• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
18- بَاب مَا جَاءَ فِي الذَّكَاةِ بِالْقَصَبِ وَغَيْرِهِ
۱۸-باب: بانس وغیرہ سے ذبح کرنے کا بیان​


1491- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُوالأَحْوَصِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَبَايَةَ بْنِ رِفَاعَةَ ابْنِ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ! إِنَّا نَلْقَى الْعَدُوَّ غَدًا وَلَيْسَتْ مَعَنَا مُدًى، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: "مَا أَنْهَرَالدَّمَ وَذُكِرَ اسْمُ اللهِ عَلَيْهِ فَكُلُوهُ مَا لَمْ يَكُنْ سِنًّا أَوْ ظُفُرًا وَسَأُحَدِّثُكُمْ عَنْ ذَلِكَ: أَمَّا السِّنُّ فَعَظْمٌ، وَأَمَّا الظُّفُرُ فَمُدَى الْحَبَشَةِ".
* تخريج: خ/الشرکۃ ۳ (۲۴۸۸)، و ۱۶ (۲۵۰۷)، والجہاد ۱۹۱ (۳۰۷۵)، والذبائح ۱۵ (۵۴۹۸)، و۲۳ (۵۵۰۹)، و ۳۶ (۵۵۴۳)، و ۳۷ (۵۵۴۴)، م/الأضاحي ۴ (۱۹۶۸)، د/الضحایا ۱۵ (۲۸۲۱)، ن/الصید ۱۷ (۴۳۰۲)، والضحایا ۲۰ (۴۴۰۸)، و ۲۶ (۴۴۲۱)، ق/الذبائح ۹ (۳۱۸۳) (تحفۃ الأشراف: ۳۵۶۱)، وحم (۳/۴۶۳، ۴۶۴)، و (۴/۱۴۰، ۱۴۲) ویأتي برقم ۱۶۰۰ (صحیح)
1491/م- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ عَبَايَةَ، عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَهُ، وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَبَايَةَ عَنْ أَبِيهِ، وَهَذَا أَصَحُّ وَعَبَايَةُ قَدْ سَمِعَ مِنْ رَافِعٍ وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ لاَيَرَوْنَ أَنْ يُذَكَّى بِسِنٍّ وَلاَ بِعَظْمٍ .
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۱۴۹۱- رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺسے عرض کیا: اللہ کے رسول!کل ہم دشمن سے ملیں گے اور ہمارے پاس (جانورذبح کرنے کے لیے)چھری نہیں ہے(توکیاحکم ہے؟) ، نبی اکرمﷺ نے فرمایا:'' جو خون بہادے ۱؎ اور اس پر اللہ کانام یعنی بسم اللہ پڑھا گیا ہوتو اسے کھاؤ، بجز دانت اور ناخن سے ذبح کیے گئے جانور کے، اور میں تم سے دانت اورناخن کی ۲؎ تفسیربیان کرتاہوں: دانت ، ہڈی ہے اورناخن حبشیوں کی چھری ہے۳؎ ۔
محمدبن بشارکی سند سے یہ بیان کیا، سفیان ثوری کہتے ہیں عبایہ بن رفاعہ سے،اورعبایہ نے رافع بن خدیج سے اوررافع نے نبی اکرمﷺسے اسی جیسی حدیث روایت کی، اس میں ''عباية عن أبيه'' کا ذکرنہیں ہے اور یہی بات زیادہ صحیح ہے ، عبایہ نے رافع سے سناہے، اہل علم کا اسی پرعمل ہے ، وہ دانت اورہڈی سے ذبح کرنادرست نہیں سمجھتے ہیں۔
وضاحت ۱؎ : اس میں تلوار، چھری، تیز پتھر، لکڑی، شیشہ، سرکنڈا، بانس اور تانبے یا لوہے کی بنی ہوئی چیزیں شامل ہیں۔
وضاحت ۲؎ : اس جملہ کے بارے میں اختلاف ہے کہ یہ اللہ کے رسول کا قول ہے یاراوی حدیث رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کا ہے۔
وضاحت ۳؎ : ناخن کے ساتھ ذبح کرنے میں کفار کے ساتھ مشابہت ہے، نیز یہ ذبح کی صفت میں نہیں آتا، دانت وناخن خواہ انسان کا ہو یا کسی اور جانور کا الگ اور جدا ہو یا جسم کے ساتھ لگا ہو، ان سے ذبح کرنا جائز نہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
19- بَاب مَا جَاءَ فِي الْبَعِيرِ وَالْبَقَرِ وَالْغَنَمِ إِذَا نَدَّ فَصَارَ وَحْشِيًّا يُرْمَى بِسَهْمٍ أَمْ لاَ
۱۹-باب: اونٹ، گائے اوربکری بدک کروحشی بن جائیں توانہیں تیرسے ماراجائے گایانہیں؟​


