• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
28-بَاب مَا جَاءَ فِي الْغَالِّ مَا يُصْنَعُ بِهِ
۲۸-باب: مال غنیمت میں خیانت کرنے والے کا بیان​


1461- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو السَّوَّاقُ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ صَالِحِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ زَائِدَةَ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِاللهِ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: "مَنْ وَجَدْتُمُوهُ غَلَّ فِي سَبِيلِ اللهِ فَاحْرِقُوا مَتَاعَهُ"، قَالَ صَالِحٌ فَدَخَلْتُ عَلَى مَسْلَمَةَ وَمَعَهُ سَالِمُ بْنُ عَبْدِاللهِ فَوَجَدَ رَجُلاً قَدْ غَلَّ، فَحَدَّثَ سَالِمٌ بِهَذَا الْحَدِيثِ فَأَمَرَ بِهِ فَأُحْرِقَ مَتَاعُهُ، فَوُجِدَ فِي مَتَاعِهِ مُصْحَفٌ، فَقَالَ سَالِمٌ: بِعْ هَذَا وَتَصَدَّقْ بِثَمَنِهِ.
قَالَ أَبُوعِيسَى: هَذَا الْحَدِيثُ غَرِيبٌ لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَبَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ، وَهُوَ قَوْلُ الأَوْزَاعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ، قَالَ: وَسَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ، فَقَالَ: إِنَّمَا رَوَى هَذَا صَالِحُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ زَائِدَةَ، وَهُوَ أَبُو وَاقِدٍ اللَّيْثِيُّ، وَهُوَ مُنْكَرُ الْحَدِيثِ، قَالَ مُحَمَّدٌ وَقَدْ رُوِيَ فِي غَيْرِ حَدِيثٍ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ فِي الْغَالِّ فَلَمْ يَأْمُرْ فِيهِ بِحَرْقِ مَتَاعِهِ. قَالَ أَبُوعِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: د/الجہاد ۱۴۵ (۲۷۱۳)، (تحفۃ الأشراف: ۶۷۶۳)، دي/السیر ۴۹ (۲۵۳۷) (ضعیف)
(سند میں ''صالح بن محمد بن زائدہ'' ضعیف ہیں)
۱۴۶۱- عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جس شخص کو اللہ کی راہ میں مال (غنیمت )میں خیانت کرتے ہوئے پاؤ اس کا سامان جلادو''۔
صالح کہتے ہیں: میں مسلمہ کے پاس گیا ، ان کے ساتھ سالم بن عبداللہ تھے تومسلمہ نے ایک ایسے آدمی کوپایا جس نے مال غینمت میں خیانت کی تھی، چنانچہ سالم نے(ان سے)یہ حدیث بیان کی، تو مسلمہ نے حکم دیا پھراس (خائن )کا سامان جلادیاگیا اور اس کے سامان میں ایک مصحف بھی پایاگیاتو سالم نے کہا: اسے بیچ دواور اس کی قیمت صدقہ کردو۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں،۲- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے اس حدیث کے بارے میں پوچھاتو انہوں نے کہا: اسے صالح بن محمدبن زائدہ نے روایت کیا ہے، یہی ابوواقدلیثی ہے،یہ منکرالحدیث ہے،۳- بخاری کہتے ہیں کہ مال غنیمت میں خیانت کرنے والے کے سلسلے میں نبی اکرم ﷺ سے دوسری احادیث بھی آئی ہیں،آپ نے ان میں اس (خائن)کے سامان جلانے کا حکم نہیں دیا ہے، ۴- بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے، اوزاعی، احمد اوراسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
29- بَاب مَا جَاءَ فِيمَنْ يَقُولُ لآخَرَ يَا مُخَنَّثُ
۲۹-باب: دوسرے کومخنث (ہجڑا) کہنے والے کے حکم کا بیان​


