• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
2- بَاب مَا جَاءَ فِيمَنْ لاَ تَجُوزُ شَهَادَتُهُ
۲-باب: ان لوگوں کابیان جن کی گواہی درست نہیں​


2298- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا مَرْوَانُ الْفَزَارِيُّ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ زِيَادٍ الدِّمَشْقِيِّ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "لاَ تَجُوزُ شَهَادَةُ خَائِنٍ وَلاَخَائِنَةٍ، وَلاَ مَجْلُودٍ حَدًّا وَلاَ مَجْلُودَةٍ، وَلاَ ذِي غِمْرٍ لأَخِيهِ، وَلاَ مُجَرَّبِ شَهَادَةٍ، وَلاَالْقَانِعِ أَهْلَ الْبَيْتِ لَهُمْ، وَلاَ ظَنِينٍ فِي وَلاَئٍ وَلاَ قَرَابَةٍ" قَالَ الْفَزَارِيُّ: الْقَانِعُ التَّابِعُ.
هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ يَزِيدَ بْنِ زِيَادٍ الدِّمَشْقِيِّ، وَيَزِيدُ يُضَعَّفُ فِي الْحَدِيثِ، وَلاَ يُعْرَفُ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ حَدِيثِ الزُّهْرِيِّ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِهِ.
وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: وَلاَ نَعْرِفُ مَعْنَى هَذَا الْحَدِيثِ، وَلاَ يَصِحُّ عِنْدِي مِنْ قِبَلِ إِسْنَادِهِ، وَالْعَمَلُ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي هَذَا أَنَّ شَهَادَةَ الْقَرِيبِ جَائِزَةٌ لِقَرَابَتِهِ، وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي شَهَادَةِ الْوَالِدِ لِلْوَلَدِ وَالْوَلَدِ لِوَالِدِهِ، وَلَمْ يُجِزْ أَكْثَرُ أَهْلِ الْعِلْمِ شَهَادَةَ الْوَالِدِ لِلْوَلَدِ، وَلاَ الْوَلَدِ لِلْوَالِدِ، و قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: إِذَا كَانَ عَدْلاً فَشَهَادَةُ الْوَالِدِ لِلْوَلَدِ جَائِزَةٌ، وَكَذَلِكَ شَهَادَةُ الْوَلَدِ لِلْوَالِدِ، وَلَمْ يَخْتَلِفُوا فِي شَهَادَةِ الأَخِ لأَخِيهِ أَنَّهَا جَائِزَةٌ، وَكَذَلِكَ شَهَادَةُ كُلِّ قَرِيبٍ لِقَرِيبِهِ، و قَالَ الشَّافِعِيُّ: لاَتَجُوزُ شَهَادَةٌ لِرَجُلٍ عَلَى الآخَرِ، وَإِنْ كَانَ عَدْلاً، إِذَا كَانَتْ بَيْنَهُمَا عَدَاوَةٌ، وَذَهَبَ إِلَى حَدِيثِ عَبْدِالرَّحْمَنِ الأَعْرَجِ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ مُرْسَلاً لاَ تَجُوزُ شَهَادَةُ صَاحِبِ إِحْنَةٍ يَعْنِي صَاحِبَ عَدَاوَةٍ، وَكَذَلِكَ مَعْنَى هَذَا الْحَدِيثِ حَيْثُ قَالَ: لاَ تَجُوزُ شَهَادَةُ صَاحِبِ غِمْرٍ لأَخِيهِ يَعْنِي صَاحِبَ عَدَاوَةٍ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۶۶۹۰) (ضعیف)
(سندمیں یزید بن زیاد دمشقی متروک الحدیث راوی ہے)
۲۲۹۸- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' خیانت کرنے والے مرد اور عورت کی گواہی درست اورمقبول نہیں ہے ، اورنہ ان مردوں اورعورتوں کی گواہی مقبول ہے جن پر حدنافذہوچکی ہے، نہ اپنے بھائی سے دشمنی رکھنے والے کی گواہی مقبول ہے ، نہ اس آدمی کی جس کی ایک بارجھوٹی گواہی آزمائی جاچکی ہو، نہ اس شخص کی گواہی جوکسی کے زیرکفالت ہو اس کفیل خاندان کے حق میں (جیسے مزدوروغیرہ) اورنہ اس شخص کی جو ولاء یا رشتہ داری کی نسبت میں متہم ہو ''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث غریب ہے ،۲- ہم اسے صر ف یزید بن زیاد دمشقی کی روایت سے جانتے ہیں، اوریزیدضعیف الحدیث ہیں، نیز یہ حدیث زہری کی روایت سے صرف اسی طریق سے جانی جاتی ہے، ۳- اس باب میں عبداللہ بن عمروسے بھی حدیث مروی ہے،۴- فزازی کہتے ہیں:'' قانع'' سے مراد ''تابع'' ہے ، ۵- اس حدیث کا مطلب ہم نہیں سمجھتے اورنہ ہی سندکے اعتبارسے یہ میرے نزدیک صحیح ہے، ۶- اس بارے میں اہل علم کا عمل ہے کہ رشتہ دارکے لیے رشتہ کی گواہی درست ہے ،البتہ بیٹے کے حق میں باپ کی گواہی یا باپ کے حق میں بیٹے کی گواہی کے بارے میں اہل علم کااختلاف ہے ، اکثراہل علم بیٹے کے حق میں باپ کی گواہی یا باپ کے حق میں بیٹے کی گواہی کودرست نہیں سمجھتے،۷- بعض اہل علم کہتے ہیں: جب گواہی دینے والاعادل ہو تو باپ کی گواہی بیٹے کے حق میں اسی طرح باپ کے حق میں بیٹے کی گواہی درست ہے ،۸- بھائی کی گواہی کے جواز کے بارے میں اختلاف نہیں ہے ،۹- اسی طرح رشتہ دارکے لیے رشتہ دار کی گواہی میں بھی اختلاف نہیں ہے ،۱۰- امام شافعی کہتے ہیں: جب دوآدمیوں میں دشمنی ہوتو ایک کے خلاف دوسرے کی گواہی درست نہ ہوگی ، گرچہ گواہی دینے والا عادل ہو ، انہوں نے عبدالرحمن اعرج کی حدیث سے استدلال کیا ہے جونبی اکرمﷺ سے مرسلاً مروی ہے کہ دشمنی رکھنے والے کی گواہی درست نہیں ہے ، اسی طرح اس(مذکورہ) حدیث کابھی مفہوم یہی ہے ،(جس میں)آپ نے فرمایا:'' اپنے بھائی کے لیے دشمنی رکھنے والے کی گواہی درست نہیں ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
3- بَاب مَا جَاءَ فِي شَهَادَةِ الزُّورِ
۳-باب: جھوٹی گواہی کی مذمت کابیان​


