• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
15- بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ الْحَلِفِ بِغَيْرِ مِلَّةِ الإِسْلاَمِ
۱۵-باب: اسلام کے سوا کسی دوسرے مذہب کے قسم کی کراہت کا بیان​


1543- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ يُوسُفَ الأَزْرَقُ، عَنْ هِشَامٍ الدَّسْتُوَائِيِّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي قِلاَبَةَ، عَنْ ثَابِتِ بْنِ الضَّحَّاكِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "مَنْ حَلَفَ بِمِلَّةٍ غَيْرِ الإِسْلاَمِ كَاذِبًا فَهُوَ كَمَا قَالَ".
قَالَ أَبُوعِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ اخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي هَذَا إِذَا حَلَفَ الرَّجُلُ بِمِلَّةٍ سِوَى الإِسْلاَمِ، فَقَالَ: هُوَ يَهُودِيٌّ أَوْ نَصْرَانِيٌّ إِنْ فَعَلَ كَذَا وَكَذَا، فَفَعَلَ ذَلِكَ الشَّيْئَ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ: قَدْ أَتَى عَظِيمًا وَلاَ كَفَّارَةَ عَلَيْهِ، وَهُوَ قَوْلُ أَهْلِ الْمَدِينَةِ، وَبِهِ يَقُولُ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، وَإِلَى هَذَا الْقَوْلِ ذَهَبَ أَبُوعُبَيْدٍ، و قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَالتَّابِعِينَ وَغَيْرِهِمْ عَلَيْهِ فِي ذَلِكَ الْكَفَّارَةُ، وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ.
* تخريج: خ/الجنائز ۸۳ (۱۳۶۳)، والأدب ۴۴ (۶۰۴۷)، و۷۳ (۶۱۰۵)، والأیمان ۷ (۶۶۵۲)، م/الأیمان ۴۷ (۱۱۰)، د/الأیمان ۹ (۳۲۵۷)، ن/الأیمان ۷ (۳۸۰۱)، ق/الکفارات ۳ (۲۰۹۸)، و ۳۱ (۳۸۴۴)، (تحفۃ الأشراف: ۲۰۶۲)، وحم (۴/۳۳، ۳۴) (صحیح)
۱۵۴۳- ثابت بن ضحاک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جس نے اسلام کے سوا کسی دوسرے مذہب کی جھوٹی قسم کھائی وہ ویسے ہی ہوگیاجیسے اس نے کہا '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے ،۲- اہل علم کا اس مسئلہ میں اختلاف ہے کہ جب کوئی اسلام کے سوا کسی دوسرے مذہب کی قسم کھائے اوریہ کہے: اگراس نے ایسا ایساکیاتویہودی یا نصرانی ہوگا، پھر اس نے وہ کام کرلیا،تو بعض اہل علم کہتے ہیں کہ اس نے بہت بڑاگناہ کیا لیکن اس پر کفارہ واجب نہیں ہے ،یہ اہل مدینہ کا قول ہے ، مالک بن انس بھی اسی کے قائل ہیں اورابوعبیدنے بھی اسی کو اختیار کیا ہے،۳- اورصحابہ وتابعین وغیرہ میں سے بعض اہل علم کہتے ہیں کہ اس صورت میں اس پر کفارہ واجب ہے، سفیان ، احمداوراسحاق کا یہی قول ہے۔
وضاحت ۱؎ : یہ تغلیظ وتہدید کے طورپر ہے اگر صحیح عقیدہ کا حامل ہے تو کافر نہیں ہوگا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
16- باب
۱۶- باب: سابقہ باب سے متعلق ایک اور باب​