1462- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي حَبِيبَةَ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ الْحُصَيْنِ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "إِذَا قَالَ الرَّجُلُ لِلرَّجُلِ يَا يَهُودِيُّ! فَاضْرِبُوهُ عِشْرِينَ، وَإِذَا قَالَ: يَا مُخَنَّثُ! فَاضْرِبُوهُ عِشْرِينَ، وَمَنْ وَقَعَ عَلَى ذَاتِ مَحْرَمٍ فَاقْتُلُوهُ".
قَالَ أَبُوعِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَإِبْرَاهِيمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ يُضَعَّفُ فِي الْحَدِيثِ، وَقَدْ رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ، رَوَاهُ الْبَرَائُ بْنُ عَازِبٍ وَقُرَّةُ بْنُ إِيَاسٍ الْمُزَنِيُّ أَنَّ رَجُلاً تَزَوَّجَ امْرَأَةَ أَبِيهِ فَأَمَرَ النَّبِيُّ ﷺ بِقَتْلِهِ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَصْحَابِنَا، قَالُوا مَنْ أَتَى ذَاتَ مَحْرَمٍ وَهُوَ يَعْلَمُ فَعَلَيْهِ الْقَتْلُ، و قَالَ أَحْمَدُ: مَنْ تَزَوَّجَ أُمَّهُ قُتِلَ، و قَالَ إِسْحَاقُ: مَنْ وَقَعَ عَلَى ذَاتِ مَحْرَمٍ قُتِلَ.
* تخريج: ق/الحدود ۱۵ (۲۵۶۸)، (تحفۃ الأشراف: ۶۰۷۵) (ضعیف)
(سند میں ''ابراہیم بن اسماعیل'' ضعیف راوی ہیں)
۱۴۶۲- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:'' جب کوئی آدمی دوسرے کو یہودی کہہ کرپکارے تو اسے بیس کوڑے لگاؤ، اورجب مخنث(ہجڑا) کہہ کرپکارے تو اسے بیس کوڑے لگاؤ، اورجوکسی محرم کے ساتھ زناکرے اسے قتل کردو''۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ہم اس حدیث کو صرف اسی سند سے جانتے ہیں،۲- ابراہیم بن اسماعیل بن علیہ حدیث کی روایت میں ضعیف ہیں،۳- نبی اکرمﷺ سے یہ کئی سندوں سے مروی ہے،۴- براء بن عازب اورقرہ بن ایاس مزنی سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے اپنے باپ کی بیوی سے نکاح کیا تو نبی اکرمﷺ نے اسے قتل کرنے کا حکم دیا،۵- ہمارے اصحاب (محدثین) کا اسی پر عمل ہے ، یہ لوگ کہتے ہیں: جوجانتے ہوے کسی محرم کے ساتھ زناکرے تو اس پر قتل واجب ہے،۶- (امام) احمد کہتے ہیں:جواپنی ماں سے نکاح کرے گا اسے قتل کیاجائے گا، ۷- اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں : جو کسی محرم کے ساتھ زنا کرے اسے قتل کیاجائے گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
30- بَاب مَا جَاءَ فِي التَّعْزِيرِ
۳۰-باب: تعزیر (تادیبی کاروائی) کا بیان​


1463- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبيبٍ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ عَبْدِاللهِ بْنِ الأَشَجِّ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللهِ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ بْنِ نِيَارٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "لاَ يُجْلَدُ فَوْقَ عَشْرِ جَلَدَاتٍ إِلاَّ فِي حَدٍّ مِنْ حُدُودِاللهِ".