2299- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ، عَنْ سُفْيَانَ بْنِ زِيَادٍ الأَسَدِيِّ، عَنْ فَاتِكِ بْنِ فَضَالَةَ، عَنْ أَيْمَنَ بْنِ خُرَيْمٍ، أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَامَ خَطِيبًا فَقَالَ: "يَا أَيُّهَا النَّاسُ عَدَلَتْ شَهَادَةُ الزُّورِ إِشْرَاكًا بِاللهِ" ثُمَّ قَرَأَ رَسُولُ اللهِ ﷺ {فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ}[الحج: 30].
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ سُفْيَانَ بْنِ زِيَادٍ، وَاخْتَلَفُوا فِي رِوَايَةِ هَذَا الْحَدِيثِ عَنْ سُفْيَانَ بْنِ زِيَادٍ، وَلاَ نَعْرِفُ لأَيْمَنَ بْنِ خُرَيْمٍ سَمَاعًا مِنَ النَّبِيِّ ﷺ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۷۴۸) (ضعیف)
(یہ مرسل ہے أیمن بن خریم تابعی ہیں، نیز اس کے راوی فاتک بن فضالہ مستور (مجہول الحال) ہیں)
۲۲۹۹- ایمن بن خریم سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ خطبہ کے لیے کھڑے ہوے اورفرمایا:'' لوگو! جھوٹی گواہی اللہ کے ساتھ شرک کرنے کے برابرہے، پھر آپﷺ نے یہ آیت پڑھی { فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ } (الحج: ۳۰) توبتوں کی گندگی سے بچے رہو (ان کی پرستش نہ کرو) اورجھوٹ بولنے سے بچے رہو۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ۲- ہم اسے صرف سفیان بن زیاد کی روایت سے جانتے ہیں۔ اورلوگوں نے سفیان بن زیادسے اس حدیث کی روایت کرنے میں اختلاف کیا ہے، ۳- نیز ہم ایمن بن خریم کا نبی اکرمﷺ سے سماع بھی نہیں جانتے ہیں۔