1492- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُوالأَحْوَصِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَبَايَةَ بْنِ رِفَاعَةَ ابْنِ رَافِعٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ قَالَ: كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ ﷺ فِي سَفَرٍ فَنَدَّ بَعِيرٌ مِنْ إِبِلِ الْقَوْمِ وَلَمْ يَكُنْ مَعَهُمْ خَيْلٌ، فَرَمَاهُ رَجُلٌ بِسَهْمٍ فَحَبَسَهُ اللهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "إِنَّ لِهَذِهِ الْبَهَائِمِ أَوَابِدَ كَأَوَابِدِ الْوَحْشِ فَمَا فَعَلَ مِنْهَا هَذَا فَافْعَلُوا بِهِ هَكَذَا".
* تخريج: دي/الأضاحي ۱۵ (۲۰۲۰) وانظر تخریج حدیث رقم ۱۴۹۱ (صحیح)
1492/م- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبَايَةَ ابْنِ رِفَاعَةَ، عَنْ جَدِّهِ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَهُ، وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَبَايَةَ، عَنْ أَبِيهِ، وَهَذَا أَصَحُّ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ وَهَكَذَا، رَوَاهُ شُعْبَةُ عَنْ سَعِيدِ بْنِ مَسْرُوقٍ نَحْوَ رِوَايَةِ سُفْيَانَ .
* تخريج: انظر ماقبلہ (صحیح)
۱۴۹۲- رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہم لوگ نبی اکرمﷺ کے ہمراہ ایک سفر میں تھے، لوگوں کے اونٹوں میں سے ایک اونٹ بدک کربھاگ گیا، ان کے پاس گھوڑے بھی نہ تھے، ایک آدمی نے اس کو تیرمارا سو اللہ نے اس کو روک دیا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' ان چوپایوں میں جنگلی جانوروں کی طرح بھگوڑے بھی ہوتے ہیں، اس لیے اگران میں سے کوئی ایسا کرے (یعنی بدک جائے) تو اس کے ساتھ اسی طرح کرو'' ۱؎ ۔
۱۴۹۲/م- اس سند سے بھی رافع رضی اللہ عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے، اس میں یہ نہیں ذکرہے کہ عبایہ نے اپنے والد سے روایت کی، یہ زیادہ صحیح ہے،۱- اہل علم کا اسی پر عمل ہے،۲- اسی طرح شعبہ نے اسے سعید بن مسروق سے سفیان کی حدیث کی طرح روایت ہے ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی اس پر ''بسم اللہ'' پڑھ کر تیر چلاؤ اور تیر لگ جانے پر اسے کھاؤ، کیوں کہ بھاگنے اور بے قابو ہونے کی صورت میں اس کے جسم کا ہر حصہ محل ذبح ہے، گویا یہ اس شکار کی طرح ہے جو بے قابو ہوکر بھاگتاہے۔
وضاحت ۲؎ : یعنی: عبایہ کے والد کے تذکرہ کے بغیر، جیسے سفیان نے روایت کی ہے۔

***​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207

17-كِتَاب الأَضَاحِيِّ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ
۱۷-کتاب: قربانی کے احکام ومسائل


