• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
48-بَاب مَا جَاءَ فِي الرِّيَائِ وَالسُّمْعَةِ
۴۸-باب: ریاونمود اور شہرت کابیان​


2381- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ هِشَامٍ، عَنْ شَيْبَانَ، عَنْ فِرَاسٍ، عَنْ عَطِيَّةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "مَنْ يُرَائِي يُرَائِي اللهُ بِهِ، وَمَنْ يُسَمِّعْ يُسَمِّعْ اللهُ بِهِ" قَالَ: وَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "مَنْ لاَ يَرْحَمْ النَّاسَ لاَ يَرْحَمْهُ اللهُ".
وَفِي الْبَاب عَنْ جُنْدَبٍ وَعَبْدِاللهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: ق/الزہد ۲۱ (۴۲۰۶) (تحفۃ الأشراف: ۴۲۲۰)، وحم (۳/۴۰) (صحیح)
(سندمیں عطیہ عوفی ضعیف راوی ہیں، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے)
۲۳۸۱- ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :'' جو ریاکاری کرے گا تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے لوگوں کے سامنے ظاہرکردے گا، اور جو اللہ کی عبادت شہرت کے لیے کرے گا تواللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے رسوا وذلیل کرے گا''، فرمایا:'' جو لوگوں پر رحم نہیں کرتا اس پر اللہ تعالیٰ بھی رحم نہیں کرتا''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے،۲- اس باب میں جندب اور عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔


2382- حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ، أَخْبَرَنِي الْوَلِيدُ بْنُ أَبِي الْوَلِيدِ أَبُو عُثْمَانَ الْمَدَائِنِيُّ أَنَّ عُقْبَةَ بْنَ مُسْلِمٍ حَدَّثَهُ أَنَّ شُفَيًّا الأَصْبَحِيَّ حَدَّثَهُ أَنَّهُ دَخَلَ الْمَدِينَةَ فَإِذَا هُوَ بِرَجُلٍ قَدِ اجْتَمَعَ عَلَيْهِ النَّاسُ، فَقَالَ: مَنْ هَذَا؟ فَقَالُوا: أَبُو هُرَيْرَةَ، فَدَنَوْتُ مِنْهُ، حَتَّى قَعَدْتُ بَيْنَ يَدَيْهِ، وَهُوَ يُحَدِّثُ النَّاسَ، فَلَمَّا سَكَتَ وَخَلاَ، قُلْتُ لَهُ: أَنْشُدُكَ بِحَقٍّ وَبِحَقٍّ لَمَا حَدَّثْتَنِي حَدِيثًا سَمِعْتَهُ مِنْ رَسُولِ اللهِ ﷺ عَقَلْتَهُ وَعَلِمْتَهُ، فَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: أَفْعَلُ لأُحَدِّثَنَّكَ حَدِيثًا حَدَّثَنِيهِ رَسُولُ اللهِ ﷺ عَقَلْتُهُ وَعَلِمْتُهُ، ثُمَّ نَشَغَ أَبُو هُرَيْرَةَ نَشْغَةً، فَمَكَثَ قَلِيلاً، ثُمَّ أَفَاقَ، فَقَالَ: لأُحَدِّثَنَّكَ حَدِيثًا حَدَّثَنِيهِ رَسُولُ اللهِ ﷺ فِي هَذَا الْبَيْتِ مَا مَعَنَا أَحَدٌ غَيْرِي وَغَيْرُهُ، ثُمَّ نَشَغَ أَبُو هُرَيْرَةَ نَشْغَةً أُخْرَى، ثُمَّ أَفَاقَ: فَمَسَحَ وَجْهَهُ فَقَالَ: لأُحَدِّثَنَّكَ حَدِيثًا حَدَّثَنِيهِ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ وَأَنَا وَهُوَ فِي هَذَا الْبَيْتِ مَا مَعَنَا أَحَدٌ غَيْرِي وَغَيْرُهُ، ثُمَّ نَشَغَ أَبُو هُرَيْرَةَ نَشْغَةً أُخْرَى، ثُمَّ أَفَاقَ، وَمَسَحَ وَجْهَهُ فَقَالَ: أَفْعَلُ لأُحَدِّثَنَّكَ حَدِيثًا حَدَّثَنِيهِ رَسُولُ اللهِ ﷺ وَأَنَا مَعَهُ فِي هَذَا الْبَيْتِ مَا مَعَهُ أَحَدٌ غَيْرِي وَغَيْرُهُ، ثُمَّ نَشَغَ أَبُو هُرَيْرَةَ نَشْغَةً شَدِيدَةً، ثُمَّ مَالَ خَارًّا عَلَى وَجْهِهِ، فَأَسْنَدْتُهُ عَلَيَّ طَوِيلاً ثُمَّ أَفَاقَ، فَقَالَ: حَدَّثَنِي رَسُولُ اللهِ ﷺ: "أَنَّ اللهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ يَنْزِلُ إِلَى الْعِبَادِ لِيَقْضِيَ بَيْنَهُمْ، وَكُلُّ أُمَّةٍ جَاثِيَةٌ، فَأَوَّلُ مَنْ يَدْعُو بِهِ رَجُلٌ جَمَعَ الْقُرْآنَ، وَرَجُلٌ يَقْتَتِلُ فِي سَبِيلِ اللهِ، وَرَجُلٌ كَثِيرُ الْمَالِ، فَيَقُولُ اللهُ لِلْقَارِئِ: أَلَمْ أُعَلِّمْكَ مَا أَنْزَلْتُ عَلَى رَسُولِي؟ قَالَ: بَلَى، يَا رَبِّ! قَالَ: فَمَاذَا عَمِلْتَ فِيمَا عُلِّمْتَ؟ قَالَ: كُنْتُ أَقُومُ بِهِ آنَائَ اللَّيْلِ وَآنَائَ النَّهَارِ، فَيَقُولُ اللهُ لَهُ: كَذَبْتَ، وَتَقُولُ لَهُ الْمَلاَئِكَةُ: كَذَبْتَ، وَيَقُولُ اللهُ: بَلْ أَرَدْتَ أَنْ يُقَالَ إِنَّ فُلاَنًا قَارِئٌ، فَقَدْ قِيلَ ذَاكَ، وَيُؤْتَى بِصَاحِبِ الْمَالِ فَيَقُولُ اللهُ لَهُ: أَلَمْ أُوَسِّعْ عَلَيْكَ حَتَّى لَمْ أَدَعْكَ تَحْتَاجُ إِلَى أَحَدٍ؟ قَالَ: بَلَى، يَا رَبِّ! قَالَ: فَمَاذَا عَمِلْتَ فِيمَا آتَيْتُكَ؟ قَالَ: كُنْتُ أَصِلُ الرَّحِمَ وَأَتَصَدَّقُ، فَيَقُولُ اللهُ لَهُ: كَذَبْتَ، وَتَقُولُ لَهُ الْمَلاَئِكَةُ: كَذَبْتَ، وَيَقُولُ اللهُ تَعَالَى: بَلْ أَرَدْتَ أَنْ يُقَالَ فُلاَنٌ جَوَادٌ، فَقَدْ قِيلَ ذَاكَ، وَيُؤْتَى بِالَّذِي قُتِلَ فِي سَبِيلِ اللهِ فَيَقُولُ اللهُ لَهُ: فِي مَاذَا قُتِلْتَ؟ فَيَقُولُ: أُمِرْتُ بِالْجِهَادِ فِي سَبِيلِكَ، فَقَاتَلْتُ حَتَّى قُتِلْتُ، فَيَقُولُ اللهُ تَعَالَى لَهُ: كَذَبْتَ، وَتَقُولُ لَهُ الْمَلاَئِكَةُ: كَذَبْتَ، وَيَقُولُ اللهُ: بَلْ أَرَدْتَ أَنْ يُقَالَ فُلاَنٌ جَرِيئٌ، فَقَدْ قِيلَ ذَاكَ " ثُمَّ ضَرَبَ رَسُولُ اللهِ ﷺ عَلَى رُكْبَتِي فَقَالَ: "يَا أَبَا هُرَيْرَةَ! أُولَئِكَ الثَّلاَثَةُ أَوَّلُ خَلْقِ اللهِ تُسَعَّرُ بِهِمُ النَّارُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ".
و قَالَ: الْوَلِيدُ أَبُو عُثْمَانَ، فَأَخْبَرَنِي عُقْبَةُ بْنُ مُسْلِمٍ أَنَّ شُفَيًّا هُوَ الَّذِي دَخَلَ عَلَى مُعَاوِيَةَ، فَأَخْبَرَهُ بِهَذَا، قَالَ: أَبُو عُثْمَانَ وَحَدَّثَنِي الْعَلاَئُ بْنُ أَبِي حَكِيمٍ أَنَّهُ كَانَ سَيَّافًا لِمُعَاوِيَةَ فَدَخَلَ عَلَيْهِ رَجُلٌ، فَأَخْبَرَهُ بِهَذَا عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، فَقَالَ مُعَاوِيَةُ: قَدْ فُعِلَ بِهَؤُلاَئِ هَذَا، فَكَيْفَ بِمَنْ بَقِيَ مِنَ النَّاسِ، ثُمَّ بَكَى مُعَاوِيَةُ بُكَائً شَدِيدًا حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ هَالِكٌ، وَقُلْنَا قَدْ جَاءَنَا هَذَا الرَّجُلُ بِشَرٍّ، ثُمَّ أَفَاقَ مُعَاوِيَةُ، وَمَسَحَ عَنْ وَجْهِهِ، وَقَالَ: صَدَقَ اللهُ وَرَسُولُهُ،{مَنْ كَانَ يُرِيدُ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا نُوَفِّ إِلَيْهِمْ أَعْمَالَهُمْ فِيهَا، وَهُمْ فِيهَا لاَ يُبْخَسُونَ أُولَئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الآخِرَةِ إِلاَّ النَّارُ، وَحَبِطَ مَا صَنَعُوا فِيهَا، وَبَاطِلٌ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ}. قَالَ أَبُوعِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۳۴۹۳)، وأخرج نحوہ: م/الإمارۃ ۴۳ (۱۹۰۵)، ن/الجھاد ۲۲ (۳۱۳۹)، وحم (۲/۳۲۲) (صحیح)
۲۳۸۲- عقبہ بن مسلم سے شفیا اصبحی نے بیان کیا کہ ایک مرتبہ وہ مدینہ میں داخل ہوئے ،اچانک ایک آدمی کو دیکھا جس کے پاس کچھ لوگ جمع تھے، انہوں نے پوچھا کہ یہ کون ہیں؟ لوگوں نے جواباً عرض کیا: یہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہیں، شفیا اصبحی کا بیان ہے کہ میں ان کے قریب ہوا یہاں تک کہ ان کے سامنے بیٹھ گیا اور وہ لوگوں سے حدیث بیان کررہے تھے، جب وہ حدیث بیان کرچکے اور تنہا رہ گئے تو میں نے ان سے کہا: میں آپ سے اللہ کا باربار واسطہ دے کر پوچھ رہاہوں کہ آپ مجھ سے ایسی حدیث بیان کیجئے جسے آپ نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہو اور اسے اچھی طرح جانا اور سمجھا ہو۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:''ٹھیک ہے، یقینا میں تم سے ایسی حدیث بیان کروں گا جسے مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے بیان کیاہے اورمیں نے اسے اچھی طرح جانا اور سمجھا ہے۔ پھر ابوہریرہ نے زور کی چیخ ماری اور بے ہوش ہوگئے، تھوڑی دیر بعد جب افاقہ ہواتو فرمایا:'' یقینا میں تم سے وہ حدیث بیان کروں گا جسے رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے اسی گھر میں بیان کیاتھا جہاں میرے سواکوئی نہیں تھا، پھر دوبارہ ابوہریرہ نے چیخ ماری اور بے ہوش ہوگئے، پھر جب افاقہ ہواتو اپنے چہرے کو پونچھا اور فرمایا:'' ضرور میں تم سے وہ حدیث بیان کروں گا جسے رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے بیان کیا ہے اوراس گھر میں میرے اور آپ کے سواکوئی نہیں تھا، پھر ابوہریرہ نے زور کی چیخ ماری اور بے ہوش ہوگئے، اپنے چہرے کوپونچھااور پھر جب افاقہ ہواتو فرمایا:''ضرور میں تم سے وہ حدیث بیان کروں گا جسے رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے بیان کیا ہے او ر اس گھر میں میرے اورآپ کے سوا کوئی نہیں تھا، پھر ابوہریرہ نے زو رکی چیخ ماری اور بے ہوش ہوکر منہ کے بل زمین پر گرپڑے، میں نے بڑی دیر تک انہیں اپناسہارا دیئے رکھا پھر جب افاقہ ہواتوفرمایا : رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے یہ حدیث بیان کی ہے :'' قیامت کے دن جب ہرامت گھٹنوں کے بل پڑی ہوگی تو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے درمیان فیصلے کے لیے نزول فرمائے گا، پھر اس وقت فیصلہ کے لیے سب سے پہلے ایسے شخص کو بلایا جائے گا جو قرآن کا حافظ ہوگا، دوسرا شہید ہوگا اور تیسرا مالدار ہوگا، اللہ تعالیٰ حافظ قرآن سے کہے گا :کیا میں نے تجھے اپنے رسول پر نازل کردہ کتاب کی تعلیم نہیں دی تھی؟ وہ کہے گا: یقینا اے میرے رب ! اللہ تعالیٰ فرمائے گا جو علم تجھے سکھایا گیا اس کے مطابق تونے کیاعمل کیا؟ وہ کہے گا: میں اس قرآن کے ذریعے راتوں دن تیری عبادت کرتاتھا، اللہ تعالیٰ فرمائے گا : تونے جھوٹ کہا اور فرشتے بھی اس سے کہیں گے کہ تونے جھوٹ کہا ،پھر اللہ تعالیٰ کہے گا : (قرآن سیکھنے سے) تیرا مقصد یہ تھا کہ لوگ تجھے قاری کہیں، سوتجھے کہاگیا، پھر صاحب مال کوپیش کیا جائے گا اور اللہ تعالیٰ ا س سے پوچھے گا: کیا میں نے تجھے ہرچیز کی وسعت نہ دے رکھی تھی، یہاں تک کہ تجھے کسی کا محتاج نہیں رکھا؟ وہ عرض کرے گا: یقینا میرے رب ! اللہ تعالیٰ فرمائے گا:میں نے تجھے جوچیزیں دی تھیں اس میں کیاعمل کیا؟ وہ کہے گا : صلہ رحمی کرتاتھا اور صدقہ وخیرات کرتاتھا، اللہ تعالیٰ فرمائے گا : تو نے جھوٹ کہا اور فرشتے بھی اسے جھٹلائیں گے، پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا: بلکہ تم یہ چاہتے تھے کہ تمہیں سخی کہاجائے، سوتمہیں سخی کہاگیا، اس کے بعد شہید کو پیش کیاجائے گا، اللہ تعالیٰ اس سے پوچھے گا: تجھے کس لیے قتل کیاگیا ؟ وہ عرض کرے گا: مجھے تیری راہ میں جہاد کا حکم دیاگیا چنانچہ میں نے جہاد کیایہاں تک کہ شہید ہوگیا، اللہ تعالیٰ اس سے کہے گا: تونے جھوٹ کہا ،فرشتے بھی اسے جھٹلائیں گے ، پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا : تیرا مقصد یہ تھا کہ تجھے بہادر کہاجائے سوتجھے کہاگیا: پھر رسول اللہ ﷺ نے میرے زانو پر اپنا ہاتھ مارکرفرمایا: ''ابوہریرہ! یہی وہ پہلے تین شخص ہیں جن سے قیامت کے دن جہنم کی آگ بھڑ کائی جائے گی''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ولید ابوعثمان کہتے ہیں: عقبہ بن مسلم نے مجھے خبردی کہ شفیا اصبحی ہی نے معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس جاکر انہیں اس حدیث سے باخبر کیا تھا۔ابوعثمان کہتے ہیں: علاء بن ابی حکیم نے مجھ سے بیان کیا کہ وہ معاویہ رضی اللہ عنہ کے جلاد تھے، پھرمعاویہ کے پاس ایک آدمی پہنچا اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے واسطہ سے اس حدیث سے انہیں باخبر کیا تو معاویہ نے کہا: ان تینوں کے ساتھ ایسا معاملہ ہوا تو باقی لوگوں کے ساتھ کیاہوگا ، یہ کہہ کر معاویہ زاروقطار رونے لگے یہاں تک کہ ہم نے سمجھاکہ وہ زندہ نہیں بچیں گے، اور ہم لوگوں نے یہاں تک کہہ ڈالا کہ یہ شخص شر لے کر آیاہے، پھر جب معاویہ رضی اللہ عنہ کو افاقہ ہواتو انہوں نے اپنے چہرے کو صاف کیا اور فرمایا:'' یقینا اللہ اور اس کے رسول نے سچ فرمایاہے اور اس آیت کریمہ کی تلاوت کی {مَنْ كَانَ يُرِيدُ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا نُوَفِّ إِلَيْهِمْ أَعْمَالَهُمْ فِيهَا وَهُمْ فِيهَا لاَ يُبْخَسُونَ أُولَئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الآخِرَةِ إِلاَّ النَّارُ وَحَبِطَ مَا صَنَعُوا فِيهَا وَبَاطِلٌ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ} ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔
وضاحت ۱؎ : جو شخص دنیاوی زندگی اور اس کی زیب وزینت کو چاہے گا تو ہم دنیا ہی میں اس کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دے دیں گے اور کوئی کمی نہیں کریں گے ، یہ وہی لوگ ہیں جن کا آخرت میں جہنم کے علاوہ اور کوئی حصہ نہیں ہے اور دنیا کے اندر ہی ان کے سارے اعمال ضائع اور باطل ہوگئے۔(سورئہ ہود: ۱۶)


