• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
6-بَاب مَا جَاءَ فِي سَهْمِ الْخَيْلِ
۶-باب: (مالِ غنیمت میں سے) گھوڑے کے حصے کا بیان​


1554- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ وَحُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ قَالاَ: حَدَّثَنَا سُلَيْمُ بْنُ أَخْضَرَ، عَنْ عُبَيْدِاللهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَسَمَ فِي النَّفَلِ لِلْفَرَسِ بِسَهْمَيْنِ، وَلِلرَّجُلِ بِسَهْمٍ.
* تخريج: خ/الجہاد ۵۱ (۲۸۶۳)، والمغازي ۳۸ (۴۲۲۸)، م/الجہاد ۱۷ (۱۷۶۲)، د/الجہاد ۱۵۴ (۲۷۲۳)، ق/الجہاد ۳۶ (۲۸۵۴)، (تحفۃ الأشراف: ۷۹۰۷)، وحم (۲/۲، ۶۲، ۷۲، ۸۰)، دي/السیر ۳۳ (۲۵۱۵) (صحیح)
1554/م- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ سُلَيْمِ بْنِ أَخْضَرَ نَحْوَهُ. وَفِي الْبَاب عَنْ مُجَمِّعِ بْنِ جَارِيَةَ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَابْنِ أَبِي عَمْرَةَ عَنْ أَبِيهِ.
وَهَذَا حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ، وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَالأَوْزَاعِيِّ وَمَالِكِ بْنِ أَنَسٍ وَابْنِ الْمُبَارَكِ وَالشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ، قَالُوا: لِلْفَارِسِ ثَلاَثَةُ أَسْهُمٍ سَهْمٌ لَهُ وَسَهْمَانِ لِفَرَسِهِ وَلِلرَّاجِلِ سَهْمٌ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۱۵۵۴- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مال غنیمت کی تقسیم میں گھوڑے کودوحصے اورآدمی (سوار) کو ایک حصہ دیا ۱؎ ۔
۱۵۵۴/م- اس سند سے بھی ابن عمر رضی اللہ عنہما سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں : ۱- ابن عمر رضی اللہ عنہما کی یہ حدیث حسن صحیح ہے ،۲- اس باب میں مجمع بن جاریہ ، ابن عباس اور ابی عمرہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اکثراہل علم صحابہ اوردوسرے لوگوں کا اسی پر عمل ہے ، سفیان ثوری، اوزاعی ، مالک بن انس، ابن مبارک ، شافعی ، احمد اوراسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے ، یہ لوگ کہتے ہیں کہ سوار کو تین حصے ملیں گے ، ایک حصہ اس کا اوردو حصے اس کے گھوڑے کے اورپیدل چلنے والے کو ایک حصہ ملے گا۔
وضاحت ۱؎ : یعنی گھوڑ سوار کو تین حصے دئے گئے، ایک حصہ اس کا اور دوحصے اس کے گھوڑے کے، گھوڑے کا حصہ اس لیے زیادہ رکھاگیا کہ اس کی خوراک اور اس کی دیکھ بھال پرکافی خرچ ہوتاہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
7- بَاب مَا جَاءَ فِي السَّرَايَا
۷-باب: سرایا کا بیان ۱؎​


1555- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى الأَزْدِيُّ الْبَصْرِيُّ وَأَبُو عَمَّارٍ وَغَيْرُ وَاحِدٍ قَالُوا: حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ يُونُسَ بْنِ يَزِيدَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِاللهِ بْنِ عَبْدِاللهِ بْنِ عُتْبَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "خَيْرُ الصَّحَابَةِ أَرْبَعَةٌ، وَخَيْرُ السَّرَايَا أَرْبَعُ مِائَةٍ، وَخَيْرُ الْجُيُوشِ أَرْبَعَةُ آلاَفٍ، وَلاَ يُغْلَبُ اثْنَا عَشَرَ أَلْفًا مِنْ قِلَّةٍ".
هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لاَ يُسْنِدُهُ كَبِيرُ أَحَدٍ غَيْرُ جَرِيرِ بْنِ حَازِمٍ، وَإِنَّمَا رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ مُرْسَلاً، وَقَدْ رَوَاهُ حِبَّانُ بْنُ عَلِيٍّ الْعَنَزِيُّ عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِاللهِ بْنِ عَبْدِاللهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ. وَرَوَاهُ اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ مُرْسَلاً.