قَالَ أَبُوعِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ بُكَيْرِ بْنِ الأَشَجِّ، وَقَدْاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي التَّعْزِيرِ، وَأَحْسَنُ شَيْئٍ رُوِيَ فِي التَّعْزِيرِ هَذَا الْحَدِيثُ.
قَالَ: وَقَدْ رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ ابْنُ لَهِيعَةَ عَنْ بُكَيْرٍ فَأَخْطَأَ فِيهِ، وَقَالَ عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللهِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ وَهُوَ خَطَأٌ، وَالصَّحِيحُ حَدِيثُ اللَّيْثِ بْنِ سَعْدٍ، إِنَّمَا هُوَ عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللهِ عَنْ أَبِي بُرْدَةَ بْنِ نِيَارٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ.
* تخريج: خ/الحدود ۴۲ (۶۸۴۸)، م/الحدود ۹ (۱۷۰۸)، د/الحدود ۳۹ (۴۴۹۱)، ق/الحدود ۳۲ (۲۶۰۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۷۲۰)، وحم (۳/۴۶۶)، دي/الحدود ۱۱ (۲۳۶۰) (صحیح)
۱۴۶۳- ابوبردہ بن نیار رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ فرمایا :'' دس سے زیادہ کسی کو کوڑے نہ لگائے جائیں ۱؎ سوائے اس کے کہ اللہ کی حدود میں سے کوئی حد جاری کرنا ہو '' ۲؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف بکیربن اشج کی روایت سے جانتے ہیں۔ ۲-تعزیرکے سلسلے میں اہل علم کا اختلاف ہے، تعزیرکے باب میں یہ حدیث سب سے اچھی ہے، ۳ - اس حدیث کو ابن لہیعہ نے بکیرسے روایت کیا ہے، لیکن ان سے اس سند میں غلطی ہوئی ہے، انہوں نے سنداس طرح بیان کی ہے : ''عن عبدالرحمن بن جابر بن عبد الله، عن أبيه، عن النبي ﷺ'' حالانکہ یہ غلط ہے، صحیح لیث بن سعد کی حدیث ہے ، اس کی سند اس طرح ہے: ''عن عبد الرحمن بن جابر بن عبد الله، عن أبي بردة بن نيار، عن النبي ﷺ''۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے کا صحیح محل یہ ہے کہ یہ بال بچوں اورغلام وخادم کی تادیب سے متعلق ہے کہ آدمی اپنے زیر لوگوں کو ادب سکھائے تودس کوڑے تک کی سزادے،رہ گئی دوسری وہ خطائیں جن میں شریعت نے کوئی حد مقررنہیں کی ہے جیساکہ خائن ، لٹیرے ، ڈاکواوراچکے پرخاص حدنہیں ہے تو یہ حاکم کی رائے پرمنحصرہے، اگر حاکم اس میں تعزیراً سزا دینا چاہے تودس کوڑے سے زیادہ جتناچاہے حتی کہ قتل تک سزادے سکتا ہے، رہ گئی زیرنظرحدیث تواس میں اور یہ ایسے تادیبی امور ہیں جن کا تعلق معصیت سے نہیں ہے ، مثلا والد کا اپنی چھوٹی اولاد کو بطور تأدیب سزا دینا۔
وضاحت ۲؎ : ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اس حدیث میں حدود سے مراد ایسے حقوق ہیں جن کا تعلق اوامر الٰہی اور منہیات الٰہی سے ہے، چنانچہ وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ اللّهِ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ} (البقرة:229) اسی طرح تِلْكَ حُدُودُ اللّهِ فَلاَ تَقْرَبُوهَا(البقرة:187) میں ''حدود'' کا یہی مفہوم ہے۔اگربات شریعت کے اوامرونواہی کی ہوتو حاکم کو مناسب سزاؤں کے اختیارکی اجازت ہے۔

