• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
18-بَاب مَا جَاءَ فِي الْهَمِّ فِي الدُّنْيَا وَحُبِّهَا
۱۸-باب: دنیا سے محبت اور اس کے غم و فکر میں رہنے کا بیان​


2326- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ بَشِيرٍ أَبِي إِسْمَاعِيلَ، عَنْ سَيَّارٍ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "مَنْ نَزَلَتْ بِهِ فَاقَةٌ فَأَنْزَلَهَا بِالنَّاسِ لَمْ تُسَدَّ فَاقَتُهُ، وَمَنْ نَزَلَتْ بِهِ فَاقَةٌ فَأَنْزَلَهَا بِاللهِ فَيُوشِكُ اللهُ لَهُ بِرِزْقٍ عَاجِلٍ أَوْ آجِلٍ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: د/الزکاۃ ۲۹ (۱۶۴۵) (تحفۃ الأشراف: ۹۳۱۹)، وحم (۱/۳۸۹) (صحیح) ''بموت عاجل أو غني عاجل'')
کے لفظ سے صحیح ہے ،صحیح سنن ابی داود ۱۴۵۲، الصحیحۃ ۲۸۸۷)
۲۳۲۶- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جوشخص فاقہ کا شکار ہو اور اس پر صبر نہ کرکے لوگوں سے بیان کرتاپھرے ۱؎ تو اس کا فاقہ ختم نہیں ہو گا، اور جو فاقہ کا شکار ہو اوراسے اللہ کے حوالے کرکے اس پر صبر سے کام لے تو قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے دیریاسویر روزی دے '' ۲؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔
وضاحت ۱؎ : یعنی لوگوں سے اپنی محتاجی اورلاچاری کاتذکرہ کرکے ان کے آگے ہاتھ پھیلائے تو ایسے شخص کی ضرورت کبھی پوری نہیں ہوگی،اور اگروقتی طورپر پوری ہوبھی گئی تو پھر اس سے زیادہ سخت دوسری ضرورتیں اس کے سامنے آئیں گی جن سے نمٹنا اس کے لیے آسان نہ ہوگا۔
وضاحت ۲؎ : چونکہ اس نے صبر سے کام لیا، اس لیے اللہ تعالیٰ اسے دنیامیں رزق عطافرمائے گا، یا آخرت میں اسے ثواب سے نوازے گا، معلوم ہوا کہ حاجت وضرورت کے وقت انسانوں کی بجائے اللہ کی طرف رجوع کیاجائے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
19- باب
۱۹- باب: دنیا میں آدمی کے لیے صرف خادم اور جہاد کے لیے سواری کافی ہے​


2327- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مَنْصُورٍ وَالأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، قَالَ: جَاءَ مُعَاوِيَةُ إِلَى أَبِي هَاشِمِ بْنِ عُتْبَةَ، وَهُوَ مَرِيضٌ يَعُودُهُ فَقَالَ: يَا خَالُ مَا يُبْكِيكَ أَوَجَعٌ يُشْئِزُكَ أَمْ حِرْصٌ عَلَى الدُّنْيَا؟ قَالَ: كُلٌّ لاَ، وَلَكِنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ عَهِدَ إِلَيَّ عَهْدًا لَمْ آخُذْ بِهِ، قَالَ: "إِنَّمَا يَكْفِيكَ مِنْ جَمِيعِ الْمَالِ خَادِمٌ وَمَرْكَبٌ فِي سَبِيلِ اللهِ" وَأَجِدُنِي الْيَوْمَ قَدْ جَمَعْتُ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ رَوَى زَائِدَةُ وَعَبِيدَةُ بْنُ حُمَيْدٍ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ أَبِي وَائِلٍ عَنْ سَمُرَةَ بْنِ سَهْمٍ، قَالَ: دَخَلَ مُعَاوِيَةُ عَلَى أَبِي هَاشِمٍ، فَذَكَرَ نَحْوَهُ، وَفِي الْبَاب عَنْ بُرَيْدَةَ الأَسْلَمِيِّ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ.
* تخريج: ن/الزینۃ ۱۱۹ (۵۳۷۴)، ق/الزہد ۱ (۴۱۰۳) (تحفۃ الأشراف: ۱۲۱۷۸) وحم (۵/۲۹۰) (حسن)
۲۳۲۷- ابووائل شقیق بن سلمہ کہتے ہیں: معاویہ رضی اللہ عنہ ابوہاشم بن عتبہ بن ربیعہ القرشی کی بیماری کے وقت ان کی عیادت کے لیے آئے اور کہا: اے ماموں جان! کیا چیزآپ کو رُلارہی ہے؟کسی دردسے آپ بے چین ہیں یا دنیا کی حرص ستارہی ہے، ابوہاشم نے کہا: ایسی کوئی بات نہیں ہے، البتہ رسول اللہﷺ نے مجھے ایک وصیت کی تھی جس پر میں عمل نہ کرسکا۔ آپ نے فرمایاتھا:'' تمہارے لیے پورے سرمایہ میں سے ایک خادم اور ایک سواری جو اللہ کی راہ میں کام آئے کافی ہے، جب کہ اس وقت میں نے اپنے پاس بہت کچھ جمع کرلیاہے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- زائدہ اور عبیدہ بن حمید نے ''منصور عن أبي وائل عن سمرة بن سهم'' کی سند سے روایت کی ہے جس میں یہ نقل کیا ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ ابوہاشم کے پاس داخل ہوئے پھر اسی کے مانندحدیث ذکر کی ۲- اس باب میں بریدہ اسلمی نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کیا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
20-بَاب مِنْهُ
۲۰-باب: زمین جائدادنہ بناؤ کہ اس سے تمہیں دنیاکی رغبت ہوجائے گی​