* تخريج: د/الجہاد ۸۹ (۲۶۱۱)، ق/السرایا (۲۷۲۸)، (تحفۃ الأشراف: ۴۸۴۸)، ودي/السیر ۴ (۲۴۸۲) (ضعیف)
(اس حدیث کا ''عن الزہري عن النبيﷺ '' مرسل ہو نا ہی صحیح ہے ، نیز یہ آیت ربانی { وَعَلِمَ أَنَّ فِيكُمْ ضَعْفًا فَإِن يَكُن مِّنكُم مِّئَةٌ صَابِرَةٌ يَغْلِبُواْ مِئَتَيْنِ} (الأنفال:66)کے بھی مخالف ہے، دیکھئے: الصحیحۃ رقم ۹۸۶، تراجع الالبانی ۱۵۲)
۱۵۵۵- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' سب سے بہترین ساتھی وہ ہیں جن کی تعداد چارہو، اور سب سے بہتر سریہ وہ ہے جس کی تعداد چارسوہو، اور سب سے بہتر فوج وہ ہے جس کی تعداد چارہزار ہو اوربارہ ہزار اسلامی فوج قلت تعداد کے باعث مغلوب نہیں ہوگی ''۔
امام ترمذی کہتے ہیں : ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے ،۲- جریربن حازم کے سواکسی بڑے محدث سے یہ حدیث مسنداً مروی نہیں، زہری نے ا سے نبی اکرمﷺ سے مرسلاً روایت کیا ہے ،۴- اس حدیث کو حبان بن علی عنزی بسند عقیل عن الزہری عن عبیداللہ بن عبداللہ عن ابن عباس عن النبی ﷺروایت کیا ہے، نیزاسے لیث بن سعد نے بسند عقیل عن الزہری عن النبیﷺ مرسلاً روایت کیا ہے ۔
وضاحت ۱؎ : سرایا جمع ہے سریہ کی ، سریہ اس جنگ کو کہتے ہیں جس میں رسول اللہ ﷺ ذاتی طورپر شریک نہ رہے ہوں، یہ بڑے لشکر کا ایک حصہ ہوتا ہے جس میں زیادہ سے زیادہ چارسو فوجی ہوتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
8-بَاب مَنْ يُعْطَى الْفَيْئَ
۸-باب: مالِ غنیمت کن لوگوں کے درمیان تقسیم ہوگا​


1556- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ هُرْمُزَ أَنَّ نَجْدَةَ الْحَرُورِيَّ كَتَبَ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ يَسْأَلُهُ هَلْ كَانَ رَسُولُ اللهِ ﷺ يَغْزُو بِالنِّسَاءِ؟ وَهَلْ كَانَ يَضْرِبُ لَهُنَّ بِسَهْمٍ؟ فَكَتَبَ إِلَيْهِ ابْنُ عَبَّاسٍ: كَتَبْتَ إِلَيَّ تَسْأَلُنِي هَلْ كَانَ رَسُولُ اللهِ ﷺ يَغْزُو بِالنِّسَاءِ وَكَانَ يَغْزُو بِهِنَّ، فَيُدَاوِينَ الْمَرْضَى وَيُحْذَيْنَ مِنَ الْغَنِيمَةِ، وَأَمَّا بِسَهْمٍ فَلَمْ يَضْرِبْ لَهُنَّ بِسَهْمٍ. وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ وَأُمِّ عَطِيَّةَ. وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ، وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَالشَّافِعِيِّ، و قَالَ بَعْضُهُمْ: يُسْهَمُ لِلْمَرْأَةِ وَالصَّبِيِّ، وَهُوَ قَوْلُ الأَوْزَاعِيِّ، قَالَ الأَوْزَاعِيُّ: وَأَسْهَمَ النَّبِيُّ ﷺ لِلصِّبْيَانِ بِخَيْبَرَ، وَأَسْهَمَتْ أَئِمَّةُ الْمُسْلِمِينَ لِكُلِّ مَوْلُودٍ وُلِدَ فِي أَرْضِ الْحَرْبِ. قَالَ الأَوْزَاعِيُّ: وَأَسْهَمَ النَّبِيُّ ﷺ لِلنِّسَائِ بِخَيْبَرَ، وَأَخَذَ بِذَلِكَ الْمُسْلِمُونَ بَعْدَهُ. حَدَّثَنَا بِذَلِكَ عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ. حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ عَنْ الأَوْزَاعِيِّ بِهَذَا. وَمَعْنَى قَوْلِهِ وَيُحْذَيْنَ مِنْ الْغَنِيمَةِ يَقُولُ يُرْضَخُ لَهُنَّ بِشَيْئٍ مِنْ الْغَنِيمَةِ يُعْطَيْنَ شَيْئًا.