2383- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنِي الْمُحَارِبِيُّ، عَنْ عَمَّارِ بْنِ سَيْفٍ الضَّبِّيِّ، عَنْ أَبِي مُعَانٍ الْبَصْرِيِّ، عَنْ ابْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "تَعَوَّذُوا بِاللهِ مِنْ جُبِّ الْحَزَنِ" قَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ! وَمَا جُبُّ الْحَزَنِ؟ قَالَ: " وَادٍ فِي جَهَنَّمَ تَتَعَوَّذُ مِنْهُ جَهَنَّمُ كُلَّ يَوْمٍ مِائَةَ مَرَّةٍ" قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللهِ! وَمَنْ يَدْخُلُهُ؟ قَالَ: "الْقُرَّائُ الْمُرَائُونَ بِأَعْمَالِهِمْ". قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: ق/المقدمۃ ۲۳ (۲۵۶) (تحفۃ الأشراف: ۱۴۵۸۶) (ضعیف)
(سندمیں ''ابومعان'' یا ''ابومعاذ'' مجہول راوی ہے، اور ''عمار بن سیف'' ضعیف الحدیث، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اس کا دوسرا طریق بھی ضعیف ہے، تفصیل کے لیے دیکھیے: الضعیفۃ رقم : ۵۰۲۳،و ۵۱۵۲)
۲۳۸۳- ابوہریر ہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:'' جُب حزن (غم کی وادی) سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگو، صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول ! جُب حزن کیاچیز ہے؟ آپ نے فرمایا:'' جہنم کی ایک وادی ہے جس سے جہنم بھی ہرروز سو مرتبہ پناہ مانگتی ہے، پھر صحابہ نے عرض کیا : اللہ کے رسول! اس میں کون لوگ داخل ہوں گے؟ آپ نے فرمایا:'' ریاکار قراء (اس میں داخل ہوں گے)''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
49-بَاب عَمَلِ السِّرِّ
۴۹-باب: چھپاکرنیک عمل کرنے کا بیان​


2384- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، حَدَّثَنَا أَبُو سِنَانٍ الشَّيْبَانِيُّ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللهِ! الرَّجُلُ يَعْمَلُ الْعَمَلَ فَيُسِرُّهُ فَإِذَا اطُّلِعَ عَلَيْهِ أَعْجَبَهُ ذَلِكَ، قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "لَهُ أَجْرَانِ: أَجْرُ السِّرِّ، وَأَجْرُ الْعَلاَنِيَةِ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَقَدْ رَوَى الأَعْمَشُ وَغَيْرُهُ عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ مُرْسَلاً وَأَصْحَابُ الأَعْمَشِ لَمْ يَذْكُرُوا فِيهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ فَسَّرَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ هَذَا الْحَدِيثَ، فَقَالَ: إِذَا اطُّلِعَ عَلَيْهِ فَأَعْجَبَهُ فَإِنَّمَا مَعْنَاهُ أَنْ يُعْجِبَهُ ثَنَائُ النَّاسِ عَلَيْهِ بِالْخَيْرِ لِقَوْلِ النَّبِيِّ ﷺ: "أَنْتُمْ شُهَدَائُ اللهِ فِي الأَرْضِ" فَيُعْجِبُهُ ثَنَائُ النَّاسِ عَلَيْهِ، لِهَذَا لِمَا يَرْجُو بِثَنَائِ النَّاسِ عَلَيْهِ، فَأَمَّا إِذَا أَعْجَبَهُ لِيَعْلَمَ النَّاسُ مِنْهُ الْخَيْرَ لِيُكْرَمَ عَلَى ذَلِكَ وَيُعَظَّمَ عَلَيْهِ فَهَذَا رِيَائٌ.
وَ قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: إِذَا اطُّلِعَ عَلَيْهِ فَأَعْجَبَهُ رَجَاءَ أَنْ يَعْمَلَ بِعَمَلِهِ، فَيَكُونُ لَهُ مِثْلُ أُجُورِهِمْ فَهَذَا لَهُ مَذْهَبٌ أَيْضًا.
* تخريج: ق/الزہد ۲۵ (۴۲۲۶) (تحفۃ الأشراف: ۱۲۳۱۱) (ضعیف)
(سندمیں سعید بن سنان حافظہ کے کمزور ہیں، اس لیے مرسل روایت کو مرفوع ومتصل بنادیا ہے، تفصیل کے لیے دیکھیے : الضعیفۃ رقم: ۴۳۴۴)
۲۳۸۴- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے عرض کیا : اللہ کے رسول !آدمی نیک عمل کرتاہے پھر اسے چھپاتاہے لیکن جب لوگوں کو اس کی اطلاع ہوجاتی ہے تووہ اسے پسند کرتا ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :'' اس کے لیے دواجر ہیں ایک نیکی کے چھپانے کا اور دوسرا اس کے ظاہر ہوجانے کا ''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن غریب ہے۔۲- اعمش وغیرہ نے اس حدیث کو ''عن حبيب بن أبي ثابت، عن أبي صالح، عن النبي ﷺ'' کی سندسے مرسلاً روایت کیا ہے، اور اعمش کے شاگردوں نے اس میں ''عن أبي هريرة'' کا ذکر نہیں کیا ، ۳- بعض اہل علم نے اس حدیث کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا : اس کے نیک عمل کے ظاہر ہوجانے پرلوگوں کے پسند کرنے کامطلب یہ ہے کہ لوگوں کی تعریف اور ثناء خیر کو وہ پسند کرتاہے اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ ''تم لوگ زمین پر اللہ کے گواہ ہو'' ،یقینا اسے لوگوں کی تعریف پسند آتی ہے کیونکہ اسے لوگوں کی تعریف سے آخرت کے خیرکی امید ہوتی ہے، البتہ اگر کوئی لوگوں کے جان جانے پر اس لیے خوش ہوتا ہے کہ اس کے نیک عمل کو جان کر لوگ اس کی تعظیم وتکریم کریں گے تو یہ ریاء ونمود میں داخل ہوجائے گا، ۴- اور بعض اہل علم نے اس کی تفسیر یہ کی ہے کہ لوگوں کے جان جانے پر وہ اس لیے خوش ہوتاہے کہ نیک عمل میں لوگ اس کی اقتدا کریں گے اور اسے بھی ان کے اعمال میں اجر ملے گا تو یہ خوشی بھی مناسب ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
50-بَاب مَا جَاءَ أَنَّ الْمَرْئَ مَعَ مَنْ أَحَبَّ
۵۰-باب: انجام کارآدمی اپنے دوست کے ساتھ ہوگا​