2328- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ شِمْرِ بْنِ عَطِيَّةَ، عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ سَعْدِ بْنِ الأَخْرَمِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "لاَ تَتَّخِذُوا الضَّيْعَةَ فَتَرْغَبُوا فِي الدُّنْيَا".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۹۲۳۱) (صحیح)
۲۳۲۸- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جائداد ۱؎ کو مت بناؤ کہ اس کی وجہ سے تمہیں دنیا کی رغبت ہوجائے گی''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔
وضاحت ۱؎ : حدیث میں ضیعہ کالفظ آیا ہے ، اس سے مرادایسی جائدادیں ہیں جوغیرمنقولہ ہوں مثلا باغ، کھیت اورگاؤں وغیرہ،کچھ لوگ کہتے ہیں:اس سے مرادوہ تمام چیزیں ہیں جن پر انسان کی معاشی زندگی کا دارومدارہو، اگر یہ چیزیں انسان کو ذکرالٰہی سے غافل کردینے والی ہوں اور انسان آخرت کو بھول بیٹھے اور اس کے دل میں پورے طورے پر دنیا کی رغبت پیداہوجائے تو اسے چاہئے کہ ان سے کنارہ کشی اختیارکرے اور خشیت الٰہی کو اپنائے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
21-بَاب مَا جَاءَ فِي طُولِ الْعُمْرِ لِلْمُؤْمِنِ
۲۱-باب: مومن کے حق میں لمبی عمر کے بہترہونے کابیان​


2329- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ حُبَابٍ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ قَيْسٍ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ بُسْرٍ أَنَّ أَعْرَابِيًّا قَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ! مَنْ خَيْرُ النَّاسِ؟ قَالَ: "مَنْ طَالَ عُمُرُهُ وَحَسُنَ عَمَلُهُ". وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَجَابِرٍ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۵۱۹۷)، حم (۴/۱۸۸، ۱۹۰) (صحیح)
۲۳۲۹- عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک اعرابی نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! لوگوں میں سب سے بہتر شخص کون ہے؟ آپ نے فرمایا:'' جس کی عمرلمبی ہو اور عمل نیک ہو'' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے،۲- اس باب میں ابی ہریرہ اور جابر رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : عمر لمبی ہوگی اور عمل اچھا ہوگا تو نیکیاں زیادہ ہوں گی، اس لیے یہ مومن کے حق میں بہتر ہے، اس کے برعکس اگر عمر لمبی ہو اور اعمال برے ہوں تو یہ اور برا معاملہ ہوگا، '' أعاذنا الله منه''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
22-بَاب مِنْهُ
۲۲-باب: لمبی عمروالا اچھے اعمال کے ساتھ سب سے اچھا آدمی ہے اور برے کام کے ساتھ سب سے برا​