1544- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عُبَيْدِاللهِ بْنِ زَحْرٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الرُّعَيْنِيِّ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ مَالِكٍ الْيَحْصُبِيِّ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ! إِنَّ أُخْتِي نَذَرَتْ أَنْ تَمْشِيَ إِلَى الْبَيْتِ حَافِيَةً غَيْرَ مُخْتَمِرَةٍ، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: "إِنَّ اللَّهَ لاَ يَصْنَعُ بِشَقَائِ أُخْتِكَ شَيْئًا، فَلْتَرْكَبْ وَلْتَخْتَمِرْ وَلْتَصُمْ ثَلاَثَةَ أَيَّامٍ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ. قَالَ أَبُوعِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ، وَهُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ.
* تخريج: د/الأیمان ۲۳ (۳۲۹۳، ۳۲۹۹۴)، ن/الأیمان ۳۳ (۳۸۴۵)، ق/الکفارات ۲۰ (۲۱۳۴)، (تحفۃ الأشراف: ۹۹۳۰)، وحم (۴/۱۴۳، ۱۴۵، ۱۴۹، ۱۵۱)، دي/النذور ۲ (۲۳۷۹) (ضعیف)
(اس کے راوی ''عبیداللہ بن زحر'' سخت ضعیف ہیں ، اس میں ''روزہ والی بات ''ضعیف ہے، باقی ٹکڑوں کے صحیح شواہد موجودہیں)
۱۵۴۴- عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میری بہن نے نذرمانی ہے کہ وہ چادر اوڑھے بغیر ننگے پاؤں چل کرخانہ کعبہ تک جائے گی،تو نبی اکرمﷺ نے فرمایا:'' اللہ تعالیٰ تمہاری بہن کی سخت کوشی پر کچھ نہیں کرے گا ! ۱؎ اسے چاہئے کہ وہ سوار ہوجائے ، چادراوڑھ لے اورتین دن کے صیام رکھے '' ۲؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے ،۲- اس باب میں ابن عباس سے بھی روایت ہے،۳- اہل علم کا اسی پرعمل ہے ، احمداوراسحاق کابھی یہی قول ہے۔
وضاحت ۱؎ : یعنی اس مشقت کا کوئی ثواب اسے نہیں دے گا۔
وضاحت ۲؎ : اس حدیث کی روسے اگر کسی نے بیت اللہ شریف کی طرف پیدل یا ننگے پاؤں چل کر جانے کی نذر مانی ہوتو ایسی نذ ر کا پورا کرنا ضروری اور لازم نہیں، اور اگر کسی عورت نے ننگے سرجانے کی نذر مانی ہوتو اس کو تو پوری ہی نہیں کرنی ہے کیوں کہ یہ معصیت اورگناہ کا کام ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
17-باب
۱۷-باب: سابقہ باب سے متعلق ایک اور باب​


1545- حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا أَبُوالْمُغِيرَةِ، حَدَّثَنَا الأَوْزَاعِيُّ، حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "مَنْ حَلَفَ مِنْكُمْ فَقَالَ فِي حَلِفِهِ وَاللاَّتِ وَالْعُزَّى؛ فَلْيَقُلْ: لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللهُ، وَمَنْ قَالَ: تَعَالَ أُقَامِرْكَ فَلْيَتَصَدَّقْ". قَالَ أَبُوعِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَأَبُوالْمُغِيرَةِ هُوَالْخَوْلاَنِيُّ الْحِمْصِيُّ، وَاسْمُهُ عَبْدُالْقُدُّوسِ بْنُ الْحَجَّاجِ.
* تخريج: خ/تفسیر سورۃ النجم ۲ (۴۸۶۰)، والأدب ۷۴ (۶۱۰۷)، والاستئذان ۵۲ (۶۳۰۱)، والأیمان ۵ (۶۶۵۰)، م/الأیمان ۲ (۱۶۴۸)، د/الأیمان ۴ (۳۲۴۷)، ن/الأیمان ۱۱ (۳۷۸۴)، ق/الکفارات ۲ (۲۰۹۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۲۷۶)، وحم (۲/۳۰۹) (صحیح)
۱۵۴۵- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' تم میں سے جس نے قسم کھائی اوراپنی قسم میں کہا: لات اورعزیٰ کی قسم ہے ! وہ ''لا إله إلا الله''کہے اورجس شخص نے کہا: آؤ جواکھیلیں وہ صدقہ کرے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
18- بَاب مَا جَاءَ فِي قَضَائِ النَّذْرِ عَنِ الْمَيِّتِ
۱۸-باب: میت کی طرف سے نذرپوری کرنے کا بیان​


1546- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُبَيْدِاللهِ بْنِ عَبْدِاللهِ بْنِ عُتْبَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ سَعْدَ بْنَ عُبَادَةَ اسْتَفْتَى رَسُولَ اللهِ ﷺ فِي نَذْرٍ كَانَ عَلَى أُمِّهِ تُوُفِّيَتْ قَبْلَ أَنْ تَقْضِيَهُ، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: "اقْضِ عَنْهَا".
قَالَ أَبُوعِيسَى : هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/الوصایا ۱۹ (۲۷۶۱)، والأیمان ۳۰ (۶۶۹۸)، والحیل ۳ (۶۹۵۹)، م/النذور ۱ (۱۶۳۸)، د/الأیمان ۲۵ (۳۳۰۷)، ن/الوصایا ۸ (۳۶۸۸)، والأیمان ۳۵ (۳۸۴۸)، ق/الکفارات ۱۹ (۲۱۲۳)، (تحفۃ الأشراف: ۵۸۳۵)، وط/النذور۱ (۱)، وحم (۱/۲۱۹، ۲۲۹، ۳۷۰) (صحیح)
۱۵۴۶- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ سعدبن عبادہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے ایک نذرکے بارے جوان کی ماں پر واجب تھی اوراسے پوری کرنے سے پہلے وہ مرگئیں،فتویٰ پوچھا، تونبی اکرمﷺ نے فرمایا:'' ان کی طرف سے نذرتم پوری کرو'' ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : میت کے واجب حقوق کو پورا کرنا اس کے وارثوں کے ذمہ واجب ہے، اس کے لیے میت کی طرف سے اسے پوری کرنے کی وصیت ضروری نہیں، ورثاء کو اپنی ذمہ داری کا خود احساس ہونا چاہئے، اور ورثاء میں سے اسے پورا کرنے کی زیادہ ذمہ دار ی اولاد پر ہے، اگر نذر کا تعلق مال سے ہے تو اسے پوری کرنا مستحب ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
19- بَاب مَا جَاءَ فِي فَضْلِ مَنْ أَعْتَقَ
۱۹-باب: غلام اورلونڈی آزاد کرنے کی فضیلت کا بیان​