* تخريج: م/الجہاد ۴۸ (۱۸۱۲)، د/الجہاد ۱۵۲ (۲۷۲۷)، ن/الفیٔ (۴۱۳۸)، (تحفۃ الأشراف: ۶۵۵۷)، وحم (۱/۲۴۸، ۲۹۴، ۳۰۸) (صحیح)
۱۵۵۶- یزید بن ہرمزسے روایت ہے کہ نجدہ بن عامرحروری نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس یہ سوال لکھ کربھیجا کیا رسول اللہ ﷺ عورتوں کوساتھ لے کر جہادکرتے تھے؟ اورکیا آپ ان کے لیے مال غنیمت سے حصہ بھی مقرر فرماتے تھے؟ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ان کوجواب میں لکھا : تم نے میرے پاس یہ سوال لکھا ہے : کیا رسول اللہ ﷺ عورتوں کو ساتھ لے کر جہاد کرتے تھے؟ ۱ ؎ ہاں، آپ ان کے ہمراہ جہاد کرتے تھے، وہ بیماروں کا علاج کرتی تھیں اور مال غنیمت سے ان کو (بطور انعام) کچھ دیاجاتاتھا، رہ گئی حصہ کی بات تو آپ نے ان کے لیے حصہ نہیں مقررکیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے ،۲- اس باب میں انس اورام عطیہ رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔ ۳- اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے ، سفیان ثوری اورشافعی کا بھی یہی قول ہے ، بعض لوگ کہتے ہیں: عورت اور بچہ کو بھی حصہ دیاجائے گا، اوزاعی کا یہی قول ہے ،۴- اوزاعی کہتے ہیں: نبی اکرمﷺ نے خیبرمیں بچوں کو حصہ دیا اور مسلمانوں کے امراء نے ہر اس مولود کے لیے حصہ مقررکیا جو دشمنوں کی سرزمین میں پیداہوا ہو،اوزاعی کہتے ہیں: نبی اکرم ﷺ نے خبیرمیں عورتوں کو حصہ دیا اورآپ کے بعدمسلمانوں نے اسی پرعمل کیا ہے ۔
وضاحت ۱ ؎ : اس سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرام کے دورمیں باہم خط وکتابت ہواکرتی تھی اور اس سے جواب نامہ کا اسلوبِ تحریربھی معلوم ہوا کہ پہلے آنے والے خط کی عبارت کا بالاختصارتذکرہ اورپھراس کا جواب ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
9-بَاب هَلْ يُسْهَمُ لِلْعَبْدِ
۹-باب: مالِ غنیمت میں غلام کے حصے کا بیان​


1557- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ عُمَيْرٍ مَوْلَى آبِي اللَّحْمِ قَالَ: شَهِدْتُ خَيْبَرَ مَعَ سَادَتِي، فَكَلَّمُوا فِيَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ وَكَلَّمُوهُ أَنِّي مَمْلُوكٌ، قَالَ: فَأَمَرَ بِي فَقُلِّدْتُ السَّيْفَ، فَإِذَا أَنَا أَجُرُّهُ، فَأَمَرَ لِي بِشَيْئٍ مِنْ خُرْثِيِّ الْمَتَاعِ وَعَرَضْتُ عَلَيْهِ رُقْيَةً كُنْتُ أَرْقِي بِهَا الْمَجَانِينَ، فَأَمَرَنِي بِطَرْحِ بَعْضِهَا وَحَبْسِ بَعْضِهَا. وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ لاَ يُسْهَمُ لِلْمَمْلُوكِ وَلَكِنْ يُرْضَخُ لَهُ بِشَيْئٍ، وَهُوَ قَوْلُ الثَّوْرِيِّ وَالشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ.
* تخريج: د/الجہاد ۱۵۲ (۲۷۳۰)، ق/الجہاد ۳۷ (۲۸۵۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۸۹۸)، ودي/السیر ۳۵ (۲۵۱۸) (صحیح)
۱۵۵۷- عمیرمولیٰ ابی اللحم رضی اللہ عنہما کہتے ہیں:میں اپنے مالکان کے ساتھ غزوئہ خیبرمیں شریک ہوا، انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے میرے سلسلے میں گفتگوکی اورآپ کو بتایا کہ میں غلام ہوں،چنانچہ آپ نے حکم دیااور میرے جسم پر تلوار لٹکادی گئی،میں (کوتاہ قامت ہونے اورتلوار کے بڑی ہونے کے سبب) اسے گھسیٹتاتھا، آپ نے میرے لیے مال غنیمت سے کچھ سامان دینے کا حکم دیا، میں نے آپ کے سامنے وہ دم، جھاڑپھونک پیش کیا جس سے میں دیوانوں کو جھاڑپھونک کرتاتھا، آپ نے مجھے اس کا کچھ حصہ چھوڑدینے اورکچھ یادرکھنے کا حکم دیا ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی روایت ہے ، ۳- بعض اہل علم کا اسی پرعمل ہے کہ غلام کو حصہ نہیں ملے گا البتہ عطیہ کے طورپر اسے کچھ دیاجائے گا ، ثوری ، شافعی ، احمد اوراسحاق بن راہویہ کا بھی یہی قول ہے ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی جو حصہ قرآن وحدیث کے خلاف تھا اسے چھوڑدینے اور شرک سے خالی کلمات کو باقی رکھنے کوکہا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
10-بَاب مَا جَاءَ فِي أَهْلِ الذِّمَّةِ يَغْزُونَ مَعَ الْمُسْلِمِينَ هَلْ يُسْهَمُ لَهُمْ
۱۰-باب: مالِ غنیمت میں مسلمانوں کے ساتھ جنگ میں شریک ذمیوں کے حصہ کا بیان​


1558- حَدَّثَنَا الأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنِ الْفُضَيْلِ بْنِ أَبِي عَبْدِاللهِ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ نِيَارٍ الأَسْلَمِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ خَرَجَ إِلَى بَدْرٍ حَتَّى إِذَا كَانَ بِحَرَّةِ الْوَبَرَةِ لَحِقَهُ رَجُلٌ مِنَ الْمُشْرِكِينَ، يَذْكُرُ مِنْهُ جُرْأَةً وَنَجْدَةً، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ ﷺ: "أَلَسْتَ تُؤْمِنُ بِاللهِ وَرَسُولِهِ؟" قَالَ: لاَ، قَالَ: "ارْجِعْ فَلَنْ أَسْتَعِينَ بِمُشْرِكٍ". وَفِي الْحَدِيثِ كَلاَمٌ أَكْثَرُ مِنْ هَذَا. هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ، قَالُوا : لاَ يُسْهَمُ لأَهْلِ الذِّمَّةِ وَإِنْ قَاتَلُوا مَعَ الْمُسْلِمِينَ الْعَدُوَّ. وَرَأَى بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنْ يُسْهَمَ لَهُمْ إِذَا شَهِدُوا الْقِتَالَ مَعَ الْمُسْلِمِينَ. وَيُرْوَى عَنْ الزُّهْرِيِّ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ أَسْهَمَ لِقَوْمٍ مِنَ الْيَهُودِ قَاتَلُوا مَعَهُ، حَدَّثَنَا بِذَلِكَ قُتَيْبَةُ ابْنُ سَعِيدٍ. أَخْبَرَنَا عَبْدُالْوَارِثِ بْنُ سَعِيدٍ عَنْ عَزْرَةَ بْنِ ثَابِتٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ بِهَذَا.