1- بَاب مَا جَاءَ فِي فَضْلِ الأُضْحِيَّةِ
۱-باب: قربانی کی فضیلت کا بیان​


1493- حَدَّثَنَا أَبُو عَمْرٍو مُسْلِمُ بْنُ عَمْرِو بْنِ مُسْلِمٍ الْحَذَّائُ الْمَدَنِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ نَافِعٍ الصَّائِغُ أَبُومُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِي الْمُثَنَّى، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: "مَا عَمِلَ آدَمِيٌّ مِنْ عَمَلٍ يَوْمَ النَّحْرِ أَحَبَّ إِلَى اللهِ مِنْ إِهْرَاقِ الدَّمِ، إِنَّهَا لَتَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِقُرُونِهَا وَأَشْعَارِهَا وَأَظْلاَفِهَا، وَأَنَّ الدَّمَ لَيَقَعُ مِنْ اللهِ بِمَكَانٍ قَبْلَ أَنْ يَقَعَ مِنْ الأَرْضِ، فَطِيبُوا بِهَا نَفْسًا".
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ وَزَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ. قَالَ أَبُوعِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لاَ نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ إِلاَّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَأَبُوالْمُثَنَّى اسْمُهُ سُلَيْمَانُ بْنُ يَزِيدَ وَرَوَى عَنْهُ ابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ. قَالَ أَبُوعِيسَى: وَيُرْوَى عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ أَنَّهُ قَالَ فِي الأُضْحِيَّةِ لِصَاحِبِهَا بِكُلِّ شَعَرَةٍ حَسَنَةٌ وَيُرْوَى بِقُرُونِهَا.
* تخريج: ق/الأضاحي ۳ (۳۱۲۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۳۴۳) (ضعیف جداً)
(سند میں ''ابوالمثنی سلیمان بن یزید''سخت ضعیف ہے)
۱۴۹۳- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:'' قربانی کے دن اللہ کے نزدیک آدمی کا سب سے محبوب عمل خون بہاناہے،قیامت کے دن قربانی کے جانور اپنےسینگوں، بالوں اورکھروں کے ساتھ آئیں گے قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے قبولیت کا درجہ حاصل کرلیتا ہے، اس لیے خوش دلی کے ساتھ قربانی کرو ''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ہشام بن عروہ کی اس حدیث کو ہم صرف اسی سندسے جانتے ہیں،۲- اس باب میں عمران بن حصین اورزیدبن ارقم رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- راوی ابومثنی کانام سلیمان بن یزید ہے ، ان سے ابن ابی فدیک نے روایت کی ہے، ۴- رسول اللہ ﷺسے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا:'' قربانی کرنے والے کو قربانی کے جانور کے ہربال کے بدلے نیکی ملے گی،۵- یہ بھی مروی ہے کہ جانور کی سینگ کے عوض نیکی ملے گی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
2-بَاب مَا جَاءَ فِي الأُضْحِيَّةِ بِكَبْشَيْنِ
۲-باب: دومینڈھوں کی قربانی کا بیان​


1494- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُوعَوَانَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: ضَحَّى رَسُولُ اللهِ ﷺ بِكَبْشَيْنِ أَمْلَحَيْنِ أَقْرَنَيْنِ، ذَبَحَهُمَا بِيَدِهِ وَسَمَّى وَكَبَّرَ وَوَضَعَ رِجْلَهُ عَلَى صِفَاحِهِمَا. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَعَائِشَةَ وَأَبِي هُرَيْرَةَ وَأَبِي أَيُّوبَ وَجَابِرٍ وَأَبِي الدَّرْدَائِ وَأَبِي رَافِعٍ وَابْنِ عُمَرَ وَأَبِي بَكْرَةَ أَيْضًا. قَالَ أَبُوعِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/الأضاحي ۷ (۵۵۵۴)، و ۹ (۵۵۵۸)، و ۱۳ (۵۵۶۴)، و ۱۴ (۵۵۶۵)، والتوحید ۱۳ (۷۳۹۹)، م/الأضاحي ۳ (۱۹۶۶)، د/الأضاحي ۴ (۲۷۹۴)، ن/الأضاحي ۱۴، (۴۳۹۱، ۴۳۹۲)، و ۲۸ (۴۴۲۰)، و ۲۹ (۴۴۲۱)، ق/الأضاحي (۳۱۲۰) (تحفۃ الأشراف: ۱۴۲۷)، وحم (۳/۹۹، ۱۱۵، ۱۷۰، ۱۷۸، ۱۸۹، ۲۱۱، ۲۱۴، ۲۲۲، ۲۵۵، ۲۵۸، ۲۷۲، ۲۷۹، ۲۸۱)، دي/الأضاحي۱(۱۹۸۸) (صحیح)
۱۴۹۴- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے سینگ والے دوچتکبرے مینڈھوں کی قربانی کی ، آپ نے ان دونوں کواپنے ہاتھ سے ذبح کیا،بسم اللہ پڑھی اوراللہ اکبرکہا اور(ذبح کرتے وقت) اپناپاؤں ان کے پہلؤں پررکھا ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں علی، عائشہ ، ابوہریرہ ، ابوایوب ، جابر، ابوالدرداء ، ابورافع ، ابن عمراورابوبکرہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے یہ مسائل ثابت ہوتے ہیں : (۱) قربانی کاجانور اپنے ہاتھ سے ذبح کرنا چاہیے، گو نیابت بھی جائز ہے،(۲) ذبح سے پہلے بسم اللہ اللہ اکبر پڑھنا چاہیے(۳)ذبح کرتے وقت اپناپاؤں جانورکے گردن پررکھناچاہئے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
3- بَاب مَا جَاءَ فِي الأُضْحِيَّةِ عَنِ الْمَيِّتِ
۳-باب: میت کی طرف سے قربانی کا بیان​