1547- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِالأَعْلَى، حَدَّثَنَا عِمْرَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ هُوَ أَخُوسُفْيَانَ بْنِ عُيَيْنَةَ، عَنْ حُصَيْنٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ وَغَيْرِهِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "أَيُّمَا امْرِئٍ مُسْلِمٍ أَعْتَقَ امْرَأً مُسْلِمًا؛ كَانَ فَكَاكَهُ مِنَ النَّارِ. يُجْزِي كُلُّ عُضْوٍ مِنْهُ عُضْوًا مِنْهُ، وَأَيُّمَا امْرِئٍ مُسْلِمٍ أَعْتَقَ امْرَأَتَيْنِ مُسْلِمَتَيْنِ ؛ كَانَتَا فَكَاكَهُ مِنْ النَّارِ، يُجْزِي كُلُّ عُضْوٍ مِنْهُمَا عُضْوًا مِنْهُ، وَأَيُّمَا امْرَأَةٍ مُسْلِمَةٍ أَعْتَقَتْ امْرَأَةً مُسْلِمَةً؛ كَانَتْ فَكَاكَهَا مِنْ النَّارِ، يُجْزِي كُلُّ عُضْوٍ مِنْهَا عُضْوًا مِنْهَا".
قَالَ أَبُوعِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ. قَالَ أَبُوعِيسَى: وَفِي الْحَدِيثِ مَا يَدُلُّ عَلَى أَنَّ عِتْقَ الذُّكُورِ لِلرِّجَالِ أَفْضَلُ مِنْ عِتْقِ الإِنَاثِ؛ لِقَوْلِ رَسُولِ اللهِ ﷺ: "مَنْ أَعْتَقَ امْرَأً مُسْلِمًا كَانَ فَكَاكَهُ مِنْ النَّارِ، يُجْزِي كُلُّ عُضْوٍ مِنْهُ عُضْوًا مِنْهُ".
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۴۸۶۴) (صحیح) وأما حدیث غیرہ من أصحاب النبیﷺ فأخرجہ من حدیث أبي نجیح السلمي (عمرو بن عبیسۃ)، د/العتق ۱۴ (۳۹۶۵، ۳۹۶۶)، وحم (۴/۱۱۳، ۳۸۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۷۵۵ و ۱۰۷۷۲) ومن حدیث کعب بن مرۃ : د (برقم ۳۹۶۷)، و ن (رقم ۳۱۴۲) و ق/العتق ۴ (۲۵۲۲)، وحم (۴/۲۳۴، ۲۳۵، ۳۲۱) (تحفۃ الأشراف: ۱۱۱۶۳)
۱۵۴۷- ابوامامہ رضی اللہ عنہ اوردوسرے صحابہ نبی اکرمﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:'' جومسلمان کسی مسلمان کو آزاد کرے گا،تویہ آزاد کرنا اس کے لیے جہنم سے نجات کا باعث ہوگا، اس آزاد کیے گئے مرد کا ہرعضو اس آزاد کرنے والے کے عضوکی طرف سے کفایت کرے گا، جومسلمان دومسلمان عورتوں کو آزاد کرے گا، تو یہ دونوں اس کے لیے جہنم سے خلاصی کا باعث ہوں گی، ان دونوں آزاد عورتوں کا ہرعضواس کے عضوکی طرف سے کفایت کرے گا، جومسلمان عورت کسی مسلمان عورت کوآزاد کرے گی، تویہ اس کے لیے جہنم سے نجات کا باعث ہوگی، اس آزاد کی گئی عورت کاہرعضواس آزادکرنے والے کے عضوکی طرف سے کفایت کرے گا''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سندسے حسن صحیح غریب ہے ،۲- یہ حدیث دلیل ہے کہ مردوں کے لیے مرد آزاد کرنا عورت کے آزاد کرنے سے افضل ہے ، اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جس نے کسی مسلمان مرد کوآزاد کیاوہ اس کے لیے جہنم سے نجات کا باعث ہوگا، اس آزاد کئے گئے مرد کا ہرعضواس کے عضوکی طرف سے کفایت کرے گا۔راوی نے پوری حدیث بیان کی جواپنی سندوں کے اعتبارسے صحیح ہے۔


* * *​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207

19-كِتَاب السِّيَرِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ
۱۹-کتاب: جہادکے احکام ومسائل


1- بَاب مَا جَاءَ فِي الدَّعْوَةِ قَبْلَ الْقِتَالِ
۱-باب: جنگ سے پہلے اسلام کی دعوت دینے کا بیان​


