج 2 ص227).
رہ گیا سنن یعنی احادیث احکام کا معاملہ تو ان کی بھرپور جمع وتدوین ،اور طویل احادیث سے ان کی تلخیص واختصار کا کام ا بو داود کے علاوہ کسی اور نے اس کا ارادہ نہیں کیا ، ا س لئے ائمہء اہل حدیث اور علمائے حدیث وأثر کے یہاں یہ حیران کن تالیف ہے، جس کے حصول کے لئے اسفار ورحلات کا تسلسل برابر قائم رہا۔

۲- فقہی احادیث کا جتنا بڑا ذخیرہ اس کتاب میں موجود ہے، وہ صحاح میں سے کسی دوسری کتاب میں نہیں، حافظ ابوجعفربن زبیرغرناطی (م ۷۰۸؁ھ) صحاح ستہ کی خصوصیات کا ذکرکرتے ہوئے رقمطراز ہیں: <ولأبي داود في حصر أحاديث الأحكام واستيعابها ما ليس لغيره> (تهذيب الأسماء واللغات ج 2ص 227) ابوداود نے احادیث احکام کے حصر واستیعاب کا جو کام کیا ہے، وہ دوسروں نے نہیں کیا ہے۔
اور اسی وجہ سے یہ کتاب فقہاء ومجتہدین کا معتمد علیہ مأخذ رہی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
۳- جامع ترمذی کی طرح سنن ابی داود کی بھی اکثر وبیشتر روایات ائمہ مجتہدین، تابعین وتبع تابعین،اور فقہاء امت میں معمول بہا ر ہی ہیں،خصوصا امام ما لک رحمہ اللہ ، ا مام سفیان ثوری رحمہ اللہ ، امام اوزاعی رحمہ اللہ وغیرہ محدثین وفقہاء کے مسالک ومذاہب کے لئے یہ کتاب اصل وبنیاد کی حیثیت ر کھتی ہے۔
علامہ خطابی فرماتے ہیں کہ یہ فقہاء ومجتہدین کے اختلاف میں حکم اورحجت ہے:’’وعليه معول أهل العراق ومصر والمغرب وكثير من أقطار الأرض‘‘ (معالم السنن ج ۱ص ۶)

۴- کتاب السنن میں صحیح الاسناد قوی، متصل اور مرفوع احادیث کا خاص اہتمام کیاگیا ہے، اس کی صحت کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ امام صاحب نے پہلے پانچ لاکھ احادیث جمع کی تھیں، اور پھر ان میں سے چار ہزار آٹھ سو احادیث کاانتخاب کیا، جو ایک مبسوط مجموعہ کی شکل میں ہمارے سامنے ہے، امام صاحب کے اپنے بیان کے مطابق آپ نے اپنے علم ویقین سے صحیح بلکہ اصح روایات نقل کرنے کی کوشش فرمائی ہے، اور ہمیشہ ان احادیث کو ترجیح دی ہے، جو سند کے اعتبار سے بلند اور اعلی درجہ کی ہیں۔
علامہ خطابی فرماتے ہیں:’’حكي لنا عن أبي داود أنه قال: ما ذكرت في كتابي حديثاً اجتمع الناس على تركه‘‘ .
 
Top