1495-حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍالْمُحَارِبِيُّ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنْ أَبِي الْحَسْنَائِ، عَنِ الْحَكَمِ، عَنْ حَنَشٍ، عَنْ عَلِيٍّ أَنَّهُ كَانَ يُضَحِّي بِكَبْشَيْنِ أَحَدُهُمَا عَنِ النَّبِيِّ ﷺ وَالآخَرُ عَنْ نَفْسِهِ، فَقِيلَ لَهُ فَقَالَ: أَمَرَنِي بِهِ يَعْنِي النَّبِيَّ ﷺ فَلاَ أَدَعُهُ أَبَدًا.
قَالَ أَبُوعِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ شَرِيكٍ، وَقَدْ رَخَّصَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنْ يُضَحَّى عَنِ الْمَيِّتِ، وَلَمْ يَرَ بَعْضُهُمْ أَنْ يُضَحَّى عَنْهُ، و قَالَ عَبْدُاللهِ بْنُ الْمُبَارَكِ: أَحَبُّ إِلَيَّ أَنْ يُتَصَدَّقَ عَنْهُ وَلاَ يُضَحَّى عَنْهُ، وَإِنْ ضَحَّى فَلاَ يَأْكُلُ مِنْهَا شَيْئًا وَيَتَصَدَّقُ بِهَا كُلِّهَا، قَالَ مُحَمَّدٌ : قَالَ عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ : وَقَدْ رَوَاهُ غَيْرُ شَرِيكٍ قُلْتُ لَهُ : أَبُو الْحَسْنَائِ مَااسْمُهُ ؟ فَلَمْ يَعْرِفْهُ قَالَ مُسْلِمٌ : اسْمُهُ الْحَسَنُ.
* تخريج: د/الأضاحي ۲ (۲۷۹۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۰۸۲) (ضعیف)
(سند میں ''شریک '' حافظے کے کمزورہیں ، اور ابوالحسناء'' مجہول ، نیز ''حنش''کے بارے میں بھی سخت اختلاف ہے)
۱۴۹۵- علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ دومینڈھوں کی قربانی کرتے تھے، ایک نبی اکرمﷺ کی طرف سے اور دوسرا اپنی طرف سے، توان سے اس بارے میں پوچھاگیا توانہوں نے بتایاکہ مجھے اس کا حکم نبی اکرمﷺ نے دیاہے، لہذا میں اس کو کبھی نہیں چھوڑوں گا ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں :۱- یہ حدیث غریب ہے ، ہم اس کو صرف شریک کی روایت سے جانتے ہیں،۲- محمدبن اسماعیل بخاری کہتے ہیں:علی بن مدینی نے کہا: اس حدیث کو شریک کے علاوہ لوگوں نے بھی روایت کیا ہے، میں نے ان سے دریافت کیا: راوی ابوالحسناء کاکیانام ہے؟ تو وہ اسے نہیں جان سکے ، مسلم کہتے ہیں: اس کا نام حسن ہے،۳- بعض اہل علم نے میت کی طرف سے قربانی کی رخصت دی ہے اوربعض لوگ میت کی طرف سے قربانی درست نہیں سمجھتے ہیں، عبداللہ بن مبارک کہتے ہیں: مجھے یہ چیز زیادہ پسندہے کہ میت کی طرف سے صدقہ کردیاجائے، قربانی نہ کی جائے، اوراگرکسی نے اس کی طرف سے قربانی کردی تو اس میں سے کچھ نہ کھائے بلکہ تمام کو صدقہ کردے ۔
وضاحت ۱؎ : اس ضعیف حدیث، اور قربانی کرتے وقت نبی اکرمﷺ کی دعا : ''اللهم تقبل من محمد وآل محمد ومن أمة محمد'' سے استدلال کرتے ہوئے بعض علماء کہتے ہیں کہ میت کی جانب سے قربانی کی جاسکتی ہے،پھراختلاف اس میں ہے کہ میت کی جانب سے قربانی افضل ہے یا صدقہ؟ حنابلہ اور اکثر فقہا کے نزدیک قربانی افضل ہے ، جب کہ بعض فقہاء کا کہناہے کہ قیمت صدقہ کرنا زیادہ افضل ہے ۔ صحیح بات یہ ہے کہ قربانی دراصل دیگر عبادات (صوم وصلاۃ) کی طرح زندوں کی عبادت ہے، قربانی کے استثناء کی کوئی دلیل پختہ نہیں ہے، علی رضی اللہ عنہ کی حدیث سخت ضعیف ہے، اور نبی اکرم ﷺ کی قربانی کے وقت کی دعاء سے استدلال زبردستی کا استدلال ہے جیسے بدعتیوں کا قبرستان کی دعاء سے غیر اللہ کو پکار نے پر استدلال کرنا، جب کہ اس روایت کے بعض الفاظ یوں بھی ہیں ''عمن لم يضح أمتي'' (یعنی میری امت میں سے جو قربانی نہیں کرسکا ہے اس کی طرف سے قبول فرما) اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ ''میری امت میں سے جو زندہ شخص قربانی کی استطاعت نہ رکھتا ہو اور اس کی وجہ سے قربانی نہ کرسکا ہو اس کی طرف سے یہ قربانی قبول فرما، نیز امت میں میت کی طرف سے قربانی کا تعامل بھی نہیں رہا ہے۔ (واللہ اعلم بالصواب)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
4- بَاب مَا جَاءَ مَا يُسْتَحَبُّ مِنَ الأَضَاحِيِّ
۴-باب: کس قسم کے جانورکی قربانی مستحب ہے؟​