2300- حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، وَهُوَ ابْنُ زِيَادٍ الْعُصْفُرِيُّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ النُّعْمَانِ الأَسَدِيِّ، عَنْ خُرَيْمِ بْنِ فَاتِكٍ الأَسَدِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ صَلَّى صَلاَةَ الصُّبْحِ، فَلَمَّا انْصَرَفَ قَامَ قَائِمًا، فَقَالَ: "عُدِلَتْ شَهَادَةُ الزُّورِ بِالشِّرْكِ بِاللهِ" ثَلاَثَ مَرَّاتٍ، ثُمَّ تَلاَ هَذِهِ الآيَةَ {وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ إِلَى آخِرِ الآيَةِ}.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا عِنْدِي أَصَحُّ وَخُرَيْمُ بْنُ فَاتِكٍ لَهُ صُحْبَةٌ، وَقَدْ رَوَى عَنِ النَّبِيِّ ﷺ أَحَادِيثَ وَهُوَ مَشْهُورٌ.
* تخريج: ق/الأحکام ۳۲ (۲۳۷۲) (ضعیف)
(سندمیں زیاد عصفری اور حبیب بن نعمان دونوں لین الحدیث یعنی ضعیف راوی ہیں)
۲۳۰۰- خریم بن فاتک اسدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فجرپڑھائی ، جب پلٹے تو خطبہ کے لیے کھڑے ہوئے اورفرمایا:'' جھوٹی گواہی اللہ کے ساتھ شرک کرنے کے برابر ہے ، آپ نے یہ بات تین مرتبہ دہرائی پھرآپ نے یہ مکمل آیت تلاوت فرمائی {وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ۔۔} (اورجھوٹی بات سے اجتناب کرو) ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث میرے نزدیک زیادہ صحیح ہے، ۲- خریم بن فاتک کو شرف صحابیت حاصل ہے ، نبی اکرمﷺ سے انہوں نے کئی حدیثیں روایت کی ہیں ، اورمشہورصحابی ہیں۔


2301- حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، عَنْ الْجُرَيْرِيِّ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: "أَلاَ أُخْبِرُكُمْ بِأَكْبَرِ الْكَبَائِرِ؟" قَالُوا: بَلَى، يَا رَسُولَ اللهِ! قَالَ: "الإِشْرَاكُ بِاللهِ، وَعُقُوقُ الْوَالِدَيْنِ، وَشَهَادَةُ الزُّورِ - أَوْ قَوْلُ الزُّورِ-" قَالَ: فَمَا زَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ يَقُولُهَا حَتَّى قُلْنَا لَيْتَهُ سَكَتَ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ عَمْرٍو.
* تخريج: انظر حدیث رقم ۱۹۰۱) (صحیح)
۲۳۰۱- ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' کیاتمہیں بڑے بڑے (کبیرہ) گناہوں کے بارے میں نہ بتادوں؟'' صحابہ نے عر ض کیا: کیوں نہیں؟ اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا:'' اللہ کے ساتھ شرک کرنا ، ماں باپ کی نافرمانی کرنااورجھوٹی گواہی دینا یاجھوٹی بات بولنا، ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہﷺ آخری بات کو برابر دہراتے رہے یہاں تک کہ ہم لوگوں نے دل میں کہا: کاش! آپ خاموش ہوجاتے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے بھی حدیث آئی ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
4- بَاب مِنْهُ
۴-باب: سابقہ باب سے متعلق ایک اور باب​