* * *​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207

16- كِتَاب الصَّيْدِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ
۱۶-کتاب: شکار کے احکام ومسائل


1- بَاب مَا جَاءَ مَا يُؤْكَلُ مِنْ صَيْدِ الْكَلْبِ وَمَا لاَ يُؤْكَلُ
۱-باب: کتے کا کون ساشکارکھایاجائے اورکون سا نہ کھایاجائے؟​


1464- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، حَدَّثَنَا الْحَجَّاجُ، عَنْ مَكْحُولٍ، عَنْ أَبِي ثَعْلَبَةَ ح وَالْحَجَّاجُ، عَنِ الْوَلِيدِ بْنِ أَبِي مَالِكٍ، عَنْ عَائِذِاللهِ بْنِ عَبْدِاللهِ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَاثَعْلَبَةَ الْخُشَنِيَّ قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ! إِنَّا أَهْلُ صَيْدٍ، قَالَ: "إِذَا أَرْسَلْتَ كَلْبَكَ وَذَكَرْتَ اسْمَ اللهِ عَلَيْهِ فَأَمْسَكَ عَلَيْكَ فَكُلْ"، قُلْتُ: وَإِنْ قَتَلَ؟ قَالَ: وَإِنْ قَتَلَ، قُلْتُ: إِنَّا أَهْلُ رَمْيٍ، قَالَ: "مَارَدَّتْ عَلَيْكَ قَوْسُكَ فَكُلْ"، قَالَ: قُلْتُ: إِنَّا أَهْلُ سَفَرٍ نَمُرُّ بِالْيَهُودِ وَالنَّصَارَى وَالْمَجُوسِ فَلاَ نَجِدُ غَيْرَ آنِيَتِهِمْ، قَالَ: "فَإِنْ لَمْ تَجِدُوا غَيْرَهَا فَاغْسِلُوهَا بِالْمَائِ ثُمَّ كُلُوا فِيهَا وَاشْرَبُوا". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ.
قَالَ أَبُوعِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَعَائِذُاللهِ بْنُ عَبْدِاللهِ هُوَ أَبُوإِدْرِيسَ الْخَوْلاَنِيُّ، وَاسْمُ أَبِي ثَعْلَبَةَ الْخُشَنِيِّ جُرْثُومٌ، وَيُقَالُ جُرْثُمُ بْنُ نَاشِبٍ، وَيُقَالُ ابْنُ قَيْسٍ.
* تخريج: خ/الصید ۴ (۵۴۷۸)، و ۱۰ (۵۴۸۸)، و ۱۴ (۵۴۹۶)، م/الصید ۱ (۱۹۳۰)، و ۲ (۱۹۳۱)، د/الصید ۲ (۲۸۵۵)، ن/الصید ۴ (۴۲۷۱)، ق/الصید ۳ (۳۲۰۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۸۷۵)، وحم (۴/۱۹۳، ۱۹۴، ۱۹۵) ویأتي في السیر۱۱ (۱۵۶۰)، وفي الأطعمۃ ۷ (۶۹۷۱) (صحیح)
۱۴۶۴- ابوثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول! ہم لو گ شکاری ہیں ؟(شکارکے احکام بتائیے ؟) آپ نے فرمایا:'' جب تم (شکارکے لیے) اپنا کتاچھوڑو اوراس پر اللہ کا نام یعنی بسم اللہ پڑھ لوپھروہ تمہارے لیے شکارکو روک رکھے تو اسے کھاؤ ؟ میں نے کہا: اگرچہ وہ شکارکو مارڈالے ، آپ نے فرمایا:'' اگرچہ مارڈالے، میں نے عرض کیا: ہم لوگ تیراندازہیں(تواس کے بارے میں فرمائیے؟)آ پ نے فرمایا:'' تمہارا تیر جوشکار کرے اسے کھاؤ''، میں نے عرض کیا: ہم سفرکرنے والے لوگ ہیں، یہودونصاریٰ اورمجوس کی بستیوں سے گزرتے ہیں اور ان کے برتنوں کے علاوہ ہمارے پاس کوئی برتن نہیں ہوتا(توکیاہم ان کے برتنوں میں کھالیں؟) آپ نے فرمایا:'' اگر تم اس کے علاوے کوئی برتن نہ پاسکو تو اسے پانی سے دھولوپھر اس میں کھاؤپئو '' ۱؎ ۔
اس باب میں عدی بن حاتم سے بھی روایت ہے ۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- ابوثعلبہ خشنی کا نام جرثوم ہے ، انہیں جرثم بن ناشب اورجرثم بن قیس بھی کہاجاتاہے۔
وضاحت ۱؎ : حدیث کا ظاہری مفہوم یہ ہے کہ اگر دوسرے برتن موجودہوں تو یہود ونصاریٰ کے برتن دھولینے کے بعد بھی استعمال میں نہ لائے جائیں۔ (واللہ اعلم)