* تخريج: م/الجہاد ۵۱ (۱۸۱۷)، د/الجہاد ۱۵۳ (۲۷۳۲)، ق/الجہاد ۲۷ (۲۸۳۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۳۵۸)، ودي/السیر۵۴ (۲۵۳۸) (صحیح)
۱۵۵۸- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ بدرکے لیے نکلے، جب آپ حرۃ الوبرہ ۱؎ پہنچے تو آپ کے ساتھ ایک مشرک ہو لیا جس کی جرأت ودلیری مشہورتھی نبی اکرمﷺنے اس سے پوچھا :تم اللہ اوراس کے رسول پر ایمان رکھتے ہو؟ اس نے جواب دیا : نہیں، آپ نے فرمایا:'' لوٹ جاؤ، میں کسی مشرک سے ہرگز مددنہیں لوں گا ۲؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- حدیث میں اس سے بھی زیادہ کچھ تفصیل ہے، ۲- یہ حدیث حسن غریب ہے ، ۳- بعض اہل علم کااسی پرعمل ہے، وہ کہتے ہیں کہ ذمی کو مال غنیمت سے حصہ نہیں ملے گا اگرچہ وہ مسلمانوں کے ہمراہ دشمن سے جنگ کریں، ۴- کچھ اہل علم کاخیال ہے کہ جب ذمی مسلمانوں کے ہمراہ جنگ میں شریک ہوں توان کوحصہ دیاجائے گا، ۵-زہری سے مروی ہے کہ نبی اکرمﷺ نے یہود کی ایک جماعت کو حصہ دیا جوآپ کے ہمراہ جنگ میں شریک تھی ۔
وضاحت ۱؎ : مدینہ سے چار میل کی دوری پر ہے۔
وضاحت ۲؎ : بعض روایتوں میں ہے کہ اس کی بہادری وجرأتمندی اس قدر مشہور تھی کہ صحابہ اسے دیکھ کر خوش ہوگئے، پھر اس نے خود ہی صراحت کردی کہ میں صرف اور صرف مال غنیمت میں حصہ لینے کی خواہش میں شریک ہورہاہوں ، پھر اس نے جب ایمان نہ لانے کی صراحت کردی تو آپ نے اس کا تعاون لینے سے انکار کردیا۔ پھر بعد میں اس نے ایمان کا اقرار کیا اور آپ کی اجازت سے شریک جنگ ہوا، یہاں پھر یہ سوال پیداہوتا ہے کہ کافر سے مدد لینا جائز ہے یا نہیں ۔ ایک جماعت کایہ خیال ہے کہ مدد لینا جائز ہے اور بعض کی رائے ہے کہ بوقت ضرورت مدد لی جاسکتی ہے جیساکہ آپ نے جنگ حنین کے موقع پر صفوان بن امیہ وغیرہ سے اسلحہ کی امداد لی تھی اسی طرح بنو قینقاع کے یہود یوں سے بھی مددلی تھی، بہر حال اسلحہ اور افرادی امداد دونوں کی شدید ضرورت وحاجت کے موقع پر لینے کی گنجائش ہے۔


1559- حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الأَشَجُّ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ، حَدَّثَنَا بُرَيْدُ بْنُ عَبْدِاللهِ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ جَدِّهِ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى قَالَ: قَدِمْتُ عَلَى رَسُولِ اللهِ ﷺ فِي نَفَرٍ مِنْ الأَشْعَرِيِّينَ خَيْبَرَ، فَأَسْهَمَ لَنَا مَعَ الَّذِينَ افْتَتَحُوهَا. هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ. قَالَ الأَوْزَاعِيُّ: مَنْ لَحِقَ بِالْمُسْلِمِينَ قَبْلَ أَنْ يُسْهَمَ لِلْخَيْلِ أُسْهِمَ لَهُ، وَبُرَيْدٌ يُكْنَى أَبَابُرَيْدَةَ وَهُوَ ثِقَةٌ، وَرَوَى عَنْهُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَابْنُ عُيَيْنَةَ وَغَيْرُهُمَا.