1548- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ أَبِي الْبَخْتَرِيِّ أَنَّ جَيْشًا مِنْ جُيُوشِ الْمُسْلِمِينَ كَانَ أَمِيرَهُمْ سَلْمَانُ الْفَارِسِيُّ حَاصَرُوا قَصْرًا مِنْ قُصُورِ فَارِسَ، فَقَالُوا: يَا أَبَا عَبْدِاللهِ! أَلاَ نَنْهَدُ إِلَيْهِمْ؟ قَالَ: دَعُونِي أَدْعُهُمْ كَمَا سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَدْعُوهُمْ، فَأَتَاهُمْ سَلْمَانُ فَقَالَ لَهُمْ: إِنَّمَا أَنَا رَجُلٌ مِنْكُمْ فَارِسِيٌّ تَرَوْنَ الْعَرَبَ يُطِيعُونَنِي، فَإِنْ أَسْلَمْتُمْ فَلَكُمْ مِثْلُ الَّذِي لَنَا وَعَلَيْكُمْ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْنَا، وَإِنْ أَبَيْتُمْ إِلاَّ دِينَكُمْ تَرَكْنَاكُمْ عَلَيْهِ وَأَعْطُونَا الْجِزْيَةَ عَنْ يَدٍ وَأَنْتُمْ صَاغِرُونَ، قَالَ: وَرَطَنَ إِلَيْهِمْ بِالْفَارِسِيَّةِ وَأَنْتُمْ غَيْرُ مَحْمُودِينَ، وَإِنْ أَبَيْتُمْ نَابَذْنَاكُمْ عَلَى سَوَائٍ، قَالُوا: مَا نَحْنُ بِالَّذِي نُعْطِي الْجِزْيَةَ وَلَكِنَّا نُقَاتِلُكُمْ، فَقَالُوا: يَا أَبَا عَبْدِاللهِ! أَلاَ نَنْهَدُ إِلَيْهِمْ؟ قَالَ: لاَ فَدَعَاهُمْ ثَلاَثَةَ أَيَّامٍ إِلَى مِثْلِ هَذَا، ثُمَّ قَالَ: انْهَدُوا إِلَيْهِمْ، قَالَ: فَنَهَدْنَا إِلَيْهِمْ، فَفَتَحْنَا ذَلِكَ الْقَصْرَ.
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ بُرَيْدَةَ وَالنُّعْمَانِ بْنِ مُقَرِّنٍ وَابْنِ عُمَرَ وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَحَدِيثُ سَلْمَانَ حَدِيثٌ حَسَنٌ، لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، و سَمِعْت مُحَمَّدًا يَقُولُ: أَبُوالْبَخْتَرِيِّ لَمْ يُدْرِكْ سَلْمَانَ لأَنَّهُ لَمْ يُدْرِكْ عَلِيًّا، وَسَلْمَانُ مَاتَ قَبْلَ عَلِيٍّ، وَقَدْ ذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ إِلَى هَذَا، وَرَأَوْا أَنْ يُدْعَوْا قَبْلَ الْقِتَالِ، وَهُوَ قَوْلُ إِسْحَاقَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: إِنْ تُقُدِّمَ إِلَيْهِمْ فِي الدَّعْوَةِ فَحَسَنٌ يَكُونُ ذَلِكَ أَهْيَبَ، و قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: لاَ دَعْوَةَ الْيَوْمَ. و قَالَ أَحْمَدُ: لاَ أَعْرِفُ الْيَوْمَ أَحَدًا يُدْعَى. و قَالَ الشَّافِعِيُّ: لاَ يُقَاتَلُ الْعَدُوُّ حَتَّى يُدْعَوْا إِلاَّ أَنْ يَعْجَلُوا عَنْ ذَلِكَ، فَإِنْ لَمْ يَفْعَلْ فَقَدْ بَلَغَتْهُمْ الدَّعْوَةُ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۴۴۹۰) (ضعیف)
(سند میں ابوالبختری کا لقاء ''سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے نہیں ہے اس لیے سند میں انقطاع ہے ،نیز ''عطاء بن السائب '' اخیرعمر میں مختلط ہوگئے تھے ،لیکن قتال سے پہلے کفار کو مذکورہ تین باتوں کی پیشکش بریدہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے ثابت ہے دیکھئے : الإرواء رقم ۱۲۴۷)
۱۵۴۸- ابوالبختری سعید بن فیروز سے روایت ہے کہ مسلمانوں کے ایک لشکرنے جس کے امیرسلمان فارسی تھے،فارس کے ایک قلعہ کامحاصرہ کیا، لوگوں نے کہا: ابوعبداللہ ! کیاہم ان پرحملہ نہ کردیں ؟ ،انہوں نے کہا: مجھے چھوڑدومیں ان کافروں کو اسلام کی دعوت اسی طرح دوں جیساکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو انہیں دعوت دیتے ہوئے سنا ہے ۱ ؎ ، چنانچہ سلمان فارسی رضی اللہ عنہ ان کے پاس گئے، اور کافروں سے کہا: میں تمہاری ہی قوم فارس کا رہنے والا ایک آدمی ہوں، تم دیکھ رہے ہوعرب میری اطاعت کرتے ہیں، اگرتم اسلام قبول کروگے توتمہارے لیے وہی حقوق ہوں گے جوہمارے لیے ہیں، اورتمہارے اوپروہی ذمہ داریاں عائد ہوں گی جوہمارے اوپرہیں، اوراگرتم اپنے دین ہی پر قائم رہناچاہتے ہوتو ہم اسی پر تم کوچھوڑدیں گے، اور تم ذلیل وخوار ہوکر اپنے ہاتھ سے جزیہ اداکرو ۲؎ ، سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے اس بات کو فارسی زبان میں بھی بیان کیا، اوریہ بھی کہا: تم قابلِ تعریف لوگ نہیں ہو، اوراگرتم نے انکار کیا توہم تم سے(حق پر) جنگ کریں گے، ان لوگوں نے جواب دیا: ہم وہ نہیں ہیں کہ جزیہ دیں ، بلکہ تم سے جنگ کریں گے، مسلمانوں نے کہا: ابوعبداللہ ! کیا ہم ان پرحملہ نہ کردیں؟ انہوں نے کہا: نہیں، پھر انہوں نے تین دن تک اسی طرح ان کو اسلام کی دعوت دی، پھر مسلمانوں سے کہا: ان پر حملہ کرو، ہم لوگوں نے ان پر حملہ کیااوراس قلعہ کوفتح کرلیا ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن ہے، ہم اس کو صرف عطاء بن سائب ہی کی روایت سے جانتے ہیں،۲- میں نے محمدبن اسماعیل (امام بخاری) کو کہتے ہوئے سنا: ابوالبختری نے سلمان کونہیں پایاہے ، اس لیے کہ انہوں نے علی کو نہیں پایا ہے، اورسلمان کی وفات علی سے پہلے ہوئی ہے ،۲- اس باب میں بریدہ ، نعمان بن مقرن، ابن عمراورابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳- بعض اہل علم صحابہ اوردوسرے لوگوں کی یہی رائے ہے کہ قتال سے پہلے کافروں کو دعوت دی جائے گی، اسحاق بن ابراہیم بن راہویہ کا بھی یہی قول ہے کہ اگران کوپہلے اسلام کی دعوت دے دی جائے توبہترہے ، یہ ان کے لیے خوف کا باعث ہوگا،۴- بعض اہل علم کہتے ہیں کہ اس دور میں دعوت کی ضرورت نہیں ہے، امام احمدکہتے ہیں: میں اس زمانے میں کسی کودعوت دئے جانے کے لائق نہیں سمجھتا، ۵- امام شافعی کہتے ہیں: دعوت سے پہلے دشمنوں سے جنگ نہ شروع کی جائے، ہاں اگر کفار خود جنگ میں پہل کربیٹھیں تو اس صورت میں اگر دعوت نہ دی گئی تو کوئی حرج نہیں کیوں کہ اسلام کی دعوت ان تک پہنچ چکی ہے۔
وضاحت ۱؎ : یعنی ان کافروں کو پہلے اسلام کی دعوت دی جائے اگر انہیں یہ منظور نہ ہو تو ان سے جزیہ دینے کو کہاجائے اگر یہ بھی منظور نہ ہو تو پھر حملہ کے سوا کوئی چارہ کار نہیں۔
وضاحت ۲؎ : جزیہ ایک متعین رقم ہے جو سالانہ ایسے غیر مسلموں سے لی جاتی ہے جو کسی اسلامی مملکت میں رہائش پذیر ہوں، اس کے بدلے میں ان کی جان ومال اور عزت وآبرو کی حفاظت کی ذمہ داری اسلامی مملکت کی ہوتی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
2- باب
۲- باب: جہاد سے متعلق ایک اور باب​


