• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
108- بَاب مَا جَاءَ إِذَا أُقِيمَتِ الصَّلاَةُ وَوَجَدَ أَحَدُكُمْ الْخَلاَءَ فَلْيَبْدَأْ بِالْخَلاَءِ
۱۰۸-باب: جب صلاۃ کھڑی ہو جائے اور آدمی کو پاخانے کی حاجت ہو توپہلے پاخانہ جائے​


142- حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ الأَرْقَمِ، قَالَ: أُقِيمَتْ الصَّلاَةُ، فَأَخَذَ بِيَدِ رَجُلٍ فَقَدَّمَهُ، وَكَانَ إِمَامَ قَوْمِهِ، وَقَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَقُولُ: "إِذَا أُقِيمَتْ الصَّلاَةُ وَوَجَدَ أَحَدُكُمْ الْخَلاَءَ فَلْيَبْدَأْ بِالْخَلاَءِ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَثَوْبَانَ، وَأَبِي أُمَامَةَ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَبْدِ اللهِ بْنِ الأَرْقَمِ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. هَكَذَا رَوَى مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، وَيَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ الْحُفَّاظِ، عَنْ هِشَامِ ابْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ الأَرْقَمِ. وَرَوَى وُهَيْبٌ وَغَيْرُهُ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ رَجُلٍ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ الأَرْقَمِ. وَهُوَ قَوْلُ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَالتَّابِعِينَ. وَبِهِ يَقُولُ: أَحْمَدُ، وَإِسْحَاقُ، قَالاَ: لاَ يَقُومُ إِلَى الصَّلاَةِ، وَهُوَ يَجِدُ شَيْئًا مِنْ الْغَائِطِ وَالْبَوْلِ، وَقَالاَ: إِنْ دَخَلَ فِي الصَّلاَةِ فَوَجَدَ شَيْئًا مِنْ ذَلِكَ فَلاَ يَنْصَرِفْ مَا لَمْ يَشْغَلْهُ. و قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: لاَ بَأْسَ أَنْ يُصَلِّيَ وَبِهِ غَائِطٌ أَوْ بَوْلٌ، مَا لَمْ يَشْغَلْهُ ذَلِكَ عَنْ الصَّلاَةِ.
* تخريج: د/الطہارۃ ۴۳ (۸۸)، ن/الإمامۃ ۵۱ (۸۵۳)، ق/الطہارۃ ۱۱۴ (۶۱۶)، (تحفۃ الأشراف: ۵۱۴۱)، ط/صلاۃ السفر ۱۷ (۴۹)، حم (۴/۳۵)، دي/الصلاۃ ۱۳۷ (۱۴۶۷) (صحیح)
۱۴۲- عروہ سے روایت ہے کہ عبداللہ بن ارقم رضی اللہ عنہ اپنی قوم کے امام تھے، صلاۃ کھڑی ہوئی تو انہوں نے ایک شخص کا ہاتھ پکڑ کر اسے (امامت کے لیے) آگے بڑھا دیا اور کہا : میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے سناہے: ''جب صلاۃ کے لیے اقامت ہوچکی ہو اور تم میں سے کوئی قضائے حاجت کی ضرورت محسوس کرے تو وہ پہلے قضائے حاجت کے لیے جائے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عبداللہ بن ارقم رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں عائشہ ، ابوہریرہ ، ثوبان اور ابو امامہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اوریہی قول نبی اکرم ﷺ کے صحابہ اور تابعین میں کئی لوگوں کا ہے۔ احمد، اسحاق بن راہویہ بھی یہی کہتے ہیں کہ جب آدمی کوپیشاب پاخانہ کی حاجت محسوس ہوتو وہ صلاۃ کے لیے نہ کھڑا ہو۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگروہ صلاۃ میں شامل ہوگیا، پھر صلاۃ کے دوران اس کو اس میں سے کچھ محسوس ہو تو وہ اس وقت تک صلاۃ نہ توڑے جب تک یہ حاجت (صلاۃ سے) اس کی توجہ نہ ہٹا دے۔بعض اہل علم نے کہا ہے کہ پاخانے یا پیشاب کی حاجت کے ساتھ صلاۃ پڑھ لینے میں کوئی حرج نہیں جب تک کہ یہ چیزیں صلاۃ سے اس کی توجہ نہ ہٹا دیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
109- بَاب مَا جَاءَ فِي الْوُضُوءِ مِنْ الْمَوْطَإِ
۱۰۹-باب: گندی جگہوں پر سے ننگے پاؤں گزرنے سے پاؤں دھونے کا بیان​


143- حَدَّثَنَا أَبُو رَجَائٍ قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عُمَارَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أُمِّ وَلَدٍ لِعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، قَالَتْ: قُلْتُ لأُمِّ سَلَمَةَ: إِنِّي امْرَأَةٌ أُطِيلُ ذَيْلِي، وَأَمْشِي فِي الْمَكَانِ الْقَذِرِ، فَقَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "يُطَهِّرُهُ مَا بَعْدَهُ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللهِ ﷺ لاَ نَتَوَضَّأُ مِنْ الْمَوْطَإِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهُوَ قَوْلُ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ، قَالُوا: إِذَا وَطِيئَ الرَّجُلُ عَلَى الْمَكَانِ الْقَذِرِ، أَنَّهُ لاَ يَجِبُ عَلَيْهِ غَسْلُ الْقَدَمِ، إِلاَّ أَنْ يَكُونَ رَطْبًا. فَيَغْسِلَ مَا أَصَابَهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَرَوَى عَبْدُ اللهِ بْنُ الْمُبَارَكِ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عُمَارَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أُمِّ وَلَدٍ لِهُودِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ. وَهُوَ وَهَمٌ، وَلَيْسَ لِعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ ابْنٌ يُقَالَ لَهُ: هُودٌ. وَإِنَّمَا هُوَ عَنْ أُمِّ وَلَدٍ لإِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ. وَهَذَا الصَّحِيحُ.
* تخريج: د/الطہارۃ۴۰ (۳۸۳)، ق/الطہارۃ ۷۹ (۵۳۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۲۹۶)، ط/الطہارۃ ۴ (۱۶)، حم (۶/۲۹۰، ۳۱۶)، دي/الطہارۃ ۶۳ (۷۶۹) (صحیح)
(سند میں ام ولد عبدالرحمن یا ام ولد ابراہیم بن عبدالرحمن مبہم ہیں، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے)
۱۴۳- عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کی ایک ام ولد سے روایت ہے کہ میں نے ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے کہا: میں لمبا دامن رکھنے والی عورت ہوں اور میرا گندی جگہوں پربھی چلناہوتا ہے، (تو میں کیا کروں؟) انہوں نے کہاکہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے:'' اس کے بعد کی (پاک) زمین اُسے پاک کردیتی ہے''۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے کہ ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ گندی جگہوں پرسے گزر نے کے بعد پاؤں نہیں دھوتے تھے، ۲- اہل علم میں سے بہت سے لوگوں کا یہی قول ہے کہ جب آدمی کسی گندے راستے سے ہوکر آئے تو اسے پاؤں دھونے ضروری نہیں سوائے اس کے کہ گندگی گیلی ہوتو ایسی صورت میں جو کچھ لگاہے اسے دھولے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
110- بَاب مَا جَاءَ فِي التَّيَمُّمِ
۱۱۰-باب: تیمم کا بیان​