2385- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ أَنَّهُ قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللهِ ﷺ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ! مَتَى قِيَامُ السَّاعَةِ؟ فَقَامَ النَّبِيُّ ﷺ إِلَى الصَّلاَةِ، فَلَمَّا قَضَى صَلاَتَهُ قَالَ: "أَيْنَ السَّائِلُ عَنْ قِيَامِ السَّاعَةِ" فَقَالَ الرَّجُلُ: أَنَا، يَارَسُولَ اللهِ! قَالَ: "مَا أَعْدَدْتَ لَهَا؟" قَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ! مَا أَعْدَدْتُ لَهَا كَبِيرَ صَلاَةٍ وَلاَصَوْمٍ إِلاَّ أَنِّي أُحِبُّ اللهَ وَرَسُولَهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "الْمَرْئُ مَعَ مَنْ أَحَبَّ، وَأَنْتَ مَعَ مَنْ أَحْبَبْتَ"، فَمَا رَأَيْتُ فَرِحَ الْمُسْلِمُونَ بَعْدَ الإِسْلاَمِ فَرَحَهُمْ بِهَذَا.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/فضائل الصحابۃ ۶ (۳۶۸۸)، والأدب ۹۵ (۶۱۶۷)، و ۹۶ (۶۱۷۱)، والأحکام ۱۰ (۷۱۵۳)، م/البر والصلۃ ۵۰ (۳۶۳۹) (تحفۃ الأشراف: ۵۸۵)، وحم (۳/۱۰۴، ۱۱۰، ۱۵۹، ۱۶۵، ۱۶۷، ۱۶۸، ۱۷۳، ۱۷۸، ۱۹۲، ۱۹۸، ۲۰۰) (صحیح)
۲۳۸۵- انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : ایک آدمی نے رسول اکرمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا: اللہ کے رسول !قیامت کب آئے گی ؟ نبی اکرمﷺ صلاۃ پڑھنے کے لیے کھڑے ہوگئے، پھرجب صلاۃ سے فارغ ہوئے توفرمایا:'' قیامت کے بارے میں سوال کرنے والا کہاں ہے؟'' اس آدمی نے کہا: میں موجودہوں اللہ کے رسول ! آپ نے فرمایا:'' قیامت کے لیے تم نے کیا تیاری کررکھی ہے''، اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے کوئی زیادہ صوم وصلاۃ اکٹھانہیں کی ہے (یعنی نوافل وغیرہ) مگر یہ بات ہے کہ میں اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتاہوں، تو رسول اللہ ﷺنے فرمایا:'' آدمی اس کے ساتھ ہوگاجس سے محبت کرتاہے، اور تم بھی اسی کے ساتھ ہوگے جس سے محبت کرتے ہو۔ انس کابیان ہے کہ اسلام لانے کے بعد میں نے مسلمانوں کو اتنا خوش ہوتے نہیں دیکھا جتنا آپ کے اس قول سے وہ سب خوش نظر آرہے تھے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے۔


2386- حَدَّثَنَا أَبُو هِشَامٍ الرِّفَاعِيُّ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ، عَنْ أَشْعَثَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "الْمَرْئُ مَعَ مَنْ أَحَبَّ وَلَهُ مَا اكْتَسَبَ".
وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَعَبْدِاللهِ بْنِ مَسْعُودٍ وَصَفْوَانَ بْنِ عَسَّالٍ وَأَبِي هُرَيْرَةَ وَأَبِي مُوسَى.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ الْحَسَنِ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ.
* تخريج: انظر ماقبلہ (تحفۃ الأشراف: ۵۳۰) (صحیح)
(''أنت مع من أحببت ولک ما اکتسبت'' کے سیاق سے صحیح ہے)
۲۳۸۶- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' ہر آدمی اسی کے ساتھ ہوگا جس سے وہ محبت کرتاہے اور اسے وہی بدلہ ملے گا جو کچھ اس نے کمایا''۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن بصری کی روایت سے حسن غریب ہے، اور حسن بصری نے انس بن مالک سے اورانس بن مالک نبی اکرمﷺسے روایت کرتے ہیں،۲- یہ حدیث نبی اکرمﷺسے دوسری سندوں سے بھی مروی ہے،۳- اس باب میں علی، عبداللہ بن مسعود، صفوان بن عسال، ابوہریرہ اور ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔


2387- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ عَسَّالٍ، قَالَ: جَاءَ أَعْرَابِيٌّ جَهْوَرِيُّ الصَّوْتِ، قَالَ: يَا مُحَمَّدُ! الرَّجُلُ يُحِبُّ الْقَوْمَ وَلَمَّا يَلْحَقْ بِهِمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "الْمَرْئُ مَعَ مَنْ أَحَبَّ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۴۹۵۲) (حسن)
2387/م- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ زِرٍّ، عَنْ صَفْوَانَ ابْنِ عَسَّالٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَ حَدِيثِ مَحْمُودٍ.
* تخريج: انظر ماقبلہ (حسن)
۲۳۸۷- صفوان بن عسال رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ایک دیہاتی جس کی آواز بہت بھاری تھی رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا : اے محمد! ایک آدمی قوم سے محبت کرتاہے البتہ وہ ان سے عمل میں پیچھے ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' آدمی اسی کے ساتھ ہوگا جس سے وہ محبت کرتاہے''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
۲۳۸۷/م- اس سند سے بھی صفوان بن عسال رضی اللہ عنہ سے محمود بن غیلان کی حدیث جیسی حدیث مروی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
51-بَاب مَا جَاءَ فِي حُسْنِ الظَّنِّ بِاللَّهِ
۵۱-باب: اللہ کے ساتھ حسن ظن رکھنے کابیان​