2302- حَدَّثَنَا وَاصِلُ بْنُ عَبْدِ الأَعْلَى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ الأَعْمَشِ، عَنْ عَلِيِّ ابْنِ مُدْرِكٍ، عَنْ هِلاَلِ بْنِ يَسَافٍ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَقُولُ: "خَيْرُ النَّاسِ قَرْنِي، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ"، ثَلاَثًا "ثُمَّ يَجِيئُ قَوْمٌ مِنْ بَعْدِهِمْ يَتَسَمَّنُونَ وَيُحِبُّونَ السِّمَنَ يُعْطُونَ الشَّهَادَةَ قَبْلَ أَنْ يُسْأَلُوهَا".
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ الأَعْمَشِ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ مُدْرِكٍ وَأَصْحَابُ الأَعْمَشِ إِنَّمَا رَوَوْا عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ هِلاَلِ بْنِ يَسَافٍ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ حَدَّثَنَا أَبُوعَمَّارٍ الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ.
* تخريج: انظر حدیث رقم ۲۲۲۱) (صحیح)
2302/م- حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنِ الأَعْمَشِ، حَدَّثَنَا هِلاَلُ بْنُ يَسَافٍ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَهُ، وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ فُضَيْلٍ، قَالَ: وَمَعْنَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ يُعْطُونَ الشَّهَادَةَ قَبْلَ أَنْ يُسْأَلُوهَا إِنَّمَا يَعْنِي شَهَادَةَ الزُّورِ، يَقُولُ يَشْهَدُ أَحَدُهُمْ مِنْ غَيْرِ أَنْ يُسْتَشْهَدَ.
* تخريج: انظر ماقبلہ (صحیح)
۲۳۰۲- عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کوفرماتے سنا: ''سب سے اچھے لوگ میرے زمانہ کے ہیں (یعنی صحابہ)، پھروہ لوگ جو ان کے بعدآئیں گے(یعنی تابعین)، پھر وہ لوگ جو ان کے بعد آئیں گے (یعنی اتباع تابعین) ۱؎ ، آپﷺنے یہ بات تین مرتبہ دہرائی ، پھر ان کے بعدایسے لوگ آئیں گے جو موٹاہونا چاہیں گے، موٹاپاپسند کریں گے اورگواہی طلب کیے جانے سے پہلے گواہی دیں گے '' ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث اعمش کے واسطہ سے علی بن مدرک کی روایت سے غریب ہے، ۲- اعمش کے دیگر شاگردوں نے ''عن الأعمش، عن هلال بن يساف، عن عمران بن حصين'' کی سندسے روایت کی ہے۔
۲۳۰۲/م- اس سند سے بھی عمران بن حصین سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔ اوریہ محمدبن فضیل کی روایت سے زیادہ صحیح ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: حدیث کے الفاظ ''يُعْطُونَ الشَّهَادَةَ قَبْلَ أَنْ يُسْأَلُوهَا'' سے جھوٹی گواہی مرادہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ان کاکہناہے کہ گواہی طلب کیے بغیروہ گواہی دیں گے۔
وضاحت ۱؎ : اس سے صحابہ کرام کی فضیلت تابعین پر، اور تابعین کی فضیلت اتباع تابعین پر ثابت ہوتی ہے۔
وضاحت ۲؎ : ایک روایت میں ہے کہ نبی اکرمﷺ نے یہ لفظ دو یا تین بار دہرایا، اگر تین بار دہرایا تو اس کا مطلب ہے کہ آپ نے خود اپنا زمانہ مراد لیا، پھر صحابہ کا پھر تابعین کا، پھر اتباع تابعین کا، اور اگر آپ نے صرف دوبار فرمایا تو اس کا وہی مطلب ہے جو ترجمہ کے اندر قوسین میں واضح کیا گیا ہے۔
وضاحت ۳؎ : اس حدیث سے ازخودشہادت دینے کی مذمت ثابت ہوتی ہے، جب کہ حدیث نمبر۲۱۹۵سے اس کی مدح وتعریف ثابت ہے ، تعارض اس طرح دفع ہوجاتاہے کہ مذمت مطلقاًاورازخودشہادت پیش کرنے کی نہیں بلکہ جلدی سے ایسی شہادت دینے کی وجہ سے ہے جس سے جھوٹ ثابت کرسکیں اورباطل طریقہ سے کھاپی سکیں اورلوگوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈال کراسے ہضم کرسکیں، معلوم ہواکہ حقوق کے تحفظ کے لیے دی گئی شہادت مقبول اوربہتروعمدہ ہے جب کہ حقوق کو ہڑپ کرجانے کی نیت سے دی گئی شہادت قبیح اوربری ہے۔


2303- حَدَّثَنَا عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "خَيْرُ النَّاسِ قَرْنِي، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ يَفْشُو الْكَذِبُ، حَتَّى يَشْهَدَ الرَّجُلُ وَلاَ يُسْتَشْهَدُ، وَيَحْلِفَ الرَّجُلُ وَلاَ يُسْتَحْلَفُ". وَمَعْنَى حَدِيثِ النَّبِيِّ ﷺ خَيْرُ الشُّهَدَائِ الَّذِي يَأْتِي بِشَهَادَتِهِ قَبْلَ أَنْ يُسْأَلَهَا هُوَ عِنْدَنَا إِذَا أُشْهِدَ الرَّجُلُ عَلَى الشَّيْئِ أَنْ يُؤَدِّيَ شَهَادَتَهُ، وَلاَ يَمْتَنِعَ مِنَ الشَّهَادَةِ هَكَذَا وَجْهُ الْحَدِيثِ عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ.
* تخريج: انظر حدیث رقم ۲۱۶۵ (صحیح)
۲۳۰۳- عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' سب سے اچھے اوربہترلوگ ہمارے زمانے والے ہیں،پھروہ لوگ جوان کے بعدہوں گے ،پھروہ لوگ جو ان کے بعدہوں گے ، پھرجھوٹ عام ہوجائے گا یہاں تک کہ آدمی گواہی طلب کیے بغیرگواہی دے گا ، اورقسم کھلائے بغیر قسم کھائے گا''۔
اورنبی اکرمﷺ کی وہ حدیث کہ سب سے بہترگواہ وہ ہے ، جوگواہی طلب کیے بغیر گواہی دے تواس کا مفہوم ہمارے نزدیک یہ ہے کہ جب کسی سے کسی چیز کی گواہی(حق بات کی خاطر) دلوائی جائے تووہ گواہی دے ، گواہی دینے سے بازنہ رہے ، بعض اہل علم کے نزدیک دونوں حدیثوں میں تطبیق کی یہی صورت ہے۔