144- حَدَّثَنَا أَبُو حَفْصٍ عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ الْفَلاَّسُ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عَزْرَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَى، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ أَمَرَهُ بِالتَّيَمُّمِ لِلْوَجْهِ وَالْكَفَّيْنِ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَمَّارٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عَمَّارٍ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ. وَهُوَ قَوْلُ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ مِنْهُمْ: عَلِيٌّ، وَعَمَّارٌ، وَابْنُ عَبَّاسٍ، وَغَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ التَّابِعِينَ مِنْهُمْ: الشَّعْبِيُّ، وَعَطَائٌ، وَمَكْحُولٌ، قَالُوا: التَّيَمُّمُ ضَرْبَةٌ لِلْوَجْهِ وَالْكَفَّيْنِ. وَبِهِ يَقُولُ أَحْمَدُ، وَإِسْحَاقُ. وَ قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْهُمْ: ابْنُ عُمَرَ، وَجَابِرٌ، وَإِبْرَاهِيمُ، وَالْحَسَنُ، قَالُوا: التَّيَمُّمُ ضَرْبَةٌ لِلْوَجْهِ، وَضَرْبَةٌ لِلْيَدَيْنِ إِلَى الْمِرْفَقَيْنِ. وَبِهِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، وَمَالِكٌ، وَابْنُ الْمُبَارَكِ، وَالشَّافِعِيُّ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ عَمَّارٍ فِي التَّيَمُّمِ أَنَّهُ قَالَ: لِلْوَجْهِ وَالْكَفَّيْنِ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ. وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عَمَّارٍ أَنَّهُ قَالَ: تَيَمَّمْنَا مَعَ النَّبِيِّ ﷺ إِلَى الْمَنَاكِبِ وَالآبَاطِ. فَضَعَّفَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ حَدِيثَ عَمَّارٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ فِي التَّيَمُّمِ لِلْوَجْهِ، وَالْكَفَّيْنِ لَمَّا رُوِيَ عَنْهُ حَدِيثُ الْمَنَاكِبِ وَالآبَاطِ.
قَالَ إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مَخْلَدٍ الْحَنْظَلِيُّ، حَدِيثُ عَمَّارٍ فِي التَّيَمُّمِ لِلْوَجْهِ وَالْكَفَّيْنِ: هُوَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَحَدِيثُ عَمَّارٍ تَيَمَّمْنَا مَعَ النَّبِيِّ ﷺ إِلَى الْمَنَاكِبِ وَالآبَاطِ، لَيْسَ هُوَ بِمُخَالِفٍ لِحَدِيثِ الْوَجْهِ وَالْكَفَّيْنِ، لأَنَّ عَمَّارًا لَمْ يَذْكُرْ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ أَمَرَهُمْ بِذَلِكَ، وَإِنَّمَا قَالَ: فَعَلْنَا كَذَا وَكَذَا، فَلَمَّا سَأَلَ النَّبِيَّ ﷺ أَمَرَهُ بِالْوَجْهِ وَالْكَفَّيْنِ، فَانْتَهَى إِلَى مَا عَلَّمَهُ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: الْوَجْهِ وَالْكَفَّيْنِ، وَالدَّلِيلُ عَلَى ذَلِكَ: مَا أَفْتَى بِهِ عَمَّارٌ بَعْدَ النَّبِيِّ ﷺ فِي التَّيَمُّمِ أَنَّهُ قَالَ: الْوَجْهِ وَالْكَفَّيْنِ، فَفِي هَذَا دَلاَلَةٌ أَنَّهُ انْتَهَى إِلَى مَا عَلَّمَهُ النَّبِيُّ ﷺ فَعَلَّمَهُ إِلَى الْوَجْهِ وَالْكَفَّيْنِ. قَالَ: و سَمِعْت أَبَا زُرْعَةَ عُبَيْدَ اللهِ بْنَ عَبْدِالْكَرِيمِ يَقُولُ: لَمْ أَرَ بِالْبَصْرَةِ أَحْفَظَ مِنْ هَؤُلاَءِ الثَّلاَثَةِ: عَلِيِّ بْنِ الْمَدِينِيِّ، وَابْنِ الشَّاذَكُونِيِّ، وَعَمْرِو بْنِ عَلِيٍّ الْفَلاَّسِ. قَالَ أَبُو زُرْعَةَ: وَرَوَى عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ عَلِيٍّ حَدِيثًا.
* تخريج: خ/التیمم ۴ (۳۳۸)، و۶ (۳۳۹، ۳۴۰، ۳۴۱، ۳۴۲)، م/الحیض ۲۸ (۱۱۲/۳۶۸)، د/الطہارۃ ۱۲۳ (۳۲۲)، ن/الطہارۃ ۱۹۶ (۳۱۳)، و۲۰۰ (۳۱۸)، و۲۰۲ (۳۲۰)، ق/الطہارۃ ۱۹ (۵۶۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۳۶۲)، حم (۴/۲۶۳، ۲۶۵، ۳۱۹، ۳۲۰) (صحیح)
۱۴۴- عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے انہیں چہرے اور دونوں ہتھیلیوں کے تیمم کا حکم دیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عمار رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں عائشہ اورابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳- یہی صحابہ کرام میں سے کئی اہل علم کا قول ہے جن میں علی ، عمار ، ابن عباس رضی اللہ عنہم شامل ہیں اور تابعین میں سے بھی کئی لوگو ں کا ہے جن میں شعبی، عطاء اورمکحول بھی ہیں، ان سب کا کہنا ہے کہ تیمم چہرے اوردونوں ہتھیلیوں کے لیے ایک ہی بارمارنا ہے، اسی کے قائل احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی ہیں، ۴- بعض اہل علم جن میں ابن عمر، جابر رضی اللہ عنہم ، ابراہیم نخعی اورحسن بصری شامل ہیں کہتے ہیں کہ تیمم چہرہ کے لیے ایک ضربہ اوردونوں ہاتھوں کے لیے کہنیوں تک ایک ضربہ ہے، اس کے قائل سفیان ثوری، مالک، ابن مبارک اورشافعی ہیں،۵- تیمم کے سلسلہ میں عمارسے یہ حدیث جس میں چہرے اوردونوں ہتھیلیوں کے لیے ایک ضربہ کا ذکرہے اوربھی کئی سندوں سے مروی ہے، ۶- عمار رضی اللہ عنہ سے تیمم کی حدیث میں نقل کیا گیا ہے کہ ہم نے نبی اکرم ﷺکے ساتھ شانوں اوربغلوں تک تیمم کیا ۔ ۷- بعض اہل علم نے تیمم کے سلسلہ میں عمارکے چہرے اوردونوں ہتھیلیوں والی حدیث کی تضعیف کی ہے کیونکہ ان سے شانوں اوربغلو ں والی حدیث بھی مروی ہے، ۸- اسحاق بن ابراہم مخلدحنظلی (ابن راہویہ) کہتے ہیں کہ چہرہ اور دونوں کہنیوں کے لیے ایک ہی ضربہ والی تیمم کے سلسلہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۹- عمار رضی اللہ عنہ کی حدیث جس میں ہے کہ ہم نے نبی اکرم ﷺ کے ساتھ شانوں اوربغلوں تک تیمم کیا چہرے اوردونوں ہتھیلیوں والی حدیث کے مخالف نہیں کیونکہ عمار رضی اللہ عنہ نے یہ ذکرنہیں کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ہمیں اس کاحکم دیا تھا بلکہ انہوں نے صرف اتناکہاہے کہ ہم نے ایساایساکیا، پھر جب انہوں نے اس بار ے میں نبی اکرم ﷺ سے پوچھاتوآپ نے انہیں صرف چہرے اور دونوں کا حکم دیا، تووہ چہرے اوردونوں ہتھیلیوں ہی پر رک گئے۔ جس کی نبی اکرم ﷺ نے انہیں تعلیم دی، اس کی دلیل تیمم کے سلسلہ کا عمار رضی اللہ عنہ کا وہ فتویٰ ہے جسے انہوں نے نبی اکرم ﷺ کے بعددیا ہے کہ تیمم صرف چہرے اوردونوں ہتھیلیوں ہی کا ہے، اس میں اس بات پردلالت ہے کہ وہ اسی جگہ رک گئے جس کی نبی اکرم ﷺنے انہیں تعلیم دی ۱؎ اورآپ نے انہیں جوتعلیم دی تھی وہ چہرے اوردونوں ہتھیلیوں تک ہی محدودتھی۔
وضاحت ۱؎ : بعض نسخوں میں یہاں سے اخیرتک کا ٹکڑا نہیں ہے۔


145- حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدٍ الْقُرَشِيِّ، عَنْ دَاودَ بْنِ حُصَيْنٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّهُ سُئِلَ عَنْ التَّيَمُّمِ، فَقَالَ: إِنَّ اللهَ قَالَ فِي كِتَابِهِ حِينَ ذَكَرَ الْوُضُوءَ: {فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ}، وَقَالَ فِي التَّيَمُّمِ: {فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُمْ}، وَقَالَ: {وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا} فَكَانَتْ السُّنَّةُ فِي الْقَطْعِ الْكَفَّيْنِ، إِنَّمَا هُوَ الْوَجْهُ وَالْكَفَّانِ، يَعْنِي التَّيَمُّمَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرَيْبٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۶۰۷۷) (ضعیف الإسناد)
(سندمیں محمد بن خالدقرشی مجہول ہیں، لیکن یہ مسئلہ دیگر احادیث سے ثابت ہے)۔
۱۴۵- عکرمہ کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے تیمم کے بارے میں پوچھا گیاتوانہوں نے کہا: اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں جس وقت وضو کا ذکر کیا توفرمایا '' اپنے چہرے کو اور اپنے ہاتھوں کوکہنیوں تک دھوؤ''، اورتیمم کے بارے میں فرمایا: ''اپنے چہروں اور ہاتھوں پر مسح کرو''، اور فرمایا: ''چوری کرنے والے مردوعورت کی سزا یہ ہے کہ ان کے ہاتھ کاٹ دو'' توہاتھ کاٹنے کے سلسلے میں سنت یہ تھی کہ (پہنچے تک) ہتھیلی کاٹی جاتی ، لہذا تیمم صرف چہرے اور ہتھیلیوں ہی تک ہوگا۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
111- بَاب مَا جَاءَ فِي الرَّجُلِ يَقْرَأُ الْقُرْآنَ عَلَى كُلِّ حَالٍ مَا لَمْ يَكُنْ جُنُبًا
۱۱۱-باب: آدمی ہرحال میں قرآن پڑھ سکتا ہے جب تک کہ وہ جنبی نہ ہو​


146- حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ عَبْدُاللهِ بْنِ سَعِيدٍ الأَشَجُّ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ وَعُقْبَةُ بْنُ خَالِدٍ، قَالاَ: حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ وَابْنُ أَبِي لَيْلَى، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ سَلِمَةَ، عَنْ عَلِيٍّ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللهِ ﷺ يُقْرِئُنَا الْقُرْآنَ عَلَى كُلِّ حَالٍ مَا لَمْ يَكُنْ جُنُبًا.
قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَلِيٍّ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَبِهِ قَالَ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَالتَّابِعِينَ. قَالُوا: يَقْرَأُ الرَّجُلُ الْقُرْآنَ عَلَى غَيْرِ وُضُوئٍ، وَلاَ يَقْرَأُ فِي الْمُصْحَفِ، إِلاَّ وَهُوَ طَاهِرٌ. وَبِهِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، وَالشَّافِعِيُّ، وَأَحْمَدُ، وَإِسْحَاقُ.
* تخريج: د/الطہارۃ۹۱ (۲۲۹)، ن/الطہارۃ ۱۷۱ (۲۶۶، ۲۶۷)، ق/الطہارۃ ۱۰۵ (۵۹۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۱۸۶) (ضعیف)
(سندمیں عبداللہ بن سلمہ کا حافظہ آخری دورمیں کمزورہوگیا تھا، اوریہ روایت اسی دور کی ہے)
۱۴۶- علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ ہمیں قرآن پڑھاتے تھے۔خواہ کوئی بھی حالت ہو جب تک کہ آپ جنبی نہ ہوتے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- علی رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث حسن صحیح ہے ۱؎ ، ۲- صحابہ کرام اور تابعین میں سے کئی اہل علم کا یہی قول ہے کہ آدمی وضوکے بغیرقرآن پڑھ سکتا ہے، لیکن مصحف میں دیکھ کر اسی وقت پڑھے جب وہ باوضو ہو۔ سفیان ثوری، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کابھی یہی قول ہے۔
وضاحت ۱؎ : بلکہ ضعیف ہے جیساکہ تخریج میں گزرا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
112- بَاب مَا جَاءَ فِي الْبَوْلِ يُصِيبُ الأَرْضَ
۱۱۲-باب: جس زمین پر پیشاب لگ جائے​


147- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ وَسَعِيدُ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ الْمَخْزُومِيُّ، قَالاَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: دَخَلَ أَعْرَابِيٌّ الْمَسْجِدَ، وَالنَّبِيُّ ﷺ جَالِسٌ، فَصَلَّى، فَلَمَّا فَرَغَ قَالَ: اللّهُمَّ ارْحَمْنِي وَمُحَمَّدًا وَلاَ تَرْحَمْ مَعَنَا أَحَدًا، فَالْتَفَتَ إِلَيْهِ النَّبِيُّ ﷺ فَقَالَ: "لَقَدْ تَحَجَّرْتَ وَاسِعًا"، فَلَمْ يَلْبَثْ أَنْ بَالَ فِي الْمَسْجِدِ، فَأَسْرَعَ إِلَيْهِ النَّاسُ، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: "أَهْرِيقُوا عَلَيْهِ سَجْلاً مِنْ مَائٍ - أَوْ دَلْوًا مِنْ مَائٍ -، ثُمَّ قَالَ: إِنَّمَا بُعِثْتُمْ مُيَسِّرِينَ وَلَمْ تُبْعَثُوا مُعَسِّرِينَ".
* تخريج: د/الطہارۃ ۱۳۸ (۳۸۰)، ن/السہو ۲۰ (۱۳۱۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۱۳۹)، حم (۲/۲۳۹) (صحیح) وراجع أیضا: خ/الوضوء ۵۸ (۲۲۰)، والأدب ۲۷ (۶۰۱۰)، و۸۰ (۶۱۲۸)، ن/الطہارۃ ۴۴ (۵۶)، والمیاہ ۲ (۳۳۱)، ق/الطہارۃ ۷۸ (۵۲۹)، حم (۲/۲۸۳، ۵۰۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۱۱۱، ۱۵۰۷۳)
۱۴۷- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک اعرابی مسجد میں داخل ہوا، نبی اکرم ﷺ بیٹھے ہوئے تھے، اس نے صلاۃ پڑھی،جب صلاۃ پڑھ چکا تو کہا:اے اللہ تومجھ پر اور محمد پر رحم فرما اور ہمارے ساتھ کسی اور پررحم مت فرما۔نبی اکرم ﷺنے اس کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا:'' تم نے ایک کشادہ چیز (یعنی رحمت الٰہی) کو تنگ کردیا''،پھر ابھی تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ وہ مسجد میں جاکر پیشاب کرنے لگا، لوگ تیزی سے اس کی طرف بڑھے، تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ''اس پر ایک ڈول پانی بہا دو، پھرآپ نے فرمایا :'' تم تو آسانی کرنے والے بناکر بھیجے گئے ہو ناکہ سختی کرنے والے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : آپ ﷺ نے یہ بات صحابہ سے ان کے اس اعرابی کوپھٹکارنے پرفرمائی، یعنی نرمی سے اس کے ساتھ معاملہ کرو، سختی نہ برتو۔


148- قَالَ سَعِيدٌ: قَالَ سُفْيَانُ: وَحَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ نَحْوَ هَذَا.
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ مَسْعُودٍ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَوَاثِلَةَ بْنِ الأَسْقَعِ.
قَالَ أَبُوعِيسَى: وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ، وَهُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ، وَإِسْحَاقَ. وَقَدْ رَوَى يُونُسُ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِاللهِ بْنِ عَبْدِاللهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ.
* تخريج: خ/الوضوء ۵۶ (۲۱۹)، و۵۷ (۲۲۱)، والأدب ۳۵ (۶۰۲۵)، م/الطہارۃ ۳۰ (۲۸۴)، ن/الطہارۃ ۴۵ (۵۳، ۵۴، ۵۵)، والمیاہ ۳ (۳۳۰)، ق/الطہارۃ ۷۸ (۵۲۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۵۷، ولم یذکر الترمذيَّ)، حم (۳/۱۱۰، ۱۱۴، ۱۶۷)، دي/الطھارۃ ۶۲ (۷۶۷) (صحیح)
۱۴۸- اس سند سے انس بن مالک سے بھی اسی طرح کی حدیث مروی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں عبداللہ بن مسعود ، ابن عباس اور واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- بعض اہل علم کااسی پر عمل ہے، یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ کابھی قول ہے۔

* * *​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207

2- أَبْوَابُ الصَّلاَةِ
۲-کتاب: صلاۃ کے احکام ومسائل


1- بَاب مَا جَاءَ فِي مَوَاقِيتِ الصَّلاَةِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ
۱- باب: نبی اکرمﷺسے منقول اوقاتِ صلاۃ کا بیان​


149- حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ عَيَّاشِ بْنِ أَبِي رَبِيعَةَ، عَنْ حَكِيمِ بْنِ حَكِيمٍ - وَهُوَ ابْنُ عَبَّادِ بْنِ حُنَيْفٍ - أَخْبَرَنِي نَافِعُ بْنُ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي ابْنُ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ:"أَمَّنِي جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلاَم عِنْدَ الْبَيْتِ مَرَّتَيْنِ، فَصَلَّى الظُّهْرَ فِي الأولَى مِنْهُمَا حِينَ كَانَ الْفَيْئُ مِثْلَ الشِّرَاكِ، ثُمَّ صَلَّى الْعَصْرَ حِينَ كَانَ كُلُّ شَيْئٍ مِثْلَ ظِلِّهِ، ثُمَّ صَلَّى الْمَغْرِبَ حِينَ وَجَبَتِ الشَّمْسُ، وَأَفْطَرَ الصَّائِمُ، ثُمَّ صَلَّى الْعِشَائَ حِينَ غَابَ الشَّفَقُ، ثُمَّ صَلَّى الْفَجْرَ حِينَ بَرَقَ الْفَجْرُ، وَحَرُمَ الطَّعَامُ عَلَى الصَّائِمِ، وَصَلَّى الْمَرَّةَ الثَّانِيَةَ الظُّهْرَ حِينَ كَانَ ظِلُّ كُلِّ شَيْئٍ مِثْلَهُ لِوَقْتِ الْعَصْرِ بِالأَمْسِ، ثُمَّ صَلَّى الْعَصْرَ حِينَ كَانَ ظِلُّ كُلِّ شَيْئٍ مِثْلَيْهِ، ثُمَّ صَلَّى الْمَغْرِبَ لِوَقْتِهِ الأَوَّلِ، ثُمَّ صَلَّى الْعِشَائَ الآخِرَةَ حِينَ ذَهَبَ ثُلُثُ اللَّيْلِ، ثُمَّ صَلَّى الصُّبْحَ حِينَ أَسْفَرَتِ الأَرْضُ، ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَيَّ جِبْرِيلُ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ! هَذَا وَقْتُ الأَنْبِيَائِ مِنْ قَبْلِكَ، وَالْوَقْتُ فِيمَا بَيْنَ هَذَيْنِ الْوَقْتَيْنِ".
قَالَ أَبُو عِيسَى وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَبُرَيْدَةَ وَأَبِي مُوسَى وَأَبِي مَسْعُودٍ الأَنْصَارِيِّ وَأَبِي سَعِيدٍ وَجَابِرٍ وَعَمْرِو بْنِ حَزْمٍ وَالْبَرَائِ وَأَنَسٍ.
* تخريج: د/الصلاۃ ۲ (۳۹۳)، (تحفۃ الأشراف: ۶۵۱۹)، حم (۱/۳۳۳، ۳۵۴) (حسن صحیح)
۱۴۹- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ''جبرئیل علیہ السلام نے خانہ کعبہ کے پاس میری دوبارامامت کی،پہلی بارانہوں نے ظہر اس وقت پڑھی (جب سورج ڈھل گیااور)سایہ جوتے کے تسمہ کے برابرہوگیا، پھرعصراس وقت پڑھی جب ہرچیز کا سایہ اس کے ایک مثل ہوگیا ۱؎ ،پھر مغرب اس وقت پڑھی جب سورج ڈوب گیا اورصائم نے افطار کرلیا، پھر عشاء اس وقت پڑھی جب شفق ۲؎ غائب ہوگئی، پھرصلاۃِ فجر اس وقت پڑھی جب فجرروشن ہوگئی اورصائم پرکھاناپینا حرام ہوگیا، دوسری بارظہرکل کی عصرکے وقت پڑھی جب ہرچیز کا سایہ اس کے مثل ہوگیا، پھر عصراس وقت پڑھی جب ہرچیز کا سایہ اس کے دومثل ہوگیا، پھر مغرب اس کے اوّل وقت ہی میں پڑھی (جیسے پہلی بارمیں پڑھی تھی) پھر عشاء اس وقت پڑھی جب ایک تہائی رات گزرگئی، پھرفجراس وقت پڑھی جب اجالا ہوگیا، پھرجبرئیل نے میری طرف متوجہ ہوکر کہا:اے محمد! یہی آپ سے پہلے کے انبیاء کے اوقاتِ صلاۃ تھے، آپ کی صلاتوں کے اوقات بھی انہی دونوں وقتوں کے درمیان ہیں ۳؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: اس باب میں ابوہریرہ ، بریدہ ، ابوموسیٰ، ابومسعود انصاری ، ابوسعید ، جابر ، عمروبن حرم، براء اور انس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ظہرکا وقت ایک مثل تک رہتا ہے اس کے بعد عصرکاوقت شروع ہوجاتا ہے جمہورکایہی مسلک ہے اورعصرکے وقت سے متعلق امام ابوحنیفہ کا مشہورقول دومثل کا ہے لیکن یہ کسی صحیح مرفوع حدیث سے ثابت نہیں ۔ بلکہ بعض علمائِ احناف نے صحیح احادیث میں اُن کے اس قول کو رد کردیاہے ( تفصیل کے لیے دیکھئے : التعلیق الممجد علی موطا الإمام محمد ، ص : ۴۱،ط/قدیمی کتب خانہ کراچی)۔
وضاحت ۲؎ : اس سے مراد وہ سرخی ہے جو سورج ڈوب جانے کے بعد مغرب (پچھم) میں باقی رہتی ہے۔
وضاحت ۳؎ : پہلے دن جبرئیل علیہ السلام نے ساری صلاتیں اوّل وقت میں پڑھائیں اور دوسرے دن آخری وقت میں تاکہ ہر صلاۃ کا اوّل اورآخروقت معلوم ہوجائے۔