1465- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ هَمَّامِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ! إِنَّا نُرْسِلُ كِلاَبًا لَنَا مُعَلَّمَةً، قَالَ: "كُلْ مَا أَمْسَكْنَ عَلَيْكَ"، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ! وَإِنْ قَتَلْنَ؟ قَالَ: "وَإِنْ قَتَلْنَ مَا لَمْ يَشْرَكْهَا كَلْبٌ غَيْرُهَا"، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ! إِنَّا نَرْمِي بِالْمِعْرَاضِ، قَالَ: "مَا خَزَقَ فَكُلْ، وَمَاأَصَابَ بِعَرْضِهِ فَلاَ تَأْكُلْ".
1465/م- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مَنْصُورٍ نَحْوَهُ إِلاَّ أَنَّهُ قَالَ: وَسُئِلَ عَنِ الْمِعْرَاضِ. قَالَ أَبُوعِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/الوضوء ۳۳ (۱۷۵)، والبیوع ۳ (۲۰۵۴)، والصید ۱ (۵۴۷۵)، و۳ (۵۴۷۶)، و۳ (۵۴۷۷)، و ۷ (۵۴۸۳)، و ۸ (۵۴۸۴)، و ۹ (۵۴۸۶)، و ۱۰ (۵۴۸۷)، م/الصید ۱ (۱۹۲۹)، د/الصید ۲ (۲۸۴۷)، ن/الصید ۱ (۴۲۶۸)، و۲ (۴۲۶۹)، و ۳ (۴۲۷۰)، و ۸ (۴۲۷۹)، و ۲۱ (۴۳۱۰)، ق/الصید ۳ (۳۲۰۸)، و ۵ (۳۲۱۲)، و ۶ ۳۲۱۳)، و ۷ (۳۲۱۵)، (تحفۃ الأشراف: ۹۸۷۸)، وحم (۴/۲۵۶)، ۲۵۷، ۲۵۸، ۳۷۷، ۳۸۰)، دي/الصید ۱ (۲۰۴۵) ویأتي بأرقام ( ۱۴۶۷-۱۴۷۱) (صحیح)
۱۴۶۵- عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول!ہم لوگ اپنے سدھائے ۱؎ ہوئے کتے (شکارکے لیے) روانہ کرتے ہیں(یہ کیا ہے؟) آپ نے فرمایا:'' وہ جو کچھ تمہارے لیے روک رکھیں اسے کھاؤ''، میں نے عر ض کیا : اللہ کے رسول! اگرچہ وہ شکار کو مارڈالیں؟ آپ نے فرمایا:'' اگرچہ وہ (شکار کو) مارڈالیں (پھربھی حلال ہے) جب تک ان کے ساتھ دوسرا کتا شریک نہ ہو''، عدی بن حاتم کہتے ہیں: میں نے عر ض کیا:اللہ کے رسول! ہم لوگ معراض(ہتھیار کی چوڑان )سے شکارکرتے ہیں،(اس کا کیا حکم ہے؟)آپ نے فرمایا:'' جو(ہتھیارکی نوک سے)پھٹ جائے اسے کھاؤ اورجو اس کے عرض (بغیردھاردارحصے یعنی چوڑان)سے مرجائے اسے مت کھاؤ۔
۱۴۶۵/م- اس سند سے بھی اسی جیسی حدیث روایت کی گئی ہے،مگراس میں ہے ''و سئل عن المعراض'' (یعنی آپ سے معراض کے بارے میں پوچھاگیا)۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : سدھائے ہوئے جانور کا مطلب ہے کہ جب اسے شکار پرچھوڑا جائے تودوڑتا ہوا جائے،جب روک دیا جائے تو رک جائے اور بلایا جائے تو واپس آجائے۔اس حدیث سے کئی مسئلے معلوم ہوئے : (۱) سدھائے ہوئے کتے کا شکار مباح اور حلال ہے ۔ (۲) کتا مُعَلَّم ہو یعنی اسے شکار کی تعلیم دی گئی ہو ۔ (۳) اس سدھائے ہوئے کتے کو شکار کے لیے بھیجا گیا ہو پس اگر وہ خود سے بلا بھیجے شکارکر لائے تو اس کا کھانا حلال نہیں، یہی جمہور علماء کا قول ہے ۔ (۴) کتے کو شکار پر بھیجتے وقت بسم اللہ کہا گیا ہو ۔ (۵) سکھائے ہوئے کتے کے ساتھ کوئی دوسرا کتا شکار میں شریک نہ ہو اگر دوسرا شریک ہے تو حرمت کا پہلو غالب ہوگا اور یہ شکار حلال نہ ہوگا۔ (۶) کتا شکار میں سے کچھ نہ کھائے بلکہ اپنے مالک کے لیے محفوظ رکھے تب یہ شکار حلال ہوگا ورنہ نہیں ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
2- بَاب مَا جَاءَ فِي صَيْدِ كَلْبِ الْمَجُوسِ
۲-باب: مجوسی کے کتے کے شکار کا بیان​


1466- حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنِ الْحَجَّاجِ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ أَبِي بَزَّةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ الْيَشْكُرِيِّ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللهِ قَالَ: نُهِينَا عَنْ صَيْدِ كَلْبِ الْمَجُوسِ. قَالَ أَبُوعِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ لاَ يُرَخِّصُونَ فِي صَيْدِ كَلْبِ الْمَجُوسِ، وَالْقَاسِمُ بْنُ أَبِي بَزَّةَ هُوَ الْقَاسِمُ بْنُ نَافِعٍ الْمَكِّيُّ.
* تخريج: ق/الصید ۴ (۳۲۰۹)، (تحفۃ الأشراف: ۲۲۷۱) (ضعیف)
(سند میں دوراوی''شریک القاضی'' اور''حجاج بن ارطاۃ'' ضعیف ہیں)
۱۴۶۶- جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہمیں مجوسیوں کے کتے کے شکارسے منع کیا گیاہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث غریب ہے ، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ۲- اکثراہل علم کا اسی پر عمل ہے ، یہ لوگ مجوسی کے کتے کے شکار کی اجازت نہیں دیتے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
3- بَاب مَا جَاءَ فِي صَيْدِ الْبُزَاةِ
۳-باب : بازکے شکار کا بیان​