* * *​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207

34-كِتَاب الزُّهْدِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ
۳۴- کتاب: زہد،ورع، تقوی اور پرہیز گاری


1-بَاب الصِّحَّةُ وَالْفَرَاغُ نِعْمَتَانِ مَغْبُونٌ فِيهِمَا كَثِيرٌ مِنْ النَّاسِ
۱-باب: تندرستی اور فرصت کی نعمتوں میں اکثر لوگ اپنانقصان کرتے ہیں​


2304- حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِاللهِ وَسُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، قَالَ صَالِحٌ: حَدَّثَنَا و قَالَ سُوَيْدٌ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِنْدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "نِعْمَتَانِ مَغْبُونٌ فِيهِمَا كَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ الصِّحَّةُ وَالْفَرَاغُ".
* تخريج: خ/الرقاق ۱ (۶۴۱۲)، ق/الزہد ۱۵ (۴۱۷۰) (تحفۃ الأشراف: ۵۶۶۶)، وحم (۱/۲۵۸، ۳۴۴)، ودي/الرقاق ۲ (۲۷۴۹) (صحیح)
2304/م- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِنْدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَهُ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ. و قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَرَوَاهُ غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِنْدٍ، فَرَفَعُوهُ وَأَوْقَفَهُ بَعْضُهُمْ عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِنْدٍ.
* تخريج: انظر ماقبلہ (صحیح)
۲۳۰۴- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ''دو نعمتیں ایسی ہیں جن میں اکثر لوگ اپنانقصان کرتے ہیں '' ۱؎ ۔
۲۳۰۴/م- اس سند سے بھی عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس کو کئی اور لوگوں نے عبد اللہ بن سعید بن ابی ہند سے مرفوعاً ہی روایت کیا ہے، جب کہ کچھ لوگوں نے عبد اللہ بن سعید ہی کے واسطے سے (ابن عباس سے) موقوفاً روایت کیا ہے،۳- اس باب میں انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔
وضاحت ۱؎ : یعنی ان کی قدر نہیں کرتے ہیں ایک تندرستی اوردوسری فراغت ہیں بلکہ یوں ہی انہیں ضائع کردیتے ہیں جب کہ تندرستی کوبیماری سے پہلے اورفرصت کو مشغولیت سے پہلے غنیمت سمجھناچاہئے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
2-بَاب مَنِ اتَّقَى الْمَحَارِمَ فَهُوَ أَعْبَدُ النَّاسِ
۲- باب: حرام چیزوں سے بچنے والاسب سے بڑا عابد ہے​


2305- حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ هِلاَلٍ الصَّوَّافُ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ أَبِي طَارِقٍ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "مَنْ يَأْخُذُ عَنِّي هَؤُلاَئِ الْكَلِمَاتِ فَيَعْمَلُ بِهِنَّ أَوْ يُعَلِّمُ مَنْ يَعْمَلُ بِهِنَّ" فَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: فَقُلْتُ: أَنَا، يَارَسُولَ اللهِ! فَأَخَذَ بِيَدِي، فَعَدَّ خَمْسًا، وَقَالَ: "اتَّقِ الْمَحَارِمَ تَكُنْ أَعْبَدَ النَّاسِ، وَارْضَ بِمَا قَسَمَ اللهُ لَكَ تَكُنْ أَغْنَى النَّاسِ، وَأَحْسِنْ إِلَى جَارِكَ تَكُنْ مُؤْمِنًا، وَأَحِبَّ لِلنَّاسِ مَا تُحِبُّ لِنَفْسِكَ تَكُنْ مُسْلِمًا، وَلاَ تُكْثِرِ الضَّحِكَ، فَإِنَّ كَثْرَةَ الضَّحِكِ تُمِيتُ الْقَلْبَ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ جَعْفَرِ بْنِ سُلَيْمَانَ وَالْحَسَنُ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ أَبِي هُرَيْرَةَ شَيْئًا، هَكَذَا رُوِيَ عَنْ أَيُّوبَ وَيُونُسَ بْنِ عُبَيْدٍ وَعَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ، قَالُوا: لَمْ يَسْمَعْ الْحَسَنُ مِنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَرَوَى أَبُو عُبَيْدَةَ النَّاجِيُّ عَنِ الْحَسَنِ هَذَا الْحَدِيثَ، قَوْلَهُ وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۲۲۴۷)، وحم (۲/۳۱۰) (حسن)
(متابعات کی بنا پر یہ حدیث حسن ہے، ورنہ اس کے راوی ''حسن بصری'' کا سماع ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے نہیں ہے، نیز''ابوطارق'' مجہول ہیں ، نیز ملاحظہ ہو: الصحیحہ ۹۳۰)
۲۳۰۵- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:'' کون ایسا شخص ہے جو مجھ سے ان کلمات کو سن کر ان پرعمل کرے یا ایسے شخص کو سکھلائے جو ان پرعمل کرے''، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:میں نے کہا: اللہ کے رسول! میں ایساکروں گا، تو رسول اکرمﷺنے ان پانچ باتوں کو گن کر بتلایا :'' تم حرام چیزوں سے بچو ،سب لوگوں سے زیادہ عابد ہوجاؤ گے اور اللہ تعالیٰ کی تقسیم شدہ رزق پر راضی رہو،سب لوگوں سے زیادہ بے نیاز رہوگے، اور اپنے پڑوسی کے ساتھ احسان کرو پکے سچے مومن رہو گے۔اور دوسروں کے لیے وہی پسندکرو جو اپنے لیے پسند کرتے ہو سچے مسلمان ہوجاؤ گے اور زیادہ نہ ہنسو اس لیے کہ زیادہ ہنسنا دل کو مردہ کردیتاہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث غریب ہے ، ہم اسے صرف جعفربن سلیمان کی روایت سے جانتے ہیں، ۲-حسن بصری کا سماع ابوہریرہ سے ثابت نہیں ،۳- اسی طرح ایوب ،یونس بن عبیداورعلی بن زیدسے مروی ہے ان سب کاکہناہے کہ حسن بصری نے ابوہریرہ سے نہیں سناہے ،۴- ابوعبیدہ ناجی نے اسے حسن بصری سے روایت کرتے ہوئے اس کو حسن بصری کا قول کہا ہے اوریہ نہیں ذکرکیا کہ یہ حدیث حسن بصری ابوہریرہ سے روایت کرتے ہیں، اورابوہریرہ نبی اکرمﷺ سے روایت کرتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
3-بَاب مَا جَاءَ فِي الْمُبَادَرَةِ بِالْعَمَلِ
۳-باب: اچھے کام میں سبقت کرنے کابیان​


