• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
6- بَاب مَا جَاءَ فِي التَّعْجِيلِ بِالظُّهْرِ
۶- باب: ظہرجلدی پڑھنے کا بیان​


155- حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ حَكِيمِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ الأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: مَا رَأَيْتُ أَحَدًا كَانَ أَشَدَّ تَعْجِيلاً لِلظُّهْرِ مِنْ رَسُولِ اللهِ ﷺ وَلاَ مِنْ أَبِي بَكْرٍ، وَلاَ مِنْ عُمَرَ.
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ، وَخَبَّابٍ، وَأَبِي بَرْزَةَ، وَابْنِ مَسْعُودٍ، وَزَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، وَأَنَسٍ، وَجَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ. وَهُوَ الَّذِي اخْتَارَهُ أَهْلُ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَمَنْ بَعْدَهُمْ. قَالَ عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ: قَالَ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ: وَقَدْ تَكَلَّمَ شُعْبَةُ فِي حَكِيمِ بْنِ جُبَيْرٍ مِنْ أَجْلِ حَدِيثِهِ الَّذِي رَوَى عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مَنْ سَأَلَ النَّاسَ وَلَهُ مَا يُغْنِيهِ. قَالَ يَحْيَى: وَرَوَى لَهُ سُفْيَانُ وَزَائِدَةُ، وَلَمْ يَرَ يَحْيَى بِحَدِيثِهِ بَأْسًا. قَالَ مُحَمَّدٌ: وَقَدْ رُوِيَ عَنْ حَكِيمِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ فِي تَعْجِيلِ الظُّهْرِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف، وانظر: حم (۶/۱۳۵، ۲۱۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۹۳۴) (ضعیف الإسناد)
( سند کے ضعف کی وجہ یہ ہے کہ اس کے راوی ''حکیم بن جبیر''ضعیف ہیں، لیکن دوسری احادیث جیساکہ مولف نے ذکرکیا ہے سے یہ حدیث ثابت ہے۔)
۱۵۵- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں ظہر کو رسول اللہﷺ سے بڑھ کرجلدی کرنے والا میں نے کسی کونہیں دیکھا، اورنہ ابوبکر اورعمر رضی اللہ عنہما سے بڑھ کرجلدی کرنے والاکسی کودیکھا۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں جابر بن عبداللہ، خباب، ابوبرزہ، ابن مسعود ، زیدبن ثابت ،انس اور جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں اورعائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث حسن ہے، ۲- اوراسی کوصحابہ کرام اور ان کے بعد کے لوگوں میں اہل علم نے اختیار کیاہے۔


156- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْحُلْوَانِيُّ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ صَلَّى الظُّهْرَ حِينَ زَالَتِ الشَّمْسُ.
قَالَ أَبُوعِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ. وَهُوَ أَحْسَنُ حَدِيثٍ فِي هَذَا الْبَابِ. وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۴۸) وانظر:حم (۳/۱۲۹، ۱۶۹) (صحیح)
۱۵۶- انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے صلاۃِ ظہر اس وقت پڑھی جس وقت سورج ڈھل گیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث صحیح ہے اوریہ اس باب میں سب سے اچھی حدیث ہے، ۲- اس باب میں جابر رضی اللہ عنہ سے بھی حدیث آئی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
7-بَاب مَا جَاءَ فِي تَأْخِيرِ الظُّهْرِ فِي شِدَّةِ الْحَرِّ
۷- باب: سخت گرمی میں ظہر دیرسے پڑھنے کا بیان​


157- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، وَأَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ:"إِذَا اشْتَدَّ الْحَرُّ فَأَبْرِدُوا عَنِ الصَّلاَةِ، فَإِنَّ شِدَّةَ الْحَرِّ مِنْ فَيْحِ جَهَنَّمَ".
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، وَأَبِي ذَرٍّ، وَابْنِ عُمَرَ، وَالْمُغِيرَةِ، وَالْقَاسِمِ بْنِ صَفْوَانَ، عَنْ أَبِيهِ، وَأَبِي مُوسَى، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَأَنَسٍ. قَالَ: وَرُوِيَ عَنْ عُمَرَ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ فِي هَذَا، وَلاَ يَصِحُّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ اخْتَارَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ تَأْخِيرَ صَلاَةِ الظُّهْرِ فِي شِدَّةِ الْحَرِّ. وَهُوَ قَوْلُ ابْنِ الْمُبَارَكِ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاقَ. قَالَ الشَّافِعِيُّ: إِنَّمَا الإِبْرَادُ بِصَلاَةِ الظُّهْرِ إِذَا كَانَ مَسْجِدًا، يَنْتَابُ أَهْلُهُ مِنْ الْبُعْدِ، فَأَمَّا الْمُصَلِّي وَحْدَهُ وَالَّذِي يُصَلِّي فِي مَسْجِدِ قَوْمِهِ: فَالَّذِي أُحِبُّ لَهُ أَنْ لاَ يُؤَخِّرَ الصَّلاةَ فِي شِدَّةِ الْحَرِّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَمَعْنَى مَنْ ذَهَبَ إِلَى تَأْخِيرِ الظُّهْرِ فِي شِدَّةِ الْحَرِّ هُوَ أَوْلَى وَأَشْبَهُ بِالاِتِّبَاعِ. وَأَمَّا مَا ذَهَبَ إِلَيْهِ الشَّافِعِيُّ أَنَّ الرُّخْصَةَ لِمَنْ يَنْتَابُ مِنْ الْبُعْدِ وَالْمَشَقَّةِ عَلَى النَّاسِ-: فَإِنَّ فِي حَدِيثِ أَبِي ذَرٍّ مَا يَدُلُّ عَلَى خِلاَفِ مَا قَالَ الشَّافِعِيُّ.
قَالَ أَبُوذَرٍّ: كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ ﷺ فِي سَفَرٍ فَأَذَّنَ بِلاَلٌ بِصَلاَةِ الظُّهْرِ، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ:"يَا بِلاَلُ! أَبْرِدْ ثُمَّ أَبْرِدْ". فَلَوْ كَانَ الأَمْرُ عَلَى مَا ذَهَبَ إِلَيْهِ الشَّافِعِيُّ: لَمْ يَكُنْ لِلإِبْرَادِ فِي ذَلِكَ الْوَقْتِ مَعْنًى، لاِجْتِمَاعِهِمْ فِي السَّفَرِ، وَكَانُوا لاَ يَحْتَاجُونَ أَنْ يَنْتَابُوا مِنْ الْبُعْدِ.
* تخريج: خ/المواقیت ۹ (۵۳۸)، م/المساجد ۳۲ (۶۱۵)، د/الصلاۃ ۴ (۴۰۲)، ن/المواقیت ۵ (۵۰۱)، ق/الصلاۃ ۴ (۶۷۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۲۲۶، ۱۲۳۷)، ط/وقوت الصلاۃ ۷ (۹۸)، حم (۲/۲۲۹، ۲۳۸، ۲۵۶، ۲۶۶، ۳۴۸، ۳۷۷، ۳۹۳، ۴۰، ۴۱۱، ۴۶۲)، دي/الصلاۃ ۱۴ (۱۲۴۳)، والرقاق ۱۱۹ (۲۸۸۷) (صحیح)
۱۵۷- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' جب گرمی سخت ہو تو صلاۃ ٹھنڈا ہونے پر پڑھو ۱؎ کیونکہ گرمی کی تیزی جہنم کی بھاپ سے ہے'' ۲؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوہریرہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں ابوسعید، ابوذر ، ابن عمر، مغیرہ ،اور قاسم بن صفوان کے باپ ابوموسیٰ ، ابن عباس اور انس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اس سلسلے میں عمر رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے جسے انہوں نے نبی اکرمﷺ سے روایت کی ہے، لیکن یہ صحیح نہیں، ۴- اہل علم میں کچھ لوگوں نے سخت گرمی میں ظہر تاخیر سے پڑھنے کو پسند کیاہے۔یہی ابن مبارک، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے۔ شافعی کہتے ہیں: ظہرٹھنڈا کرکے پڑھنے کی بات اس وقت کی ہے جب مسجدوالے دورسے آتے ہوں، رہا اکیلے صلاۃ پڑھنے والا اور وہ شخص جو اپنے ہی لوگوں کی مسجد میں صلاۃ پڑھتا ہوتو میں اس کے لیے یہی پسند کرتا ہوں کہ وہ سخت گرمی میں بھی صلاۃ کو دیرسے نہ پڑھے،۵- جولوگ گرمی کی شدت میں ظہرکودیرسے پڑھنے کی طرف گئے ہیں ان کامذہب زیادہ بہتر اور اتباع کے زیادہ لائق ہے، رہی وہ بات جس کی طرف شافعی کارجحان ہے کہ یہ رخصت اس کے لیے ہے جو دور سے آتا ہوتاکہ لوگوں کو پریشانی نہ ہوتو ابوذر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں کچھ ایسی باتیں ہیں جو اس چیز پردلالت کرتی ہیں جو امام شافعی کے قول کے خلاف ہیں۔ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہم لوگ ایک سفرمیں نبی اکرمﷺ کے ساتھ تھے ، بلال نے صلاۃِ ظہر کے لیے اذان دی،تو نبی اکرمﷺ نے فرمایا:'' بلال! ٹھنڈا ہوجانے دو، ٹھنڈا ہوجانے دو'' (یہ حدیث آگے آرہی ہے)، اب اگر بات ایسی ہوتی جس کی طرف شافعی گئے ہیں، تو اس وقت ٹھنڈا کرنے کا کوئی مطلب نہ ہوتا، اس لیے کہ سفرمیں سب لوگ اکٹھا تھے، انہیں دور سے آنے کی ضرورت نہ تھی۔
وضاحت ۱؎ : یعنی کچھ انتظارکرلو ٹھنڈاہوجائے تب پڑھو،اس حدیث سے معلوم ہوا کہ موسم گرما میں ظہر قدرے تاخیرکرکے پڑھنی چاہئے اس تاخیرکی حد کے بارے میں ابوداوداور نسائی میں ایک روایت آئی ہے کہ رسول اللہﷺ موسم گرما میں ظہر میں اتنی تاخیر کرتے کہ سایہ تین قدم سے لے کر پانچ قدم تک ہوجاتا،مگرعلامہ خطابی نے کہا ہے کہ یہ قاعدہ کلیہ نہیں ہے بلکہ طول البلد اور عرض البلدکے اعتبارسے اس کا حساب بھی مختلف ہوگا،بہرحال موسم گرما میں صلاۃ ِ ظہرقدرے تاخیرسے پڑھنی مستحب ہے، یہی جمہورکی رائے ہے۔
وضاحت ۲؎ : اسے حقیقی اورظاہری معنی پرمحمول کرنازیادہ صحیح ہے کیونکہ صحیحین کی روایت میں ہے کہ جہنم کی آگ نے رب عزوجل سے شکایت کی کہ میرے بعض اجزاء گرمی کی شدّت اور گھٹن سے بعض کو کھا گئے ہیں تورب عزوجل نے اسے دوسانس لینے کی اجازت دی ایک جاڑے میں اور ایک گرمی میں، جاڑے میں سانس اندر کی طرف لیتی ہے اورگرمی میں باہرنکالتی ہے ۔


158- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ، قَالَ: أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ، عَنْ مُهَاجِرٍ أَبِي الْحَسَنِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ كَانَ فِي سَفَرٍ وَمَعَهُ بِلاَلٌ، فَأَرَادَ أَنْ يُقِيمَ، فَقَالَ:"أَبْرِدْ" ثُمَّ أَرَادَ أَنْ يُقِيمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ:"أَبْرِدْ فِي الظُّهْرِ". قَالَ: حَتَّى رَأَيْنَا فَيْئَ التُّلُولِ، ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّى، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ:"إِنَّ شِدَّةَ الْحَرِّ مِنْ فَيْحِ جَهَنَّمَ فَأَبْرِدُوا عَنْ الصَّلاَةِ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/المواقیت ۹ (۵۳۵)، م/المساجد ۳۲ (۶۱۶)، د/الصلاۃ ۴ (۴۰۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۹۱۴)، حم (۵/۱۵۵، ۱۶۲، ۱۷۶) (صحیح)
۱۵۸- ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ ایک سفر میں تھے، ساتھ میں بلال رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ بلال رضی اللہ عنہ نے اقامت کہنے کا ارادہ کیا توآپ نے فرمایا:'' ٹھنڈا ہوجانے دو''۔ انہوں نے پھر اقامت کہنے کا ارادہ کیاتورسول اللہ ﷺ نے پھر فرمایا:'' ظہر کوٹھنڈاکرکے پڑھو''۔ وہ کہتے ہیں( ظہرتاخیرسے پڑھی گئی) یہاں تک کہ ہم نے ٹیلوں کا سایہ دیکھ لیاتب انہوں نے اقامت کہی پھرآپ نے صلاۃپڑھی، پھرفرمایا:'' گرمی کی تیزی جہنم کی بھاپ سے ہے۔ لہذا صلاۃٹھنڈے میں پڑھاکرو''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
8- بَاب مَا جَاءَ فِي تَعْجِيلِ الْعَصْرِ
۸-باب: عصر جلدی پڑھنے کا بیان​


159- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّهَا قَالَتْ: صَلَّى رَسُولُ اللهِ ﷺ الْعَصْرَ وَالشَّمْسُ فِي حُجْرَتِهَا، وَلَمْ يَظْهَرْ الْفَيْئُ مِنْ حُجْرَتِهَا.
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ، وَأَبِي أَرْوَى، وَجَابِرٍ، وَرَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ. قَالَ: وَيُرْوَى عَنْ رَافِعٍ أَيْضًا، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ فِي تَأْخِيرِ الْعَصْرِ، وَلاَ يَصِحُّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَهُوَ الَّذِي اخْتَارَهُ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ، مِنْهُمْ: عُمَرُ وَعَبْدُاللهِ بْنُ مَسْعُودٍ، وَعَائِشَةُ، وَأَنَسٌ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ التَّابِعِينَ تَعْجِيلَ صَلاَةِ الْعَصْرِ، وَكَرِهُوا تَأْخِيرَهَا. وَبِهِ يَقُولُ عَبْدُاللهِ ابْنُ الْمُبَارَكِ، وَالشَّافِعِيُّ، وَأَحْمَدُ، وَإِسْحَاقُ.
* تخريج: خ/المواقیت ۱ (۵۲۲)، و۱۳ (۵۴۵)، والخمس ۴ (۳۱۰۳)، م/المساجد ۳۱ (۶۱۱)، د/الصلاۃ ۵ (۴۰۷)، ن/المواقیت ۸ (۵۰۶)، ق/الصلاۃ ۵ (۶۸۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۵۸۵)، ط/وقوت الصلاۃ ۱ (۲) (صحیح)
۱۵۹- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے عصر پڑھی اس حال میں کہ دھوپ ان کے کمرے میں تھی،ان کے کمرے کے اندرکا سایہ پورب والی دیوار پر نہیں چڑھاتھا ۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں انس ،ابو أرویٰ ، جابر اور رافع بن خدیج رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، (اور رافع رضی اللہ عنہ سے عصرکو مؤخر کرنے کی بھی روایت کی جاتی ہے جسے انہوں نے نبی اکرمﷺ سے روایت کیا ہے۔ لیکن یہ صحیح نہیں ہے،۳- صحابہ کرام میں سے بعض اہل علم نے جن میں عمر ، عبداللہ بن مسعود ، عائشہ اور انس رضی اللہ عنہم بھی شامل ہیں اور تابعین میں سے کئی لوگوں نے اسی کو اختیار کیاہے کہ عصر جلدی پڑھی جائے اور اس میں تاخیر کرنے کو ان لوگوں نے مکروہ سمجھا ہے اسی کے قائل عبداللہ بن مبارک ، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی ہیں۔


160- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ الْعَلاَئِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ: أَنَّهُ دَخَلَ عَلَى أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ فِي دَارِهِ بِالْبَصْرَةِ حِينَ انْصَرَفَ مِنْ الظُّهْرِ، وَدَارُهُ بِجَنْبِ الْمَسْجِدِ، فَقَالَ: قُومُوا فَصَلُّوا الْعَصْرَ، قَالَ: فَقُمْنَا فَصَلَّيْنَا، فَلَمَّا انْصَرَفْنَا قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَقُولُ:"تِلْكَ صَلاَةُ الْمُنَافِقِ، يَجْلِسُ يَرْقُبُ الشَّمْسَ، حَتَّى إِذَا كَانَتْ بَيْنَ قَرْنَيْ الشَّيْطَانِ قَامَ فَنَقَرَ أَرْبَعًا لاَ يَذْكُرُ اللهَ فِيهَا إِلاَّ قَلِيلاً".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: م/المساجد ۳۴ (۶۲۲)، د/الصلاۃ ۵ (۴۱۳)، ن/المواقیت ۹ (۵۱۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۲۲) ط/القرآن ۱۰ (۴۶)، حم (۳/۱۰۲، ۱۰۳، ۱۴۹، ۱۸۵، ۲۴۷) (صحیح)
۱۶۰- علاء بن عبدالرحمن سے روایت ہے کہ وہ بصرہ میں جس وقت ظہر پڑھ کر لوٹے تو وہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے پاس ان کے گھر آئے، ان کا گھر مسجد کے بغل ہی میں تھا۔ انس بن مالک نے کہا: اٹھوچلوعصرپڑھو، توہم نے اٹھ کر صلاۃ پڑھی، جب پڑھ چکے تو انہوں نے کہاکہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے سناہے: ''یہ منافق کی صلاۃ ہے کہ بیٹھا سورج کو دیکھتا رہے، یہاں تک کہ جب وہ شیطان کی دونوں سینگوں کے درمیان آجائے تو اٹھے اور چار ٹھونگیں مارلے، اور ان میں اللہ کو تھوڑا ہی یادکرے''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
9- بَاب مَا جَاءَ فِي تَأْخِيرِ صَلاَةِ الْعَصْرِ
۹-باب: صلاۃ ِعصر دیرسے پڑھنے کا بیان​


161- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ابْنُ عُلَيَّةَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ أَنَّهَا قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللهِ ﷺ أَشَدَّ تَعْجِيلاً لِلظُّهْرِ مِنْكُمْ، وَأَنْتُمْ أَشَدُّ تَعْجِيلاً لِلْعَصْرِ مِنْهُ.
* تخريج: تفرد بہ (تحفۃ الأشراف: ۱۸۱۸۴)، وانظر حم (۶/۲۸۹، ۳۱۰) (صحیح) (تراجع الألبانی ۶۰۶)
۱۶۱- ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ ظہرمیں تم لوگوں سے زیادہ جلدی کرتے تھے اور تم لوگ عصرمیں رسول اللہﷺ سے زیادہ جلدی کرتے ہو ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : بعض لوگوں نے اس روایت سے عصر دیرسے پڑھنے کے استحباب پراستدلال کیا ہے، جب کہ اس میں کوئی ایسی دلیل نہیں جس سے عصرکی تاخیرکے استحباب پر استدلال کیا جائے، اس میں صرف اتنی بات ہے کہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے جو لو گ مخاطب تھے وہ عصر میں رسول اللہﷺ سے بھی زیادہ جلدی کرتے تھے، تو ان سے ام سلمہ نے یہ حدیث بیان فرمائی، اس میں اس بات پرقطعاً دلالت نہیں کہ نبی اکرمﷺ عصردیرسے پڑھتے تھے کہ عصرکی تاخیرپراس سے استدلال کیا جائے، علامہ عبدالحیٔ لکھنوی '' التعليق الممجد''میں لکھتے ہیں ''هذا الحديث إنما يدل على أن التعجيل في الظهر أشد من التعجيل في العصر لا على استحباب التأخير''بلاشبہ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ صلاۃِ ظہرمیں (اُس کا وقت ہوتے ہی)جلدی کرنا، صلاۃِ عصرمیں جلدی کرنے سے بھی زیادہ سخت حکم رکھتاہے ،نہ کہ تاخیرسے صلاۃ اداکرنے کے مستحب ہونے پر۔


162- قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ إِسْمَاعِيلَ ابْنِ عُلَيَّةَ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ نَحْوَهُ. وَوَجَدْتُ فِي كِتَابِي أَخْبَرَنِي عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۱۶۲- امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اسماعیل بن علیہ سے بطریق '' ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ '' اسی طرح روایت کی گئی ہے ۔ اورمجھے اپنی کتاب میں اس کی سند یوں ملی کہ مجھے علی بن حجر نے خبردی انہوں نے اسماعیل بن ابراہیم سے اور اسماعیل نے ابن جریج سے روایت کی ہے ۔


163- وَ حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مُعَاذٍ الْبَصْرِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ابْنُ عُلَيَّةَ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ بِهَذَا الإِسْنَادِ، نَحْوَهُ، وَهَذَا أَصَحُّ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۱۶۳- اسماعیل بن علیہ کی ابن جریج سے روایت زیادہ صحیح ہے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی: اس حدیث کا ابن جریج کے طریق سے مروی ہونا زیادہ صحیح ہے بہ نسبت ایوب سختیانی کے طریق کے ، کیونکہ ابن جریج سے علی بن حجرکے علاوہ بشربن معاذ نے بھی روایت کی ہے ، واللہ اعلم۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
10- بَاب مَا جَاءَ فِي وَقْتِ الْمَغْرِبِ
۱۰-باب: مغرب کے وقت کا بیان​


164- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي عُبَيْدٍ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الأَكْوَعِ، قَالَ كَانَ رَسُولُ اللهِ ﷺ يُصَلِّي الْمَغْرِبَ إِذَا غَرَبَتِ الشَّمْسُ، وَتَوَارَتْ بِالْحِجَابِ.
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ، وَالصُّنَابِحِيِّ، وَزَيْدِ بْنِ خَالِدٍ، وَأَنَسٍ، وَرَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، وَأَبِي أَيُّوبَ، وَأُمِّ حَبِيبَةَ، وَعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، وَابْنِ عَبَّاسٍ. وَحَدِيثُ الْعَبَّاسِ قَدْ رُوِيَ مَوْقُوفًا عَنْهُ، وَهُوَ أَصَحُّ. وَالصُّنَابِحِيُّ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ النَّبِيِّ ﷺ، وَهُوَ صَاحِبُ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ سَلَمَةَ بْنِ الأَكْوَعِ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَهُوَ قَوْلُ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَمَنْ بَعْدَهُمْ مِنْ التَّابِعِينَ: اخْتَارُوا تَعْجِيلَ صَلاَةِ الْمَغْرِبِ، وَكَرِهُوا تَأْخِيرَهَا، حَتَّى قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: لَيْسَ لِصَلاَةِ الْمَغْرِبِ إِلاَّ وَقْتٌ وَاحِدٌ، وَذَهَبُوا إِلَى حَدِيثِ النَّبِيِّ ﷺ حَيْثُ صَلَّى بِهِ جِبْرِيلُ. وَهُوَ قَوْلُ ابْنِ الْمُبَارَكِ وَالشَّافِعِيِّ.
* تخريج: خ/المواقیت ۱۸ (۵۶۱)، م/المساجد ۳۸ (۶۳۶)، د/الصلاۃ ۶ (۴۱۷)، ق/الصلاۃ ۷ (۶۸۸)، (تحفۃ الأشراف: ۴۵۳۵) (صحیح)
۱۶۴- سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ مغرب اس وقت پڑھتے جب سورج ڈوب جاتا اور پردے میں چھپ جاتا ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- سلمہ بن الاکوع والی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں جابر ، صنابحی، زید بن خالد ، انس ، رافع بن خدیج ، ابوایوب ، ام حبیبہ، عباس بن عبدالمطلب اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳-عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث ان سے موقوفاً روایت کی گئی ہے اور یہی زیادہ صحیح ہے،۴- اور صنابحی نے نبی اکرمﷺ سے نہیں سناہے، وہ تو ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دور کے ہیں، ۵- اور یہی قول صحابہ کرام اور ان کے بعد تابعین میں سے اکثر اہل علم کا ہے، ان لوگوں نے صلاۃِ مغرب جلدی پڑھنے کو پسند کیا ہے اور اسے مؤخر کرنے کو مکروہ سمجھاہے، یہاں تک کہ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ مغرب کاایک ہی وقت ہے ۲؎ ، یہ تمام حضرات نبی اکرمﷺ کی اس حدیث کی طرف گئے ہیں جس میں ہے کہ جبرئیل نے آپ کو صلاۃ پڑھائی اوریہی ابن مبارک اور شافعی کا قول ہے۔
وضاحت ۱؎ : یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ مغرب کاوقت سورج ڈوبنے کے بعدشروع ہوتا ہے اور اس سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ مغرب میں تاخیرنہیں کرنی چاہئے بلکہ ا سے اوّل وقت ہی میں اداکرناچاہئے۔
وضاحت ۲؎ : سلف کا اس مسئلہ میں اختلاف ہے کہ مغرب کا وقت ممتد(پھیلا ہوا) ہے یا غیرممتد،جمہورکے نزدیک سورج ڈوبنے سے لے کرشفق ڈوبنے تک پھیلا ہواہے، اور شافعی اورابن مبارک کی رائے ہے کہ مغرب کا صرف ایک ہی وقت ہے اور وہ اوّل وقت ہے، ان لوگوں کی دلیل جبریل علیہ السلام والی روایت ہے جس میں ہے کہ دونوں دنوں میں آپ نے مغرب سورج ڈوبنے کے فوراً بعدپڑھائی اورجمہورکی دلیل صحیح مسلم میں موجود ابوموسیٰ کی روایت ہے، اس میں ہے''ثم أخر المغرب حتى كان عند سقوط الشفق'' جمہورکی رائے ہی زیادہ صحیح ہے، جمہورنے جبرئیل والی روایت کا جواب تین طریقے سے دیا ہے : ۱- اس میں صرف افضل وقت کے بیان پر اکتفاکیا گیا ہے، وقت جواز کو بیان نہیں گیا ،۲- جبرئیل کی روایت متقدم ہے مکّی دورکی اورمغرب کا وقت شفق ڈوبنے تک ممتدہونے کی روایت متاخرہے مدنی دورکی ، ۳- یہ روایت جبرئیل والی روایت سے سندکے اعتبارسے زیادہ صحیح ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
11- بَاب مَا جَاءَ فِي وَقْتِ صَلاَةِ الْعِشَاءِ الآخِرَةِ
۱۱- باب: صلاۃ ِ عشاء کے وقت کا بیان​


165- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي الشَّوَارِبِ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، عَنْ بَشِيرِ بْنِ ثَابِتٍ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ سَالِمٍ، عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ قَالَ: أَنَا أَعْلَمُ النَّاسِ بِوَقْتِ هَذِهِ الصَّلاَةِ: كَانَ رَسُولُ اللهِ ﷺ يُصَلِّيهَا لِسُقُوطِ الْقَمَرِ لِثَالِثَةٍ.
* تخريج: د/الصلاۃ ۷ (۴۱۹)، ن/المواقیت ۱۹ (۵۲۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۶۱۴)، حم (۴/۲۷۰، ۲۷۴) (صحیح)
۱۶۵- نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ اس صلاۃ ِعشاء کے وقت کولوگوں میں سب سے زیادہ میں جانتا ہوں، رسول اللہ ﷺ اسے تیسری تاریخ کا چاند ڈوبنے کے وقت پڑھتے تھے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : حدیث جبرئیل میں یہ بات آچکی ہے کہ عشاء کا وقت شفق غائب ہونے کے بعدشروع ہوتا ہے، یہ اجماعی مسئلہ ہے اس میں کسی کا اختلاف نہیں، رہی یہ بات کہ اس کاآخری وقت کیا ہے تو صحیح اورصریح احادیث سے جو بات ثابت ہے وہ یہی ہے کہ اس کا آخری وقت طلوع فجرتک ہے جن روایتوں میں آدھی رات تک کاذکرہے اس سے مراداس کا افضل وقت ہے جو تیسری رات کے چاندڈوبنے کے وقت سے شروع ہوتا ہے ، اسی لیے رسول اللہﷺ عموماً اسی وقت صلاۃِ عشاء پڑھتے تھے ،لیکن مشقت کے پیش نظرامت کو اس سے پہلے پڑھ لینے کی اجازت دے دی ۔(دیکھئے اگلی حدیث رقم ۱۶۷)


166- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ أَبَانَ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ أَبِي عَوَانَةَ، بِهَذَا الإِسْنَادِ نَحْوَهُ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ هُشَيْمٌ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ سَالِمٍ، عَنْ النُّعْمَانِ ابْنِ بَشِيرٍ، وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ هُشَيْمٌ عَنْ بَشِيرِ بْنِ ثَابِتٍ. وَحَدِيثُ أَبِي عَوَانَةَ أَصَحُّ عِنْدَنَا، لأَنَّ يَزِيدَ بْنَ هَارُونَ رَوَى عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، نَحْوَ رِوَايَةِ أَبِي عَوَانَةَ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۱۶۶- اس طریق سے بھی ابوعوانہ سے اسی سندسے اسی طرح مروی ہے۔امام ترمذی نے پہلے ابوعوانہ کا طریق ذکرکیا پھرہشیم کے طریق کا اور فرمایا : ابوعوانہ والی حدیث ہمارے نزدیک زیادہ صحیح ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
12- بَاب مَا جَاءَ فِي تَأْخِيرِ صَلاَةِ الْعِشَاءِ الآخِرَةِ
۱۲- صلاۃ ِعشاء دیر سے پڑھنے کا بیان​


167- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ، عَنْ عُبَيْدِاللهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ ﷺ:"لَوْلاَ أَنْ أَشُقَّ عَلَى أُمَّتِي لأَمَرْتُهُمْ أَنْ يُؤَخِّرُوا الْعِشَائَ إِلَى ثُلُثِ اللَّيْلِ أَوْ نِصْفِهِ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، وَجَابِرِ بْنِ عَبْدِاللهِ، وَأَبِي بَرْزَةَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَأَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، وَزَيْدِ بْنِ خَالِدٍ، وَابْنِ عُمَرَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَهُوَ الَّذِي اخْتَارَهُ أَكْثَرُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَالتَّابِعِينَ وَغَيْرِهِمْ: رَأَوْا تَأْخِيرَ صَلاَةِ الْعِشَاءِ الآخِرَةِ. وَبِهِ يَقُولُ أَحْمَدُ، وَإِسْحَاقُ.
* تخريج: ق/الصلاۃ ۸ (۶۹۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۹۸۸)، حم (۲/۲۴۵) (صحیح)
۱۶۷- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:'' اگر میں اپنی امت پردشوارنہ سمجھتا تو میں عشاء کو تہائی رات یا آدھی رات تک دیر کرکے پڑھنے کا حکم دیتا'' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں جابر بن سمرہ، جابر بن عبداللہ، ابوبرزہ، ابن عباس، ابوسعید خدری ، زید بن خالد اور ابن عمر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اوراسی کوصحابہ کرام اور تابعین وغیرہم میں سے اکثر اہل علم نے پسند کیاہے،ان کی رائے ہے کہ عشاء تاخیرسے پڑھی جائے، اور یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عشاء مذکوروقت تک مؤخرکرکے پڑھنا افضل ہے ، صرف اسی صلاۃ کے ساتھ خاص ہے، باقی اور صلاتیں اوّل وقت ہی پرپڑھنا افضل ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
13- بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ النَّوْمِ قَبْلَ الْعِشَاءِ وَالسَّمَرِ بَعْدَهَا
۱۳- باب: عشاء سے پہلے سونے اور اس کے بعد بات کرنے کی کراہت کا بیان​


168- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا عَوْفٌ، قَالَ أَحْمَدُ: وَحَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ عَبَّادٍ، هُوَ الْمُهَلَّبِيُّ، وَإِسْمَاعِيلُ ابْنُ عُلَيَّةَ، جَمِيعًا عَنْ عَوْفٍ، عَنْ سَيَّارِ بْنِ سَلاَمَةَ - هُوَ أَبُوالْمِنْهَالِ الرِّيَاحِيُّ - عَنْ أَبِي بَرْزَةَ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يَكْرَهُ النَّوْمَ قَبْلَ الْعِشَاءِ، وَالْحَدِيثَ بَعْدَهَا. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ، وَعَبْدِاللهِ بْنِ مَسْعُودٍ، وَأَنَسٍ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي بَرْزَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ كَرِهَ أَكْثَرُ أَهْلِ الْعِلْمِ النَّوْمَ قَبْلَ صَلاَةِ الْعِشَاءِ، وَالْحَدِيثَ بَعْدَهَا وَرَخَّصَ فِي ذَلِكَ بَعْضُهُمْ. و قَالَ عَبْدُاللهِ بْنُ الْمُبَارَكِ: أَكْثَرُ الأَحَادِيثِ عَلَى الْكَرَاهِيَةِ. وَرَخَّصَ بَعْضُهُمْ فِي النَّوْمِ قَبْلَ صَلاَةِ الْعِشَاءِ فِي رَمَضَانَ. وَسَيَّارُ بْنُ سَلاَمَةَ: هُوَ أَبُو الْمِنْهَالِ الرِّيَاحِيُّ.
* تخريج: خ/المواقیت ۱۱ (۵۴۱)، و۱۳ (۵۴۷)، و۲۳ (۵۶۸)، و۳۸ (۵۹۸)، م/المساجد ۴۰ (۶۴۷)، د/الصلاۃ ۳ (۳۹۸)، والأدب ۲۷ (۴۸۴۹)، ن/المواقیت ۲ (۴۹۶)، و۱۶ (۵۲۶)، و۲۰ (۵۳۱)، والافتتاح ۴۲ (۹۴۹)، ق/الصلاۃ ۳ (۶۷۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۶۰۶)، حم (۴/۴۲۰، ۴۲۱، ۴۲۳، ۴۲۴، ۴۲۵)، دي/الصلاۃ ۶۶ (۱۳۳۸) (صحیح)
۱۶۸- ابوبرزہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ عشاء سے پہلے سونے اور اس کے بعد بات چیت کرنے کو ناپسند فرماتے تھے ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوبرزہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں عائشہ ، عبداللہ بن مسعود اور انس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اور اکثر اہل علم نے صلاۃِ عشاء سے پہلے سونے اور اس کے بعد بات کرنے کو مکروہ کہاہے، اوربعض نے اس کی اجازت دی ہے، عبداللہ بن مبارک کہتے ہیں: اکثر حدیثیں کراہت پردلالت کرنے والی ہیں، اور بعض لوگوں نے رمضان میں عشاء سے پہلے سونے کی اجازت دی ہے۔
وضاحت ۱؎ : عشاء سے پہلے سونے کی کراہت کی وجہ یہ ہے کہ اس سے عشا ء فوت ہوجانے کاخدشہ رہتا ہے، اورعشاء کے بعدبات کرنا اس لیے ناپسندیدہ ہے کہ اس سے سونے میں تاخیرہوتی ہے جس کی وجہ سے انسان کے لیے تہجدیا فجرکے لیے اٹھنامشکل ہوجاتاہے امام نووی نے علمی مذاکرہ وغیرہ کو جوجائزاورمستحب بتایا ہے تو یہ اس بات کے ساتھ مشروط ہے کہ صلاۃفجروقت پراداکی جائے، اگر رات کوتعلیم وتعلم یا وعظ وتذکیرمیں اتناوقت صرف کردیاجائے کہ فجرکے وقت اٹھانہ جاسکے تو یہ جوازواستحباب بھی محل نظر ہوگا۔ (دیکھئے اگلی حدیث اوراس کا حاشیہ)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
14- بَاب مَا جَاءَ مِنْ الرُّخْصَةِ فِي السَّمَرِ بَعْدَ الْعِشَاءِ
۱۴- باب: عشاء کے بعد بات چیت کرنے کی رخصت کا بیان​


169- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللهِ ﷺ يَسْمُرُ مَعَ أَبِي بَكْرٍ فِي الأَمْرِ مِنْ أَمْرِ الْمُسْلِمِينَ، وَأَنَا مَعَهُمَا. وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ عَمْرٍو، وَأَوْسِ بْنِ حُذَيْفَةَ، وَعِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَقَدْ رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ الْحَسَنُ بْنُ عُبَيْدِاللهِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ جُعْفِيٍّ، يُقَالُ لَهُ: قَيْسٌ، أَوْ ابْنُ قَيْسٍ، عَنْ عُمَرَ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ هَذَا الْحَدِيثَ فِي قِصَّةٍ طَوِيلَةٍ. وَقَدْ اخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَالتَّابِعِينَ وَمَنْ بَعْدَهُمْ فِي السَّمَرِ بَعْدَ صَلاَةِ الْعِشَاءِ الآخِرَةِ، فَكَرِهَ قَوْمٌ مِنْهُمْ السَّمَرَ بَعْدَ صَلاَةِ الْعِشَاءِ، وَرَخَّصَ بَعْضُهُمْ إِذَا كَانَ فِي مَعْنَى الْعِلْمِ، وَمَا لاَ بُدَّ مِنْهُ مِنْ الْحَوَائِجِ. وَأَكْثَرُ الْحَدِيثِ عَلَى الرُّخْصَةِ. قَدْ رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ:"لاَ سَمَرَ إِلاَّ لِمُصَلٍّ أَوْ مُسَافِرٍ".
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۰۶۱۱) وانظر: (حم (۱/۲۶،۳۴) (صحیح)
۱۶۹- عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ مسلمانوں کے بعض معاملات میں سے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ رات میں گفتگوکرتے اور میں ان دونوں کے ساتھ ہوتا تھا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن ہے،۲- اس باب میں عبداللہ بن عمرو، اوس بن حذیفہ اور عمران بن حصین رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- صحابہ کرام اورتابعین اوران کے بعد کے لوگوں میں سے اہل علم نے عشاء کے بعد بات کرنے کے سلسلہ میں اختلاف کیاہے۔ کچھ لوگوں نے عشاء کے بعد بات کرنے کو مکروہ جانا ہے اورکچھ لوگوں نے اس کی رخصت دی ہے، بشرطیکہ یہ کوئی علمی گفتگو ہو یاکوئی ایسی ضرورت ہوجس کے بغیرچارہ نہ ہو ۱؎ اور اکثر احادیث رخصت کے بیان میں ہیں ،نیزنبی اکرمﷺ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا :'' بات صرف وہ کرسکتا ہے جوصلاۃِعشاء کا منتظرہویا مسافر ہو''۔
وضاحت ۱؎ : رہے ایسے کام جن میں کوئی دینی اورعلمی فائدہ یاکوئی شرعی غرض نہ ہومثلاً کھیل کود،تاش بازی، شطرنج کھیلنا ،ٹیلی ویژن اور ریڈیووغیرہ دیکھنا، سننا تو یہ ویسے بھی حرام، لغو اورمکروہ کام ہیں، عشاء کے بعد ان میں مصروف رہنے سے ان کی حرمت یا کراہت اور بڑھ جاتی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
15- بَاب مَا جَاءَ فِي الْوَقْتِ الأَوَّلِ مِنْ الْفَضْلِ
۱۵- باب: اوّل وقت میں صلاۃ پڑھنے کی فضیلت کا بیان​


170- حَدَّثَنَا أَبُو عَمَّارٍ الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ، حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ الْعُمَرِيِّ، عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ غَنَّامٍ، عَنْ عَمَّتِهِ أُمِّ فَرْوَةَ، وَكَانَتْ مِمَّنْ بَايَعَتْ النَّبِيَّ ﷺ قَالَتْ: سُئِلَ النَّبِيُّ ﷺ أَيُّ الأَعْمَالِ أَفْضَلُ؟ قَالَ:"الصَّلاَةُ لأَوَّلِ وَقْتِهَا".
* تخريج: د/الصلاۃ ۹ (۴۲۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۴۱) (صحیح)
(سندمیں قاسم مضطرب الحدیث ہیں، اور عبداللہ العمری ضعیف ہیں،لیکن شواہد سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے ، ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی اس معنی کی روایت صحیحین میں موجود ہے جو مؤلف کے یہاں رقم ۱۷۳ پر آرہی ہے۔)
۱۷۰- قاسم بن غنّام کی پھوپھی ام فروہ رضی اللہ عنہا (جنہوں نے نبی اکرمﷺ سے بیعت کی تھی) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ سے پوچھاگیا: کون ساعمل سب سے افضل ہے؟ توآپ نے فرمایا:'' اول وقت میں صلاۃ پڑھنا''۔


171- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ وَهْبٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِاللهِ الْجُهَنِيِّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عُمَرَ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ لَهُ:"يَا عَلِيُّ! ثَلاَثٌ لاَ تُؤَخِّرْهَا: الصَّلاَةُ إِذَا آنَتْ، وَالْجَنَازَةُ إِذَا حَضَرَتْ، وَالأَيِّمُ إِذَا وَجَدْتَ لَهَا كُفْئًا". قَالَ أَبُوعِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ حَسَنٌ.
* تخريج: ق/الجنائز ۱۸ (۱۴۸۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۲۵۱)، وانظرحم (۱/۱۰۵)، (ویأتی عند المؤلف فی الجنائزبرقم: ۱۰۷۵) (ضعیف)
(سند میں سعید بن عبد اللہ جہنی لین الحدیث ہیں، اور ان کی عمربن علی سے ملاقات نہیں ہے، جیساکہ مؤلف نے خود کتاب ا لجنائز میں تصریح کی ہے ، مگر حدیث کا معنی صحیح ہے)
۱۷۱- علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے ان سے فرمایا:'' علی! تین چیزوں میں دیر نہ کرو: صلاۃ کو جب اس کا وقت ہوجائے، جنازہ کوجب آجائے، اور بیوہ عورت (کے نکاح کو) جب تمہیں اس کا کوئی کفو (ہمسر)مل جائے''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔


172- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ الْوَلِيدِ الْمَدَنِيُّ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ:"الْوَقْتُ الأَوَّلُ مِنْ الصَّلاَةِ رِضْوَانُ اللهِ، وَالْوَقْتُ الآخِرُ عَفْوُ اللهِ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ. وَقَدْ رَوَى ابْنُ عَبَّاسٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَهُ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ، وَابْنِ عُمَرَ، وَعَائِشَةَ، وَابْنِ مَسْعُودٍ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أُمِّ فَرْوَةَ لاَ يُرْوَى إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ عَبْدِاللهِ بْنِ عُمَرَ الْعُمَرِيِّ وَلَيْسَ هُوَ بِالْقَوِيِّ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ. وَاضْطَرَبُوا عَنْهُ فِي هَذَا الْحَدِيثِ وَهُوَ صَدُوقٌ، وَقَدْ تَكَلَّمَ فِيهِ يَحْيَى ابْنُ سَعِيدٍ مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۷۷۳۱) (موضوع)
(سند میں عبداللہ بن عمر العمری ضعیف ہیں اوریعقوب بن ولید مدنی کو ائمہ نے کذاب کہا ہے)
۱۷۲- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' صلاۃ اول وقت میں ا للہ کی رضامندی کا موجب ہے اور آخری وقت میں اللہ کی معافی کا موجب ہے''۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ۲- ابن عباس رضی اللہ عنہ نے بھی نبی اکرمﷺ سے اسی طرح روایت کی ہے، ۳- اور اس باب میں علی ، ابن عمر، عائشہ اور ابن مسعود رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۴- ام فروہ کی (اوپر والی) حدیث (نمبر:۱۷۰) عبداللہ بن عمرعمری ہی سے روایت کی جاتی ہے اور یہ محدثین کے نزدیک قوی نہیں ہیں، اس حدیث میں لوگ ان سے روایت کرنے میں اضطراب کا شکارہیں اور وہ صدوق ہیں،یحیی بن سعید نے ان کے حفظ کے تعلق سے ان پر کلام کیاہے۔


173- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ الْفَزَارِيُّ، عَنْ أَبِي يَعْفُورٍ، عَنْ الْوَلِيدِ بْنِ الْعَيْزَارِ، عَنْ أَبِي عَمْرٍو الشَّيْبَانِيِّ أَنَّ رَجُلاً قَالَ لاِبْنِ مَسْعُودٍ: أَيُّ الْعَمَلِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: سَأَلْتُ عَنْهُ رَسُولَ اللهِ ﷺ، فَقَالَ:"الصَّلاَةُ عَلَى مَوَاقِيتِهَا" قُلْتُ: وَمَاذَا يَا رَسُولَ اللهِ! قَالَ:"وَبِرُّ الْوَالِدَيْنِ" قُلْتُ: وَمَاذَا يَا رَسُولَ اللهِ! قَالَ:"وَالْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللهِ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ رَوَى الْمَسْعُودِيُّ، وَشُعْبَةُ، وَسُلَيْمَانُ، هُوَ أَبُو إِسْحَاقَ الشَّيْبَانِيُّ وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ الْوَلِيدِ ابْنِ الْعَيْزَارِ: هَذَا الْحَدِيثَ.
* تخريج: خ/المواقیت ۵ (۵۲۷)، والجہاد ۱ (۲۷۸۲)، والأدب ۱ (۵۹۷۰)، والتوحید ۴۸ (۷۵۳۴)، م/الإیمان ۳۶ (۸۵)، ن/المواقیت ۵۱ (۶۱۱)، (تحفۃ الأشراف: ۹۲۳۲)، حم (۱/۴۰۹، ۴۱۰، ۴۱۸، ۴۲۱، ۴۴۴، ۴۴۸، ۴۵۱) ویأتی عند المؤلف برقم: ۱۸۹۸ (صحیح)
۱۷۳- ابوعمرو شیبانی سے روایت ہے کہ ایک شخص نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کون ساعمل سب سے اچھا ہے؟انہوں نے بتلایاکہ میں نے اس کے بارے میں رسول اللہﷺ سے پوچھاتو آپ نے فرمایا:''صلاۃ کو اس کے وقت پر پڑھنا''۔ میں نے عرض کیا: اور کیاہے؟ اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا:'' والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا''،میں نے عرض کیا: (اس کے بعد)اورکیا ہے؟ اللہ کے رسول!آپ نے فرمایا:'' اللہ کی راہ میں جہادکرنا''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔


174- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ خَالِدِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِلاَلٍ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عُمَرَ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: مَا صَلَّى رَسُولُ اللهِ ﷺ صَلاَةً لِوَقْتِهَا الآخِرِ مَرَّتَيْنِ، حَتَّى قَبَضَهُ اللهُ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، وَلَيْسَ إِسْنَادُهُ بِمُتَّصِلٍ. قَالَ الشَّافِعِيُّ: وَالْوَقْتُ الأَوَّلُ مِنْ الصَّلاَةِ أَفْضَلُ، وَمِمَّا يَدُلُّ عَلَى فَضْلِ أَوَّلِ الْوَقْتِ عَلَى آخِرِهِ: اخْتِيَارُ النَّبِيِّ ﷺ وَأَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ، فَلَمْ يَكُونُوا يَخْتَارُونَ إِلاَّ مَا هُوَ أَفْضَلُ، وَلَمْ يَكُونُوا يَدَعُونَ الْفَضْلَ، وَكَانُوا يُصَلُّونَ فِي أَوَّلِ الْوَقْتِ. قَالَ: حَدَّثَنَا بِذَلِكَ أَبُو الْوَلِيدِ الْمَكِّيُّ، عَنْ الشَّافِعِيِّ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۵۹۲۲) (حسن)
(سندمیں اسحاق بن عمرضعیف ہیں، مگر شواہد سے تقویت پاکر یہ حدیث حسن لغیرہ ہے)
۱۷۴- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے کوئی صلاۃ اس کے آخری وقت میں دوبار نہیں پڑھی یہاں تک کہ اللہ نے آپ کو وفات دے دی۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے اوراس کی سند متصل نہیں ہے، ۲- شافعی کہتے ہیں: صلاۃ کا اول وقت افضل ہے اورجوچیزیں اوّل وقت کی افضیلت پر دلالت کرتی ہیں منجملہ انہیں میں سے نبی اکرمﷺ ، ابوبکر ، اورعمر رضی اللہ عنہما کا اسے پسندفرمانا ہے۔ یہ لوگ اسی چیزکو معمول بناتے تھے جو افضل ہو اور افضل چیزکونہیں چھوڑتے تھے۔ اوریہ لوگ صلاۃ کو اوّل وقت میں پڑھتے تھے ۔
 
Top