2388- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ بُرْقَانَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ الأَصَمِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "إِنَّ اللهَ يَقُولُ: أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي، وَأَنَا مَعَهُ إِذَا دَعَانِي". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: م/الدعاء والذکر ۶ (۲۶۷۵) (تحفۃ الأشراف: ۱۴۸۲۱) (وراجع أیضا: خ/التوحید ۱۵ (۷۴۰۵)، و ۳۵ (۵۵۳۷)، وم/التوبۃ ۱ (۲۶۷۵)، وماعند المؤلف في الدعوات برقم ۳۶۰۳)، وق/الأدب ۵۸ (۳۸۲۲)، وحم (۲/۲۵۱)، ۳۹۱، ۴۱۳، ۴۴۵، ۴۸۰، ۴۸۲، ۵۱۶) (صحیح)
۲۳۸۸- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' اللہ تعالیٰ فرماتاہے: میں اپنے بندے کے گمان کے مطابق ہوں جیساوہ گمان مجھ سے رکھے، اور میں اس کے ساتھ ہوں جب بھی وہ مجھے پکارتاہے '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث میں اللہ کے ساتھ حسن ظن رکھنے کی ترغیب ہے ، لیکن عمل کے بغیرکسی بھی چیز کی امید نہیں کی جاسکتی ہے ، گویا اللہ کا معاملہ بندوں کے ساتھ ان کے عمل کے مطابق ہوگا ، بندے کا عمل اگر اچھا ہے تو اس کے ساتھ اچھا معاملہ اوربرے عمل کی صورت میں اس کے ساتھ برامعاملہ ہوگا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
52-بَاب مَا جَاءَ فِي الْبِرِّ وَالإِثْمِ
۵۲-باب: نیکی اور بدی کابیان​


2389- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ الْكِنْدِيُّ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ حُبَابٍ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ الْحَضْرَمِيُّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّوَّاسِ بْنِ سَمْعَانَ أَنَّ رَجُلاً سَأَلَ رَسُولَ اللهِ ﷺ عَنِ الْبِرِّ وَالإِثْمِ، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: "الْبِرُّ حُسْنُ الْخُلُقِ، وَالإِثْمُ مَا حَاكَ فِي نَفْسِكَ وَكَرِهْتَ أَنْ يَطَّلِعَ عَلَيْهِ النَّاسُ".
* تخريج: م/البر والصلۃ ۵ (۲۵۵۳) (تحفۃ الأشراف: ۱۱۷۱۲)، وحم (۴/۱۸۲) (صحیح)
2389/م- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ نَحْوَهُ، إِلاَّ أَنَّهُ قَالَ: سَأَلْتُ النَّبِيَّ ﷺ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: انظر ماقبلہ (صحیح)
۲۳۸۹- نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ سے نیکی اور بدی کے بارے میں سوال کیا تو آپﷺ نے فرمایا:''نیکی اچھے اخلاق کا نام ہے اور گناہ وہ ہے جوتمہارے دل میں کھٹک پیداکرے اور لوگوں کا مطلع ہونا تم اس پر ناگوارگزرے '' ۱؎ ۔
۲۳۸۹/م- اس سند سے بھی نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے، لیکن اس میں ''سأل رسول الله ﷺ'' کی بجائے ''سألت رسول الله ﷺ'' ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : اسلام میں اچھے اخلاق کا درجہ بہت اونچاہے ، دوسروں کے کام آنا، ہراچھے کام میں لوگوں کا تعاون کرنا، کسی کوتکلیف نہ پہنچانایہ سب ایسی اخلاقی خوبیاں ہیں جو اسلام کی نظرمیں نیکیاں ہیں،اس حدیث میں گناہ کی دوعلامتیں بیان کی گئی ہیں، ایک علامت یہ ہے کہ گناہ وہ ہے جو انسان کے دل میں کھٹکے اوردوسری علامت یہ ہے کہ دوسروں کے اس سے باخبرہونے کو وہ ناپسندکرے ، گویاانسانی فطرت صحیح بات کی طرف انسان کورہنمائی کرتی ہے ، اوربرائیوں سے روکتی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
53-بَاب مَا جَاءَ فِي الْحُبِّ فِي اللَّهِ
۵۳-باب: اللہ کی خاطر محبت کرنے کابیان​


2390- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا كَثِيرُ بْنُ هِشَامٍ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ بُرْقَانَ، حَدَّثَنَا حَبِيبُ بْنُ أَبِي مَرْزُوقٍ، عَنْ عَطَائِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ، عَنْ أَبِي مُسْلِمٍ الْخَوْلاَنِيِّ، حَدَّثَنِي مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَقُولُ: "قَالَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ: الْمُتَحَابُّونَ فِي جَلاَلِي لَهُمْ مَنَابِرُ مِنْ نُورٍ يَغْبِطُهُمُ النَّبِيُّونَ وَالشُّهَدَائُ". وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي الدَّرْدَائِ وَابْنِ مَسْعُودٍ وَعُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ وَأَبِي هُرَيْرَةَ وَأَبِي مَالِكٍ الأَشْعَرِيِّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو مُسْلِمٍ الْخَوْلاَنِيُّ اسْمُهُ عَبْدُاللهِ بْنُ ثَوْبَ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۱۳۲۵)، وانظر : حم (۵/۲۲۹، ۲۳۹) (صحیح)
۲۳۹۰- معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کوفرماتے ہوئے سنا :'' اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا : میری عظمت وبزرگی کے لیے آپس میں محبت کرنے والوں کے لیے قیامت کے دن نور(روشنی) کے ایسے منبر ہوں گے جن پر انبیاء اور شہداء بھی رشک کریں '' ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابوالدرداء ، ابن مسعود، عبادہ بن صامت ، ابوہریرہ اور ابومالک اشعری رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : مفہوم یہ ہے کہ اللہ کی عظمت وبزرگی کے لیے آپس میں محبت کرنے والوں کا مقام ومرتبہ اس قدراونچاہوگا کہ انبیاء وشہداء باوجویکہ سب سے اونچے مراتب پرفائزہوں گے اگردوسروں کے حال پر قیامت کے دن رشک کرتے تو ایسے لوگوں کے مراتب پرضروررشک کرتے۔