2306- حَدَّثَنَا أَبُو مُصْعَبٍ، عَنْ مُحْرِزِ بْنِ هَارُونَ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: "بَادِرُوا بِالأَعْمَالِ سَبْعًا، هَلْ تَنْتَظِرُونَ إِلاَّ فَقْرًا مُنْسِيًا، أَوْغِنًى مُطْغِيًا، أَوْ مَرَضًا مُفْسِدًا، أَوْ هَرَمًا مُفَنِّدًا، أَوْ مَوْتًا مُجْهِزًا، أَوِ الدَّجَّالَ فَشَرُّ غَائِبٍ يُنْتَظَرُ، أَوْ السَّاعَةَ فَالسَّاعَةُ أَدْهَى وَأَمَرُّ".
قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لاَ نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ الأَعْرَجِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ مُحْرِزِ بْنِ هَارُونَ، وَقَدْ رَوَى بِشْرُ بْنُ عُمَرَ وَغَيْرُهُ عَنْ مُحْرِزِ بْنِ هَارُونَ هَذَا، وَقَدْ رَوَى مَعْمَرٌ هَذَا الْحَدِيثَ عَمَّنْ سَمِعَ سَعِيدًا الْمَقْبُرِيَّ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَهُ، وَقَالَ: تَنْتَظِرُونَ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف :۱۳۹۵۱) (ضعیف)
(سندمیں ''محرر -یا محرز- بن ہارون'' متروک الحدیث راوی ہے)
۲۳۰۶- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:''سات چیزوں سے پہلے نیک اعمال کرنے میں جلدی کرو،تمہیں ایسے فقر کا انتظار ہے جو سب کچھ بھلا ڈالنے والاہے؟ یا ایسی مالداری کا جوطغیانی پیداکرنے والی ہے؟ یا ایسی بیماری کا جو مفسد ہے( یعنی اطاعت الٰہی میں خلل ڈالنے والی) ہے؟ یا ایسے بڑھاپے کا جوعقل کو کھودینے والا ہے؟ یاایسی موت کا جو جلدی ہی آنے والی ہے؟ یا اس دجال کا انتظار ہے جس کا انتظار سب سے برے غائب کا انتظار ہے؟ یا اس قیامت کا جو قیامت نہایت سخت اور کڑوی ہے ''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- اعرج ابوہریرہ سے مروی حدیث ہم صرف محرزبن ہارون کی روایت سے جانتے ہیں، ۳- بشربن عمراور ان کے علاوہ لوگوں نے بھی اسے محرزبن ہارون سے روایت کیا ہے، ۴- معمرنے ایک ایسے شخص سے سناہے جس نے بسند سعید مقبری عن ابی ہریرہ عن النبی ﷺ اسی جیسی حدیث روایت کی ہے اس میں ''هل تنتظرون ''کی بجائے ''تنتظرون''ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
4-بَاب مَا جَاءَ فِي ذِكْرِ الْمَوْتِ
۴-باب: موت کی یاد​