1496- حَدَّثَنَا أَبُوسَعِيدٍ الأَشَجُّ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ: ضَحَّى رَسُولُ اللهِ ﷺ بِكَبْشٍ أَقْرَنَ فَحِيلٍ يَأْكُلُ فِي سَوَادٍ وَيَمْشِي فِي سَوَادٍ وَيَنْظُرُ فِي سَوَادٍ. قَالَ أَبُوعِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ.
* تخريج: د/الأضاحي ۴ (۲۷۹۶)، ن/الضحایا ۱۴ (۴۳۹۵)، ق/الأضاحی ۴ (۱۳۲۸)، (تحفۃ الأشراف: ۴۲۹۷) (صحیح)
۱۴۹۶- ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے سینگ والے ایک نرمینڈھے کی قربانی کی، وہ سیاہی میں کھاتاتھا ، سیاہی میں چلتاتھااورسیاہی میں دیکھتاتھا ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے ، ۲- ہم اس کو صرف حفص بن غیاث ہی کی روایت سے جانتے ہیں۔
وضاحت ۱؎ : یعنی اس کا منہ ، اس کے پیراوراس کی آنکھیں سب کالی تھیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
5-بَاب مَا لاَ يَجُوزُ مِنْ الأَضَاحِيِّ
۵-باب: جن جانوروں کی قربانی ناجائزہے​


1497- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ يَزِيدَ ابْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ فَيْرُوزَ، عَنِ الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ رَفَعَهُ قَالَ: "لاَيُضَحَّى بِالْعَرْجَائِ بَيِّنٌ ظَلَعُهَا، وَلاَ بِالْعَوْرَائِ بَيِّنٌ عَوَرُهَا، وَلاَ بِالْمَرِيضَةِ بَيِّنٌ مَرَضُهَا، وَلاَبِالْعَجْفَائِ الَّتِي لاَ تُنْقِي".
* تخريج: د/الأضاحي ۶ (۲۸۰۲)، ن/الضحایا ۵ (۴۳۷۴)، ق/الأضاحي ۸ (۳۱۴۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۹۰)، وط/الضحایا ۱(۱) وحم (۴/۲۸۴، ۲۸۹، ۳۰۰، ۳۰۱)، دي/الأضاحي (۱۹۹۲) (صحیح)
1497/م- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي زَائِدَةَ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ فَيْرُوزَ، عَنِ الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَهُ بِمَعْنَاهُ.
قَالَ أَبُوعِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ عُبَيْدِ بْنِ فَيْرُوزَ عَنْ الْبَرَائِ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۱۴۹۷- براء بن عازب رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺنے فرمایا:'' ایسے لنگڑے جانور کی قربانی نہ کی جائے جس کالنگڑاپن واضح ہو، نہ ایسے اندھے جانورکی جس کا اندھا پن واضح ہو، نہ ایسے بیما رجانور کی جس کی بیماری واضح ہو، اورنہ ایسے لاغر وکمزور جانور کی قربانی کی جائے جس کی ہڈی میں گودانہ ہو'' ۱؎ ۔
۱۴۹۷/م- اس سند سے بھی براء بن عازب رضی اللہ عنہما سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں :۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،اسے ہم صرف عبید بن فیروز کی حدیث سے جانتے ہیں انہوں نے براء سے روایت کی ہے، ۲- اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔
وضاحت ۱؎ : یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ مذکورہ بالا چاروں قسم کے جانور قربانی کے لائق نہیں، عیب کے واضح اور ظاہر ہونے کی قید سے معلوم ہوا کہ معمولی نوعیت کاکوئی نقص وعیب قابل گرفت نہیں بلکہ معاف ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
6- بَاب مَا يُكْرَهُ مِنَ الأَضَاحِيِّ
۶-باب: جن جانوروں کی قربانی مکروہ ہے​