1549- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى الْعَدَنِيُّ الْمَكِّيُّ وَيُكْنَى بِأَبِي عَبْدِاللهِ الرَّجُلِ الصَّالِحِ هُوَابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَبْدِالْمَلِكِ بْنِ نَوْفَلِ بْنِ مُسَاحِقٍ، عَنِ ابْنِ عِصَامٍ الْمُزَنِيِّ، عَنْ أَبِيهِ وَكَانَتْ لَهُ صُحْبَةٌ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللهِ ﷺ إِذَا بَعَثَ جَيْشًا أَوْسَرِيَّةً يَقُولُ لَهُمْ: إِذَا رَأَيْتُمْ مَسْجِدًا أَوْ سَمِعْتُمْ مُؤَذِّنًا، فَلاَ تَقْتُلُوا أَحَدًا.
هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَهُوَ حَدِيثُ ابْنِ عُيَيْنَةَ.
* تخريج: د/الجہاد ۱۰۰ (۲۶۳۵)، (تحفۃ الأشراف: ۹۹۰۱) (ضعیف)
(سند میں ''عبد الملک بن نوفل'' لین الحدیث، اور ''ابن عصام '' مجہول راوی ہیں)
۱۵۴۹- عصام مزنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ جب کوئی لشکریاسریہ بھیجتے تو ان سے فرماتے : جب تم کوئی مسجد دیکھو یا موذن کی آواز سنوتوکسی کونہ مارو ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے ، اوریہ ابن عیینہ سے آئی ہے۔
وضاحت ۱؎ : یعنی جب اسلام کی کوئی علامت اورنشانی نظر آجائے تواس وقت تک حملہ نہ کیاجائے جب تک مومن اور کافر کے درمیان فرق واضح نہ ہوجائے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
3- بَاب فِي الْبَيَاتِ وَالْغَارَاتِ
۳-باب: رات میں دشمن پر چھاپہ مارنے اورحملہ کرنے کا بیان​