2391- حَدَّثَنَا الأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ خُبَيْبِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ حَفْصِ بْنِ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَوْ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: "سَبْعَةٌ يُظِلُّهُمْ اللهُ فِي ظِلِّهِ يَوْمَ لاَ ظِلَّ إِلاَّ ظِلُّهُ: إِمَامٌ عَادِلٌ، وَشَابٌّ نَشَأَ بِعِبَادَةِ اللهِ، وَرَجُلٌ كَانَ قَلْبُهُ مُعَلَّقًا بِالْمَسْجِدِ إِذَا خَرَجَ مِنْهُ حَتَّى يَعُودَ إِلَيْهِ، وَرَجُلاَنِ تَحَابَّا فِي اللهِ فَاجْتَمَعَا عَلَى ذَلِكَ وَتَفَرَّقَا، وَرَجُلٌ ذَكَرَ اللهَ خَالِيًا فَفَاضَتْ عَيْنَاهُ، وَرَجُلٌ دَعَتْهُ امْرَأَةٌ ذَاتُ حَسَبٍ وَجَمَالٍ فَقَالَ: إِنِّي أَخَافُ اللهَ، وَرَجُلٌ تَصَدَّقَ بِصَدَقَةٍ فَأَخْفَاهَا حَتَّى لاَ تَعْلَمَ شِمَالُهُ مَا تُنْفِقُ يَمِينُهُ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَهَكَذَا رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ مِثْلَ هَذَا، وَشَكَّ فِيهِ، وَقَالَ: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَوْ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ وَعُبَيْدُاللهِ ابْنُ عُمَرَ، رَوَاهُ عَنْ خُبَيْبِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ، وَلَمْ يَشُكَّ فِيهِ يَقُولُ: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ.
* تخريج: خ/الأذان ۳۶ (۶۶۰)، والزکاۃ ۱۶ (۱۴۲۳)، والرقاق ۲۴ (۶۴۷۹)، والحدود ۱۹ (۶۸۰۶)، م/الزکاۃ ۳۰ (۱۰۳۱)، ن/القضاۃ ۲ (۵۳۸۲) (تحفۃ الأشراف: ۱۲۲۶۴، و ۳۹۹۶)، وط/الشعر ۵ (۱۴)، وحم (۲/۴۳۹) (صحیح)
2391/م- حَدَّثَنَا سَوَّارُ بْنُ عَبْدِاللهِ الْعَنْبَرِيُّ وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى قَالاَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ عَنْ عُبَيْدِاللهِ بْنِ عُمَرَ، حَدَّثَنِي خُبَيْبٌ عَنْ حَفْصِ بْنِ عَاصِمٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَ حَدِيثِ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ بِمَعْنَاهُ إِلاَّ أَنَّهُ قَالَ: كَانَ قَلْبُهُ مُعَلَّقًا بِالْمَسَاجِدِ، وَقَالَ: ذَاتُ مَنْصِبٍ وَجَمَالٍ.
* تخريج: انظر ماقبلہ (صحیح)
۲۳۹۱- ابوہریرہ یا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' سات قسم کے لوگ ایسے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ اس دن کہ جب اس کے (عرش کے) سائے کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہوگااپنے عرش کے سائے میں جگہ دے گا: ان میں سے ایک انصاف کرنے والاحکمراں ہے،دوسرا وہ نوجوان ہے جو اللہ کی عبادت میں پلابڑھا ۱؎ ، تیسرا وہ شخص ہے جس کا دل مسجد میں لگا ہواہو ۲؎ چوتھا وہ دو آدمی جنہوں نے صرف اللہ کی رضاکے لیے ایک دوسرے کے ساتھ محبت کی، اسی کے واسطے جمع ہوتے ہیں اور اسی کے واسطے الگ ہوتے ہیں ۳؎ ، پانچواں وہ آدمی جو تنہائی میں اللہ کا ذکر کرے اور عذاب الٰہی کے خوف میں آنسو بہائے، چھٹا وہ آدمی جسے خوبصورت عورت گناہ کی دعوت دے ، لیکن وہ کہے کہ مجھے اللہ کا خوف ہے، ساتواں وہ آدمی جس نے کوئی صدقہ کیاتواسے چھپایایہاں تک کہ اس کے بائیں ہاتھ کو بھی نہ پتہ چلے کہ دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- یہ حدیث امام مالک بن انس سے اس کے علاوہ دوسری سندوں سے بھی اسی کے مثل مروی ہے، ان میں بھی راوی نے شک کا اظہار کیا ہے اور کہاہے ''عن أبي هريرة أو عن أبي سعيد'' اورعبید اللہ بن عمر عمری نے اس حدیث کو خبیب بن عبدالرحمن سے بغیر شک کے روایت کیا ہے ، اس میں انہوں نے صرف ''عن أبي هريرة'' کہا ہے۔
۲۳۹۱/م- اس سند سے بھی اسی جیسی حدیث مروی ہے، اس میں انہوں نے ''مُعَلَّقًا بِالْمَسْجِدِ'' کی بجائے ''مُعَلَّقًا بِالْمَسَاجِدِ''اور''ذَاتُ حَسَبٍ وَجَمَالٍ'' کی بجائے''ذَاتُ مَنْصِبٍ وَجَمَالٍ''کہا۔
وضاحت ۱؎ : یعنی بچپن سے ہی اس کی تربیت اسلامی خطوط پرہوئی اورجوانی کی آنکھیں کھولتے ہی وہ اللہ کی عبادت کوسمجھتاتھا اورپھروہ اس پرکاربندرہا۔
وضاحت ۲؎ : یعنی وہ اس انتظارمیں رہے کہ کب اذان ہواوروہ صلاۃپڑھنے کے لیے مسجدمیں جائے۔
وضاحت ۳؎ : یعنی ان کے اکٹھاہونے اورجداہونے کی بنیاددین ہے ، گویا دین کی پابندی انہیں ایک دوسرے سے وابستہ رکھتی ہے اوردین سے انحراف انہیں باہم جداکردیتاہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
53/م-بَاب مَا جَاءَ فِي إِعْلاَمِ الْحُبِّ
۵۳/م- باب: محبت سے باخبر کرنے کا بیان​


2392- حَدَّثَنَا بُنْدَارٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ، حَدَّثَنَا ثَوْرُ بْنُ يَزِيدَ، عَنْ حَبِيبِ ابْنِ عُبَيْدٍ، عَنِ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِي كَرِبَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "إِذَا أَحَبَّ أَحَدُكُمْ أَخَاهُ فَلْيُعْلِمْهُ إِيَّاهُ". وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ذَرٍّ وَأَنَسٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ الْمِقْدَامِ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، وَالْمِقْدَامُ يُكْنَى أَبَا كَرِيمَةَ.
* تخريج: د/الأدب ۱۲۲ (۵۱۲۴)، ن/عمل الیوم واللیلۃ ۷۸ (۲۰۶) (تحفۃ الأشراف: ۱۱۵۵۲)، وحم (۴/۱۳۰) (صحیح)
۲۳۹۲- مقدام بن معدیکرب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''جب تم میں سے کوئی اپنے کسی مسلمان بھائی سے محبت کرے تو وہ اپنی اس محبت سے آگاہ کردے ' ' ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- مقدام کی حدیث حسن صحیح غریب ہے،۲- اس باب میں ابوذراورانس رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : کیونکہ جب دونوں ایک دوسرے کی محبت سے آگاہ اورباخبرہوجائیں گے تو لازمی طورپر ان میں باہمی محبت پیداہوگی اوردواسلامی بھائیوں کے دلوں سے کدورت واختلاف سے متعلق ساری چیزیں دورہوجائیں گی۔