150- أَخْبَرَنِي أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ مُوسَى، أَخْبَرَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا حُسَيْنُ ابْنُ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ، أَخْبَرَنِي وَهْبُ بْنُ كَيْسَانَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللهِ، عَنْ رَسُولِ اللهِ ﷺ، قَالَ:"أَمَّنِي جِبْرِيلُ" فَذَكَرَ نَحْوَ حَدِيثِ ابْنِ عَبَّاسٍ بِمَعْنَاهُ، وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ: لِوَقْتِ الْعَصْرِ بِالأَمْسِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ. وَحَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.و قَالَ مُحَمَّدٌ: أَصَحُّ شَيْئٍ فِي الْمَوَاقِيتِ حَدِيثُ جَابِرٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ. قَالَ: وَحَدِيثُ جَابِرٍ فِي الْمَوَاقِيتِ قَدْ رَوَاهُ عَطَائُ بْنُ أَبِي رَبَاحٍ، وَعَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، وَأَبُوالزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَ حَدِيثِ وَهْبِ بْنِ كَيْسَانَ، عَنْ جَابِرٍ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ.
* تخريج: ن/مواقیت الصلاۃ ۱۷ (۵۲۷)، (تحفۃ الأشراف: ۳۱۲۸)، حم (۳/۳۳۰، ۳۳۱) (وذکرہ أبوداود تحت حدیث رقم: ۳۹۴ تعلیقاً ومقتصرا علی وقت المغرب فقط) (صحیح)
۱۵۰- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جبرئیل نے میری امامت کی، پھر انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث کی طرح اسی مفہوم کی حدیث ذکرکی۔ البتہ انہوں نے اس میں''لِوَقْتِ الْعَصْرِ بِالأَمْسِ'' کا ٹکڑا ذکر نہیں کیا۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے ۱؎ ، اور ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲-محمدبن اسماعیل بخاری کہتے ہیں: اوقاتِ صلاۃ کے سلسلے میں سب سے صحیح جابر رضی اللہ عنہ والی حدیث ہے جسے انہوں نے نبی اکرمﷺسے مرفوعا روایت کیا ہے۔
وضاحت ۱؎ : امام ترمذی یہ اصطلاح (حسن صحیح غریب) اس وقت استعمال کرتے ہیں جب کوئی حدیث کسی صحابی کی روایت سے معروف ہو اور اس کے مختلف طرق ہوں، یا ایک ہی طریق ہو پھر اسی صحابی سے کسی اور طریق سے روایت آئے اور اسے غریب جاناجائے، مطلب یہ ہے کہ لفظی طورپر غریب ہے اسنادی طورپر حسن صحیح ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
2- بَاب مِنْهُ
۲- باب: اوقات صلاۃ سے متعلق ایک اور باب​


151- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ:"إِنَّ لِلصَّلاَةِ أَوَّلاً وَآخِرًا، وَإِنَّ أَوَّلَ وَقْتِ صَلاَةِ الظُّهْرِ حِينَ تَزُولُ الشَّمْسُ، وَآخِرَ وَقْتِهَا حِينَ يَدْخُلُ وَقْتُ الْعَصْرِ، وَإِنَّ أَوَّلَ وَقْتِ صَلاَةِ الْعَصْرِ، حِينَ يَدْخُلُ وَقْتُهَا، وَإِنَّ آخِرَ وَقْتِهَا حِينَ تَصْفَرُّ الشَّمْسُ، وَإِنَّ أَوَّلَ وَقْتِ الْمَغْرِبِ حِينَ تَغْرُبُ الشَّمْسُ، وَإِنَّ آخِرَ وَقْتِهَا حِينَ يَغِيبُ الأُفُقُ، وَإِنَّ أَوَّلَ وَقْتِ الْعِشَاءِ الآخِرَةِ حِينَ يَغِيبُ الأُفُقُ، وَإِنَّ آخِرَ وَقْتِهَا حِينَ يَنْتَصِفُ اللَّيْلُ، وَإِنَّ أَوَّلَ وَقْتِ الْفَجْرِ حِينَ يَطْلُعُ الْفَجْرُ، وَإِنَّ آخِرَ وَقْتِهَا حِينَ تَطْلُعُ الشَّمْسُ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ عَمْرٍو.
قَالَ أَبُو عِيسَى: وسَمِعْت مُحَمَّدًا يَقُولُ: حَدِيثُ الأَعْمَشِ، عَنْ مُجَاهِدٍ فِي الْمَوَاقِيتِ أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ فُضَيْلٍ عَنْ الأَعْمَشِ، وَحَدِيثُ مُحَمَّدِ بْنِ فُضَيْلٍ خَطَأٌ، أَخْطَأَ فِيهِ مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ. حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ الْفَزَارِيِّ، عَنْ الأَعْمَشِ، عَنْ مُجَاهِدٍ، قَالَ: كَانَ يُقَالُ إِنَّ لِلصَّلاَةِ أَوَّلاً وَآخِرًا؛ فَذَكَرَ نَحْوَ حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ فُضَيْلٍ، عَنْ الأَعْمَشِ نَحْوَهُ، بِمَعْنَاهُ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۲۴۶۱) وانظر: حم (۲/۲۳۲) (صحیح)
۱۵۱- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''صلاۃ کا ایک اوّل وقت ہے اورایک آخری وقت، ظہر کااوّل وقت وہ ہے جب سورج ڈھل جائے اوراس کاآخری وقت وہ ہے جب عصرکا وقت شروع ہوجائے، اورعصرکا اوّل وقت وہ ہے جب عصرکا وقت (ایک مثل سے) شروع ہوجائے اورآخری وقت وہ ہے جب سورج پیلا ہوجائے، اورمغرب کا اوّل وقت وہ ہے جب سورج ڈوب جائے اورآخری وقت وہ ہے جب شفق ۱؎ غائب ہوجائے، اورعشاء کا اوّل وقت وہ ہے جب شفق غائب ہوجائے اوراس کا آخروقت وہ ہے جب آدھی رات ہوجائے ۲؎ ، اور فجر کا اوّل وقت وہ ہے جب فجر (صادق) طلوع ہوجائے اور آخری وقت وہ ہے جب سورج نکل جائے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے بھی روایت آئی ہے، ۲- میں نے محمدبن اسماعیل بخاری کوکہتے سنا کہ اوقات کے سلسلہ میں اعمش کی مجاہدسے روایت محمد بن فضیل کی أعمش سے روایت سے زیادہ صحیح ہے، محمد بن فضیل کی حدیث غلط ہے اس میں محمد بن فضیل سے چوک ہوئی ہے ۳؎ ، اس روایت کو ابواسحاق فزاری نے اعمش سے اوراعمش نے مجاہد سے روایت کیا ہے ،مجاہد کہتے ہیں کہ کہاجاتاتھا کہ صلاۃ کا ایک اوّل وقت ہے اورایک آخر وقت ہے، پھرمحمد بن فضیل والی سابقہ حدیث کی طرح اسی کے ہم معنی کی حدیث بیان کی۔
وضاحت ۱؎ : حدیث میں لفظ افق ہے جس سے مراد شفق ہے، یعنی سورج کی سرخی اندھیرے میں گم ہوجائے۔
وضاحت ۲؎ : یہ وقت اختیاری ہے رہا،وقت جواز تو یہ صبح صادق کے طلوع ہو نے تک ہے کیو نکہ ابوقتادہ کی حدیث میں ہے'' ليس في النوم تفريط إنما التفريط على من لم يصل الصلاة حتى يجيء وقت الصلاة الأخرى''
وضاحت ۳؎ : کیونکہ محمدبن فضیل نے یوں روایت کی ہے''عن الأعمش عن أبي صالح عن أبي هريرة''جبکہ صحیح یوں ہے: '' عن الأعمش عن مجاهد قوله'' یعنی: اس روایت کا مجاہد کا قول ہونا زیادہ صحیح ہے ، نبی اکرمﷺ کے مرفوع قول ہو نے سے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
3-بَاب مِنْهُ
۳- باب: اوقاتِ صلاۃ سے متعلق ایک اور باب​


152- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ وَالْحَسَنُ بْنُ الصَّبَّاحِ الْبَزَّارُ وَأَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ مُوسَى الْمَعْنَى وَاحِدٌ، قَالُوا: حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ يُوسُفَ الأَزْرَقُ، عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: أَتَى النَّبِيَّ ﷺ رَجُلٌ، فَسَأَلَهُ عَنْ مَوَاقِيتِ الصَّلاَةِ، فَقَالَ: أَقِمْ مَعَنَا إِنْ شَائَ اللهُ، فَأَمَرَ بِلاَلاً فَأَقَامَ حِينَ طَلَعَ الْفَجْرُ، ثُمَّ أَمَرَهُ، فَأَقَامَ حِينَ زَالَتِ الشَّمْسُ، فَصَلَّى الظُّهْرَ، ثُمَّ أَمَرَهُ فَأَقَامَ، فَصَلَّى الْعَصْرَ، وَالشَّمْسُ بَيْضَائُ مُرْتَفِعَةٌ، ثُمَّ أَمَرَهُ بِالْمَغْرِبِ حِينَ وَقَعَ حَاجِبُ الشَّمْسِ، ثُمَّ أَمَرَهُ بِالْعِشَاءِ، فَأَقَامَ حِينَ غَابَ الشَّفَقُ، ثُمَّ أَمَرَهُ مِنْ الْغَدِ، فَنَوَّرَ بِالْفَجْرِ، ثُمَّ أَمَرَهُ بِالظُّهْرِ، فَأَبْرَدَ وَأَنْعَمَ أَنْ يُبْرِدَ، ثُمَّ أَمَرَهُ بِالْعَصْرِ، فَأَقَامَ وَالشَّمْسُ آخِرَ وَقْتِهَا فَوْقَ مَا كَانَتْ، ثُمَّ أَمَرَهُ فَأَخَّرَ الْمَغْرِبَ إِلَى قُبَيْلِ أَنْ يَغِيبَ الشَّفَقُ، ثُمَّ أَمَرَهُ بِالْعِشَاءِ فَأَقَامَ حِينَ ذَهَبَ ثُلُثُ اللَّيْلِ، ثُمَّ قَالَ:"أَيْنَ السَّائِلُ عَنْ مَوَاقِيتِ الصَّلاَةِ" فَقَالَ الرَّجُلُ: أَنَا، فَقَالَ:"مَوَاقِيتُ الصَّلاَةِ كَمَا بَيْنَ هَذَيْنِ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ. قَالَ: وَقَدْ رَوَاهُ شُعْبَةُ عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ أَيْضًا.
* تخريج: م/المساجد ۳۱ (۶۱۳)، ن/المواقیت ۱۲ (۵۲۰)، ق/الصلاۃ ۱ (۶۶۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۹۳۱)، حم (۵/۳۴۹) (صحیح)
۱۵۲- بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ کے پاس ایک شخص آیا، اس نے آپ سے اوقاتِ صلاۃ کے بارے میں پوچھا توآپ نے فرمایا: تم ہمارے ساتھ قیام کرو (تمہیں صلاۃ کے اوقات معلوم ہوجائیں گے)ان شاء اللہ، پھر آپ نے بلال کو حکم دیا تو انہوں نے اقامت کہی جب فجر (صادق) طلوع ہوگئی پھرآپ نے حکم دیا تو انہوں نے سورج ڈھلنے کے بعد اقامت کہی تو آپ نے ظہر پڑھی، پھر آپ نے انہیں حکم دیا توانہوں نے اقامت کہی آپ نے عصر پڑھی اس وقت سورج روشن اور بلندتھا، پھرجب سورج ڈوب گیا توآپ نے انہیں مغرب کا حکم دیا،پھرجب شفق غائب ہوگئی توآپ نے انہیں عشاء کاحکم دیا توانہوں نے اقامت کہی ، پھر دوسرے دن انہیں حکم دیا توانہوں نے فجرکوخوب اجالا کرکے پڑھا، پھر آپ نے انہیں ظہرکاحکم دیا توانہوں نے ٹھنڈا کیا،اورخوب ٹھنڈا کیا، پھر آپ نے انہیں عصرکا حکم دیا اورانہوں نے اقامت کہی تواس وقت سورج اس کے آخروقت میں اس سے زیادہ تھا جتنا پہلے دن تھا (یعنی دوسرے دن عصرمیں تاخیر ہوئی)، پھر آپ نے انہیں مغرب میں دیر کرنے کا حکم دیا تو انہوں نے مغرب کوشفق کے ڈوبنے سے کچھ پہلے تک مؤخرکیا، پھر آپ نے انہیں عشاء کا حکم دیا توانہوں نے جب تہائی رات ختم ہوگئی تو اقامت کہی، پھر آپ نے فرمایا:'' صلاۃ کے اوقات کے بارے میں پوچھنے والا کہاں ہے؟'' تو اس آدمی نے عرض کیا: میں ہوں، آپ نے فرمایا:''صلاۃ کے اوقات انہیں دونوں کے بیچ میں ہیں''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ، غریب صحیح ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
4- بَاب مَا جَاءَ فِي التَّغْلِيسِ بِالْفَجْرِ
۴-باب: فجرغلس (اندھیرے )میں پڑھنے کا بیان​


153- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، قَالَ: و حَدَّثَنَا الأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: إِنْ كَانَ رَسُولُ اللهِ ﷺ لَيُصَلِّي الصُّبْحَ فَيَنْصَرِفُ النِّسَائُ، قَالَ الأَنْصَارِيُّ: فَيَمُرُّ النِّسَائُ مُتَلَفِّفَاتٍ بِمُرُوطِهِنَّ مَا يُعْرَفْنَ مِنْ الْغَلَسِ. و قَالَ قُتَيْبَةُ: مُتَلَفِّعَاتٍ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ، وَأَنَسٍ، وَقَيْلَةَ بِنْتِ مَخْرَمَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ رَوَاهُ الزُّهْرِيُّ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ نَحْوَهُ. وَهُوَ الَّذِي اخْتَارَهُ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ، مِنْهُمْ: أَبُوبَكْرٍ، وَعُمَرُ، وَمَنْ بَعْدَهُمْ مِنْ التَّابِعِينَ. وَبِهِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ، وَأَحْمَدُ، وَإِسْحَاقُ: يَسْتَحِبُّونَ التَّغْلِيسَ بِصَلاَةِ الْفَجْرِ.
* تخريج: خ/الصلاۃ ۱۳ (۳۷۲)، والمواقیت ۲۷ (۵۷۸)، والأذان ۱۶۳ (۸۶۷)، و۱۶۵ (۸۷۲)، م/المساجد ۴۰ (۶۴۵)، د/الصلاۃ ۸ (۴۲۳)، ن/المواقیت ۲۵ (۵۴۷، ۵۴۶)، والسہو ۱۰۱ (۱۳۶۳)، ق/الصلاۃ ۲ (۶۶۹)، (تحفۃ الأشراف: ۳۵۸۲)، ط/وقوت الصلاۃ ۱ (۴)، حم (۶/۳۳، ۳۶، ۱۷۹، ۲۴۸، ۲۵۹) (صحیح)
۱۵۳- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺجب فجرپڑھالیتے تو پھرعورتیں چادروں میں لپٹی ہوئی لوٹتیں وہ اندھیرے کی وجہ سے پہچانی نہیں جاتی تھیں ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں ابن عمر، انس ،اورقیلہ بنت مخرمہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اوراسی کو صحابہ کرام جن میں ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما بھی شامل ہیں اوران کے بعد کے تابعین میں سے بہت سے اہل علم نے پسند کیا ہے، اوریہی شافعی، احمداوراسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں کہ فجرغلس (اندھیرے) میں پڑھنا مستحب ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
5- بَاب مَا جَاءَ فِي الإِسْفَارِ بِالْفَجْرِ
۵-باب: فجر اجالاہوجانے پر پڑھنے کا بیان​


154- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ هُوَ ابْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ قَتَادَةَ، عَنْ مَحْمُودِ بْنِ لَبِيدٍ، عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَقُولُ: "أَسْفِرُوا بِالْفَجْرِ، فَإِنَّهُ أَعْظَمُ لِلأَجْرِ". قَالَ: وَقَدْ رَوَى شُعْبَةُ وَالثَّوْرِيُّ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ. قَالَ: وَرَوَاهُ مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلاَنَ أَيْضًا عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ قَتَادَةَ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي بَرْزَةَ الأَسْلَمِيِّ وَجَابِرٍ وَبِلاَلٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ رَأَى غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ، وَالتَّابِعِينَ الإِسْفَارَ بِصَلاَةِ الْفَجْرِ. وَبِهِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ. و قَالَ الشَّافِعِيُّ، وَأَحْمَدُ، وَإِسْحَاقُ: مَعْنَى الإِسْفَارِ: أَنْ يَضِحَ الْفَجْرُ فَلاَ يُشَكَّ فِيهِ، وَلَمْ يَرَوْا أَنَّ مَعْنَى الإِسْفَارِ تَأْخِيرُ الصَّلاَةِ.
* تخريج: د/الصلاۃ ۸ (۴۲۴)، ن/المواقیت ۲۷ (۵۴۹)، ق/الصلاۃ ۲ (۶۷۲)، (تحفۃ الأشراف: ۳۵۸۲)، حم (۳/۴۶۰) و(۴/۱۴۰)، دي/الصلاۃ ۲۱ (۱۲۵۳) (صحیح)
۱۵۴- رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے سنا:'' فجر خوب اجالاکرکے پڑھو، کیونکہ اس میں زیادہ ثواب ہے ''۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- رافع بن خدیج کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابوبرزہ اسلمی، جابر اور بلال رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۴- صحابہ کرام اور تابعین میں سے کئی اہل علم کی رائے صلاۃِفجراجالاہونے پرپڑھنے کی ہے۔ یہی سفیان ثوری بھی کہتے ہیں۔اور شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ اسفار (اجالاہونے ) کا مطلب یہ ہے کہ فجر واضح ہوجائے اور اس کے طلوع میں کوئی شک نہ رہے، اسفار کا یہ مطلب نہیں کہ صلاۃ تاخیر(دیر) سے اداکی جائے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : نبی اکرمﷺ نیز صحابہ وتابعین وسلف صالحین کے تعامل کودیکھتے ہوئے اس حدیث کا یہی صحیح مطلب ہے۔باب ہذا اور گزشتہ باب کی احادیث میں علمائے حدیث نے جوبہترین تطبیق دی وہ یوں ہے کہ فجر کی صلاۃ منہ اندھیرے اوّل وقت میں شروع کرو ، اور تطویل قرأت کے ساتھ اُجالا کرلو، دونوں طرح کی احادیث پرعمل ہوجائے گا ۔( مزیدتفصیل کے لیے ''تحفۃ الأحوذی جلداوّل ص۱۴۵،طبع المکتبۃ الفاروقیۃ /ملتان ، پاکستان)۔
 
Top