1550- حَدَّثَنَا الأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنِي مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ حِينَ خَرَجَ إِلَى خَيْبَرَ أَتَاهَا لَيْلاً؛ وَكَانَ إِذَا جَاءَ قَوْمًا بِلَيْلٍ لَمْ يُغِرْ عَلَيْهِمْ حَتَّى يُصْبِحَ. فَلَمَّا أَصْبَحَ خَرَجَتْ يَهُودُ بِمَسَاحِيهِمْ وَمَكَاتِلِهِمْ فَلَمَّا رَأَوْهُ قَالُوا: مُحَمَّدٌ وَافَقَ وَاللهِ مُحَمَّدٌ الْخَمِيسَ. فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "اللهُ أَكْبَرُ، خَرِبَتْ خَيْبَرُ، إِنَّا إِذَا نَزَلْنَا بِسَاحَةِ قَوْمٍ فَسَائَ صَبَاحُ الْمُنْذَرِينَ".
* تخريج: خ/الجہاد ۱۰۱ (۲۹۴۵)، والمغازي ۳۸ (۴۱۹۷)، (وانظر أیضا: الصلاۃ ۱۲ (۳۷۱)، م/النکاح ۱۴ (۱۳۶۵/۸۴)، والجہاد ۴۳ (۱۲۰/۱۳۶۵)، ن/المواقیت ۲۶ (۵۴۸)، (تحفۃ الأشراف: ۷۳۴)، وحم (۳/۱۰۲، ۱۸۶، ۲۰۶، ۲۶۳) (صحیح)
۱۵۵۰- انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ خیبرروانہ ہوئے تو وہاں رات کو پہنچے ، اورآپ جب بھی کسی قوم کے پاس رات کو پہنچتے تو جب تک صبح نہ ہوجاتی اس پر حملہ نہیں کرتے ۱؎ ، پھر جب صبح ہوگئی تو یہود اپنے پھاوڑے اورٹوکریوں کے ساتھ نکلے، جب انہوں نے آپ کو دیکھا توکہا:محمد ہیں، اللہ کی قسم ، محمد لشکر کے ہمراہ آگئے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' اللہ اکبر! خیبربرباد ہوگیا، جب ہم کسی قوم کے میدان میں اترتے ہیں اس وقت ڈرائے گئے لوگوں کی صبح، بڑی بری ہوتی ہے۔
وضاحت ۱؎ : آپ ایسا اس لیے کرتے تھے کہ اذان سے یہ واضح ہوجائے گا کہ یہ مسلمانوں کی بستی ہے یا نہیں، چنانچہ اگراذان سنائی دیتی تو حملہ سے رک جاتے بصورت دیگر حملہ کرتے۔


1551- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالاَ: حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، عَنْ أَبِي طَلْحَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ إِذَا ظَهَرَ عَلَى قَوْمٍ أَقَامَ بِعَرْصَتِهِمْ ثَلاَثًا. قَالَ أَبُوعِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَحَدِيثُ حُمَيْدٍ عَنْ أَنَسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رَخَّصَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي الْغَارَةِ بِاللَّيْلِ وَأَنْ يُبَيِّتُوا وَكَرِهَهُ بَعْضُهُمْ: وقَالَ أَحْمَدُ وَإِسْحَاقُ: لاَبَأْسَ أَنْ يُبَيَّتَ الْعَدُوُّ لَيْلاً؛ وَمَعْنَى قَوْلِهِ وَافَقَ مُحَمَّدٌ الْخَمِيسَ؛ يَعْنِي بِهِ الْجَيْشَ.
* تخريج: خ/الجہاد ۱۸۴ (۳۰۶۴)، والمغازي ۸ (۳۹۷۶)، د/الجہاد ۱۳۲ (۲۶۹۵)، (تحفۃ الأشراف: ۳۷۷۰)، وحم (۴/۲۹)، ودي/السیر ۲۲ (۲۵۰۲) (صحیح)
۱۵۵۱- ابوطلحہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب نبی اکرمﷺ کسی قوم پر غالب آتے توان کے میدان میں تین دن تک قیام کرتے۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے ،۲- حمید کی حدیث جو انس رضی اللہ عنہ سے آئی ہے۔ حسن صحیح ہے، ۳- اہل علم کی ایک جماعت نے رات میں حملہ کرنے اورچھاپہ مارنے کی اجازت دی ہے ،۴- بعض اہل علم اس کو مکروہ سمجھتے ہیں،۵- احمداوراسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ رات میں دشمن پرچھاپہ مارنے میں کوئی حرج نہیں ہے، ۶-''وافق محمد الخميس'' میں الخمیس سے مرادلشکرہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
4- بَاب فِي التَّحْرِيقِ وَالتَّخْرِيبِ
۴-باب: دورانِ جنگ کفارومشرکین کے گھر جلانے اورویران کرنے کا بیان​