* تخريج: خ/فرض الخمس ۱۵ (۳۱۳۶)، والمناقب ۳۷ (۳۸۷۶)، والمغازي ۳۸ (۴۲۳۰)، م/فضائل الصحابۃ ۴۱ (۲۵۰۲)، د/الجہاد ۱۵۱ (۲۷۲۵)، (تحفۃ الأشراف:۹۰۴۹) (صحیح)
۱۵۵۹- ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : میں اشعری قبیلہ کی ایک جماعت کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کے پاس خیبرآیا، جن لوگوں نے خیبر فتح کیا تھاآپ نے ان کے ساتھ ہمارے لیے بھی حصہ مقررکیا ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے ،۲- بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے ، اوزاعی کہتے ہیں: گھوڑے کے لیے حصہ مقررکرنے سے پہلے جو مسلمانوں کے ساتھ مل جائے ، اس کوحصہ دیاجائے گا۔
وضاحت ۱؎ : اسی حدیث سے استدلال کرتے ہوئے بعض لوگ کہتے ہیں کہ مال غنیمت کی تقسیم سے پہلے اور فتح حاصل ہونے کے بعد جو پہنچے اسے بھی حصہ دیاجائے گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
11-بَاب مَا جَاءَ فِي الانْتِفَاعِ بِآنِيَةِ الْمُشْرِكِينَ
۱۱-باب: کفارو مشرکین کے برتن استعمال کرنے کا بیان​


1560- حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ أَخْزَمَ الطَّائِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُوقُتَيْبَةَ سَلْمُ بْنُ قُتَيْبَةَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلاَبَةَ، عَنْ أَبِي ثَعْلَبَةَ الْخُشَنِيِّ قَالَ: سُئِلَ رَسُولُ اللهِ ﷺ عَنْ قُدُورِ الْمَجُوسِ، فَقَالَ: "أَنْقُوهَا غَسْلاً وَاطْبُخُوا فِيهَا وَنَهَى عَنْ كُلِّ سَبُعٍ وَذِي نَابٍ".
وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ عَنْ أَبِي ثَعْلَبَةَ، وَرَوَاهُ أَبُو إِدْرِيسَ الْخَوْلاَنِيُّ عَنْ أَبِي ثَعْلَبَةَ، وَأَبُو قِلاَبَةَ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ أَبِي ثَعْلَبَةَ، إِنَّمَا رَوَاهُ عَنْ أَبِي أَسْمَاءَ الرَّحَبِيِّ، عَنْ أَبِي ثَعْلَبَةَ.
* تخريج: انظر حدیث رقم ۱۴۶۴ (صحیح)
1560/م- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ حَيْوَةَ بْنِ شُرَيْحٍ قَال: سَمِعْتُ رَبِيعَةَ بْنَ يَزِيدَ الدِّمَشْقِيَّ يَقُولُ: أَخْبَرَنِي أَبُوإِدْرِيسَ الْخَوْلاَنِيُّ عَائِذُاللهِ بْنُ عُبَيْدِاللهِ، قَال: سَمِعْتُ أَبَاثَعْلَبَةَ الْخُشَنِيَّ يَقُولُ: أَتَيْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ، فَقُلْتُ: يَارَسُولَ اللهِ! إِنَّا بِأَرْضِ قَوْمٍ أَهْلِ كِتَابٍ نَأْكُلُ فِي آنِيَتِهِمْ، قَالَ: "إِنْ وَجَدْتُمْ غَيْرَ آنِيَتِهِمْ فَلاَ تَأْكُلُوا فِيهَا، فَإِنْ لَمْ تَجِدُوا فَاغْسِلُوهَا، وَكُلُوا فِيهَا". قَالَ أَبُوعِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: انظر حدیث رقم ۱۴۶۴ (صحیح)
۱۵۶۰- ابوثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ سے مجوس کی ہانڈیوں کے بارے میں سوال کیاگیا ۱؎ توآپ نے فرمایا:'' ان کو دھوکرصاف کرلو اوران میں پکاؤ، اورآپ نے ہردرندے اورکچلی والے جانور کوکھانے سے منع فرمایا''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث ابوثعلبہ رضی اللہ عنہ سے دوسری سندوں سے بھی آئی ہے،۲- ابوادریس خولانی نے بھی اس کو ابوثعلبہ سے روایت کیا ہے، لیکن ابوقلابہ کا سماع ابوثعلبہ سے ثابت نہیں ہے ، انہوں نے ابواسماء کے واسطے سے ابوثعلبہ سے اس کی روایت کی ہے۔
۱۵۶۰/م- ابوثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺکے پاس آکرکہا: اللہ کے رسول!ہم اہل کتاب کے علاقہ میں ہیں توکیا ہم ان کے برتن میں کھائیں؟ آپ نے فرمایا:'' اگران کے علاوہ برتن پاتے ہوتو ان کے برتنوں میں نہ کھاؤ، اوراگرنہ پاؤتو ان کے برتنوں کودھل لواور ان میں کھاؤ''۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : کہ ان کا استعمال کرنا اور ان میں پکانا کھانا درست ہے یا نہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
12-بَاب فِي النَّفَلِ
۱۲-باب: نفل کا بیان​


1561- حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مُوسَى، عَنْ مَكْحُولٍ، عَنْ أَبِي سَلاَّمٍ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يُنَفِّلُ فِي الْبَدْأَةِ الرُّبُعَ، وَفِي الْقُفُولِ الثُّلُثَ. وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ وَحَبِيبِ بْنِ مَسْلَمَةَ وَمَعْنِ بْنِ يَزِيدَ وَابْنِ عُمَرَ وَسَلَمَةَ بْنِ الأَكْوَعِ. قَالَ أَبُوعِيسَى: وَحَدِيثُ عُبَادَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ أَبِي سَلاَّمٍ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ.