1467- حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ وَهَنَّادٌ وَأَبُو عَمَّارٍ قَالُوا: حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ عَنْ مُجَالِدٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ عَنْ صَيْدِ الْبَازِي، فَقَالَ: "مَا أَمْسَكَ عَلَيْكَ فَكُلْ".
قَالَ أَبُوعِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ مُجَالِدٍ عَنِ الشَّعْبِيِّ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ لاَ يَرَوْنَ بِصَيْدِ الْبُزَاةِ وَالصُّقُورِ بَأْسًا، و قَالَ مُجَاهِدٌ: الْبُزَاةُ هُوَ الطَّيْرُ الَّذِي يُصَادُ بِهِ مِنَ الْجَوَارِحِ الَّتِي قَالَ اللهُ تَعَالَى: {وَمَا عَلَّمْتُمْ مِنَ الْجَوَارِحِ} فَسَّرَ الْكِلاَبَ وَالطَّيْرَ الَّذِي يُصَادُ بِهِ، وَقَدْ رَخَّصَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي صَيْدِ الْبَازِي وَإِنْ أَكَلَ مِنْهُ، وَقَالُوا: إِنَّمَا تَعْلِيمُهُ إِجَابَتُهُ، وَكَرِهَهُ بَعْضُهُمْ، وَالْفُقَهَائُ أَكْثَرُهُمْ قَالُوا : يَأْكُلُ وَإِنْ أَكَلَ مِنْهُ.
* تخريج: د/الصید ۲ (۲۸۵۱)، (تحفۃ الأشراف: ۹۸۶۵) (منکر)
(سند میں ''مجالد''ضعیف ہیں)
۱۴۶۷- عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے بازکے شکار کے متعلق پوچھا؟تو آپ نے فرمایا:''وہ تمہارے لیے جو روک رکھے اسے کھاؤ ''۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ہم اس حدیث کو صرف اسی سند''عن مجالد، عن الشعبي'' سے جانتے ہیں۔ ۲-اہل علم کا اسی پرعمل ہے، یہ لوگ بازاورشکرے کے شکارمیں مضائقہ نہیں سمجھتے، ۳- مجاہدکہتے ہیں: باز وہ پرندہ ہے جس سے شکارکیاجاتاہے ، یہ اس''جوارح'' میں داخل ہے جس کا ذکراللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ {وَمَا عَلَّمْتُم مِّنَ الْجَوَارِحِ}میں کیا ہے انہوں نے جوارح کی تفسیرکتے اوراس پرندے سے کی ہے جن سے شکار کیا جاتاہے، ۴- بعض اہل علم نے بازکے شکار کی رخصت دی ہے اگرچہ وہ شکارمیں سے کچھ کھا لے،یہ لوگ کہتے ہیں کہ اس کی تعلیم کا مطلب ہے کہ جب اسے شکار کے لیے چھوڑا جائے تو وہ حکم قبول کرے، جب کہ بعض لوگوں نے اسے مکروہ کہاہے، لیکن اکثرفقہاکہتے ہیں: باز کاشکارکھایا جائے گا چاہے وہ شکارکا کچھ حصہ کھالے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
4- بَاب مَا جَاءَ فِي الرَّجُلِ يَرْمِي الصَّيْدَ فَيَغِيبُ عَنْهُ
۴-باب: آدمی شکار کو تیرمارے اور شکار غائب ہوجائے تو اس کے حکم کا بیان​


1468- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا أَبُودَاوُدَ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ قَال: سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍ يُحَدِّثُ عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ! أَرْمِي الصَّيْدَ فَأَجِدُ فِيهِ مِنَ الْغَدِ سَهْمِي؟ قَالَ: "إِذَا عَلِمْتَ أَنَّ سَهْمَكَ قَتَلَهُ وَلَمْ تَرَ فِيهِ أَثَرَ سَبُعٍ فَكُلْ".
قَالَ أَبُوعِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ، وَرَوَى شُعْبَةُ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ أَبِي بِشْرٍ وَعَبْدُالْمَلِكِ بْنُ مَيْسَرَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ وَكِلاَالْحَدِيثَيْنِ صَحِيحٌ، وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ثَعْلَبَةَ الْخُشَنِيِّ.
* تخريج: انظر حدیث رقم ۱۴۶۵ (تحفۃ الأشراف: ۹۸۵۴) (صحیح)
۱۴۶۸- عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں شکارکو تیرمارتاہوں پھر اگلے دن اس میں اپنا تیر پاتاہوں(اس شکارکاکیاحکم ہے؟) آپ نے فرمایا:'' جب تمہیں معلوم ہوجائے کہ تمہارے ہی تیرنے شکار کو ماراہے اورتم اس میں کسی اور درندے کااثرنہ دیکھوتواسے کھاؤ'' ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲-شعبہ نے یہ حدیث ابوبشر سے اورعبدالملک بن میسرہ نے سعید بن جبیرسے، انہوں نے عدی بن حاتم سے روایت کی ہے ، دونوں روایتیں صحیح ہیں،۳- اس باب میں ابوثعلبہ خشنی سے بھی روایت ہے،۴- اہل علم کا اسی پرعمل ہے۔
وضاحت ۱؎ : مفہوم یہ ہے کہ اس شکار پر تیر کے علاوہ اگر کسی دوسری چیز کا بھی اثر ہے جس سے اس بات کا اندیشہ ہے کہ اس کی موت اس دوسرے اثر سے ہوئی ہو تو ایسا شکار حلال نہیں ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
5- بَاب مَا جَاءَ فِيمَنْ يَرْمِي الصَّيْدَ فَيَجِدُهُ مَيِّتًا فِي الْمَائِ
۵-باب: شکاری شکار پر تیرچلائے پھر اسے پانی میں مردہ پائے تو کیا کرے؟​