2307- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "أَكْثِرُوا ذِكْرَ هَاذِمِ اللَّذَّاتِ يَعْنِي الْمَوْتَ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي سَعِيدٍ.
قَالَ: أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: ن/الجنائز ۳ (۱۸۲۵)، ق/الزہد ۳۱ (۴۲۵۸) (تحفۃ الأشراف: ۱۵۰۸۰)، وحم (۲/۲۹۳) (حسن صحیح)
۲۳۰۷- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' لذتوں کو توڑنے والی (یعنی موت) کو کثرت سے یادکیا کرو '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح غریب ،۲- اس باب میں ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔
وضاحت ۱؎ : موت کی یاداوراس کا تصورانسان کودنیادی مشاغل سے دوراورمعصیت کے ارتکاب سے بازرکھتاہے ، اس لیے بکثرت موت کویادکرنا چاہئے اور اس کے پیش آنے والے معاملات سے غافل نہیں رہناچاہئے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
5-باب
۵-باب: قبر کی ہولناکی کابیان​


2308- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنِي عَبْدُاللهِ ابْنُ بَحِيرٍ أَنَّهُ سَمِعَ هَانِئًا مَوْلَى عُثْمَانَ قَالَ: كَانَ عُثْمَانُ إِذَا وَقَفَ عَلَى قَبْرٍ بَكَى، حَتَّى يَبُلَّ لِحْيَتَهُ، فَقِيلَ لَهُ: تُذْكَرُ الْجَنَّةُ وَالنَّارُ فَلاَ تَبْكِي وَتَبْكِي مِنْ هَذَا؟ فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: "إِنَّ الْقَبْرَ أَوَّلُ مَنْزِلٍ مِنْ مَنَازِلِ الآخِرَةِ، فَإِنْ نَجَا مِنْهُ فَمَا بَعْدَهُ أَيْسَرُ مِنْهُ، وَإِنْ لَمْ يَنْجُ مِنْهُ فَمَا بَعْدَهُ أَشَدُّ مِنْهُ" قَالَ: وَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "مَا رَأَيْتُ مَنْظَرًا قَطُّ إِلا الْقَبْرُ، أَفْظَعُ مِنْهُ".
قَالَ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لا نَعْرِفُهُ إِلا مِنْ حَدِيثِ هِشَامِ بْنِ يُوسُفَ.
* تخريج: ق/الزہد ۳۲ (۴۲۶۷) (تحفۃ الأشراف: ۹۸۳۹)، وحم (۱/۶۴) (حسن)
۲۳۰۸- ہانی مولی عثمان کہتے ہیں: عثمان رضی اللہ عنہ جب کسی قبر ستان پرٹھہرتے تو اتناروتے کہ آپ کی داڑھی ترہوجاتی، ان سے کسی نے کہاکہ جب آپ کے سامنے جنت و جہنم کا ذکر کیاجاتاہے تو نہیں روتے ہیں اور قبر کو دیکھ کر اس قدر رورہے ہیں ؟توکہا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایاہے : ''آخرت کے منازل میں سے قبر پہلی منزل ہے، سواگر کسی نے قبرکے عذاب سے نجات پائی تواس کے بعد کے مراحل آسان ہوں گے اور اگر جسے عذاب قبر سے نجات نہ مل سکی تو اس کے بعد کے منازل سخت تر ہوں گے''، عثمان رضی اللہ عنہ نے مزید کہاکہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:''گھبراہٹ اور سختی کے اعتبار سے قبر کی طرح کسی اورمنظر کو نہیں دیکھا '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے، اسے ہم صرف ہشام بن یوسف کی روایت سے جانتے ہیں۔
وضاحت ۱؎ : عثمان رضی اللہ عنہ کا یہ حال کہ قبرکے عذاب کا اتناخوف اورڈرلاحق ہو کہ اسے دیکھ کر زاروقطاررونے لگیں باوجودیکہ آپ عشرہ مبشرہ میں سے ہیں اور ہمارا یہ حال ہے کہ اس عذاب کو بھولے ہوئے ہیں،حالانکہ یہ منازلِ آخرت میں سے پہلی منزل ہے ، اللہ رب العالمین ہم سب کو قبرکے عذاب سے بچائے آمین۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
6-بَاب مَا جَاءَ مَنْ أَحَبَّ لِقَائَ اللَّهِ أَحَبَّ اللَّهُ لِقَائَهُ
۶-باب: جس نے اللہ تعالیٰ سے ملاقات کو پسندکیااللہ تعالیٰ نے بھی اس سے ملاقات کو پسندکیا​