2330- حَدَّثَنَا أَبُو حَفْصٍ عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّ رَجُلاً قَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ! أَيُّ النَّاسِ خَيْرٌ؟ قَالَ: "مَنْ طَالَ عُمُرُهُ وَحَسُنَ عَمَلُهُ" قَالَ: فَأَيُّ النَّاسِ شَرٌّ؟ قَالَ: "مَنْ طَالَ عُمُرُهُ وَسَائَ عَمَلُهُ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۱۶۸۹) (صحیح)
(سندمیں علی بن زید بن جدعان ضعیف راوی ہیں، لیکن شواہد کی بنا پر جیسے سابقہ حدیث سے یہ حدیث صحیح ہے)
۲۳۳۰- ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا :اللہ کے رسول! لوگوں میں سب سے بہتر شخص کون ہے؟ آپ نے فرمایا:'' جس کی عمر لمبی ہو اورعمل نیک ہو''، اس آدمی نے پھر پوچھا کہ لوگوں میں سب سے بدترشخص کون ہے؟ آپ نے فرمایا:'' جس کی عمر لمبی ہو اور عمل برا ہو'' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : ایک تاجرکی نگاہ میں رأس المال اورسرمایہ کی جوحیثیت ہے وہی حیثیت اورمقام وقت کاہے،تاجر اپنے سرمایہ کو ہمیشہ بڑھانے کاخواہشمندہوتاہے ، اسی طرح لمبی مدت پانے والے کو چاہئے کہ اس کے اوقات زیادہ سے زیادہ نیکی کے کاموں میں گزریں، اگر اس نے اپنی زندگی کے اس سرمایہ کو اسی طرح باقی رکھا تو جس طرح سرمایہ بڑھانے کا خواہشمندتاجراکثر نفع کماتاہے، اسی طرح یہ بھی فائدہ ہی حاصل کرتا رہے گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
23-بَاب مَا جَاءَ فِي فَنَائِ أَعْمَارِ هَذِهِ الأُمَّةِ مَا بَيْنَ السِّتِّينَ إِلَى السَّبْعِينَ
۲۳-باب: امت محمدیہ کی اوسط عمرساٹھ سے ستربر س کے درمیان ہے​


2331- حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعِيدٍ الْجَوْهَرِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَبِيعَةَ، عَنْ كَامِلٍ أَبِي الْعَلاَئِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "عُمْرُ أُمَّتِي مِنْ سِتِّينَ سَنَةً إِلَى سَبْعِينَ سَنَةً". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ.
* تخريج: ق/الزہد ۲۷ (۴۲۳۶)، ویأتي عند المؤلف في الدعوات ۱۰۲ (۳۵۵۰) (تحفۃ الأشراف: ۱۲۸۷۶) (حسن صحیح)
( یہ حدیث ''أعمار أمتي مابین ...''کے لفظ سے صحیح ہے)
۲۳۳۱- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' میری امت کے اکثرلوگوں کی عمر ساٹھ سے ستر سال تک کے درمیان ہوگی''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابوصالح کی یہ حدیث جسے وہ ابو ہریرہ سے روایت کرتے ہیں حسن غریب ہے، ۲- یہ حدیث ابوہریرہ سے اس کے علاوہ کئی اور سندوں سے بھی مروی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
24-بَاب مَا جَاءَ فِي تَقَارُبِ الزَّمَانِ وَقِصَرِ الأَمَلِ
۲۴-باب: قربِ قیامت زمانہ سمٹ جائے گا اور آرزوئیں کم ہوجائیں گی​