1469- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنِي عَاصِمٌ الأَحْوَلُ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ عَنِ الصَّيْدِ، فَقَالَ: "إِذَا رَمَيْتَ بِسَهْمِكَ فَاذْكُرْ اسْمَ اللهِ، فَإِنْ وَجَدْتَهُ قَدْ قُتِلَ فَكُلْ إِلاَّ أَنْ تَجِدَهُ قَدْ وَقَعَ فِي مَائٍ فَلاَتَأْكُلْ فَإِنَّكَ لاَتَدْرِي الْمَائُ قَتَلَهُ أَوْ سَهْمُكَ". قَالَ أَبُوعِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: انظر حدیث رقم ۱۴۶۵ (تحفۃ الأشراف: ۹۸۶۲) (صحیح)
۱۴۶۹- عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺسے شکارکے متعلق پوچھاتوآپ نے فرمایا:'' تم اپنا تیرپھینکتے وقت اس پر اللہ کانام (یعنی بسم اللہ) پڑھو، پھر اگر اسے مراہواپاؤتوبھی کھالو،سوائے اس کے کہ اسے پانی میں گرا ہوا پاؤ تونہ کھاؤاس لیے کہ تمہیں نہیں معلو م کہ پانی نے اسے ماراہے یاتمہارے تیرنے'' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے ۔
وضاحت ۱؎ : اگر تیر کی مار کھانے کے بعد یہ شکار تیر کے سبب پانی میں گرا ہو پھر شکاری نے اسے پکڑلیا ہو تو یہ حلال ہے،کیونکہ اب اس کا شبہ نہیں رہا کہ وہ پانی میں ڈوب کر مرا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
6- بَاب مَا جَاءَ فِي الْكَلْبِ يَأْكُلُ مِنْ الصَّيْدِ
۶-باب: کتاشکار میں سے کھا لے اس کے حکم کا بیان​