1552- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ حَرَّقَ نَخْلَ بَنِي النَّضِيرِ، وَقَطَعَ وَهِيَ الْبُوَيْرَةُ، فَأَنْزَلَ اللهُ {مَا قَطَعْتُمْ مِنْ لِينَةٍ أَوْ تَرَكْتُمُوهَا قَائِمَةً عَلَى أُصُولِهَا فَبِإِذْنِ اللَّهِ وَلِيُخْزِيَ الْفَاسِقِينَ}[الحشر: 5].
وَفِي الْبَاب عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ ذَهَبَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ إِلَى هَذَا وَلَمْ يَرَوْا بَأْسًا بِقَطْعِ الأَشْجَارِ، وَتَخْرِيبِ الْحُصُونِ، وَكَرِهَ بَعْضُهُمْ ذَلِكَ، وَهُوَ قَوْلُ الأَوْزَاعِيِّ، قَالَ الأَوْزَاعِيُّ: وَنَهَى أَبُوبَكْرٍ الصِّدِّيقُ أَنْ يَقْطَعَ شَجَرًا مُثْمِرًا أَوْ يُخَرِّبَ عَامِرًا وَعَمِلَ بِذَلِكَ الْمُسْلِمُونَ بَعْدَهُ، و قَالَ الشَّافِعِيُّ لاَ بَأْسَ بِالتَّحْرِيقِ فِي أَرْضِ الْعَدُوِّ، وَقَطْعِ الأَشْجَارِ وَالثِّمَارِ، وقَالَ أَحْمَدُ: وَقَدْ تَكُونُ فِي مَوَاضِعَ لاَيَجِدُونَ مِنْهُ بُدًّا، فَأَمَّا بِالْعَبَثِ فَلاَ تُحَرَّقْ، و قَالَ إِسْحَاقُ: التَّحْرِيقُ سُنَّةٌ إِذَا كَانَ أَنْكَى فِيهِمْ.
* تخريج: خ/المزارعۃ ۴ (۲۳۵۶)، والجہاد ۱۵۴ (۳۰۲۰)، والمغازي ۱۴ (۳۹۶۰)، م/الجہاد ۱۰ (۱۷۴۶)، د/الجہاد ۹۱ (۲۶۱۵)، ق/الجہاد (۲۸۴۴)، (تحفۃ الأشراف: ۸۲۶۷)، دي/السیر ۲۳ (۲۵۰۳) (صحیح)
۱۵۵۲- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بنونضیرکے کھجوروں کے درخت جلوا اور کٹوا دیئے ۱؎ ، یہ مقام بویرہ کا واقعہ ہے، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی {مَا قَطَعْتُمْ مِنْ لِينَةٍ أَوْ تَرَكْتُمُوهَا قَائِمَةً عَلَى أُصُولِهَا فَبِإِذْنِ اللَّهِ وَلِيُخْزِيَ الْفَاسِقِينَـ} (الحشر: ۵) (مسلمانو!) (یہود بنی نضیرکے) کھجوروں کے درخت جوکاٹ ڈالے ہیں یا ان کو ہاتھ بھی نہ لگایا اوراپنے تنوں پر ہی ان کو کھڑا چھوڑدیا تو یہ سب اللہ کے حکم سے تھا اور اللہ عزوجل کو منظورتھاکہ وہ نافرمانوں کو ذلیل کرے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی روایت ہے ،۳- بعض اہل علم کایہی مسلک ہے، وہ درخت کاٹنے اورقلعے ویران کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے ہیں،۴- بعض اہل علم اس کو مکروہ سمجھتے ہیں، اوزاعی کا یہی قول ہے ،۵- اوزاعی کہتے ہیں: ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے یزید کو پھل دار درخت کاٹنے اورمکان ویران کرنے سے منع کیا، ان کے بعد مسلمانوں نے اسی پرعمل کیا،۶- شافعی کہتے ہیں: دشمن کے ملک میں آگ لگانے ، درخت اورپھل کاٹنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۲؎ ۔۷- احمدکہتے ہیں: اسلامی لشکرکبھی کبھی ایسی جگہ ہوتا ہے جہاں اس کے سواکوئی چارہ نہیں ہوتا، لیکن بلاضرورت آگ نہ لگائی جائے،۸- اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں: آگ لگاناسنت ہے ، جب یہ کافروں کی ہار ورسوائی کاباعث ہو۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جنگی ضرورت کی بنا پر پھلدار درختوں کو جلوانا اور کٹوانا جائز ہے، لیکن بلاضرورت عام حالات میں انہیں کاٹنے سے بچنا چاہئے۔
وضاحت ۲؎ : یعنی جب اسلامی لشکر کے لیے کچھ ایسے حالات پیدا ہوجائیں کہ درختوں کے جلانے اور مکانوں کے ویران کرنے کے سوا ان کے لیے دوسرا کوئی راستہ نہ ہو تو ایسی صورت میں ایسا کرناجائز ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
5-بَاب مَا جَاءَ فِي الْغَنِيمَةِ
۵-باب: مالِ غنیمت کا بیان​