2309- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، قَال: سَمِعْتُ أَنَسًا يُحَدِّثُ عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "مَنْ أَحَبَّ لِقَائَ اللهِ أَحَبَّ اللهُ لِقَائَهُ، وَمَنْ كَرِهَ لِقَائَ اللهِ كَرِهَ اللهُ لِقَائَهُ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَعَائِشَةَ وَأَنَسٍ وَأَبِي مُوسَى، قَالَ: حَدِيثُ عُبَادَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: انظر حدیث رقم ۱۰۶۶ (صحیح)
۲۳۰۹- عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا :'' جو شخص اللہ تعالیٰ سے ملناچاہے گا تو اللہ تعالیٰ بھی اس سے ملناچاہے گا، اور جو اللہ تعالیٰ سے ملنا ناپسند کرے تو اللہ تعالیٰ بھی اس سے ملنا ناپسند کرے گا '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- عبادہ کی حدیث صحیح ہے،۲- اس باب میں ابوہریرہ ، ام المومنین عائشہ ، انس اور ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : نسائی کتاب الجنائز باب رقم ۱۰، حدیث رقم ۱۸۳۸ میں ہے:ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس حدیث کایہ مطلب بیان کیا ہے کہ یہ موت کے وقت کا معاملہ ہے جب بینائی چھن جائے ، جاں کنی کا عالم ہو اور رونگٹے کھڑے ہوجائیں تو جس کو اللہ کی رحمت اور مغفرت کی بشارت دی جائے اس وقت جو اللہ سے ملنا چاہے اللہ بھی اس سے ملنا چاہے گا اور جس کو اللہ کے عذاب کی وارننگ دی جائے وہ اللہ سے ملنا ناپسند کرے تو اللہ بھی اس سے ملنا ناپسندکرے گا ، یعنی مومن کو اللہ سے ملنے میں خوشی اورکافرکوگھبراہٹ اورڈرلاحق ہوتاہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
7-بَاب مَا جَاءَ فِي إِنْذَارِ النَّبِيِّ ﷺ قَوْمَهُ
۷-باب: نبی اکرمﷺ کا اپنی قوم کو ڈرانا​


2310- حَدَّثَنَا أَبُو الأَشْعَثِ أَحْمَدُ بْنُ الْمِقْدَامِ الْعِجْلِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الطُّفَاوِيُّ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الآيَةُ {وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الأَقْرَبِينَ} قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "يَا صَفِيَّةُ بِنْتَ عَبْدِالْمُطَّلِبِ، يَا فَاطِمَةُ بِنْتَ مُحَمَّدٍ، يَا بَنِي عَبْدِالْمُطَّلِبِ، إِنِّي لاَ أَمْلِكُ لَكُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا، سَلُونِي مِنْ مَالِي مَا شِئْتُمْ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَأَبِي مُوسَى وَابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، هَكَذَا رَوَى بَعْضُهُمْ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ نَحْوَ هَذَا، وَرَوَى بَعْضُهُمْ عَنْ هِشَامٍ عَنْ أَبِيهِ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ مُرْسَلاً لَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنْ عَائِشَةَ.
* تخريج: م/الإیمان ۸۹ (۲۰۵)، ن/الوصایا ۶ (۳۶۷۸) ویأتي عند المؤلف برقم ۳۱۸۴ (تحفۃ الأشراف: ۱۷۲۳۷)، وحم (۶/۱۷۸) (صحیح)
۲۳۱۰- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: جب یہ آیت کریمہ: { وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الأَقْرَبِينَ } نازل ہوئی تورسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:'' اے عبد المطلب کی بیٹی صفیہ!، اے محمد کی بیٹی فاطمہ! اے عبدالمطلب کی اولاد! اللہ کی طرف سے تم لوگوں کے نفع ونقصان کا مجھے کچھ بھی اختیار نہیں ہے، تم میرے مال میں سے تم سب کو جو کچھ مانگنا ہو وہ مجھ سے مانگ لو ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- عائشہ کی حدیث حسن غریب ہے، ۲- ان میں سے بعض نے اسی طر ح ہشام بن عروہ سے روایت کی ہے، اوربعض نے ''عن هشام، عن أبيه عن النبي ﷺ'' کی سند سے مرسلاً روایت کی ہے اور''عن عائشة'' کاذکرنہیں کیا،۳- اس باب میں ابوہریرہ ، ابن عباس اور ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ اگراللہ تمہیں عذاب دیناچاہے تو میں تمہیں اس کے عذاب سے نہیں بچاسکتا،کیونکہ میں کسی کے نفع ونقصان کا مالک نہیں ہوں، البتہ دنیاوی وسائل جو مجھے اللہ کی جانب سے حاصل ہیں،ان میں سے جوچاہوتم لوگ مانگ سکتے ہو، میں دینے کے لیے تیارہوں۔
 
Top