1470- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مُجَالِدٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ عَنْ صَيْدِ الْكَلْبِ الْمُعَلَّمِ، قَالَ: "إِذَا أَرْسَلْتَ كَلْبَكَ الْمُعَلَّمَ وَذَكَرْتَ اسْمَ اللهِ فَكُلْ مَا أَمْسَكَ عَلَيْكَ، فَإِنْ أَكَلَ فَلاَ تَأْكُلْ، فَإِنَّمَا أَمْسَكَ عَلَى نَفْسِهِ"، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ! أَرَأَيْتَ إِنْ خَالَطَتْ كِلاَبَنَا كِلاَبٌ أُخَرُ، قَالَ: "إِنَّمَا ذَكَرْتَ اسْمَ اللهِ عَلَى كَلْبِكَ وَلَمْ تَذْكُرْ عَلَى غَيْرِهِ"، قَالَ: سُفْيَانُ كَرِهَ لَهُ أَكْلَهُ.
قَالَ أَبُوعِيسَى: وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ فِي الصَّيْدِ وَالذَّبِيحَةِ إِذَا وَقَعَا فِي الْمَائِ أَنْ لاَ يَأْكُلَ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ فِي الذَّبِيحَةِ: إِذَا قُطِعَ الْحُلْقُومُ فَوَقَعَ فِي الْمَائِ فَمَاتَ فِيهِ فَإِنَّهُ يُؤْكَلُ، وَهُوَ قَوْلُ عَبْدِاللهِ بْنِ الْمُبَارَكِ وَقَدْاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي الْكَلْبِ إِذَا أَكَلَ مِنْ الصَّيْدِ، فَقَالَ أَكْثَرُ أَهْلِ الْعِلْمِ: إِذَا أَكَلَ الْكَلْبُ مِنْهُ فَلاَ تَأْكُلْ، وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ وَعَبْدِاللهِ بْنِ الْمُبَارَكِ وَالشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ، وَرَخَّصَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ فِي الأَكْلِ مِنْهُ وَإِنْ أَكَلَ الْكَلْبُ مِنْهُ.
* تخريج: انظر حدیث رقم ۱۴۶۵ (تحفۃ الأشراف: ۹۸۶۶) (صحیح)
۱۴۷۰- عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺسے سدھائے ہوئے کتے کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا:'' جب تم اپنا سدھایا ہواکتاروانہ کرو، اور(بھیجتے وقت اس پر) اللہ کانام(یعنی بسم اللہ) پڑھ لو توتمہارے لیے جوکچھ وہ روک رکھے اسے کھاؤاور اگروہ شکار سے کچھ کھالے تومت کھاؤ ، اس لیے کہ اس نے شکاراپنے لیے روکاہے''، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ کا کیا خیال ہے اگرہمارے کتے کے ساتھ دوسرے کتے شریک ہوجائیں؟'' آپ نے فرمایا:''تم نے اللہ کا نام(یعنی بسم اللہ) اپنے ہی کتے پر پڑھاہے دوسرے کتے پرنہیں۔ سفیان (ثوری) کہتے ہیں:آپ نے اس کے لیے اس کا کھانادرست نہیں سمجھا '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ذبیحہ اورشکارکے سلسلے میں صحابہ کرام میں سے بعض اہل علم اوردوسرے لوگوں کے نزدیک اسی پرعمل ہے کہ جب وہ پانی میں گرجائیں تو انہیں کوئی نہ کھائے اور بعض لوگ ذبیحہ کے بارے میں کہتے ہیں: جب اس کا گلا کاٹ دیاجائے، پھر پانی میں گرے اورمرجائے تو اسے کھایاجائے گا، عبداللہ بن مبارک کایہی قول ہے، ۲-اہل علم کا اس مسئلہ میں کہ جب کتاشکارکاکچھ حصہ کھا لے اختلاف ہے،اکثراہل علم کہتے ہیں: جب کتا شکار سے کھالے تو اسے مت کھائو، سفیان ثوری،عبداللہ بن مبارک ، شافعی ، احمد اوراسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے،۳- جب کہ صحابہ کرام میں سے بعض اہل علم اور دوسرے لوگوں نے کھانے کی رخصت دی ہے ،اگرچہ اس میں سے کتے نے کھالیاہو۔
وضاحت ۱؎ : آپﷺ نے جو یہ فرمایا کہ بسم اللہ تم نے صرف اپنے کتے پر پڑھا ہے تو اس کا مفہوم یہ ہے کہ آپ نے ایسے کتے کا شکار جس کے ساتھ دوسرے کتے شریک رہے ہوں کھانا درست نہیں سمجھا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
7- بَاب مَا جَاءَ فِي صَيْدِ الْمِعْرَاضِ
۷-باب: بغیرپرکے تیرکے شکار کا بیان​


1471- حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ قَالَ: سَأَلْتُ النَّبِيَّ ﷺ عَنْ صَيْدِ الْمِعْرَاضِ فَقَالَ: "مَا أَصَبْتَ بِحَدِّهِ فَكُلْ، وَمَا أَصَبْتَ بِعَرْضِهِ فَهُوَ وَقِيذٌ".
* تخريج: انظر حدیث رقم ۱۴۶۵ (تحفۃ الأشراف: ۹۸۶۰) (صحیح)
1471/م- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ زَكَرِيَّا، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَهُ.
قَالَ أَبُوعِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَيْهِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ.
* تخريج: انظر ماقبلہ (صحیح)
۱۴۷۱- عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرمﷺسے بغیرپرکے تیرکے شکارکے متعلق پوچھاتو آپ نے فرمایا:'' جسے تم نے دھارسے ماراہے اسے کھاؤ اورجسے عرض (بغیردھاردارحصہ یعنی چوڑان )سے ماراہے تو وہ وقیذہے ۱؎ ۔
۱۴۷۱/م- اس سند سے بھی اسی جیسی حدیث مروی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث صحیح ہے،۲- اہل علم کا اسی پرعمل ہے۔
وضاحت ۱؎ : وقیذ : وہ شکار ہے جسے لاٹھی، پتھر اور ایسے ہتھیار سے مارا جائے جو دھار والے نہ ہوں، حدیث سے یہ مسئلہ ثابت ہواکہ جب شکار کے لیے تیر اور اسی جیسے دوسرے دھار دار ہتھیار کا استعمال ہوتو یہ شکار حلال ہے اور اگر چوڑان سے ہوتو حلال نہیں۔
 
Top