1553- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ الْمُحَارِبِيُّ، حَدَّثَنَا أَسْبَاطُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ، عَنْ سَيَّارٍ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "إِنَّ اللهَ فَضَّلَنِي عَلَى الأَنْبِيَائِ"، أَوْ قَالَ: "أُمَّتِي عَلَى الأُمَمِ وَأَحَلَّ لِيَ الْغَنَائِمَ". وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَأَبِي ذَرٍّ وَعَبْدِاللهِ بْنِ عَمْرٍو وَأَبِي مُوسَى وَابْنِ عَبَّاسٍ.
قَالَ أَبُوعِيسَى: حَدِيثُ أَبِي أُمَامَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَسَيَّارٌ هَذَا يُقَالُ لَهُ سَيَّارٌ مَوْلَى بَنِي مُعَاوِيَةَ. وَرَوَى عَنْهُ سُلَيْمَانُ التَّيْمِيُّ وَعَبْدُاللهِ بْنُ بَحِيرٍ وَغَيْرُ وَاحِدٍ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۴۸۷۷) (صحیح)
1553/م- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ الْعَلاَئِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: "فُضِّلْتُ عَلَى الأَنْبِيَائِ بِسِتٍّ: أُعْطِيتُ جَوَامِعَ الْكَلِمِ، وَنُصِرْتُ بِالرُّعْبِ، وَأُحِلَّتْ لِيَ الْغَنَائِمُ، وَجُعِلَتْ لِيَ الأَرْضُ مَسْجِدًا وَطَهُورًا، وَأُرْسِلْتُ إِلَى الْخَلْقِ كَافَّةً، وَخُتِمَ بِيَ النَّبِيُّونَ". هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: م/المساجد ۱ (۵۲۳)، ق/الطہارۃ ۹۰ (۵۶۷)، (قولہ ''جُعِلت لي الأرض مسجدا وطہورا'' فحسب) (تحفۃ الأشراف: ۱۳۹۷۷)، وحم (۲/۴۱۲) (صحیح)
۱۵۵۳- ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:'' اللہ تعالیٰ نے مجھے انبیاء ورسل پرفضلیت بخشی ہے''، ( یاآپ نے یہ فرمایا:'' میری امت کو دوسری امتوں پرفضیلت بخشی ہے )، اورہمارے لیے مال غنیمت کو حلال کیا ہے''۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابوامامہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں علی ، ابوذر، عبداللہ بن عمرو، ابوموسیٰ اورابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
۱۵۵۳/م- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:'' مجھے انبیاء ورسل پرچھ چیزوں (خصلتوں) کے ذریعہ فضیلت بخشی گئی ہے، مجھے جوامع الکلم (جامع کلمات) عطاکئے گئے ہیں ۱؎ ، رعب کے ذریعہ میری مددکی گئی ہے۲؎ ، میرے لیے مال غنیمت حلال کیاگیاہے، میرے لیے تمام روئے زمین مسجد اورپاکی حاصل کرنے کا ذریعہ بنائی گئی ہے ۳؎ ، میں تمام مخلوق کی طرف رسول بناکر بھیجاگیاہوں اور میرے ذریعہ انبیاء ورسل کا سلسلہ بند کردیا گیاہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : یعنی قرآن وحدیث جن کے الفاظ مختصر لیکن معانی بہت ہیں۔
وضاحت ۲؎ : یعنی عام حالات میں میرا رعب میرے دشمنوں پر ایک مہینہ کی مسافت کی دوری ہی سے طاری رہتا ہے، یہ آپ ﷺ کی خصوصیات میں شامل ہے۔
وضاحت ۳؎ : یعنی عبادت کے لیے کوئی جگہ مخصوص نہیں ہے، بلکہ وقت ہونے کے ساتھ کسی بھی پاکیزہ جگہ عبادت کی جاسکتی ہے، اسی طرح زمین (مٹی) سے ہر مسلمان طہارت کرسکتا ہے، یعنی وہ میرے لیے پاک کرنے والی بنائی گئی ہے۔
وضاحت ۴؎ : یعنی میری رسالت دنیا کی ساری مخلوق کے لیے عام ہے اور میں نبوت کے سلسلہ کی آخری کڑی ہوں، میرے بعد کوئی دوسرا نبی نہیں آنے والا ہے۔
 
Top