* تخريج: ق/الجہاد ۳۵ (۲۸۵۲)، (تحفۃ الأشراف: ۵۰۹۱) (صحیح)
(سند میں ''عبدالرحمن '' اورسلیمان اموی کے حافظہ میں کمزوری ہے،مگر حبیب بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے تقویت پاکر یہ حدیث بھی صحیح لغیرہ ہے ، دیکھئے : صحیح أبی داود رقم ۲۴۵۵)
1561/م- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عُبَيْدِاللهِ بْنِ عَبْدِاللهِ بْنِ عُتْبَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ تَنَفَّلَ سَيْفَهُ ذَا الْفَقَارِ يَوْمَ بَدْرٍ، وَهُوَ الَّذِي رَأَى فِيهِ الرُّؤْيَا يَوْمَ أُحُدٍ. قَالَ أَبُوعِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ أَبِي الزِّنَادِ. وَقَدْ اخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي النَّفَلِ مِنْ الْخُمُسِ، فَقَالَ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ: لَمْ يَبْلُغْنِي أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ نَفَّلَ فِي مَغَازِيهِ كُلِّهَا. وَقَدْ بَلَغَنِي أَنَّهُ نَفَّلَ فِي بَعْضِهَا، وَإِنَّمَا ذَلِكَ عَلَى وَجْهِ الاجْتِهَادِ مِنْ الإِمَامِ فِي أَوَّلِ الْمَغْنَمِ وَآخِرِهِ، قَالَ إِسْحَاقُ ابْنُ مَنْصُورٍ قُلْتُ: لأَحْمَدَ إِنَّ النَّبِيَّ ﷺ نَفَّلَ إِذَا فَصَلَ بِالرُّبُعِ بَعْدَ الْخُمُسِ، وَإِذَا قَفَلَ بِالثُّلُثِ بَعْدَ الْخُمُسِ، فَقَالَ: يُخْرِجُ الْخُمُسَ ثُمَّ يُنَفِّلُ مِمَّا بَقِيَ وَلاَيُجَاوِزُ هَذَا. قَالَ أَبُوعِيسَى: وَهَذَا الْحَدِيثُ عَلَى مَا قَالَ ابْنُ الْمُسَيَّبِ النَّفَلُ مِنْ الْخُمُسِ، قَالَ إِسْحَاقُ: هُوَ كَمَا قَالَ.
* تخريج: ق/الجہاد ۱۸ (۲۸۰۸)، (تحفۃ الأشراف: ۵۸۲۷) (حسن الإسناد)
۱۵۶۱- عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : نبی اکرمﷺ سریہ کے شروع میں جانے پر چوتھائی حصہ اورلڑائی سے لوٹتے وقت دوبارہ جانے پر تہائی حصہ زائدبطورانعام( نفل) دیتے تھے ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عبادہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن ہے،۲- یہ حدیث ابوسلاّم سے مروی ہے ، انہوں نے ایک صحابی سے اس کی روایت کی ہے اورانھوں نے نبی اکرمﷺ سے کی ہے،۳- اس باب میں ابن عباس ، حبیب بن مسلمہ ، معن بن یزید، ابن عمراورسلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
۱۵۶۱/م- عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے بدرکے دن نفل میں اپنی تلوار ذوالفقار لے لی تھی، اسی کے بارے میں آپ نے احدکے دن خواب دیکھاتھا ۲؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن غریب ہے ، ہم اس حدیث کو اس سندسے صرف ابن ابی زناد ہی کی روایت سے جانتے ہیں، ۲- خمس میں سے نفل دینے کی بابت اہل علم کا اختلاف ہے ، مالک بن انس کہتے ہیں: مجھے کوئی روایت نہیں پہنچی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے تمام غزوات میں نفل دیاہے ، آپ نے بعض غزوات میں نفل دیا ہے ، لیکن یہ امام کے اجتہادپرموقوف ہے کہ شروع میں دے، یاآخرمیں دے،۳- اسحاق بن منصورکہتے ہیں: میں نے احمدبن حنبل سے پوچھا : کیانبی اکرمﷺ نے روانگی کے وقت خمس نکالنے کے بعدبطورنفل ربع دیاہے اورواپسی پر خمس نکالنے کے بعد ثلث دیا ہے؟ انہوں نے کہا: آپ خمس نکالتے تھے پھر جوباقی بچتا اسی سے نفل دیتے تھے، آپ کبھی ثلث سے تجاوزنہیں کرتے تھے ۳؎ ، یہ حدیث مسیب کے قول کے موافق ہے کہ نفل خمس سے دیاجائے گا، اسحاق بن راہویہ نے بھی اسی طرح کی بات کہی ہے۔
وضاحت ۱؎ : کیونکہ لڑائی سے واپس آنے کے بعد پھرواپس جہادکے لیے جانا مشکل کا م ہے۔
وضاحت ۲؎ : آپ ﷺ نے جو خواب دیکھاتھا وہ یہ تھا کہ آپ نے اپنی تلوار ذوالفقار کو حرکت دی تووہ درمیان سے ٹوٹ گئی پھر دوبارہ حرکت دی تو پہلے سے بہتر حالت میں آگئی۔