1498- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْحُلْوَانِيُّ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا شَرِيكُ بْنُ عَبْدِاللهِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ شُرَيْحِ بْنِ النُّعْمَانِ الصَّائِدِيِّ، وَهُوَ الْهَمْدَانِيُّ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ قَالَ: أَمَرَنَا رَسُولُ اللهِ ﷺ أَنْ نَسْتَشْرِفَ الْعَيْنَ وَالأُذُنَ وَأَنْ لاَنُضَحِّيَ بِمُقَابَلَةٍ وَلاَمُدَابَرَةٍ وَلاَ شَرْقَائَ وَلاَ خَرْقَائَ.
* تخريج: د/الأضاحي ۶ (۲۸۰۴)، ن/الضحایا ۱۰ (۴۳۷۹)، ق/الأضاحي ۸ (۳۱۴۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۱۲۵)، وحم (۱/۸۰، ۱۰۸، ۱۲۸، ۱۴۹)، دي/الأضاحي ۳ (۱۹۹۵) (ضعیف)
(سند میں ''ابواسحاق سبیعی'' مختلط اورمدلس ہیں ، نیز ''شریح'' سے ان کا سماع نہیں ، اس لیے سند میں انقطاع بھی ہے ، مگرناک کان دیکھ لینے کا مطلق حکم ثابت ہے)


1498/م- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللهِ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ شُرَيْحِ بْنِ النُّعْمَانِ، عَنْ عَلِيٍّ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ مِثْلَهُ، وَزَادَ قَالَ الْمُقَابَلَةُ مَاقُطِعَ طَرَفُ أُذُنِهَا، وَالْمُدَابَرَةُ مَا قُطِعَ مِنْ جَانِبِ الأُذُنِ وَالشَّرْقَائُ الْمَشْقُوقَةُ وَالْخَرْقَائُ الْمَثْقُوبَةُ. قَالَ أَبُوعِيسَى : هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. قَالَ أَبُوعِيسَى: وَشُرَيْحُ بْنُ النُّعْمَانِ الصَّائِدِيُّ هُوَ كُوفِيٌّ مِنْ أَصْحَابِ عَلِيٍّ، وَشُرَيْحُ بْنُ هَانِيئٍ كُوفِيٌّ وَلِوَالِدِهِ صُحْبَةٌ مِنْ أَصْحَابِ عَلِيٍّ، وَشُرَيْحُ بْنُ الْحَارِثِ الْكِنْدِيُّ أَبُو أُمَيَّةَ الْقَاضِي قَدْ رَوَى عَنْ عَلِيٍّ، وَكُلُّهُمْ مِنْ أَصْحَابِ عَلِيٍّ فِي عَصْرٍ وَاحِدٍ، قَوْلُهُ أَنْ نَسْتَشْرِفَ أَيْ أَنْ نَنْظُرَ صَحِيحًا.
* تخريج: انظر ما قبلہ (ضعیف)
۱۴۹۸- علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے ہمیں حکم دیا کہ (قربانی والے جانور کی) آنکھ اور کان اچھی طرح دیکھ لیں، اورایسے جانورکی قربانی نہ کریں جس کاکان آگے سے کٹاہو، یا جس کاکان پیچھے سے کٹاہو، یاجس کا کان چیراہواہو(یعنی لمبائی میں کٹا ہواہو)، یاجس کے کان میں سوراخ ہو۔
۱۴۹۸/م- اس سند سے بھی علی رضی اللہ عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے ، اس میں یہ اضافہ ہے کہ مقابلہ وہ جانورہے جس کے کان کاکنارہ (آگے سے) کٹاہو، مدابرہ وہ جانورہے جس کے کان کا کنارہ (پیچھے سے) کٹاہو، شرقاء ، جس کا کان (لمبائی میں) چیراہواہو، اورخرقاء جس کے کان میں (گول) سوراخ ہو۔
امام ترمذی کہتے ہیں : ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- شریح بن نعمان صائدی ، کو فہ کے رہنے والے ہیں اورعلی رضی اللہ عنہ کے ساتھیوں میں سے ہیں، ۳- شریح بن ہانی کوفہ کے رہنے والے ہیں اوران کے والدکوشرف صحبت حاصل ہے اورعلی رضی اللہ عنہ کے ساتھی ہیں، اورشریح بن حارث کندی ابوامیہ قاضی ہیں، انہوں نے علی رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے، یہ تینوں شریح (جن کی تفصیل اوپر گذری)علی رضی اللہ عنہ کے ساتھی اور ہم عصر ہیں، ۳- ''نستشرف'' سے مراد ''ننظر صحيحاً'' ہے یعنی قربانی کے جانورکو ہم اچھی طرح دیکھ لیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
7- بَاب مَا جَاءَ فِي الْجَذَعِ مِنَ الضَّأْنِ فِي الأَضَاحِيِّ
۷-باب: بھیڑکے جذع کی قربانی کا بیان​