2392/م- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ وَقُتَيْبَةُ قَالاَ: حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ مُسْلِمٍ الْقَصِيرِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ سَلْمَانَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ نَعَامَةَ الضَّبِّيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "إِذَا آخَى الرَّجُلُ الرَّجُلَ فَلْيَسْأَلْهُ عَنْ اسْمِهِ وَاسْمِ أَبِيهِ، وَمِمَّنْ هُوَ فَإِنَّهُ أَوْصَلُ لِلْمَوَدَّةِ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَلاَ نَعْرِفُ لِيَزِيدَ بْنِ نَعَامَةَ سَمَاعًا مِنَ النَّبِيِّ ﷺ، وَيُرْوَى عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَ هَذَا، وَلاَيَصِحُّ إِسْنَادُهُ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۱۸۳۳) (ضعیف)
(سندمیں یزید بن نعامہ لین الحدیث راوی ہیں، اور تابعی ہیں، اس لیے یہ روایت ضعیف اور مرسل ہے)
۲۳۹۲/م- یزید بن نعامہ ضبی کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جب کوئی شخص کسی سے بھائی چارہ کرے تو اسے چاہیے کہ وہ اس کانام اس کے باپ کانام اور اس کے قبیلے کا نام پوچھ لے کیوں کہ اس سے محبت میں اضافہ ہوتا ہے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث غریب ہے، اسے ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ۲- ہم نہیں جانتے کہ یزید بن نعامہ کاسماع نبی اکرمﷺ سے ثابت ہے،۳- ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بھی نبی اکرمﷺسے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے ، لیکن اس کی سند صحیح نہیں ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
54-بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ الْمِدْحَةِ وَالْمَدَّاحِينَ
۵۴-باب: مداحوں کو ناپسند کرنے اوربے جاتعریف ومدح کی کراہت کابیان​


2393- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ أَبِي مَعْمَرٍ، قَالَ: قَامَ رَجُلٌ فَأَثْنَى عَلَى أَمِيرٍ مِنْ الأُمَرَائِ، فَجَعَلَ الْمِقْدَادُ يَحْثُو فِي وَجْهِهِ التُّرَابَ، وَقَالَ: أَمَرَنَا رَسُولُ اللهِ ﷺ أَنْ نَحْثُوَ فِي وُجُوهِ الْمَدَّاحِينَ التُّرَابَ. وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رَوَى زَائِدَةُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَحَدِيثُ مُجَاهِدٍ عَنْ أَبِي مَعْمَرٍ أَصَحُّ، وَأَبُو مَعْمَرٍ اسْمُهُ عَبْدُ اللهِ بْنُ سَخْبَرَةَ، وَالْمِقْدَادُ بْنُ الأَسْوَدِ هُوَ الْمِقْدَادُ بْنُ عَمْرٍو الْكِنْدِيُّ، وَيُكْنَى أَبَا مَعْبَدٍ، وَإِنَّمَا نُسِبَ إِلَى الأَسْوَدِ بْنِ عَبْدِ يَغُوثَ لأَنَّهُ كَانَ قَدْ تَبَنَّاهُ وَهُوَ صَغِيرٌ.
* تخريج: م/الزہد ۱۴ (۳۰۰۲)، د/الأدب ۱۰ (۴۸۰۴)، ق/الأدب ۳۶ (۳۷۴۲) (تحفۃ الأشراف: ۱۱۵۴۵)، وحم (۶/۵) (صحیح)
۲۳۹۳- ابومعمرعبداللہ بن سخبرہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے کھڑے ہوکرایک امیر کی تعریف شروع کی تو مقداد بن عمروکندی رضی اللہ عنہ اس کے چہرے پرمٹی ڈالنے لگے ، اور کہا: رسول اللہ ﷺ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ تعریف کرنے والوں کے منہ میں مٹی ڈالدیں ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- زائدہ نے یہ حدیث مجاہد سے، مجاہدنے ابن عباس سے روایت کی ہے حالاں کہ مجاہد کی روایت جو ابومعمر سے ہے وہ زیادہ صحیح ہے، ۳- ابومعمر کانام عبداللہ بن سخبرہ ہے اور مقداد بن اسود مقداد بن عمرو الکندی ہیں، جن کی کنیت ابومعبد ہے۔ اسود بن عبد یغوث کی طرف ان کی نسبت اس لیے کی گئی کیوں کہ انہوں نے مقداد کولڑکپن میں اپنا متبنی بیٹا بنالیا تھا،۴- اس باب میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔
وضاحت ۱؎ : مٹی ڈالنے کا حکم شایداس لیے ہے کہ جب کسی کی تعریف اس کے منہ پر کی جائے گی تواس کے اندرکبروغرورپیداہونے کا احتمال ہے اوراپنے عیب کو ہنراوردوسرے مسلمان بھائی کو حقیرسمجھنے کا خدشہ ہے ، اس لیے تعریف کرنے والا کسی کی بے جاتعریف سے اورجس سے مذکورہ خطرہ محسوس ہواپنے آپ کوبچائے کیونکہ اسے محرومی کے سواکچھ حاصل ہونے والانہیں ہے۔


2394- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ سَالِمٍ الْخَيَّاطِ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: أَمَرَنَا رَسُولُ اللهِ ﷺ أَنْ نَحْثُوَ فِي أَفْوَاهِ الْمَدَّاحِينَ ا لتُّرَابَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ أَبِي هُرَيْرَةَ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۲۲۴۹) (صحیح)
( سندمیں حسن بصری کا سماع ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے نہیں ہے ، لیکن سابقہ حدیث سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے)
۲۳۹۴- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم بے جا تعریف کرنے والوں کے منہ میں مٹی ڈال دیں۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت سے غریب ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
55-بَاب مَا جَاءَ فِي صُحْبَةِ الْمُؤْمِنِ
۵۵-باب: مومن کی صحبت اختیارکرنے کابیان​


2395- حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، أَخْبَرَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ حَيْوَةَ بْنِ شُرَيْحٍ، حَدَّثَنِي سَالِمُ ابْنُ غَيْلاَنَ أَنَّ الْوَلِيدَ بْنَ قَيْسٍ التُّجِيبِيَّ، أَخْبَرَهُ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ، قَالَ سَالِمٌ أَوْعَنْ أَبِي الْهَيْثَمِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَقُولُ: "لاَ تُصَاحِبْ إِلا مُؤْمِنًا وَلاَ يَأْكُلْ طَعَامَكَ إِلاَّ تَقِيٌّ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: د/الأدب ۱۹ (۴۸۳۲) (تحفۃ الأشراف: ۴۰۴۹ و ۴۳۹۹)، وحم (۳/۳۸) (حسن)
۲۳۹۵- ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺکو فرماتے ہوئے سنا :'' مومن کے سوا کسی کی صحبت اختیار نہ کرو، اور تمہارا کھانا صرف متقی ہی کھائے '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے ، اسے ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث میں اشارہ اس طرف ہے کہ ایک مسلمان دنیامیں رہتے ہوئے اچھے اورنیک لوگوں کی صحبت اختیارکرے، یہاں تک کہ کھانے کی دعوت دیتے وقت ایسے لوگوں کا انتخاب کرے جومتقی وپرہیزگارہوں، کیونکہ دعوت سے آپسی الفت ومحبت میں اضافہ ہوتاہے اس لیے کوشش یہ ہوکہ الف ومحبت کسی پرہیزگارشخص سے ہو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
56-بَاب مَا جَاءَ فِي الصَّبْرِ عَلَى الْبَلاَئِ
۵۶-باب: مصیبت میں صبر کرنے کابیان​