وضاحت ۳؎ : مجاہد کو مال غنیمت میں سے مقرر حصہ کے علاوہ زائد مال بھی دیاجاسکتا ہے، اوریہی نفل کہلاتاہے، البتہ اس میں اختلاف ہے کہ یہ زائد حصہ مال غنیمت میں سے ہوگا یا خمس میں سے یا خمس الخمس میں سے؟ صحیح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ وہ اصل غنیمت میں سے دیاجائے گا، اس اضافی حصہ کی مقدار کی بابت سب کااتفاق ہے کہ سربراہ و امام یہ حصہ غنیمت کے تہائی حصہ سے زائد دینے کا مجاز نہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
13-بَاب مَا جَاءَ فِي مَنْ قَتَلَ قَتِيلاً فَلَهُ سَلَبُهُ
۱۳-باب: کافرکاقاتل مقتول کے سامان کاحق دارگا​


1562- حَدَّثَنَا الأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ كَثِيرِ بْنِ أَفْلَحَ، عَنْ أَبِي مُحَمَّدٍ مَوْلَى أَبِي قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "مَنْ قَتَلَ قَتِيلاً لَهُ عَلَيْهِ بَيِّنَةٌ فَلَهُ سَلَبُهُ". قَالَ أَبُوعِيسَى: وَفِي الْحَدِيثِ قِصَّةٌ.
* تخريج: خ/البیوع ۳۷ (۲۱۰۰)، والخمس ۱۸ (۳۱۴۲)، والمغازي ۵۴ (۴۳۲۱)، والأحکام ۲۱ (۷۱۷۰)، م/الجہاد ۱۳ (۱۵۷۱)، د/الجہاد ۱۴۷)، (۲۷۱۷)، ق/الجہاد ۲۹ (۲۸۳۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۱۳۲)، وط/الجہاد ۱۰ (۱۸)، دي/السیر ۴۴ (۲۵۲۸) (صحیح)
1562/م- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ بِهَذَا الإِسْنَادِ نَحْوَهُ. وَفِي الْبَاب عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ وَخَالِدِ بْنِ الْوَلِيدِ وَأَنَسٍ وَسَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ.
وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو مُحَمَّدٍ هُوَ نَافِعٌ مَوْلَى أَبِي قَتَادَةَ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ، وَهُوَ قَوْلُ الأَوْزَاعِيِّ وَالشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ، و قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: للإِمَامِ أَنْ يُخْرِجَ مِنَ السَّلَبِ الْخُمُسَ، وقَالَ الثَّوْرِيُّ: النَّفَلُ أَنْ يَقُولَ الإِمَامُ مَنْ أَصَابَ شَيْئًا فَهُوَ لَهُ، وَمَنْ قَتَلَ قَتِيلاً فَلَهُ سَلَبُهُ، فَهُوَ جَائِزٌ، وَلَيْسَ فِيهِ الْخُمُسُ، وقَالَ إِسْحَاقُ: السَّلَبُ لِلْقَاتِلِ إِلاَّ أَنْ يَكُونَ شَيْئًا كَثِيرًا فَرَأَى الإِمَامُ أَنْ يُخْرِجَ مِنْهُ الْخُمُسَ كَمَا فَعَلَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۱۵۶۲- ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جو کسی کافرکوقتل کرے اور اس کے پاس گواہ موجود ہو تو مقتول کا سامان اسی کا ہوگا''۔امام ترمذی کہتے ہیں: حدیث میں ایک قصہ مذکور ہے ۱ ؎ ۔
۱۵۶۲/م - اس سند سے بھی ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے۲- اس باب میں عوف بن مالک ، خالد بن ولید ، انس اورسمرہ بن جندب رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں ، ۳- صحابہ کرام اوردیگرلوگوں میں سے بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے، اوزاعی ، شافعی اوراحمد کا بھی یہی قول ہے ،۴- اوربعض اہل علم کہتے ہیں کہ مقتول کے سامان سے خمس نکالنے کاامام کو اختیارہے ، ثوری کہتے ہیں: نفل یہی ہے کہ امام اعلان کردے کہ جو کافروں کا سامان چھین لے وہ اسی کا ہوگا اور جو کسی کافر کو قتل کرے تو مقتول کا سامان اسی کا ہو گا اور ایسا کرنا جائزہے ، اس میں خمس واجب نہیں ہے،اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ مقتول کا مال قاتل کا ہے مگر جب سامان زیادہ ہو اور امام اس میں سے خمس نکالناچاہے جیسا کہ عمربن خطاب نے کیا۔
وضاحت ۱ ؎ : یہ قصہ صحیح البخاری کی حدیث ۳۱۴۳ ، ۴۳۲۲ اورصحیح مسلم کی حدیث ۱۷۵۱ میں دیکھاجاسکتا ہے ، واقعہ دلچسپ ہے ضرورمطالعہ کریں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
14-بَاب فِي كَرَاهِيَةِ بَيْعِ الْمَغَانِمِ حَتَّى تُقْسَمَ
۱۴-باب: تقسیم سے پہلے مال غنیمت بیچنا مکروہ ہے​


1563- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ جَهْضَمِ بْنِ عَبْدِاللهِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللهِ ﷺ عَنْ شِرَائِ الْمَغَانِمِ حَتَّى تُقْسَمَ. وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ.