1499- حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ وَاقِدٍ، عَنْ كِدَامِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي كِبَاشٍ قَالَ: جَلَبْتُ غَنَمًا جُذْعَانًا إِلَى الْمَدِينَةِ فَكَسَدَتْ عَلَيَّ فَلَقِيتُ أَبَاهُرَيْرَةَ فَسَأَلْتُهُ، فَقَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَقُولُ: "نِعْمَ (أَوْ نِعْمَتِ) الأُضْحِيَّةُ الْجَذَعُ مِنَ الضَّأْنِ"، قَالَ فَانْتَهَبَهُ النَّاسُ.
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ وَأُمِّ بِلاَلِ ابْنَةِ هِلاَلٍ عَنْ أَبِيهَا وَجَابِرٍ وَعُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ وَرَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ. قَالَ أَبُوعِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ مَوْقُوفًا، وَعُثْمَانُ بْنُ وَاقِدٍ هُوَ ابْنُ مُحَمَّدِ بْنِ زِيَادِ بْنِ عَبْدِاللهِ بْنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ أَنَّ الْجَذَعَ مِنَ الضَّأْنِ يُجْزِئُ فِي الأُضْحِيَّةِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۵۴۵۶) وانظر حم (۲/۴۴۵) (ضعیف)
(سند میں ''عثمان بن واقد'' حافظہ کے کمزور اور''کدام'' و''ابوکباش '' مجہول ہیں)
۱۴۹۹- ابوکباش کہتے ہیں کہ میں مدینہ میں تجارت کے لیے جذع یعنی دنبہ کے چھوٹے بچے لایااور بازارمندا ہوگیا ۱؎ ، لہذا میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ملاقات کی، اوران سے پوچھا توانہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺکوفرماتے سناہے : ''بھیڑکے جذع کی قربانی خوب ہے!'' ابوکباش کہتے ہیں(یہ سنتے ہی) لوگ اس کی خریداری پر ٹوٹ پڑے۔
اس باب میں ابن عباس،ام بلال بنت ہلال کی ان کے والد سے اور جابر، عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہم اورایک آدمی جونبی اکرمﷺکے اصحاب میں سے ہیں سے بھی احادیث آئی ہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوہریرہ کی حدیث حسن غریب ہے،۲- یہ ابوہریرہ سے موقوفاً بھی مروی ہے ،۳- عثمان بن واقدیہ ابن محمدبن زیاد بن عبداللہ بن عمربن خطاب ہیں، ۴- صحابہ کرام میں سے اہل علم اوردوسرے لوگوں کا اسی پرعمل ہے کہ بھیڑ کا جذع قربانی کے لیے کفایت کرجائے گا۔
وضاحت ۱؎ : یعنی بازار مندہ پڑگیا دوسری جانب جذع کی قربانی درست نہ سمجھنے کی وجہ سے لوگ انہیں خرید نہیں رہے تھے۔


1500- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ أَبِي الْخَيْرِ، عَنْ عُقْبَةَ ابْنِ عَامِرٍ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ أَعْطَاهُ غَنَمًا يَقْسِمُهَا عَلَى أَصْحَابِهِ ضَحَايَا فَبَقِيَ عَتُودٌ أَوْ جَدْيٌ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللهِ ﷺ، فَقَالَ: "ضَحِّ بِهِ أَنْتَ".
قَالَ أَبُوعِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، قَالَ وَكِيعٌ: الْجَذَعُ مِنَ الضَّأْنِ يَكُونُ ابْنَ ستة أَوْ سَبْعَةِ أَشْهُرٍ، وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ أَنَّهُ قَالَ: قَسَمَ رَسُولُ اللهِ ﷺ ضَحَايَا فَبَقِيَ جَذَعَةٌ فَسَأَلْتُ النَّبِيَّ ﷺ فَقَالَ: "ضَحِّ بِهَا أَنْتَ".
* تخريج: خ/الوکالۃ ۱ (۲۳۰۰)، والشرکۃ ۱۲ (۲۵۰۰)، والأضاحي ۲ (۵۵۴۷)، و ۷ (۵۵۵۵)، م/الأضاحي ۲ (۱۹۶۵)، ن/الضحایا ۱۳ (۴۳۸۴- ۴۳۸۶)، ق/الأضاحي ۷ (۳۱۳۸)، (تحفۃ الأشراف: ۹۹۵۵)، وحم (۴/۱۴۴، ۱۴۹، ۱۵۲، ۱۵۶)، دي/الأضاحي ۴ (۱۹۹۶) (صحیح)
1500/م- حَدَّثَنَا بِذَلِكَ مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ وَأَبُو دَاوُدَ قَالاَ: حَدَّثَنَا هِشَامٌ الدَّسْتُوَائِيُّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ بَعْجَةَ بْنِ عَبْدِاللهِ بْنِ بَدْرٍ عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ بِهَذَا الْحَدِيثِ.
* تخريج : انظر ماقبلہ (تحفۃ الأشراف: ۹۹۱۰) (صحیح)
۱۵۰۰- عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے انہیں بکریاں دیں تاکہ وہ قربانی کے لیے صحابہ کرام کے درمیان تقسیم کردیں، ایک عتود (بکری کا ایک سال کافربہ بچہ) یاجدی ۱؎ باقی بچ گیا ، میں نے رسول اللہ ﷺ سے اس کا تذکرہ کیا،توآپ نے فرمایا:'' تم اس کی قربانی خود کرلو''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- وکیع کہتے ہیں: بھیڑکاجذع ، چھ یا سات ماہ کا بچہ ہوتا ہے۔ ۳-عقبہ بن عامر سے دوسری سندسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے قربانی کے جانورتقسیم کیے ، ایک جذعہ باقی بچ گیا، میں نے نبی اکرمﷺ سے اس کے بارے میں پوچھا توآپ نے فرمایا:'' تم اس کی قربانی خودکرلو''۔
۱۵۰۰/م- اس سند سے بھی عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مذکورہ حدیث مروی ہے۔
وضاحت ۱؎ : راوی کو شک ہوگیا ہے کہ '' عتود '' کہا یا '' جدی '' ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
8- بَاب مَا جَاءَ فِي الاشْتِرَاكِ فِي الأُضْحِيَّةِ
۸-باب: قربانی میں اشتراک کا بیان​