2332- حَدَّثَنَا عَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدُّورِيُّ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ عُمَرَ الْعُمَرِيُّ، عَنْ سَعْدِ بْنِ سَعِيدٍ الأَنْصَارِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "لاَ تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَتَقَارَبَ الزَّمَانُ فَتَكُونُ السَّنَةُ كَالشَّهْرِ، وَالشَّهْرُ كَالْجُمُعَةِ، وَتَكُونُ الْجُمُعَةُ كَالْيَوْمِ، وَيَكُونُ الْيَوْمُ كَالسَّاعَةِ، وَتَكُونُ السَّاعَةُ كَالضَّرَمَةِ بِالنَّارِ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَسَعْدُ بْنُ سَعِيدٍ هُوَ أَخُو يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۸۴۶) (صحیح)
۲۳۳۲- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' قیامت نہیں قائم ہوگی یہاں تک کہ زمانہ قریب ہوجائے گا ۱؎ سال ایک مہینہ کے برابر ہوجائے گا جب کہ ایک مہینہ ایک ہفتہ کے برابر اور ایک ہفتہ ایک دن کے برابر اور ایک دن ایک ساعت (گھڑی)کے برابر ہوجائے گا اور ایک ساعت (گھڑی) آگ سے پیداہونے والی چنگاری کے برابر ہوجائے گی ۔امام ترمذی کہتے ہیں: اس سند سے یہ حدیث غریب ہے۔
وضاحت ۱؎ : زمانہ قریب ہوجائے گااس کا مفہوم یہ ہے کہ یا تو اس کی برکتیں کم ہوجائیں گی اور فائدہ کی بجائے نقصانات زیادہ ہوں گے یا اس طرف اشارہ ہے کہ لوگ دنیاوی مشاغل میں اس قدرمنہمک ومشغول ہوں گے کہ انہیں دن اوررات کے گزرنے کا احساس ہی نہ ہوگا۔ (دوسرے ٹکڑے سے متعلق حدیث اگلے باب میں آرہی ہے)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
25-بَاب مَا جَاءَ فِي قِصَرِ الأَمَلِ
۲۵-باب: آرزوئیں کم رکھنے کابیان​


2333- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: أَخَذَ رَسُولُ اللهِ ﷺ بِبَعْضِ جَسَدِي، فَقَالَ: "كُنْ فِي الدُّنْيَا كَأَنَّكَ غَرِيبٌ أَوْ عَابِرُ سَبِيلٍ وَعُدَّ نَفْسَكَ فِي أَهْلِ الْقُبُورِ" فَقَالَ لِي ابْنُ عُمَرَ: إِذَا أَصْبَحْتَ فَلاَ تُحَدِّثْ نَفْسَكَ بِالْمَسَائِ، وَإِذَا أَمْسَيْتَ فَلاَ تُحَدِّثْ نَفْسَكَ بِالصَّبَاحِ، وَخُذْ مِنْ صِحَّتِكَ قَبْلَ سَقَمِكَ، وَمِنْ حَيَاتِكَ قَبْلَ مَوْتِكَ، فَإِنَّكَ لاَ تَدْرِي يَا عَبْدَ اللهِ مَا اسْمُكَ غَدًا.
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ الأَعْمَشُ عَنْ مُجَاهِدٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ نَحْوَهُ.
* تخريج: خ/الرقاق ۳ (۶۴۱۶)، ق/الزہد ۳ (۴۱۱۴) (تحفۃ الأشراف: ۷۳۸۶)، وحم (۲/۲۴، ۱۳۱) (صحیح)
2333/م- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ لَيْثٍ عَنْ مُجَاهِدٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَهُ.
* تخريج: انظر ماقبلہ (صحیح)
۲۳۳۳- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے میرے بدن کے بعض حصے کوپکڑکرفرمایا :'' تم دنیا میں ایسے رہو گویا تم ایک مسافریا راہ گیر ہو، اور اپناشمار قبروالوں میں کرو''۔مجاہد کہتے ہیں: ابن عمر رضی اللہ عنہما نے مجھ سے کہا:جب تم صبح کرو توشام کا یقین مت رکھو اور جب شام کرو تو صبح کا یقین نہ رکھو، اور بیماری سے قبل صحت و تندرستی کی حالت میں اور موت سے قبل زندگی کی حالت میں کچھ کرلواس لیے کہ اللہ کے بندے ! تمہیں نہیں معلوم کہ کل تمہارا نام کیا ہوگا ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: اعمش نے مجاہد سے ، مجاہدنے ابن عمر سے اس حدیث کی اسی طرح سے روایت کی ہے۔
۲۳۳۳/م- اس سند سے بھی ابن عمر سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث میں دنیاسے بے رغبتی اوردنیاوی آرزوئیں کم رکھنے کابیان ہے ،مفہوم یہ ہے کہ جس طرح ایک مسافردوران سفرکچھ وقت کے لیے کسی جگہ قیام کرتاہے ، تم دنیاکواپنے لیے ایساہی سمجھو، بلکہ اپناشمارقبروالوں میں کرو، گویاتم دنیاسے جاچکے، اسی لیے آگے فرمایا:صبح پالینے کے بعدشام کا انتظارمت کرواورشام پالینے کے بعدصبح کا انتظارمت کروبلکہ اپنی صحت وتندرستی کے وقت مرنے کے بعدوالی زندگی کے لیے کچھ تیاری کرلو، کیونکہ تمہیں کچھ خبرنہیں کہ کل تمہارا شمارمردوں میں ہوگایازندوں میں۔