2396- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ سَعْدِ بْنِ سِنَانٍ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "إِذَا أَرَادَ اللهُ بِعَبْدِهِ الْخَيْرَ عَجَّلَ لَهُ الْعُقُوبَةَ فِي الدُّنْيَا، وَإِذَا أَرَادَ اللهُ بِعَبْدِهِ الشَّرَّ أَمْسَكَ عَنْهُ بِذَنْبِهِ، حَتَّى يُوَافِيَ بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ"، وَبِهَذَا الإِسْنَادِ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "إِنَّ عِظَمَ الْجَزَائِ مَعَ عِظَمِ الْبَلاَئِ، وَإِنَّ اللهَ إِذَا أَحَبَّ قَوْمًا ابْتَلاَهُمْ، فَمَنْ رَضِيَ فَلَهُ الرِّضَا وَمَنْ سَخِطَ فَلَهُ السَّخَطُ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۸۴۹) (حسن صحیح)
2396/أ- وَبِهَذَا الإِسْنَادِ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "إِنَّ عِظَمَ الْجَزَائِ مَعَ عِظَمِ الْبَلاَئِ، وَإِنَّ اللهَ إِذَا أَحَبَّ قَوْمًا ابْتَلاَهُمْ، فَمَنْ رَضِيَ فَلَهُ الرِّضَا، وَمَنْ سَخِطَ فَلَهُ السَّخَطُ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (حسن صحیح)
۲۳۹۶- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' جب اللہ تعالیٰ اپنے کسی بندے کے ساتھ خیر اور بھلائی کا ارادہ کرتاہے تو اسے دنیا ہی میں جلدسزادے دیتا ہے ۱؎ ، اور جب اپنے کسی بندے کے ساتھ شر(برائی) کا ارادہ کرتاہے تو اس کے گناہوں کی سزا کو روکے رکھتاہے۔یہاں تک کہ قیامت کے دن اسے پوری پوری سزاد یتاہے''۔
۲۳۹۶/أ- انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' بڑا ثواب بڑی بلا (آزمائش) کے ساتھ ہے ۔ یقینا اللہ تعالیٰ جب کسی قوم سے محبت کرتاہے تواسے آزماتا ہے پس جو اللہ کی تقدیر پر راضی ہو اس کے لیے اللہ کی رضا ہے اورجو اللہ کی تقدیر سے ناراض ہو تو اللہ بھی اس سے ناراض ہوجاتا ہے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سندسے حسن غریب ہے۔
وضاحت ۱؎ : یعنی اللہ تعالیٰ سے مشکلات سے دوچارکرتاہے ، اورمختلف قسم کی آزمائشوں میں ڈال کراس کا امتحان لیتاہے ، گویا دنیاکی آزمائشیں مومن کے لیے نعمت ہیں ، یہ گناہوں کی بخشش اورثواب میں اضافہ کا باعث ہیں، شرف وفضیلت کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ بندہ ہرآزمائش وتکلیف میں صبرورضاکا پیکرہو۔


2397- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنِ الأَعْمَشِ، قَال: سَمِعْتُ أَبَا وَائِلٍ يَقُولُ: قَالَتْ عَائِشَةُ: مَا رَأَيْتُ الْوَجَعَ عَلَى أَحَدٍ أَشَدَّ مِنْهُ عَلَى رَسُولِ اللهِ ﷺ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/المرضی ۳ (۵۶۴۶) (تحفۃ الأشراف: ۱۶۱۵۵) (صحیح)
۲۳۹۷- ابووائل شقیق بن سلمہ کہتے ہیں کہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کے درد سے زیادہ درد کسی شخص کا نہیں دیکھا ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : اس سے اس تکلیف کی طرف اشارہ ہے جس سے مرض الموت میں آپ ﷺدوچارہوئے تھے۔


2398- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ بَهْدَلَةَ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ! أَيُّ النَّاسِ أَشَدُّ بَلاَئً؟ قَالَ: "الأَنْبِيَائُ، ثُمَّ الأَمْثَلُ فَالأَمْثَلُ، فَيُبْتَلَى الرَّجُلُ عَلَى حَسَبِ دِينِهِ، فَإِنْ كَانَ دِينُهُ صُلْبًا اشْتَدَّ بَلاَؤُهُ، وَإِنْ كَانَ فِي دِينِهِ رِقَّةٌ ابْتُلِيَ عَلَى حَسَبِ دِينِهِ، فَمَا يَبْرَحُ الْبَلاَئُ بِالْعَبْدِ حَتَّى يَتْرُكَهُ يَمْشِي عَلَى الأَرْضِ مَاعَلَيْهِ خَطِيئَةٌ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَأُخْتِ حُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ سُئِلَ أَيُّ النَّاسِ أَشَدُّ بَلاَئً؟ قَالَ: "الأَنْبِيَائُ، ثُمَّ الأَمْثَلُ فَالأَمْثَلُ".
* تخريج: ق/الفتن ۲۳ (۴۰۲۳) (تحفۃ الأشراف: ۳۹۳۴)، ودي/الرقاق ۶۷ (۲۸۲۵)، وحم (۱/۱۷۲، ۱۷۴، ۱۸۰، ۱۸۵) (حسن صحیح)
۲۳۹۸- سعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ! سب سے زیادہ مصیبت کس پر آتی ہے؟ آپ نے فرمایا:''انبیاء ورسل پر ، پھر جوان کے بعدمرتبہ میں ہیں، پھر جو ان کے بعدہیں،بندے کی آزمائش اس کے دین کے مطابق ہوتی ہے ، اگربندہ اپنے دین میں سخت ہے تو اس کی مصیبت بھی سخت ہوتی ہے اور اگر وہ اپنے دین میں نرم ہوتاہے تو اس کے دین کے مطابق مصیبت بھی ہوتی ہے،پھر مصیبت بندے کے ساتھ ہمیشہ رہتی ہے، یہاں تک کہ بندہ روئے زمین پراس حال میںچلتاہے کہ اس پر کو ئی گناہ نہیں ہوتا ''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ اس باب میں ابوہریرہ اور حذیفہ بن یمان کی بہن فاطمہ رضی اللہ عنہم سے بھی روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ سے سوال کیاگیا کہ مصیبتیں کس پر زیادہ آتی ہیں؟ تو آپ ﷺنے فرمایا:'' انبیاء ورسل پر پھر جوان کے بعدمرتبہ میں ہیں پھر جوان کے بعدمیں ہوں '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : معلوم ہواکہ جوبندہ اپنے ایمان میں جس قدرمضبوط ہوگا اسی قدراس کی ابتلاء وآزمائش بھی ہوگی ، لیکن اس ابتلاء وآزمائش میں اس کے لیے ایک بھلائی کابھی پہلوہے کہ اس سے اس کے گناہ معاف ہوتے رہیں گے، اوربندہ اللہ سے اس حال میں ملے گا کہ اس پر کوئی گناہ نہیں ہوگا۔


2399- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِالأَعْلَى، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "مَا يَزَالُ الْبَلاَئُ بِالْمُؤْمِنِ وَالْمُؤْمِنَةِ فِي نَفْسِهِ وَوَلَدِهِ وَمَالِهِ حَتَّى يَلْقَى اللهَ وَمَا عَلَيْهِ خَطِيئَةٌ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۵۱۱۴) (حسن صحیح)
۲۳۹۹- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:'' مومن مرد اور مومن عورت کی جان ، اولاد ، اور مال میں آزمائشیں آتی رہتی ہیں یہاں تک کہ جب وہ مرنے کے بعد اللہ سے ملاقات کرتے ہیں تو ان پرکوئی گناہ نہیں ہوتا '' ۱ ؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہواکہ مومن ہمیشہ آزمائش سے دوچاررہے گا، لیکن یہ آزمائشیں اس کے لیے اس کے گناہوں کا کفارہ بنتی رہیں گی ، بشرطیکہ وہ صبرکادامن پکڑے رہے اورایمان پرمضبوطی سے قائم رہے۔
 
Top