قَالَ أَبُوعِيسَى: وَهَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: ق/التجارات ۲۴ (۲۱۹۶)، (فی سیاق الحول من ذلک) (تحفۃ الأشراف: ۴۰۷۳) (ضعیف)
(سند میں ''محمدبن ابراہیم الباہلی، اور''محمدبن زید العبدی'' دونوں مجہول راوی ہیں ، اور''جہضم'' میں کلام ہے)
۱۵۶۳- ابوسعید خدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے تقسیم سے پہلے ما ل غنیمت کی خرید وفروخت سے منع فرمایا۔ امام ترمذی کہتے ہیں :۱- یہ حدیث غریب ہے، ۲- اس باب میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
15-بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ وَطْئِ الْحَبَالَى مِنَ السَّبَايَا
۱۵-باب: حاملہ قیدی عورتوں سے جماع کرنامکروہ ہے​


1564- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى النَّيْسَابُورِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُوعَاصِمٍ النَّبِيلُ، عَنْ وَهْبٍ بْنِ خَالِدٍ، قَالَ: حَدَّثَتْنِي أُمُّ حَبِيبَةَ بِنْتُ عِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ: أَنَّ أَبَاهَا أَخْبَرَهَا أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ نَهَى أَنْ تُوطَأَ السَّبَايَا حَتَّى يَضَعْنَ مَا فِي بُطُونِهِنَّ.
قَالَ أَبُوعِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ رُوَيْفِعِ بْنِ ثَابِتٍ وَحَدِيثُ عِرْبَاضٍ حَدِيثٌ غَرِيبٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ، و قَالَ الأَوْزَاعِيُّ: إِذَا اشْتَرَى الرَّجُلُ الْجَارِيَةَ مِنَ السَّبْيِ وَهِيَ حَامِلٌ، فَقَدْ رُوِيَ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ أَنَّهُ قَالَ: لاَ تُوطَأُ حَامِلٌ حَتَّى تَضَعَ، قَالَ الأَوْزَاعِيُّ: وَأَمَّا الْحَرَائِرُ فَقَدْ مَضَتِ السُّنَّةُ فِيهِنَّ بِأَنْ أُمِرْنَ بِالْعِدَّةِ، حَدَّثَنِي بِذَلِكَ عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ عَنْ الأَوْزَاعِيِّ بِهَذَا الْحَدِيثِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف وتقدم برقم ۱۴۷۴ (تحفۃ الأشراف: ۹۸۹۳) (صحیح)
(سند میں ''ام حبیبہ '' مجہول ہیں مگرشواہد کی بناپر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے)
۱۵۶۴- عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : رسول اللہ ﷺ نے (حاملہ) قیدی عورتوں سے جماع کر نے سے منع فرمایا جب تک کہ وہ اپنے پیٹ میں موجود بچوں کو جن نہ دیں ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- عرباض رضی اللہ عنہ کی حدیث غریب ہے، ۲- اس باب میں رویفع بن ثابت رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے،۳- اہل علم کا اسی پرعمل ہے ، اوزاعی کہتے ہیں کہ جب کو ئی شخص قیدی عورتوں میں سے لونڈی خرید ے اور وہ حاملہ ہو تو اس سلسلے میں عمربن خطاب سے روایت ہے، انہوں نے کہا: حاملہ جب تک بچہ نہ جنے اس سے وطی نہیں کی جائے گی ،۴- اوزاعی کہتے ہیں: آزاد عورتوں کے سلسلے میں تو یہ سنت چلی آرہی ہے کہ ان کو عدت گذارنے کا حکم دیا گیاہے۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہواکہ جنگ میں جو عورتیں گرفتار ہوجائیں گرفتاری سے ہی ان کا پچھلا نکاح ٹوٹ جاتاہے، حمل سے ہوں تو وضع حمل کے بعد اور اگر غیر حاملہ ہوں تو ایک ماہواری کے بعد ان سے جماع کیا جاسکتا ہے بشرطیکہ وہ تقسیم کے بعد اس کے حصہ میں آئی ہوں۔
 
Top