2334- حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ عُبَيْدِ اللهِ بْنِ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "هَذَا ابْنُ آدَمَ، وَهَذَا أَجَلُهُ، وَوَضَعَ يَدَهُ عِنْدَ قَفَاهُ، ثُمَّ بَسَطَهَا فَقَالَ: وَثَمَّ أَمَلُهُ وَثَمَّ أَمَلُهُ وَثَمَّ أَمَلُهُ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي سَعِيدٍ.
* تخريج: ق/الزہد ۲۷ (۴۲۳۲) (تحفۃ الأشراف: ۱۰۷۹) (صحیح)
۲۳۳۴- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' یہ ابن آدم ہے اور یہ اس کی موت ہے اور آپ نے اپنا ہاتھ اپنی گدی پر رکھا پھر اسے دراز کیا اور فرمایا:''یہ اس کی امید ہے، یہ اس کی امید ہے ،یہ اس کی امیدہے '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔
وضاحت ۱؎ : مفہوم یہ ہے کہ ابن آدم کی زندگی کی مدت بہت مختصرہے ،موت اس سے قریب ہے ،لیکن اس کی خواہشیں اورآرزوئیں لامحدود ہیں، اس لیے آدمی کوچاہئے کہ دنیا میں رہتے ہوئے اپنی مختصرزندگی کو پیش نظررکھے، اورزیادہ سے زیادہ نیکیاں کمانے کی فکرکرے۔


2335- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي السَّفَرِ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: مَرَّ عَلَيْنَا رَسُولُ اللهِ ﷺ وَنَحْنُ نُعَالِجُ خُصًّا لَنَا، فَقَالَ: "مَا هَذَا؟" فَقُلْنَا: قَدْ وَهَى فَنَحْنُ نُصْلِحُهُ، قَالَ: "مَا أَرَى الأَمْرَ إِلاَّ أَعْجَلَ مِنْ ذَلِكَ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو السَّفَرِ اسْمُهُ سَعِيدُ بْنُ يُحْمِدَ، وَيُقَالُ ابْنُ أَحْمَدَ الثَّوْرِيُّ.
* تخريج: د/الأدب ۱۶۹ (۵۲۳۵)، ق/الزہد ۱۳ (۴۱۶۰) (تحفۃ الأشراف: ۸۶۵۰) (صحیح)
۲۳۳۵- عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسو ل اللہ ﷺہمارے پاس سے گزرے، ہم اپنا چھپرکا مکان درست کررہے تھے، آپ نے پوچھا: یہ کیا ہے؟ ہم نے عرض کیا کہ یہ گھر بوسیدہ ہوچکا ہے، لہذا ہم اس کو ٹھیک کررہے ہیں، آپ نے فرمایا:'' میں تومعاملے(موت) کو اس سے بھی زیادہ قریب دیکھ رہاہوں'' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : آپ کے ارشادکا مطلب یہ نہیں ہے کہ مکان کی لیپاپوتی اور اس کی اصلاح ومرمت نہ کی جائے بلکہ مراد اس سے موت کی یاددہانی ہے، تاکہ موت ہروقت انسان کے سامنے رہے اورکسی وقت بھی اس سے غفلت نہ برتے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
26-بَاب مَا جَاءَ أَنَّ فِتْنَةَ هَذِهِ الأُمَّةِ فِي الْمَالِ
۲۶-باب: امت محمدیہ کا فتنہ مال ہے​