1501- حَدَّثَنَا أَبُو عَمَّارٍ الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ، حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى، عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ، عَنْ عِلْبَائَ بْنِ أَحْمَرَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللهِ ﷺ فِي سَفَرٍ فَحَضَرَ الأَضْحَى، فَاشْتَرَكْنَا فِي الْبَقَرَةِ سَبْعَةً وَفِي الْبَعِيرِ عَشَرَةً.
قَالَ أَبُوعِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي الأَسَدِ السُّلَمِيِّ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ وَأَبِي أَيُّوبَ.
قَالَ أَبُوعِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ الْفَضْلِ بْنِ مُوسَى.
* تخريج: انظر حدیث رقم : ۹۰۵ (صحیح)
۱۵۰۱- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم لو گ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک سفرمیں تھے کہ قربانی کا دن آگیا ،چنانچہ ہم نے گائے کی قربانی میں سات آدمیوں اور اونٹ کی قربانی میں دس آدمیوں کوشریک کیا ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف فضل بن موسیٰ کی روایت سے جانتے ہیں،۲- اس باب میں ابوالأ سد سلمی عن أبیہ عن جدہ اور ابوایوب سے احادیث آئی ہیں ۔
وضاحت ۱؎ : سات افراد کی طرف سے گائے اور دس افراد کی طرف سے اونٹ ذبح کرنے کا یہ ضابطہ واصول قربانی کے جانوروں کے لیے ہے، جب کہ ہدی کے جانور اونٹ ہوں یا گائے سب میں سات سات افراد شریک ہوں گے، آگے جابر رضی اللہ عنہ کی روایت سے یہی ثابت ہے۔


1502- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ: نَحَرْنَا مَعَ رَسُولِ اللهِ ﷺ بِالْحُدَيْبِيَةِ الْبَدَنَةَ عَنْ سَبْعَةٍ، وَالْبَقَرَةَ عَنْ سَبْعَةٍ.
قَالَ أَبُوعِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ، وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَابْنِ الْمُبَارَكِ وَالشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ، و قَالَ إِسْحَاقُ يُجْزِئُ أَيْضًا الْبَعِيرُ عَنْ عَشَرَةٍ، وَاحْتَجَّ بِحَدِيثِ ابْنِ عَبَّاسٍ.
* تخريج: انظر حدیث رقم : ۹۰۴ (صحیح)
۱۵۰۲- جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حدیبیہ کے موقع پر اونٹ اور گائے کو سات آدمیوں کی طرف سے نحر(ذبح) کیا ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے ،۲- صحابہ کرام میں سے اہل علم اور ان کے علاوہ لوگوں کا اسی پر عمل ہے، سفیان ثوری ، ابن مبارک، شافعی، احمد اوراسحاق بن راہویہ کابھی یہی قول ہے ،۳- اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں: اونٹ دس آدمی کی طرف سے بھی کفایت کرجائے گا، انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث سے استدلال کیا ہے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث کے لیے دیکھئے حدیث رقم (۱۵۰۱)۔ ان کی حدیث کاتعلق قربانی سے ہے، جب کہ جابر کی حدیث کا تعلق حج و عمرہ کے ہدی سے ہے۔
 
Top