2336- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ سَوَّارٍ، حَدَّثَنَا لَيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ صَالِحٍ أَنَّ عَبْدَالرَّحْمَنِ بْنَ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ، حَدَّثَهُ عَنْ أَبِيهِ، عَنْ كَعْبِ بْنِ عِيَاضٍ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ ﷺ يَقُولُ: "إِنَّ لِكُلِّ أُمَّةٍ فِتْنَةً وَفِتْنَةُ أُمَّتِي الْمَالُ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ مُعَاوِيَةَ بْنِ صَالِحٍ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) (تحفۃ الأشراف: ۱۱۱۲۹)، وحم (۴/۱۶۰) (صحیح)
۲۳۳۶- کعب بن عیاض رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کویہ فرماتے ہوئے سنا :'' ہر امت کی آزمائش کسی نہ کسی چیزمیں ہے اور میری امت کی آزمائش مال میں ہے '' ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ۲- اس حدیث کو ہم معاویہ بن صالح کی روایت ہی سے جانتے ہیں۔
وضاحت ۱؎ : فتنہ سے مرادآزمائش ہے ، اس حدیث میں اس امت کو آگاہ کیاگیاہے کہ وہ مال کی محبت میں اعتدال سے کام لے، ورنہ وہ اس آزمائش میں ناکام ہوسکتی ہے اوریہ مال جو اللہ کی نعمت ہے اس کے لیے شدیدعذاب کا سبب بن سکتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
27-بَاب مَا جَاءَ لَوْ كَانَ لابْنِ آدَمَ وَادِيَانِ مِنْ مَالٍ لاَبْتَغَى ثَالِثًا
۲۷-باب: آدمی کے پاس دووادی بھرمال ہوتو وہ تیسری وادی کا خواہش مندہوگا​


2337- حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ أَبِي زِيَادٍ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ: "لَوْكَانَ لابْنِ آدَمَ وَادِيَانِ مِنْ ذَهَبٍ لأَحَبَّ أَنْ يَكُونَ لَهُ ثَالِثٌ، وَلاَ يَمْلأُ فَاهُ إِلاَّ التُّرَابُ، وَيَتُوبُ اللهُ عَلَى مَنْ تَابَ". وَفِي الْبَاب عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ وَأَبِي سَعِيدٍ وَعَائِشَةَ وَابْنِ الزُّبَيْرِ وَأَبِي وَاقِدٍ وَجَابِرٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَأَبِي هُرَيْرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: خ/الرقاق ۱۰ (۶۴۳۹)، م/الزکاۃ ۳۹ (۱۰۴۸) (تحفۃ الأشراف: ۱۵۰۸)، وحم (۳/۱۲۲، ۱۷۶، ۱۹۲، ۱۹۸، ۲۳۸، ۲۷۲)، ودي/الرقاق ۶۲ (۲۸۲۰) (صحیح)
۲۳۳۷- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' اگرآدمی کے پاس سونے کی دد وادیاں ہوں تو اسے ایک تیسری وادی کی خواہش ہوگی اوراس کاپیٹ کسی چیز سے نہیں بھرے گا سوائے مٹی سے۔ اور اللہ تعالیٰ ہر اس شخص کی توبہ قبول کرتاہے جواس سے توبہ کرے '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس سند سے یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے،۲- اس باب میں ابی بن کعب ، ابوسعید خدری، عائشہ ، ابن زبیر ، ابو واقد، جابر، ابن عباس اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث کا یہ مطلب ہے کہ ابن آدم کے اندردنیاوی حرص اس قدرکوٹ کوٹ کربھری ہوئی ہے کہ اس کے پاس مال کی بہتات ہوپھربھی اسے آسودگی نہیں ہوتی یہاں تک کہ موت اسے اپنی آغوش میں لے لیتی ہے پھرقبرکی مٹی سے ہی وہ آسودہ ہوتاہے، لیکن اللہ کے کچھ بندے ایسے ہیں جنہیں دنیاسے بے رغبتی ہوتی ہے اسی لیے اللہ تعالیٰ انہیں دنیاوی حرص سے محفوظ رکھتا ہے ، اورقناعت کی دولت سے وہ سب مالامال ہوتے ہیں۔
 
Top